Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مقدّمہ
حصہ اوّل : ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ایک تاریخی جائزہ
تقدیم{ FR 2891 }
باب ۱: آنے والا انقلاب اور مسلمان
باب ۲ : حالات کا جائزہ اور آئندہ کے امکانات
باب ۳ : ہمارا سیاسی نصب ُالعین
باب ۴ : راہِ عمل
حصہ دوم : اِصلاح کا راستہ قرآن و سنّت کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے صحیح راہِ عمل
باب ۵ : مسائلِ حاضرہ میں
باب ۶ اسلام … ایک جامع تہذیب دین و دنیا کی علیحدگی کا جاہلی تصوّر اور ہماری قومی سیاست میں اس کے اثرات
باب ۷ : شُبہات اور جوابات
حصہ سوم : کانگریس، متحدہ قومی تحریک اور مسلمان
تقدیم
باب ۸: مسلمانوں کی غلط نمائندگی اوراس کے نتائج
باب ۹: آزادی اور قومی تشخّص
باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات
باب ۱۱ : آزادی کی فوج کے مسلمان سپاہی
باب ۱۲ : حصول آزادی کا طریقہ
باب ۱۳ : جنگ ِ آزادی کا مطمح نظر
باب ۱۴ : قومی، جمہوری، لادینی اسٹیٹ کیا مسلمان اس کو قبول کر سکتے ہیں؟
باب ۱۵: بنیادی حقوق
باب ۱۶ : متحدہ قومیّت اور اسلام
باب ۱۷ : کیا ہندستان کی نجات نیشل ازم میں ہے؟
باب ۱۸ : اسلامی قومیّت کا حقیقی مفہوم 
باب ۱۹ : جنگِ آزادی کی نوعیت
باب ۲۰ : کانگریس اور مسلمان
حصہ چہارم : ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کے حل کی راہیں تین تجاویز
باب ۲۱ : مسلمان کیا کریں؟ تین تجاویز

تحریک آزادی ہند اور مسلمان (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

باب ۱۰ : قوم پرستوں کے نظریات

خوش قسمتی سے ہمارے پاس ایک ایسی کتاب موجود ہے‘ جس میں ہندستان کے بین الاقوامی مسئلے اور اس کے حل، اور ہندستان کی آزاد حکومت کے نقشے اور اس کے طریقِ حصول کے متعلق ’’قوم پرست جماعت‘‘ کے نظریہ کی پوری تشریح مل جاتی ہے۔ یہ کتاب پنڈت جواہر لال نہرو کی تصنیف ہے، جو نہ صرف کانگریس کے صدر رہ چکے ہیں، بلکہ گاندھی جی کے متوقع جانشین سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ آگے چل کر ہم اس قوم پرستی کے تمام اساطین سے استفادہ کرنے والے ہیں، مگر بحث کی ابتداء بھارت بھوشن پنڈت جواہر لال نہرو کے افادات سے کرنا ہر آئینہ مناسب ہے۔
پنڈت جی کو یہ فخر حاصل ہے‘ کہ انہوں نے ہندستان کے بین الاقوامی مسئلہ کا ایک نیا حل دریافت کیا ہے‘ جس کی گہرائیوں تک یا تو ان سے پہلے کے ہندستانی سیاستدانوں کی نظرنہ پہنچی تھی، یا ان میں ایسا انقلابی حل پیش کرنے کی جرأت نہ تھی۔اس حل کی حقیقت کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ان نظریات کا تجزیہ کرنا ضروری ہے‘ جن کو پنڈت جی نے بطور اصول موضوعہ کے تسلیم کر لیا ہے‘ اور پھر انہی پر اس پالیسی کی بنیاد رکھی ہے‘ جسے وہ اس مسئلہ کا صحیح حل سمجھتے ہیں۔ میں ان نظریات کو ترتیب وار بیان کروں گا تاکہ اس پالیسی کی پیدائش اور اس کے ارتقاء کا پورا نقشہ آپ کے سامنے آجائے۔
اصولِ موضوعہ
پنڈت جی کے تصوّر کی ابتداء یہاں سے ہوتی ہے‘ کہ وہ ہندستان کی آبادی کو ایک قوم فرض کرتے ہیں۔ تاریخ یورپ اور سیاسیات یورپ کے مطالعہ سے ان کے ذہن میں قومیّت کا صرف ایک ہی تصوّر پیدا ہوا ہے،ا ور وہ یہ کہ ایک جغرافی رقبہ کی تمام آبادی ایک قوم ہے‘ اور اس کو ایک ہی قوم ہونا چاہیے۔ وہ دیکھتے ہیں‘ کہ فرانس ایک ملک اور ایک قوم ہے، جرمنی ایک ملک اور ایک قوم ہے۔ اٹلی، انگلستان، ہسپانیہ وغیرہ ایک ایک ملک اور ایک ایک قوم ہیں۔ اس مشاہدے کے دوران میں ان کی نظر اس حقیقت کی طرف نہیں جاتی کہ ان میں سے ہر ملک کے باشندے ایک اسپرٹ، ایک قسم کے تمدّن اور کم از کم قریبی دور کی حد تک ایک قسم کی تاریخی روایات کے حامل ہیں، اور وہ تمام عناصر ترکیبی جن سے ایک قومیّت وجود میں آتی ہے ان کے درمیان مشترک ہیں یا واقعات کی رفتار نے ان کو مشترک بنا دیا ہے‘ اور اس اشتراک ہی نے ان کے اندر یہ ہم آہنگی اور یگانگت پیدا کی ہے۔ا ن سب حقیقتوں کو نظر انداز کر کے وہ ایک نہایت سطح بین آدمی کی طرح یہ فرض کر لیتے ہیں‘ کہ ان سب ممالک میں قومیّت کی اساس رشتہ وطنیت کا اشتراک ہے، اور اسی طرح سے ہر خاک وطن کی پیداوار کو ایک ہی قوم ہونا چاہیے، یہی تصویر ہے‘ جس کے تحت ان کے قلم سے یہ الفاظ نکلے ہیں :
ہندستان میں مسلم اقلیت پر زور دینے کا مطلب کیا ہوتا ہے؟ بس یہی کہ ایک قوم کے اندر ایک دوسری قوم موجود ہے‘ جو یکجا نہیں ہے، منتشر ہے،مبہم ہے‘ اور غیر متعین ہے۔ اب سیاسی نقطۂ نظر سے اگر دیکھا جائے‘ تو یہ تخیل بالکل لغو معلوم ہوتا ہے‘ اور معاشی نقطۂ نظر سے یہ بہت دوراز کار ہے‘ اور بد قت قابلِ توجہ کہا جا سکتا ہے، مسلم قومیّت کا ذکر کرنے کے معنی یہ ہیں‘ کہ دنیا میں کوئی قوم ہی نہیں۔ بس مذہبی اخوت کا رشتہ ہی ایک چیز ہے، اس لیے جدید مفہوم میں کوئی قومیّت نشوونما نہ پاسکے۔
(میری کہانی، جلد دوم صفحہ ۳۳۱، مکتبہ جامعہ دہلی)
اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے‘ کہ پنڈت جی کے ذہن میں ہندستانی قومیّت کا تصوّر کیا ہے۔ممکن ہے‘ کہ یہ مطالعہ اور فہم کا قصور ہو، یا ہندستان کو ایک قوم دیکھنے کی آرزو نے ان کے ذہن کو روشن ترین حقائق کے ادراک سے عاجز کر دیا ہو۔ بہرحال یہ واقعہ ہے‘ کہ وہ قوم پرستی اور فرقہ پرستی کے الفاظ کو بالکل حقیقی معنوں میں لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہندستان میں ایک ہی قوم رہتی ہے، اور یہ مسلمان، ہندو، عیسائی وغیرہ محض اس قوم کے فرقے ہیں۔ اسی بنا پر وہ ہندستان کی ان جماعتوں کے اختلافات کو ’’فرقہ وارانہ‘‘ مسئلے سے تعبیر کرتے ہیں، اور یہ بنیادی حقیقت ان کے ذہن کی گرفت میں آتی ہی نہیں کہ یہ مسئلہ دراصل فرقہ وارانہ نہیں‘ بلکہ بین الاقومی ہے۔ آپ چاہیں تو اسے بد قسمتی کہیے اور بہت ہی ناگوار چیز سمجھئے، مگر ہے یہ حقیقت اور اس حقیقت کو نظر انداز کرنے میں پنڈت جی تنہا نہیں ہیں‘ بلکہ تمام ’’قوم پرست‘‘ ان کے شریک حال ہیں۔
تصوّر قومیّت کے بعد دوسرا تصوّر جو صاحب موصوف کے دماغ پر حاوی ہے وہ کارل مارکس کا فلسفہ تاریخ ہے۔ یہاں اس فلسفہ کی تشریح کا موقع نہیں۔ مختصر یہ کہ جس طرح کسی بھوکے سے پوچھا گیا کہ دو اور کتنے ہوتے ہیں‘ تو اس نے کہا تھا‘ کہ چار روٹیاں، اسی طرح معاشی مصائب کے مارے ہوئے اس فلسفی نے بھی دنیا کے تمام مسائل کا مرکز و محور صرف روٹی کے مسئلہ کو قرار دیا ہے۔ تاریخ کے تمام انقلابات میں اس کو معاشی طلب یا بھوک کے سوا کوئی قابلِ توجہ عامل(factor) نظر نہیں آتا۔ اس کے نزدیک جواہر لال نہرو کے الفاظ میں:
دنیا کی ساری تاریخ کا خلاصہ یہ ہے‘ کہ معاشی مفاد ہی وہ قوّت ہے‘ جو جماعتوں اور طبقوں کے سیاسی خیالات کی تشکیل کرتی ہے۔ (صفحہ ۴۵۷)
اگرچہ پنڈت جی بقول خود کسی اذعانی عقیدے (dogma) کے قائل نہیں ہیں۔ مگر مارکس کی اس تعبیرِ تاریخ کو انہوں نے وحی آسمانی کی طرح قبول کیا ہے‘ اور اس کے متعلق وہ فرماتے ہیں‘ کہ ’’اب میرے نزدیک تاریخ کے معنی ہی بدل گئے، مارکس کی تعبیر نے اسے کہیں زیادہ روشن اور واضح کر دیا‘‘۔ (صفحہ ۱۴۱)
اپنے تصوّر قومیّت کے ساتھ اس مارکسی فلسفہ کو ملا کر پنڈت جی یہ نظریہ قائم کرتے ہیں‘ کہ اوّل تو ہندستان کی تمام آبادی ایک قوم ہے۔ پھر اس قوم میں اگر کوئی حقیقی امتیاز و اختلاف ہو سکتا ہے‘ تو وہ صرف معاشی بنیاد ہی پر ہو سکتا ہے۔یہ ہندو اور مسلم اور عیسائی، یعنی مذہب کی بنیاد پر جو اختلافات ہیں، یہ کسی طرح معقول نہیں ہیں۔ اختلاف کی فطری اور معقول بنیاد یہ ہے‘ کہ قوم کے اندر جن کے پاس ایک روٹی ہو وہ سب ایک گروہ ہوں۔ اور جن کے پاس دو روٹیاں ہوں وہ دوسرا گروہ ہوں، وھلَّم جرّا، پھر اگر ان کو لڑنا ہو تو روٹیوں پر لڑیں۔ بلکہ ’’اگر‘‘ کیا معنی، ان کو اسی چیز پر لڑنا چاہیے۔
اسی نظریہ کی بنیاد پر ہندوستان جدید کا یہ لیڈر کہتا ہے :
معاشی نقطۂ نظر سے یہ (یعنی مسلم قومیّت کا تخیل) بہت دور ازکار ہے‘ اور بدّقت قابلِ توجہ کہا جا سکتا ہے۔(صفحہ ۳۳۱)
ایسے لوگ ابھی تک زندہ ہیںجو ہندستان کا ذکر اس طور پر کرتے ہیں گویا وہ ملتوں اور قوموں کے بارے میں گفتگو ہے۔ جدید دنیا میں اس دقیانوسی خیال کی گنجائش نہیں ہے۔ آج جماعتوں اور ملتوں کی بنیاد اقتصادی فوائد پر رکھی جاتی ہے۔
(جواہر لال کا خطبہ صدارت آل انڈیا نیشنل کنونشن منعقدہ مارچ ۱۹۳۷ء)
اس کے بعد یہ سوال سامنے آتا ہے‘ کہ جب سارے ہندستان کی آبادی ایک قوم ہے، اور اس قوم کے درمیان فرقے اور گروہ بننے کی وجہ محض معاشی اغراض ہی ہو سکتی ہیں، تو پھر یہ ہندو مسلم اور دوسرے فرقے پیدا کیسے ہو گئے؟ یہ معاملہ کیا ہے‘ کہ غیر معاشی چیزوں نے ہندوؤں کو ایک ’’فرقہ‘‘ اور مسلمانوں کا دوسرا ’’فرقہ‘‘ بنا دیا اور ان کے درمیان غیر معاشی وجوہ نے اختلاف پیدا کر دئیے؟ یہاں موقع تھا‘ کہ پنڈت جی خود اس نظریہ ہی پر نظر ثانی کرتے جسے انہوں نے مارکس کی ’’وحی‘‘ سے بے سوچے سمجھے اخذ کیا اور اذعانی عقیدے کے طور پر تسلیم کر لیا ہے۔ ان کے سامنے واقعات کی دنیا میں ایک کھلی ہوئی حقیقت موجود تھی‘ جو شہادت دے رہی تھی‘ کہ انسان کے جسم میں صرف معاہدہ ہی ایک عضو رئیس نہیں ہے۔ صرف بھوک ہی وہ چیز نہیں ہے‘ جو اس کی ذہنیت اور اس کے خیالات کی تشکیل کرتی ہو۔ صرف معاشی عامل (economic factgor) ہی ایک عامل نہیں ہے‘ جو انسانوں کو قوموںاور گروہوں کی شکل میں مجتمع کرتا اور ان کے درمیان اختلاف پیدا کرتاہو۔ مگر انہوں نے تمام حقائق سے آنکھیں بند کرکے یہ رائے، عقلی و استدلالی نہیں‘ بلکہ رجحانی و وجدانی رائے قائم کر لی کہ یہ مذہبی تفریق ایک غیر فطری چیز ہے، اور اس مادئہ فاسد یعنی مذہب نے دخل انداز ہو کر ’’ہندستانی قوم‘‘ کو ایک صحیح بنیاد (یعنی روٹی کی بنیاد) کے بجائے، ایک غلط بنیاد (یعنی طرزِخیال اور طریقِ زندگی) کی بنیاد پر متفرق کر دیا ہے۔
اس تصوّر کے زیرِ اثر، جگہ جگہ وہ مذہب پر یوں غصہ اتارتے ہیں :
جس چیز کو مذہب یا منظم مذہب کہتے ہیں اسے ہندوستان میں اور دوسری جگہ دیکھ دیکھ کر میرا دل ہیبت زدہ ہو گیا ہے۔ میں نے اکثر مذہب کی مذّمت کی ہے‘ اور اسے اکثر مٹا دینے کی آرزو تک ظاہر کی ہے، قریب قریب ہمیشہ ایسا معلوم ہوتا ہے‘ کہ یہ اندھے یقین اور ترقی دشمنی کا، بے دلیل عقیدت اور تعصب کا، توہم پرستی اور لوگوں سے بے جا فائدہ اٹھانے کا، قائم شدہ حقوق اور مستقل اغراض رکھنے والے کے بقا کا حمایتی ہے۔ (صفحہ ۱۶۱)
مذہب کے خلاف نفرت و غضب کا اظہار ’’ہندستانی قوم‘‘ کے اس لیڈر نے اتنی کثرت کے ساتھ کیا ہے‘ کہ تمام تحریروں کو نقل کرنا ایک طول عمل ہے۔ وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں ہر اس موقع پر جہاں ہندو مسلم کا نام آتا ہے، چیں بجیں ہو کر کہتے ہیں‘ کہ ’’مذہب کو بیچ میں کیوں لاتے ہو‘‘؟ اس ارشاد سے ان کی مراد یہی ہوتی ہے‘ کہ سیاسی، اجتماعی اور معاشی گروہوں میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنا سرے سے غلط ہے۔ اس غلط بنیاد کو ڈھانا چاہیے، نہ کہ اس کو سامنے لاکر ایک قابلِ لحاظ چیز قرار دینا۔
ہندستانی ’’قوم‘‘ میں فرقوں کے وجود اور ان کے باہمی اختلاف کی یہی ایک توجیہ ہمارے وطنی لیڈر کے پاس نہیں ہے۔ دوسری توجیہ اس سے بھی زیادہ دل چسپ ہے۔ وہ اس کو برطانوی امپیریل ازم کی پیدا کردہ چیز سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے‘ کہ انگریزوں کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے ہندوستانی قوم میں اختلاف پیدا کرنے کی ضرورت تھی اسی لیے اور صرف اسی لیے یہ اختلافات موجود ہیں۔
دیکھیے، یہاں نظر کا کتنا بڑا پھیر ہو گیا ہے۔ اگر پنڈت جی ذرا سمجھ سے کام لیتے تو یہ بات بآسانی ان پر واضح ہو سکتی تھی‘ کہ ہندوستان میں حقیقی اختلافات موجود تھے، انگریزوں نے ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی‘ اور اس کوشش میں دو قسم کے لوگوں سے ان کو مدد ملی۔ ایک وہ خود غرض لوگ جو اپنے ذاتی فائدے کے لیے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نزاعات کو بھڑکاتے اور پیچیدہ تر بناتے ہیں۔ جنہوں نے نہایت چالاکی سے اپنے آپ کو ان دونوں کا سرپرست اور نمائندہ بنا لیا ہے، نہ اس لیے کہ ان کے اختلافی مسائل کو اطمینان بخش طریقہ پر حل کریں، بلکہ محض اس لیے کہ ان اختلافات کو دائما برقرار رکھ کر اپنے ذاتی مفاد اور برطانی سلطنت کے مفاد کی خدمت کرتے ہیں۔ دوسرے وہ بے وقوف لوگ جو ان اختلافات کی حقیقت کو سمجھنے اور انہیں دانش مندی کے ساتھ حل کرنے سے انکار کرتے ہیں‘ اور اس طرح ان کے برقرار رکھنے میں مدد گار بنتے ہیں۔ اگر پنڈت جی اس مسئلے کو دیکھتے تو انہیں راستہ صاف نظر آتا۔ لیکن وہ اپنے تخیل کی آنکھ سے اس کو دیکھتے ہیں‘ اور محض یہ دیکھ کر کہ ملک کے چند خود غرض اور ترقی دشمن لوگ انگریزی حکومت کے ساتھ مل کر ہندو مسلمانوں کے اختلافی مسائل سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں، یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں‘ کہ درحقیقت ان اختلافی مسائل کی کوئی اصلیت نہیں ہے، بلکہ یہ صرف برطانوی امپیریل ازم اور اس کے ہندستانی ایجنٹوں کی پیدا کردہ چیز ہے۔ اس بنا پر وہ جگہ جگہ ’’فرقہ وارانہ‘’‘ مسئلے کے متعلق اس قسم کے خیالات کا اظہار فرماتے ہیں :
ان کا (انگریزوں کا) ترپ کا پتہ فرقہ وارانہ مسئلہ تھا‘ اور اسے انہوں نے خوب کھیلا۔
(صفحہ ۲۰)
فرقہ پروروی کے پردہ میں دراصل ترقی دشمنی نہاں ہے۔ (صفحہ ۲۳)
اور اغراض کے اس ہجوم میں برطانوی ہند کے نمائندوں کی سرداری عموماً آغا خان کے حصہ میں آئی تھی۔ (صفحہ ۲۱)
اصل دقّت فرقہ پروری نہیں ہے۔ اصل میں سیاسی ترقی دشمنی راہ میں حائل تھی۔ اور فرقہ وارانہ مسائل کی آڑ میں کام کر رہی تھی۔ (صفحہ ۲۴)
حکومت روز بروز معاشرتی خرابیوں کی پشت پناہ بنتی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے‘ کہ اس کا میل جول ہندستان کی سب سے زیادہ رجعت پسند جماعتوں سے رہتا ہے۔ جوں جوں اس کی سیاسی مخالفت بڑھتی جاتی ہے اسے عجیب عجیب حمایتی ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ آج کل برطانوی حکومت کے سب سے بڑے حامی انتہائی فرقہ پرست، مذہبی رجعت پسند اور اصلاح و ترقی کے دشمن لوگ ہیں۔ مسلمانوں کی فرقہ پرست جماعتیں سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے انتہائی رجعت پسند ہیں۔ ہندو مہاسبھا بھی ان سے کچھ کم نہیں۔ (صفحہ ۱۷۵)
فرقہ پرست رہنماؤں کا اتحاد ان لوگوں کے ساتھ ہو گیا ہے‘ جو ہندوستان اور انگلستان میں سب سے زیادہ رجعت پسند لوگ کہے جا سکتے ہیں، اور یہ لوگ فی الحقیقت سیاسی اور سیاسی سے بھی زیادہ تمدّنی اصلاح و ترقی کے دشمن ہیں۔ ان کے جملہ مطالبات میں سے ایک بھی عوام النّاس کے فائدے کے لیے نہیں ہے۔ (صفحہ ۳۳۱)
یہ اور ایسی ہی بہت سی تحریریں پنڈت جی کے اندازِفکر پر صاف روشنی ڈالتی ہیں۔ ان کا اندازِفکریہ ہے‘ کہ بیمار کا خود غرض طبیبوں اور عطاروں کے پھندے میں پھنس جانا اس بات کی دلیل ہے‘ کہ وہ دراصل بیمار ہی نہیں۔ ان کی رائے میںیہ تحقیق کرنے کی ضرورت ہی نہیں کہ آخر کیا چیز ہے‘ جس کی وجہ سے ان مکار طبیبوں اور عطاروں کو اس بیمار پر ہاتھ صاف کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ سبب پر غور کرنے اور غلط معالجوں کے پھندے سے نکال کر خود صحیح علاج کرنے کی زحمت کوئی اٹھائے۔ اس کا علاج بس یہی ہے‘ کہ مرض کے وجود سے انکار کر دیا جائے۔
ہندستان کے بین الاقوامی مسئلہ کی یہ دو توجیہیں کرنے کے بعد پنڈت جی ان دونوں کے درمیان رشتہ جوڑتے ہیں۔ ان کا نظریہ ترقی کرکے یہ صورت اختیار کرتاہے‘ کہ مذہب نے ہندستانی’’قوم‘‘ کو ’’فرقوں’‘‘ میں تقسیم کیا ہے، انگریزی امپیریل ازم (سامراج) کے لیے یہ تقسیم مفید ہے‘ اور سرمایہ دارانہ، زمیندارانہ اور تمام مستقل اغراض (vested Interests) رکھنے والے طبقے سامراج کے ساتھ سازش کرکے اس تقسیم کو اپنی اور سامراج کی مشترک اغراض کے لیے استعمال کر رہے ہیں، لہٰذا مذہب، اور سامراج اور خود غرض طبقے، تینوں باہمی قریبی رشتہ دار ہیں، تینوں قابلِ نفرت ہیں‘ اور تینوں کو مٹا دینا چاہیے۔ اسی نظریہ کے تحت یہ ارشادات جگہ جگہ پنڈت جی کے قلم سے نکلے ہیں :
’’منظم مذہب (organized religion) بلا استثناء مستقل اغراض سے وابستہ ہو جاتا ہے‘ اور یوں لازمی طور پر ایک ترقی دشمن قوّت بن کر تغیّر اور ترقی کی مخالفت کرتا ہے۔ حق ملکیت اور موجودہ نظام معاشرت کے متعلق اس کا روّیہ یہی ہے۔ (صفحہ ۶۸-۱۶۷)
جیل میںبرطانوی افسر صرف دو قسم کی کتابیںپڑھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مذہبی کتابیں اور ناول، یہ عجیب بات ہے‘ کہ حکومت برطانیہ مذہب کی بڑی قدر دان ہے‘ اور بڑی بے تعصبی کے ساتھ ہر قسم کے مذہب کی ہمت افزائی کرتی ہے۔ (صفحہ ۱۱۸)
مذہب امن کا وعظ کہتا ہے‘ لیکن اس کے باوجود ایسے نظام کی تائید کرتاہے جس کا دارو مدار ظلم پر ہے۔ (صفحہ ۳۹۴)
اشتراکیت
ان تینوںدشمنوں کی سازش سے ہندستان کو نجات دلانے اور اس ملک کو پھر جنت نشاں بنا دینے کی جو صورت پنڈت جی کے پیشِ نظر ہے وہ حسب ذیل ہے:
پھر پھر کر ہم اسی چیز پر پہنچ جاتے ہیں جس کے سوا اس مسئلہ کا اور کوئی حل نہیں۔ یعنی ایک اشتراکی نظام کا قیام، پہلے قومی دائرے میں اور پھر ساری دنیا میں۔ ایسا نظام جس میں دولت کی پیدائش اور تقسیم ریاست کی نگرانی میں مفاد عامہ کے لحاظ سے کی جائے۔ یہ انقلاب کس طرح ہونا چاہیے؟ یہ ایک جُدا گانہ سوال ہے۔ لیکن یہ بات بالکل واضح ہے‘ کہ جس چیز میں پوری قوم بلکہ کل نوعِ انسانی کی بھلائی ہو وہ محض اس وجہ سے نہیں روکی جا سکتی کہ کچھ لوگ جو موجودہ نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں اس تغیّر کے مخالف ہیں۔ا گر سیاسی یا تمدّنی ادارے{ FR 2925 }اس تبدیلی کی راہ میں حائل ہیں‘ تو ان کو مٹا دینا چاہیے۔
(صفحہ ۲۰-۲۰۹)
جب تک ہمیں تھوڑی بہت سیاسی آزادی حاصل نہ ہو گی، ہمارے لیے قوم پرستی کا تخیل ہی سب سے بڑا محرکِ عمل رہے گا، یہاں تک کہ لوگوں کے دل میں قوم پرستی کے جذبہ کی جگہ تمدّنی و اجتماعی انقلاب (social revolution) کا جذبہ{ FR 2927 } پیدا ہو جائے۔ (صفحہ ۱۴۵)
بعض لوگ جو عدم تشدد کا عقیدہ رکھنے کے مدعی ہیں، کہتے ہیں‘ کہ شخصی ملکیت کو اس کے مالکوں کی مرضی کے خلاف قومی ملکیت بنانے کی کوشش کرنا جبر ہے، اس لیے یہ عدم تشدد کے خلاف ہے۔ یہ کافی نہیں سمجھا جاتا کہ اکثریت موجودہ نظام میں تبدیلی چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ یہ شرط لگائی جاتی ہے‘ کہ جن لوگوں کو اس تبدیلی سے نقصان پہنچنے والا ہے انہیں بھی راضی کر لینا چاہیے۔ یہ اُمید رکھنا کہ ایک پورے طبقے یا پوری قوم کے عقائد بدلے جا سکیں گے یا اپنے حریفوں کو عقلی دلائل سے قائل کرنے یا ان کے جذبہ انصاف کو ابھارنے سے باہمی مخالفت دور ہو جائے گی، اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔یہ محض ایک فریب خیال ہے‘ کہ مؤثر دباؤ ڈالے بغیر، یعنی جبرو تشدد سے کام لیے بغیر کوئی حاکم قوم محکوم ملک سے قبضہ اُٹھا لے گی، یا کوئی طبقہ اپنے اقتدار یا امتیازی حقوق سے دستبردار ہو جائے گا۔{ FR 2928 } (صفحہ ۵۸، ۴۵۶)
دراصل جمہوری حکومت کے معنی یہ ہیں‘ کہ اکثریت، اقلیت کو ڈرا کر اور دھمکا کر اپنے قابو میں رکھتی ہے۔{ FR 2929 } (صفحہ ۴۴۵)
سوسائٹی کی موجودہ کش مکش یعنی قومی جنگ اور پھر طبقات کی جنگ کا تصفیہ جبر کے سوا کسی اور صورت سے ممکن نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ پہلے لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانے کا کام بہت بڑے پیمانہ پر کرنا پڑے گا۔ کیونکہ جب تک بہت بڑی جماعت ہم خیال نہ ہو جائے اس وقت تک نظام تمدّن کو بدلنے کی کوئی تحریک مضبوط بنیاد پر قائم نہ ہو سکے گی۔ لیکن اس کے بعد تھوڑے لوگوں پر جبر کرنے کی ضرورت ہو گی۔ (صفحہ ۷۰-۴۶۹)
یہ ہے وہ نقشہ جو ہندستان کی نجات کے لیے اس کے سب سے بڑے لیڈر کے ذہن میں ہے۔ قومی حکومت (یعنی وہ حکومت جو مذہبی قومیّتوں کو مٹا کر ’’قومی‘ بنائی جائے) آخری منزلِ مقصود نہیں ہے، بلکہ پہلا مرحلہ ہے، دوسرا مرحلہ یہ ہے‘ کہ مذہبی عقائد کے بجائے معاشی عقائد کی تبلیغ کرکے ایک عظیم اکثریت کو ہم خیال بنایا جائے۔اس کے بعد تیسرا مرحلہ یہ ہے‘ کہ جو اقلیت اس معاشی مذہب کی پیروی قبول نہ کرے اس کو ڈرا کر، دھمکا کر، لوٹ مار اور قتل و غارت گری کرکے، وسیع پیمانہ پر اجتماعی ڈاکہ زنی کرکے نظام تمدّن میں انقلاب پیداکیا جائے۔ پھر آخری مرحلہ یہ ہے‘ کہ تھرڈ انٹرنیشنل کے اصول پر تما م دنیا میں کمیو نزم کی اشاعت اور اس کے قیام کا بیڑا اٹھایا جائے ‘جس طرح تھوڑی مدت قبل روس نے اُٹھا رکھا تھا۔ ظاہر ہے‘ کہ ہندستان سے جس بین الاقوامی اشتراکیت کا علم بلند کیا جائے گا اس کی ٹکر سب سے پہلے اس بین الاقوامی نظامِ اجتماعی سے ہو گی‘ جو ہندستان کے ہمسایہ ممالک میں پھیلا ہوا ہے، یعنی اسلام۔
پنڈت جواہر لال سمجھتے ہیں‘ کہ مسلمان بہادر ہیں، بھوکے ہیں، اور اس کے ساتھ ان کے اندر اشتراکیت کے عناصر پہلے سے موجود ہیں۔ لہٰذا ہندوؤں کی بہ نسبت وہ اشتراکی انقلاب کے لیے زیادہ اچھے سپاہی بن سکتے ہیں۔ مزید برآں وہ یہ بھی سمجھتے ہیںکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف وہی لوگ زیادہ کامیابی کے ساتھ لڑ سکیں گے جن کے نام اور لباس مسلمانوں کے سے ہوں۔ لہٰذا وہ اشتراکیت کی لاگ{ FR 2930 } سے مسلمانوں کو اپنی فوج میںبھرتی کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ اسی بنا پر ارشاد ہوتا ہے :
میرے خیال میں عام مسلمان، عام ہندوؤں سے زیادہ صلاحیّت رکھتے ہیں، اس لیے کہ ان کے نظامِ اجتماعی میں ایک حد تک آزادی پائی جاتی ہے‘ اور اگر ان میں ایک مرتبہ بے داری پیدا ہو جائے‘ تو غالبا وہ اشتراکیت کی راہ پر تیزی سے قدم بڑھائیں گے۔
(صفحہ ۵۰۶)
ان الفاظ میں پنڈت جی نے اپنے اصل مقصد کو پوری طرح واضح کر دیا ہے۔ لیکن انہیں خوب معلوم ہے‘ کہ مسلمانوں کو قوم پرستی اور پھر بین الاقوامی اشتراکیت کے نظام میں جذب کرنا آسان کام نہیں ہے، سب سے پہلے تو اسلامی قومیّت کا تخیل اس راہ میں حائل ہے‘ جس کی وجہ سے مسلمان، غیر مسلموں کے ساتھ ایک قومیّت بنانے اور اس میں جذب ہو جانے کے لیے تیار نہیں ہو سکتے۔ پھر اسلامی تہذیب کے ساتھ مسلمانوں کی شیفتگی ایک دوسری رکاوٹ ہے۔ کیونکہ مسلمان اپنی تہذیب کو تمام تہذیبوں سے بہتر سمجھتے ہیں‘ اور اس کو کسی دوسری تہذیب سے بدل لینے پر آسانی کے ساتھ راضی نہیں ہو سکتے۔ اس کے بعد آخری اور اہم ترین روک یہ ہے‘ کہ اسلام کا اجتماعی نظام (سوشل سسٹم) زندگی کے سارے شعبوں پر حاوی ہے۔ جس کی وجہ سے مسلمان کسی دوسرے اجتماعی نظام کو اپنی زندگی کے کسی شعبے میںبھی اس وقت تک جگہ نہیں دے سکتے‘ جب تک کہ وہ خود اسلام سے منحرف نہ ہو جائیں۔ ان مشکلات کو اچھی طرح سمجھ کر پنڈت جی نے اپنا نقشہ جنگ بنایا ہے۔
ان کا پہلا حملہ اسلامی قومیّت پر ہے۔ وہ مسلمانوں سے کہتے ہیں‘ کہ تم سرے سے کوئی قوم ہی نہیں ہو۔ یہ محض برطانوی سامراج کا ایک داؤں اور چند سامراجی ایجنٹوں کا پروپیگنڈا ہے‘ جس نے تمہارے دماغ میں یہ ہوا بھر دی ہے‘ کہ تم ایک قوم ہو۔ حالانکہ سیاسی اور معاشی نقطۂ نظر سے ہندستان میں صرف ’’ہندستانی قوم‘‘ ہی پائی جاتی ہے‘ اور اس قوم کے اندر ایک دوسری قوم کا موجود ہونا سرا سر ایک لغو تخیّل ہے :
ہندستان میںمسلم قومیّت پر زور دینے کا مطلب کیا ہوتاہے؟ بس یہی کہ ایک قوم کے اندر ایک دوسری قوم موجود ہے‘ جو یکجا نہیں ہے، منتشر ہے، مبہم ہے‘ اور غیر متعین ہے۔ اب سیاسی نقطۂ نظر سے اگر دیکھا جائے‘ تو یہ تخیل بالکل لغو معلوم ہوتا ہے‘ اور معاشی نقطۂ نظر سے یہ بہت دورازکار ہے‘ اور بدقت قابلِ توجہ کہا جا سکتا ہے۔{ FR 2931 } (صفحہ ۲۳۱)
مسلم قوم کا تخیل تو صرف چند لوگوںکو من گھڑت اور محض پرواز خیال ہے اگر اخبارات اس کی اس قدر اشاعت نہ کرتے تو بہت تھوڑے لوگ اس سے واقف ہوتے، اور اگر زیادہ لوگوں کو اس پر اعتقاد ہوتا بھی تو حقیقت سے دوچار ہونے کے بعد اس کا خاتمہ ہو جاتا۔
(صفحہ ۳۳۲)
اسلامی تہذیب کیا ہے؟
اس کے بعد وہ اسلامی تہذیب کی طرف بڑھتے ہیں‘ اور مسلمانوں کو یہ سمجھاتے ہیں‘ کہ حقیقت میں تمہاری کوئی خاص تہذیب ہی نہیں ہے:
لیکن یہ اسلامی تہذیب ہے کیا چیز؟ کیا عربوں، ایرانیوں اور ترکوں وغیرہ کے بڑے بڑے کارناموں کی ایک یاد ہے‘ جو نسلی تعلق کی وجہ سے اب تک باقی ہے؟ یا اس کا مطلب زبان، آرٹ، موسیقی اور رسم و روایات ہیں؟ مجھے تو یاد نہیں آتا کہ کوئی شخص آج کل اسلامی موسیقی یا اسلام آرٹ کا بھی ذکر کرتا ہو۔{ FR 2932 } (صفحہ ۳۳۳)
میں نے یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ یہ اسلامی تہذیب ہے کیا چیز، مگر میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں اس میںکامیاب نہ ہوا۔ میں دیکھتا ہوں کہ شمالی ہند میں متوسط طبقہ کے مٹھی بھر مسلمان اور انہی کی طرح کے ہندو بھی فارسی زبان اور روایات سے متاثر ہوئے ہیں۔ جب عوام النّاس پر نظر ڈالتا ہوں تو اسلامی تہذیب کی نمایاں ترین علامتیں یہ نظر آتی ہیں۔ ایک خاص قسم کا پاجامہ نہ زیادہ لمبا نہ زیادہ چھوٹا۔ ایک خاص طریقہ سے مونچھوں کو مونڈنا یا ترشوانا مگر ڈارھی کو بڑھنے کے لیے چھوڑ دینا۔ اور ایک قسم کا ٹونٹی دار لوٹا۔ بالکل اسی کے جواب میں ہندوؤں کے بھی چند رسمی طریقے ہیں، یعنی دھوتی باندھنا، سر پر چوٹی رکھنا اور مسلمانوںکے لوٹے سے مختلف طرز کی لٹیا رکھنا۔ یہ امتیازات بھی دراصل زیادہ تر شہروں میں پائے جاتے ہیں‘ اور مفقود ہوتے جا رہے ہیں۔ ہندو اور مسلم کاشت کاروں اور مزدوروں میں مشکل ہی سے فرق کیا جا سکتا ہے تعلیم یافتہ مسلمان شاید ہی ڈاڑھی رکھتے ہیں۔ علی گڑھ والے البتہ سرخ ٹوپی کے گرویدہ ہیں (اس کا نام ترکی ہے حالانکہ خود ترکی میں اب اسے کوئی نہیں پوچھتا)
مسلمان عورتیں ساڑھی پہننے لگی ہیں‘ اور آہستہ آہستہ پردہ سے باہر نکل رہیں ہیں۔{ FR 2933 }
(صفحہ ۳۳۵)
یہاں تک تو صرف یہ وعظ تھا‘ کہ ’’اسلامی تہذیب‘‘ حقیقت میں کسی چیز کا نام ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد دوسرا پہلو اختیار کیا جاتا ہے‘ اور یوں ارشاد ہوتا ہے‘ کہ مسلمان جس چیز کو اپنی تہذیب کہہ رہے ہیں وہ اب زندہ نہیں رہ سکتی۔ زمانے کے انقلاب اس کو مٹا دیتے ہیں، مٹا دیں گے‘ اور خود مسلمان قومیں آج اس کو چھوڑ رہی ہیں:
اب تو پوری تہذیبوں کا زمانہ بھی بہت تیزی سے گزر رہا ہے‘ اور پوری دنیا ایک تہذیبی وحدت بنتی جا رہی ہے۔ اس ناگزیر رجحان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ (صفحہ۳۳۲)
اس زمانہ میں ہندی مسلمانوں کو پیہم صدمات پہنچے ہیں‘ اور ان کے بہت سے خیالات جن کی پرورش بڑی تمنا سے کی گئی تھی پاش پاش ہو گئے۔ اسلام کے مرد غازی، ترک نے نہ صرف یہ کہ اس خلافت ہی کو ختم کر دیا جس کے لیے ہندستان ۱۹۲۰ء میں اتنا لڑا تھا، بلکہ یکے بعد دیگرے ایسے قدم اٹھائے ہیں‘ جو مذہب سے اس کو دور لیے جا رہے ہیں۔ مصر بھی اسی راستہ پر جا رہا ہے … یہی حال عربی ممالک کا ہے سوائے ملک عرب کے جو بہت پیچھے ہے۔ ایران کی نظریں اپنے تمدّنی احیاء کے لیے تاریخ قبل از اسلام پر پڑتی ہیں۔ غرض ہر جگہ مذہب بالکل پس پشت ڈالا جا رہا ہے‘ اور وطنیت جنگ آزما لباس میں ظاہر ہو رہی ہے۔{ FR 2934 } (صفحہ ۳۳۶)
مطلب یہ ہے‘ کہ مسلمانو! یہ تم کس چیز کو لیے بیٹھے ہو؟ جو چیز فنا ہو رہی ہے، جس کا فنا ہونا یقینی ہے‘ جس کو سب مسلمان قومیں چھوڑ رہی ہیں، اسے تم کیوں پکڑے ہوئے ہو؟ چھوڑ دو اسے، اور آؤ اس راستہ کی طرف جدھر ہم بلا رہے ہیں۔
یہ سب کچھ کہنے کے بعد پھر بھی دل میں تردّد باقی رہتا ہے‘ کہ یہ کم بخت مذہب پرست مسلمان، اپنی تہذیب اور قومیّت پر جان دینے والے متعصب لوگ، اتنا سمجھانے پر بھی نہ مانیں گے لہٰذا ایک آخری حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ مسلمان کے دل میں انگریز اور اس کی غلامی سے جو نفرت ہے اسے مدد پر بلایا جاتا ہے‘ اور اس سے یوں کام لیا جاتا ہے :
ہندستان میں مسلم قوم اور اسلامی تہذیب پر اور ہندو و مسلم تہذیبوں کے انتہائی اختلاف پر بڑا زور دیا جاتا ہے، پھر اس سے یہ لازمی نتیجہ نکالا جاتا ہے‘ کہ برطانیہ کا ہندستان میںہمیشہ ہمیشہ کے لیے رہنا ضروری ہے تاکہ دونوں میں توازن قائم رکھے اور بیچ بچاؤ کر سکے۔ (صفحہ ۳۳۰)
(مسلم قومیّت کا ذکر کرنے کا) مطلب یہ ہے‘ کہ مطلق العنان حکومت یہاں رہنی چاہیے یا بدیسی حکومت۔ (صفحہ ۳۳۱)
ہاں اب مسلم قوم اور اسلامی تہذیب کا کیا ہو گا؟ کیا یہ دونوں آئندہ صرف شمالی ہند میں برطانیہ کی شفیق حکومت کے تحت پھلتی پھولتی رہیں گی؟ (صفحہ ۳۲۷)
یہاں پہنچ کر ہندستان کے ’’قومی‘‘ لیڈر نے اپنی سیاست دانی کے جوہر پوری طرح نمایاں کیے ہیں۔ وہ کہتا ہے‘ کہ اسلامی تہذیب اور اسلامی قومیّت صرف سرکار برطانیہ ہی کے سہارے جی سکتی ہے۔ لہٰذا جو لوگ ان دونوں کو باقی رکھنا چاہتے ہیں وہ سب ٹوڈی اور سرکار پرست ہیں‘ اور ان کا مقصد یہ ہے‘ کہ بدیسی حکومت یہاں ہمیشہ قائم رہے۔ اب اگر اس ملعون سامراج سے نجات چاہتے ہو، اگر آزادی کی خواہش ہے‘ تو اس قومیّت اور تہذیب کے تحفظ کا نام لینا چھوڑ دو۔ ورنہ جو کوئی یہ نام لے گا، ٹوڈی قرار دیا جائے گا، یہ آخری ضرب بڑی کاری ضرب ہے۔ ہماری قوم کے بہت سے حریّت پسندوںکو یہی ضرب ’’آزادی کی فوج‘‘ میں کھینچ لے گئی ہے‘ اور بہت سے ان لوگوں کی زبانوں پر اس نے مہر لگا دی ہے‘ جو حریّت پسند کہلانا چاہتے ہیں‘ اور ٹوڈیت کے گھناؤنے خطاب سے بچنا چاہتے ہیں۔
نیا حربہ
قومیّت اور تہذیب کی خبر لینے کے بعد پنڈت جی اسلام کے نظامِ اجتماعی کی طرف بڑھتے ہیں تاکہ اس کو درہم برہم کرکے جمہور مسلمین کو جدید ہندستانی قومیّت میں جذب کر لیا جائے۔
پنڈت جی کو خوب معلوم ہے‘ کہ مسلمانوں کے ہوش مند لوگ، جو اسلام سے واقف ہیں، جن میں اپنی قومیّت کا شعور پوری طرح موجود ہے، جو اپنی قومی تہذیب کو ہر چیز سے زیادہ قیمتی سمجھتے ہیں، وہ تو قیامت تک اس پوزیشن کو قبول کرنے پر راضی نہ ہوں گے۔ ان کے لیے قطعی ناممکن ہے‘ کہ اسلامی قومیّت کو چھوڑ کر ہندوستانی قومیّت میں اپنے آپ کو ضم کر دیں، اور ان کو ایک لمحہ کے لیے بھی یہ گوارا نہیں ہو سکتا کہ اس تہذیب کو خیر باد کہہ دیں جسے وہ اس گئی گزری حالت میں بھی اپنی عزیز ترین متاع سمجھتے ہیں۔ قومیّت کو چھوڑنا، تہذیب سے دست بردار ہونا، جدید ہندی قومیّت اور اشتراکی تہذیب و تمدّن میں جذب ہو جانا، یہ تو بہت دور کی چیزیں ہیں۔ مسلمانوں کے اس گروہ سے تو الٹا یہ خطرہ ہے‘ کہ ہندستان کے آزاد نظامِ حکومت میں وہ اپنی قومیّت اور اپنی تہذیب کو زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم کرنے کی کوشش کرے گا اور اس غرض کے لیے حکومت کے اقتدار میں برابر کی شرکت حاصل کرنا چاہے گا۔
اس خطرے کو اچھی طرح محسوس کرکے پنڈت جی نے یہ تدبیر نکالی ہے‘ کہ مسلمانوں کی قومی جمعیتوں سے اب خطاب ہی نہ کیا جائے بلکہ ان کے افراد تک براہِ راست پہنچنے کی کوشش کی جائے۔ یہ افراد چونکہ منتشر ہیں، مفلس ہیں، اسلام اور اس کی تہذیب کے اصولوں سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں، اسلامی نظامِ اجتماعی کا شیرازہ درہم برہم ہو جانے کی وجہ سے ان کا شعور اسلامیت بڑی حد تک مضمحل ہو چکا ہے، اس لیے ان کو بآسانی توڑ لیا جا سکتا ہے۔ قبل اس کے کہ مسلمانوں کا ’’بورژوا‘‘ طبقہ… اشتراکی زبان میں قوم کے اہلِ دماغ اور متوسط طبقوں کا یہی نام ہے۔ …بیدار ہو کر اپنی قوم کو سنبھالنے کی فکر کرے، قوم کو اس کے قابو سے نکال لیا جائے، یا زیادہ صحیح الفاظ میں اس کی ’’شدھی‘‘ کر لی جائے۔
یہی حقیقت ہے اس پالیسی کی جس کو مسلم عوام کے ساتھ ربط قائم کرنے mass contact) (muslim کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ پنڈت جی نے آل انڈیا نیشنل کنونشن کے خطبہ صدارت میں اس پالیسی کی تشریح ان الفاظ میں فرمائی تھی :
ہم نے عام لوگوں سے نگاہ ہٹا کر مدتوں فرقوں وارانہ لیڈروں کی باہمی مصالحت اور گفت و شنید میں وقت گنوایا ہے۔ یہ طریقہ نکما ہے‘ اور میں چاہتا ہوں کہ دوبارہ ادھر نگاہ بھی نہ ڈالیں۔ ایسے لوگ ابھی تک زندہ ہیں‘ جو ہندو مسلمانوں کا ذکر اس طور پر کرتے ہیں گویا دو ملتوں اور قوموں کے بارے میں گفتگو ہے۔ جدید دنیا میں اس دقیانوسی خیال کی کوئی گنجائش نہیں۔ آج جماعتوں اور ملتوں کی بنیاد معاشی مفاد پر رکھی جا رہی ہے‘ اور اس لحاظ سے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی ہب ملتوںکا بھلا اسی میں ہے‘ کہ اپنی بے کاری اور غریبی کو سامنے رکھ کر سب مل کر قومی آزادی کے لیے آگے بڑھیں۔ جب کبھی ہم اوپر کے لوگوں سے منہ موڑ کر عام لوگوں کی طرف نگاہ ڈالیں گے‘ تو ہمیں ان معاشی مصیبتوں کا حل تلاش کرنا پڑے گا۔ جو سوال ایک زمانہ سے فرقہ وارانہ مسئلہ بن گیا ہے اس کا صحیح حل یہی ہے۔
کیسے معصوم، کیسے بے ضرر ہیںیہ الفاظ! مگر کتنے زہریلے ہیں! اس سے پہلے جو تصریحات خود پنڈت جی کی زبان سے میں نقل کر چکا ہوں ان کو سامنے رکھ کر جب آپ اس نئی پالیسی کو دیکھیں گے‘ تو صاف نظر آجائے گا کہ یہ دراصل شدھی کی تحریک ہے ایک دوسری شکل میں، یہ مذہبی شدھی نہیں، سیاسی اورو معاشی شدھی ہے‘ اور اس کا نتیجہ عملاً وہی ہے‘ جو مذہبی شدھی کا تھا۔ فرق صرف یہ ہے‘ کہ وہ کھلی ہوئی تحریک ِارتداد تھی جس پر مسلمانوں کے جاہل اور عالم سب چوکنّے ہو گئے تھے‘ اور یہ ایسی خفی تحریک ِارتداد ہے‘ کہ جہلا تو درکنار علماء تک اس کی کنہ کو پہنچنے میں دقّت محسوس کر رہے ہیں۔ اس تحریک کے بانیوںنے پھوہڑ پن سے کام لیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تم اپنی قومیّت اور اپنے مذہب کو چھوڑ کر ہندو قومیّت اور مذہب میں آجاؤ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں کوئی کو دن سے کودن آدمی بھی ایسا نہ تھا جو اس پر بھڑک نہ اُٹھا ہو۔ بخلاف اس کے اس تحریک کا بانی ایک ہوشیار شخص ہے۔ یہ کہتا ہے‘ کہ تم کوئی قوم ہی نہیں ہو۔ تمہاری کوئی تہذیب ہی نہیں ہے۔ لہٰذا کسی چیز کے چھوڑنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں۔ دراصل تم ایک قوم یعنی ’’ہندستانی قوم‘‘ کے فرد ہو مگر سامراج کے ایجنٹوں نے تم کو اس قوم سے جدا کر رکھا ہے۔ آؤ اپنی قوم میں مل جاؤ۔ آزادی حاصل کرو اور اشتراکی تہذیب کے قائم کرنے میں حصہ لو جس میں تم کو خوب روٹیاں ملیں گی … ہے یہ بھی زہر ہی کا گھونٹ، مگر دیکھیے کیسے ہوش گوش کے لوگ اسے شیر مادر سمجھ کر نوش فرما رہے ہیں۔
خ خ خ

شیئر کریں