(یہ ایک تقریر ہے جو مصنف نے طلبہ کے ایک سالانہ اجتماع کے موقع پر کی تھی۔ اب اسے بعض ضروری تبدیلیوں کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کیا جا رہا ہے۔)
حمد و ثنا کے بعد
عزیز طلبہ اور محترم حاضرین! جس موضوع پر مجھے اظہار خیال کرنا ہے، اس کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے میں اس بات پر اپنی دِلی مسرت کا اظہار کرتا ہوں کہ مسلم ممالک کے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں ہر ہر جگہ خدا کے فضل سے ایسے نوجوان موجود ہیں جن کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن ہے، جو مسلمان کی حیثیّت سے اپنی ذمّہ داریوں کو سمجھتے ہیں اور ہمارے تعلیمی اداروں میں اسلامی روح پھیلانے کے لیے کچھ نہ کچھ کوشش کر رہے ہیں۔ اگر کسی شخص کے دل میں ممالکِ اسلامیہ کی بھلائی کا جذبہ ہو تو وہ اس چیز کی قدر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ چیز کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ خدا کی رحمت ہے کہ نظامِ تعلیم اور نظامِ تربیت کے غلبہ کے باوجود ہماری درس گاہوں میں اس طرح کے نوجوان پائے جاتے ہیں اور ساری مشکلات کے باوجود اپنے اس فرض کو سرگرمی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔
موضوعِ بحث
مجھے جس موضوع پر اس وقت اظہارِ خیال کرنا ہے وہ یہ ہے کہ بلادِ اسلامیہ کے مستقبل کی تعمیر میں طلبہ کا کردار کیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ بات سب سے پہلے ذہن نشین کر لیجیے کہ میرا خطاب اس وقت ان تمام مسلم ممالک کے طلبہ سے ہے جو مغربی استعمار کی براہِ راست غلامی میں رہنے، یا مغربی اقوام سے ہر میدان میں شکست کھانے کے بعد، ان کے افکار اور ان کی تہذیب سے مغلوب ہو گئے ہیں، اور جن کی زندگی کا ہر شعبہ تعلیم وتربیت کے شعبے سمیت انھی نظریات اور طریقوں پر چل رہا ہے جو اہل مغرب سے انھیں ملے گا۔ میرے نزدیک ان تمام ممالک کے حالات ایک جیسے ہیں، اور ان سب ملکوں میں طلبہ کو ایک ہی اہم مسئلہ سے سابقہ درپیش ہے۔
عالمِ اسلام سے مراد امتِ مسلمہ ہے
دوسری بات جو آپ کی نگاہ میں رہنی چاہیے وہ یہ ہے کہ عالم اسلام سے مراد اس کی زمین نہیں ہے، اس کے پہاڑوں اور دریائوں کا نام نہیں ہے۔ ان انسانوں کا نام ہے جو اس سرزمین میں رہتے ہیں۔ یہ انسان فانی ہے۔ ہر ایک کو اپنی ایک عمر گزار کر رخصت ہو جانا ہے۔ اس سرزمین میں ہماری تہذیب، ہماری ثقافت، ہمارا تمدن اور ہمارا نظامِ زندگی اگر باقی رہ سکتا ہے تو صرف اسی طرح رہ سکتا ہے کہ جو میراث ہم نے اپنے اسلاف سے پائی ہے وہ آگے کی نسل کو ٹھیک ٹھیک سونپ دیں اور اسے اس قابل بنا کر جائیں کہ وہ اس میراث کو صحیح طریقے سے آیندہ نسلوں کے حوالے کر سکے۔
قوموں کے فنا اور بقا سے کیا مراد ہے؟
دنیا میں جو قومیں مِٹی ہیں وہ اس معنی میں نہیں ہیں کہ ان کی نسل ختم ہو گئی۔ وہ اگر مِٹی ہیں تو اس لیے کہ ان کا قومی تشخص ختم ہو گیا۔ مثلاً ہم جب دیکھتے ہیں کہ بابل کی قوم مٹ گئی یا فراعنہ مصر کی قوم مٹ گئی تو وہ اس معنی میں ہوتا ہے کہ اہلِ بابل اور فراعنہ جس تہذیب کے علم بردار تھے اس کی خصوصیات مٹ گئیں۔ اور اس کے امتیازی اوصاف ختم ہو گئے۔ اہل بابل کی نسل آج بھی موجود ہے مگر ان کا تشخص ختم ہو گیا۔ قدیم مصریوں کی نسل بھی موجود ہے مگر فرعونی اور قبطی تہذیب وثقافت ختم ہو گئی کیوں کہ ان کی نسلیں اس قابل نہ رہیں کہ بعد کی نسلوں تک اپنی قومی میراث کو ٹھیک ٹھیک منتقل کر سکتیں۔ کسی قوم کی نئی نسلیں اگر اپنا قومی تشخص کھو دیں اور کوئی دوسرا تشخص اختیار کر لیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ قوم ختم ہو گئی۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ بنی اسرائیل کے دس قبیلے غائب ہو گئے جن کا آج کہیں پتا نہیں چلتا۔ یہ اس معنی میں نہیں ہے کہ ان کا قتل عام ہوا تھا اور ان کا بیج ہی دنیا سے مٹ گیا بلکہ اس معنی میں ہے کہ ان کے اندر سے اسرائیلیت کا احساس ختم ہو گیا اور ان کی نسلوں میں اسرائیلی شعور نہ رہا۔ اسرائیلی خصوصیات اور اسرائیلی تہذیب وتمدن کے امتیازی اوصاف کھو دینے کے بعد وہ دنیا کی دوسری قوموں میں جذب ہو کر رَل مِل گئے اور آج خود ان کی اولاد بھی یہ نہیں جانتی کہ ہم اسرائیلی ہیں۔ اس لیے ایک قوم کے زندہ رہنے کا سارا دارومدار اس بات پر ہے کہ وہ اپنی آیندہ نسل کو اس طرح تیار کرے جس سے وہ اس کے قومی تشخص کو برقرار رکھ سکے۔ اسی چیز کی اہمیت مَیں اس وقت آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں۔
تہذیبی میراث کو آیندہ نسلوں تک منتقل کیا جائے
یہ زمین جسے آج ہم عالمِ اسلام سے تعبیر کرتے ہیں، ہمارے اسلاف نے اس غرض کے لیے حاصل کی تھی کہ یہاں اسلامی تہذیب جلوہ گر ہو۔ ہم جس نظامِ زندگی کے قائل ہیں اسے یہاں عمل میں لایا جا سکے۔ ہم جن قوانین اور جن اصول حیات کو صحیح سمجھتے ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہیں وہ اس سرزمین میں رائج ہوں۔ مسلمان قوم کی بقا کا انحصار بھی دوسری تمام قوموں کی طرح اس بات پر ہے کہ جو تہذیب، جو تمدن، جو اصولِ حیات اسلام کے نام سے موسوم ہیں، جنھیں ہم نے اپنے بزرگوں سے پایا ہے، جن کی بِنا پر ہم دوسروں سے الگ ایک مسلمان قوم سمجھے جاتے ہیں، یہ صحیح طریقے سے آیندہ نسلوں تک پہنچیں۔ آیندہ نسلیں اسی رنگ میں رنگی جائیں اور انھیں ہم انھی اصولوں کے مطابق تیار کرکے جائیں تاکہ اس پاکستان میں مسلمان قوم زندہ رہ سکے۔ مسلمان افراد زندہ نہیں رہ سکتے لیکن مسلمان قوم صدہا برس تک زندہ رہ سکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ اس قابل ہو کہ اس تہذیبی میراث کو منتقل کر سکے اور نسل در نسل اس کے منتقل ہونے کا سلسلہ چلتا رہے۔ اگر ہم ان امتیازی خصوصیات کو باقی نہ رکھ سکیں اور ہماری نئی نسلیں اسلامی تہذیب کی بجائے، امریکی تہذیب میں رنگی جائیں تو آیندہ یہ پاکستان نہیں ہو گا بلکہ امریکستان ہو گا۔ ہماری نسلیں موجود رہیں گی مگر امریکیت کے رنگ میں رنگی ہوئی ہوں گی۔ وہ اسلامی تہذیب کی بقا نہیں ہو گی جس کے لیے یہ پاکستان حاصل کیا گیا تھا بلکہ وہ ایک دوسری تہذیب کی بقا ہو گی اس سے ہمارا قومی تشخص بدل جائے گا۔ اس چیز سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ طلبہ کا مسئلہ حقیقت میں کیا ہے اور کتنی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ محض تعلیم کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمارے قومی وجود اور اس کی بقا کا مسئلہ ہے۔ ہم یہا ں ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے اسی طرح زندہ اور باقی رہ سکتے ہیں کہ ہماری نوجوان نسل جو درس گاہوں میں تیار ہو رہی ہے وہ ٹھیک ٹھیک اسلامی تہذیب کی حامل ہو اور اس کی علم بردار بن کر اس سرزمین میں رہے۔
تہذیبی میراث کو آگے منتقل کرنے کے طریقے
اس مقصد کو حاصل کرنے کی دو ہی شکلیں ہیں۔ ایک یہ کہ طلبہ خود اس کے لیے کوشش کریں، اور دوسرے یہ کہ حکومت ملک کے نظامِ تعلیم وتربیت کو ایسا بنائے جس سے یہ مقصد حاصل ہو۔ میں ان چیزوں کو الگ الگ بیان کروں گا۔
وہ طریقہ جسے طلبہ اختیار کر سکتے ہیں
جو طلبہ ہمارے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں، وہ خدا کے فضل سے بالغ ہیں، سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور ان میں اپنے برے بھلے کو پہچاننے کی صلاحیّت پیدا ہو چکی ہے۔ جو علم بھی وہ حاصل کر رہے ہیں، وہ کم از کم انھیں اس قابل تو ضرور بناتا ہے کہ اگر وہ اپنے آپ کو سمجھنا چاہیں تو سمجھ سکتے ہیں اور اپنا راستہ خود بنا سکتے ہیں۔ اس وجہ سے تمام تر انحصار بالکل حکومت ہی کی کوششوں پر نہیں ہے بلکہ خود طلبہ کی اپنی کوششوں پر بھی ہے۔ ہمارے نوجوان طلبہ کو خود یہ احساس ہونا چاہیے کہ وہ مسلمان ہیں اور اس سرزمین میں ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے رہنا ہے۔ ان کے اندر یہ خواہش ہونی چاہیے کہ وہ مسلمان قوم کی امتیازی خصوصیات کو سمجھیں اور برقرار رکھیں جنھیں کھو دینے کے بعد اس کا قومی تشخص قائم نہیں رہ سکتا۔
اسلام کے بنیادی عقائد
اسلام کا سارا دارومدار توحید کے عقیدے، رسالت کے عقیدے اور آخرت کے عقیدے پر ہے۔ ہر شخص کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ان تین چیزوں میں شک پیدا ہو جانے کے بعد کوئی شخص اسلامی تہذیب کے مطابق زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ ہر وہ چیز جو ان عقائد میں شک پیدا کرتی ہے درحقیقت وہ اسلامی تہذیب کی اور بالآخر خود پاکستان کی جڑ کاٹ دینے والی ہے۔ پاکستان زندہ نہ رہے گا اگر اس میں اسلامی تہذیب باقی نہ ہو، اور اسلامی تہذیب باقی نہیں رہ سکتی… اگر اس میں توحید، رسالت اور آخرت کے عقیدے بنیاد کے طور پر موجود نہ ہوں۔
ان عقائد کی حفاظت لازمی ہے
سب سے زیادہ جس چیز کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے جن نوجوانوں میں کوئی اسلامی شعور موجود ہے، وہ اپنی درس گاہوں میں الحاد و دہریّت اور تشکیک پیدا کرنے والی ہر تحریک کا مقابلہ کریں۔ کسی ایسی تحریک کو پنپنے نہ دیں جو ان بنیادی عقیدوں سے منحرف کرنے والی ہو جس طریقے سے بھی ممکن ہو ایسی ہر تحریک کا مقابلہ کرنا عالم اسلام کی بقا اور ملت اسلامی کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اگر کوئی شخص ان تین چیزوں کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں شک پیدا کرتا ہے تو وہ صرف ایک کفر ہی کا ارتکاب نہیں کرتا بلکہ حقیقت میں وہ ملّتِ اسلامی کے ساتھ غداری کرتا ہے اور اس عالمِ اسلام کی جڑ کاٹتا ہے۔ اس احساس کو اچھی طرح دلوں میں جاگزیں کر لیجیے۔ اگر آج تک اس معاملے میں کوئی کوتاہی ہوئی ہے تو آیندہ نہ ہونی چاہیے۔ ہمارے ملک کی کسی درس گاہ میں، کسی کالج، کسی یونی ورسٹی اور کسی مدرسے میں بھی ملحدانہ نظریات وافکار کو نہ پھیلنے دیا جائے اور کسی ایسے فلسفے کو جڑ نہ پکڑنے دی جائے جو اسلام کے بنیادی عقائد میں شک پیدا کرنے والا ہو۔
اسلامی اخلاق اور اسلامی تہذیب سے مکمل وابستگی
دوسری اہم چیز جس کی طرف ہمارے نوجوان طلبہ کو متوجہ ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہماری بقا کا انحصار جس طرح اسلام کے عقیدے پر ہے اسی طرح اسلامی اخلاق پر بھی ہے۔ عقیدے اور اخلاق میں گہرا تعلق ہے، یہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلامی عقیدہ ہی ہم سے چند خاص اخلاقیات کا تقاضا کرتا ہے۔ ہماری درس گاہوں میں ایک مدتِ دراز سے اخلاق کے معاملہ میں شدید غفلت ہی نہیں برتی جا رہی ہے بلکہ ایک ایسی ثقافت کو پرورش کیا جا رہا ہے جو اسلام کے تصوّرات کی اور اس کے تمام بنیادی اخلاقی نظریات کی ضِد ہے۔ ہمیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وہ اخلاق جن کے بَل پر کوئی مغربی قوم اٹھ سکتی ہے، ہم اس کے بَل پر نہیں اٹھ سکے۔ ہم اگر اٹھ سکتے ہیں تو ان اخلاقی نظریات کی بنیاد پر اٹھ سکتے ہیں جو اسلام نے ہمیں دیے ہیں۔ مغرب کا ایک آدمی ناچ گا کر، شراب پی کر اور فواحش کا ارتقاب کرکے بھی اپنے ملک کے لیے قربانی دینے کھڑا ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ جن مادّی فلسفوں پر اس کے اخلاق کی تعمیر ہوئی ہے، یہ چیزیں ان کی ضِد نہیں ہیں لیکن ایک مسلمان جسے اچھی طرح معلوم ہے کہ ان چیزوں کو اللّٰہ اور اس کے رسولؐ نے حرام کیا ہے وہ جب اس ثقافت کو اختیار کرتا ہے اور اس طرز زندگی کی پیروی کرتا ہے تو وہ حقیقت میں اسلام کی بنیادی تعلیمات سے منہ موڑ کر ایسا کرتا ہے۔ ایک مغربی آدمی یہ کام کرکے اپنے اخلاقی اصولوں سے منہ نہیں موڑتا، لیکن ہم اس تہذیب کو اختیار کرتے ہیں تو ان تمام اصولوں کو توڑ ڈالتے ہیں جن پر ہمارے اخلاق کی بنیاد قائم ہے۔ ایک مسلمان اگر شراب پیتا ہے تو اس کی حیثیت ایک مغربی کے شراب پینے سے بہت مختلف ہے۔ اگرچہ شراب کے جسمانی اور نفسیاتی نقصانات سب انسانوں کے لیے یکساں ہیں خواہ پینے والا مسلمان ہو یا کافر۔ لیکن ایک کافر کے دین میں چوں کہ شراب حرام نہیں ہے اس لیے وہ جب اسے استعمال کرتا ہے تو صرف ایک مضر چیز کا استعمال کرتا ہے، اپنے عقیدے پر لات نہیں مارتا۔ اس کے برعکس ایک مسلمان اس حرام فعل کا ارتکاب اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک اس کے اندر خدا اور رسولؐ سے بغاوت اورآخرت سے بے پروائی کا جذبہ پرورش نہ پا چکا ہو اور اس کے بعد معاملہ صرف ایک حرمت کو توڑنے پر نہیں رکتا بلکہ پھر وہ تمام حرمتیں توڑتاا ور اخلاقی بندشیں کاٹتا چلا جاتا ہے، پھر تو کوئی چیز اس کے لیے ایسی مقدس نہیں رہ جاتی جسے پامال کر دینے سے وہ باز رہ جائے۔
اسلامی معاشرے کے اندر غیر اسلامی تہذیب کے نقصانات
اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک غیر اسلامی تہذیب اگر ایک مسلمان قوم کے اندر رواج پا جائے تو اس کے نقصانات اس سے بدرجہا زیادہ ہیں جو کسی قوم میں اس تہذیب کے رواج پانے سے ہو سکتے ہیں۔ غیر مسلم پر اس تہذیب کے بُرے اثرات صرف اس حد تک ہوتے ہیں جتنے ہر غلط چیز کے اثرات کسی شخص یا قوم پر ہوا کرتے ہیں۔ لیکن اگر ہم کسی فاسقانہ تہذیب کو اختیار کرتے ہیں تو اس کے ساتھ ہمارے ایمان پر بھی زد پڑتی ہے۔ اس سے ہمارے ایمان کی جڑیں کم زور ہوتی ہیں۔ ہمارے اندر خدا اور رسولؐ کی اطاعت کی بجائے بغاوت پیدا ہوتی ہے اور اس بغاوت کے بعد یہ ممکن نہیں رہتا کہ ہم دنیا میں کسی وفاداری پر اور کسی نظم کی اطاعت پر قائم رہ سکیں۔ کیوں کہ سب سے بڑھ کر جس کی وفاداری پر اطاعت ہم پر لازم تھی اس سے ہم پہلے ہی بغاوت کر چکے ہوتے ہیں اسی وجہ سے جب کوئی مسلمان ایک مرتبہ اسلامی احکام کی نافرمانی پر اتر آتا ہے تو وہ ایک نافرمانی پر بس نہیں کرتا بلکہ نافرمانیاں کرتا ہی چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اندر کوئی احساسِ فرض باقی نہیں رہتا، کسی قانون کا احترام باقی نہیں رہتا، کسی حد پر جا کر اس کی اخلاقی گراوٹ نہیں رکتی۔ آپ اندازہ کیجیے کہ جب ایک شخص خدا کو خدا، محمدا کو خدا کا رسولؐ اور قرآن کو خدا کی کتاب ماننے کے باوجود کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرتا ہے جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ خدا نے اس سے منع کیا ہے، رسولؐ نے اس کی مذمت کی ہے، قرآن نے اسے حرام کیا ہے اور آخرت کے عذاب کی وعید سنائی ہے۔ تو اس کے بعد آخر کیا چیز اسے کسی اخلاقی قدر کا احترام ملحوظ رکھنے پر آمادہ کر سکتی ہے؟ کسی لیجسلیچر کے قانون کا وہ کیسے پابند رہ سکتا ہے جسے وہ خدا نہیں مانتا؟ کسی قوم یا ملک کے لیے وہ اپنی ذات اور اپنی خواہشات کو کیسے قربان کر سکتا ہے جسے وہ معبود نہیں سمجھتا؟ اس کے اندر تو مقدس ترین چیزوں تک کی بے احترامی پیدا ہو چکی ہے، اسے تو قانون شکنی کا مرض لگ چکا ہے۔ اور اپنے ایمان کی رو سے وہ بلند ترین قانون کو توڑچکا ہے۔ یہ قانون شکنی کسی حد پر جا کرنہ رکے گی بلکہ وہ مستقل طور پر قانون کی بے احترامی کے مرض میں مبتلا ہو جائے گا۔ اس کے بعد توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ کسی معاملہ میں بھی کسی قانون کا پابند رہے گا۔ ایسا شخص تو کسی مہذب سوسائٹی کا رکن بننے کے قابل نہیں رہتا کجا وہ ایک مسلم سوسائٹی کا رکن رہے۔
مسلم طلبہ کے اندر غیر اسلامی ثقافت کو رواج دینے والے مجرم ہیں
اس چیز کو اگر کوئی شخص اچھی طرح سمجھ لے تو وہ یہ محسوس کرے گا کہ جو لوگ ہماری درس گاہوں میں ہمارے نوجوانوں کو عیاش بنا رہے ہیں، انھیں طائوس ورباب کا شیفتہ بنا رہے ہیں۔ غیراسلامی ثقافت کو ان میں رواج دے رہے ہیں، اور اسلامی اخلاق کی بندشوں کو توڑ ڈالنے کی بیماری انھیں لگا رہے ہیں، وہ کتنے بڑے جرم کا ارتکاب کر رہے ہیں اور اتنی بڑی بدخواہی اس ملک کے ساتھ کر رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان طلبہ کو خود اس کے نقصانات محسوس کرنے چاہییں۔ اگر ملک کا نظام چلانے والے اپنی نادانی سے یہ غلطی کر رہے ہیں تو طلبہ کا یہ کام ہے کہ وہ خود اس سے بچیں اور اپنے آپ کو جہاں تک ہو سکے اس سے محفوظ رکھیں۔ انھیں اپنی درس گاہوں میں ایسی رائے عام پیدا کرنی چاہیے کہ طلبہ اس غلط تہذیب کو نہ خود اختیار کریں نہ اپنی سوسائٹی اور اپنی درس گاہوں میں اسے رواج پانے دیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر خود طلبہ ہی کے اندر ایسی رائے عام پیدا ہو جائے اور وہ خود اس چیز کے مخالف ہوجائیں تو وہ کون سی طاقت ہے جو ان درس گاہوں میں زبردستی اس ثقافت کو رواج دے سکے۔ ظاہر بات ہے کہ آپ کو پولیس کے ذریعے سے نچوایا نہیں جا سکتا۔ کوئی قانون بنا کر آپ کو غیر اسلامی ثقافت اپنانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ صرف ایک شیطانی ترغیب ہی تو ہے جس سے لوگوں کو لاسا لگایا جا رہا ہے اور ان کی عادتیں بگاڑنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ طلبہ اگر یہ محسوس کر لیں کہ یہ ایک بیماری ہے جو انھیں لگائی جا رہی ہے تو وہ خود اس سے بچنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور اپنی درس گاہوں میں اس طرح کی خرابیوں کے رواج پانے کی مزاحمت کر سکتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ طلبہ میں یہ عام رائے پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔
یہ دو باتیں تو وہ ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ خود طلبہ کے اپنے کرنے کی ہیں اور اگر وہ اس پر عمل کریں تو بہت بڑی حد تک ان خرابیوں کو دور کر سکتے ہیں جو اس وقت ہماری درس گاہوں میں پھیل رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ہمارے نوجوان طلبہ کو اس بات کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے کہ انھیں دین اسلام سے واقف کرانے کے معاملے میں جو کچھ بھی کوتاہی ہمارے نظام تعلیم میں کی گئی ہے اس کی تلافی وہ اپنی کوششوں سے کریں۔ میں بعد میں عرض کروں گا کہ حکومت کو اس معاملہ میں کیا کرنا چاہیے۔ لیکن فرض کیجیے کہ حکومت اس طرف توجہ نہیں کرتی تو دین اسلام کو جاننے کا جو فرض خود آپ پر شخصی حیثیت سے عائد ہوتا ہے وہ ساقط نہیں ہو جاتا ہر بالغ مسلمان کو جس کے اندر شعور پیدا ہو چکا ہو اور جو خود اپنے اختیار سے کام کرنے کے قابل ہو چکا ہو اس کا فرض ہے کہ جس اسلام کا وہ قائل ہے اور جس اسلام کی نسبت سے وہ اپنے کو مسلمان کہتا ہے اسے جاننے کی آپ ہی کوشش کرے۔ یہ علم حاصل کرنے کے لیے کچھ بہت زیادہ دینی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ دین کا کم سے کم خلاصہ توآسانی کے ساتھ آدمی کو اپنی ذرا سی کوشش سے حاصل ہو سکتا ہے۔ آپ کی اپنی زبان میں جو لٹریچر اسلامی موجود ہے اسی کا مطالعہ کیجیے اور کم از کم اتنا جان لیجیے کہ کافر اور مسلمان میں کیا فرق ہے، کیا بنیادی چیزیں ہیں جن سے ایک آدمی کافر سے مسلمان ہوتا ہے، ایک مسلمان کو کِن چیزوں پر ایمان لانا چاہیے۔ اس کے فرائض کیا ہیں، اس کے لیے ممنوع کیا چیزیں ہیں، اس کے لیے اخلاق کے کیا اصول ہیں جن کی پابندی اسے کرنی چاہیے، اس کے لیے زندگی بسر کرنے کے کیا طریقے اسلام نے مقرر کیے ہیں جن کی اسے پیروی کرنی چاہیے۔ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں جن کے لیے کسی دینی درس گاہ میں ہی آپ کا جانا اور برسوں علومِ دینی پڑھنا ضروری ہو۔ تھوڑی سی توجہ اور تھوڑی سے محنت سے ہمارا ہر نوجوان اسلام کا اتنا علم تو حاصل کر ہی سکتا ہے اور اس علم کے لیے ہر زبان میں کافی مواد موجود ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہمارے نوجوان خود اس علم کی ضرورت محسوس کریں اور اسے حاصل کرنے کی فکر کریں۔ یہ علم آپ کو امتحان پاس کرنے اور ڈگری لینے کے لیے نہیں بلکہ مسلمان بننے کے لیے درکار ہے۔
اس بارے میں ہماری حکومتوں کا فرض
ہماری حکومت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں اتنے بڑے پیمانے پر جو بد عنوانی (corruption) پھیلی ہوئی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا اسباب ہیں جن سے تمام تر کوششوں، تمام قوانین اور انٹی کرپشن (anti corruption) کے محکمے کے باوجود کرپشن گھٹنے کے بجانے بڑھ رہی ہے۔ اس کرپشن نے ہمارے پورے قانونی نظام کوبے کار کرکے رکھ دیا ہے۔ جوقانون بھی کسی برائی کی اصلاح کے لیے نافذ کیا جاتا ہے اسے محض قانون کے نافذ کرنے والوں کی بددیانتی اور رشوت خوری عملاً نہ صرف معطل کر دیتی ہے، بلکہ قانون کی ہر پابندی رشوت کا ایک نیا دروازہ کھول دیتی ہے۔ مگر یہ معاملہ صرف اس حد تک نقصان پہنچا کر نہیں رہ جاتا۔ اسی کرپشن کی بدولت ہمارے ملک کا غلّہ ہمارے دشمنوں کو ہزاروں ٹن کی مقدارمیں پہنچتا رہا ہے۔ ابھی حال ہی میں بھارت کے جن علاقوں پر پاکستان کی فوجوں نے قبضہ کیا ہے، وہاں غلّے کی بوریاں پائی گئی ہیں جو پاکستان سے گئی ہوئی تھیں۔ اس طرح یہ کرپشن ہمارے دشمنوں کو ہمارے خرچ پر پالتی رہی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر آپ سوچیں تو اس بات کا خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک آدمی اگر اپنے ملک میں اپنے بھائیوں سے سو روپے لے کر بے ایمانی کر سکتا ہے تو آخر دشمنوں سے دس ہزار روپے لے کر ہمارا کوئی راز ان کے ہاتھ کیوں نہیں بیچ سکتا۔ جب ایک قوم میں ضمیر فروشی اور بددیانتی کی وبا پھیل جائے اور اس میں ہزاروں افراد ایسے موجود ہوں جو ذاتی مفاد پر قوم، ملک، دین، ایمان ہرچیز قربان کر سکتے ہوں تو جس طرح انھیں خود اپنے ملک کے بگڑے ہوئے لوگ استعمال کر سکتے ہیں اسی طرح باہر کے دشمن بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
خیانت اور بددیانتی کیوں پھیل رہی ہے؟
اب ذرا دیکھیے کہ اس کرپشن کی جڑ میں کیا چیز کام کر رہی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس ملک میں یہ جتنی بددیانتی، رشوت خوری اور خیانت ہو رہی ہے اس کے مرتکب ہمارے تعلیم یافتہ لوگ ہی تو ہیں۔ ملک کے سارے نظامِ حکومت اور معاشی نظام کو وہی توچلا رہے ہیں، دیہات کے ان پڑھ تو نہیں چلا رہے ہیں اور یہ لوگ ہماری انھی درس گاہوں سے نکلے ہوئے ہیں۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ کوئی نقص ہمارے نظامِ تعلیم میں ضرور ایسا ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے اندر اس قدر کثیر تعداد میں بددیانت افراد تیار کرتا رہا ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو صاف طور پر معلوم ہو جائے گا کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں جو نقائص ہیں ان میں سب سے بڑا بنیادی نقص یہ ہے کہ جن ایمانیات اور جن عقائد پر ہماری تہذیب اور ہمارے اخلاق کی ساری بنیاد قائم ہے یہ تعلیم انھیں تقویت پہنچانے کی بجائے الٹا انھیں کم زور کرتی ہے، ان میں شک پیدا کرتی ہے اور بعض لوگوں کو انکار کے مقام تک پہنچا دیتی ہے۔ بہت ہی کم لوگ ایسے ہیں جو اپنے یقین کی جڑیں ڈھیلی کیے بغیر اس تعلیم سے فارغ ہو کر بخیریت نکل آتے ہوں۔ اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ جب خدا، آخرت اور رسالت ہی کے بارے میں ہمارے تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت کے یقین واعتقاد کو گھن لگ چکا ہو تو ہمارے پاس اورکون سی چیز ایسی ہے جس کا انجکشن دے کر ہم انھیں اخلاق کے اصولوں پر قائم رکھ سکیں؟ جس شخص کو نہ خدا کا خوف روکنے والا ہو نہ آخرت کی باز پُرس کا احساس اس کے لیے مانع ہو اسے بددیانت اور خائن اور فرض ناشناس بننے سے آخر کیا چیز روک سکتی ہے؟ جس شخص کے اندر اپنی ذات سے بالا ترکسی چیز کی وفاداری باقی نہ رہی ہو اسے آپ کس طرح ذاتی مفاد کی قربانی پر آمادہ کر سکتے ہیں؟ قربانی کے لیے کوئی نہ کوئی بالا تر وفاداری تو بہرحال ضروری ہے اور ایک مسلمان کے لیے اگر کوئی بنیادی وفاداری ہے تو وہ صرف خدا اور رسولؐ اور مِلّتِ اسلام کی وفاداری ہی ہے۔ اس وفاداری کو آپ کم زور کر دیں گے تو لوگوں کے اندر لامحالہ خود غرضی اور نفسانیت ہی پیدا ہو گی اور وہ اپنی ذات کے مفاد اور اپنی خواہشات پر کسی چیز کو قربان کر دینے میں تامل نہیں کریں گے۔
ملّت کی اصلاح کے لیے اسلامی اصول ہی کار گر ہو سکتے ہیں
آپ صرف اس وفاداری کو مستحکم کرکے ہی اپنے افراد میں یہ صلاحیت پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ حق، انصاف اور راستی پر قائم رہیں، محض خدا کے خوف اور آخرت کی جواب دہی کے احساس کی بنا پر ایسے ناجائز فائدے اٹھانے سے رک جائیں جن کا کوئی نقصان انھیں اس دنیا میں پہنچتا نظر نہ آتا ہو، اور محض اللّٰہ اور اس کے دین کی وفاداری کی بنا پر ہر وہ قربانی کر گزریں جو بظاہر ان کی اپنی دنیا برباد کرتی نظر آتی ہو۔ دنیا کی دوسری قوموں کے لیے کچھ دوسری وفاداریاں اور کچھ دوسری قدریں ہیں جن پر ان کے اخلاق کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ ان وفاداریوں اور قدروں کو آپ اپنی قوم میں پیدا کرنا چاہیں تو آپ کو پچاس برس اس قوم کو غیر مسلم بنانے اور کم از کم ۵۰ برس ہی انھیں ایک اچھا فرنگی بنانے میں لگیں گے تب کہیں جا کر آپ یہاں کوئی قومی کیریکٹر پیدا کر سکیں گے بشرطیکہ اس وقت تک یہ ملک باقی رہ جائے۔ لیکن اسلام کی بنیاد پر لوگوں کے اخلاق بنانے کا کام آپ آج ہی سے شروع کر سکتے ہیں اور چند سال کے اندر یہ کام اپنے بہترین پھل دے سکتا ہے۔ کیوں کہ اللّٰہ اور رسولؐ اور آخرت کے عقائد تو مسلمان نوجوانوں کو بہرحال ان کے ماں باپ سے ملے اور مسلم معاشرے کی آب و ہوا میں اور مسلمانوں کی قومی روایات میں وہ رچے بسے ہوئے ہیں۔ یہ جڑیں جو پہلے سے اس سرزمین پر موجود ہیں انھیں اگر آپ ذرا سا پانی بھی دیں تو یہ فورًا ہری ہو جائیں گی اور پھل دینے لگیں گی۔ انگریزوں کو چوں کہ ہماری تہذیب اور ہمارے اخلاق سے کوئی دل چسپی نہ تھی بلکہ وہ ہمارے مسلمان ہونے کو الٹا خطرناک سمجھتے تھے اس لیے انھوں نے یہاں ایسا نظامِ تعلیم قائم کیا جو ہمارے ایمان کو کم زور کرنے والا، ہمارے عقائد کم از کم مشکوک بنا دینے والا، اور ہماری نگاہوں سے خود اپنی تہذیب کو گِرا دینے والا تھا۔ ان کا سیاسی مفاد ہی اس بات کا متقاضی تھا کہ وہ ہمیں اسلام سے جس حد تک منحرف کر سکتے ہوں، کریں۔ لیکن اب پاکستان بننے کے بعد اور خود اپنی ایک آزاد مملکت ہاتھ میں لینے کے بعد بھی اگر ہم اسی نظامِ تعلیم کو جاری رکھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دراصل خود کشی کر رہے ہیں۔
اسلام کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے والے اساتذہ غدار ہیں
ہماری درس گاہوں میں آج ایسے استاد موجود ہیں جو دن رات طلبہ کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کرتے ہیں۔ شب وروز ان کے دلوں میں یہ عقیدہ بٹھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسلام کی کوئی تہذیب نہیں ہے، اسلام کے معاشی اصول اگر کچھ ہیں بھی تو وہ اس زمانے میں نہیں چل سکتے۔ اسلام کے قوانین بالکل دقیانوسی ہیں جو اس ترقی یافتہ دور کے لیے کسی طرح موزوں نہیں۔ تاریخ میں مسلمانوں کا کوئی قابلِ فخر کارنامہ نہیں ہے، جتنے بھی ہیرو دنیا میں گزرے ہیں سب غیر مسلم تھے۔ میں صاف کہتا ہوں کہ جو استاد ہماری درس گاہوں میں ہمارے نوجوانوں کو سبق پڑھا رہے ہیں اور وہ ان کے دماغوں میں یہ فاسد خیالات بھر رہے ہیں، ان سے بڑھ کر عالمِ اسلام اور ملّتِ اسلامی کا غدار کوئی نہیں۔ یہ اس ملک کی جڑوں پر کلہاڑا چلانے والے لوگ ہیں اور بدقسمت ہے وہ قوم جس کی نئی نسل اس طرح کے استادوں کی تعلیم سے پروان چڑھ رہی ہو۔ اس پر مزید غضب یہ ہے کہ متعدد اسلامی ممالک کے تعلیمی اداروں میں ایم۔ ای ڈی اور سوشیالوجی کی تعلیم کا پورا شعبہ امریکن یا امریکیت زدہ استادوں کے حوالے کر دیا گیا ہے جو بڑے پیمانے پر تعلیم اور معاشرت کے متعلق ہماری نئی نسل کے نظریات کو پوری طرح مسخ کر دینے کی خدمت انجام دے رہے ہیں۔ یہ آخر خود کشی نہیں تو اور کیا ہے؟
موجودہ نظامِ تعلیم کے نقائص
ہماری حکومت کو اب اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اس نظامِ تعلیم میں جو نقائص ہیں انھیں ہم کیسے دور کریں۔ ہمارے ہاں جو علوم وفنون پڑھائے جا رہے ہیں ان کے اندر بجائے خود کوئی نقص نہیں ہے۔ اصل خرابی یہ ہے کہ انھیں ایسے لوگوں نے مرتّب کیا ہے جو خدا کے ماننے والے نہیں ہیں اور ایسے طریقے سے مرتّب کیا ہے جس سے خود بخود لوگوں کے ذہن میں ایک بے خدا کائنات کا تصوّر پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ تصوّر پیدا کرتے ہیں کہ یہ سارے کا سارا نظامِ کائنات آپ سے آپ بن گیا اور آپ سے آپ چل رہا ہے۔ کوئی خدا اس کا بنانے والا اور اسے چلانے والا نہیں ہے۔
اسی طرح دوسرا تصور جس پر ان علوم کی ترتیب اور ان کے بیان کی بِنا رکھی ہے وہ یہ ہے کہ انسان آپ ہی اپنا راہ نما ہے، کسی خدا کی راہ نمائی کی نہ اسے حاجت ہے او ر نہ وہ راہ نمائی کسی خدا کے پاس سے آتی ہے۔ یہ دونوں تصور ہماری تہذیب کی جڑ کاٹ دینے والے ہیں۔ ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ علوم کی ترتیب وبیان کے اس اسلوب کو بدل کر انھیں خدا پرستی کی بنیاد پر مرتب اور بیان کریں۔ ہمیں سائنس، فلسفہ اور عمرانیات کے سارے علوم پڑھنا ہیں، ان کی ہر شاخ کو پڑھنا ہے اور ان تمام معلومات سے فائدہ اٹھانا ہے جو انسان کو آج تک حاصل ہوئی ہیں۔ لیکن اگر ہم مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تمام علوم کو مسلمان بن کر پڑھنا ہو گا، ورنہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں، موجودہ ترتیب وبیان کے ساتھ یہ علوم ہمیں نا مسلمان بنا کر رہیں گے۔ یہ ہے ہماری تعلیم کا اصل مسئلہ اسے ہم جتنی جلدی سمجھ جائیں، اتنا ہی ہمارے لیے بہتر ہے۔
اسلام اور سائنس
بہت سے لوگ اس خیال کو سن کر بڑے پریشان ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سائنس کا آخر اسلام سے کیا تعلق۔ حالانکہ ان کی آنکھوں کے سامنے روس کی مثال موجود ہے جو سوویٹ سائنس کا قائل ہے آپ بتائیے کہ سائنس کا اگر اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے تومارکسزم سے کیا تعلق ہے’ کوئی کمیونسٹ اپنے اشتراکی معاشرے کے افراد کو بورژواسائنس اور بورژوا فلسفہ وتاریخ اورمعاشیات وسیاسیات وغیرہ پڑھانا پسند نہیں کرتا بلکہ ان سب علوم کومارکسزم کے رنگ میں رنگ کر پڑھتا ہے تاکہ اشتراکی سائنس دان اور اشتراکی ماہرینِ علوم پیدا ہوں۔ بورژوا نقطۂ نظر سے مرتب کیے ہوئے علوم کو پڑھا کرکوئی اشتراکی معاشرہ پنپ نہیں سکتا اور حقیقت یہ ہے کہ جس کی بھی کوئی اپنی تہذیب ہوجس کا بھی اپنا کوئی نظریہ حیات ہو، وہ اپنے نظریہ حیات کے مخالف لوگوں کے مرتب کردہ سائنس اور علوم وفنون اپنی نوجوان نسلوں کو پڑھانا پسند نہیں کر سکتا کیوں کہ اس کے پڑھانے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے تشخص کو ختم کر دے اور دوسروں میں جذب ہو جائے۔
سائنس کے دو بنیادی شعبے
یہ کہنا کہ سائنس تو ایک عالم گیر چیز ہے، اس کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں فی الواقع بڑی نافہمی کی بات ہے۔ سائنس میں ایک چیز تو ہے وہ حقائق (facts) اور قوانینِ فطرت (natural laws) جو تجربے اور مشاہدے سے انسان کے علم میں آتے ہیں۔ یہ بلاشبہ عالم گیر ہیں۔ دوسری چیز ہے وہ ذہن جو ان حقائق اورمعلومات کو مرتّب کرکے ان پر نظریات قائم کرتا ہے اور وہ زبان جس میں وہ انھیں بیان کرتا ہے۔ یہ چیز عالم گیر نہیں ہے بلکہ اس میں ہر تہذیب کے پیروئوں کا اسلوب الگ الگ ہے اور فطرتاً الگ ہونا چاہیے۔ ہم اسی دوسری چیز کو بدلنا چاہتے ہیں نہ کہ پہلی چیز کو۔
مثال کے طور پر دیکھیے یہ ایک سائنٹیفک حقیقت ہے کہ دنیا کی تمام دوسری چیزیں تو سرد ہو کر سکڑتی چلی جاتی ہیں مگر ان کے برعکس پانی جب سرد ہوتے ہوتے جمنے کے قریب پہنچتا ہے تو پھیل جاتا ہے اور برف بن کر ہلکا ہوجاتا ہے۔ اسی وجہ سے برف سطحِ آب پر تیرنے لگتی ہے۔ یہ ایک امرواقعہ (fact) ہے۔ اب ایک شخص اس چیز کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ پانی کی یہ خاصیت ہے اور واقعۃً ایسا ہوا کرتا ہے۔ دوسرا شخص اسی واقعہ کواسی طرح بیان کرتا ہے کہ خدا نے اپنی حکمت وربوبیّت سے پانی میں یہ خصوصیت اس لیے رکھی ہے کہ دریائوں، تالابوں اور سمندروں میں جان دار مخلوق باقی رہ سکے۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا توپانی جم جم کر نیچے بیٹھتا چلا جاتا یہاں تک کہ پورے پورے سمندر، تالاب اور دریا برف بن جاتے اورکوئی جان دارمخلوق ان میں زندہ نہ رہتی۔ دیکھیے ایک ہی امرِ واقعہ کو دو شخص اپنے اپنے طرزِ فکر کے مطابق دو مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں اور ہر ایک کا بیان پڑھنے سے آدمی کے ذہن پر دو مختلف اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ ایک طریقہ سے اسی واقعہ حقیقت کو بیان کیا جائے تو پڑھنے والے کے ذہن میں خدا کی توحید، اس کی حکمت اور ربوبیّت کا عقیدہ بٹھائے گا اور دوسرے طریقے سے یہی واقعہ بیان کیا جائے جس طرح موجودہ سائنس میں اسے بیان کیا جاتا ہے، تو کسی شخص کے ذہن میں سرے سے خدا کا تصوّر آتا ہی نہیں بلکہ اس سے آدمی کے سامنے تصویر یہ آتی ہے کہ یہ سب کچھ آپ سے آپ ہو رہا ہے۔ کسی صانع حکیم کی حکمت اور کسی رب قدیر کی پروردگاری اس میں کار فرما نہیں ہے۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک طریقے سے اگر سائنس کو پڑھایا جائے تو اس سے ایک مادہ پرست سائنس دان تیار ہو گا اور دوسرے طریقے سے وہی سائنس پڑھایا جائے تو ایک مسلمان سائنس دان تیار ہو جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ سائنس کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو انسانوں کے دل میں ایمان کی گہری جڑوں سے راسخ کر دینے والا نہ ہو فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، فزیالوجی، اناٹومی، اسٹرانومی، غرض جس علم کو بھی آپ دیکھیں اس میں ایسے ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جو انسان کو پکا اور سچا مومن بنا دینے کے لیے کافی ہیں۔ سائنس کے حقائق سے بڑھ کر آدمی کے دل میں ایمان پیدا کرنے والی کوئی دُوسری چیز نہیں ہے۔ یہی تو وہ آیاتِ الٰہی ہیں جن کی طرف قرآن بار بار توجہ دلاتا ہے مگر صرف اس وجہ سے کہ کافر سائنس دان نے ان حقائق کو اپنے نقطۂ نظر سے مرتّب اور بیان کیا ہے۔ انھیں پڑھ کر آدمی الٹا مادّہ پرست اورملحد بنتا ہے اور خدا کے تصوّر پر ہنستا اور اس کا مذاق اڑاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت اس فرق کو سمجھے اور اس معاملے کی تَہ تک پہنچنے کی کوشش کرے۔ ہم بے خدا سائنس، بے خدا فلسفہ اور اجتماعی علوم پڑھا کر خدا پرست انسان تیار نہیں کر سکتے۔ ہمیں اگر ایک مسلمان قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے تو جلدی سے جلدی ایک ایسا ادارہ قائم کرنا چاہیے جو تمام علوم وفنون کی ترتیب کو بدلے اور ایسی نصابی کتابیں تیار کرے جن میں ان تمام علوم وفنون کو اسلامی نقطۂ نظر سے مرتّب کیا جائے۔ جب تک یہ کام نہیں کیا جائے گا میں کہتا ہوں ہمارا دین وایمان ہی نہیں خود پاکستان کا وجود بھی مستقل خطرے میں ہے۔
ہماری حکومتوں کا دوسرا بڑا فرض
دوسری چیز جس کی طرف میں حکومت کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ اخلاقی تربیت کا مسئلہ ہے۔ یہ تربیت اگرچہ سبھی تعلیمی اداروں میں درکار ہے، مگر خاص طور پر مختلف سرکاری ملازمتوں کے لیے آدمی تیار کرنے والے اداروں میں اس کی شدید ضرورت ہے۔ خواہ وہ فوج کی ٹریننگ کے ادارے ہوں یا پولیس کی ٹریننگ کے یا سول سروس کی ٹریننگ کے۔ ان تمام اداروں میں اسلامی اخلاق اور اسلامی تعلیم کو لازمی کیا جائے۔ اسلامی عقائد کو ذہن نشین کرایا جائے، اسلامی احکام کی پابندی کی عادت ڈالی جائے اور کسی قسم کے فسق وفجور کو راہ پانے کا موقع نہ دیا جائے۔ یہی وہ چیز ہے جو پاکستان کو مستحکم کرے گی۔ ہم ایک پولیس مین کو ٹریننگ دینا شروع کرتے ہیں اور اپنی جگہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جب اس کا نام عبداللّٰہ یا عبدالرحمن ہے تو وہ مسلمان تو ہو گا ہی اس لیے ہمیں اسے صرف پولیس ڈیوٹی کے لیے تیار کرنا ہے، اسے مسلمان بنانے کے لیے کسی کوشش کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا میں ایک پولیس مین کو تربیت دینے کے لیے جو کچھ کیا جاتا ہے بس وہی کچھ ہم بھی اپنی پولیس ٹریننگ کے نظام میں کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ وہاں سے تربیت پا کر نکلتا ہے تو وہ پولیس ڈیوٹی ادا کرنے کے لیے تو بخوبی تیار ہو جاتا ہے مگر اس کے اندر اسلامی اخلاق موجود نہیں ہوتے اِلّا یہ کہ اللّٰہ نے اس پر فضل کیا ہو اور اس کے اندر ہماری اس غفلت کے باوجود اسلامی اخلاق کے وہ اثرات باقی رہ گئے ہوں جو وہ ہماری ٹریننگ سے نہیں بلکہ کہیں اور سے لے آیا ہے۔ اس کے بعد اگر ہماری پولیس میں کوئی کرپشن ہو، اس کی سرپرستی میں جرائم پروان چڑھیں اور اس کے زیر سایہ اسمگلنگ ہوتی رہے تو پھر شکایت نہ کیجیے، کیوں کہ آپ نے ایسی کوشش ہی نہیں کی جس سے ہماری پولیس اسلامی اخلاق وکردار کی حامل ہو۔ ہمارے ہاں مختلف ملازمتوں کی ٹریننگ کا جو انتظام ہے اس میں اور کسی کافر قوم کی ٹریننگ کے نظام میں کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جب لوگ وہاں سے نکلتے ہیں اور بڑے عہدوں تک پہنچتے ہیں تو سوائے ان لوگوں کے جن میں اسلامی اخلاق، اسلامی کردار اور اسلامی سیرت کسی دوسرے ذریعہ سے آئی ہے، وہ اچھے مسلمان افسر ثابت نہیں ہوتے۔
جہاں تک فوجوں کی تربیت کا تعلق ہے تو اگر بعض اسلامی ممالک کی فوجوں نے بہترین کارناموں کا ثبوت دیا اور زبردست جذبۂ جہاد، شوقِ شہادت اور مجاہدانہ سرفروشی کا ان سے ظہور ہوا ہے، اس کا سرچشمہ ہماری فوجی تربیت میں کس جگہ ہے؟ اس کا سر چشمہ وہ مسلمان معاشرہ ہے جس کی بچی کھچی روایات نے ان کے دل ودماغ میں خدا، رسولؐ، آخرت، جہاد اور شہادت کے تصوّرات بٹھا رکھے تھے اور اسلام کی محبت کا بیج بو رکھا تھا۔ مگر یہ چیز ہماری تربیت کے نظام میں شامل نہیں تھی۔ یہ اللّٰہ کا فضل تھا کہ ہمارے معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے وہ اثرات موجود تھے جو اس آڑے وقت میں ہمارے کام آ گئے لیکن اگر ہم مسلسل اس معاشرے کو بھی بگاڑتے رہے تو یہ اثرات بھی آخر کب تک چلیں گے۔ آیندہ نسلوں کو یہ چیز کم سے کم تر ہی ملتی چلی جائے گی۔
ہماری درس گاہوں میں جو خواتین اب تیار ہو رہی ہیں ان کی گودوں سے پرورش پا کر نکلنے والے نوجوانوں میں ان اثرات کے باقی رہ جانے کی کم ہی امید کی جا سکتی ہے۔ یہ اثرات تو انھی لوگوں میں پائے گئے ہیں جنھوں نے اپنے گھروں میں اپنی مائوں کو نماز پڑھتے دیکھا تھا جنھوں نے ان سے اللّٰہ اور رسول ا کا نام سنا تھا، جنھوں نے انھیں قرآن پڑھتے دیکھا تھا۔ مگر جو نئی مائیں اب تیار ہو رہی ہیں ان کے ہاں تو فلم ایکٹرسوں کا ذکر ہوتا ہے۔ نئی آنے والی فلموں پر تبصرے ہوتے ہیں، کھیل تماشوں کی گفتگو ہوتی ہے مگر اللّٰہ اور رسولؐ کا نام مشکل ہی سے ان کی زبانوں پر کبھی آتا ہے۔ ان کی گودوں سے جو نوجوان پرورش پا کر نکلیں گے کیا ان سے آپ توقع کرتے ہیں کہ پھر وہ اللّٰہ اور رسولؐ کے نام پر جانیں دیں گے اور ان کے شہادت کے وہ تصوّرات ہوں گے جو اُس وقت ہمارے نوجوانوں کے اندر پائے گئے، جن کی وجہ سے انھوں نے یہ شان دار قربانیاں دیں؟ اگر ہم فی الواقع اس ملک کے لیے اور اس ملک کے نظامِ زندگی کے لیے کٹ مرنے والے نوجوان تیار کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی فوجی تربیت کے ساتھ اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی اسلامی تربیت دینے کی فکر بھی کرنی چاہیے جو دلوں میں ایمان کو گہرا بٹھا دے اور ان عقائد اور اخلاقیات کو نشوونما دے جن کی طاقت سے وہ آیندہ اس سے بھی زیادہ قربانیاں دینے کے قابل ہوں۔ یہی وہ چیز ہے جو ہمیں اپنے سے کئی گنا زیادہ بڑے دشمن کے مقابلے میں زندہ رکھ سکتی ہے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
٭…٭…٭…٭…٭