Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

باب اوّل: ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص
باب دوم: مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحۂ عمل
باب سوم: خطبہ تقسیم اَسناد
باب چہارم: نیا نظامِ تعلیم
باب پنجم : رودادِ مجلسِ تعلیمی
باب ششم: اسلامی نظامِ تعلیم اور پاکستان میں اس کے نفاذ کی عملی تدابیر
باب ہفتم: ایک اسلامی یونی ورسٹی کا نقشہ
باب ہشتم: اسلامی نظام تعلیم
باب نہم: عالمِ اسلام کی تعمیر میں مسلمان طلبہ کا کردار

تعلیمات

1935ءمیں یہ سوال بڑے زور شور سے اٹھایا گیا کہ آخر مسلمانوں کی قومی درس گاہوں سے ملاحدہ اور الحاد ودہریت کے مبلغین کیوں اس کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں۔ علی گڑھ یونی ورسٹی کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ شکایت تھی کہ اس سے فارغ اتحصیل 90 فی صد طلبہ الحادود ہر یت میں مبتلا ہیں۔ جب یہ چرچا عام ہونے لگا اور ملک بھر میں اس کے خلاف مضامین لکھے جانے لگے تو علی گڑھ یونی ورسٹی کی طرف سے اس شکایت کا جائزہ لینے اور اصلاح حال کی تدبیر پرغوروخوض کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے کافی بحث وتمحیص اور غور وخوض کے بعد یہ رائے قائم کی کہ اسی نصاب تعلیم میں دینیات کے عنصر کو پہلے کی نسبت کچھ زیادہ کر دینے سے طلبا کے اندر بڑھتے ہوئے الحادود ہریت کے سیلاب کے آگے بند باندھا جاسکتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے اگست 1939ءکے ترجمان القرآن میں اصلاح حال کی اس تدبیر کاتفصیلی جائزہ لے کر اس وقت کے مروجہ نظام تعلیم کے اصلی اور بنیادی نقص کی نشان دہی کی اور اس نقص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ آج برسہا برس گزرنے کے باوجود یہ سارے مسائل جوں کے توں ہمارے سامنے منھ پھاڑے کھڑے ہیں، یہ کتاب برسوں گزرنے کے بعد بھی آج کی تصنیف لگتی ہے۔ اس کتاب میں شامل تمام حقائق اور مسئلوں کے جو حل بتائے ہیں ، وہ آج بھی قابل عمل ہے۔ بس ایک فرق یہ ہے کہ اس وقت اس الحاد کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنی تھی لیکن آج مملکت خداداد پاکستان کے حکمرانوں کو الحاد کا نہ یہ طوفان نظر آتا ہے اور نہ وہ اسے حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ہاں اگر آج بھی کوئی اس بند کو روکنا چاہتا ہے تو یہ کتاب یقینا اس کے لیے ایک اہم دستاویز ثابت ہوگی۔

باب ہفتم: ایک اسلامی یونی ورسٹی کا نقشہ

مختلف مسلم ممالک میں اس طرح کی تجویزیں کی جا رہی ہیں کہ مسلمانوں کے نظامِ تعلیم میں بنیادی تغیرات کیے جائیں اور ایک ایسے جدید طرز پر اسلامی تعمیر کے ادارے قائم کیے جائیں جو مسلم نوجوانوں کو اسلام کے نصب العین کے مطابق دنیا کی راہ نمائی کے لیے تیار کر سکیں۔ لیکن اس سلسلے میں اب تک جتنے ادارے قائم ہوئے ہیں ان کے نقشے اور کام کو دیکھ کر عالم اسلامی کے اصحابِ فکر میں سے غالباً کوئی بھی پوری طرح مطمئن نہیں ہے۔ اس وقت درحقیقت عالم اسلامی کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ نہ تو دارالعلوم یا کلیہ شریعہ ہے جو قدیم طرز کے علما تیار کرے اور نہ ایک جدید یونی ورسٹی جو مغربی علوم کے ماہرین تیار کرے، بلکہ وہ ایک ایسی جامعہ ہو جو دنیا میں اسلام کے علم بردار تیار کر سکے۔
موجودہ نظام ہائے تعلیم
انڈونیشیا سے لے کر مراکش تک تمام مسلمان ملکوں میں اس وقت دو طرح کے نظامِ تعلیم رائج ہیں۔ ایک نظامِ تعلیم خالص مغربی ذہن وفکر رکھنے والے اور مغربی تہذیب وتمدن کے رنگ میں رنگے ہوئے آدمی تیار کر رہا ہے اور اسی کے تیار کیے ہوئے لوگ مسلم ممالک کی حکومتوں کے نظام چلا رہے ہیں۔ انھی کے ہاتھ میں معیشت کا سارا کاروبار ہے، وہی سیاست کی باگیں تھامے ہوئے ہیں اور وہی تمدن وتہذیب کی صورت گری کر رہے ہیں لیکن یہ لوگ بالعموم دین کے علم وفہم سے عاری اور مغربیّت سے مرعوب اور مغلوب ہیں، اس لیے یہ دنیا بھر میں امت مسلمہ کی گاڑی کو روز بروز نہایت تیزی کے ساتھ اسلام کی مخالف سمت میں لیے جا رہے ہیں۔ دوسرا نظامِ تعلیم علومِ دینی کے علما تیار کر رہا ہے۔ جو دنیوی علوم سے بالعموم ناواقف ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے محض مذہبی شعبۂ حیات کی محافظت کی خدمت انجام دیتے ہیں۔ یہ لوگ دنیا میں کہیں بھی ان قابلیتوں اور ان اوصاف سے متصف نہیں ہیں جن سے یہ زندگی کی گاڑی کے ڈرائیور بن سکیں۔ ہر جگہ یہ صرف ایک بریک کا کام دے رہے ہیں جس کا کام اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ مقدم الذکر گروہ جس تیزی کے ساتھ امت کی گاڑی کو مخالف سمت میں لے جانا چاہتا ہے اس میں رکاوٹ پیدا کرے اور رفتار کو سست کرتا رہے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہر مسلمان ملک میں یہ بریک روز بروز کم زور ہوتا چلا جا رہا ہے، بلکہ بعض ملکوں میں تو بدمست ڈرائیور بریک کو توڑ چکے ہیں اور الحاد وفجور کے راستہ پر بے تحاشا اپنی قوم کو دوڑائے لیے جا رہے ہیں ۔قبل اس کے باقی مسلمان ملکوں میں وہ وقت آئے جب کہ ہر جگہ یہ بریک ٹوٹ چکا ہو، ہمیں ایک ایسا نظامِ تعلیم قائم کرنے کی فکر کرنی چاہیے جس سے بیک وقت دین ودنیا کے عالم تیار ہوں جس سے نکلنے والے بریک کی جگہ نہیں بلکہ امت کی گاڑی کے ڈرائیور کی جگہ سنبھالنے کے قابل ہوں اور اپنے اخلاق وکردار کے اعتبار سے بھی اور ذہنی صلاحیتوں کے اعتبار سے بھی مغربی طرز کے نظامِ تعلیم سے فارغ ہونے والوں کی بہ نسبت فائق تر ہوں۔
اس ضرورت کو مسلم دنیا کا کوئی تعلیمی ادارہ پورا نہیں کر رہا ہے۔ عالمِ اسلامی کے تمام اہل فکر پریشان ہیں کہ اگر ایسا ایک نظامِ تعلیم قائم نہ ہوا تو امت مسلمہ کو دین واخلاق کی مکمل تباہی سے کیسے بچایا جا سکے گا۔ اس طرح کا نظامِ تعلیم بنانے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ صرف حکومتیں ہی فراہم کر سکتی ہیں اور مسلم ممالک کی حکومتیں جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں ان کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اس حالت میں میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ میرے ذہن میں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ایک تعلیمی ادارے کا جو خاکہ ہے اسے عالمِ اسلامی کے سامنے پیش کر دوں۔ شاید کہ اہل علم وفکر اسے پسند کریں اور دنیا کی کوئی مسلم حکومت اسے جامہ پہنانے کے لیے تیار ہو جائے، یااللّٰہ کچھ ثروت واہل خیر اصحاب کا سینہ اس کام کے لیے کھول دے۔

مطلوبہ اسلامی یونی ورسٹی کے اغراض ومقاصد
اس یونی ورسٹی کے لیے میں اپنی تجاویز نہایت اختصار کے ساتھ سطور ذیل میں پیش کرتا ہوں۔
۱۔ سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ اس یونی ورسٹی کا مقصد واضح طور پر متعین کر دیا جائے تاکہ اس کا نظام اسی کے لحاظ سے وضع کیا جائے، اس میں کام کرنے والے بھی اسی کو نگاہ میں رکھ کر کام کریں، اور اسے دیکھنے والے بھی اس معیار پر جانچ کر اسے دیکھ سکیں کہ وہ اپنے مقصد کو کہاں تک پورا کر رہی ہے۔ میرے نزدیک اس کا مقصد یہ ہونا چاہیے۔
’’وہ ایسے علما تیار کرے جو اس دور جدیدمیں ٹھیک ٹھیک دین حق کے مطابق دنیا کی راہ نمائی کرنے کے لائق ہوں‘‘
۲۔ اس کا اپنا دائرہ کار صرف علومِ اسلامیہ تک محدود رکھنا چاہیے۔ دوسرے علوم اس میں اس حیثیت سے پڑھائے جائیں کہ وہ علوم اسلامیہ کے لیے مددگار ہوں نہ اس حیثیت سے کہ اس یونی ورسٹی کو ان علوم کے ماہرین تیار کرنا ہیں۔
۳۔ اسے لازماً ایک اقامتی یونی ورسٹی ہونا چاہیے جس میں طالب علم ہمہ وقت رہیں اور اساتذہ بھی یونی ورسٹی کی حدود میں سکونت پزیر ہوں۔
۴۔ اسے تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے کھلا ہونا چاہیے تاکہ ہر جگہ کے طالب علم آزادی کے ساتھ اس میں آ کر داخل ہو سکیں۔
۵۔ اس کا پورا ماحول ایسا ہونا چاہیے جو طلبہ میں تقوٰی اور اخلاق فاضلہ پیدا کرنے والا اور ان کے اندر اسلامی ثقافت کو مستحکم کرنے والا ہو۔ اسے مغربی ثقافت کے اثرات سے محفوظ رکھا جانا چاہیے۔ تاکہ اس کے طلبہ میں وہ شکست خوردہ ذہنیت پیدا نہ ہونے پائے جو مغرب سے مغلوب اور مرعوب ہونے والی قوموں میں ہر جگہ پیدا ہو رہی ہے۔ اس کے حدود میں مغربی لباس کا استعمال ممنوع ہونا چاہیے۔ اس میں طلبہ کے کھیل اور تفریحات کے لیے بھی مغربی کھیلوں کی بجائے، گھوڑے کی سواری، تیراکی، نشانہ بازی، اسلحہ کا استعمال، موٹر سائیکل اور موٹر چلانے کی مشق اور ایسی ہی دوسری تفریحات رائج کی جانی چاہییں۔ اس کے ساتھ انھیں کسی حد تک فوجی تربیت بھی دی جانی چاہیے۔
۶۔ اس کے لیے اساتذہ کا انتخاب بھی صرف علمی قابلیت کی بِنا ہی پر نہ ہونا چاہیے بلکہ اس کے تمام اساتذہ اپنے عقائد ونظریات اور اپنی عملی زندگی کے لحاظ سے صالح اور متقی ہونے چاہییں۔ اس جامعہ کے لیے گہری چھان بین کے بعد ایسے اساتذہ کو عالم اسلامی کے مختلف ممالک سے منتخب کیا جائے جو اعلیٰ درجہ کی علمی قابلیت رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے عقائد وافکار کے لحاظ سے بھی پورے مسلمان ہوں۔ عملاً احکام اسلامی کا اتباع کرنے والے ہوں اور مغربی ثقافت سے شکست خوردہ نہ ہوں بلکہ میں تو یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اس جامعہ کے لیے جن اساتذہ کومنتخب کیا جائے ان کے متعلق یہ اطمینان بھی کر لیا جائے کہ ان کے گھر والے بھی حدود شریعہ کی پابندی سے آزاد نہ ہوں، اس لیے کہ جامعہ کے حدود میں اگر طلبہ کے ساتھ ایسے اساتذہ رہیں، جن کے گھر کی خواتین تبرج جاہلیت میں مبتلا ہوں اور جن کے گھر سے نغموں کی آوازیں بلند ہوتی رہیں تو طلبہ کو ان سے کوئی اچھا سبق نہ مل سکے گا۔
۷۔ اس کے طلبہ کو ایسی تربیت دینی چاہیے کہ ان میں خصوصیّت کے ساتھ حسب ذیل اوصاف پیدا ہوں:
(الف) اسلام اور ا س کی تہذیب پر فخر اور اسے دنیا پر غالب کرنے کا عزم۔
(ب) اسلامی اخلاق سے اتصاف اور اسلامی احکام کی پابندی۔
(ج) دین میں تفقہ اورمجتہدانہ بصیرت۔
(د) تنگ نظرانہ فرقہ بندی سے پاک ہونا۔
(ھ) تحریر وتقریر اور بحث کی عمدہ صلاحیتیں اور تبلیغ دین کے لیے مناسب قابلیتیں۔
(و) جفاکشی، محنت ، چستی ، اور اپنے ہاتھ سے ہر طرح کے کام کر لینے کی صلاحیت۔
(ز) تنظیم وانتظام اور قیادت کی صلاحیتیں۔
۸۔ اس میں صرف وہ لوگ داخل کیے جانے چاہییں جو ثانوی تعلیم کے مرحلے سے فارغ ہو چکے ہوں۔ عرب ممالک سے آنے والے طلبہ براہ راست اس میں داخل ہو سکتے ہیں۔ لیکن غیر عرب ممالک کے طلبہ اگر عربی زبان میں کافی استعداد نہ رکھتے ہوں توان کے لیے کم از کم ایک سال کا کورس الگ ہونا چاہیے تاکہ انھیں عربی زبان کی کتابوں سے استفادہ کے قابل بنایا جا سکے۔
یونی ورسٹی کے تعلیمی مراحل:
۹۔ اس کی تعلیم کو ۹ سال کے تین مرحلوں پر مشتمل ہونا چاہیے۔ مرحلہ اولیٰ ۴ سال مرحلہ ثانیہ ۳ سال اور مرحلہ ثالثہ ۲ سال۔
مرحلہ اولیٰ کا نصاب
۱۰۔ مرحلہ اولیٰ میں حسب ذیل مضامین کی تعلیم ہونی چاہیے اور انھیں تعلیم کی چار سالہ مدت پر مناسب طریقے سے تقسیم کر دینا چاہیے۔
(الف) عقائد اسلام، اس تفصیل کے ساتھ کہ قرآن وسنت کی رو سے اسلام کے عقائد کیا ہیں اور ان کے حق میں کیا نقلی اور کیا عقلی دلائل ہیں۔ اس سلسلے میں اختصار کے ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ مسلمانوں میں یہ اختلاف عقائد کیسے اور کس ترتیب سے رونما ہوا ہے اور اس لحاظ سے دنیائے اسلام میں اس وقت کتنے مذہب پائے جاتے ہیں اس درس کو بیان علمی کے حدود سے متجاوز نہ ہونا چاہیے اور حربِ عقائد سے حتی الامکان پرہیز کرنا چاہیے۔
(ب) اسلامی نظامِ حیات، اس مضمون میں طلبہ کو پورے اسلامی نظام سے روشناس کرا دیا جائے۔ اسلام کی بنیاد کِن اساسی تصوّرات پر قائم ہے، ان تصوّرات کی بِنا پر وہ اخلاق اور سیرت کی تشکیل کس طرح کرتا ہے۔ پھر گھر اور خاندان سے لے کر معیشت، سیاست اور بین الاقوامی تعلقات تک مسلم سوسائٹی کی زندگی کے مختلف شعبوں کو وہ کن اصولوں پر منظم کرتا ہے اور اس سے پوری اسلامی تہذیب کی کیا شکل بنتی ہے۔
(ج) قرآن، چار سال کی مدت میں پورا قرآن مختصر تفسیر کے ساتھ پڑھا دیا جائے۔ اس کے لیے تفسیر کی کوئی خاص کتاب مقرر کرنے کی بجائے استاد کو خود کتب تفاسیر سے استفادہ کرتے ہوئے اس طرح قرآن کا درس دینا چاہیے کہ طلبہ کتابِ الٰہی کا مقصود ومدعا اچھی طرح سمجھ لیں اور جو شکوک وشبہات ان کے ذہن میں پیدا ہوں وہ رفع کر دیے جائیں۔
(د) حدیث، اس مضمون میں اجمالاً تاریخِ علمِ حدیث، اصولِ حدیث اور دلائل حجیت حدیث سے طلبہ کو ضروری حد تک آگاہ کرنے کے بعد سنن کے مجموعوں میں سے کوئی ایک کتاب مکمل پڑھا دی جائے۔ مثلاً منتقی الاخبار یا بلوغ المرام یا مشکوٰۃ المصابیح۔
(ہ) فقہ۔ اس مضمون میں تاریخِ فقہ اور اُصولِ فقہ پر ایک ایک مختصر کتاب پڑھانے کے بعد طلبہ کو فقہ کی تعلیم اس طرح دی جائے کہ وہ مسائلِ فقیہہ میں مختلف فقہا کے مذاہب سے بھی واقف ہوتے جائیں اور انھیں یہ بھی معلوم ہو جائے کہ ماخذِ شریعت سے ائمہ مجتہدین نے کس طرح مسائل کا استنباط کیا ہے۔
(و) تاریخِ اسلام۔ اس کا آغاز تاریخِ انبیا علیہم السلام سے کیا جائے اور پھر خصوصیّت کے ساتھ سیرت محمدی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اور خلفائے راشدینؓ کے دور کو زیادہ سے زیادہ تفصیل کے ساتھ پڑھانے کے بعد، مختصرًا پوری اسلامی تاریخ سے طلبہ کو روشناس کرا دیا جائے۔
(ز) علومِ عمران (social sciences)۔ خصوصاً معاشیات، سیاسیات اور سوشیالوجی۔ ان مضامین کی تعلیم کے لیے ایسے اساتذہ کا انتخاب کیا جائے جواسلامی نقطہ نظر سے تنقید کے ساتھ تعلیم دے سکیں۔ مغربی افکار ونظریات جوں کے توں طلبہ کے ذہن میں نہ اتار دیں۔
(ح) ادیانِ عالم، خصوصاً یہودیت، عیسائیت، بودھ مذہب اور ہندو مذہب سے اجمالی واقفیّت۔
(ط) جدید مغربی افکار کی مختصر تاریخ اور ان کے مذاہب، خصوصاً مغربی جمہوریّت، اشتراکیّت اور فسطائیت وغیرہ۔
(ی) انگریزی، جرمن، اور فرنچ میں سے کوئی ایک زبان۔
مرحلہ ثانیہ کا نصاب
۱۰۔ مرحلہ ثانیہ میں پانچ فیکلٹیاں ہونی چاہییں۔ تفسیر، حدیث، فقہ، علم الکلام، اور تاریخ۔
۱۱۔ تفسیر کی فیکلٹی میں حسب ذیل مضامین ہونے چاہییں:
(۱) تاریخ القرآن
(۲) تاریخ علمِ تفسیر اور مفسرین کے مختلف مذاہب اوران کی خصوصیات
(۳) اختلافِ قرأت
(۴) اُصولِ تفسیر
(۵) قرآن مجید کا تفصیلی اور گہرا مطالعہ
(۶) مخالفین کی طرف سے قرآن پر آج تک جتنے اعتراضات کیے گئے ہیں ان کا جائزہ اور ان کے جوابات۔
(۷) احکامِ قرآن
۱۲۔ حدیث کی فیکلٹی میں
(۱) تاریخ وتدوینِ حدیث
(۲) علومِ حدیث اپنے تمام شعبوں کے ساتھ
(۳) حدیث کی امہات کتب میں سے کوئی ایک کتاب تفصیلی تنقید کے ساتھ، تا کہ طلبہ کو محدثانہ طریقے پر احادیث کے پرکھنے کی اچھی طرح مشق ہو جائے۔
(۴) کتبِ صحاح پرایک جامع نظر۔
(۵) حدیث پرمخالفین کی طرف سے اب تک جتنے اعتراضات کیے گئے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ اور ان کے جوابات
۱۳۔ فقہ کی فیکلٹی میں
(۱) اصولِ فقہ
(۲) تاریخِ فقہ
(۳) فلسفۂ قانونِ جدید
(۴) رومی وایرانی قوانین، یہودی شریعت، جدید وضعی قوانین اور اسلامی قوانین کا تقابلی مطالعہ۔
(۵) فقہائے اسلام کے مختلف مذاہب اور ان کے اصول
(۶) قرآن وسنت سے براہ راست استنباطِ مسائل کی مشق
(۷) اہلِ سنت کے چاروں مذاہب کی فقہ اور اس کے ساتھ فقہ ظاہری، فقہ زیدی، اور فقہ جعفری بھی۔
۱۴۔ علم الکلام کی فیکلٹی میں
(۱) مبادی منطق
(۲) فلسفہ قدیم وجدید
(۳) مسلمانوں میں علم کلام کے آغاز سے اب تک کی تاریخ اور اُن مذاہب کی تفصیل جو اندرونی اور بیرونی اثرات سے مسلمانوں کے اندر پیدا ہوئے ہیں۔
(۴) علم الکلام کے مسائل اور ان میں قرآن وسنت کی راہ نمائی۔
(۵) اسلام پر مخالفین کے اعتراضات کا تفصیلی جائزہ اور اس کے جوابات
(۶) تقابلِ ادیان خصوصاً مسیحیت کی تاریخ، اور اس کے فرقوں، اور اس کے علم کلام کا تفصیلی مطالعہ۔
(۷) مسیحی مشنریوں کا کام اور ان کے طریقے۔
۱۵۔ تاریخِ اسلام کی فیکلٹی میں
(۱) فلسفۂ تاریخ، مقصدِ مطالعہ تاریخ، اور طرزِ مطالعہِ تاریخ قرآن مجید کی رو سے۔
(۲) فلسفۂ تاریخ کے مختلف مذاہب ابن خلدون سے اب تک
(۳) تاریخ عرب وشرقِ اوسط قبل اسلام
(۴) تاریخ اسلام عہدِ نبوی سے اب تک بلحاظ فکر، اخلاق، علوم، تمدن وسیاست
(۵) تجدید واحیائے دین کی تحریکات
(۶) مسلمان ممالک پر مغربی استعمار کے غلبہ کی تاریخ اور اس کے اثرات ونتائج
مرحلہ ثالثہ کا کام
۱۶۔ مرحلہ ثالثہ میں داخل ہونے والا طالب علم مذکورہ بالا فیکلیٹیوں میں سے کسی ایک میں کسی خاص موضوع پر دو سال تک علمی تحقیق کرنے کے بعد کوئی مقالہ پیش کرے گا جسے اہل علم جانچنے کے بعد اسے سندِ فضیلت دیں گے۔
۱۷۔ اس جامعہ کے لیے ایک اعلیٰ درجہ کی لائبریری ہونی چاہیے جس میں جامعہ کی مذکورہ بالا ضروریات کے مطابق وسیع پیمانے پر کتابیں فراہم کی جائیں۔
۱۸۔ ایک کمیٹی کا تقرر اس غرض کے لیے کیا جائے کہ جامعہ کی تعلیم کے مختلف مراحل اور شعبوں کے لیے مناسب کتابوں کا انتخاب کرے۔
۱۹۔ ایک اکیڈمی کا قیام اس غرض کے لیے کہ جامعہ کی ضروریات کے لیے مناسب ترین کتابیں تیار کرے۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں