Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ

پچھلے دونوں ابواب پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں ناظرین کو ان تنقیحات کی طرف دوبارہ توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہوں‘ جو میں نے اس سلسلہ کے تمہیدی مباحث میں قائم کی تھیں۔ ان تنقیحات میں سے اولین تنقیح یہ تھی‘ کہ :
’’ہمیںجنگِ آزادی میںشریک ہونے سے پہلے یہ دریافت کرنا چاہیے‘ کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے طریقہ کون سا اختیار کیا جا رہا ہے۔ اگر تحقیق سے معلوم ہو‘ کہ حصول آزادی کا وہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے‘ جو ہماری تہذیب اور ہمارے نظامِ اجتماعی کے اصولوں سے متصادم ہوتا ہو، تو ہم اس کے ساتھ تعاون نہیں کر سکتے‘‘۔
اس تنقیح کو پیشِ نظر رکھ کر دیکھیے کہ کانگریس کے مسلم اور غیر مسلم لیڈروں اور کارکنوںکی جو تحریریں پچھلے دو ابواب میں نقل کی گئی ہیں اس سے حصول آزادی کے کس راستے کا نشان ملتا ہے۔
اسلامی قومیّت اور تہذیب پر حملہ
ان کے نزدیک ہندستان کو آزاد کرانے کے لیے ضروری ہے‘ کہ اس ملک کی تمام قومیّتوں اور قومی امتیازات کو مٹا کر پوری آبادی کو ایک قوم بنا دیا جائے۔
اس غرض کے لیے وہ سب سے پہلے اسلامی قومیّت پر حملہ کرتے ہیں کیونکہ جب تک مسلمانوںکے ذہن میںیہ خیال موجود ہے‘ کہ پیروان اسلام ایک قوم ہیں‘ اور منکرین اسلام دوسری قوم، اس وقت تک آٹھ کروڑ کی اس عظیم الشان آبادی کا ہندستانی قومیّت میں تحلیل ہو جانا محال ہے۔ اسی لیے تمام قوم پرست یک زبان ہو کر کہتے ہیں کہ’’مسلمان‘‘ کسی قوم کا نام نہیں ہے‘ اور اسی لیے ان کی تعلیم یہ ہے‘ کہ ہندستان کے مسلمان اپنے آپ کو ’’مسلم‘‘ کہنے کے بجائے ’’ہندی‘‘ کہیں۔
ان کا دوسرا حملہ اسلامی تہذیب و تمدّن پر ہے۔ ہندستان کی آبادی ایک قوم نہیں بن سکتی جب تک کہ سب ایک تہذیب اور ایک تمدّن نہ اختیار کر لیں۔ عقائد، جذبات و احساسات، لباس، طرز زندگی، زبان، ادب اور قوانینِ معاشرت و تمدّن کے لحاظ سے جب تک مسلمانوں میں یک جہتی باقی ہے اس وقت تک بہرحال وہ اپنے آپ کو ایک قوم ہی سمجھتے رہیں گے‘ اور جب تک ان امور میں وہ ہندستان کے دوسرے باشندوں سے مختلف ہیں، اس وقت تک بہرحال ان کا قومی تشخص دوسروں سے الگ ہی رہے گا۔ اس علیحدگی کو مٹانے کے لیے مسلمانوں میں پورے زور شور کے ساتھ یہ تبلیغ کی جا رہی ہے‘ کہ ان کی نہ کوئی خاص تہذیب ہے‘ اور نہ کوئی مخصوص تمدّن ’’زمانے کے شدید انقلاب انگیز تقاضوں‘‘ سے جو تہذیب پیدا ہو رہی ہے‘ اور ہندستان کے دوسرے باشندوں میں جو تمدّن نشوونما پا رہا ہے، اسے ان کو بے تکلف قبول کرنا چاہیے تاکہ وہ سب کے ساتھ ہمرنگ ہو جائیں۔
اسلام کے نظامِ اجتماعی پر حملہ
ان کا تیسرا حملہ اسلام کے نظامِ اجتماعی پر ہے۔ مسلمانوں میں اشتراکیت کی تبلیغ جو کی جا رہی ہے اس کا مقصد دراصل یہی ہے‘ کہ صرف اسی ذریعہ سے اسلامی سوسائٹی کے نظام کو پارہ پارہ کیا جا سکتا ہے‘ اور مسلمانوں کی جماعت کے افراد کو ایک دوسرے سے الگ کرکے فرداً فرداً غیر مسلم آبادی میں جذب کرنے کے لیے اس کے سوا کوئی دوسری تدبیر نہیںہے۔ کانگریس کے متعلق یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے‘ کہ اس کا نصب العین اشتراکی نہیںہے۔نہ وہ سرمایہ داروں سے بگاڑنا چاہتی ہے نہ سرمایہ داری نظام کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ نہ اس سماجی (تمدّنی)انقلاب کی حامی ہے‘ جس کا ذکر پنڈت جواہر لال اور بابو سوبھاش چندر بوس بار بار کیا کرتے ہیں۔
ہری پورہ کانگریس میں جواہر لال کے سامنے اور سوباش چندر بوس کی صدارت میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نے سوشلسٹ جماعت کو بری طرح ڈانٹا تھا‘ اور یہ الفاظ کہے تھے کہ:
تم کانگریس میں دستِ راست اور دست چپ کی جماعتیں پیدا کرنے کے ذمّہ دار ہو، حالانکہ کانگریس ہمیشہ سے ایک وحدت رہی ہے۔ ہم برابر دو سال سے تمہارے وجود کو برداشت کر رہے ہیں، مگر وقت آرہا ہے‘ جب ہم تمہیں برداشت نہ کر سکیں گے۔
(ٹائمز آٔف انڈیا مورخہ ۲۲ فروری ۱۹۳۸ء)
اس زجرو توبیخ پر ہندستانی اشتراکیت کے ان دونوں اُقنوموں{ FR 2939 } میں سے ایک نے بھی دم نہ مارا۔ کانپور، احمد آباد اور دوسرے مقامات پر مزدوروں کا سر خود کانگریسی وزارتیںہی کچلتی رہی ہیں۔ مدارس اور صوبہ سرحد اور دوسرے صوبوں میں جہاں کہیں اشتراکیوں نے چادر سے پاؤں نکالا، وہاں کانگریسی حکومتوں ہی نے اس کی سرکوبی کی ہے۔ ابھی چند ہی روز ہوئے ہیں‘ کہ حکومت مدارس نے اشتراکیت کی تبلیغ کے خلاف ایک کمیونکے شائع کیا ہے‘ جس میں وہ لکھتی ہے‘ کہ :
چند پمفلٹ جو ہندستان کی کمیونسٹ پارٹی کی طرف سے شائع کیے جا رہے ہیں، حال میں حکومت کے ہاتھ آئے ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ یہ پارٹی حد سے گزرتی جا رہی ہے‘ اور اس ملک میں ابتری پھیلانا چاہتی ہے۔اس لیے حکومت اپنا فرض سمجھتی ہے‘ کہ پبلک کو اس سے متنبہ کر دے تاکہ عام باشندگانِ ملک نادانستگی میں ایسی تحریک سے متاثر نہ ہو جائیں جس کا فلسفہ اور طریقِ کار بالکلیہ اس ملک کی تہذیب اور روایات کے خلاف ہے۔
اس کے بعد اس کمیونکے میں اشتراکی پمفلٹوں کا خلاصہ دیا گیا ہے‘ جس کے یہ الفاظ خاص طور پر غور طلب ہیں:
محنت کش طبقوں کی انقلابی فوج، یعنی ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی اس ملک میں طبقہ وارانہ جنگ برپا کرے گی‘ اور قومی انقلابی ہڑتال کا اعلان کرے گی۔ کاریگر اپنے اوزار رکھ دیں گے۔ دماغی کام کرنے و الے دفتروں سے نکل آئیں گے۔طلبہ مدرسوں سے سڑکوں پرآجائیں گے۔ کسان مال گزاری اور لگان دینے سے انکار کر دیں گے۔ ریلیں کھڑی ہو جائیں گی۔ کارخانے اور مل اور بجلی گھر بند ہو جائیں گے…
(ملاحظہ ہو اخبار ہریجن مورخہ ۲۰؍ اگست ۱۹۳۷ء)
یہ ٹھیک وہی خیالات ہیں جوکانگریس سکریٹریسٹ کے دفتر سے منظر رضوی صاحب شائع کر چکے ہیں۔ مگر یہ عجیب بات ہے‘ کہ جب یہ خیالات مسلمانوں میں پھیلائے جاتے ہیں‘ تو ان کو جائز رکھا جاتا ہے، اور جب حقیقت میں ملک کے اندر اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے اس کی اشاعت کی جاتی ہے‘ تو کانگریسی حکومت ان کو ہندستان کی تہذیب اور روایات کے منافی قرار دیتی ہے‘ اور ان کے خلاف تنبیہی کمیونکے نشر کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ا س سے صاف ظاہر ہے‘ کہ اشتراکیت فی الواقع کانگریس کی سرکاری پالیسی نہیںہے۔ بلکہ خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں میںاس مسلک کو صرف اس غرض سے پھیلایا جا رہا ہے‘ کہ اصلاحی سوسائٹی کو درہم برہم کرنے کی اس کے سوا کوئی تدبیر نہیں۔ حال میں بنگال کے کانگریسی مسلمانوں کا اجتماع بابو سوباش چندر بوس کے زیر صدارت منعقد ہوا تھا۔ زیر بحث یہ سوال تھا‘ کہ عامۂ مسلمین میںکانگریس کے خیالات اور اصول کامیابی کے ساتھ کس طرح پھیلائے جا سکتے ہیں‘ اور جو مشکلات اس راہ میں حائل ہیںانکا حل کیا ہے۔ طویل بحث و تمحیص کے بعد جو بات باتفاق طے ہوئی وہ یہ تھی‘ کہ:
مسلمانوں میںکانگریس کو مقبول بنانے کے لیے ایک معاشی پروگرام پیش کرنا ناگزیر ہے۔ اور پروگرام ایسا ہونا چاہیے‘ جو محنت پیشہ عوام کو اپیل کر سکے۔
(نیشنل کال، مورخہ ۱۳ اگست ۱۹۳۸ء)
معاشی پروگرام کے لفظ کو خاص طور پر نوٹ کیجئے۔اس چھوٹے سے مرکّب لفظ میں وہ تمام معانی بھرے ہوئے ہیں جنکی تشریح آپ پنڈت جواہر لال نہرو اور منظر رضوی اور کامریڈ احمد دین صاحبان کی زبانوں سے سن چکے ہیں۔ یہ لوگ خوب جانتے ہیں‘ کہ عام مسلمان خواہ کتنے ہی جاہل ہوں، مگر پھر بھی انہیں اسلام سے گہری محبت و عقیدت ہے، اور کوئی شخص اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر ان سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم اسلام چھوڑ دو۔ اس لیے ان میں علانیہ الحاد و بے دینی کی تبلیغ کرنا کسی طرح ممکن نہیں۔ البتہ اگر ان کے سامنے ’’روٹی‘‘ پیش کی جائے‘ اور اس میں بے دینی کو لپیٹ کر رکھ دیا جائے‘ تو یہ بھوک کے مارے ہوئے غریب لوگ لپک کر اسے لے لیں گے‘ اور بے تکلف حلق کے نیچے اتار جائیں گے۔ ادھر سے مطمئن ہو جانے کے بعد پھر وہ ہر زہر کو خوشی سے ہضم کر سکتے ہیں۔
یہی کچھ سمجھ کر یہ لوگ خستہ حال مسلمانوں کے دلوں پر قبضہ کرنے کے لیے پیٹ کی طرف سے راستہ پیدا کر رہے ہیں‘ جو بھوکے آدمی کے جسم کا سب سے زیادہ نازک حصہ ہوتا ہے۔ یہ ان سے کہتے ہیں‘ کہ ’’آؤ ہم وہ طریقہ بتائیںجس سے امیری اور غریبی مرتی ہے‘ اور آسودہ حالی آتی ہے‘‘۔ پھر جب بیچارہ بھوکا مسلمان دو روٹیوں کی اُمید پر ان کی طرف دوڑتا ہے‘ تو یہ اسے خدا پرستی کے بجائے شکم پرستی کے مذہب کی تلقین کرتے ہیں‘ اور اس سے کہتے ہیں‘ کہ ’’غریب اور مفلس کا کوئی مذہب اور کوئی تمدّن نہیں۔ اس کاسب سے بڑا مذہب روٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس کا سب سے بڑا تمدّن ایک پھٹا پرانا کرتہ ہے۔ اس کا سب سے بڑا ایمان اس موجودہ افلاس اور نکبت سے چھٹکارا پا لینا ہے‘‘۔ مذہب اشراکیت کا یہ ابتدائی سبق جس آن اس بیچارے جاہل مسلمان کو دیا جاتا ہے، اسی آن اسے یہ پٹی بھی پڑھائی جاتی ہے‘ کہ ’’مذہب اور عقائد کو ان باتوں سے کیا خطرہ؟ کیا تعلق؟مذہب تو ہمیشہ، اگر اس میں اخلاقی اور روحانی طاقت رہی ہے، زندہ تابندہ اور پائندہ ہی رہا ہے‘‘۔ اور پھر مزید ضمانت کے طور پر اس سے یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے‘ کہ ’’بھائی مذہب کی سب سے بڑی فکر توفقیہوں اور محدثوں ہی کو ہو سکتی ہے، سو دیکھ لو کہ یہ فقیہ اور محدث اور علماء ہمارے ساتھ ہیں‘‘
روٹی کو دین اور روٹی ہی کو ایمان قرار دینے کے بعد آگے بڑھتے ہیں‘ اور ان پڑھ مفلس مسلمان سے کہتے ہیں‘ کہ دیکھو میاں، تمہارے اصلی بھائی وہ غیر مسلم عوام ہیںجو تمہاری ہی طرح بھوک اور افلاس میں مبتلا ہیں۔تمہیںجو کچھ ملے گا انہی کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے سے ملے گا۔ اور تمہارے اصلی دشمن وہ مسلمان ہیںجو کسی زمین یا مکان یا کارخانے کے مالک ہیںیا جن کے پاس تم سے زیادہ وسائلِ معیشت موجود ہیں۔تمہیں جو کچھ مل سکتا ہے، انہی سے لڑ کر مل سکتا ہے۔ پس آؤ اپنے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ مل کر اپنے ان مسلمان دشمنوں سے لڑو۔

کانگریس کے طریق کار کے نتائج
اس تبلیغ کا نتیجہ کیا ہو گا؟ اس کا پہلا نتیجہ یہ ہو گا کہ جوں جوں یہ خیالات عام مسلمانوں کے دلوںمیں گھر کریں گے، اسلامی سوسائٹی پارہ پارہ ہوتی چلی جائیگی۔ اسلام میں سوسائٹی کا نظام دین کی وحدت پر قائم ہے۔ تمام وہ لوگ جو توحید اور رسالتِ محمدی کے قائل ہیں، ایک ہی ہیئت ِاجتماعی میں شامل ہو جاتے ہیں۔ خواہ ان میں سے ایک عثمان غنیؓ کی طرح سرمایہ دار ہو‘ اور دوسرا ابو ذر غفاریؓ کی طرح قلانچ اسی دینی وحدت کی بنا پر ان میں نماز کی جماعت سے لے کر شادی بیاہ تک ہر قسم کے معاشرتی اور تمدّنی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ اور انہی تعلقات سے یہ سب مل کر ایک سوسائٹی بناتے ہیں۔ اس کے برعکس اشتراکی تبلیغ ان کو معاشی حیثیت سے الگ الگ طبقوں میںتقسیم کرتی ہے‘ اور ان کو یہ سکھاتی ہے‘ کہ ایک معاشی طبقہ کا مسلمان دوسرے معاشی طبقہ کے مسلمان سے لڑے اور اس کو اپنا دشمن سمجھے۔ ظاہر ہے‘ کہ اس کے بعد یہ ایک سوسائٹی کے ممبر نہیں رہ سکتے طبقہ وارانہ جنگ ان کے درمیان صرف معاشرتی تعلقات ہی کو منقطع نہ کرے گی بلکہ خالص دینی حرکت و عمل میں بھی ان کا آپس میں ملنا غیر ممکن ہو جائے گا۔یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں کہ جن کے درمیان روٹی کی جنگ چھڑ گئی ہو وہ ایک دوسرے کے ساتھ مسجدوں میں جمع ہوں یا وہ مال دار مسلمان اپنے اس غریب مسلمان بھائی کو زکوٰۃ دے جس کے متعلق اسے یقین ہے‘ کہ وہ اس کا گھر لوٹنے کی فکر میں لگا ہوا ہے۔ا سی طرح یہ بھی ناممکن ہے‘ کہ جو لوگ معاشی اغراض کے لیے ایک دوسرے کے دشمن بن چکے ہوں‘ اور جن کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض اور حسد کی آگ بھڑک چکی ہو وہ ایک دوسرے کو اپنا بھائی سمجھیں اور ان کے درمیان انما المومنون اخوۃ کا رشتہ قائم رہ جائے۔
اس کا دوسرا نتیجہ یہ ہو گا کہ مسلمانوں کے عوام مذہب سے قطعی بیگانہ ہوتے چلے جائیں گے۔ معاشی طبقات کی جنگ عامہ مسلمین کو صرف بڑے تعلقہ داروں اور جاگیرداروں اور لکھ پتیوں ہی سے الگ نہ کرے گی بلکہ متوسط طبقہ کے ان تمام مسلمانوں سے بھی کاٹ دے گی‘ جو نسبتاً خوش حال ہیں۔ منظر رضوی صاحب کے اپنے اندازے کے مطابق متوسط طبقہ کے مسلمان تقریباً ایک کروڑ ہیں‘ اور عام مفلس مسلمان سات کروڑ۔ طبقہ واری جنگ کے معنی ان ایک کروڑ مسلمانوں سے سات کروڑ مسلمانوں کے بر سر پیکار ہو جانے کے ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے‘ کہ اپنے دین کا علم، اپنی تہذیب کا شعور، احکام شرعیہ کی واقفیت، جو کچھ بھی ہے اسی تعلیم یافتہ متوسط طبقہ ہی میںپائی جاتی ہے۔ یہی طبقہ اس ملک میں اسلامی تہذیب کو کسی نہ کسی حد تک سنبھالے ہوئے ہے۔ عوام انہی سے دین سیکھتے ہیں، انہی سے احکام معلوم کرتے ہیں، اور انہی کے اثر سے تھوڑے یا بہت اسلامی نظام تہذیب و تمدّن کی گرفت میں رہتے ہیں۔جب طبقہ واری جنگ کی بدولت سات کروڑ عام مسلمان ان ایک کروڑ متوسط طبقہ کے مسلمانوں سے کٹ کر الگ ہو جائیںگے تو وہ اسلام سے بالکل بے گا نہ ہو کر رہ جائیں گے، خود ان کے پاس کوئی علم نہ ہو گا۔ اور جب متوسط طبقہ کے لوگ ان کو دین کے احکام سنائیں گے‘ تو اشتراکیت کا مبلغ فورا پکار کر کہے گا کہ ہوشیار! پھر وہی مذہب کی افیون تمہیں کھلائی جا رہی ہے، اور پھر اسی ’’منظم مذہب‘‘ کے پھندے میں تم کو پھانسا جا رہا ہے جو’’اندھے یقین اور ترقی دشمنی کا بے دلیل عقیدت اور تعصب کا، تو ہم پرستی اور لوگوں سے فائدہ اٹھانے کا، قائم شدہ حقوق اور مستقل اغراض رکھنے والوں کا حمائتی ہے؟
اس کا آخری اور فیصلہ کن نتیجہ یہ ہو گا کہ عامہ مسلمین جب اسلامی قومیّت کے تخیّل سے خالی الذہن ہو کر فرد فرد بن جائیںگے، اور جب وہ اسلامی تہذیب و تمدّن کو ایک لفظ بے معنی سمجھ کر اس غیر اسلامی تہذیب و تمدّن کو قبول کرتے چلے جائیںگے جو ’’زمانے کے شدید انقلاب انگیز تقاضوں‘‘ سے پیدا ہو رہا ہے، اور جب تعلیم یافتہ متوسط طبقہ کے مسلمانوں سے کٹ کر وہ اپنے معاشی طبقہ کے غیر مسلموں میں جا ملیں گے‘ تو خود بخود ان کو شدّھی ہو جائے گی‘ اور وہ آہستہ آہستہ غیر اسلامی قومیّت میں اس طرح جذب ہو جائیں گے جیسے نمک کی ڈلی پانی میں گھل گھل کر آخر کار غائب ہو جاتی ہے، رہے متوسط طبقہ کے مٹھی بھر مسلمان جو اسلام کے خلاف کسی سماجی اور معاشی نظام کو قبول کرنے سے انکار کریں گے‘ تو ان کے حق میں پنڈت جواہر لال نے پہلے ہی فیصلہ کر دیا ہے‘ کہ جو ’’سیاسی یا تمدّنی ادارے ا س تبدیلی کی راہ میںحائل ہوں انہیں مٹا دینا چاہیے‘‘ اور یہ کہ ’’اکثریت نظام تمدّن کو بدلنے کی خواہش مند ہو تو ضروری نہیںکہ اقلیت کو اس پر راضی کرنے کی کوشش کی جائے بلکہ اس پر مؤثر دباؤڈالنا چاہیے، اور جبرو تشدد سے کام لینا چاہیے‘‘۔ اور یہ کہ ’’جمہوری حکومت کے معنی ہی یہ ہیں‘ کہ اکثریت، اقلیت کو ڈرا کر اور دھمکا کر اپنے قابو میں رکھے‘‘
یہ ہے وہ راستہ جو آزادی حاصل کرنے کے لیے قوم پرستوںنے تجویز کیا ہے‘ اور جس پر وہ عملاً چل رہے ہیں۔ ان کے نزدیک آزادی حاصل نہیںہو سکتی جب تک کہ ملک کی پوری آبادی کو ایک قوم نہ بنا دیا جائے، اور ملک کی پوری آبادی کو ایک قوم نہیںبنایا جا سکتا جب تک کہ مسلمان قوم کا وجود کلیۃً ہندستانی قومیّت میں تحلیل نہ ہو جائے۔لامحالہ اس سے نتیجہ یہ نکلا کہ حصول آزادی کے اس طریقہ کو اختیار کرنے سے مسلمان قوم پہلے ختم ہو گی‘ اور آزادی اس کے بعد حاصل ہو گی۔اب میں علمائے دین اور مفتیان اُمت سے اور ہر اس مسلمان سے جو اسلام اور قوم پرستی کا بیک وقت دم بھرتا ہے، دریافت کرتاہوںکہ کیا اسلام اور یہ قوم پرستی صریحا ایک دوسرے کی ضد نہیںہیں؟ اور کیا اس طریقہ سے آزادی حاصل کرنا، قرآن،حدیث، عقل، غرض کسی چیز کی رُو سے بھی مسلمانوں کا فرض ہے؟ بلکہ فرض کیا معنی میںپوچھتا ہوں کہ آزادی کے لیے قومی خود کشی کا یہ طریقہ اختیار کرنا کسی مسلمان کے لیے جائز بھی ہے؟ اور کیا اس طریقہ سے آزادی کی جنگ لڑنے والوںکے ساتھ موالات کرنا صریح تعلیمات قرآنی کے خلاف نہیں ہے؟
میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں‘ اور اب پھر کہتا ہوں کہ یہ تحریک قطعی طور پر ’’شدھی‘‘ کی تحریک ہے۔اس میں اور شردھا نند والی شدھی میں حقیقت اور نتیجہ کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ مسلمان جب اسلام سے منحرف اور اسلامی جماعت سے خارج ہو گیا‘ تو خواہ وہ ہندو مت میں جائے یا بے مت ہو جائے، دونوں صورتیں یکساں ہیں۔ البتہ دونوں شدھیوںمیں فرق صرف یہ ہے‘ کہ ایک کھلی ہوئی شدھی تھی، اور دوسری دامِ ہمرنگ زمین کا حکم رکھتی ہے۔اس کے ساتھ کوئی مسلمان تعاون کا نام بھی نہ لے سکتا تھا، اور اس کی فوج میں فقیہ اور محدث اور مفسر تک سر گرم عمل نظر آرہے ہیں۔ اس لحاظ سے یہ تحریک اپنی پیش رو تحریک سے ہزار درجہ زیادہ خطرناک ہے۔
پھر جیساکہ میں پہلے کہہ چکا ہوں، اس طریقہ سے جو آزادی حاصل ہو گی وہ ان آٹھ کروڑ یا سات کروڑ جسموںکے لیے تو آزادی ہو سکتی ہے‘ جو مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں۔ مگر اس قوم کے لیے آزادی نہیں ہو سکتی‘ جو ’’مسلمان‘‘ ہے۔ مسلمانوں کے لیے مسلمان ہونے کی حیثیت سے وہ آزادی نہ ہو گی بلکہ ان کی قومیّت، ان کی تہذیب اور ان کے نظامِ اجتماعی کی کامل بربادی‘ اور اس کام کی تکمیل ہو گی جس کو انگریزی امپیریل ازم نے ڈیڑھ سو برس پہلے شروع کیا تھا۔ حقیقت میں یہ ایک ایسا حربہ ہے جو انگریزی سلطنت سے پہلے اسلام پر حملہ کرتا ہے‘ اور اس سے پہلے اس کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ میں تصوّر نہیں کر سکتا کہ کوئی صاحب عقل مسلمان جو مسلمان رہنا چاہتا ہو اس حربے کو خود اپنے دین اور اپنی قوم پر چلانے میں کسی طرح حصہ لے سکتا ہے۔
طرفہ ماجرا یہ ہے‘ کہ وہی جواہرلال اور وہی ان کے قوم پرست ساتھی جنہوں نے حصول آزادی کے اس طریقہ کو کھلم کھلا اختیار کیا ہے، ہم مسلمانوں کو آزادی کی مخالفت اور سامراج پرستی کا طعنہ بھی دے رہے ہیں کیونکہ ہم اپنی قبر کھودنے میں ان کا ہاتھ بٹانے سے انکار کرتے ہیں۔ حالانکہ درحقیقت آزادی کے دشمن اور سامراج پرستی کے مجرم وہ خود ہیں۔ انہوں نے خود ہی آزادی حاصل کرنے اور سامراج سے لڑنے کا وہ طریقہ اختیار کیا ہے‘ جس کوہندستان کی ۴/۱ آبادی کسی طرح قبول کر ہی نہیں سکتی۔ اس غلط اور احمقانہ طریقہ سے وہ خود ملک کی آزادی کو دورپھینک رہے ہیں‘ اور سامراج کی مدد کر رہے ہیں۔ اور پھر طعنہ ہم کو دیتے ہیں‘ کہ تم آزادی کی جنگ سے الگ رہ کر بر طانوی سامراج کو مدد دے رہے ہو، اگر ان کے پاس عقل ہے‘ تو انہیں سمجھنا چاہیے‘ کہ کوئی جماعت اپنے جماعتی وجود کو فنا کرنے کے لیے آزادی نہیں چاہا کرتی اور نہیں چاہ سکتی۔ آزادی کی ضرورت قومی زندگی کے لیے ہوتی ہے نہ کہ قومی موت کے لیے۔ لہٰذا آزادی کی خاطر ہر چیز قربان کی جا سکتی ہے‘ مگر قومی زندگی قربان نہیں کی جا سکتی۔ تم جب کسی قوم کے سامنے آزادی کا وہ راستہ پیش کرتے ہو‘ جس میں اس کی قومیّت کی موت ہو تو اس کے معنی یہ ہیں‘ کہ تم خود اس کو مجبور کر رہے ہو‘ کہ وہ تمہاری تحریک آزادی سے لڑے۔ اس کا یہ لڑنا عین مقتضائے فطرت ہے۔ خواہ دنیا کی کوئی قوم بھی ہو،ا یسی حالت میں بہرحال لڑے گی۔اور اگر اس لڑنے کا یہ نتیجہ ہو‘ کہ بیرونی اقتدار کو اس سے فائدہ پہنچے تو اس کی کچھ پرواہ نہ کرے گی۔اس لیے کہ بیرونی اقتدار کا نقصان بھی زیادہ سے زیادہ وہی ہو سکتا ہے‘ جو اس نام نہاد تحریک آزادی کا ہے۔ یعنی اس کی قومیّت کی موت، پھر ایک موت اور دوسری موت میں آخر وجہ ترجیح کیا ہے؟

خ خ خ

شیئر کریں