Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

باب اوّل: ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص
باب دوم: مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحۂ عمل
باب سوم: خطبہ تقسیم اَسناد
باب چہارم: نیا نظامِ تعلیم
باب پنجم : رودادِ مجلسِ تعلیمی
باب ششم: اسلامی نظامِ تعلیم اور پاکستان میں اس کے نفاذ کی عملی تدابیر
باب ہفتم: ایک اسلامی یونی ورسٹی کا نقشہ
باب ہشتم: اسلامی نظام تعلیم
باب نہم: عالمِ اسلام کی تعمیر میں مسلمان طلبہ کا کردار

تعلیمات

1935ءمیں یہ سوال بڑے زور شور سے اٹھایا گیا کہ آخر مسلمانوں کی قومی درس گاہوں سے ملاحدہ اور الحاد ودہریت کے مبلغین کیوں اس کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں۔ علی گڑھ یونی ورسٹی کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ شکایت تھی کہ اس سے فارغ اتحصیل 90 فی صد طلبہ الحادود ہر یت میں مبتلا ہیں۔ جب یہ چرچا عام ہونے لگا اور ملک بھر میں اس کے خلاف مضامین لکھے جانے لگے تو علی گڑھ یونی ورسٹی کی طرف سے اس شکایت کا جائزہ لینے اور اصلاح حال کی تدبیر پرغوروخوض کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے کافی بحث وتمحیص اور غور وخوض کے بعد یہ رائے قائم کی کہ اسی نصاب تعلیم میں دینیات کے عنصر کو پہلے کی نسبت کچھ زیادہ کر دینے سے طلبا کے اندر بڑھتے ہوئے الحادود ہریت کے سیلاب کے آگے بند باندھا جاسکتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے اگست 1939ءکے ترجمان القرآن میں اصلاح حال کی اس تدبیر کاتفصیلی جائزہ لے کر اس وقت کے مروجہ نظام تعلیم کے اصلی اور بنیادی نقص کی نشان دہی کی اور اس نقص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ آج برسہا برس گزرنے کے باوجود یہ سارے مسائل جوں کے توں ہمارے سامنے منھ پھاڑے کھڑے ہیں، یہ کتاب برسوں گزرنے کے بعد بھی آج کی تصنیف لگتی ہے۔ اس کتاب میں شامل تمام حقائق اور مسئلوں کے جو حل بتائے ہیں ، وہ آج بھی قابل عمل ہے۔ بس ایک فرق یہ ہے کہ اس وقت اس الحاد کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنی تھی لیکن آج مملکت خداداد پاکستان کے حکمرانوں کو الحاد کا نہ یہ طوفان نظر آتا ہے اور نہ وہ اسے حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ہاں اگر آج بھی کوئی اس بند کو روکنا چاہتا ہے تو یہ کتاب یقینا اس کے لیے ایک اہم دستاویز ثابت ہوگی۔

باب سوم: خطبہ تقسیم اَسناد

(کچھ مدت ہوئی ایک اسلامیہ کالج کے جلسۂ تقسیم اسناد (convocation) میں مولانا سید ابو الا علیٰ مودودیؒ کو خطبہ دینے کی دعوت دی گئی تھی۔ اس موقع پر آپ نے جو کچھ فرمایا تھا اسے فائدہ عام کی خاطر ان صفحات میں نقل کر دیا گیا ہے۔ یہاں اس بات کی داد نہ دینا ظلم ہو گا کہ جس تلخ صاف گوئی سے مولانا موصوف نے اپنے خطبہ میں کام لیا ہے اسے وہاں نہایت ٹھنڈے دل سے سنا گیا اور بہتوں نے صداقت کا اعتراف بھی کیا۔ کالج کے پرنسپل ایک ایسے صاحب تھے جو موجودہ زمانے کے ’’ترقی پسندوں‘‘ کی صف اوّل میں ہیں، مولانا کے نقطہِ نظر سے انھیں سخت اختلاف ہونا ہی چاہیے، لیکن اپنی ’’ترقی پسندی‘‘ کے ایک کھلے دشمن کو دعوت دینے والے وہ خود ہی تھے اور اس کی تلخ گفتاری کو بھی سب سے زیادہ خندہ پیشانی کے ساتھ انھوں نے ہی سنا۔ اگرچہ ایسی ہی بلکہ اس سے زیادہ تلخ صداقتیں ان دارالعلوموں میں بھی جا کر کہنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، جہاں مسلمانوں کو نوخیز نسلوں کے ساتھ اس سے بدتر معاملہ ہو رہا ہے۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ سوٹوں میں لاکھوں عیب کے باوجود جتنے بڑے دل چھپے ہوئے ہیں، جبوں میں اتنے بڑے دل بھی نہیں ہیں۔ جو کچھ ایک کالج میں کہہ ڈالا گیا، اس کا بیسواں حصہ بھی دارالعلوم میں اس سے زیادہ ادب کے ساتھ دست بستہ بھی عرض کیا جاتا تو جان چھڑانا مشکل ہو جاتی)
فاضل اساتذہ، معزز حاضرین اور عزیز طلبہ
آپ کے اس جلسۂ تقسیمِ اسناد (قدیم اصطلاح کے مطابق جلسہ دستار بندی) میں مجھے اپنے خیالات کے اظہار کا جو موقع دیا گیا ہے اس کے لیے میں حقیقتاً بہت شکر گزار ہوں۔ حقیقتاً کا لفظ میں خصوصیّت کے ساتھ اس لیے بول رہا ہوں کہ یہ شکر گزاری رسمی نہیں بلکہ حقیقی ہے اور گہرے جذبۂ قدر شناسی پر مبنی ہے۔ جس نظامِ تعلیم کے تحت آپ کا یہ عالی شان ادارہ قائم ہے اور جس کے تحت تعلیم پا کر آپ کے کام یاب طلبہ سند فراغ حاصل کر رہے ہیں، میں اس کا سخت دشمن ہوں اور میری دشمنی کسی ایسے شخص سے چھپی ہوئی نہیں جو مجھے جانتا ہے۔ اس امر واقعی کے معلوم ومعروف ہونے کے باوجود جب یہاں اس تقریب پر مجھے خطبہ عرض کرنے کے لیے مدعو کیا گیا ہے تو فطری بات تھی کہ میرا دل ایسے لوگوں کے لیے قدر واعتراف کے جذبہ سے بھر جائے جو اپنے طریقِ کار کے دشمن کی باتیں سننے کے لیے بھی اپنے قلب میں کافی وسعت رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ مجھے آپ کی اس مہربانی کا بھی شکر گزار ہونا چاہیے کہ آپ نے مجھے عین اس وقت اپنی قوم کے ان نوجوانوں سے خطاب کرنے کا موقع دیا ہے جب کہ یہ آپ سے رخصت ہوکر ہماری عملی زندگی کے میدان میں آنے والے ہیں۔
معزز سامعین، اب مجھے اجازت دیجیے کہ مَیں تھوڑی دیر کے لیے آپ کی طرف سے رُخ پھیر کر اپنے عزیزوں سے مخاطب ہو جائوں جو آج یہاں سے ڈگری لے رہے ہیں کیوں کہ وقت کم ہے اور ؎
غریبِ شہر سخن ہائے گفتنی دارد
عزیزانِ من! آپ نے یہاں اپنی زندگی کے بہت سے قیمتی سال صرف کرکے تعلیم حاصل کی ہے۔ بڑی امنگوں کے ساتھ آپ اس وقت کا انتظار کر رہے تھے جب کہ آپ کو اپنی محنتوں کا پھل ایک ڈگری کی صورت میں یہاں سے ملنے والا ہے۔ ایسے موقع پر جسے آپ اپنے نزدیک مبارک موقع سمجھتے ہوں گے، آپ کے جذبات کی نزاکت کا مجھے پورا احساس ہے اور اسی لیے آپ کے سامنے اپنے خیالات کا صاف صاف اظہار کرتے ہوئے میرا دل دکھتا ہے۔ مگر میں آپ سے خیانت کروں گا اگر محض نمائشی طور پر آپ کے جذبات کی رعایت کرکے وہ بات آپ سے نہ کہوں جو میرے نزدیک سچی ہے اور جس سے آپ کو آگاہ کرنا اس وقت اور اسی وقت میں ضروری سمجھتا ہوں کیوں کہ اس وقت آپ اپنی زندگی کے ایک مرحلہ سے گزر کر دوسرے مرحلے کی طرف جا رہے ہیں۔ دراصل میں آپ کی اس مادر تعلیمی کو اور مخصوص طور پر اسی کو نہیں بلکہ ایسی تمام مادرانِ تعلیم کو درس گاہ کی بجائے قتل گاہ سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک آپ فی الواقع یہاں قتل کیے جاتے رہے ہیں اور یہ ڈگریاں جو آپ کو ملنے والی ہیں، یہ دراصل موت کے صداقت نامے (death certificates) ہیں جو قاتل کی طرف سے آپ کو اس وقت دیے جا رہے ہیں جبکہ وہ اپنی حد تک اس بات کا اطمینان کر چکا ہے کہ اس نے آپ کی گردن کا تسمہ تک لگا رہنے نہیں دیا۔ اب یہ آپ کی خوش قسمتی ہے کہ اس منضبط اور منظم قتل گاہ سے بھی جان سلامت لے کر نکل آئیں۔ میں یہاں اس صداقت نامہِ موت کے حصول پرآپ کو مبارک باد دینے نہیں آیا ہوں بلکہ آپ کا ہم قوم ہونے کی وجہ سے جو ہم دردی قدرتی طور پر میں آپ کے ساتھ رکھتا ہوں وہ مجھے یہاں کھینچ لائی ہے۔ میری مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے بھائی بندوں کا قتلِ عام ہو چکنے کے بعد لاشوں کے ڈھیر میں یہ ڈھونڈتا پھرتا ہو کہ کہاں کوئی سخت جان بسمل ابھی سانس لے رہا ہے۔
یقین جانیے یہ بات میں مبالغہ کی راہ سے نہیں کہہ رہا ہوں، اخباری زبان میں ’’سنسنی‘‘ پیدا کرنا نہیں چاہتا، فی الواقع اس نظامِ تعلیم کے متعلق میرا نقطۂ نظر یہی ہے اور اگر میں آپ کو تفصیل کے ساتھ بتائوں کہ میں کیوں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں تو کیا عجب کہ آپ خود بھی مجھ سے اتفاق کرنے پر مجبور ہو جائیں۔
شاید آپ میں سے ہر شخص اس بات کوجانتا ہو گا کہ اگر کوئی پودا ایک جگہ سے اکھاڑ کر کسی دوسری جگہ لگا دیا جائے جہاں کی زمین، آب وہوا، موسم ہر چیز اس کی طبیعت کے خلاف ہو، تو وہ وہاں کبھی جڑ نہ پکڑ سکے گا، یہ دُوسری بات ہے کہ مصنوعی طور پر اس کے لیے وہی حالات پیدا کر دیے جائیں جو اس کی قدرتی جائے پیدائش میں تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ لیبارٹری کی مصنوعی زندگی ہر پودے کو تمام عمر کے لیے میّسر نہیں آ سکتی۔ اس غیر معمولی صورت حال کو نظر انداز کر دینے کے بعد یہ کہنا بالکل صحیح ہو گا کہ کسی پودے کو اس کی اصل جائے پیدائش سے اکھاڑنا اور ایک مختلف قسم کے ماحول میں لے جا کر لگا دینا دراصل اسے ہلاک کر دینا ہے۔
اچھا اب ذرا اس بد قسمت پودے کی حالت کا اندازہ کیجیے جو اپنی زمین سے اکھاڑا نہیں گیا، اپنے ماحول سے نکالا بھی نہیں گیا، وہی زمین ہے، وہی آب وہوا، وہی موسم ہے جس میں وہ پیدا ہوا تھا، مگر سائنٹفک طریقوں سے خود اس کے اندر ایسی تبدیلی پیدا کر دی گئی کہ وہیں اپنی ہی جائے پیدائش میں اس کی طبیعت اس زمین، اس آب وہوا اور اس موسم سے بے لگائو اور بیگانہ ہو کر رہ گئی۔ اور وہ اس قابل نہ رہا کہ اس میں اپنی جڑیں پھیلا سکے۔ اس ہوا اور پانی سے غذا حاصل کر سکے اور اس موسم میں پھل پھول سکے، اس اندرونی تغیر کی وجہ سے وہ بعینہٖ ایسا ہو گیا جیسے کسی دوسری زمین کا پودا ہے اور اجنبی ماحول میں لا کر لگا دیا گیا ہے۔ اب وہ اس کا محتاج ہو گیا ہے کہ اس کے گرد مصنوعی فضا تیار کی جائے اور مصنوعی طور پر اس کی زندگی کا سامان کیا جائے۔ یہ لیبارٹری کی زندگی اگر اسے بہم نہ پہنچے تو وہ جہاں پیدا ہوا تھا وہیں کھڑے کھڑے زمین چھوڑ دے گا اور مرجھا کر رہ جائے گا۔
پہلا فعل یعنی ایک پودے کو اکھاڑ کر اجنبی ماحول میں لگانا چھوٹے درجہ کا ظلم ہے اور دوسرا فعل یعنی ایک پودے کو اسی جگہ جہاں وہ پیدا ہوا ہے اپنے ماحول سے اجنبی بنا دینا اس سے عظیم تر ظلم ہے۔ اور جب ایک دو نہیں لاکھوں پودوں کے ساتھ یہی سلوک کیا جا رہا ہو اور اتنے کثیر التعداد پودوں کے لیے لیبارٹری کی مصنوعی فضا بہم پہنچانا محال ہو تو بے جا نہ ہو گا اگر اسے ظلم کی بجائے قتلِ عام کہا جائے۔
حقیقی صورتِ حال کا جو مطالعہ میں نے کیا ہے وہ مجھے بتاتا ہے کہ ان درس گاہوں میں آپ کے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ آپ ہندستان کی سرزمین میں مسلم سوسائٹی کے اندر پیدا ہوئے۔ یہی زمین، یہی تمدنی آب وہوا اور یہی تہذیبی ماحول ہے جس کی پیداوار آپ ہیں۔ آپ کے نشوونما پانے اور پھل پھول لانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اسی زمین میں جڑیں پھیلائیں اور اسی آب وہوا سے زندگی کی طاقت حاصل کریں۔ اس ماحول سے آپ کو جتنی زیادہ مناسبت ہو گی اسی قدر زیادہ بالیدگی آپ کو نصیب ہو گی اور اسی قدر زیادہ اس چمن کی بہار میں اضافہ کریں گے۔ مگر واقعہ کیا ہے؟ یہاں جو تعلیم اور تربیت آپ کو ملتی ہے جو ذہنیّت آپ کے اندر پیدا ہوتی ہے، جو خیالات، جذبات اور داعیات آپ کے اندر پرورش پاتے ہیں، جوعادات واطوار اور خصائل آپ میں راسخ ہوتے ہیں اور جس طرزِ فکر، رنگ، طبیعت اور طریقِ زندگی کے سانچے میں آ پ ڈھالے جاتے ہیں کیا وہ سب مل جل کر اس زمین، اس آب وہوا اور اس موسم سے مناسبت بھی آپ کے اندر باقی رہنے دیتے ہیں؟ یہ زبان جو آپ بولتے ہیں، یہ لباس جو آپ پہنتے ہیں، یہ طرزِ زندگی جو آپ اختیار کرتے ہیں، یہ نظریات اور افکار جو آپ اس تعلیم سے حاصل کرتے ہیں، ان سب چیزوں کو آخر کون سا لگائو آپ کے ان کروڑوں بھائیوں کے ساتھ ہے جن کے درمیان آپ کا جینا اورمر نا ہے، اور اس تمدن کے ساتھ جو آپ کے چاروں طرف چھایا ہوا ہے۔ آپ کی شخصیت اس ماحول میں کس قدر بیگانہ ہے اور ماحول آپ کی شخصیت کے لیے کتنا اجنبی ہے؟ کاش آپ کے اندر اتنی حِس باقی رہنے دی گئی ہوتی کہ اس بیگانگی اور اس کی اذیّت کو محسوس کر سکتے۔
آپ اتنا تو بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ خام اشیا کو صنعت او ر کاری گری سے تیار کرنے کا مدعا یہی ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے لیے کار آمد اور مفید بن سکیں، جو چیز اس طرح تیار کی گئی ہو کہ اسے یہ مدعا حاصل نہ ہو سکے، وہ خود بھی ضائع ہوئی اور اس پر کاری گری بھی فضول صرف کی گئی۔ کپڑے پر خیاطی کی قابلیت اسی لیے صرف کی جاتی ہے کہ جسم پر وہ راست آئے، یہ بات حاصل نہ ہوئی تو اس کاری گری نے کپڑے کو بنایا نہیں، بگاڑ دیا۔ خام جنس پر طباخی کا فن صرف کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ کھانے کے قابل ہوجائے۔ اگر وہ کھانے ہی کے قابل نہ ہوئی تو باورچی نے اسے ضائع کیا نہ کہ بنایا، بالکل اسی طرح تعلیم کا مدعا بھی یہ ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں جن نئے انسانوں نے جنم لیا ہے اور جو جبلی صلاحتیں (potentialities) ابھی خام حالت میں ہیں انھیں بنا سنوار کر اور بہتر طریقہ پرنشوونما دے کر اس قابل بنا دیا جائے کہ جس سوسائٹی نے انھیں جنم دیا ہے وہ اس کے مفید اور کارآمد فرد بن سکیں اور اس کی زندگی کے لیے بالیدگی اور فلاح وترقی کا ذریعہ ہوں۔ مگر جو تعلیم افراد کو اپنی سوسائٹی اور اس کی حقیقی زندگی سے اجنبی بنا دے، اس کے حق میں اس کے سوا آپ اور کیا فتوٰی دے سکتے ہیں کہ وہ افراد کو بناتی نہیں بلکہ ضائع کرتی ہے؟ ہر قوم کے بچے دراصل اس کے مستقبل کا محضر ہوتے ہیں، قدرت کی طرف سے یہ محضر ایک لوحِ سادہ کی شکل میں آتا ہے اور قوم کو یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ خود اس پر اپنے مستقبل کا فیصلہ لکھے۔ہم وہ دیوالیا قوم ہیں جو اس محضر پر اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی بجائے اسے دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں کہ وہ اس پر جو چاہیں ثبت کر دیں خواہ وہ ہماری اپنی موت ہی کا فتوٰی کیوں نہ ہو۔
جب آپ کوئی کپڑا سلواتے ہیں اور وہ آپ کے جسم پر راست نہیں آتا تو مجبورًا اسے مارکیٹ میں لے جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اونے پونے بیچ کر کچھ دام ہی سیدھے کر لیں۔ اگر کپڑا کوئی ذی شعور ہستی ہو تو وہ خود بھی اپنا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں سوچ سکتا کہ کہیں نہ کہیں اس کے سے ناپ اور اس کی سی تراش خراش کے کپڑے کی مانگ ہو تو وہ وہاں کھپ جائے جب تک کسی جسم پر وہ راست نہ آئے گا، نیلام گھروں اور کباڑ خانوں میں مارا مارا پھرتا رہے گا۔ ایسا ہی حال ان لوگوں کا بھی ہے جو ان درس گاہوں سے تیار ہو کر نکلتے ہیں۔ جس سوسائٹی نے انھیں تیار کرایا ہے اس کے پاس جب یہ تیار ہو کر واپس پہنچتے ہیں تو وہ بھی محسوس کرتی ہے اور یہ خود بھی محسوس کرتے ہیں کہ اس کے تمدن اور اس کی زندگی کے لیے ٹھیک نہیں بنے۔ جس طرح معدہ اس غذا کو قبول نہیں کرتا جو اس کے لیے مناسب نہ ہو، اسی طرح سوسائٹی بھی طبعی طور پر ان افراد کو اپنے اندر کھپا نہیں سکتی جو اس کے لیے مناسب نہ ہوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انھیں اپنے کسی کام کا نہ پا کر نیلام کے لیے پیش کر دیتی ہے اور یہ خود بھی اپنی زندگی کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں سمجھتے کہ کہیں بِک جائیں۔ آپ غور تو کیجیے کس قدر خسارے میں ہے وہ قوم جو اپنی بہترین انسانی متاع دوسروں کے ہاتھ بیچتی ہے؟ ہم وہ ہیں جو انسان دے کر جوتی، کپڑا اور روٹی حاصل کرتے ہیں! قدرت نے جو انسانی طاقت (man power) اور دماغی طاقت (brain power) ہمیں خود ہمارے اپنے کام کے لیے دی تھی وہ دوسروں کے کام آتی ہے۔ ان کے ہٹے کٹے جسموں میں جو قوت بھری ہوئی ہے ان بڑے سروں میں جو قابلیتیں بھری ہوئی ہیں، ان چوڑے چکلے سینوں میں جو دل طرح طرح کی طاقتیں رکھتے ہیں جنھیں خدا نے ہمارے لیے عطا کیا تھا، ان میں سے بمشکل ایک دو فی صدی ہمارے کام آتے ہیں، باقی سب کو دوسرے خرید لے جاتے ہیں اور لطف یہ ہے کہ اس خسارے کی تجارت کو ہم بڑی کام یابی سمجھ رہے ہیں۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارا اصل سرمایہ زندگی تو یہی انسانی طاقت ہے، اس لیے اسے بیچنا نفع کا سودا نہیں بلکہ سراسر ٹوٹا ہے۔
مجھے بکثرت ایسے نوجوانوں سے ملنے کا موقع ملتا ہے جو اعلیٰ تعلیم پا رہے ہیں یا تازہ تازہ فارغ ہوئے ہیں۔ سب سے پہلے میں یہ تحقیق کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ انھوں نے اپنی زندگی کا کوئی مقصد بھی معیّن کیا ہے یا نہیں۔ مگر میری مایوسی کی انتہا نہیں رہتی جب میں دیکھتا ہوں کہ مشکل سے ہزاروں میں کوئی ایک ایسا ملتا ہے جو اپنے سامنے زندگی کا کوئی مقصد رکھتا ہو بلکہ بیش تر اصحاب ایسے ہیں جن کے ذہن میں اس امر کا سرے سے کوئی تصوّر ہی نہیں ہے کہ انسانی زندگی کا کوئی مقصد بھی ہونا چاہیے یا ہو سکتا ہے۔ مقصد کے سوال کو وہ محض ایک فلسفیانہ یا شاعرانہ مسئلہ سمجھتے ہیں اور عملی حیثیت سے یہ طے کرنے کی ضرورت کوئی انھیں محسوس نہیں ہوتی کہ آخر دنیا کی زندگی میں ہماری کوششوں اور محنتوں کا ہماری دوڑ دھوپ کا کوئی منتہا (goal) اور کوئی مقصود بھی ہونا چاہیے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی یہ حالت دیکھ کر میرا سر چکرانے لگتا ہے۔ میں حیران ہو کر سوچنے لگتا ہوں کہ اس نظام تعلیم کو کس نام سے یاد کروں، جو پندرہ بیس سال کی مسلسل دماغی تربیت کے بعد بھی انسان کو اس قابل نہیں بناتا کہ وہ اپنی قابلیتوں کا کوئی مصرف اور اپنی کوششوں کا کوئی مقصود متعین کر سکے۔ بلکہ زندگی کے لیے کسی نصب العین کی ضرورت ہی محسوس کر سکے، یہ انسانیت کو بنانے والی تعلیم ہے یا اسے قتل کرنے والی؟ بے مقصد (aimless) زندگی بسر کرنا تو حیوانات کا کام ہے۔ اگر آدمی بھی صرف اس لیے جیے کہ جینا ہے اور اپنی قوتوں کا مصرف بقائے نفس اور تناسل کے سوا کچھ نہ سمجھے تو آخر اس میں اور دوسرے حیوانات میں کیا فرق باقی رہا۔
میری اس تنقید کا یہ مدعا ہرگز نہیں ہے کہ آپ کو ملامت کروں۔ ملامت تو قصوروار کو کی جاتی ہے اورآپ قصور وار نہیں بلکہ مظلوم ہیں۔ اس لیے میں دراصل آپ کی ہم دردی میں یہ سب کچھ کہہ رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ اب جو آپ زندگی کے عملی میدان میں قدم رکھنے کے لیے جا رہے ہیں تو پوری طرح اپناجائزہ لے کردیکھ لیں کہ فی الواقع اس مرحلہ پر آپ کس پوزیشن میں ہیں، آپ ملّتِ اسلام کے افراد ہیں۔ یہ ملت کوئی نسلی قومیّت نہیں ہے کہ جو اس میں پیدا ہوا ہو، وہ آپ سے آپ مسلم ہو۔ یہ محض ایک تمدنی گروہ (cultural group) کا نام بھی نہیں ہے جس کے ساتھ محض معاشرتی حیثیت سے وابستہ ہونا مسلم ہونے کے لیے کافی ہو۔ دراصل اسلام ایک مخصوص نظامِ فکر (ideology) کا نام ہے، جس کی بنیاد پر تمدنی زندگی اپنے تمام شعبوں اور پہلوئوں کے ساتھ تعمیر ہوتی ہے۔ اس ملت کی بقا بالکل اس بات پر منحصر ہے کہ جو افراد اس میں شامل ہوں وہ اس کے نظامِ فکر کو سمجھتے ہوں، اس کی روح سے آشنا ہوں اور اپنی تمدنی زندگی کے ہر شعبہ میں اس روح کی عملی تفسیر وتعبیر پیش کرنے پر قادر ہوں۔ خصوصیّت کے ساتھ ملّت کے اہلِ دماغ طبقہ (intelligentia) کے لیے تو سب سے بڑھ کر اس علم وفہم اور اس عمل کی ضرورت ہے کیوں کہ یہی طبقہ ملت کا راہ نما اور پیش رو ہے۔ اگرچہ ہر قوم اور ہر گروہ کو اس کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کا اہلِ دماغ طبقہ اس کی مخصوص قومی تہذیب کے رنگ میں پوری طرح رنگا ہوا ہو، لیکن ملّتِ اسلام کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کیوں کہ یہاں ہماری انفرادیت کی اساس نہ خاک ہے نہ خون، نہ رنگ ہے، نہ زبان نہ کوئی اور مادّی چیز، بلکہ صرف اسلام ہے۔ ہمارے زندہ رہنے اور ترقی کرنے کی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ ہماری ملت کے افراد اور خصوصاً اہل دماغ طبقے، اسلامی طرزِ فکر اور اسلامی طرزِ عمل کے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہوں، اس لحاظ سے ان کی تعلیم اور تربیت میں جتنی اور جیسی کم زوری ہو گی، اس کا عکس ہماری ملت کی زندگی میں جوں کا توں نمودار ہو گا، اور اگر وہ اس سے بالکل خالی ہوں تو یہ دراصل ہماری موت کا نشان ہو گا۔
یہ وہ حقیقت ہے جس سے یہاں کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ مگر کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم میں ملّت اسلام کے نونہالوں کی تعلیم وتربیت کے لیے جو انتظام کیا جاتا ہے، وہ دراصل انھیں اس ملت کی پیشوائی کے لیے نہیں بلکہ اس کی غارت گری کے لیے تیار کرتا ہے؟ ان درس گاہوں میں آپ کو فلسفہ، سائنس، معاشیات، قانون، سیاسیات، تاریخ اور دوسرے وہ تمام علوم پڑھائے جاتے ہیں جن کی مارکیٹ میں مانگ ہے، مگر آپ کو اسلام کے فلسفے، اسلام کی تاریخ اور فلسفۂ تاریخ کی ہوا تک نہیں لگنے پاتی۔ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے، آپ کے ذہن میں زندگی کا پورا نقشہ اپنے تمام جزئیات اور تمام پہلوئوں کے ساتھ بالکل غیر اسلامی خطوط پر بنتا ہے۔ آپ غیر اسلامی طرز پر سوچنے لگتے ہیں، غیر اسلامی نقطۂ نظر زندگی کے ہر معاملہ کو دیکھتے ہیں اور دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیوں کہ اسلامی نقطۂ نظر کبھی آپ کے سامنے آتا ہی نہیں، منتشر طور پر کچھ معلومات اسلام کے متعلق آپ تک پہنچتی ہیں مگر وہ غیر مستند اور بسا اوقات غلط اوہام وخرافات کے ساتھ ملی جلی ہوتی ہیں۔ ان معلومات سے اس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا کہ آپ ذہنی طور پر اسلام سے زیادہ بعید ہو جاتے ہیں۔ آپ میں سے جو لوگ محض آبائی مذہب ہونے کی وجہ سے اسلام کے ساتھ گہری عقیدت رکھتے ہیں وہ دماغی طور پر غیر مسلم ہو جانے کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنے دل کو سمجھاتے رہتے ہیں کہ اسلام حق تو ضرور ہو گا اگرچہ سمجھ میں نہیں آتا اور جو لوگ اس عقیدت سے بھی خالی ہوچکے ہیں وہ اسلام پر اعتراض کرنے اور اس کا مذاق اڑانے سے بھی نہیں چوکتے۔
اس قسم کی تعلیم پانے کے ساتھ عملاً جو تربیت آپ کو میسر آتی ہے جس ماحول میں آپ گھرے رہتے ہیں، اور عملی زندگی کے جن نمونوں سے آپ کو واسطہ پیش آتا ہے ان میں مشکل ہی سے کہیں اسلامی کیریکٹر اور اسلامی طرزِ عمل کا نشان پایا جاتا ہے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جن لوگوں کو نہ علمی حیثیت سے اسلام کی واقفیت بہم پہنچائی گئی ہو۔ نہ عملی حیثیت سے اسلامی تربیت دی گئی ہو، وہ فرشتے تو نہیں ہیں کہ خود بخود مسلمان بن کر اٹھیں، ان پر وحی نازل تو نہیں ہوتی کہ خود بخود ان کے دل میں علمِ دین ڈال دیا جائے۔ وہ پانی اور ہوا سے تو اسلامی تربیت اخذ نہیں کر سکتے، اگر وہ فکر اور عمل دونوں حیثیتوں سے غیر اسلامی شان رکھتے ہیں تو یہ ان کا قصور نہیں بلکہ ان درس گاہوں کا قصور ہے جوموجودہ نظامِ تعلیم کے تحت قائم کی گئی ہیں۔ درحقیقت یہ میرا وجدان ہے، جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ان درس گاہوں میں دراصل آپ کو ذبح کیا جاتا ہے اور اس ملّت کی قبر کھودی جاتی ہے جس کے نونہال آپ ہیں۔ آپ نے جس سوسائٹی میں جنم لیا ہے جس کے خرچ پر تعلیم پائی ہے، جس کی فلاح کے ساتھ آپ کی فلاح اور جس کی زندگی کے ساتھ آپ کی زندگی وابستہ ہے، اس کے لیے آپ بے کار بنا کر رکھ دیے گئے ہیں۔ آپ کو صرف یہی نہیں کہ اس کی فلاح کے لیے کام کرنے کے قابل نہیں بنایا گیا بلکہ دراصل آپ کو باضابطہ اور منظم طریقہ پرایسا بنا دیا گیا ہے کہ بِلا ارادہ آپ کی ہر حرکت اس ملّت کے لیے فتنۂ سامان ہو، حتّٰی کہ آپ اس خیر خواہی کے لیے بھی کچھ کرنا چاہیں تو وہ اس کے حق میں مضر ثابت ہو، اس لیے کہ آپ اس کی فطرت سے بے خبر اور اس کے ابتدائی اصولوں تک سے بیگانہ رکھے گئے ہیں اور آپ کی پوری دماغی تربیت اس نقشہ پر کی گئی ہے جو ملّتِ اسلام کے نقشہ کے بالکل برعکس ہے۔
اپنی اس پوزیشن کو اگر سمجھ لیں اور اگر آپ کو پوری طرح احساس ہو جائے کہ فی الواقع کس قدر خطرناک حالت کو پہنچا کر اب آپ کو کارزارِ زندگی کی طرف جانے کے لیے چھوڑا جا رہا ہے تو مجھے یقین ہے کہ آپ کچھ نہ کچھ تلافیٔ مافات کی کوشش ضرور کریں گے۔ پوری تلافی تو شاید اب بہت ہی مشکل ہے تاہم میں آپ کو تین باتوں کا مشورہ دوں گا جن سے آپ کافی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
۱۔ جہاں تک ممکن ہو عربی زبان سیکھنے کی کوشش کیجیے، کیوں کہ اسلام کا ماخذِ اصلی یعنی قرآن اسی زبان میں ہے اور اسے جب تک آپ اس کی اپنی زبان میں نہ پڑھیں گے اسلام کا نظامِ فکر کبھی آپ کی سمجھ میں پوری طرح نہ آ سکے گا۔ عربی زبان کی تعلیم کا پرانا ہول ناک طریقہ اب غیر ضروری ہو گیا ہے۔ جدید طرزِ تعلیم سے آپ چھے مہینے میں اتنی عربی سیکھ سکتے ہیں کہ قرآن کی عبارت سمجھنے لگیں۔
۲۔ قرآن مجید، سیرتِ رسولؐ اور صحابہ کرامؓ کی زندگی کا مطالعہ اسلام کو سمجھنے کے لیے ناگزیر ہے، جہاں آپ نے اپنی زندگی کے ۱۲۔۱۵ سال دوسری چیزوں کے پڑھنے میں ضائع کیے ہیں وہاں اس سے آدھا بلکہ چوتھائی وقت ہی اس چیز کے سمجھنے میں صرف کر دیجیے جس پر آپ کی ملت کی اساس قائم ہے اور جسے جانے بغیر آپ اس ملت کے کسی کام نہیں آ سکتے۔
۳۔ جو کچھ بھلی یابُری رائے آپ نے ناکافی اور منتشر معلومات کی بنا پر اسلام کے متعلق قائم کر رکھی ہے، اس سے اپنے ذہن کو خالی کرکے اس کا باقاعدہ مطالعہ (systematic study) کیجیے۔ پھر جس رائے پر بھی آپ پہنچیں گے وہ قابل وقعت ہو گی۔ تعلیم یافتہ آدمیوں کے لیے یہ کسی طرح موزوں نہیں ہے کہ وہ کسی چیز کے متعلق کافی معلومات حاصل کیے بغیر کام کریں۔ اب میں اس دعا کے ساتھ اپنا یہ خطبہ ختم کرتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے اور آپ کو اس خطرے سے بچائے جس میں آپ پھنسا دیے گئے ہیں۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں