Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

باب اوّل: ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص
باب دوم: مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحۂ عمل
باب سوم: خطبہ تقسیم اَسناد
باب چہارم: نیا نظامِ تعلیم
باب پنجم : رودادِ مجلسِ تعلیمی
باب ششم: اسلامی نظامِ تعلیم اور پاکستان میں اس کے نفاذ کی عملی تدابیر
باب ہفتم: ایک اسلامی یونی ورسٹی کا نقشہ
باب ہشتم: اسلامی نظام تعلیم
باب نہم: عالمِ اسلام کی تعمیر میں مسلمان طلبہ کا کردار

تعلیمات

1935ءمیں یہ سوال بڑے زور شور سے اٹھایا گیا کہ آخر مسلمانوں کی قومی درس گاہوں سے ملاحدہ اور الحاد ودہریت کے مبلغین کیوں اس کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں۔ علی گڑھ یونی ورسٹی کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ شکایت تھی کہ اس سے فارغ اتحصیل 90 فی صد طلبہ الحادود ہر یت میں مبتلا ہیں۔ جب یہ چرچا عام ہونے لگا اور ملک بھر میں اس کے خلاف مضامین لکھے جانے لگے تو علی گڑھ یونی ورسٹی کی طرف سے اس شکایت کا جائزہ لینے اور اصلاح حال کی تدبیر پرغوروخوض کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے کافی بحث وتمحیص اور غور وخوض کے بعد یہ رائے قائم کی کہ اسی نصاب تعلیم میں دینیات کے عنصر کو پہلے کی نسبت کچھ زیادہ کر دینے سے طلبا کے اندر بڑھتے ہوئے الحادود ہریت کے سیلاب کے آگے بند باندھا جاسکتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے اگست 1939ءکے ترجمان القرآن میں اصلاح حال کی اس تدبیر کاتفصیلی جائزہ لے کر اس وقت کے مروجہ نظام تعلیم کے اصلی اور بنیادی نقص کی نشان دہی کی اور اس نقص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ آج برسہا برس گزرنے کے باوجود یہ سارے مسائل جوں کے توں ہمارے سامنے منھ پھاڑے کھڑے ہیں، یہ کتاب برسوں گزرنے کے بعد بھی آج کی تصنیف لگتی ہے۔ اس کتاب میں شامل تمام حقائق اور مسئلوں کے جو حل بتائے ہیں ، وہ آج بھی قابل عمل ہے۔ بس ایک فرق یہ ہے کہ اس وقت اس الحاد کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنی تھی لیکن آج مملکت خداداد پاکستان کے حکمرانوں کو الحاد کا نہ یہ طوفان نظر آتا ہے اور نہ وہ اسے حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ہاں اگر آج بھی کوئی اس بند کو روکنا چاہتا ہے تو یہ کتاب یقینا اس کے لیے ایک اہم دستاویز ثابت ہوگی۔

باب پنجم : رودادِ مجلسِ تعلیمی

(منعقدہ دارالاسلام، پٹھان کوٹ، ضلع گورداس پور، ۱۹۴۴ء)
اپنے نظریہ تعلیمی کے مطابق ایک درس گاہ اور ایک تربیت گاہ کے قیام کی ضرورت تو ہماری جماعت کوابتدا سے محسوس ہو رہی تھی اور موجودہ مرکز میں آنے کے بعد تو اس کے قائم کرنے کا ارادہ بھی کر لیا گیا تھا۔ لیکن مختلف اسباب سے اس تجویز کوعملی جامہ پہنانے کی طرف جلدی اقدام نہ کیا جا سکا۔ حال میں جماعت کے جو مختلف اجتماعات بہار، پنجاب، دہلی اور دکن میں منعقد ہوئے ان میں جماعت کی طرف سے بشدت اس بات کا مطالبہ ہوا کہ اب اس کام میں مزید تاخیر نہ کی جائے۔ اس کے ساتھ یہ ضرورت بھی محسوس ہوئی کہ مستقل مرکز کا فیصلہ بھی جلدی سے جلدی کر لیا جائے تاکہ درس گاہ اور تربیت گاہ کے قیام میں مرکز کے عارضی ہونے کی وجہ سے جو رکاوٹ ہے وہ دور ہو جائے اور اطمینان کے ساتھ ایک جگہ بیٹھ کر اس سلسلہ کی تمام تجاویز کو عمل میں لانا شروع کر دیا جائے۔ چنانچہ دکن کے سفر سے واپس آنے کے بعد ہی ایک مجلسِ مشاورت کے لیے ۱۴، ۱۵، ۱۶۔ اگست کی تاریخیں تجویز کر لی گئیں اور اس مجلس کے انعقاد سے پہلے ایک طرف تو ایک مفصّل تعلیمی سوال نامہ اخبار ’’کوثر‘‘ میں شائع کرایا گیا تاکہ جو لوگ ہمارے اس کام سے دل چسپی رکھتے ہیں وہ اپنی آرا سے ہمیں فائدہ اُٹھانے کا موقع دیں اور دوسری طرف مرکز کی ضروریات کو واضح کرتے ہوئے جماعت کے ارکان اور ہم دردان سے درخواست کی گئی کہ مستقل مرکز کے لیے جگہ کے انتخاب سے متعلق جو تجاویز انھیں پیش کرنی ہیں وہ ضروری تفصیلات کے ساتھ انعقادِ مجلس کی تاریخوں سے پہلے پہلے ہمارے پاس بھیج دیں تاکہ ان سب کو پیشِ نظر رکھ کر مرکز کے بارے میں ایک آخری فیصلہ کر لیا جائے۔
ہمارے ان دونوں اعلانات پر تعلیمی اسکیم اورمرکز کی تجویز کے متعلق اچھی خاصی تعداد میں ارکانِ جماعت اور ہم دردوں کی جانب سے جوابات بروقت موصول ہو گئے جن میں سے اکثر کافی غور و خوض اور تحقیق سے مرتب کیے گئے تھے اور ہمارے کام میں مددگار ثابت ہوئے۔ اللّٰہ تعالیٰ ان سب حضرات کو جزائے خیر دے اور اقامت دین کی جدوجہد کے ہر مرحلے میں ہمارے ساتھ اسی طرح قلبی تعاون کے لیے زیادہ سے زیادہ آمادہ فرمائے۔
حسبِ اعلان ۲۳۔ شعبان ۱۳۶۳ھ مطابق ۱۴۔ اگست ۱۹۴۴ء کو دارالاسلام میں مجلسِ تعلیمی کا اجلاس شروع ہوا۔ ہمارے ارکان اور ہم دردوں میں سے جو لوگ تعلیمی امور میں نظری اور عملی بصیرت رکھتے ہیں،ان سب کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی اور الحمد لِلّٰہ کہ ان میں سے اکثر تشریف لے آئے تھے۔ مدعوئین کے علاوہ اور بھی چند اصحاب جنھیں ان مسائل سے دل چسپی ہے، شریک جلسہ ہوئے۔ حاضرین کی تعداد بیالیس تھی۔
اجلاسِ اوّل
پہلا اجلاس نمازِ ظہر کے بعد دارالاسلام کی مسجد میں شروع ہوا۔ اس اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ صاحب نے سب سے پہلے اپنا وہ مضمون پڑھ کر سنایا جو ’’نیا نظامِ تعلیم‘‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن میں اورپمفلٹ کی شکل میں بھی شائع ہو چکا ہے (اور اس مجموعہ میں بھی گزشتہ صفحات پر درج ہے) اس کے بعد فرمایا:
’’اگرچہ آپ سب حضرات اس مضمون کو جو ابھی میں نے پڑھ کر سنایا ہے اس سے پہلے ملاحظہ کر چکے ہیں لیکن میں نے یہاں اسے دوبارہ سنانا اس لیے ضروری سمجھا کہ یہی مضمون ہمارے اس تعلیمی نظرئیے اور اس تعلیمی پالیسی کا سنگِ بنیاد ہے جس پر ہمیں اب عملاً کام کرنا ہے اور اس کام کو شروع کرتے وقت ہمارے ذہن میں ان بنیادی اُصولوں کا مستحضر ہونا ضروری ہے جو اس میں بیان کیے گئے ہیں۔ مَیں خود فنِ تعلیم کا ماہر نہیں ہوں اور اس کام کے لیے جو اس وقت ہمارے پیشِ نظر ہے میں کوئی علمی اسکیم نہیں بنا سکتا۔ میرا کام صرف یہ ہے کہ اسلامی تحریک کو جس قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے اور جن اوصاف اور جن قابلیتوں کے کارکن اسے مطلوب ہیں ان کا نقشہ آپ کے سامنے پیش کر دوں اور اس کے بعد ماہرین فن ہونے کی حیثیت سے یہ آپ لوگوں کا کام ہے کہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مناسب عملی تدابیر تجویز کریں۔
جیسا کہ آپ حضرات جانتے ہیں اس وقت ہمارے ملک میں جتنے نظام ہائے تعلیم رائج ہیں ان میں سے کوئی بھی اس مقصد کے لیے آدمی تیار نہیں کرتا جو ہمارے پیش نظر ہے اور نہ اس طرز کے آدمی تیار کرتا ہے جو ہمیں مطلوب ہیں اسی لیے ہمیں اپنا نظام تعلیم الگ قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔ ہمیں صرف یہی نہیں کرنا ہے کہ نوخیز نسلوں کی عملی اور ذہنی تربیت کا انتظام اپنے نصب العین کے مطابق کریں بلکہ اس کے ساتھ ان کی اخلاقی اور علمی تربیت کا بھی بندوبست کرنا ہے اور یہ ضرورت خصوصیت کے ساتھ اس درجہ سے اور بھی شدید ہو گئی ہے کہ ہمارے ملک میں مدت ہائے دراز سے انحطاط کی وجہ سے اجتماعی تربیت کا نظام باقی نہیں رہا۔ پرانے زمانے میں اجتماعی تربیت کی جو صورت تھی وہ جدید زمانے کے سیاسی وتمدنی انقلاب کے مقابلے میں شکست کھا گئی اور جدید سیاسی وتمدنی انقلاب نے اس کی جگہ اجتماعی تربیت کا دوسرا نظام مرتب نہیں کیا بلکہ عامۃ الناس کو خود رو درختوں کی طرح اگنے اور نشونما پانے کے لیے چھوڑ دیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم یافتہ آدمیوں کی جتنی کمی ہے اس سے بہت زیادہ کمی تربیت یافتہ آدمیوں کی ہے۔ مجھے اکثر یہ چیز بڑے رنج کے ساتھ محسوس ہوتی ہے کہ ہمارے اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی خواہ وہ قدیم نظامِ تعلیم سے تعلق رکھتے ہوں یا جدید نظامِ تعلیم سے، بالعموم اخلاق وشائستگی اور مہذب عادات اور ضبط ونظم کی بالکل ابتدائی اور بنیادی تربیت سے بھی عاری ہوتے ہیں اور اس کی وجہ سے کوئی اعلیٰ درجہ کی جماعت جو کسی نصب العین کے لیے جدوجہد کر سکے اس ملک میں بنانی نہایت مشکل ہوتی ہے۔ جن قوموں میں اجتماعی تربیت کا نظام موجود ہے ان کی حالت یہ ہے کہ ان میں بیش تر افراد مہذب اور منظم زندگی کی بنیادی تربیت حاصل کیے ہوئے ہوتے ہیں اور جو شخص کوئی خاص تحریک ان کے اندر جاری کرنا چاہتا ہو اسے ان بنے سنورے ہوئے آدمیوں میں سے صرف اپنی تحریک کے لحاظ سے مناسب اوصاف پیدا کرنے کی سعی کرنا پڑتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ بڑی دشواری ہے کہ انسان کی بنیادی تربیت ہی بڑی حد تک مفقود ہے اور یہاں اگر کسی نصب العین کے لیے جدوجہد کرنا مقصود ہو تو آدمی کو بالکل ناتراشیدہ مواد خام ملتا ہے، جسے بالکل نئے سرے سے تراشنے اور سنوارنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے نظامِ تعلیم میں دماغی تربیت سے زیادہ اخلاقی تربیت کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اپنی اس دعوت کے لیے صحیح قسم کے کارکن میسر آ سکیں جن کی نایابی کی وجہ سے ہمارا یہ کام ہماری انتہائی کوششوں کے باوجود آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔
اس سلسلے میں ایک بات اور بھی ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اس وقت ہم کسی ملک کے انتظام کا چارج نہیں لے رہے ہیں کہ ہمیں اپنے نظام تعلیم میں ان ضرورتوں کے لیے آدمی تیار کرنا ہوں جو ایک ملک کے تمدن کی پوری مشینری کو چلانے میں پیش آتی ہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت صرف ایک کام ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں اخلاقی، فکری اور عمرانی انقلاب برپا کرنے کے لیے موزوں لیڈر اور کارکن تیار کریں۔ اس کام کے لیے ڈاکٹری یا انجینئرنگ یا سائنس وغیرہ کے ماہرین کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ صرف ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دین اسلام اور علوم اجتماعیہ (social sciences) میں اعلیٰ درجہ کی بصیرت رکھتے ہوں۔ آگے چل کر جیسے جیسے ہماری کارروائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا جائے گا اور ہمارے اوپر ذمّہ داریوں کا جتنا جتنا بار بڑھتا جائے گا، اس کے لحاظ سے جن جن علمی شعبوں کے اضافے کی ضرورت ہو گی ان کا اضافہ ہم کرتے جائیں گے۔ فی الحال اعلیٰ تعلیم کے صرف پانچ شعبوں کو پیشِ نظر رکھ کر ہمیں ابتدائی اور ثانوی تعلیم کا انتظام کرنا ہے تاکہ ہم ان پانچوں شعبوں کے لیے طلبہ کو تیار کر سکیں۔
اب میں سب سے پہلے آپ کے سامنے اعلیٰ تعلیم کا معیار مطلوب پیش کرتا ہوں تاکہ وہ منتہا آپ کے پیش نظر ہو جائے جس تک پہنچنے کے لیے آپ کو اس وقت ابتدائی قدم اٹھانے ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کا معیارِ مطلوب
۱۔ علمی:
اعلیٰ تعلیم کے جن پانچ شعبوں (faculties) کا ابھی میں نے آپ سے ذکر کیا ہے وہ حسب ذیل ہیں:
(۱) فلسفہ: تاریخ، فلسفہ، فلاسفہ، فلاسفہ مسلمین کے مختلف اسکول،فلاسفہ غیر مسلمین کے مختلف اسکول علم کلام، فلاسفہ متصوفین، منطق، نفسیات، فلسفۂ اخلاق نظری (theoritical) سائنس، حکمتِ قرآن اور اس کی مدد کے لیے حدیث۔
(۲) تاریخ: تاریخِ اسلام، تاریخِ مسلمین، تاریخِ عالمِ قدیم وجدید، تاریخِ انقلاب، فلسفۂ تاریخ عمرانیات، (sociology) مختلف عمرانی فلسفے، مدنیات (civics) سیاسیات ودساتیر عالم (constitutions of the world) اسلامی فلسفۂ تاریخ وفلسفہ تمدن اور نظامِ اجتماعی وسیاسی کا مطالعہ قرآن وحدیث کی روشنی میں۔
(۳) معاشیات: علم المعیشت، مختلف معاشی نظرئیے اورمعاشی وتمدنی مسالک، دنیا کے مختلف معاشی نظام، مالیات (finance) بینکنگ (banking) قرآن وحدیث اور فقہ کا مطالعہ معاشی نقطۂ نظر سے۔
(۴) قانون: تاریخِ قانون، اصولِ قانون، قوانینِ اممِ قدیمہ وجدیدہ، اصولِ قضا و نظامِ عدالت، قرآن وحدیث اور اسلامی مذاہبِ فقیہ کا مطالعہ قانونی نقطہ نظر سے۔
(۵) علومِ اسلام: ادب ولغت عربی، تفسیر، حدیث، فقہ، علوم اسلامی کی تاریخ، تاریخِ افکار مسلمین، مذاہب عالم کا متقابل مطالعہ، تاریخ ادیانِ عالم، فلسفہ مذہب، دورِ جدید کی مذہبی واخلاقی تحریکیں، مغربی الحاد کی تاریخ۔
۲۔ ذہنی واخلاقی:
اس علمی معیار کے ساتھ ہم ان لوگوں کو جو ان شعبوں میں تیار ہوں، حسبِ ذیل اوصاف سے آراستہ کرنا چاہتے ہیں:
(۱) فکر ونظر اور ذہنیت کے اعتبار سے پورے مسلمان ہوں اور اسلام کے لیے دنیا سے لڑنے کا گہرا جذبہ رکھتے ہوں۔
(۲) دین میں تفقہ اور مجتہدانہ بصیرت رکھتے ہوں اور وہ تمام استعدادیں ان کے اندر پوری طرح نشوونما پا جائیں جو دنیا کے بگڑے ہوئے نظامِ تمدن و اخلاق کو توڑ کر ایک صالح نظامِ تمدن واخلاق تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہیں۔
(۳) ان کی دماغی تربیت اتنی اعلیٰ درجہ کی ہو کہ اپنے زمانے کی علمی دنیا پر ان کی فراست کا سکّہ بیٹھ جائے۔
(۴) وہ ان اخلاقی اوصاف سے پاک ہوں جنھیں قرآن وحدیث میں کفار، فساق اور منافقین کی صفات قرار دیا گیا ہے اور جنھیں ایمان کی ضد، اسلام کے منافی اور صالح سوسائٹی کے لیے غیرموزوں ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کے برعکس ان میں انفرادی طور پر اور اجتماعی طور پر وہ اخلاقی اوصاف پرورش کیے جائیں جو قرآن وحدیث میں عباداللّٰہ، متفقین، صالحین، صادقین، محسنین، فائزین اور مصلحین کے اوصاف بتائے گئے ہیں۔
(۵) وہ دنیا میں اپنے بل بوتے پر کھڑے ہو سکیں، ہر میدان کے مرد ہوں، کسی راہ میں عاجزودرماندہ نہ ہوں، صعوبتوں سے لڑ کر اپنا راستہ ہموار کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور زمین کو پیٹ کر ہر جگہ سے اپنا رزق حاصل کر لینے کی قابلیت ان میں موجود ہو۔
یہ ہے وہ سب سے اوپر کی منزل (super structure) جو آخر کار ہمیں تیار کرنی ہے۔ اس بنا عالی کو سنبھالنے کے لیے آپ کو جس ثانوی تعلیم کا انتظام کرنا ہو گا۔ اس میں لامحالہ حسبِ ذیل شعبوں کی علمی تیاری ناگزیر ہو گی۔
ثانوی تعلیم کا معیارِ مطلوب
عام:
۱۔ عربی زبان، انگریزی زبان یا کوئی اور یورپین زبان، اس حد تک کہ تحقیقی مطالعہ کے لیے کافی ہو سکے۔
۲۔ قرآن کے تحقیقی مطالعہ کی ابتدائی تیاری۔
۳۔ اصول حدیث اور حدیث کی مختصر کتاب کا تحقیقی مطالعہ جس سے طالب علم کے لیے آیندہ زیادہ گہرے تحقیقی مطالعہ کی راہیں کھل جائیں۔
خصوصی شعبے:
یہ ان پانچ شعبوں (faculties) کی مناسبت سے ہونے چاہیں جو اعلیٰ تعلیم کے لیے تجویز کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک میں ان علوم کے مبادی اور مددگار علوم پڑھائے جائیں جن کا اعلیٰ تعلیم کے مرحلے میں طالب علم کو تحقیقی مطالعہ کرنا ہے مثلا:
۱۔ شعبۂ فلسفہ کے لیے مبادِی منطق، فلسفہ، قدیم وجدید اور علمِ کلام پر ایک ایک کتاب جو ان علوم کی اصطلاحات، طرزِ بیان اور بنیادی مسائل سے واقفیت کے لیے کافی ہو، نیز نفسیات، طبیعات اور علمِ کیمیا پر بھی ایک ایک ابتدائی کتاب۔
۲۔ شعبہ تاریخ کے لیے تاریخِ عمرانیات اور سیاسیات کاایسا کورس جس سے طلبہ کو تاریخی تحقیق اور تمدن ومتعلقاتِ تمدن کی گہرائیوں میں اُترنے کا طریقہ معلوم ہو اور وہ ان علوم سے فی الجملہ روشناس ہو جائیں۔
۳۔ شعبہ معاشیات کے لیے ایسا کورس جس سے طالب علم انسانی سوسائٹی کی ترکیب (structure) اور اس کے بنیادی مسائل کو بحیثیت مجموعی سمجھ لے اور پھر معاشیات، مالیات، بینکنگ اور کاروبار معیشت کے اصول سے واقف ہونے کے علاوہ موجودہ زمانے کے معاشی نظاموں اور مسلکوں سے بھی فی الجملہ روشناس ہو جائے۔
۴۔ شعبہ قانون کے اصول، قانونِ اصولِ فقہ، تاریخِ قانون اور تاریخِ فقۂ اسلامی پر ایک ایک ابتدائی کتاب اور فقہ مذاہبِ اربعہ کے مسائل کا ایک مختصر مجموعہ۔
۵۔ شعبہ علومِ اسلامی کے لیے زبان عربی کا ایک مزید کورس، اس عام کورس کے علاوہ جو متوسط تعلیم کے لیے تجویز کیا جائے۔ نیز فقہ اور تاریخِ فقہ پر ایک ایک کتاب اور تقابلِ ادیان پر ایک ایک کتاب جس میں تاریخِ ادیان بھی شامل ہو۔
ان دونوں بالائی منزلوں کو سنبھالنے کے لیے آپ کو اپنی تعمیر کی ابتدا نچلی منزل سے کرنی ہے، اس کی تفصیلات آپ حضرات کو خوب غور وخوض کے ساتھ تجویز کرنی چاہییں تاکہ بنیاد نہایت مضبوط ہو اور طلبہ میں علمی واخلاقی دونوں حیثیتوں سے وہ ضروری قابلیتیں اور صفات پیدا ہو جائیں جو مہذب انسانوں اور ہماری اس تحریک کے کارکنوں میں بہرحال ناگزیر ہیں۔ اس مرحلہ میں آپ کو اس امر کا بھی لحاظ رکھنا ہو گا کہ جو طلبہ آپ کی ابتدائی منزل سے آگے بڑھنے والے نہیں ہیں، انھیں بنیادی تعلیم وتربیت سے اس حد تک آراستہ ہونا چاہیے کہ جو ہرِ انسانیّت اور جوہرِ اسلامیّت کے اعتبار سے وہ ناقص نہ رہ جائیں اور متمدن ومہذب زندگی کے فعّال عنصر ہونے کے لیے جو قابلیتیں ضروری ہیں وہ ان میں پیدا ہو جائیں۔ اس کام کے لیے جتنی مدت چاہیں تجویز کریں اور اس مدت کو جتنے مراحل پر چاہیں تقسیم کریں۔ ماہرِ فن ہونے کی حیثیت سے یہ آپ کا اپنا کام ہے۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ابتدائی تعلیم پر ہم اپنے طلبہ میں کیا قابلیتیں اور کیا اوصاف دیکھنا چاہتے ہیں، آپ اس معیارِ مطلوب کو سامنے رکھ کر فیصلہ کر لیں کہ اس معیار کے طلبہ تیار کرنے کے لیے آپ کو کتنی مدت اور کیا سروسامان درکار ہے۔

ابتدائی تعلیم کا معیارِ مطلوب
اخلاقی:
(۱) شائستگی، پاکیزگی، صفائی، تمیزِ حسن و قبح اور ذوقِ سلیم۔
(۲)اخلاقِ حسنہ،انفرادی، عائلی اور اجتماعی۔
(۳) انضباط (discipline) باقاعدہ اورمہذب طریقہ سے سوسائٹی میں رہنے اور کام کرنے کا ڈھنگ، محاسبہ نفس کی عادت، احساسِ فرض، احساسِ ذمہ داری۔
(۴)وسعتِ قلب، وسعتِ نظر، وسعتِ تصور، بلند حوصلگی، خودداری۔
(۵) عزم وارادے کی پختگی، متانت وسنجیدگی (seriousness) خلوصِ نیت اور یہ ضروری صفت کہ جس معاملہ سے بھی دل چسپی لیں اس میں ان کی دل چسپی منافقانہ طرز کی نہ ہو۔
(۶) جرأت ودلیری، جفاکشی، چستی، ہر طرح کام کر لینے کی صلاحیت، زندگی کے ہر پہلو سے کچھ نہ کچھ واقفیّت (نہ صرف معلومات کی حد تک بلکہ عملاً بھی)
(۷) اسلامی نصب العین کا عشق اور گہرا اسلامی جذبہ، روح اور قلب میں اترا ہوا ہو اور جس کا اظہار بچوں کی تمام حرکات و سکنات سے ہو۔
(۸) اسلامی اوزان اور پیمانوں (islamic standard of weights and measures) سے ہر چیز کو ناپنے اور تولنے کی عادت۔
(۹) جماعتی زندگی کے لیے وہ مناسب اوصاف جو قرآن وحدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔
(۱۰) ضروری انتظامی صلاحیّت۔
(۱۱) تحقیق وتجسس اور تفکر ومشاہدہ کی عادت، کھلے کانوں اور کھلی آنکھوں کے ساتھ دنیا میں رہنا، باقاعدگی کے ساتھ سوچنا، استدلال کرنا اور پرکھنا۔
عملی
(۱) کشتی، تیراکی، بنوٹ، تلوار کا استعمال، گھوڑے کی سواری، سائیکل کی سواری، بندوق کا استعمال۔
(۲) پھاوڑے، کدال، ہتھوڑے، بیلچے، آری، بسولے، اور برمے سے کام لینے پر قادر ہونا، ابتدائی طبی امداد سے عملاً واقف ہونا۔
(۳) منڈی سے مال خریدنے اور اپنا مال بیچنے پر بے جھجک قادر ہونا۔
(۴) دارالاقامہ کے انتظام، کسی بڑے اجتماع کے اہتمام اور کسی بڑی پارٹی کے سفرکے انتظام پر قادر ہونا۔
(۵) دفتری کاموں سے واقفیت، تجارتی مراسلت کی مشق۔
(۶) تقریر، تحریر، تبلیغ، گفتگو اور ترغیبی مذاکرہ (convassing) پر قادر ہونا۔
(۷) کسی حد تک کھانا پکانے، کپڑا کترنے اور سی لینے پر قادر ہونا۔
علمی
(۱) اردو نوشت وخواند اس پیمانے پر کہ طالب علم صحیح اردو لکھ سکے۔ ہر طرح کا اردو لٹریچر پڑھ اور سمجھ سکے اور اپنے خیالات تحریر اور تقریر میں ادا کر سکے۔
(۲)ابتدائی عربی قرآن فی الجملہ سمجھ لینے کی حد تک۔
(۳)فارسی، گلستان وبوستان پڑھ سکنے کی قابلیت تک۔
(۴)ابتدائی انگریزی: ان علوم کی ابتدائی کتابیں انگریزی میں سمجھ لینے اور ان کا ترجمہ کر لینے کے قابل جنھیں معلومات عامہ کے سلسلے میں طالب علم اردو میں پڑھے گا۔
(۵)ضروری ریاضی جو ذہنی تربیت اور ہماری متوسط اور اعلیٰ تعلیم کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔
(۶)جغرافیہ، طبعی، عالمی، قرآنی اور ہندی۔
(۷)تاریخِ اسلام و مسلمین، سیرتِ انبیا و صلحائے امت اور تاریخِ ہند کی ضروری معلومات
(۸)اسلامی عقائد، اسلامی اخلاق اور اسلامی تہذیب وتمدن کے متعلق واضح تصوّرات، نیز فقہ کی وہ ضروری تفصیلات جو ایک مسلمان کو اپنی مذہبی زندگی کے لیے لازماً معلوم ہونی چاہییں۔
(۹)صحتِ عامہ ووظائفِ اعضا (physiology) ، طبیعات، علم الکیمیا، فلکیات، اراضیات، غرض اپنے جسم، اپنی سوسائٹی اور اپنے ماحول کے متعلق ضروری معلومات۔
(۱۰)ڈرائنگ، سکیل ڈرائنگ، ماڈل ڈرائنگ، اور فری ہینڈ پینٹنگ میں صفائی، ستھرائی، صحت اور حسنِ ذوق، نیزنقشہ بنانے اور نقشہ سمجھنے (map reading) کی قابلیت۔
ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا عارضی انتظام
یہ تو وہ اُمورتھے جو مجھے اصل نظامِ تعلیم کے متعلق عرض کرنا تھے۔ اب میں ایک اور ضروری چیز کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ یہ بات ظاہر ہے کہ ہماری تحریک کی حقیقی ضرورتیں محض ابتدائی یا ثانوی تعلیم سے پوری نہیں ہو سکتیں بلکہ وہ صرف اس انتہائی تعلیم ہی سے پوری ہو سکتی ہیں جس کے پانچ شعبوں کی طرف میں ابتدا میں اشارہ کر چکا ہوں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس انتہائی مرحلہ پر پہنچنے میں ہمیں ابھی بہت دیر لگے گی۔ لیکن ہماری تحریک کی موجودہ ضروریات کا تقاضا اتنا شدید ہے کہ ہم اپنی اعلیٰ تعلیم کے لیے اس وقت تک زیادہ انتظام نہیں کر سکتے جب تک ہمارے طلبہ ابتدائی تعلیم سے بتدریج ترقی کرتے ہوئے انتہائی منزل پر پہنچیں گے۔ اس لیے اعلیٰ اور ثانوی تعلیم کا ایک عارضی انتظام بہرحال ہمیں جلدی سے جلدی کرنا چاہیے تاکہ وہ لوگ جو کالجوں اور عربی مدرسوں میں تعلیم پا چکے ہیں، انھیں ہم اسلامی نقطۂ نظر سے علمی اور اخلاقی دونوں حیثیتوں سے تیار کر سکیں۔ اس کے دو فائدے ہوں گے۔ ایک یہ کہ ہمیں اس وقت جن اعلیٰ درجے کے کارکنوں اور راہ نمائوں کی ضرورت ہے وہ تیار ہو سکیں گے۔ دوسرے یہ کہ اس عارضی انتظام سے جن لوگوں کو ہم تیار کریں گے، وہی ہمارے نظامِ تعلیم کے ثانوی اور اعلیٰ شعبوں میں درس وتدریس اورکتبِ نصاب کی تیاری کا کام کر سکیں گے۔ آگے چل کر ہم اس عارضی انتظام کو تھوڑے ردوبدل کے ساتھ اپنی اعلیٰ تعلیم کے ایک مستقل شعبے میں تبدیل کر دیں گے تاکہ ان لوگوں کو جو ہماری ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے مرحلوں سے نہ گزرے ہوں بلکہ یہ مراحل دوسری درس گاہوں سے طے کرکے آئیں ہم اپنی اعلیٰ تعلیم کی کلاسوں میں داخل ہونے کے لیے تیار کر سکیں۔
اس عارضی تعلیم کے لیے نصاب اور مدتِ تعلیم اور مراحلِ تعلیمی تجویز کرنا آپ حضرات کا کام ہے۔ میں صرف وہ معیار پیش کیے دیتا ہوں جو اس تعلیم کی تکمیل کے وقت طلبہ کی قابلیت کا ہونا چاہیے۔
معیارِ مطلوب
(۱) قرآن اور حدیث میں اتنی محققانہ نظر کہ طالب علم زندگی کے مختلف مسائل میں کتاب اللّٰہ اور سنتِ رسول اللّٰہ سے راہ نمائی حاصل کرنے کے قابل ہو جائے۔
(۲) فقہ اسلامی سے اتنی واقفیت کہ طالب علم مختلف مذاہب فقہ کے اصولِ استنباط اور ان کے دلائل اور حجتوں سے واقف ہو جائے۔
(۳) معقولاتِ قدیمہ سے اتنی واقفیت کہ طالب علم قدما کی کتابوں سے استفادہ کر سکے اور معقولات جدیدہ سے اتنی واقفیت کہ موجودہ دور کے علمی پس منظر کو اچھی طرح سمجھ سکے۔
(۴) علومِ اجتماعی سے اتنی واقفیت کہ طالب علم موجودہ دور کے تمدنی مسائل اور تمدنی تحریکوں کو ناقدانہ حیثیت سے اچھی طرح سمجھ سکے۔
(۵) تاریخِ عالم پر اجمالی نظر، عہدِ نبوت، خلافتِ راشدہ کی تاریخ، ہندوستان اور یورپ کی جدید تاریخ سے خصوصی واقفیت۔ اب میں آپ سے درخواست کروں گا کہ اپنا کام شروع کریں۔ اللّٰہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کے اس کام میں برکت عطا فرمائے اور آپ کی راہ نمائی فرمائے۔‘‘
اس تقریر کے بعد سوال نامے کے جوابات ارسال کرنے والوں میں سے جو جو اصحاب موجود تھے انھیں ان کے جواب نامے دے دیے گئے تاکہ مولانا کی افتتاحی تقریر کی روشنی میں اگر وہ اپنے جوابات میں کوئی اضافہ، ترمیم یا اصلاح کرنا چاہیں تو کر لیں اور اگلے روز کے اجلاس کے لیے تقریر مذکورہ کے نقطۂ نظر سے غور وفکر کر لیں۔ اب نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا اس لیے اجلاس ختم ہوا اور بعد نماز عصر سب حضرات علیحدہ علیحدہ یا چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹ کر اپنے کام میں مصروف ہو گئے۔
اجلاسِ دوم
دوسرے روز ۹ بجے کانفرنس کا دوسرا اجلاس پھر دارالاسلام میں شروع ہوا اور دوپہر کا تھوڑاسا وقفہ چھوڑ کر عصر تک جاری رہا۔ سب جوابات جو سوا ل نامے کے جواب میں موصول ہوئے تھے، حاضرین میں تقسیم کر دیے گئے تاکہ ہر سوال کے متعلق جوابات کو بسہولت بیک وقت پیش کیا جا سکے۔ سوال نامے کے ایک ایک سوال پر بہ ترتیب بحث شروع ہوئی، مولانا مودودیؒ سوال نامے سے ایک ایک سوال کو پڑھتے جاتے تھے۔ پھر ان پر پوری سنجیدگی سے غور وفکر اور بحث وتمحیص ہوتی اور آخری فیصلے کو تحریر کر لیا جاتا… جو اُمور طے ہوئے وہ درج ذیل ہیں:
مجلس تعلیمی کی قراردادیں
کل مدتِ تعلیم
(۱) کل مدتِ تعلیم چودہ سال ہونی چاہیے جسے حسبِ ذیل تین مرحلوں میں تقسیم کیا جائے:
(الف) ابتدائی مرحلہ ۸ سال
(ب) ثانوی مرحلہ ۲ سال
(ج) اعلیٰ مرحلہ ۴ سال
مرحلہ ابتدائی
(۲) سرِدست صرف ابتدائی مرحلے کے لیے ایک درس گاہ قائم کی جائے جس کے انچارج غازی عبدالجبار صاحب ایم۔ اے، بی ٹی ہوں۔
(۳) اس درس گاہ کی ابتدائی جماعت میں ۶ سال سے لے کر ۸ سال کی عمر تک کے طلبہ داخل کیے جائیں۔
نوٹ: درمیانی جماعتوں میں داخل ہونے والے طلبہ کو امتحاناً ایک مقررہ عرصہ تک (جو زیادہ سے زیادہ تین ماہ ہو) درجہ خاص، (special class) میں رکھا جائے۔ ایک ہم عمر طالب علم کو ان کا رفیق مقرر کیا جائے جو انھیں مرکز کی زندگی کے مختلف شعبوں سے متعارف کرائے، اس رفیق کے نگران اس نووارد کے نگران بھی ہوں گے، اور وہ کوشش کریں گے کہ نووارد جلدی سے جلدی کسی ایک درجے کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے اور مرکز کی پوری زندگی میں شامل ہونے کے قابل ہو جائے۔
(۴) یہ درس گاہ لازماً اقامتی (residential) ہو گی۔
