Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
تصریح
دیباچہ
باب اوّل: سُنّت کی آئینی حیثیت
ڈاکٹر صاحب کا پہلا خط
جواب
ڈاکٹر صاحب کا دوسرا خط
جواب
سُنّت کیا چیز ہے؟
سُنّت کس شکل میں موجود ہے؟
کیا سُنّت متفق علیہ ہے؟ اور اس کی تحقیق کا ذریعہ کیا ہے؟
چار بنیادی حقیقتیں
دوسرے خط کا جواب
چار نکات
نکتۂ اُولیٰ
رسول اللّٰہa کے کام کی نوعیت
حضور a کی شخصی حیثیت اور پیغمبرانہ حیثیت کا فرق
قرآن سے زائد ہونا اور قرآن کے خلاف ہونا ہم معنی نہیں ہے
کیا سُنّت قرآن کے کسی حکم کو منسوخ کر سکتی ہے؟
نکتۂ دوم
نکتۂ سوم
احادیث کو پرکھنے میں روایت اور درایت کا استعمال
نکتۂ چہارم
اشاعت کا مطالبہ
باب دوم: منصبِ نبوت
ڈاکٹر صاحب کا خط
جواب
۱۔ منصب ِنبوّت اور اس کے فرائض
۲۔ رسول پاکﷺ کے تشریعی اختیارات
۳۔ سُنّت اور اتباع سُنّت کا مفہوم
۴۔رسولﷺ پاک کس وحی کے اتباع پر مامور تھے، اور ہم کس کے اتباع پر مامور ہیں؟
۵۔ مرکزِ ملّت
۶۔ کیا حضورﷺ صرف قرآن پہنچانے کی حد تک نبی تھے؟
۷۔ حضورﷺ کی اجتہادی لغزشوں سے غلط استدلال
۸۔ موہوم خطرات
۹۔ خلفائے راشدین پر بہتان
۱۰۔ کیا حضورﷺ پر قرآن کے علاوہ بھی وحی آتی تھی؟
سُنّت کے متعلق چند مزید سوالات
جواب
وحی پر ایمان کی وجہ
مَااَنْزَلَ اللّٰہُ سے کیا چیز مراد ہے؟
سُنّت کہاں ہے؟
وحی سے مراد کیا چیز ہے؟
محض تکرارِ سوال
ایمان وکفر کا مدار
کیا احکامِ سُنّت میں رد وبدل ہو سکتا ہے؟
باب سوم : اعتراضات اور جوابات
۱۔ بزمِ طلوع اِسلام سے تعلق؟
۲۔ کیا گشتی سوال نامے کا مقصد علمی تحقیق تھا؟
۳۔ رسولﷺ کی حیثیت ِ شخصی و حیثیتِ نبویﷺ
۴۔ تعلیماتِ سنّت میں فرقِ مراتب
۵۔ علمی تحقیق یا جھگڑالو پن؟
۶۔ رسولﷺ کی دونوں حیثیتوں میں امتیاز کا اصول اور طریقہ
۷۔ قرآن کی طرح احادیث بھی کیوں نہ لکھوائی گئیں؟
۸۔ دجل وفریب کا ایک نمونہ
۹۔ حدیث میں کیا چیز مشکوک ہے اور کیا مشکوک نہیں ہے
۱۰۔ ایک اور فریب
۱۱۔ کیا امت میں کوئی چیز بھی متفق علیہ نہیں ہے؟
۱۲۔ سُنّت نے اختلافات کم کیے ہیں یا بڑھائے ہیں؟
۱۳۔ منکرینِ سُنّت اور منکرینِ ختم نبوت میں مماثلت کے وجوہ
۱۴۔ کیا آئین کی بنیاد وہی چیز ہو سکتی ہے جس میں اختلاف ممکن نہ ہو؟
۱۵۔ قرآن اور سُنّت دونوں کے معاملے میں رفعِ اختلاف کی صورت ایک ہی ہے
۱۶۔ ایک دل چسپ مغالطہ
۱۷۔ شخصی قانون اور ملکی قانون میں تفریق کیوں؟
۱۸۔ حیثیت ِرسول ﷺ کے بارے میں فیصلہ کن بات سے گریز
۱۹۔ کیا کسی غیر نبی کو نبی کی تمام حیثیات حاصل ہو سکتی ہیں
۲۰۔ اِسلامی نظام کے امیر اور منکرینِ حدیث کے مرکزِ ملت میں عظیم فرق
۲۱۔ عہد رسالت میں مشاورت کے حدود کیا تھے؟
۲۲۔ اذان کا طریقہ مشورے سے طے ہوا تھا یا الہام سے؟
۲۳۔ حضورﷺ کے عدالتی فیصلے سند وحجت ہیں یا نہیں؟
۲۴۔ کج بحثی کا ایک عجیب نمونہ
۲۵۔ کیا اللہ تعالیٰ بھی غلطی کرسکتا ہے؟
۲۶۔حضورﷺ کے ذاتی خیال اور بربنائے وحی کہی ہوئی بات میں واضح امتیاز تھا
۲۷۔ کیا صحابہؓ اس بات کے قائل تھے کہ حضورﷺ کے فیصلے بدلے جا سکتے ہیں؟
۲۸۔ مسئلہ طلاق ثلاثہ میں حضرت عمرؓ کے فیصلے کی اصل نوعیت
۲۹۔ مؤلفۃ القلوب کے بارے میں حضرت عمرؓ کے استدلال کی نوعیت
۳۰۔ کیا مفتوحہ اراضی کے بارے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ حکم رسولﷺ کے خلاف تھا؟
۳۱۔ وظائف کی تقسیم کے معاملے میں حضرت عمرؓ کا فیصلہ
۳۲۔ کیا قرآن کے معاشی احکام عبوری دور کے لیے ہیں؟
۳۳۔ ’’عبوری دور‘‘ کا غلط مفہوم
۳۴۔ حضورﷺکیا صرف شارح قرآن ہی ہیں یا شارع بھی؟
۳۵۔ بصیرت رسولﷺ کے خداداد ہونے کا مفہوم
۳۶۔ وحی کی اقسام ازروئے قرآن
۳۷۔ وحی غیرمتلو پر ایمان، ایمان بالرسول کا جُز ہے
۳۸۔ کیا وحی غیر متلو بھی جبریل ہی لاتے تھے؟
۳۹۔ کتاب اور حکمت ایک ہی چیز یا الگ الگ
۴۰۔ لفظ تلاوت کے معنی
۴۱۔ کتاب کے ساتھ میزان کے نزول کا مطلب
۴۲۔ ایک اور کج بحثی
۴۳۔ تحویلِ قبلہ والی آیت میں کون سا قبلہ مراد ہے؟
۴۴۔ قبلے کے معاملے میں رسولﷺ کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا سوال کیسے پیدا ہوتا تھا؟
۴۵۔ نبی پر خود ساختہ قبلہ بنانے کا الزام
۴۶۔ لَقَدْ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلَہُ الرُّؤْیَا کا مطلب
۴۷۔ کیا وحی خواب کی صورت میں بھی ہوتی ہے؟
۴۸۔ بے معنی اعتراضات اور الزامات
۴۹۔ کیا آنحضورﷺ نے صحابہؓ کو دھوکا دیا تھا؟
۵۰۔ کیا آنحضورﷺ اپنے خواب سے متعلق متردد تھے؟
۵۱۔دروغ گویم بر رُوئے تو
۵۲۔ رُو در رُو بہتان
۵۳۔ نَبَّأَنِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ کا مطلب

سنت کی آئینی حیثیت

انکار سنت کا فتنہ اسلامی تاریخ میں سب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں اُٹھا تھا اور اس کے اُٹھانے والے خوارج اور معتزلہ تھے۔ خوارج کو اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ مسلم معاشرے میں جو انارکی وہ پھیلانا چاہتے تھے، اس کی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ سنت حائل تھی جس نے اس معاشرے کو ایک نظم و ضبط پر قائم کیا تھا، اور اس کی راہ میں حضور کے وہ ارشادات حائل تھے جن کی موجودگی میں خوارج کے انتہا پسندانہ نظریات نہ چل سکتے تھے۔ اس بنا پر اُنھوں نے احادیث کی صحت میں شک اور سنت کے واجب الاتباع ہونے سے انکار کی دو گونہ پالیسی اختیار کی۔ معتزلہ کو اس کی ضرورت اس لیے لاحق ہوئی کہ عجمی اور یونانی فلسفوں سے پہلا سابقہ پیش آتے ہی اسلامی عقائد اور اصول و احکام کے بارے میں جو شکوک و شبہات ذہنوں میں پیدا ہونے لگے تھے، اُنھیں پوری طرح سمجھنے سے پہلے وہ کسی نہ کسی طرح اُنھیں حل کر دینا چاہتے تھے۔ خود ان فلسفوں میں ان کو وہ بصیرت حاصل نہ ہوئی تھی کہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ان کی صحت و قوت جانچ سکتے۔ اُنھوں نے ہر اس بات کو جو فلسفے کے نام سے آئی، سراسر عقل کا تقاضا سمجھا اور یہ چاہا کہ اسلام کی عقائد اور اصولوں کی ایسی تعبیر کی جائے جس سے وہ ان نام نہاد عقلی تقاضوں کے مطابق ہو جائیں۔ اس راہ میں پھر وہی حدیث و سنت مانع ہوئی۔ اس لیے اُنھوں نے بھی خوارج کی طرح حدیث کو مشکوک ٹھیرایا اور سنت کو حجت ماننے سے انکار کیا۔ اس کتاب میں مولانا مودودیؒ نے مخالفانہ دلائل کو ایک ایک کرکے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ سید مودودیؒ کتاب کے آخر میں رقم طراز ہیں: ”ہم نے ایک ایک دلیل کا تفصیلی جائزہ لے کر جو بحث کی ہے اسے پڑھ کر ہر صاحب علم آدمی خود یہ رائے قائم کر سکتا ہے کہ ان دلائل میں کتنا وزن ہے اور ان کے مقابلے میں سنت کے ماخذ قانون اور احادیث کے قابل استناد ہونے پر جو دلیلیں ہم نے قائم کی ہیں وہ کس حد تک وزنی ہیں۔ ہم خاص طور پر خود فاضل جج سے اور مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور ان کے رفقا سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ پورے غور کے ساتھ ہماری اس تنقید کو ملاحظہ فرمائیں اور اگر ان کی بے لاگ رائے میں، جیسی کہ ایک عدالت عالیہ کے فاضل ججوں کے رائے بے لاک ہونی چاہیے، یہ تنقید فی الواقع مضبوط دلائل پر مبنی ہو تو وہ قانون کے مطابق کوئی ایسی تدبیر عمل میں لائیں جس سے یہ فیصلہ آئیندہ کے لیے نظیر نہ بن سکے۔ عدالتوں کا وقار ہر ملک کے نظام عدل و انصاف کی جان ہوتا ہے اور بہت بڑی حد تک اسی پر ایک مملکت کے استحکام کا انحصار ہوتا ہے۔ اس وقار کے لیے کوئی چیز اس سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں ہے کہ ملک کی بلند ترین عدالتوں کے فیصلے علمی حیثیت سے کمزور دلائل اور ناکافی معلومات پر مشتمل ہوں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ جب ایمان دارانہ تنقید سے ایسی کسی غلطی کی نشان دہی ہو جائے تو اولین فرصت میں خود حاکمان عدالت ہی اس کی تلافی کی طرف توجہ فرمائیں۔“ حدیث کے حوالے سے شکوک وشبہات کا اظہار کرنے والے افراد کے لیے اس کتاب کو پڑھنا بہت اہم ہے۔

باب چہارم: عدالتِ عالیہ مغربی پاکستان کا ایک اہم فیصلہ

ترجمہ : از ملک غلام علی صاحب
جناب جسٹس محمد شفیع صاحب، جج مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے جس فیصلے کے بیش تر حصے کا ترجمہ ذیل میں دیا جا رہا ہے، یہ دراصل ایک اپیل کا فیصلہ ہے جس میں اصل مسئلہ زیر بحث یہ تھا کہ ایک بیوہ اپنی نابالغ اولاد کی موجودگی میں، اگر ایسے مرد سے نکاح ثانی کر لے جو اولاد کے لیے غیر محرم ہو، تو ایسی صورت میں آیا، اس بیوہ کے لیے اس اولاد کی حضانت کا حق باقی رہتا ہے یا نہیں؟ اس امر متنازعہ فیہ کا فیصلہ کرتے ہوئے فاضل جج نے بڑی تفصیل کے ساتھ ان اصولی مسائل پر بھی اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے کہ اِسلام میں قانون کا تصور، اور قانون سازی کا طریق کیا ہے، قرآن کے ساتھ حدیث کو بھی مسلمانوں کے لیے ماخذ قانون تسلیم کیا جا سکتا ہے یا نہیں، اور بالخصوص پاکستان کے مسلمانوں کی اکثریت کہاں تک فقہ حنفی کے قواعد وضوابط کی پابند سمجھی جا سکتی ہے؟ اس لحاظ سے یہ فیصلہ اِسلامی قانون کے اساسی اور اہم ترین مسائل کو اپنے دائرۂ بحث میں لے آیا ہے۔
اس فیصلے کے جو حصے اصل مقدمے سے متعلق ہیں ان کو چھوڑ کر صرف اس کے اصولی مباحث کا ترجمہ یہاں دیا جا رہا ہے۔ بعض مقامات پر فیصلے میں جو قرآنی آیات نقل کی گئی ہیں انھیں معہ ترجمہ درج کرنے کے بجائے صرف سورۃ اور آیات کا نمبر دے دیا گیا ہے۔ یہ ترجمہ پی۔ ایل۔ ڈی ۱۹۶۰ء لاہور (ص ۱۱۴۲تا ۱۱۷۹) کے مطبوعہ متن کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہے۔ اصل اور مکمل فیصلہ وہیں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ (غلام علی)
۴۔ بالفرض اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ولی کا تقرر ضروری تھا اور گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ کی دفعہ نمبر ۱۷ کا اطلاق اس مقدمے پر ہوتا تھا، تب ایک بڑا فیصلہ طلب سوال جو ہمارے سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے کہ وہ قانون کیا ہے جس کا ایک نابالغ پابند ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نابالغان اور ان کے والدین مسلمان ہیں اور مسلم لا کے تابع ہیں۔ لیکن اس سوال کا جواب آسان نہیں ہے کہ ولایت نابالغ کے معاملے میں کون سا قانون ہے جس کی پابندی لازم ہے۔ تقریباً تمام کی تمام کتابیں، جن میں سے بعض انتہائی مشہور ومعروف اور قابل احترام قانون دانوں اور ججوں کی تصانیف ہیں، ایسے قواعد وضوابط پر مشتمل ہیں، جن کی پابندی نابالغان کی ذات اور جائیداد کی ولایت کے معاملے میں، ایک عرصۂ دراز سے ہندو پاکستان میں کی جا رہی ہے۔ درحقیقت ہندستان کی جملہ عدالتیں بشمول سپریم کورٹ، برطانوی عہد قبل تقسیم سے لے کر اب تک ان قواعد کی سختی سے پابندی کرتی رہی ہیں۔ اس امر کا امکان موجود ہے کہ برطانوی حکومت سے پہلے کے قاضی اور ماہرین قانون بھی ان قواعد وضوابط کی پیروی کرتے رہے ہوں اور بعد میں بھی ان کی پابندی کی جاتی رہی ہو، کیوں کہ مسلمان قانون دان یہ نہیں چاہتے تھے کہ انگریز یا دوسرے غیر مسلم اپنے مقصد کے مطابق قرآن پاک کی تفسیر وتعبیر کریں اور قوانین بنائیں۔ فتاوٰی عالمگیری کو مسلم قانون سے تعلق رکھنے والے تمام معاملات میں جو اہمیت حاصل ہے، وہ اس حقیقت کی صاف نشاندہی کرتی ہے لیکن اب حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ یہ قواعد وضوابط مختصراً درج ذیل ہیں:
(اس کے بعد پیرا گراف۴ کے بقیہ حصے اور پیراگراف ۵، ۶ میں فاضل جج نے مسئلہ حضانت کے بارے میں حنفی، شافعی اور شیعہ فقہ کی تفصیلات بیان فرمائی ہیں)
۷۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، اصل تصفیہ طلب سوال یہ ہے کہ کیا کسی درجے کی قطعیت کے ساتھ ان قواعد کو اِسلامی قانون کہا جا سکتا ہے۔ جسے وہی لزوم کا مرتبہ حاصل ہو جو ایک کتاب آئین میں درج شدہ قانون کو حاصل ہوتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ آیا یہ وہی قانون ہے جس کی پابندی گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ کی دفعہ نمبر ۱۷ کے منشا کے مطابق ایک مسلم نابالغ پر واجب ہے؟
۸۔ مسلمان کے عقیدے کی رو سے، قطع نظر اس کے کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتا ہے، جو قانون اس کی زندگی کے ہرشعبے میں حکم ران ہونا چاہیے، خواہ وہ اس کی زندگی کا مذہبی شعبہ ہو یا سیاسی، یا معاشرتی یا معاشی، وہ صرف خدا کا قانون ہے۔ اللّٰہ ہی حاکم اعلیٰ ہے، علیم وحکیم ہے اور قادر مطلق ہے۔ اِسلام میں خدا اور بندے کے مابین تعلق سادہ اور بلاواسطہ ہے۔ کوئی پیشوا، امام، پیر یا کوئی دوسرا شخص (خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ، قبر میں ہو یا قبر سے باہر ہو) اس تعلق کے مابین وسیلہ بن کر حائل نہیں ہو سکتا۔ ہمارے ہاں پیشہ ورانہ پیشوائوں کا کوئی ایسا ادارہ موجود نہیں جواپنی لعنت کی دھمکی دے کر اور خدا کے غضب کا اجارہ دار بن کر، اپنے مزعومات کو تحکمانہ انداز میں ہم پر ٹھونسے۔ قرآن نے جو حدود مقرر کر دئیے ہیں، ان کے اندر مسلمانوں کو سوچنے اور عمل کرنے کی پوری آزادی ہے۔ اِسلام میں ذہنی اور روحانی حریت کی فضا موجود ہے۔ چوں کہ قانون انسانی آزادی پر پابندیاں عائد کرنے والی طاقت ہے اس لیے خدا نے قانون سازی کے اختیارات پوری طرح اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ اِسلام میں کسی شخص کو اس طرح کام کرنے کا اختیار نہیں ہے گویا کہ وہ دوسروں سے بالاتر ہے۔ قرآن انفرادیت پسندی کو ختم کر دینا چاہتا ہے۔ اِسلام نے عالمگیر اخوت اور کامل مساوات کا سبق دے کر اپنے اخلاقی نظام کے اندر انسان پر سے انسان کے تفوق اور برتری کو بالکلیہ ختم کر دیا ہے‘خواہ وہ برتری علمی دائرے میں ہو یا زندگی کے دوسرے دوائر میں۔ دُنیا بھر کے مسلمان نہیں تو کم از کم ایک ملک کے مسلمانوں کا ایک ہی لڑی میں پرویا جانا ضروری ہے۔ اِسلامی ریاست میں ایسے شخص کا وجود ناممکن ہے جو مطلق العنانی اور شہنشاہانہ اختیارات کا مدعی ہو۔ ایک اِسلامی ریاست کے صدر کا کام بھی صحیح معنوں میں یہ ہے کہ وہ اللّٰہ کے احکام وفرامین پر عمل درآمد کرے۔ قرآن، بلکہ اِسلام اس تصور سے قطعًاناآشنا ہے کہ ایک آدمی تمام مسلمانوں کے لیے قانون وضع کرے۔ قرآن مجید بتکرار اور باصرار اس امر کا اعلان کرتا ہے کہ اللّٰہ اور صرف اللّٰہ ہی دُنیا وآخرت کا بادشاہ ہے اور اس کے احکام آخری اور قطعی ہیں۔ سورۃ:۶ آیت:۵۷، سورۃ۱۲ آیت ۴۰ اور ۶۷ میں فرمایا گیا ہے کہ حکم ران صرف اللّٰہ ہے۔ اسی طرح سورہ ۴۰: آیت ۱۲ میں فرمایا گیا ہے:
فَالْحُكْمُ لِلہِ الْعَلِيِّ الْكَبِيْرِo
پس فیصلہ اللّٰہ کے لیے ہے جو برتر اور بزرگ ہے۔
یہ بات سورۃ ۵۹:۲۳۔۲۴ سے بھی واضح ہے کہ حاکم اعلیٰ اللّٰہ کی ذات ہے:
ہُوَاللہُ الَّذِيْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ۝۰ۚ اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ۝۰ۭ سُبْحٰنَ اللہِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَo ہُوَاللہُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَہُ الْاَسْمَاۗءُ الْحُسْنٰى۝۰ۭ يُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۚ وَہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُo
وہی اللّٰہ ہے کہ نہیں کوئی الٰہ سوا اُس کے، پادشاہ ہے، پاک ہے، سلامتی والا ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، زبردست ہے، غالب ہے اور بڑائی والا ہے۔ پاک ہے اس سے جسے وہ شریک کرتے ہیں۔ وہی اللّٰہ ہے، خالق ہے، بنانے والا ہے، صورت گری کرتا ہے، اس کے لیے ہیں بہت اچھے نام۔ پاکیزگی بیان کرتی ہے اس کی ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اوروہ زبردست دانا ہے
۹۔ نبی ﷺ اور ان کے چاروں خلفا کا عمل اس بات کی واضح شہادت فراہم کرتا ہے کہ بادشاہت اِسلام کے قطعًا منافی ہے، ورنہ ان کے لیے اس سے آسان تر بات کوئی نہیں تھی کہ وہ مسلمان قوم کے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیتے۔ اگر وہ ایسا کر دیتے تو ان کے دعوے کو فورًا تسلیم کر لیا جاتا، کیوں کہ ان کی صلاحیت، دیانت اور استقامت شک وشبہے سے بالاتر تھی۔ یہ بات بھی پورے اعتماد کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ وہ نہ یہ یقین رکھتے تھے اور نہ اس کا اعلان ہی کرتے تھے کہ وہ اِسلامی دُنیا کے خود مختار اور مطلق العنان فرماں روا ہیں۔ وہ جو کام بھی کرتے تھے، دوسرے مسلمانوں کے باہمی مشورے سے کرتے تھے۔ تمام مسلمان ایک ہی برادری میں شریک تھے جو اُن کے یا دوسرے لفظوں میں اِسلامی عقیدے کا لازمی تقاضا تھا، اس عقیدے کا عین مزاج یہ تھا کہ انسان پر سے انسان کی فوقیت کا خاتمہ ہو گیا اور اجتماعی فکر اور اجتماعی عمل کے لیے دروازہ کھل گیا۔ نہ کوئی حاکم تھا، نہ کوئی محکوم، نہ کوئی پروہت تھا نہ کوئی پیر۔ ہر شخص امام بن سکتا تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اسے ان لوگوں کی پیروی کرنی پڑتی تھی جو تقوٰی یا کسی دوسرے لحاظ سے اس پر فایق تھے۔ امیر معاویہؓ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اخوت اِسلام پر ایک کاری ضرب لگائی اور اپنے لڑکے کو ریاست کا جانشین نامزد کرکے پوری قوم کو اپنے خاندان کے عوض میں گرو کر دیا۔ ہمارے جمہوریت پسند رسول کی وفات کے جلد ہی بعد اِسلام کی لائی ہوئی جمہوریت کو امپیریلزم میں تبدیل کر دیا گیا۔ معاویہؓ نے نسلی خلافت کا آغاز کرکے اِسلام کی جڑ پر تیشہ رکھ دیا۔ محمد رسول اللّٰہﷺ اگرچہ اپنے بعض قرابت داروں سے بڑی مَحبّت رکھتے تھے، لیکن انھوں نے ان میں سے کسی کو بھی اپنے بعد امت مسلمہ کا سربراہ مقرر نہیں کیا۔ ہمیشہ آپﷺ کی روش نمایاں طورپر جمہوری رہی۔ معاویہ کے مرنے کے بعد ان کے بیٹے نے ان کے حسبِ منشا خلافت پر غاصبانہ قبضہ جما لیا اور خود نبی کے نواسے نے یزید کی اس خلاف ورزیِٔ قرآن کا سد باب کرنے کے لیے اپنی اور اپنے عزیزوں کی جانوں کو قربان کر دیا۔ یہ بنو امیہ کا پراپیگنڈہ تھا کہ امام حسینؓ نے اپنی جان اس لیے دی تاکہ وہ خلافت کے حق کو اہل بیت کے لیے محفوظ کر سکیں۔ یہ پراپیگنڈہ بالکل جھوٹا تھا اور یہ عجیب بات ہے کہ شیعہ حضرات بھی اس پراپیگنڈے کا ارتکاب کیے جا رہے ہیں۔ بد قسمتی سے امام حسینؓ کو کامیابی حاصل نہ ہو سکی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بادشاہت اور استبداد مسلمانوں کے اندر ایک مُسلَّم قاعدے کی حیثیت اختیار کر گئے۔ اس کے بعد مسلمانوں کے لیے اپنے امیر کے انتخاب میں کوئی اختیار باقی نہ رہا اور اپنے معاملات کے کنٹرول میں ان کا کوئی دخل نہ رہا۔ معاویہ نے جس کام کا آغاز کیا اس کا شاید کوئی فوری خراب نتیجہ برآمد نہ ہوا، لیکن آخر کار اس نے مسلم سوسائٹی کے صحت مندانہ ارتقا اور نشوونما کو ناگزیر طور پر متاثر کیا اور آج اقوام عالم کی برادری میں اس کی حیثیت ثانوی بن کر رہ گئی ہے۔
۱۰۔ قرآن مجید کی رو سے مسلمانوں کا امیر صرف وہ شخص ہو سکتا ہے جو علمی اور جسمانی حیثیت سے اس منصب کے لیے موزوں ہو۔ اس سے صاف طور پر امارت کی نسلی بنیاد کی نفی ہو جاتی ہے۔ اس معاملے میں مندرجہ ذیل آیات کا نقل کرنا مفید ہو گا:
وَقَالَ لَہُمْ نَبِيُّہُمْ اِنَّ اللہَ قَدْ بَعَثَ لَكُمْ طَالُوْتَ مَلِكًا۝۰ۭ قَالُوْٓا اَنّٰى يَكُوْنُ لَہُ الْمُلْكُ عَلَيْنَا وَنَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْكِ مِنْہُ وَلَمْ يُؤْتَ سَعَۃً مِّنَ الْمَالِ۝۰ۭ قَالَ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىہُ عَلَيْكُمْ وَزَادَہٗ بَسْطَۃً فِي الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ۝۰ۭ وَاللہُ يُؤْتِيْ مُلْكَہٗ مَنْ يَّشَاۗءُ۝۰ۭ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌo البقرہ 274:2
ان کے نبی نے ان سے کہا کہ اللّٰہ نے طالوت کو تمھارے لیے بادشاہ مقرر کیا ہے۔ وہ بولے: ہم پر بادشاہ بننے کا وہ کیسے حقدار ہو گیا حالانکہ اس کے مقابلے میں بادشاہی کے ہم زیادہ مستحق ہیں۔ وہ تو کوئی بڑا مالدار آدمی نہیں ہے۔ نبی نے کہا: اللّٰہ نے تمھارے مقابلے میں اس کو منتخب کیا ہے اور اس کو دماغی اور جسمانی دونوں قسم کی اہلیتیں فراوانی کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور اللّٰہ کو اختیار ہے کہ اپنا ملک جسے چاہے دے اور اللّٰہ بڑی وسعت رکھتا ہے اور سب کچھ اس کے علم میں ہے۔
۱۱۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اِسلامی قانون کے ٹھیک ٹھیک مطابق قانون سازی اللّٰہ اور صرف اللّٰہ کے لیے مخصوص ہے۔ آدم سے لے کر اب تک اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے قوانین اپنے انبیا اور رسولوں کے ذریعے سے نافذ فرمائے ہیں۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ اللّٰہ کی حکمت بالغہ اس امر کی مقتضی ہوئی کہ لوگوں کو آخری شریعت عطا کی جائے۔ یہ قانون شریعت انسانوں کی طرف محمد (ﷺ) پر وحی کی شکل میں نازل ہوا۔ یہ وحی لکھ لی گئی یا زبانی یاد کر لی گئی اور بعد میں اسے ایک کتاب کی شکل میں جمع کر دیا گیا جو قرآن مجید کے نام سے معروف ہے۔ اس کے بعد نسل انسانی کے تمام مردوں، عورتوں اور بچوں کو معاملات کا تصفیہ ان احکام کی روشنی میں کیا جانا تھا، جو اللّٰہ نے قرآن میں ارشاد فرمائے۔ یہی احکام بتاتے ہیں کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے، کیا پسندیدہ ہے اور کیا غیر پسندیدہ ہے، کیا جائز ہے اور کیا ناجائز ہے، کیا مستحب ہے اور کیا مکروہ ہے۔ غرض قرآن مجید مسلم معاشرے کی ایک لازمی بنیاد ہے۔ یہ وہ مرکز ومحور ہے جس کے گرد پورا اِسلامی قانون گردش کرتا ہے۔
۱۱۔ (الف) یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ انسانوں پر مشتمل سوسائٹی ایک نہایت پیچیدہ شے ہے۔ اگرچہ فطرت ابدی وازلی ارادے کے اظہار کا نام ہے اور یہ ایک ابدی قانون کے تابع ہے لیکن انسانی احوال وکوائف ہر زمانے اور ہرمقام کے لحاظ سے یکساں نہیں ہیں۔ شخصیات اور مادی حالات کا اجتماع مستقبل کے واقعات کے لیے کوئی نمونہ نہیں رکھتا۔ انسان کے ہزار گونہ معاملات ہیں جن میں ہزار گونہ حالات وکوائف سے سابقہ پیش آتا ہے۔ اللّٰہ کی مشیت یہ ہے کہ ہر بچہ جودُنیا میں آئے، اپنے ساتھ خیالات کی ایک نئی دُنیا لائے۔ ہر طلوع ہونے والا دن نئے اور غیر متوقع تغیرات کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ اس دُنیا میں چوں کہ انسانی حالات اور مسائل بدلتے رہتے ہیں، اس لیے اس بدلتی ہوئی دُنیا کے اندر مستقل، ناقابل تغیر وتبدل احکام وقوانین نہیں چل سکتے۔ قرآن مجید بھی اس عام قاعدے سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اسی وجہ سے قرآن نے مختلف معاملات میں چند وسیع اور عام قاعدے انسانی ہدایت کے لیے دے دئیے ہیں۔ یہ ہمیں مجرد قواعد کا ایک کامل ترین نظام اور خیر وصلاح پر مبنی ایک ضابطۂ اخلاق دیتا ہے۔ بعض خاص معاملات (مثلاً وراثت) میں یہ زیادہ واضح اور مفصل ہے۔ بعض امور ایسے ہیں جن کا ذکر تمثیل وتلمیح کے انداز میں کیا گیا ہے۔ بعض معاملات ایسے ہیں جن میں قرآن نے مکمل سکوت اختیار کیا ہے تاکہ ان معاملات میں انسان اپنا طرز عمل زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے مطابق متعین کرے۔ قرآن مجید میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ نہایت سادہ زبان میں نازل کیا گیا ہے، تاکہ ہر ایک اسے سمجھ سکے۔ بعض آیات جن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے ان کا یہاں نقل کر دینا مفید ثابت ہو گا۔
اس کے بعد فاضل جج نے سورہ۲: آیت ۲۴۲، سورہ۶: آیت۹۹، سورہ۶: آیت ۱۰۶، سورہ ۶:۱۲۷، سورہ۱۱: آیت۱، سورہ۱۲: آیت۲، سورہ ۱۵: آیت۱‘سورہ۱۷: آیت ۸۹، سورہ ۱۷: آیت ۱۰۶، سورہ ۳۹: آیت۲۸، سورہ ۵۴: آیت ۱۷، سورہ ۵۴: آیت ۲۲، سورہ ۵۷: آیت ۹، سورہ ۵۷: آیت ۱۷، سورہ ۵۷: آیت ۲۵، سورہ۳۰: آیت ۵۸، سورہ ۴۱:۴۴ نقل کی ہیں، اور ان کا ترجمہ بھی ساتھ دیا ہے۔
پس یہ امر بالکل واضح ہے کہ قرآن کا پڑھنا اور سمجھنا ایک دو آدمیوں کا مخصوص حق نہیں ہے۔ قرآن سادہ اور آسان زبان میں ہے جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے، تاکہ تمام مسلمان اگر چاہیں تو اسے سمجھ سکیں اور اس کے مطابق عمل کر سکیں۔ یہ ایک ایسا حق ہے جو ہر مسلمان کو دیا گیا ہے اور کوئی شخص، خواہ وہ کتنا ہی فاضل یا عالی مقام کیوں نہ ہو، وہ مسلمان سے قرآن پڑھنے اور سمجھنے کا حق نہیں چھین سکتا۔قرآن مجید کو سمجھتے ہوئے ایک آدمی پرانے زمانے کے لائق مفسرین کی تفاسیر سے قیمتی امداد حاصل کر سکتا ہے لیکن اس معاملے کو بس یہیں تک رہنا چاہیے۔ ان تفسیروں کو اپنے موضوع پر حرف آخر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ قرآن مجید کا پڑھنا اور سمجھنا خود اس امر کو متضمن ہے کہ آدمی اس کی تعبیر کرے اور اس کی تعبیر کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آدمی اس کو وقت کے حالات پر اور دُنیا کی بدلتی ہوئی ضرورت پر منطبق کرے۔ اس مقدس کتاب کی جو تعبیریں قدیم مفسرین، مثلاً: امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ اور امام شافعیؒ وغیرہ نے کی ہیں، جن کا تمام مسلمان اور میں خود بھی انتہائی احترام کرتا ہوں، وہ آج کے زمانے میں جوں کی توں نہیں مانی جا سکتیں۔ ان کی تعبیرات کو درحقیقت دوسرے بہت سے فضلائ نے بھی تسلیم نہیں کیا ہے جن میں ان کے اپنے شاگرد بھی شامل ہیں۔ قرآن مجید کے مختلف ارشادات کا جو غائر مطالعہ ان حضرات نے کیا تھا، وہ ہم پر یہ ظاہر کرتا ہے کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ ان گرد وپیش کے حالات اور واقعات سے متاثر ہوئے ہیں جو اس زمانے میں ماحول پر طاری تھے۔ وہ ان مسائل کے بارے میں ایک خاص نتیجے تک پہنچے ہیں جو اُن کے اپنے ملک یا زمانے میں درپیش تھے۔ آج سے بارہ یا تیرہ سو برس پہلے کے مفسرین کے اقوال کو حرفِ آخر مان لیا جائے تو اِسلامی سوسائٹی ایک آہنی قفس میں بند ہو کر رہ جائے گی اور زمانے کے ساتھ ساتھ نشوونما کا اسے موقع نہیں ملے گا۔ یہ پھر ایک ابدی اورعالم گیر دین نہیں رہے گا، بلکہ جس زمان ومکان میں اس کا نزول ہوا تھا، یہ اسی تک محدود رہے گا، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے۔ اگر قرآن کوئی لگے بندھے ضوابط مقرر نہیں کرتا تو امام ابو حنیفہ وغیرہ کی تشریحات کوبھی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ بالواسطہ اسی نتیجے کا باعث بنیں۔
بدقسمتی سے حالاتِ جدیدہ کی روشنی میں قرآن مجید کی تفسیرکا دروازہ چند صدیوں سے بالکل بند کر دیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ مسلمان مذہبی جمود، تہذیبی انحطاط، سیاسی پژمردگی اور معاشی زوال کا شکار ہو چکے ہیں۔ سائنٹیفک ریسرچ اور ترقی جو ایک زمانے میں مسلمانوں کا اجارہ تھی وہ دوسروں کے ہاتھوں میں جا چکی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمان ہمیشہ کی نیند سو گئے ہیں۔ اس صورت حال کا خاتمہ لازمی ہے۔ مسلمانوں کو بیدار ہو کر زمانے کے ساتھ چلنا ہو گا۔ اجتماعی، معاشی اور سیاسی حیثیت سے جو بے حسی اور بے عملی مسلمانوں کو اپنی گرفت میں لے چکی ہے اس سے نجات حاصل کرنی پڑے گی۔ قرآن مجید کے عام اصولوںکو سوسائٹی کے بدلتے ہوئے تقاضوں پر منطبق کرنے کے لیے ان کی ایسی معقول اور دانش مندانہ تعبیر کرنی ہو گی کہ لوگ اپنی تقدیر اور اپنے خیالات اور اخلاقی تصورات کی تشکیل اس کے مطابق کر سکیں اور اپنے ملک اور زمانے کے لیے موزوں طریقے پر کام کر سکیں۔ دوسرے انسانوں کی طرح مسلمان بھی عقل اور ذہانت رکھتے ہیں اور یہ طاقت استعمال کرنے ہی کے لیے دی گئی ہے، بیکار ضائع ہونے کے لیے نہیں ہے۔ دُنیا کے مختلف حصوں میں عوام کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اس بات پر غور وخوض اور تحقیق کریں کہ نصوصِ قرآنی کا مدعا اور مفہوم عند اللّٰہ کیا ہے اور اسے اپنے مخصوص احوال پر کس طرح چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ پس تمام مسلمانوں کو قرآن پڑھنا، سمجھنا اور اس کی تعبیر کرنا ہو گا۔
٭ وَمِنْہُمْ مَّنْ يَّسْتَمِــــعُ اِلَيْكَ۝۰ۚ حَتّٰٓي اِذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِكَ قَالُوْا لِلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ اٰنِفًا۝۰ۣ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ وَاتَّبَعُوْٓا اَہْوَاۗءَہُمْo محمد 16:47
اور ان میں سے وہ ہیں جو تمھاری بات بہ تکلف سنتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ تمھارے پاس سے نکل جاتے ہیں تو وہ ان لوگوں سے جنھیں علم دیا گیا ہے، کہتے ہیں ’’کیا کہا ہے اس نے ابھی؟‘‘ یہی لوگ ہیں جن کے دل پر اللّٰہ نے ٹھپا لگا دیا ہے اور انھوں نے اپنی خواہشات کی پیروی کی ہے۔
٭ ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍo الجمعہ 62:2
وہی ہے جس نے پیدا کیا اُمیوں میں ایک رسول ان میں سے جو تلاوت کرتا ہے ان پر اس کی آیات اور انھیں پاک کرتا ہے اور سکھاتا ہے انھیں کتاب اور حکمت، حالانکہ وہ پہلے یقینا کھلی ہوئی گم راہی میں تھے۔
لوگوں پر لازم ہے کہ وہ قرآن میں تدبر کریں اور اپنے دلوں پر قفل نہ لگا دیں۔
٭ كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَيْكَ مُبٰرَكٌ لِّيَدَّبَّرُوْٓا اٰيٰتِہٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ ص ٓ29:38
یہ ایک کتاب ہے جو ہم نے تم پر نازل کی ہے، برکت والی ہے، تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقلمند نصیحت حاصل کریں۔
لوگوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ قرآن میں غور وفکر کریں اوراسے سمجھنے کی کوشش کریں جس طرح دُنیا میں دیگر مقاصد کے حصول کی خاطر سخت جدوجہد کی ضرورت ہے، اسی طرح قرآن کو سمجھنے اور اس کے مدعا کو پانے کی سخت کوشش ہی کا نام اجتہاد ہے۔
٭ وَمَنْ جَاہَدَ فَاِنَّمَا يُجَاہِدُ لِنَفْسِہٖ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَغَنِيٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَo العنکبوت29:6
جو کوئی سخت جدوجہد کرتا ہے، وہ اپنی جان کے لیے جدوجہد کرتا ہے، یقینا اللّٰہ بے نیاز ہے جہان والوں سے۔
دوبارہ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ لوگ قرآن مجید کا مکمل اور صحیح علم حاصل کرنے کی کوشش کریں۔
٭ حَتّٰٓي اِذَا جَاۗءُوْ قَالَ اَكَذَّبْتُمْ بِاٰيٰتِيْ وَلَمْ تُحِيْطُوْا بِہَا عِلْمًا اَمَّا ذَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَo النمل 84:27
یہاں تک کہ جب وہ آ جائیں گے وہ کہے گا: کیا تم نے میری آیات کو جھٹلایا، حالانکہ تم نے علم سے ان کا احاطہ نہیں کیا، یا تم کیا کر رہے تھے؟
٭ وَجَاہِدُوْا فِي اللہِ حَقَّ جِہَادِہٖ۝۰ۭ ہُوَاجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ۝۰ۭ مِلَّـۃَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰہِيْمَ۝۰ۭ ہُوَسَمّٰىكُمُ الْمُسْلِـمِيْنَ۝۰ۥۙ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ ھٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَہِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُہَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ۝۰ۚۖ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّكٰوۃَ وَاعْتَصِمُوْا بِاللہِ۝۰ۭ ہُوَمَوْلٰىكُمْ۝۰ۚ فَنِعْمَ الْمَوْلٰى وَنِعْمَ النَّصِيْرُo الحج 78:22
اور سخت کوشش کرو اللّٰہ (کی راہ) میں جیسا کہ اس کے لیے کوشش کا حق ہے۔ اس نے تمھیں چنا ہے اور نہیں بنائی تم پر دین کے معاملے میں تنگی، طریقہ تمھارے باپ ابراہیمؑکا، اس نے نام رکھا تمھارا مسلمین پہلے اور اس میں، تاکہ رسول تم پر گواہ بنے اورتم لوگوں پر گواہ بنو، پس نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللّٰہ کو مضبوط پکڑو، وہ تمھارا حامی ونگہبان ہے۔ پس کیا ہی اچھا حامی اور کیا ہی اچھا مددگار ہے۔
٭ فَتَعٰلَى اللہُ الْمَلِكُ الْحَقُّ۝۰ۚ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ يُّقْضٰٓى اِلَيْكَ وَحْيُہٗ۝۰ۡوَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًاo طٰہٰ 114:20
پس بہت بلند وبرتر ہے اللّٰہ، بادشاہ حقیقی اور نہ جلدی کرو قرآن کے ساتھ قبل اس کے کہ پوری ہو جائے تمھاری طرف وحی اس کی اور کہو: اے رب میرے! بڑھا مجھے علم میں۔
یہ تمام آیات اس امر کی وضاحت کرتی ہیں کہ تمام مسلمانوں سے، نہ کہ ان کے کسی خاص طبقے سے، یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ قرآن کا علم حاصل کریں، اسے اچھی طرح سمجھیں اور اس کی تعبیر کریں۔ تشریح وتعبیر کے لیے چند مُسلَّم اصولوں کی پابندی لازم ہے۔ ان اصولوں میں سے چند ایک یہ ہو سکتے ہیں:
۱۔ قرآن مجید کے بعض احکام اہم اور بنیادی ہیں، ان کی خلاف ورزی ہرگز نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ان پر جوں کا توں عمل کرنا چاہیے۔
۲۔ کچھ اور آیات ایسی ہیں جن کی نوعیت ہدایات کی ہے اور جن کی پیروی کرنا کم وبیش ضروری ہے۔
۳۔ جہاں الفاظ بالکل سادہ اور واضح ہوں، جو متعین اور غیر مبہم مفہوم پر دلالت کرتے ہوں، وہاں الفاظ کے وہی معانی مراد لینے چاہییں جو لغت اور گرامر کی رو سے صحیح اور متبادر ہوں۔ دوسرے لفظوں میں اس مقدس کتاب کے الفاظ کے ساتھ کسی طرح کی کھینچ تان روا نہیں ہے۔
۴۔ اس بات کو تسلیم کیا جانا چاہیے کہ قرآن مجید کا کوئی حصہ بے معنی، متناقض یا زائد از ضرورت نہیں ہے۔
۵۔ سیاق وسباق سے الگ کرکے کوئی معنی نہیں نکالنے چاہییں۔
۶ شانِ نزول کے مطابق یعنی نزولِ قرآن کے وقت جو حالات درپیش تھے، ان کے پس منظر میں رکھ کر قرآن کے معانی کی تشریح کرنا خطرناک ہے۔
۷۔ قرآن کی تعبیر معقول (rational) ہونی چاہیے۔ اس سے مدعا یہ ہے کہ اسے گردوپیش کے احوال سے متاثر ہونے والے انسانی رویے سے متطابق ہونا چاہیے۔ یہ امر قابل لحاظ ہے کہ نئے اور غیر متوقع حالات ہمیشہ رونما ہوتے رہتے ہیں۔ سوسائٹی کی ضروریات میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے، اور تشریح ان حالات ومقتضیات کی روشنی میں کی جانی ضروری ہے۔
۱۱۔ زمان ومکان کے اختلاف کی بِنا پر جو مختلف صورتیں پیدا ہوتی ہیں، ان میں مشابہت وعدم مشابہت کا باہمی موازنہ ہونا چاہیے۔ تقابل کرتے ہوئے ہمیں حالات ودرجات کی رعایت کوملحوظ رکھنا چاہیے اور بعید وقریب کے حقائق کو جانچتے ہوئے ماضی سے حال کی جانب اس طرح پیش قدمی کرنی چاہیے کہ مفروضات وقیاسات اور غیر مطلق اور قابل ترک اعتقادات سب ہماری نگاہ کے سامنے رہیں۔
۱۲۔ بدقسمتی سے اس دُنیا میں کم از کم خلافتِ راشدہ کے بعد، کوئی ایسی صحیح اِسلامی ریاست وجود میں نہیں آئی جس میں لوگوں نے پورے شعور وارادے اور باہمی تعاون کے ساتھ قرآن مجید کی تعبیر کا کام کیا ہو۔ قرآن مجید کے مقرر کردہ اصول ابدی ہیں، لیکن ان کا انطباق ابدی نہیں ہے کیوں کہ انطباق ایسے حقائق و مقاصد کا مرہونِ منت ہے جو مسلسل تغیر پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ اب اگر قرآن مجید کی ایک خاص نص کی ایک سے زائد تعبیرات ممکن ہوں اور ہر مسلمان کو اس بات کا حق دے دیا جائے کہ وہ اپنے فہم وذوق کے مطابق تشریح کر دے، تو اس کے نتیجے میں بے شمار تعبیرات وجود میں آ کر ایک بدنظمی کا موجب بن جائیں گی۔ اسی طرح جن معاملات میں قرآن مجید ساکت ہے، ان میں بھی اگر ہر شخص کو اس کے نقطہ نظر کے موافق ایک ضابطہ بنانے کا اختیار دے دیا جائے تو ایک پراگندہ اور غیر مربوط سوسائٹی پیدا ہو جائے گی۔ ہر دوسری سوسائٹی کی طرح اِسلامی سوسائٹی بھی کم سے کم زحمت دہی کے ساتھ زیادہ سے زیادہ افراد کو زیادہ سے زیادہ راحت ومسرت پیش کرتی ہے۔ اس لیے غلبہ اکثریت ہی کی رائے کو حاصل ہو گا۔
۱۳۔ ایک آدمی یا چند آدمی فطرتاًعقل اور قوت میں ناقص ہوتے ہیں کوئی شخص خواہ کتنا ہی طاقت وَر اور ذہین ہو، اس کے کامل ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ایک اعلیٰ درجے کا حساس اور صاحب نظر انسان بھی اپنے مشاہدے میں آنے والے جملہ امور کی اہمیت کا کماحقہٗ اندازہ نہیں کر سکتا۔ لاکھوں کروڑوں آدمی جو اجتماعی زندگی ایک نظم کے ساتھ بسر کر رہے ہیں، اپنی اجتماعی حیثیت میں افراد کی بہ نسبت زیادہ عقل اور طاقت رکھتے ہیں۔ ان کی قوت مشاہدہ اور قوتِ متخیلہ مقابلتاً بہتر اور برتر ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی رو سے بھی کتاب اللّٰہ کی تعبیر اور حالات پر اس کے عام اصولوں کا انطباق ایک آدمی یاچند آدمیوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا، بلکہ یہ کام مسلمانوں کے باہمی مشورے سے ہونا چاہیے۔
۱۔ وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّہِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ۝۰۠ وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰى بَيْنَہُمْ۝۰۠ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ يُنْفِقُوْنَo الشوریٰ38:42
وہ جنھوں نے اپنے رب کے بلاوے کا جواب دیا اور نماز قائم کی اور ان کا کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے اور جو کچھ ہم نے انھیں عطا کیا ہے اس میں سے وہ خرچ کرتے ہیں۔
۲۔ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَo آل عمران 103:3
اور اللّٰہ کی رسی کو مضبوط تھامو سب، اور تفرقہ مت پیدا کرو اور یاد کرو اللّٰہ کی نعمت کو جو تم پر ہوئی جب تھے تم دشمن، پس اس نے تمھارے دلوں کو جوڑ دیا اور ہو گئے تم اس کے فضل سے بھائی بھائی اور تھے تم آگ کے گڑھے کے کنارے، پس بچایا اس نے تم کو اس سے، اس طرح واضح کرتا ہے اللّٰہ تمھارے لیے اپنی آیات، شاید کہ تم ہدایت پائو۔
اور بہت سی آیات میں بھی مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ قرآن مجید کو سمجھنے کی اور اس کی آیات پر غور وفکر کرنے کی کوشش کریں اور اس سے مراد یہ ہے کہ یہ کام انفرادی طور پر نہیں، بلکہ اجتماعی طور پر سرانجام دیا جانا چاہیے۔
۱۴۔ اس سیاق وسباق کے اندر یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ ’’قانون‘‘ کے لفظ کے معنی کیا ہیں؟ میری رائے میں قانون سے مراد وہ ضابطہ ہے جس کے متعلق لوگوں کی اکثریت یہ خیال کرتی ہے کہ ان کے معاملات اس کے مطابق ہونے چاہییں۔
۱۵۔ ابتدا میں نسلِ انسانی کی تعداد بہت قلیل اور منتشر تھی اور ان میں سے ہر شخص اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کر سکتا تھا۔ بعد میں جب انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور انھیں گروہوں کی شکل میں بسنے کی ضرورت پیش آئی، اس وقت ان کے لیے ایک مشترک ضابطۂ اخلاق کی حاجت بھی رونما ہوئی۔ مثال کے طور پر پچاس آدمیوں کی ایک جماعت میں قتل کا ارتکاب کیا گیا۔ اکثریت کے خیال کے مطابق یہ ایک غلط اورناجائز کام تھا۔ چند افراد کے نزدیک شاید ایسا نہیں تھا۔ چوں کہ اکثریت کے پاس طاقت تھی، اس لیے انھوں نے اپنی مرضی کو اقلیت پر بہ جبر نافذ کر دیا اور اسی کو قانون کا درجہ حاصل ہو گیا، گویا کہ ان پچاس آدمیوں میں سے کوئی بھی قتل کا مرتکب نہیں ہو گا۔ یہ استدلال آج کل کے حالات کے لحاظ سے بھی صحیح ہے۔ کئی کروڑ باشندوں کے ایک ملک میں باشندوں کی اکثریت کو قرآن کی ان آیات کی جن کے اندر دو یا زائد تعبیروں کی گنجائش ہو، ایسی تعبیر کرنی چاہیے جو ان کے حالات کے لیے موزوں ترین ہو اور اسی طرح قرآن کے عام اصولوں کو حالات موجودہ پر منطبق کرنا چاہیے تاکہ فکر وعمل میں یکسانی ووحدت پیدا ہو سکے۔ اسی طرح یہ اکثریت کا کام ہے کہ ان مسائل ومعاملات میں جن پر قرآن ساکت ہے، کوئی قانون بنائے۔
اس کے بعد جو سوال بحث طلب ہے وہ یہ ہے کہ کروڑوں انسان قرآن مجید کی تعبیر وانطباق اور مسکوت عنہا معاملات میں قانون سازی کے حق کو کس طرح استعمال کریں گے؟ ایک ملک کے حالات کو دیکھ کر اس امر کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ وہاں کے باشندوں کے لیے اپنے نمایندوں کو منتخب کرنے کی بہترین صورت کیا ہے، جنھیں وہ اعتماد کے ساتھ اپنے اختیارات اور اظہار رائے کے حقوق تفویض کر سکیں۔ وہ فرد واحد کو بھی اپنا نمایندہ منتخب کر سکتے ہیں۔ لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایک شخص کو مختار مطلق بنا دینے کے نتائج ہمیشہ مہلک ثابت ہوئے ہیں۔ اقتدار کا نشہ فرد، جماعت اور قانون کی حکم رانی میں اختلال اور بگاڑ کا موجب ہوتا ہے اور جہاں اقتدار بلاقید اورمطلق ہو، وہاں یہ سہ گونہ فساد بھی اپنی آخری حد کو پہنچ جاتا ہے۔ ایک ملک کی تاریخ میں ایسے حالات پیش آ سکتے ہیں جو ایک شخص کو مجبور کر دیں کہ وہ اصلاحِ احوال اورملک کو تباہی سے بچانے کی خاطر عنان اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لے، لیکن یہ ایک ہنگامی صورت ہے جو جمہوریت کو بحال کرنے اور اختیارات کی امانت کو عوام کی طرف لوٹانے کے لیے قطعی طور پر جائز ہے۔ اس لیے صحیح اِسلامی قانون کے مطابق اس امر کی بڑی اہمیت ہے کہ اختیارات متعدد افراد کے اندر منقسم ہوں تاکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے روک تھام اور احتساب کا باعث ہو، اور سب مل جل کر پوری قوم کی راہ نُمائی کے لیے قوانین و ضوابط وضع کر سکیں۔ حالات کا قدرتی اقتضا یہ ہے کہ یہ جملہ بااختیار افراد عوام الناس کے سامنے مسئول اور جواب دہ ہوں۔ صرف اسی صورت میں ہی ایک منظم طریق کار کے ساتھ کسی پروگرام کو کامیابی کے مراحل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اِسلام میں سارے مسلمان اقتدار کے یکساں طور پر حامل ہیں اور ان پر صرف اللّٰہ کی بالادستی ہے ان کے فیصلے آزاد شہریوں کی حیثیت سے اجتماعی اور مشترک طور پر کیے جاتے ہیں، اسی کا نام اجماع ہے۔
اجتہاد قانون کا ایک مُسَلّم مآخذ ہے۔ اس سے مراد کسی مشتبہ یا مشکل قانونی مسئلے میں رائے قائم کرنے کے لیے اپنی ذہنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر مصروف کار کرنا ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے بڑے وسیع پیمانے پراجتہاد کا استعمال کیا ہے۔اجتہاد کی جن مختلف صورتوں کو امام ابوحنیفہؒ اور دوسرے فقہا کام میں لائے ہیں وہ یہ ہیں: قیاس، استحسان، استصلاح اور استدلال۔ مسلمان فقیہ فرد واحد یا چند افراد کے لیے اجتہاد کو خطرناک سمجھتے تھے۔ اس لیے وہ اس بات کو قابل ترجیح خیال کرتے تھے کہ کسی خاص قانونی مسئلے میں فقہا اور مجتہدین کے اجماع یا کثرت رائے سے فیصلہ ہو۔ قدیم زمانے میں تو شاید یہ درست تھا کہ اجتہاد کو چند فقہا تک محدود کر دیا جائے، کیوں کہ لوگوں میں آزادانہ اور عمومیت کے ساتھ علم نہیں پھیلایا جاتا تھا لیکن موجودہ زمانے میں یہ فریضہ باشندوں کے نمایندوں کو انجام دینا چاہیے، کیوں کہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، قرآن مجید کا پڑھنا اور سمجھنا اور اس کے عام اصولوں کو حالات پر منطبق کرنا ایک یا دو اشخاص کا مخصوص استحقاق نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں کا حق اور فرض ہے اوریہ کام ان لوگوں کو انجام دینا چاہیے جنھیں تمام مسلمانوں نے اس مقصد کے لیے منتخب کیا ہو۔ لہٰذا یہ بات آپ سے آپ لازم آتی ہے کہ جن معاملات میں قرآن مجید کا حکم واضح ہو‘وہ مسلمانوں کے لیے قانون کا درجہ رکھتا ہے اور جہاں تک قرآن مجید کی تعبیر اور اس کے کلیات کو جزئیات پر چسپاں کرنے کا تعلق ہے، ان میں جو کچھ عوام کے منتخب نمایندے طے کریں گے، اسے بھی قانون کا درجہ حاصل ہو گا۔
۱۶۔ اوپر جو نقطۂ نظر بیان کیا گیا ہے اسے چند مثالوں سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ میں پہلے قرآن مجید کی سورۂ نسا کی تیسری آیت کو لوں گا، جسے اکثر غلط استعمال کیا گیا ہے:
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰى وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ۝۰ۚ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ۝۰ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَلَّا تَعُوْلُوْاo النسائ 3:4
اور اگر تم ڈرو کہ تم یتیموں کے معاملے میں انصاف نہیں کرو گے تو نکاح کرو جو تمھیں پسند ہوں، عورتوں سے دو دو، تین تین، چار چار۔ پھر اگر تم ڈرو کہ تم عدل نہیں کر سکو گے تو ایک ہی سہی یا جن کے مالک ہیں تمھارے سیدھے ہاتھ۔ اس سے اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ تم بے انصافی نہ کرو گے۔
جیسا کہ میں اپنے فیصلے کے ابتدائی حصے میں بیان کر چکا ہوں، قرآن مجید کے کسی حکم کا کوئی جز بھی فضول یا بے معنی نہ سمجھا جانا چاہیے۔ لوگوں کے منتخب نمایندوں کا کام ہے کہ وہ اس بارے میں ایک قانون بنائیں کہ آیا ایک مسلمان ایک سے زائد بیویاں کر سکتا ہے یا نہیں اور اگر کر سکتا ہے تو کن حالات میں اور کن شرائط کے ساتھ۔ از راہِ قیاس ایسی شادی کو یتیموں کے فائدے کے لیے ہونا چاہیے۔
۱۷ ۔بہرکیف اس آیت سے صرف جواز ثابت ہوتا ہے نہ کہ لزوم اور میری دانست میں ریاست اس اجازت کو محدود کر سکتی ہے۔ اگر پچاس آدمیوں کی جماعت میں سے اکثریت یہ قانون بنا سکتی ہے کہ ان میں سے کوئی بھی قتل کا ارتکاب نہیں کرے گا، تو اس مثال پر قیاس کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایک مسلمان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ کہے کہ میں ایک سے زیادہ بیویاں نہیں کروں گا، کیوں کہ میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو آٹھ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت بھی ساری قوم کے لیے یہ قانون بنا سکتی ہے کہ قوم کی معاشی، تمدنی یا سیاسی حالت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ اس کا کوئی فرد ایک سے زیادہ بیویاں کرے۔ اس آیت کو قرآن مجید کی دو دوسری آیات کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ پہلی آیت سورہ ۲۴ کی آیت ۳۳ ہے جس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ جو لوگ شادی کرنے کے ذرائع نہ رکھتے ہوں، ان کو شادی نہ کرنی چاہیے۔ اگر ذرائع کی کمی کے باعث ایک شخص کو ایک بیوی کرنے سے روکا جا سکتا ہے تو انھی وجوہ یا ایسے ہی وجوہ کی بِنا پر اسے ایک سے زیادہ بیویاں کرنے سے روک دیا جانا چاہیے۔ شادی بیوی اور بچوں کے وجود پر متضمن ہے۔ اگر خاندان کی عدمِ کفالت کی صورت میں ایک شخص کے لیے نکاح ممنوع ہو سکتا ہے تو اسے اس امر پر بھی مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اتنے ہی بچے پیدا کرے، جتنے پال سکے۔ اگر وہ خود تحدیدِ نسل نہ کر سکے تو ریاست کو اس کے لیے یہ کام کرنا چاہیے۔ اس اصول کا وسیع پیمانے پر اطلاق کرتے ہوئے، مثلاً اگر کسی ملک کی غذائی حالت خراب ہو اور برتھ کنٹرول کی حاجت ہو تو ریاست کے لیے یہ قانون بنانا بالکل جائز ہو گا کہ کوئی شخص ایک سے زائد بیویاں نہ رکھے اور ایک بھی صرف اس صورت میں رکھے جب کہ وہ اپنے کنبے کی ضروریات فراہم کر سکتا ہو اور بچے بھی ایک خاص حد تک رکھے۔ مزید برآں آیت مذکورۂ بالا میں خاص طور پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر ایک مسلمان ڈرتا ہوکہ وہ دو بیویوں کے درمیان عدل نہیں کر سکے گا، تو وہ صرف ایک بیوی سے شادی کرے۔ آگے سورۃ ۴، آیت ۱۲۹ میں اللّٰہ نے یہ بات بالکل واضح کر دی ہے کہ بیویوں کے درمیان عدل کرنا انسانی ہستیوں کے بس میں نہیں ہے۔
وَلَنْ تَسْتَطِيْعُوْٓا اَنْ تَعْدِلُوْا بَيْنَ النِّسَاۗءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْھَا كَالْمُعَلَّقَۃِ۝۰ۭ وَاِنْ تُصْلِحُوْا وَتَتَّقُوْا فَاِنَّ اللہَ كَانَ غَفُوْرًا رَّحِيْمًاo
النسائ 129:4
تم ہرگز یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ عدل کر سکو، عورتوں کے درمیان، خواہ تم اس کے کیسے ہی خواہش مند ہو۔ پس ایک سے کامل بے رخی اختیار نہ کرو کہ اسے ایسا چھوڑو جیسے وہ لٹکی ہوئی ہو اور اگر تم اصلاح کرو اور بچو (برائی سے) تو یقینا اللّٰہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔
یہ ریاست کا کام ہے کہ ان دونوں آیتوں میں تطبیق دینے کے لیے ایک قانون بنائے اور ایک سے زیادہ بیویاں کرنے پر پابندیاں عاید کر دے۔
۱۸ ۔ ریاست یہ کہہ سکتی ہے کہ دو بیویاں کرنے کی صورت میں چوں کہ سالہا سال کے تجربات سے یہ بات ظاہر ہو چکی ہے، اور قرآن میں بھی یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ دونوں بیویوں کے ساتھ یکساں برتائو ناممکن ہے، لہٰذا یہ طریقہ ہمیشہ کے لیے ختم کیا جاتا ہے۔ یہ تین آیات عام اصول بیان کرتی ہیں۔ ان عام اصولوں کا انطباق ریاست کو اپنی نگرانی میں کرنا چاہیے۔ ریاست لوگوں کو ایک سے زیادہ شادی کرکے اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو تباہ کرنے سے بچا سکتی ہے۔ قومی اور ملکی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ جب کبھی ضرورت محسوس ہو، شادی پر پابندی عائد کر دی جائے۔
۱۹۔ چور ی کے معاملے میں سورہ ۵، آیت ۳۸ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ چور مردوں اور چور عورتوں کے ہاتھ کاٹ ڈالے جائیں۔ یہ اللّٰہ کی طرف سے ان کے جرم کی عبرت ناک سزا ہے۔ اسی سورہ کی آیت ۳۹ یہ بتاتی ہے :’’جو کوئی اپنے ظلم کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے، تو یقینا اللّٰہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘ پس عام اصول یہ ہے کہ چوری کی زیادہ سے زیادہ سزا قطعِ ید ہے، لیکن یہ طے کرنا ریاست کا کام ہے کہ چوری کیا ہے اور کون سی چوری کی کیا سزا ہے؟ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ریاست کو لوگوں کے لیے قرآنی احکام پر مبنی قواعد وضوابط بنانے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ اختیارات بہت وسیع ہیں اور منظم عملی پروگرام نافذ کرنے کے لیے ان کا آزادانہ استعمال ہونا چاہیے۔
۲۰۔ ہندو پاکستان میں جتنی کتابیں بھی قانونی لحاظ سے مستند تسلیم کی جاتی ہیں، ان میں اولاد صغار کے متعلق بیان کردہ اصول قرآن مجید پر مبنی نہیں ہیں۔ اس مقدس کتاب میں جو احکام نابالغ بچوں سے متعلق ہیں ان میں سے چند یہاں نقل کیے جا رہے ہیں:
۱۔ وَالْوَالِدٰتُ يُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ يُّـتِمَّ الرَّضَاعَۃَ۝۰ۭ وَعَلَي الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُہُنَّ وَكِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۚ لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَۃٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ۝۰ۤ وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ۝۰ۚ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْہُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْہِمَا۝۰ۭ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۭ وَاتَّقُوا اللہَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌo البقرہ 233:2
اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال اس کے لیے جو رضاعت کو پورا کرنا چاہے اور باپ کے ذمّے ہے ان (مائوں) کا کھانا اور کپڑا معروف طریق پر۔ کسی جان کو تکلیف نہ دی جائے مگر اس کی طاقت کے مطابق۔ نہ والدہ کو ضرر پہنچایا جائے اس کے بچے کی وجہ سے اور نہ والد کو، اور وارث کے ذمّے بھی اسی کی مانند ہے۔ پس اگر دونوں دودھ چھڑانا چاہیں باہمی رضامندی اور مشورے سے تو کوئی گناہ نہیں ان پر اور اگر تم چاہو کہ دوسری عورت سے دودھ پلائو اپنے بچوں کو تو کوئی گناہ نہیں تم پر، جب کہ تم نے جو کچھ طے کیا ہے وہ معروف طریقے پر حوالے کر دو، اور اللّٰہ سے ڈرو اور جان لو اللّٰہ جو کچھ تم کرتے ہو، اسے دیکھنے والا ہے۔
۲۔ اَسْكِنُوْہُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَاۗرُّوْہُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْہِنَّ۝۰ۭ وَاِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَيْہِنَّ حَتّٰى يَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ۝۰ۚ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَكُمْ فَاٰتُوْہُنَّ اُجُوْرَہُنَّ۝۰ۚ وَاْتَمِرُوْا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ۝۰ۚ وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہٗٓ اُخْرٰىo الطلاق 6:65
ٹھہرائو انھیں جہاں تم ٹھہرے ہو اپنے وسائل کے مطابق اور انھیں نقصان نہ پہنچائو تاکہ ان پر تنگی کرو اور اگر حمل والی ہوں تو ان پر خرچ کرو یہاں تک کہ وضع حمل ہو جائے۔ پھر اگر وہ تمھارے لیے دودھ پلائیں تو دو انھیں ان کے معاوضے اور مشورہ کر لو آپس میں معروف کے مطابق اور اگر باہمی اختلاف ہو تو دوسری عورت اسے دودھ پلائے۔
ان آیات کی رو سے مائوں کو پورے دو سال تک بچوں کو دودھ پلانا ہو گا۔ باپ کو سارے اخراجات برداشت کرنے ہوں گے جن میں نظر بظاہر بچے اور والدہ دونوں کے اخراجات شامل ہیں۔ اس سے شیعہ قانون کی تائید ہوتی ہے جس کی رو سے لڑکے کے معاملے میں والدہ کا حق حضانت دو سال ہے۔ لیکن حضانت کے مسئلے میں لڑکے اور لڑکی کے مابین جو تمیز قائم کی جاتی ہے، اس کے حق میں مجھے قرآن سے کوئی وجہ جواز فراہم نہیں ہو سکی۔ قرآن مجید والدین میں سے ہر دو پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ وہ بچے کی پرورش کریں۔ بچے سے محروم نہ والد کو کیا جا سکتا ہے اور نہ والدہ کو۔ بہرکیف قرآن مجید میں ایسی کوئی ہدایت نہیں کہ ایک عورت طلاق پا کر اگر دوسری شادی کر لے تو پہلا شوہر اس سے اپنا بچہ لے سکتا ہے۔ اگر محض اس بِنا پر کہ اس نے دوسری شادی کر لی ہے، وہ بچے سے محروم ہو سکتی ہے تو میں کوئی وجہ نہیں سمجھتا کہ ایک مرد دوسری شادی کر لینے کی صورت میں کیوں نہ اپنے بچے سے محروم ہو۔ سوتیلی ماں اگر سوتیلے باپ سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے برابر تکلیف دہ اور خطرناک ضرور ہے۔ بہرحال نابالغوں کے متعلق قانون بنانا ریاست کا کام ہے کیوں کہ قرآن اس بارے میں قطعًا ساکت ہے۔ گارڈینز اینڈ وارڈز ایکٹ کے بارے میں یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ نابالغان کے معاملات اس کے تابع ہیں۔ پاکستان کی اِسلامی ریاست کے وجود میں آنے کے بعد، ملک کے منتخب نمایندوں نے اس قانون کو منظور کر لیا تھا لیکن اس قانون میں بھی اس بارے میں کوئی واضح اور متعین ضابطہ نہیں ہے کہ والدہ کے نکاح ثانی کے بعد نابالغ بچے کا حقِ حضانت کسے حاصل ہو گا۔ قرآن اور اس ایکٹ دونوں کے مطابق واحد قابل لحاظ امر بچے کی فلاح وبہبود ہے۔ اگر بچے کی فلاح وبہبود کا تقاضا یہ ہو کہ بچہ والدہ کے پاس رہے، تو والدہ کے نکاحِ ثانی کے باوجود بچہ اسی کی تحویل میں رہنا چاہیے۔ ہر مقدمے کا فیصلہ اس کے خاص حالات وکوائف کی بِنا پر ہو گا۔
۲۱۔ قرآن کے علاوہ حدیث یا سُنّت کو بھی مسلمانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد نے اِسلامی قانون کا ایک اتنا ہی اہم مآخذ سمجھ لیا ہے۔ متعین مفہوم کے مطابق حدیث سے مراد محمد رسول اللّٰہﷺ کا قول ہے۔ لیکن عام طور پر حدیث سے مراد رسولﷺ کا قول وعمل لیا جاتا ہے جسے آپ نے پسند یا ناپسند فرمایا، یا ناپسند نہیں فرمایا۔ اِسلامی قانون کامآخذ ہونے کی حیثیت سے حدیث کی قدر وقیمت کیا ہے۔ اس کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ہمیں یہ معلوم کرنا چاہیے کہ رسول پاکﷺ کا مرتبہ ومقام اِسلامی دُنیا میں کیا ہے؟ میں اس فیصلے کے ابتدائی حصے میں یہ بتا چکا ہوں کہ اِسلام ایک خدائی دین ہے۔ یہ اپنی سند خدا اور صرف خدا ہی سے حاصل کرتا ہے۔ اگر یہ اِسلام کا صحیح تصور ہے تو اس سے لازمًا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نبی کے اقوال واعمال اور کردار کو خدا کی طرف سے آئی ہوئی وحی کی سی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ زیادہ سے زیادہ ان سے یہ معلوم کرنے میں مدد لی جا سکتی ہے کہ مخصوص حالات میں قرآن کی تعبیر کس طرح کی گئی تھی، یا ایک خاص معاملے میں قرآن کے عام اصولوں کو خاص واقعات پر کس طرح منطبق کیا گیا تھا۔ کوئی شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللّٰہﷺ ایک کامل انسان تھے۔ نہ کوئی شخص یہ دعوٰی کر سکتا ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ جس عزت وتکریم کے مستحق ہیں یا جس عزت وتکریم کا ہم ان کے لیے اظہار کرنا چاہتے ہیں، اس کے اظہار کی قوت وقابلیت وہ رکھتا ہے لیکن باایں ہمہ وہ خدا نہ تھے، نہ خدا سمجھے جا سکتے ہیں۔ دوسرے تمام رسولوں کی طرح وہ بھی انسان ہی ہیں۔ (اس کے بعد فاضل جج نے سورہ ۱۲: آیت ۱۰۹، سورہ ۱۴: آیت ۱۰۔۱۱، سورہ۳: آیت ۱۴۴، سورہ ۷: آیت ۱۸۸، سورہ ۴۱: آیت ۶، سورہ ۵۱: آیت ۵۱ مع ترجمہ نقل کی ہیں۔ ان میں نبی ﷺ کی بشریت کا ذکر ہے۔ اس کے بعد فاضل جج فرماتے ہیں:
ان کو اللّٰہ کے احکام کی پابندی اسی طرح کرنی پڑتی تھی جس طرح ہمیں کرنی پڑتی ہے، بلکہ شاید ان کی ذمہ داریاں قرآن مجید کی رو سے ہماری ذمہ داریوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ تھیں۔ وہ مسلمانوں کو اس سے زیادہ کچھ نہیں دے سکتے تھے جتنا کچھ کہ ان پر نازل ہوا تھا۔
يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۝۰ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۝۰ۭ وَاللہُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَo
المائدہ 67:5
اے رسول! پہنچا دو جو کچھ نازل کیا گیا ہے تمھاری طرف تمھارے رب کی طرف سے، اور اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تم نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللّٰہ تمھیں بچائے گا لوگوں سے یقینا اللّٰہ نہیں ہدایت دیتا کافروں کی قوم کو۔
۲۲۔ میرے لیے اس بات پر زور دینے کی خاطر قرآن مجید کی آیات نقل کرتے جانا غیرضروری ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ اگرچہ بڑے عالی مرتبہ انسان تھے مگر ان کو خدا کے بعد دوسرا درجہ ہی دیا جا سکتا ہے۔ انسان ہونے کی حیثیت سے، ماسوا اس وحی کے جو ان کے پاس خدا کی طرف سے آئی تھی، وہ خود اپنے بھی کچھ خیالات رکھتے تھے اور اپنے ان خیالات کے زیر اثر وہ کام کرتے تھے۔ یہ صحیح ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ نے کوئی گناہ نہیں کیا، مگر وہ غلطیاں تو کر سکتے تھے اور یہ حقیقت خود قرآن میں تسلیم کی گئی ہے:
لِّيَغْفِرَ لَكَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْۢبِكَ وَمَا تَاَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَيْكَ وَيَہْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَـقِيْمًاo الفتح 2:48
تاکہ اللّٰہ بخش دے تیری اگلی پچھلی خطائوں کو اور اپنی نعمت تمام کرے تم پر اور راہ نمائی کرے تمھاری سیدھے راستے کی طرف۔
ایک سے زیادہ مقامات پر قرآن میں یہ بیان ہوا ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ دُنیا کے لیے ایک بہت اچھا نمونہ ہیں، مگر اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک آدمی کو ویسا ہی ایمان دار، ویسا ہی راست باز، ویسا ہی سرگرم اور ویسا ہی دیندار اور متقی ہونا چاہیے جیسے وہ تھے، نہ کہ ہم بھی بعینہٖ اسی طرح سوچیں اور عمل کریں جس طرح وہ سوچتے اور عمل کرتے تھے، کیوں کہ یہ تو غیر فطری بات ہو گی اور ایسا کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے اور اگر ہم ایسا کرنے کی کوشش کریں تو زندگی بالکل ہی مشکل ہو جائے گی۔
۲۳۔ یہ بھی صحیح ہے کہ قرآن پاک اس کی تاکید کرتا ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ کی اطاعت کی جائے مگر اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جہاں انھوں نے ہم کو ایک خاص کام ایک خاص طرح کرنے کا حکم دیا ہے، ہم وہ کام اسی طرح کریں۔ اطاعت تو ایک حکم ہی کی ہو سکتی ہے۔ جہاں کوئی حکم نہ ہو، وہاں نہ اطاعت ہو سکتی ہے نہ عدم اطاعت۔ قرآن کے ان ارشادات سے یہ مطلب اخذ کرنا بہت مشکل ہے کہ ہم ٹھیک وہی کچھ کریں جو رسولﷺ نے کیا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ایک فرد واحد کے زمانۂ حیات کا تجربہ واقعات کی ایک محدود تعداد سے زیادہ کے لیے نظائر فراہم نہیں کر سکتا، اگرچہ وہ فرد واحد نبی ہی کیوں نہ ہو اور یہ بات پورے زور کے ساتھ کہی جانی چاہیے کہ اِسلام نے نبی کو کبھی خدا نہیں سمجھا ہے۔ یہ بالکل واضح بات ہے کہ قرآن اور حدیث میں جوہری اور حقیقی فرق ہے۔ جہاں تک ان سوالات کا تعلق ہے کہ ایک قوم کے لیے خاص معاملات میں ضابطہ ٔ اخلاق کیا ہو، اور ایک خاص مقدمے کا فیصلہ کس طرح ہو، انھیں انصاف اور موجودہ حالات کے تقاضوں ہی کے مطابق طے کیا جا سکتا ہے۔
٭ اِنَّ اللہَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ وَاِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِہٖ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ كَانَ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًاo
النسائ 58:4
یقینا اللّٰہ تمھیںحکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں اور جب تم فیصلہ کرو لوگوں کے درمیان تو فیصلہ کرو عدل کے ساتھ۔ یقینا اللّٰہ بہت اچھی بات کی نصیحت کرتا ہے تمھیں۔ اللّٰہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔
٭ سَمّٰعُوْنَ لِلْكَذِبِ اَكّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ۝۰ۭ فَاِنْ جَاۗءُوْكَ فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ۝۰ۚ وَاِنْ تُعْرِضْ عَنْہُمْ فَلَنْ يَّضُرُّوْكَ شَـيْـــًٔـا۝۰ۭ وَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَہُمْ بِالْقِسْطِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَo المائدہ 42:5
بہت جھوٹ سننے والے اور حرام خور ہیں، پس اگر تمھارے پاس آئیں تو ان کے درمیان فیصلہ کرو، یا اعراض کرو، ان سے اور اگر تم ان سے منہ پھیر لو تو تمھارا کچھ بگاڑ نہیں لیں گے اور اگر تم فیصلہ کرو تو فیصلہ کرو اُن کے درمیان عدل سے۔ اللّٰہ عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
٭ فَلِذٰلِكَ فَادْعُ۝۰ۚ وَاسْتَقِمْ كَـمَآ اُمِرْتَ۝۰ۚ وَلَا تَتَّبِـعْ اَہْوَاۗءَہُمْ۝۰ۭ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ مِنْ كِتٰبٍ۝۰ۚ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ۝۰ۭ اَللہُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ۝۰ۭ لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ۝۰ۭ لَا حُجَّۃَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ۝۰ۭ اَللہُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا۝۰ۚ وَاِلَيْہِ الْمَصِيْرُo
الشوریٰ42: 15
پس اس طرف بلائو اور سیدھے رہو جس طرح تمھیں حکم دیا گیا ہے اور مت پیروی کرو ان کی خواہشات کی اور کہو ایمان لایا میں اس پر جو کچھ اللّٰہ نے نازل کیا کتاب سے اور حکم دیا گیا ہے مجھے کہ میں عدل کروں تمھارے مابین۔ اللّٰہ رب ہے ہمارا اور تمھارا۔ ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال ہیں۔ ہمارے اور تمھارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں۔ اللّٰہ جمع کرے گا ہمیں اور اسی کی طرف پلٹنا ہے۔
انفرادی اور قومی معاملات کا تصفیہ کرنے کے لیے ہم زمان ومکان کے اختلافات کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
۲۴۔ کوئی مستند شہادت ایسی موجود نہیں ہے جس سے معلوم ہو کہ خلفائے اربعہ محمد رسول اللّٰہ ﷺکے اقوال وافعال اور کردار کو کیا اہمیت دیتے تھے؟ لیکن بحث کی خاطر اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ وہ افراد کے معاملات اور قومی اہمیت رکھنے والے مسائل کا فیصلہ کرنے میں حدیث کا بڑے وسیع پیمانے پر استعمال کرتے تھے، تو وہ ایسا کرنے میں حق بجانب تھے کیوں کہ وہ ہماری بہ نسبت بلحاظ زمانہ بھی اور بلحاظ مقام بھی محمد رسول اللّٰہﷺ سے قریب تر تھے۔ مگر ابوحنیفہؒ نے جو ۸۰ھ میں پیدا ہوئے اور ستّر سال بعد فوت ہوئے، تقریباً ۱۷ یا ۱۸ حدیثیں ان مسائل کا فیصلہ کرنے میں استعمال کیں جو ان کے سامنے پیش کیے گئے۔ غالباً اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ رسول اللّٰہﷺ کے زمانے سے اس قدر قریب نہیں تھے جتنے پہلے چار خلفائ تھے۔ انھوں نے اپنے تمام فیصلوں کی بنیاد قرآن کی مکتوب ہدایات پر رکھی اورمتن قرآن کے الفاظ کے پیچھے ان محرکات کو تلاش کرنے کی کوشش کی جو ان ہدایات کے موجب تھے۔ وہ استدلال واستنباط کی بڑی قوت رکھتے تھے۔ انھوں نے عملی حقائق کی روشنی میں قیاس کی بنیاد پر قانون کے اصول ونظریات مرتب کیے۔ اگر ابوحنیفہؒ یہ حق رکھتے تھے کہ حدیث کی مدد کے بغیر قرآن کی تعبیر موجود الوقت حالات کی روشنی میں کریں تو دوسرے مسلمانوں کو یہ حق دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ قرآن مجید کی تفسیر اور مقدمات کے فیصلے میں ابوحنیفہؒ کے اقوال کو حرفِ آخر ان کے شاگردوں اور پیروئوں نے بھی نہ مانا۔ وہ بہرحال ایک انسان تھے اور غلطی کر سکتے تھے۔ اسی وجہ سے فرد واحد کی رائے پر انحصار صحیح نہیں ہے۔ ایک قوم کے لیے صرف ان آرا وقوانین کی پابندی لازمی ہو سکتی ہے جو اس کے منتخب نمایندوں نے بالاجماع طے کیے ہوں۔ ابوحنیفہؒ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سوسائٹی کو جن قواعد وقوانین کی حاجت ہے وہ سب نہیں، بلکہ ان میں سے چند ایک ہی قرآن میں موجود ہیں۔ اس کے برعکس بعد میں آنے والوں میں سے بعض کی رائے یہ تھی کہ ہر مستنبط قانون قرآن میں مضمر تھا اور ان کے استنباط کی حیثیت سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ جو کچھ قرآن کے اندر مخفی تھا اسے وہ منظر عام پر لے آئے ہیں۔
میں اس معاملے میں جو بڑا متنازعہ فیہ ہے، اپنی کوئی رائے ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ آج کل جب کہ ہم ایک منظم اور منضبط دُنیا میں جی رہے ہیں اور ہر طرح کی حکیمانہ تحقیق کی سہولتیں ہمیں حاصل ہیں، یہ ٹھیک وقت ہے کہ ہم حدیث کے مآخذِ قانون ہونے کی حیثیت کا جائزہ لیں، نیز اس مسئلے پر بھی غور کریں کہ آیا امام ابوحنیفہؒ یا ان جیسے دیگر عالی مرتبت فقہا کے اقوال کی پابندی ہم پر لازم ہے یا حاضر وواقعی حالات کی روشنی میں ہمارے لیے بھی قیاس واستنباط کا حق بحال کیا جا سکتا ہے؟
۲۵۔ تمام فقہائے اِسلام اس بات کو بالاتفاق مانتے ہیں کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا، جعلی حدیثوں کا ایک جمِ غفیر اِسلامی قوانین کا ایک جائز ومُسلَّم مآخذ بنتا چلا گیا۔ جھوٹی حدیثیں خود محمد رسول اللّٰہﷺ کے زمانے میں ظاہر ہونی شروع ہو گئی تھیں۔ جھوٹی اور غلط حدیثیں اتنی بڑھ گئی تھیں کہ حضرت عمرؓ نے اپنی خلافت کے دور میں روایت حدیث پر پابندیاں لگا دیں، بلکہ اس کی ممانعت کر دی۔ امام بخاریؒ نے چھ لاکھ حدیثوں میں سے صرف نو ہزار کو صحیح احادیث کی حیثیت سے منتخب کیا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اس بات سے انکار کرے گا کہ جس طرح قرآن کو محفوظ کیا گیا اس طرح کی کوئی کوشش رسول اللّٰہﷺ کے اپنے عہد میں احادیث کو محفوظ کرنے کے لیے نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس جو شہادت موجود ہے وہ یہ ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ نے سختی کے ساتھ احادیث کو محفوظ کرنے سے منع کیا تھا۔اگر مسلم کی روایات صحیح ہیں تو محمد رسول اللّٰہﷺ نے پوری قطعیت کے ساتھ لوگوں کو اس بات سے منع کر دیا تھا کہ وہ ان کے اقوال اور افعال کو لکھیں۔ انھوں نے حکم دیا تھا کہ جس کسی نے ان کی احادیث کو محفوظ کر رکھا ہو، وہ انھیں فورًا ضائع کر دے: لَا تَکْتُبُوْا عَنِّیْ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّیْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہ‘ وَ حَدِّثُوْا وَلَاحَرَجَ۔اسی حدیث یا ایسی ہی ایک حدیث کا ترجمہ مولانا محمد علی نے اپنی کتاب دینِ اِسلام کے ایڈیشن ۱۹۲۶ء میں ص ۶۲ پر ان الفاظ میں دیا ہے:
روایت ہے کہ ابوہریرہؓ نے کہاکہ: رسول خداﷺ ہمارے پاس آئے اس حال میں کہ ہم حدیث لکھ رہے تھے۔ انھوں نے پوچھا: تم لوگ کیا لکھ رہے ہو؟ ہم نے کہا: حدیث، جو ہم آپؐ سے سنتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا: یہ کیا! اللّٰہ کی کتاب کے سوا ایک اور کتاب؟
اس امر کی بھی کوئی شہادت موجود نہیں ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ کے فورًا بعد جو چار خلیفہ ہوئے ان کے زمانے میں احادیث محفوظ یا مرتب کی گئی ہوں۔ اس امرِ واقعہ کا کیا مطلب لیا جانا چاہیے؟ یہ گہری تحقیقات کا طالب ہے۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ اور ان کے بعد آنے والے چاروں خلفا نے احادیث کو محفوظ کرنے کی کوشش اس لیے نہیں کی کہ یہ احادیث عام انطباق کے لیے نہیں تھیں؟ مسلمانوں کی بڑی اکثریت نے قرآن کو حفظ کر لیا۔ وہ جس وقت وحی آتی تھی ، اس کے فورًا بعد کتابت کا جو سامان بھی میسر آتا تھا اس پر لکھ لیا جاتا تھا اور اس غرض کے لیے رسول کریمﷺ نے متعدد تعلیم یافتہ اصحاب کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔ لیکن جہاں تک احادیث کا تعلق ہے وہ نہ یاد کی گئیں، نہ محفوظ کی گئیں۔ وہ ان لوگوں کے ذہنوں میں چھپی پڑی رہیں جو اتفاقاً کبھی دوسروں کے سامنے ان کا ذکر کرنے کے بعد مر گئے، یہاں تک کہ رسولﷺ کی وفات کے چند سو برس بعد ان کو جمع اور مرتب کیا گیا۔ میرے خیال میں اب وقت آ گیا ہے کہ یہ معلوم کرنے کے لیے ایک مکمل اور منظم ریسرچ کی جائے کہ عربوں کے حیرت انگیز حافظے اور زبردست قوت یادداشت کے باوجود آیا احادیث کو موجودہ شکل میں قابل اعتماد اور صحیح تسلیم کیا جا سکتا ہے؟
یہ اعتراف کیا جاتا ہے کہ بعد میں پہلی مرتبہ رسول اللّٰہﷺ کے تقریباً ایک سو سال بعد احادیث کو جمع کیا گیا مگر ان کا ریکارڈ اب قابل حصول نہیں ہے۔ اس کے بعد ان کو حسب ذیل اصحاب نے جمع کیا: امام بخاری (متوفی ۲۵۶ھ)، امام مسلم (متوفی ۲۶۱ھ)، ابودائود (متوفی ۲۷۵ھ)، جامع ترمذی (متوفی ۲۷۹ھ)، سنن نسائی (متوفی ۳۰۳ھ)، سنن ابن ماجہ (متوفی ۲۸۳ھ)، سنن الدریبی (متوفی ۱۸۱ھ)، بیہقی (ولادت ۳۸۴ھ)، امام احمد (پیدائش ۱۶۴ھ)۔
شیعہ حضرات جن جامعین حدیث کے مجموعوں کو مستند سمجھتے ہیں وہ یہ ہیں: ابوجعفر(۳۲۹ھ)، شیخ علی (۳۸۱ھ)، شیخ ابوجعفر محمد بن علی بن حسین (۴۶۶ھ)، سید الرضی (۴۰۶ھ)، ظاہر ہے کہ یہ مجموعے امام بخاری وغیرہ کے مجموعوں سے بھی بعد میں مرتب کیے گئے۔ ایسی بہت کم احادیث ہیں جن میں یہ جامعین حدیث متفق ہوں۔ کیا یہ چیز احادیث کو انتہائی مشکوک نہیں بنا دیتی کہ ان پر اعتماد کیاجا سکے؟ جن لوگوں کو تحقیقات کا کام سپرد کیا گیا ہو وہ ضرور اس بات پر نگاہ رکھیں گے کہ ہزار در ہزار جعلی حدیثیں پھیلائی گئی ہیں تاکہ اِسلام اور محمد رسول اللّٰہﷺ کو بدنام کیا جائے۔ انھیں اس بات کو بھی نگاہ میں رکھنا ہو گا کہ عربوں کا حافظہ خواہ کتنا ہی قوی ہو، کیا صرف حافظے سے نقل کی ہوئی باتیں قابل اعتماد سمجھی جا سکتی ہیں؟ آخر آج کے عربوں کا حافظہ بھی تو ویسا ہی ہے جیسے تیرہ سو برس پہلے ان کا حافظہ رہا ہو گا۔({ FR 6827 }) آج کل عربوں کا حافظہ جیسا کچھ ہے وہ ہمیں یہ رائے قائم کرنے کے لیے ایک اہم سراغ کا کام دے سکتا ہے کہ جو روایات ہم تک پہنچی ہیں کیا ان کے صحیح اور حقیقی ہونے پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ عربوں کے مبالغے نے، اور جن راویوں کے ذریعے سے یہ روایات ہم تک پہنچی ہیں، ان کے اپنے معتقدات اور تعصبات نے بھی ضرور بڑی حد تک نقل روایت کو مسخ کیا ہو گا۔ جب الفاظ ایک ذہن سے دوسرے ذہن تک پہنچتے ہیں، وہ ذہن خواہ عرب کا ہو یا کسی اور کا، بہرحال ان الفاظ میں ایسے تغیرات ہو جاتے ہیں جو ہر ذہن کی اپنی ساخت کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ہر ذہن ان کو اپنے طرز پرموڑتا توڑتا ہے، اور جب کہ الفاظ بہت سے ذہنوں سے گزر کر آئے ہوں تو ایک شخص تصور کر سکتا ہے کہ ان میں کتنا بڑا تغیر ہو جائے گا۔ ہمیں اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کرنا چاہیے کہ فطرت انسانی ہر جگہ یکساں ہے۔ اللّٰہ نے انسان کو ناقص بنایا ہے اور بشری مشاہدہ انتہائی خام اور کم زور ہے۔
۲۶ ۔ ایک شخص اگر حدیث کے مجموعوں کا مطالعہ کرے تو ان میں کم از کم بعض حدیثیں ایسی بھی موجود ہیں جنھیں داخلی شہادت کی بِنا پر صحیح ماننا مشکل ہے۔({ FR 6828 })
(i) عَنْ عَطَائَ اَنَّہ‘ قَالَ دَخَلْتُ عَلٰی عَائِشَۃَ فَقُلْتُ اَخْبِرِیْنَا بِاَعْجَبِ مَارَأَیْتِ مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلعم فَبَکَتْ وَقَالَتْ وَاَیْ شَاْنُہ‘ لَمْ یَکُنْ عَجَبًا۔ اَتَانِیْ فِیْ لَیْلَۃٍ فَدَخَلَ مَعِیَ فِیْ فِرَاشِیْ (اَوْقَاَلَتْ فِیْ لِحَافِیْ) حَتّٰی مَسَّ جَلَدِیْ جَلَدَہ‘ ثُمَّ قَالَ یَاابْنَۃَ اَبِیْ بَکْرٍ ذَرِیْنِیْ اَتَعْبُدُ لِرَبِّیْ قُلْتُ اِنّیْ اُحِبُّ قُرْبَکَ لٰکِنْ اُوْثِرُ ھَوَاکَ فَاَذِنْتُ لَہ‘ فَقَامَ اِلٰی قِرْبَۃِ مَائٍ فَتَوَضَّأَ فَلَمْ یُکْثِرْ صَبَّ الْمَائِ ثُمَّ قَامَ یُصَلِّیْ فَبَکٰی حَتیّٰ سَاَلَتْ دُمُوْعُہ‘ عَلٰی صَدْرِہٖ ثُمَّ رَکَعَ فَبَکٰی ثُمَّ سَجَدَ فَبَکٰی ثُمَّ رَفَعَ رَاْسَہ‘ فَبَکٰی فَلَمْ یَزَلْ کَذَالِکَ یَبْکِیْ حَتّٰی جَائَ بِلَالٌ فَاَذَّنَہ‘ بِالصَّلٰوۃِ فقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَا یُبْکِیْکَ وَقَدَ غَفَرَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ قَالَ اَفَلاَ اَکُوْنَ عَبْدًا شَکُوْرًا۔
عطا سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: میں حضرت عائشہؓ کے پاس گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے نبی ﷺ کی جو سب سے زیادہ پسندیدہ اور عجیب بات دیکھی ہو، وہ بتائیں۔ حضرت عائشہؓ رو دیں اور فرمایا: آں حضورﷺ کی کون سی حالت عجیب اور خوش کن نہیں تھی۔({ FR 6829 }) ایک رات آپﷺ تشریف لائے اورمیرے ساتھ میرے بستر یا لحاف میں داخل ہو گئے حتّٰی کہ میرے بدن نے آپﷺ کے بدن کو چھو لیا۔ پھر فرمایا: اے ابوبکر کی بیٹی! مجھے اپنے رب کی عبادت کرنے دو۔({ FR 6830 }) میں نے عرض کیا: مجھے آپؐ کا قرب پسند ہے لیکن میں آپؐ کی خواہش کو قابل ترجیح سمجھتی ہوں۔ پس میں نے آپﷺ کو اجازت دے دی۔ آپﷺ پانی کے ایک مشکیزے کے پاس تشریف لے گئے۔ پھر آپﷺ نے وضو کیا اور زیادہ پانی نہیں بہایا۔ پھر آپﷺ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اور اتنے روئے کہ آپﷺ کے آنسو آپﷺ کے سینہ مبارک پر بہہ نکلے۔ پھر آپﷺ نے روتے ہوئے رکوع کیا، پھر روتے ہوئے سجدہ کیا، پھر روتے ہوئے سر اُٹھایا۔ آپﷺ مسلسل اسی طرح روتے رہے، یہاں تک کہ بلال آئے اور انھوں نے نماز (کا وقت ہو جانے) کی خبر دی۔ میں نے عرض کیا: اے اللّٰہ کے رسولﷺ! آپ کیوں روتے ہیں، حالانکہ اللّٰہ نے آپﷺ کے اگلے پچھلے گناہ معاف کر دیے۔ آں حضورﷺ نے فرمایا: تو کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
(ii) عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُقَبِلُّ بَعْضَ اَزْوَاجِہٖ ثُمَّ یُصَلِّیْ وَلَایَتَوَضَّأُ۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیتے اور پھر وضو کیے بغیر نماز پڑھ لیتے تھے۔
(iii) عَنْ اُمِّ سَلَمَۃَ قَاَلتْ قَالَتْ اُمُّ سُلَیْمٍ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَایَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ فَھَلْ عَلَی الْمَرْأَۃِ مِنْ غُسْلٍ اِذَا احْتَلَمَتْ قَالَ نَعَمْ اِذَا رَأَتِ الْمَائَ فَغَطَتْ اُمُّ سَلَمَۃَ وَجْھَھَا وَقَالَتْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اَوَتَحْتَلِمُ الْمَرْأَۃُ قاَلَ نَعَمْ تَرِبَتْ یَمِیْنُکِ فَبِمَ یُشْبِھُہَا وَلَدُھَا (متفق علیہ) وَزَادَ مُسْلِمٌ بِرِوَایَۃِ اُمِّ سُلَیْمٍ اِنَّ مَائَ الرَّجُلِ غَلِیْظٌ اَبْیَضَ وَمَائُ الْمَرْأَۃِ رَقِیْقٌ اَصْفَرَ فَمِنْ اَیِھِّمَا عَلاَاَوْسَبَقَ یَکُوْنُ مِنْہُ الشِّبْہُ۔
حضرت ام سلمہؓ سے روایت ہے کہ ام سلیم نے کہا: اے اللّٰہ کے رسولﷺ! اللّٰہ حق (بات) سے شرم روا نہیں رکھتا۔ پس کیا عورت پر غسل ہے جب اسے احتلام ہو؟ آں حضورﷺ نے فرمایا: ہاں، جب وہ پانی دیکھے (یعنی جب کہ فی الواقع خواب میں اسے انزال ہو گیا ہو)۔ حضرت ام سلمہؓ نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور کہا: اے اللّٰہ کے رسولﷺ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، تیرا سیدھا ہاتھ خاک آلود ہو، آخر اس کا بچہ اس سے کیسے مشابہ ہوتا ہے۔ مسلم نے ام سلیم کی روایت میں یہ اضافہ کیا کہ مرد کا مادہ گاڑھا سفید ہوتا ہے اور عورت کا پتلا اور پیلا۔ پس ان میں سے جو بھی غلبہ حاصل کرے اُسی سے مشابہت ہوتی ہے۔
(iv) عَنْ مُعَاذَۃَ قَاَلَتْ قَاَلَتْ عَائِشَۃُ کُنْتُ اَغْتَسِلُ اَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ (صلعم) مِنْ اِنَا ئٍ وَاحِدٍ بَیْنِیْ وَبَیْنَہ‘ فَیُبَادِرُنِیْ حَتّٰی اَقُوْلَ دَعْ لِیْ قَاَلتْ وَھُمَا جُنُبَانِ۔
معاذہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہؓ نے بتایا کہ میں اور رسول اللّٰہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے جو میرے اور آپﷺ کے درمیان ہوتا تھا۔ آپﷺ مجھ سے زیادہ جلدی کرتے تھے یہاں تک کہ میں کہتی تھی میرے لیے (پانی) چھوڑ دیں۔ انھوں نے بیان کیا کہ وہ اس وقت دونوں حالت جنابت میں ہوتے تھے۔
(v) عنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ سُئِلَ رَسُوْلْ اللّٰہِ صلعم عَنِ الرَّجُلِ یَجِدُ الْبلَلَ وَلَا یَذْکُرُ اِحْتِلاَ مًا قَالَ یَغْتَسِلُ وَعَنِ الرَّجُلِ الَّذِیْ یَرٰی اِنَّہ‘ قَدِ احْتَلَمَ وَلَا یَجِدُ بَلَلاً قَالَ لَا غُسْلَ عَلَیْہِ قَالَتْ اُمُّ سُلَیْمٍ ھَلْ عَلَی الْمَرْأَۃِ تَرٰی ذَالِکٰ غُسْلاً قَالَ نَعَمْ اِنَّ النِّسَائَ شَقَائِقُ الرِّجَالِ۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللّٰہ ﷺ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو تری دیکھے لیکن احتلام اسے یاد نہ ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: وہ غسل کرے اور ایسے شخص کے بارے میں (بھی پوچھا گیا) جسے احتلام یاد ہو، لیکن وہ تری نہ پائے۔ آپﷺ نے فرمایا: اس پر غسل نہیں ہے۔ ام سلیم نے کہا: اگر عورت اس طرح (رطوبت) دیکھے، تو اس پر بھی غسل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، عورتیں مردوں کا آدھا حصہ ہیں۔
(vi) عَنْھاَ قَالَتْ قَالَ رَسُوْلْ اللّٰہِ صلعم اِذَا جَاوَزَ الخِتَانُ الْخِتَانَ وَجَبَ الْغُسْلُ فَعَلْتُہ‘ اَنَا وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاغْتَسَلْنَا۔
انھی سے روایت ہے کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا جب شرم گاہوں کے اگلے حصے باہم متجاوز ہوجائیں تو غسل واجب ہے۔ میں نے اور رسول اللّٰہ ﷺ نے ایسا کیا اور غسل کیا۔
(vii) عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَۃِ ثُمَّ یَسْتَدْ فِیُٔ بِیُ قَبْلَ اَنْ اَغْتَسِلَ۔
حضرت عائشہ سے روایت ہے انھوں نے بیان کیا کہ نبی ﷺ غسل جنابت کر لینے کے بعد (سردی دور کرنے کے لیے)مجھ سے گرمی حاصل کرتے تھے، قبل اس کے کہ میں غسل کروں۔
(viii) عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ کُنْتُ اَغْتَسِلُ اَنَا وَالنَّبِیُّ صلعم مِنْ اِنَائٍ وَاحِدٍ وَکِلَانَا جُنُبٌ وَکَانَ یَاْمُرُنِیْ فَاَتَّزِرُ فَیُبَاشِرُنِیْ وَاَنَا حَائِضٌ وَیُخْرِجُ رَأْسَہ‘ اِلَیَّ وَھُوْ مُعْتَکِفٌ فَاُغْسِلُہ‘ وَاَنَا حَائِضٌ۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ اور میں ایک ہی برتن سے نہاتے تھے، درآں حالیکہ ہم دونوں جنبی ہوتے تھے اور آپ مجھے بحالتِ حیض ازارباندھنے کا حکم دیتے تھے اور مجھ سے بغل گیر ہوتے تھے اور آپ اعتکاف کی حالت میں اپنا سر (مسجد سے) باہر کرتے تھے اور میں حیض کی حالت میں اسے دھوتی تھی۔
(ix) عَنْ عَائِشَۃَ کُنْتُ اَشْرِبُ وَاَنَا حَائِضٌ ثُمَّ اُنَا وِلُہُ النَّبِیَّ صلعم فَیَضَعُ فَاہُ عَلٰی مَوْضَعِ فِیَّ فَیَشْرِبُ وَاَتَعَرَّ قُ الْعَرَقَ وَاَنَا حَائِضٌ ثُمَّ اُنَاوِ لُہُ النَّبِیَّ صلعم فَیَضَعُ فَاہُ عَلٰی مَوضَعِ فِیَّ۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ میں حیض کی حالت میں برتن سے پانی پیتی تھی اور پھر اسے نبیﷺ کی جانب بڑھا دیتی تھی۔ پس آپﷺ وہاں سے منہ رکھتے تھے جہاں میں نے منہ رکھا ہوتا تھا اور آپﷺ پیتے تھے اور میں بحالت حیض ہڈی پر سے گوشت کھاتی تھی اور پھر اسے نبیﷺ کو دے دیتی تھی اور آپ اس جگہ اپنا منہ رکھتے تھے جہاں میں نے رکھا ہوتا تھا۔
(x) عَنْ عَائِشَۃَ قَالَت کُنْتُ اِذَا حَضَتُّ نَزَلْتُ عَنِ الْمِثَالِ عَلَی الْحَصِیْرَ فَلَمْ نَقْرُبَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلعم وَلَمْ نَدُنْ مِنْہ‘ حَتّٰی نَطْھُرَ۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب میں حائضہ ہوتی تو میں بستر چھوڑ کر چٹائی پر لیٹتی تھی پس ہم رسول اللّٰہ ﷺ سے مقاربت نہیں کرتے تھے جب تک کہ پاکیزگی حاصل نہیں کر لیتے تھے۔ ({ FR 6831 })
عَنْھَا قَالَتْ قَالَ لِیَ النَّبِیُّ صعلم نَاوِلِیْنِی الْخُمْرَۃَ مِنَ الْمَسْجِدِ فَقُلْتْ اِنِّیْ حَائِضٌ فَقَالَ اِنَّ حَیْضَتَکِ لَیْسَتْ فِیْ یَدِکِ۔
انھی سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا: مجھے مسجد سے چٹائی اُٹھا کر دے دو۔ میں نے عرض کیا کہ میں حیض کی حالت میں ہوں۔ آپ نے فرمایا: حیض (کا اثر)تمھارے ہاتھ میں تو نہیں ہے (یعنی تم ہاتھ بڑھا کر مسجد سے چٹائی لے سکتی ہو)۔
۲۷۔ مذکورۂ بالا بیش تر احادیث میں جو مضامین بیان کیے گئے ہیں، ان کی روایت حضرت عائشہؓ صدیقہ اور حضرت ام سلمہؓ کی طرف منسوب ہیں۔ میں یہ باور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں کہ یہ دونوں ازواج جو ہر لحاظ سے کامل تھیں،انھوں نے اسی عریانی کے ساتھ اپنی ان پرائیویٹ باتوں کو ظاہر کر دیا ہو گا جو ان کے اور محمد رسول اللّٰہﷺ کے درمیان میاں بیوی کی صورت میں ہوئی ہوں گی۔
۲۸۔ میں اپنے آپ کو یہ یقین کرنے کے ناقابل پاتا ہوں کہ محمد رسول اللّٰہﷺ نے یہ باتیں کہی ہوں گی کہ دوزخ میں اکثریت عورتوں پر مشتمل ہو گی اور جنت کی اکثریت غربا پر مشتمل ہو گی۔
(i) عَنْ اُسَامَۃَ بْنِ زَیْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قُمْتُ عَلٰی بَابِ الْجَنَّۃِ فَکَانَ عَامَّۃٌ مَنْ دَخَلَھَا الْمَسَاکِیْنُ وَاَصْحَابُ الْجَدِّ مَحْبُوْسُوْنَ غَیْرَاَنّ({ FR 6832 }) اَصْحَابَ النَّارِ قَدْ اُمِرَ بِھِمْ اِلَی النَّارِ وَقُمْتُ عَلٰی بَابِ النَّارِ فَاِذَا عَامَّۃٌ مَنْ دَخَلَھَا النِّسَائُ۔
اسامہ بن زید سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: میں جنت کے دروازے پر کھڑا ہوا اور (میں نے دیکھا) کہ اکثریت جو اس میں داخل ہو رہی تھی، وہ مساکین کی تھی اور دولت مند لوگ روک لیے گئے، سوائے اس کے کہ جو لوگ آگ کے لائق تھے انھیں آگ میں ڈالے جانے کا حکم دے دیا گیا، اور میں آگ کے دروازے پر کھڑا ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں داخل ہونے والی بالعموم عورتیں تھیں۔
(ii) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِطَّلَعْتُ فِی الْجَنَّۃِ فَرَأَیْتُ اَکْثَرَ اَھْلِھَا الْفُقَرَائَ وَاطَّلَعْتُ فِی النَّارِ فَرَاَیْتُ اَکْثَرَ اَھْلِھَا النِّسَائَ۔
ابنِ عباس سے روایت ہے اُنھوں نے کہا رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا: مَیں نے جنت میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثریت فقرا کی ہے اور میں نے دوزخ میں جھانک کر دیکھا تو اس میں اکثریت عورتوں کی ہے۔
۲۹۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو دولت کمانے سے بالواسطہ طریق پر منع کر دیا گیا ہے، کیوں کہ اگر وہ دولت حاصل کریں گے تو ان کے جنت میں داخلے کے امکانات کم ہو جائیں گے؟ اگر سارے مسلمان غریب ہو جائیں تو ان کا کیا بنے گا؟ کیا ان کا کلی طور پر خاتمہ نہیں ہو جائے گا؟ کیا اس طرح زندگی کے ہر میدان میں ان کی ترقی رک نہیں جائے گی؟ مزید برآں کیا یہ قابل یقین ہے کہ محمد رسول اللّٰہﷺ نے وہ بات فرمائی ہو گی جو حدیث بخاری کے صفحہ ۸۵۲ پر روایت نمبر ۷۴/۶۰۲ میں عبداللّٰہ بن قیس سے مروی ہے کہ ’’مسلمان جنت میں ان عورتوں سے مباشرت کریں گے جو ایک خیمے کے مختلف گوشوں میں بیٹھی ہوں گی۔‘‘ حدیثوں اور قرآن مجید کی پرانی تفسیروں نے اِسلام کا دائرہ بہت تنگ کر دیا ہے اور اس کی وسعت بہت محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ کیا ہمیں ان حالات کو برقرار رہنے دینا چاہیے؟
۳۰ ۔ بحث کی خاطر اگر یہ تسلیم کر بھی لیا جائے کہ جو احادیث محدثین نے جمع کی ہیں وہ صحیح ہیں، تب بھی اس امر کی شہادت موجود ہے کہ اگر ان احادیث کا تعلق دین سے نہ ہو تو رسول اللّٰہﷺ انھیں حرف آخر کا درجہ نہیں دینا چاہتے تھے۔ مسلم میں یہ حدیث روایت کی گئی ہے:
عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِیْجٍ قَالَ قَدِمَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْمَدِیْنَۃَ وَھُمْ یُاَبِّرُوْنَ النَّخْلَ فَقَالَ مَاتَصْنَعُوْنَ قَالُوْا کُنَّا نَصْنَعُہ‘ قَالَ لَعَلَّکُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوْا کَانَ خَیْرًا۔ فَتَرَ کُوْہُ فَنَقَصَتْ فَذَکَرُوْا ذَالِکَ لَہ‘ فَقَالَ اَنَا بَشَرٌ اِذَا اَمُرْتُکُمْ بِشَیْئٍ مِنْ اَمْرِ دِیْنِکُمْ فَخُذُوْا بِہٖ وَاِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیْئٍ مِنْ رَأْیٖ فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ۔
رافع ؓبن خدیج سے روایت ہے کہ نبی ﷺ مدینے تشریف لائے تو آپﷺ نے دیکھا کہ مدینے کے لوگ کھجوروں میں پیوند لگاتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: تم لوگ یہ کیا کرتے ہو؟ انھوں نے جواب دیا: ہم پہلے سے ایسا کرتے آئے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: شاید تم ایسا نہ کرتے تو بہتر ہوتا۔ پس لوگوں نے یہ عمل چھوڑ دیا اور پیداوار کم ہوئی۔ انھوں نے آں حضورﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا: میں انسان ہوں، جب میں تمھارے دین کے معاملے میں تمھیں کوئی حکم دوں تو اس کی پیروی کرو اور جب اپنی رائے سے کچھ کہوں تو میں بس ایک بشر ہی ہوں۔
اس کے علاوہ ایک سے زائد احادیث میں محمد رسول اللّٰہﷺ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ صرف قرآن ہی وہ ایک کتاب ہے جو تمام شعبہ ہائے زندگی میں مسلمانوں کی راہ نُما ہونی چاہیے۔
۳۱۔ یہ بات کہ محدثین خود اپنی جمع کردہ احادیث کی صحت پر مطمئن نہ تھے۔ صرف اسی ایک امر واقعہ سے واضح ہو جاتی ہے کہ وہ مسلمانوں سے یہ نہیں کہتے کہ ہماری جمع کردہ احادیث کو صحیح مان لو بلکہ یہ کہتے ہیں کہ انھیں ہمارے معیار صحت پر جانچ کر اپنا اطمینان کر لو۔ اگر انھیں ان احادیث کی صحت کا یقین ہوتا تو یہ جانچنے کا سوال بالکل غیر ضروری تھا۔
۳۲۔ بعض احادیث ایسی ہیں جو انسان کی توجہ اس دُنیا سے ہٹا دیتی ہیں۔ روحانیت ایک اچھی چیز ہے لیکن اِسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ہم اسے بیہودہ انتہا تک پہنچا دیں۔ بنیادی طور پر اللّٰہ نے ہمیں انسان بنایا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ہم اسی حیثیت سے زندگی بسر کریں۔ اگر وہ چاہتا کہ ہم روحانی مخلوق یا فرشتے بن جائیں، تو اس کے لیے اس سے زیادہ آسان بات کوئی اور نہیں تھی کہ وہ ہمیں ایسا ہی بنا دیتا۔ حقیقی اِسلامی قانون کے مطابق مسلمانوں کو اپنی توانائیاں اس مقصد کے لیے صرف کرنی چاہییں کہ وہ زندگی کو مفید تر، حسین تر اور مکمل طور پر پُرلطف بنا سکیں۔
۳۳۔ اگر ہم احادیث کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اکثر احادیث مختصر اور بے ربط ہیں جنھیں سیاق وسباق اور موقع ومحل سے الگ کرکے بیان کر دیا گیا ہے۔ ان کو ٹھیک ٹھیک سمجھنا اور ان کا صحیح مفہوم ومدعا مشخص کرنا ممکن نہیں ہے جب تک ان کا سیاق وسباق سامنے نہ ہو اور وہ حالات معلوم نہ ہوں جن میں رسول پاکﷺ نے کوئی بات کہی ہے یا کوئی کام کیا ہے۔ بہرحال احادیث کی بالکل نئے سرے سے پوری چھان بین اور تحقیق کی ضرورت ہے۔ یہ کہا گیا ہے اور بجا طور پر کہا گیا ہے کہ حدیث قرآن کے احکام کو منسوخ نہیں کر سکتی، مگر کم از کم ایک مسئلے میں تو احادیث نے قرآن پاک میں ترمیم کر دی ہے اور وہ وصیت کا مسئلہ ہے۔ احادیث کے بارے میں پورا غور وتامل کرنے کے بعد میں یہ رائے قائم کرنے پر مجبور ہوں کہ انھیں اپنی موجودہ شکل میں قرآن کے برابر درجہ نہیں دینا چاہیے اور نہ ہی ان کے اطلاق کو عام خیال کرنا چاہیے۔ میں اس بات کے حق میں نہیں ہوں کہ مختلف محدثین کی جمع کردہ احادیث کو اِسلامی قانون کے سرچشموں میں سے ایک سرچشمہ تسلیم کیا جائے جب تک ان کی دوبارہ جانچ پڑتال نہ کر لی جائے اور یہ پڑتال بھی کسی تنگ نظری اور تعصب پر مبنی نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان تمام قواعد وشرائط کو بھی از سر نو استعمال کیا جانا چاہیے جنھیں امام بخاری وغیرہ نے بے شمار جھوٹی، موضوع اور جعلی حدیثوں میں سے صحیح احادیث کو الگ کرنے کے لیے مقرر کیا تھا۔ نیز ان معیارات کو بھی کام میں لانا چاہیے جو نئے حقائق وتجربات نے ہمارے لیے فراہم کیے ہیں۔ میری یہ بھی رائے ہے کہ حقائق موجودہ کی روشنی میں قیاس و استدلال کے نازک اور لطیف طریقوں کو عمل میں لاتے ہوئے ججوں اور عوام کے منتخب نمایندوں کو قرآن پاک کی تفسیر کرنی چاہیے۔ ابوحنیفہؒ اور اس طرح کے دوسرے فقہا نے جو فیصلے کیے ہیں اور جو بعض کتابوں میں مذکور ہیں انھیں نظائر کی حیثیت میں وہی درجۂ استناد دیا جانا چاہیے جو عام عدالتی فیصلوں کو حاصل ہوتا ہے۔ قرآن مجید کے اندر مندرج قانون جامد نہیں، بلکہ متحرک ومنظم ہے۔ قرآن مجید کی تعبیر کو اس انسانی طرز عمل سے ہم آہنگ ہونا چاہیے جو حالات حاضرہ سے متاثر اور مختلف عناصر سے متعین ہوتا ہے۔ ابوحنیفہؒ کی طرح دنیوی معاملات کی تحقیقات میں عقل کو استعمال میں لانا چاہیے۔ اس نقطۂ نظر کے مطابق برعظیم ہندوپاکستان کے مسلمانوں کا قانون وسیع تغیرات کا محتاج ہے اور اسے ملک کے موجودہ حالات کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔
(اس کے بعد پیرا نمبر ۳۴ سے لے کر آخری پیرا گراف نمبر ۴۱ تک فاضل جج نے اپیل کے اصل تصفیہ طلب مسئلہ، یعنی مسئلۂ حضانت پر بحث کی ہے اور یہ رائے ظاہر کی ہے کہ اگر جامعینِ احادیث کی روایات کو صحیح اور قرآن کی طرح واجب الاتباع تسلیم کر بھی لیا جائے، تب بھی ان سے حضانت کے معاملے میں مسلمانوں کے مروج شخصی قانون کی تائید نہیں ہوتی۔ اگرچہ فیصلے کا یہ حصہ بھی بہت غور طلب اور لائقِ توجہ ہے۔ تاہم یہ چوں کہ اصل موضوع فیصلہ سے تعلق رکھتا ہے اور اسے زیر بحث لانا مقصود نہیں ہے، اس لیے اس کا ترجمہ نہیں کیا جا رہا ہے، اس حصے کو اصل انگریزی فیصلے میں ملاحظہ کیا جا سکتاہے۔)
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں