Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی

پنڈت جواہر لال کے جو خیالات گزشتہ صفحات میں پیش کئے گئے ہیں ان کو محض ایک شخص کے ذاتی خیالات سمجھ کر سرسری طور پر نظر انداز کر دینا صحیح نہیں ہے۔اوّل تو یہ اس شخص کے خیالات ہیں‘ جو گاندھی جی کے بعد کانگریس میں سب سے زیادہ با اثر ہے‘ اوردومرتبہ کانگریس کا صدر رہ چکا ہے۔ دوسرے یہ کہ جواہر لال کے بعد انہی کے ہم خیال بلکہ ان سے زیادہ سخت خیالات رکھنے والے شخص، سوباش چندر بوس کا صدر منتخب ہونا اس امر کی کھلی ہوئی دلیل ہے‘ کہ کانگریس پر ان خیالات کا پورا غلبہ ہے۔ان سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے‘ کہ اب یہ خیالات لیڈروں کے ذاتی خیالات نہیں رہے ہیں‘ بلکہ درحقیقت کانگریس کی سرکاری پالیسی کی حیثیت اختیارکر چکے ہیں۔ کانگریس نے مارچ ۱۹۳۷ء کے بعد جمہور مسلمین کے ساتھ ربط قائم کرنے کی جو تحریک (muslim mass contact) کے نام سے شروع کی ہے وہ ٹھیک ٹھیک انہی راستوں پرچل رہی ہے‘ جو پنڈت جی نے تجویز کئے ہیں۔پورا غیرمسلم پریس جو کانگریس کے زیرِ اثر ہے۔ مسلمانوں میںاسلامی قومیّت اور اسلامی تہذیب کے خلاف بغاوت پھیلانے میںلگا ہوا ہے۔ جس گوشے سے اس بغاوت کا کوئی اثر ظاہرہوتا ہے، اس کا بڑے جوش کے ساتھ خیر مقدّم کیا جاتا ہے‘ اور ہر اس آواز کو جو اسلامی شعور کے تحت کسی مسلمان کی زبان سے بلند ہوتی ہے۔ ’’فرقہ پرستی‘‘ اور’’رجعت پسندی‘‘ کے آوازے کس کر دبا دیا جاتا ہے۔
اس طرزِعمل کی توضیح کے لیے میں صرف دو مثالیں پیش کروں گا‘ جن سے اس تحریک کے رجحانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
پچھلے سال لکھنؤ یونی ورسٹی کے ایک مسلمان نژاد طالب علم نے بر ملا اعلان کیا تھا‘ کہ میں مسلمان نہیں ہوں۔مسلمانوںنے اس پر اعتراض کیا کہ جو شخص خود اسلام سے منکر ہے وہ کسی انتخاب میں مسلمان ہونے کی حیثیت سے اُمیدوار بننے کا حق دار کیسے ہو سکتا ہے۔ اس واقعہ پر اظہار رائے کرتے ہوئے ایک کانگریسی اخبار (ہندوستان ٹائمز) لکھتا ہے :
اگر ووٹروںکی فہرست میں نام درج ہونے اور انتخابات کے لیے بحیثیت اُمیدوار کھڑے ہونے سے پہلے لوگوں کے عقائد کی تحقیقات شروع ہو گئی‘ تو ہمارا موجودہ انتشار و اختلال اورزیادہ پریشان کن ہو جائے گا۔ اس سے تو یہ بات بالکل عیاں ہو گئی کہ ہمارا یہ سارا انتخابی نظام جس کو ہمارے آقاؤں نے اس قدر کامل غور و فکر کے بعد مرتب کیا ہے، اس وقت بے کار ہو کر رہ جائے گا جب کہ لوگ صرف ہندو یا مسلمان نہ رہیں گے بلکہ فردا فرداً اپنے مخصوص عقائد اور شبہات پیدا کر لیں گے۔مسٹر نقوی کو مستبقل کے لیے ایک فال نیک سمجھنا چاہیے‘ اور کیا خبر کہ وہ آنے والی صبح صادق کے ایک پیغمبر ہوں۔
آگے چل کر اس مضمون میں انگلستان کے ان ملاحدہ کو مثالاً پیش کیا گیا ہے، جنہوں نے حریّت فکر کا علم بلند کیا تھا‘ اور اپنی مذہب پرست قوم کے ہاتھوں تکلیفیں اٹھائی تھیں مثلاً چارلس بریڈلا، مارلے اور رابرٹ انگرسول۔ پھر اسلام سے بغاوت کرنے والے اس نوجوان کو ان ’’بہادروں کی صف میں جگہ دے کر اس کی ہمت و جرأت پر تحسین و آفرین کے پھول برسائے گئے ہیں۔
ایک دوسرا کانگریسی اخبار (تیج) اپنی ۱۴؍اگست ۱۹۳۷ء کی اشاعت میںایک مسلمان عورت کا خط شائع کرتا ہے‘ جس کے الفاظ حسب ذیل ہیں:
جب میرٹھ میںپوجیہ پنڈت جواہر لال نہرو تشریف لائے تو میں اپنے خاوند سے چھپ کر جلسہ دیکھنے گئی۔ اس وقت سے میرا دل بے چین رہنے لگا۔ میں نے اپنے مکان پر قومی جھنڈا لگا دیا۔ لیکن جب میرے خاوند نے اسے پھاڑ ڈالا تو میں نے سارا دن نہ کھانا کھایا اور نہ رات کو سوئی بلکہ تمام رات اور دن برابر روتی رہی۔ جب میرے خاوند نے میرے پیارے پنڈت جواہر لال کو گالیاں دینی شروع کیں تو میں نے کہا اگر ان کی شان میں کچھ کہا تو جان کھو دوں گی۔ چنانچہ میں اسی دن سے لڑ کر اپنے باپ کے گھر چلی آئی ہوں۔ اب جب تک میرا خاوند معافی نہ مانگے گا، اپنے مکان پر کانگریس کا جھنڈا نہ لگائے گا، اور کانگریس کا ممبر نہ بنے گا میںاس کی شکل بھی نہ دیکھوں گی۔
ایڈیٹر صاحب ! میں نے پچاس مسلمان عورتیں تیار کر رکھی ہیںجو پردے کو چھوڑکر ہر وقت کانگریس کا کام کرنے کو تیار ہیں۔ مگر ہمارے گھر والے ہم کو تنگ کر تے ہیں۔ اب آپ بتائیں میں کیا کروں؟ اور ہمارے پوجیہ پنڈت جواہر لال سے کہیے کہ ہم مسلمان عورتیںکیا کریں‘‘؟
بہت ممکن ہے‘ کہ یہ خط فی الواقع کسی مسلمان عورت کا لکھا ہوا نہ ہو، اور محض ایک جعل ہو۔ لیکن اگر یہ جعل ہے‘ تو یہ اور بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ ’’لشکر ِآزادی’‘‘ کے ان نقیبوں کے مافی الضمیر پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ ’’قوم پرستی‘‘کے یہ علمبردار مسلمان مردوں اور عورتوں کو کیا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ’’آزادی کی فوج‘‘ کے لیے کس قسم کے سپاہی ان کو مسلمانوںمیں درکار ہیں۔ اور کم از کم کس حد تک اصولِ اسلام سے منحرف ہونا ضروری ہے‘ جس کے بعد وہ کسی مسلمان کو ’’قوم پرست‘‘ تسلیم کرتے ہیں۔
یہ بغاوت صرف غیر مسلموں ہی کی زبان و قلم کے ذریعہ سے نہیں پھیلائی جا رہی ہے‘ بلکہ خود مسلمان بھی اس کی اشاعت کے لیے آلۂ کار بنائے جا رہے ہیں۔ مسلمان لیڈر، مسلمان اہلِ قلم اور مسلمان رسائل و جرائد انہی تمام خیالات کو مسلمانوں میں پھیلانے کا وسیلہ بن گئے ہیں‘ اور بنتے جا رہے ہیں‘ جو پنڈت جواہر لال نہرو کی زبان سے آپ سن چکے ہیں۔اور یہ بالکل ظاہر ہے‘ کہ مسلمانوں کو بہکانے کے لیے غیر مسلموںکی بہ نسبت خود مسلمان زیادہ کار گر ذریعہ بن سکتے ہیں۔اس کے لیے آپ کو جتنی مثالوںکی ضرورت ہو میں پیش کر سکتا ہوں۔ مگر یہاں صرف ان حضرات کی تحریروں سے استناد کروں گا، جو کانگریس میںکوئی نہ کوئی ’’سرکاری‘‘ ذمّہ دار حیثیت رکھتے ہیں۔
بہار کے مشہور کانگریسی لیڈر ڈاکٹر سیّد محمود صاحب، جو آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سیکرٹری رہ چکے ہیں‘ اور اس وقت صوبہ بہار کی وزارت میںواحد مسلمان وزیر ہیں، اپنے ایک مضمون میں فرماتے ہیں:
مختصر یہ کہ اخلاقی، سیاسی اور دوسرے تمام حکیمانہ تصوّرات کوقطعیت اور عملیت کا جامہ پہنا کر مسلمانوں کے تخیل کو عمل کا آئینہ بنا دیا۔ بعض نے اپنے ولولہ و جوش سے مجبور ہو کر ہندوستان میں متحدہ قومیّت کی آفرنیش کے پیشِ نظر ایک ایسے جدید نظام مذہبی کی نشوونما کرنی چاہی جو ہندستان میں سب کے مناسب حال ہو۔ یہ ان لوگوں کی معمولی خدمات نہیں کہی جا سکتیں، اجنبی تھے، لیکن انہوں نے جلد ہی اپنی قسمتوں کو اہلِ ملک کے ساتھ ہمیشہ کے لیے وابستہ کر لیا۔ (جامعہ اکتوبر ۱۹۳۶ء)
آپ سمجھے کہ یہ ’’جدید نظام مذہبی‘‘ کا اشارہ کس چیز کی طرف ہے؟ یہ اشارہ اکبر کے دینِ الٰہی کی طرف ہے۔ کتنا مختصر اشارہ ہے،مگر ’’قوم پرست مسلمان‘‘ مجموعہ ضدین کی معراجِ تخیل کو کتنی صاف روشنی میں پیش کرتا ہے۔ اکبر کا دور اسلامی ہند کی تاریخ میںپہلا دور ہے، جس میں سیاسی اغراض پر مذہب کو قربان کرنے کی ابتداء ہوئی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنے ’’تذکرہ‘‘ میں اس نا مبارک دور کے جو حالات بیان فرمائے ہیں ان کو پڑھیئے تو آپ کو اس کی فتنہ سامانیوںکا اندازہ ہو گا۔ یہ پہلا فتنہ عظیم تھا جس نے پوری طاقت کے ساتھ الحاد و بے دینی پھیلا کر ہندوستان کے مسلمانوں کو وطنی قومیّت میںجذب کرنے کی کوشش کی۔ اس دور کے تمام صلحاء اُمت اس فتنے پر چیخ اٹھے تھے۔ حضرت شیخ احمد مجدد سرہندی رحمۃ اﷲ علیہ نے اسی کے خلاف عَلم جہاد بلند کیا تھا۔ اسی ناپاک دور کے اثرات تھے جنہوںنے داراشکوہ کی صورت میں جنم لیا۔ اسی زہر کو دور کرنے کے لیے عالمگیر پچاس برس جدوجہد کرتا رہا۔ اور یہی زہر آخر کار مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو گھن کی طرح کھا گیا۔ مسلمانوں میں قوم پرستی کی جدید تحریک دراصل اسی پرانی تحریک کی نشاۃ ثانیہ ہے۔ لہٰذا یہ لوگ اس فتنہ عظیم کو فتنے کی حیثیت سے نہیں‘ بلکہ ’’خیر القرون‘‘ کی حیثیت سے دیکھتے ہیں‘ اور وسوسہ (inspiration) حاصل کرنے کے لیے اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک متحدہ قومیّت کی آفرینش کا یہ پہلا تجربہ ہندستانی مسلمان کی ’’خدمات‘‘ میں شمار ہونے کے لائق ہے۔ان کے ذہن میں ’’متحدہ قومیّت‘‘ کا تصوّر یہی ہے‘ کہ ہندستان کے مسلمان اپنی قسمتوں کو اسی طرح اہلِ ملک کے ساتھ ہمیشہ کے لیے وابستہ کر لیں۔ پنڈت جواہر لال بھی اس کے سوا کچھ نہیں چاہتے۔
آگے چل کر ڈاکٹر صاحب اپنے اس مضمون میں فرماتے ہیں :
سوال یہ ہے‘ کہ ہندستان میں آخر ہمارا نصب العین اور مقصد کیا ہے؟ کیا ہم اس سمت میں قدم اٹھانے کو آمادہ ہیں‘ کہ ایک مشترک قومیّت کی معہ تمام لوازم کے تشکیل کریں؟ اگر اس کا جواب نفی میں ہے‘ تو یہ بالکل ظاہر ہے‘ کہ ہندستان صرف ایک جغرافیائی نام ہے‘ جس میں ایک سے زیادہ ’’اقوام‘‘ بستی ہیں۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیںکہ ہر ’’قوم‘‘ علیحدہ علیحدہ اپنے مسائل کو حال کرے اور مشترکہ دولت ہند (common wealth) میں صرف انسانی اور مادّی امداد کیا کرے؟ اگر مسئلہ ہند کا یہی حل ہے‘ تو ہماری اس وقت کی کوششیں اس کے برعکس بالکل ناکام رہی ہیں …
لیکن اگر ہمارے سوال کا جواب اثبات میں ہے‘ اور ہم واقعی یہ چاہتے ہیں‘ کہ ہم اسی راہ پر گامزن ہوںجو اکبر اور دوسرے ازمنہ وسطیٰ کے حکمرانوں نے بنا دی تھی،تب تو ہمیں عزم و استقلال کے ساتھ ہمیشہ نہ صرف اسی راہ پر چلنا چاہیے بلکہ ہمارے پیشوں اور رسوم میں بھی یکسانیت ہونی چاہیے۔ بعض کے نزدیک تو اس حل میں بھی مسلم اقلیت کے لیے ایک مضرت ہے۔ لیکن اس کا کوئی چارہ کار نہیں۔ اب چونکہ کوئی تیسرا حل موجود نہیں ہے اس لیے مسلمانوں کو ملک کی خاطر اور اپنی خاطر اسے قبول کرنا چاہیے۔
یہاں ما فی الضمیر بالکل واضح ہو گیا۔ صوبہ بہار کے چالیس لاکھ مسلمانوں کی قسمتیں جس شخص کے ساتھ وابستہ ہیں، جسے بہار کی وزارت میں ہماری آئندہ نسلوں کی تعلیم کا نگراں بنایا گیا ہے، وہ سرے سے اس تخیل ہی کا مخالف ہے‘ کہ ہندستان میں مسلمانوں کی کوئی مستقل ’’قومیّت‘‘ باقی رہے‘ اور آزاد ہندستان میں ان کو ایک ممتاز اجتماعی وجود کی حیثیت سے اپنے مسائل خود حل کرنے کا موقع حاصل ہو۔ اس کا نصب العین ہمارے نصب العین سے بالکل مختلف اور جواہر لال نہرو کے نصب العین سے بالکل متحد ہے۔ ہم آزادی کے لیے چاہتے ہیں‘ کہ ڈیڑھ سو برس کے غیر مسلم اقتدار نے ہماری قومیّت اور ہماری تہذیب کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کی تلافی کر سکیں۔اور وہ آزادی اس لیے چاہتا ہے‘ کہ اب تک جو نقصان ہمیںپہنچا ہے، آگے چل کر وہ اپنے طبعی نتیجہ کو پہنچ جائے، یعنی ہماری مضمحل شدہ قومیّت ہندستان کی مشترک قومیّت میں جذب ہو جائے، ہماری تہذیب کی کوئی امتیازی شان باقی نہ رہے، ہمارے مختلف پیشوںکے لوگ اپنے اپنے ہم پیشہ غیر مسلموں کے ساتھ گھل مل جائیں‘ اور ان کے درمیان پیشوںکے ساتھ ’’رسوم میںبھی یکسانیت‘‘ پیدا ہو جائے۔ ہندستان کی مختلف قوموں کے لیے لفظ ’’اقوام‘‘ کا استعمال ہی فاضل ڈاکٹر کے نزدیک قابلِ اعتراض ہے۔ وہ ہندستان کو ایک جغرافیائی نام نہیں، بلکہ ایک قومی وحدت بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے نزدیک مسئلہ ہند کا یہ حل بالکل غلط ہے‘ کہ ہر ’’قوم علیحدہ علیحدہ اپنے مسائل کو حل کرے اور مشترکہ دولت ہند میں صرف انسانی اور مادّی امداد کرے‘‘۔ برعکس اس کے صحیح حل یہ ہےکہ ’’مسلمان اسی راستہ پر گامزن ہوں‘ جو اکبر اور از منہ وسطیٰ کے حکمرانوں نے بنا دی تھی، یعنی ہندستان کی کانِ نمک میں نمک بننے کے لیے تیار ہو جائیں۔ اور یہ سب کچھ مسلمانوںکو کیوں کرنا چاہیے؟خدا اور رسولa کی خاطر نہیں، بلکہ ملک کی خاطر اور اپنی خاطر۔ غالباً یہاں ’’اپنے پیٹ کی خاطر‘‘ لکھنے میں ڈاکٹر صاحب کو شرم محسوس ہوئی ہو گی۔ ایں ہم غنیمت است!
کیا جواہر لال نہرو کا تصوّر قومیّت اس سے کچھ بھی مختلف ہے!
مسلمانوںکو اپنے نام ’’مسلم‘‘ پر بڑا فخر ہے۔خدا کا رکھا ہوا نام، اور وہ نام جس سے بڑھ کر عزت و افتخار کا نام آج تک دنیا کی کسی قوم کو نصیب نہیں ہوا، مگر ڈاکٹر سیّد محمود صاحب کے نزدیک اس علیحدہ نام سے مسلمانوں کا موسوم ہونا قابلِ اعتراض ہے۔ ہندو، مسلمان، عیسائی، پارسی اور اس قسم کے دوسرے تمام اسماء ان کے نزدیک محو ہو جانے چاہئیں اور صرف ایک نام ’’ہندی‘‘تمام باشندگانِ ہند کے لیے استعمال ہونا چاہیے تاکہ جُدا گانہ قومیّتوں کا احساس باقی نہ رہے۔فرماتے ہیں :
’’ہندی‘‘ کو زبان کے لیے نہیں‘ بلکہ ’’اہلِ ہند‘‘ کے لیے اختیار کرنا چاہیے۔دنیا بھر میں صرف ہمارا ملک ہی ایک ایسا ملک ہے‘ جس میںلوگ مختلف مذاہب سے شناخت میںآتے ہیں۔ صرف اس کا اظہار ہی ہماری دماغی کیفیت کا آئینہ بن جاتا ہے‘ اور ہمارے متعلق یہ بات ثابت کر دیتا ہے‘ کہ ’’ہم اس براعظم کی علیحدہ علیحدہ مذہبی اقوام ہیں‘‘۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے‘ کہ ہم سب ایک مشترکہ نام اختیار کر لیں۔
’’ہم علیحدہ علیحدہ مذہبی اقوام ہیں‘‘ یہ گویا ہمارے دامن پر ایک شرم ناک دھبا ہے‘ جسے مٹا دینے کی ضرورت ہے! وہ دماغی کیفیت ہی لائق صد شرم و ندامت ہے‘ جس کے تحت دنیا کے اس اکیلے ملک ہندوستان دوزخ نشان کے باشندے مختلف مذاہب سے شناخت میں آتے ہیں! یہ ثابت ہو جانا کہ ہم دور وحشت کی یادگار ہیں‘ اور اس تلخ حقیقت کو شیرینی یا کم از کم فریب شیرینی سے بدل دینے کے لیے اب ناگزیر ہو گیا ہے‘ کہ ہم ان ناموں کو بدل ڈالیں جو ’’علیحدہ مذہبی اقوام ہونے کے احساس کوزندہ رکھتے ہیں‘‘۔ یہ ہیں اس زعیمِ قوم کے خیالات جس کو مولانا ابوالکلام آزاد نے صوبہ بہار کی وزارت میں ۴۰ لاکھ مسلمانوں کی نمائندگی کے لیے منتخب فرمایا ہے۔{ FR 2935 }
یہ تو صرف ایک نظیر تھی۔ کہیں آپ یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ بس ایک ہی نظیرہے۔
آل انڈیا کانگریس کمیٹی نے حال ہی میں ایک مستقل شعبہ اسلامیات قائم کیا ہے، جس کے کارکن مسلمان ہیں‘ اور نشرو اشاعت کے آلۂ کار سب کے سب مسلمان اخبارات ہیں۔مسلمانوںکے لیے کانگریس نے جو بیش بہا خدمات انجام دیں ہیں‘ ان کی فہرست میں اس شعبہ اسلامیات کے قیام کو بھی ایک نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ چنانچہ جمعیت علمائے ہند کا واحد ترجمان ’’الجمعیت‘‘ اس خدمت جلیلہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتاہے :
دور جدید میں مسلمانوں نے شکایت کی کہ کانگریس عام مسلمانوں سے ربط نہیں رکھتی۔ اسلامی جرائد نے اس شکایت کو پیش کیا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے اس کی معقولیت کو تسلیم کیا۔ اور محض مسلمانوں کی دل دہی اور سہولت کار کے لیے آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے ماتحت اسلامیات کا ایک مستقل شعبہ کھول دیا۔ (الجمعیت مورخہ ۵ رمضان ۵۶ھ)
بے چارے ناواقف عوام جب ان الفاظ کو دیکھیں گے‘ تو کہیں گے کہ کیسی مہربان ہے یہ کانگریس۔اس نے آج تک کوئی شعبہ ہندویات و سکھیات و پارسیات نہیں کھولا۔مگر ہماری ’’دلدہی‘‘اس کو یہاں تک منظور ہے‘ کہ خاص ہمارے لیے ایک شعبہ اسلامیات کھول دیا۔ اب ذرا اس شعبہ کی کارگزاری ملاحظہ ہو۔
ڈاکٹر محمد اشرف صاحب (معتمد شعبہ اسلامیات) کا ایک مضمون الجمعیت ہی میں۱۸ رجب ۵۶ھ کی اشاعت میں درج ہوا ہے، اور ادارہ کی جانب سے اس پر کوئی تردیدی نوٹ یا اختلافی اشارہ تک نہیں ہے، اس میں ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں :
ہندستان میں سیاسی یا اقتصادی حالات اس درجہ ترقی کرگئے ہیں‘ اور فضا کا تقاضا اس درجہ شدید انقلاب انگیز ہے‘ کہ رجعت پسندوں اور سامراج پرستوں کی یہ ہمت نہ ہوئی کہ علانیہ کانگریس یا آزادی کی جدوجہد کی مخالف کریں اس لیے ملک کو پیچھے لے جانے والی طاقتیں اور سامراج کی حامی جماعتیں کسی تعصب کی آڑ لیتی ہیں۔ گزشتہ سات آٹھ سال میں جب کبھی سیاسی یا سماجی ترقی کے لیے قدم بڑھایا گیا، ہندو مسلم سوال ضرور چھیڑ دیا گیا۔مجھے یاد ہے‘ کہ جب ابتدائی تعلیم کے متعلق کانگریسیوں نے صوبہ متحدہ کی کونسل میں ایک زمانہ میں سوال چھیڑا، تو رجعت پسند مسلمانوں نے فورا مذہبی تعلیم و تربیت کا سوال شروع کر دیا اور ڈاکٹر ضیاء الدین اور دوسرے لوگ اس موقع پر کونسل چھوڑ کر چل دئیے۔ ساردا ایکٹ کے خلاف ہندو اور مسلمان قدامت پسندوں نے جو ہنگامہ کیا وہ سب کو معلوم ہے۔ ترقی پسندی کی طرح رجعت پسندی بھی ہماری پبلک زندگی کے ہر پہلو پر محاذ قائم کرنا چاہتی ہے‘ اور ظاہر ہے‘ کہ کوئی بوسیدہ خود فنا نہیں ہوتا۔بڑھتی ہوئی سماجی قوتیں جدوجہد کے بعد اسے معزول کر دیتی ہیں۔
غور فرمائیے مسلمان بچوں کے لیے تعلیم کی اسکیم میں مذہبی تعلیم و تربیت کا مطالبہ کرنا رجعت پسندی ہے۔سامراج کی حمایت ہے۔ ملک کو پیچھے لے جانے والی طاقتوں کا کام ہے۔ فضا کا انقلاب انگیز تقاضا اب یہ ہے‘ کہ اس ’’بوسیدہ‘‘ چیز کو بڑھتی ہوئی سماجی قوتیں جدوجہد کے بعد معزول کر دیں۔
آگے چل کر ڈاکٹر صاحب یہ بحث شروع کرتے ہیں‘ کہ کانگریس کی شرکت کے سلسلہ میں مسلمانوںکی تہذیب اور روایات کا سوال جو اٹھایا جا رہا ہے، یہ دراصل ترقی پسند اور انحطاط پذیر قوتوں کی کشمکش کا ایک عکس ہے ’’ترقی پسند‘‘ اور ’’انحطاط پذیر‘‘ ان دو اصطلاحوں کا مفہوم پنڈت جواہر لال اور ان کے ’’شعبہ اسلامیات‘‘ کی لغت میں جو کچھ ہے اس کی تشریح میںبعد میںکروں گا، یہاں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ’’ترقی پسند‘‘ قوتیں اسلامی تہذیب کے سوال کو کس نظر سے دیکھتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
یہ صحیح ہے‘ کہ مسلمان ایک مخصوص تہذیب کے حامل رہے ہیں۔ باوجود اختلافات اور تنوّع کے ان میں ایک قسم کی یگانگت اور یکسانیت پائی گئی ہے، یہ کہنا تو مشکل ہے‘ کہ مسلمانوں کی زبان ایک تھی یا تمدّن کے مظاہر ایک سے تھے، لیکن تاریخی طور پر کسی حد تک یہ صحیح ہے‘ کہ مسلمان حکمران طبقہ کے رجحانات ایک سمت کی طرف دکھائی پڑتے ہیں۔لوگ اسلامی تہذیب پر بحث کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں‘ کہ اس تمدّن اور تہذیب نے ایک خاص ماحول میں تربیت پائی تھی‘ اور بہر صورت مسلمانوںکی حکمران حیثیت سے وابستہ تھی۔ جو لوگ بے صبری کے ساتھ اسلامی تہذیب کی خصوصیات گناتے وقت یہ حدیث سناتے ہیں‘ کہ کلکم راعٍ و کلکم مسئول عن رعیتہٖ، وہ اکثر یہ واقعہ بھول جاتے ہیںکہ یہ حدیث یا اس قسم کے دوسرے اقوال اس زمانہ کے سماجی حالات کا عکس ہیں جب انسانوں کی تقسیم حاکم اور محکوم، راعی اور رعیت میں ہوتی تھی‘ اور مسلمان من حیث القوم حکمران { FR 2936 }تھے … البتہ اسلامی تمدّن اور تہذیب کا مفہوم اس درجہ محدود نہ تھاجیسا کہ آج کل ہو گیا ہے۔ آج اسلامی تہذیب کی زندگی خطرہ میںپڑ جاتی ہے اگر مسلمان بجائے کلاہ اور عمامہ کے گاندھی ٹوپی پہننے لگتے ہیں یا ہندی رسم الخط کے پرچار کے لیے دو چار ہندو اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک خاص قسم کا لباس اگر نہ پہنیے یا اگر فصیح و بلیغ اردو نہ بولیے تو آپ کو تمدّنی حیثیت ہی سے نہیں‘ بلکہ مذہبی حیثیت سے بھی مسلمان رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے‘ کہ معیاری اور ٹکسالی مسلمان صرف وہ خوش نصیب لوگ ہیں‘ جو دہلی اور لکھنؤ کی فضا میں پلے اور بڑھے ہیں۔ (چاہے وہ کائستھ اور کشمیری برہمن ہی کیوں نہ ہوں) یا پھر دیو بند اور فرنگی محل کا لباس پہننے والے علماء کی وضع کے پابند لوگ۔
دیکھئے ! ’’ترقی پسندوں‘‘ کے علم و فضل اور ان کی دانش و بینش کا معیار کس قدر بلند ہے۔ ان کے ارشادات جب ہم پڑھتے ہیں‘ تو بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی آواز کو ایک ریکارڈ میں بھر دیا ہے‘ اور وہی ریکارڈ جگہ جگہ بجتا پھر رہا ہے۔ اپنے شیخ طریقت پنڈت جواہر لال کی طرح یہ لوگ بھی اسلامی تہذیب و تمدّن کے مسئلہ پر اظہار خیال کرکے درحقیقت اپنی بے علمی کا راز فاش کرتے ہیں‘ اور اس سے معلوم ہوتا ہے‘ کہ یہ صرف اسلامی تہذیب و تمدّن ہی سے نابلد نہیں ہیں،بلکہ نفسِ تہذیب و تمدّن کے مفہوم سے ناآشنا ہیں یا اگر نا آشنا نہیں ہیں‘ تو عمداً خلط مبحث کرکے مسلمانوںکو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ تہذیب نام رکھتے ہیں تمدّنی مظاہر کا، حکمران طبقے کے آداب و اطوار کا، لباس کی وضعوں اور کھانوں اور مٹھائیوں کا، موسیقی اور سنگ تراشی اور مصوّری کا، اور اظہار ما فی الضمیر کے وسائل کا۔ پھر ان تمدّنی مظاہر میں گردش ایام کے ساتھ جو تغیّرات رونما ہوتے ہیں ان میں یہ اس حیثیت سے کوئی امتیاز نہیں کرتے کہ کون سے تغیّرات ایک تہذیب کے زیرِ اثر ہوئے اور کون سے دوسری تہذیب کے زیرِ اثر۔ بس سطح پر چند تغیّرات دیکھ کر یہ تقریر شروع کر دیتے ہیں‘ کہ دیکھو، تاریخ کے دوران میں تمہارا تمدّن بار بار بدل چکا ہے۔ا ور جب تمدّن بدلا ہے‘ تو گویا تہذیب بدل گئی ہے۔لہٰذا اسلامی تہذیب و تمدّن کسی متعین حقیقت کا نام نہیں ہے۔جس طرح پہلے تم بہت سے تغیّرات قبول کر چکے ہو اسی طرح اب بھی ان تغیّرات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ جن کا تقاضا، فضا کے انقلاب انگیز حالات یا بالفاظِ دیگر جواہر لال اور ان کی اُمت کے رجحانات کر رہے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ علانیہ ایسی صریح جاہلانہ باتیں لکھنے اور شائع کرنے کی جرأت کیسے کرتے ہیں۔ کیا انہوں نے یہ فرض کر لیا ہے‘ کہ سارا ہندستان بس جہلا ہی سے آباد ہے‘ اور یہاں کوئی پڑھا لکھا آدمی نہیں رہتا؟
اگرچہ یہاں تفصیل کا موقعہ نہیں ہے‘ مگر میں عام ناظرین کی واقفیت کے لیے بطور جملہ معترضہ صرف اتنا عرض کیے دیتا ہوں کہ دراصل تہذیب اس طریقِ فکر، اس نظریہ حیات اور اس معیار امتیاز و انتخاب کا نام ہے‘ جو انسانوں کی کسی معتدبہ جماعت کے دل و دماغ پر حاوی ہو جاتا ہے‘ اور اس کے زیرِ اثر وہ جماعت دنیا میں زندگی بسر کرنے کے مختلف طریقوں سے کسی خاص طریقے کو اختیار کرتی ہے۔ اور تمدّن اس خاص طرز زندگی کا نام ہے‘ جو اس تہذیب کے زیرِ اثر اختیار کیا جائے۔ ہم جس چیز کو اسلامی تہذیب کہتے ہیں وہ لکھنؤ اور دلی کی فصیح و بلیغ اردو اور دیو بند و فرنگی محل کے علما کا لباس نہیں ہے،بلکہ وہ اس ذہنیت، اس طرز خیال اور اس اصولِ حیات پر مشتمل ہے‘ جو قرآن اور سیرت رسولa سے ماخوذ ہیں۔ جب تک کوئی تمدّن اس تہذیب کے حدود کے اندر ہے، وہ اسلامی تمدّن ہے، خواہ اس کی زبان، اس کے لٹریچر، اس کے آداب و اطوار، اس کے کھانوں اور مٹھائیوں، اس کے لباس و طرز معاشرت‘ اس کے فنون لطیفہ میں کتنے ہی تغیّرات واقع ہو جائیں۔ مظاہر کا تغیّر بجائے خود کسی تمدّن کو اسلامی تہذیب کے دائرے سے خارج نہیں کر دیتا۔ البتہ جب وہ اس نوعیت کا تغیّر ہو‘ کہ اسلامی تہذیب کے اصول و قواعد میں اس کے لیے کوئی سند جوا زنہ ہو، تو یقینا وہ تمدّن کو غیر اسلامی تمدّن بنانے کا موجب ہو گا۔ مثال کے طور پر مسلمان مشرق سے لے کر مغرب تک بیسیوں طرح کے لباس پہنتے ہیں، مگر ان سب میں ستر عورت کے انہی حدود کا لحاظ رکھا جاتا ہے‘ جو اسلامی تہذیب نے مقرر کر دیے ہیں۔لہٰذا یہ سب اپنے تنوّعات کے باوجود اسلامی تمدّن ہی کے لباس کہے جائیں گے۔ مگر جب کوئی لباس ان حدود سے قاصر ہو گا‘ تو ہم اسے غیر اسلامی لباس کہیں گے۔ اسی طرح غذا کے متعلق حلال و حرام کے جو حدود اسلامی تہذیب نے مقرر کیے ہیں، ان کے تحت خواہ کتنی ہی انواع و اقسام کے کھانے مسلمانوں کے گھروں میں پکتے ہوں‘ اور تاریخ کے دوران میںان کی نوعیتیں کتنی ہی بدل جائیں‘ اور کھانے کے طریقوں میںکتنا ہی تغیّر رونما ہو جائے، ان سب کو اسلامی تمدّن ہی کے دائرے میں جگہ ملے گی۔ا لبتہ جب مسلمانوں کی غذا حدود حلت سے متجاوز ہو گی‘ تو ہم کہیں گے کہ وہ اسلامی تہذیب و تمدّن سے بغاوت کر رہے ہیں۔ اسی پر زندگی کے تمام معاملات کو قیاس کر لیجئے۔ عرب، ہندستان، ایران، ترکستان اور شمالی افریقہ کے تمدّنوں میںبظاہر خواہ کتنا ہی فرق ہو، بہرحال جب تک ان کے اندر اسلامی تہذیب کی روح موجود ہو گی، اور جب تک یہ شریعت اسلامی کے ضابطہ میں رہیں گے، ان پر یکساں ’’اسلامی تمدّن‘‘ کا اطلاق ہو گا۔ مگر جب یہ کسی دوسری تہذیب کا اثر قبول کریں گے‘ اور ایسی چیزیں اپنے اندر داخل کر لیں گے‘ جو اسلامی تہذیب کی روح یا شریعت اسلام کے خلاف ہوں، تو بلا شبہ یہ کہا جائے گا کہ ان ممالک میں اسلامی تمدّن مسخ ہو رہا ہے۔
اب آپ غور فرمائیں کہ پنڈت جواہر لال اور ان کے یہ مسلمان متبعین اسلامی تہذیب و تمدّن کے مسئلے کو کیسی غلط روشنی میںپیش کر رہے ہیں۔ یہ دنیا کو اور خود ناواقف مسلمانوں کو باور کرانا چاہتے ہیں‘ کہ :
اسلامی تہذیب و تمدّن فی نفسہٖ کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ صدیوںپہلے مغلوں اور پٹھانوں کے دور حکومت میں جو طور طریقے مسلمانوں میں رائج ہو گئے تھے انہی کا نام اسلامی تہذیب و تمدّن رکھ دیا گیا ہے۔آج جو مسلمان اسلامی تہذیب و تمدّن کے تحفظ کا شور مچا رہے ہیں، ان کامقصد محض اس گزرے ہوئے تاریخی دور کی میراث کو اس بدلے ہوئے زمانہ میںجوں کا توںبرقرار رکھنا ہے، اس لیے یہ رجعت پسند اور ترقی دشمن ہیں۔
ایک پوری قوم کے نقطۂ نظر کی اس قدر غلط ترجمانی اور اتنی جسارت کے ساتھ شاید یورپ کے سیاسی بازی گروں سے بھی بن نہ آتی۔ یہ ہمارے ہم وطن اور ہم قوم اس معاملہ میںان سے بھی بازی لے گئے۔
ان کو اگر معلوم نہیں ہے‘ تو ہم انہیں بتانا چاہتے ہیںکہ ہم اس تمدّن کی حفاظت کے لیے نہیں اٹھے ہیںجو کسی زمانہ میں حکمران طبقہ کے رجحانات سے پیدا ہوا تھا۔ بلکہ اس لیے اٹھے ہیںکہ ہماری قوم کا تمدّنی ارتقاء قرآنی تہذیب کے راستہ سے منحرف نہ ہونے پائے۔ ہمیں دلی اور لکھنؤ کی ٹکسالی اردو کو بچانے کی فکر نہیں ہے، بلکہ اس ذہن کو اسلامی ذہن رکھنے کی فکر ہے‘ جس نے اپنی شخصیت ظاہر کرنے کے لیے اس زبان کو وسیلہ بنایا ہے۔ ہم دیو بند اور فرنگی محل کے لباس کو محفوظ رکھنے کے لیے نہیں لڑ رہے ہیں، بلکہ اس لیے لڑنا چاہتے ہیں‘ کہ ہمارے مرد اور ہماری عورتیںاس لباس حیا سے خارج نہ ہو جائیں جو اسلامی تہذیب نے انہیں پہنایا ہے۔ اور اس لڑائی کی ضرورت ہمیں اس لیے پیش آئی ہے‘ کہ ہم ہندوستان کی سیاست پر تم جیسے لوگوں کو غالب آتے دیکھ رہے ہیں‘ جن میں ہماری تہذیب کو سمجھنے کی صلاحیّت نہیں،جن میں اتنی راست بازی و انصاف پسندی نہیں کہ دوسروں کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کی کوشش کریں‘ اور جن میں ان کمزوریوں کے ساتھ ہٹلر اور مسولینی کی فاشستی روح گھس گئی ہے‘ کہ اپنی مرضی کو دوسروں پر مسلط کرنے کے لیے کسی طاقت کے استعمال سے دریغ نہیں کرتے خواہ اس کے استعمال میں صداقت، انسانیت اور اخلاق کو قربان ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
خیر یہ ایک ضمنی بحث تھی۔ یہاں میں صرف یہ بتانا چاہتا تھا‘ کہ کانگریس کا یہ شعبہ اسلامیات جو ہماری ’’دلدہی‘‘ اور ’’سہولت کار‘‘ کے لیے قائم کیا گیا ہے، دراصل کیا خدمات انجام دے رہا ہے۔ اسلامی تہذیب و تمدّن کے متعلق پنڈت جواہر لال نہرو کے جو نظریات آپ پڑھ چکے ہیں، ان کو مسلمان مضمون نگاروں اور مسلمان اخباروںکے ذریعہ سے مسلمانوںکے دلوںمیں اتارنا اس کا مقصد ہے، اور آپ نے دیکھ لیا کہ یہ شعبہ جو ہماری ’’دلدہی‘‘ کے لیے قائم کیا گیا ہے اس مقصد کو کس خوبی کے ساتھ پورا کر رہا ہے۔ وہ ہمیں سمجھا رہا ہے‘ کہ یہ تہذیب جس کی حفاظت کا تم دعویٰ کر رہے ہو، کوئی چیز بھی تو نہیں ہے۔ مسلمان حکمران طبقہ کے رجحانات تھے سو وہ طبقہ ہی ختم ہو گیا۔ ایک خاص ماحول میں اس تہذیب نے تربیت پائی تھی، سو وہ ماحول ہی اب باقی نہیں۔اب لے دے کے تمہاری تہذیب یہ رہ گئی ہے‘ کہ ایک خاص وضع کا لباس پہن لیتے ہو‘ اور ٹکسالی اردو بول لیتے ہو، تو وہ بھی دلی اور لکھنؤ تک محدود ہے‘ اور دلی و لکھنؤ میں بھی وہی کوئی خاص تمہاری چیز نہیں ہے، بلکہ کالئستھ اور کشمیری برہمن بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں۔ کیا اسی مہمل چیز کو تم فضا کے انقلاب انگیز تقاضوں اور سیاسی و اقتصادی حالات کی ترقی کے مقابلہ میں بچانا چاہتے ہو؟ یہ تو عین رجعت پسندی ہے کیونکہ وہ دور گزر چکا جس میںیہ تہذیب پیدا ہوئی تھی۔ اور یہ سامراج پرستی بھی ہے۔ کیونکہ فضا کے انقلاب انگیز تقاضوں کے مقابلہ میں اس بوسیدہ چیز کی حفاظت صرف اسی طرح ہوسکتی ہے‘ کہ تم سامراج کی حمایت کرو اور سامراج تمہاری حمایت کرے! مسلمانوں کو شکایت تھی‘ کہ کانگریس عام مسلمانوں سے ربط نہیں رکھتی۔اس شکایت کی معقولیت تسلیم کر کے کانگریس نے کیسے معقول طریقہ سے اسے دور کیا ہے!
ڈاکٹر اشرف صاحب کا وعظ ابھی ختم نہیں ہوا۔ آگے سنیے !
جاگیرداری اور عہد بادشاہت کے زمانہ میں با عتبار زبان، لباس، تمدّن، بلکہ مذہبی عقائد کے لحاظ سے بھی،مسلمانوں میںکوئی یکسانیت نہ تھی۔ عربی، فارسی،ترکی، تاتاری،چینی سب مسلمانوں کی زبانیں تھیں۔مغربی، مشرقی، ایرانی، رومی، ہندی ہر طرح کے لباس مسلمانوں کے ہر طبقہ میں رائج ہو چکے تھے۔ چنانچہ جب ہمایوں ہندوستان سے جلا وطن ہو کر ایران پہنچا تو شاہِ ایران نے بجائے ایرانی کھانوںکے اپنے مہمان کے لیے خاص طور پر ہندستانی مٹھائیاں اور کھانے تیار کرائے۔عقائد کی یکسانیت کا تو مسلمانوںمیں سرے سے کوئی سوال ہی نہیں،بہتر فرقے ضرب المثل ہیں۔
کچھ غور بھی کیا آپ نے کہ یہ تنوّع کی تمام مثالیں کس مقصد کے لیے پیش کی جا رہی ہیں؟ اس کا مقصد یہ ہے‘ کہ جب اتنی زبانیںبول کر، اتنے مختلف لباس پہن کر، ایران میں ہندستانی مٹھائی کھا کر، بہتر فرقوں میں بٹ کر اور عقائد میںیکسانیت سے محروم ہو کر بھی تم مسلمان رہے ‘تو اب اگر تم گاندھی کیپ اور دھوتی پہن لو، تمہاری عورتیں سماجی خدمت (social service)کے لیے گھروں سے باہر نکل آئیں، تم نئی ’’ہندستانی‘‘ زبان بولنی اور لکھنی شروع کر دو، مخلوط تعلیم گاہوں میں تمہارے لڑکے اور تمہاری لڑکیاں ’’جدید طرزِ تعلیم‘‘ حاصل کرنے لگیں، سیاسی، معاشرتی اور معاشی انقلاب کی جدیدتحریکات تم میں پھیلنے لگیں تو اس میں کون سا مضائقہ ہو جائے گا؟ اسی مقصد کو چھپا کران الفاظ میں ظاہر کیا گیا ہے:
اس عتبار سے آج ہم ایک نئے اور زندہ تمدّن کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ ہماری سیاسی اور سماجی جدوجہد اس نئے تمدّن کا پیش خیمہ ہے۔ ضرورت اس کی ہے‘ کہ ہم اس نئی تاریخی منزل اور اس کے تقاضے سے باخبر ہوں۔
اب آپ کو معلوم ہو گیا کہ یہ ساری دماغ سوزی اس سماجی انقلاب (social revolution) کے لیے مسلمانوں کو تیار کرنے کی خاطر کی گئی ہے‘ جس کا نقشہ پنڈت جواہر لال نہرو کے خیالات میں آپ دیکھ چکے ہیں‘ اور یہ دعوت کس اخبار کے ذریعہ سے پھیلائی جا رہی ہے؟ اس اخبار کے ذریعہ سے جو جمعیت علمائے ہند کا واحدترجمان ہے۔ کیسے صحیح راستہ پر جا رہی ہے ’’یہ آزادی کی فوج‘‘ شردھانند کی شدھی پر شور قیامت برپا تھا۔ جواہر لال نہرو کی شدھی شربت کے گھونٹوں کی طرح اتاری جا رہی ہے۔
’’آزادی کی فوج‘‘ اپنے مسلمان سپاہیوں سے جو خدمت لے رہی ہے ان میں سے دو صاحبوں کے کارنامے آپ نے ملاحظہ فرما لیے۔ ایک صاحب نے اسلامی قومیّت پر تیشہ چلایا۔ دوسرے صاحب نے اسلامی تہذیب پر ضرب لگائی۔اب تیسرے سپاہی کا کارنامہ ملاحظہ ہو۔
اسی ’’شعبہ اسلامیات‘‘ کے ایک ذمّہ دار کارکن منظر رضوی{ FR 2937 }صاحب کا ایک طویل مضمون ’’مسٹر جناح کی کھوکھلی قیادت‘‘ کے عنوان سے اخبار ’’مدینہ‘‘بجنورنے نومبر ۱۹۳۷ء کی کئی اشاعتوں میں درج کیا ہے‘ جس میں وہ فرماتے ہیں :
ہمارا دوسرا حربہ حکومت اور اس کے حاشیہ بردار زمین داروں، تعلق داروں، جاگیرداروں کی مال گزاری اور لگان بند کرنا ہے۔لیکن یاد رہے‘ کہ ان پایوں کو گراتے وقت ایک بہت بڑی کرانتی (انقلاب) مچے گی، بلوے اور فساد ہوں گے۔ اس میںخوں ریزیاں بھی ہوں گی، خون کی ندیاںبہیں گی‘ اور سب کچھ ہو گا۔ اس وقت یہ جتنے زمین دار، سرمایہ دار، پونجی اور کانوں کے مالک، تعلقوں اور جاگیروں کے آقا یہی راجہ محمود آباد، نواب چھتاری،سر سکندر حیات، راجہ نریندر ناتھ، گھنشام داس برلا، بھائی پرمانند، سیٹھ دالمیا جو مسلم ملت اور ہندو جاتی کے نعرے لگائے جاتے ہیں، اپنی اپنی غریب اور دکھی جنتا اور غریب اور فاقہ مست عوام کو چھوڑ کر برٹش سامراج کے ساتھ ہوںگے‘ اور اِن پر گولے اور بم برسائیں گے۔ دوسری طرف غریبوں کی طاقت ہوگی‘ اور ان کی جیون ساتھی کانگریس۔
ہماری آنے والی لڑائی دراصل امیری اور غریبی کی لڑائی ہو گی۔ اس میں ہندستان بھر کے امیر چاہے وہ کسی مذہب اور فرقے کے کیوں نہ ہوں بدیسی سامراج کے ساتھ ہوںگے۔ اور وہ ہم غریبوں اور مفلسوں کو توڑنے اور تباہ کرنے کے لیے ہر ہتھیار کو استعمال کریں گے۔ پھر کسانوں اور مزدوروں کی جاگ سے امیروں کو، راجہ محمود آباد، نواب چھتاری اور سر سکندر جیسے لوگوں کو بہت بڑا خطرہ محسوس ہو رہا ہے۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیںکہ زمانہ پلٹا کھانے کو ہے، دولت اور امیری ہاتھ سے نکلنے کو ہے۔ امیروں کو نیچے آنا ہے، غریبوں کو اوپر جانا ہے۔ان سب باتوں کے ڈر سے ہندو جاتی اور مسلم ملت کے یہ ہندو مسلم نام لیوا اپنے اپنے مذہب کے لوگوں کو سامراج مخالف تحریک سے ہٹا کر رکھنا چاہتے ہیں تاکہ یہ لوگ مل کر آخری لڑائی نہ لڑنے پائیں۔ اس لیے قرآن اور حدیث کی آئتیں اور وید اور شاستر کے اشلوک پڑھے جا رہے ہیں۔
جنگِ آزادی کی نوعیت کو اس طرح واضح کرنے کے بعد فاضل مضمون نگار فرماتے ہیں:
مسٹر جناح نے پکار کہا ’’ہندستان بھر کے مسلمانو مل جاؤ‘‘ سوال یہ ہے‘ کہ ہندستان بھر کا مسلمان آپس میں کیوں ملے؟ اس اتحاد کی ضرورت کیا؟ اس کا مقصد کیا؟ جہاں تک توحید رسالت، مذہبی معتقدات، اور مذہبی حرکت و عمل کا تعلق ہے وہ آپس میں ملے ہوئے ہیں۔بالکل متحد ہیں۔ ان میںکوئی اختلاف نہیں۔ اور مسٹر جناح کو یقین دلاتے ہیںکہ آئندہ بھی کوئی اختلاف نہ ہو گا۔ لیکن سیاسی اور اقتصادی اغراض و مفاد کے لیے مسلمانوں کاآپس میں ملنا نا ممکن ہے۔ وہ ہرگز متحد نہیں ہو سکتے اور نہ ان کو متحد ہونا چاہیے۔مسلمانوںکے اغراض اور فائدے بالکل ایک سے نہیں ہیں۔
ہندستان میں امیر و غریب کے دو طبقے ہیں۔ امیروں کی غرض یہ ہے‘ کہ امیری کے جتنے بھی وسائل ہیں ان پر ان لوگوں کا قبضہ رہے‘ اور غریبوں کی محنت سے وہ فائدہ اٹھاتے رہیں۔ غریبوں کا فائدہ اس میں ہے‘ کہ امیر کے وسیلے ان کے ہاتھ سے چھن جائیں‘ اور ان کا انتظام اس طرح ہو‘ کہ ملک سے غربت دور ہو۔ غربت کے دور کرنے کا سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ دولت کے ان محدود پہلوؤں کو ان کے چنگل سے نکال لیا جائے۔ شخصی ملکیت کو ختم کیا جائے۔ یہ عام اور اصولی بات ہے۔اب ہندستان کے آٹھ کروڑ مسلمانوں کا فائدہ کیا ہے؟ مسلمانوں میں بھی کچھ امیر ہیں‘ اور کچھ غریب، سب کی ایک ہی حالت نہیں ہے۔ مسلمانوں کے تھوڑے سے لوگ امیر ہیں‘ جو زیادہ سے زیادہ ایک کروڑ ہوں گے۔ سات کروڑ مسلمان محنت سے روٹی حاصل کرتے ہیں۔ جب تک پونجی شاہی دولت کی پیداوار اور تقسیم کے طریقوں کو ہم متذکرہ بالا انقلابات سے غارت نہیں کرتے‘ ان کے روزگار کا کوئی انتظام نہیں ہو سکتا۔ اس کیخلاف وہ ایک کروڑ مسلمان بھی ہیں‘ جن کے پاس زمین،جائیداد، کارخانے اور کانیں ہیں۔ان کی جیبوںمیں بڑی بڑی سرکاری ملازمتیں ہیں۔ وہ سکھ اور چین کی زندگی بسر کرتے ہیں‘ اور مزے اڑاتے ہیں۔ اب ان سات کروڑ غریب مسلمانوں کو ایک کروڑ امیر مسلمانوں سے ملنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
خیر تو عام مسلمانوں کے حقوق اور مفاد عام ہندوؤں سے جدا نہیںہیں۔ خود مسلم ملت کے حقوق و مفاد باہم دگر متضاد اور مختلف ہیں۔ ان میں کوئی یگانگت نہیں۔ مختصر یہ کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے بھی ہمارے مفاد آپس ہی میں بالکل مختلف ہیں۔
یہی منظر صاحب اپنے ایک دوسرے مضمون (مدینہ مورخہ ۱۳ دسمبر ۱۹۳۷ء) میں فرماتے ہیں:
غریبوں، مفلسوں اور غلاموںکا کوئی مذہب اور کوئی تمدّن نہیں۔ اس کا سب سے بڑا مذہب روٹی کا ایک ٹکڑا ہے۔ اس کا سب سے بڑا تمدّن ایک پھٹا پرانا کپڑا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ایمان موجودہ افلاس اور نکبت سے چھٹکارا پا لینا ہے۔ وہی روٹی اور کپڑا جس کے لیے وہ چوری کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آج افلاس اور غلامی کی دنیا میں اس کا کوئی مذہب اور کوئی تمدّن نہیں … اس پیٹ کے لیے اسے انقلاب اور کرانتی کرنی پڑے گی۔
چند اور فقرے اسی مضمون کے ملاحظہ ہوں:
اس وقت ہندستان میں دو ہی سوال اس اعتبار سے ہیں۔ سرمایہ داری کا استحصال اور غلامی یا ترقی، اشتراکیت اور آزادی، بیچ کی کوئی راہ نہیں۔ ہمارا کوئی درمیانی مسلک نہیں ہو سکتا۔
اسی ردّعمل کا نتیجہ روس کی نئی حکومت ہے، جو زمین پر ایک جنت ہے۔ وہاں بے روزگاری، بھوک، جہالت اور تنگدستی کام نام نہیں۔
مذہب اور عقائد کو ان باتوں سے کیا خطرہ؟ مذہب تو ہمیشہ اگر اس میں اخلاق اور روحانی طاقت رہی ہے، زندہ، تابندہ اور پائندہ ہی رہا ہے، مذہب کی سب سے بڑی فکر ہمارے فقیہوں اور محدثوںکو ہو سکتی ہے نہ کہ عیاش رئیسوں کو۔ سو ہمارے فقیہہ اور محدث اور علما آج ہی نہیںبلکہ اسی وقت سے، جب سے قومی تحریک کی شروعات ہوئی ہے، ہمارے ساتھ رہے ہیں۔ لیکن آج ہمارا نصب العین مذہبی نہیں ہے، بلکہ محض اقتصادی‘ اور سیاسی ہے۔ ہمیں تو آج کے حالات میں رہ کر، آج کے حالات سے اپنی قیادت قائم کرنی ہے۔ علما کا ایک طبقہ ایک ہی چیز کو حرام قرار دیتا ہے‘ اور دوسرا حلال۔ آج انہی کا ایک طبقہ تحریک کانگریس کو شجر ممنوعہ سمجھتا ہے‘ اور دوسرا خیر و برکت کا مجموعہ۔ اورپھر اس کا کیا یقین ہے‘ کہ جب ہم ایک ہی سماج اور نئے نظام معاش کی تاسیس کرنے لگیں گے، جب ہم شخصی ملکیت کو خارج اور ختم کرکے ملک کی دولت اور اس کی پیداوار کو نئے طریقوں پر تقسیم کرنے لگیں گے، تو اس وقت بھی یہ طبقہ ہمارے ساتھ ہو گا۔{ FR 2938 }
۱۳ دسمبرہی کے ’’مدینہ‘‘ میں پنجاب پراونشل ماس کانٹیکٹ کمیٹی کے سیکرٹری منشی احمد دین صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے‘ جس میں وہ فرماتے ہیں:
ہم تو دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھ چکے ہیں‘ کہ ہندستان کے آنے والے انقلاب میں جو جنگِ آزادی لڑی جائیگی وہ محنت اور سرمایہ، غریب اور امیر، بالفاظِ دیگر ظالم اور مظلوم کی جنگ ہو گی، جس میں ہندو اور مسلمان مظلوم ایک طرف ہوں گے۔ گویا اس لڑائی میں ہندو اور مسلمان عوام دونوں برابر ہوں گے۔ لہٰذا فرقہ وارانہ جنگ، طبقہ وارانہ جنگ میں تبدیل ہو گی۔
ان طویل اقتباسات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے‘ کہ آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی کس وفاداری کے ساتھ اس مشن کو مسلمانوں میںپھیلا رہے ہیں‘ جو ان کے غیر مسلم لیڈروں نے ان کے سپرد کیا ہے۔
خ خ خ

شیئر کریں