(۵) طلبہ کی تعلیم اور پرورش کے مصارف ان کے سرپرستوں کو برداشت کرنا ہوں گے۔
(۶) اس درس گاہ میں صرف ان لوگوں کے بچوں کو داخل کیا جائے گا جو نہ صرف ’’جماعت‘‘ کے نصب العین سے متفق ہوں بلکہ درس گاہ میں بچوں کو داخل کرتے وقت اس بات کا تحریری اقرار نامہ داخل کریں کہ وہ اپنے بچوں کو کسی نوعیت سے غیر اسلامی نظام کے کارکن بنانے کے لیے تیار نہیں کر رہے ہیں بلکہ انھوں نے اپنے بچوں کو اس نصب العین کی خدمت کے لیے دے دیا ہے۔
(۷) ابتدائی منزل میں طلبہ کو کسی خاص پیشہ کے لیے تیار کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ البتہ ہم یہ کوشش کریں گے کہ اپنی عملی اور اخلاقی تربیت سے بچوں کی تمام پیدائشی قابلیتوں اور استعدادوں کو اس حد تک نشوونما دے دیں اور انھیں عملاً اس حد تک مشاہدہ اور تجربہ کرا دیں کہ وہ آٹھ سال کی تعلیم وتربیت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے اندر یہ طاقت محسوس کرنے لگیں کہ خدا کی زمین میں ہر طرف ان کے لیے کام کرنے اور اپنی ضروریات حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں اور وہ ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اپنی درس گاہ کے فارغ شدہ طلبہ کے معاشی مسئلہ کا یہی ایک حل ہے۔
(۸) نصاب اور درسیات کی ترتیب کا کام حسب ذیل پانچ حضرات کی مجلس کے سپرد کیا گیا اور اس مجلس کو اختیار دیا گیا کہ اس کام میں جن جن اصحاب سے چاہے مدد لے اور چار مہینے میں اپنی تجاویز کا خاکہ مرتب کر لے۔
(۱) غازی عبدالجبار صاحب۔
(۲) مولانا امین احسن اصلاحی صاحب۔
(۳) قاضی حمید اللہ صاحب (سیال کوٹ)
(۴) نعیم صدیقی صاحب۔
(۵) خواجہ محمد صدیق صاحب (دہلی)
غازی عبدالجبار صاحب اس مجلس کے داعی ہوں گے۔
نوٹ: جو جوابات ہمارے سوال نامے کے جواب میں موصول ہوئے ہیں نیز جو مواد درسیات کے سلسلے میں آیا ہے، وہ سب اس مجلس کے حوالے کر دیا گیا۔
(۹) درس گاہ کے انتظامی اُمور، اساتذہ کے انتخاب، اساتذہ کی تیاری، دارالاقامہ اور درس گاہ کے نظم ونسق، تعمیرات اور دیگر انتظامی کاموں کا نقشہ مرتب کرنے کے لیے حسبِ ذیل حضرات کی مجلس مقرر کی گئی:
(۱) سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ صاحب
(۲)مولانا امین احسن اصلاحی صاحب
(۳)غازی عبدالجبار صاحب
(۴)چودھری محمد اکبر صاحب (سیال کوٹ)
غازی عبدالجبار صاحب اس مجلس کے بھی داعی ہوں گے۔
ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا عارضی انتظام
(۱۰) اس تعلیم کے لیے ایک الگ درس گاہ قائم کی جائے جس کے انچارج مولانا امین احسن اصلاحی صاحب ہوں گے۔
(۱۱) اس کی مدتِ تعلیم چھے سال رکھی جائے۔ دو سال مرحلہ ثانوی کے لیے اور چار سال مرحلہ تکمیل کے لیے۔
نوٹ: عربی مدارس کے فارغ التحصیل طلبہ اور یونی ورسٹیوں کے گریجوایٹس کے لیے ایسی آسانیاں فراہم کر دی جائیں کہ وہ اس سے کم مدت میں مرحلہ تکمیل طے کر سکیں۔
(۱۲)مرحلہ ثانوی کی ابتدائی منزل میں داخل ہونے کے لیے ایسے لوگ امیدوار ہو سکتے ہیں جو کم از کم میٹریکولیٹ ہوں یا کسی عربی مدرسہ کے متوسط درجہ کے معیار تک تعلیم پا چکے ہوں۔
(۱۳)درس گاہوں میں امیدواروں کا داخلہ ملاقات (interview) کے بعد ہو گا۔
(۱۴)صرف ایسے امیدواروں کو درس گاہوں میں داخل کیا جائے گا، جو جماعت اسلامی کے نصب العین سے متفق ہوں۔
(۱۵)طلبہ کو اپنے مصارف کا خود کفیل ہونا ہو گا۔
(۱۶)اس درس گاہ کے نصاب ودرسیات اور جملہ انتظامی امور کی تفصیلات مرتب کرنے کے لیے حسب ذیل اصحاب کی ایک مجلس مقرر کی گئی۔
(۱) مولانا امین احسن اصلاحی صاحب
(۲)مولانا اختر احسن اصلاحی صاحب
(۳)مولانا مسعود عالم ندوی صاحب
(۴)مولانا ابواللیث اصلاحی صاحب
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں