(یہ وہ نوٹ ہے جو مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کی مجلس اصلاحِ نصاب ودینیات کے استفسارات کے جواب میں بھیجا گیا تھا۔ اگرچہ اس میں خطاب بظاہر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ سے ہے لیکن دراصل اس کے مخاطب مسلمانوں کے تمام تعلیمی ادارات ہیں۔ جس تعلیمی پالیسی کی توضیح اس نوٹ میں کی گئی ہے، اسے اختیار کرنا مسلمانوں کے لیے ناگزیر ہے۔ علی گڑھ ہو یا دیو بند، ندوہ یا جامعہ ملیہ، سب کا طریقِ کار اب زائد المیعاد ہے۔ اگر یہ اس پر نظرثانی نہیں کریں گے تو اپنی افادیّت بالکل کھو دیں گے)
مسلم یونی ورسٹی کورٹ اس امر پر تمام مسلمانوں کے شکریہ کا مستحق ہے کہ اس نے اپنے ارادہ کے بنیادی مقصد یعنی طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی طرف توجہ کی اور اسے روبہ عمل لانے کے لیے آپ کی مجلس کا تقرر کیا۔ اس سلسلہ میں جو کاغذات یونی ورسٹی کے دفتر سے بھیجے گئے ہیں۔ انھیں میں نے پورے غور وخوض کے ساتھ دیکھا۔ جہاں تک دینیات اور علومِ اسلامیہ کے موجودہ طریقِ تعلیم کا تعلق ہے، اس کے ناقابل اطمینان ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ جو نصاب اس وقت پڑھایا جا رہا ہے وہ یقینا ناقص ہے۔ لیکن مجلس کے معزز ارکان کی جانب سے جو سوالات مرتب کیے گئے ہیں، ان کے مطالعہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت مجلس کے پیشِ نظر صرف ترمیمِ نصاب کا سوال ہے اور غالباً یہ سمجھا جا رہا ہے کہ چند کتابوں کو خارج کرکے چند دوسری کتابیں رکھ دینے سے طلبہ میں ’’اسلامی سپرٹ‘‘ پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگر میرا قیاس صحیح ہے تو میں کہوں گا کہ یہ اصلی صورت حال کا بہت ہی نامکمل اندازہ ہے۔ دراصل ہمیں اس سے زیادہ گہرائی میں جا کر یہ دیکھنا چاہیے کہ قرآن، حدیث، فقہ اور عقائد کی اس تعلیم کے باوجود جو اس وقت دی جا رہی ہے، طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ اگر محض موجودہ نصابِ دینیات کا نقص ہی اس کی وجہ ہے تو اس نقص کو دور کرنا بلاشبہ اس خرابی کو رفع کر دینے کے لیے کافی ہو جائے گا۔ لیکن اگر اس کے اسباب زیادہ وسیع ہیں، اور آپ کی پوری تعلیمی پالیسی میں کوئی اساسی خرابی موجود ہے تو اصلاح حال کے لیے محض نصاب دینیات کی ترمیم ہرگز کافی نہ ہو گی۔ اس کے لیے آپ کو اصلاحات کا دائرہ زیادہ وسیع کرنا ہو گا، خواہ وہ کتنا ہی محنت طلب اور مشکلات سے لبریز ہو۔ میں نے اس مسئلہ پر اسی نقطۂ نظر سے غور کیا ہے اور جن نتائج پر میں پہنچا ہوں۔ انھیں امکانی اختصار کے ساتھ پیش کرتا ہوں۔
میرا یہ بیان تین حصوں پر مشتمل ہو گا۔ پہلے حصہ میں یونی ورسٹی کی موجودہ تعلیمی پالیسی پر تنقیدی نظر ڈال کر اس کی اساسی خرابیوں کو واضح کیا جائے گا، اور یہ بتایا جائے گا کہ مسلمانوں کے حقیقی مفاد کے لیے اب ہماری تعلیمی پالیسی کیا ہونی چاہیے، دوسرے حصہ میں اصلاحی تجاویز پیش کی جائیں گی، اور تیسرے حصہ میں ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کی تدابیر سے بحث کی جائے گی۔
(۱)
اس وقت مسلم یونی ورسٹی میں جو طریقِ تعلیم رائج ہے وہ تعلیمِ جدید اور اسلامی تعلیم کی ایک ایسی آمیزش پر مشتمل ہے جس میں کوئی امتزاج اورکوئی ہم آہنگی نہیں۔ دو بالکل متضاد اور بے جوڑ تعلیمی عنصروں کو جوں کا توں لے کر ایک جگہ جمع کر دیا گیاہے۔ ان میں یہ صلاحیّت پیدا نہیں کی گئی کہ ایک مرکب علمی قوت بن کر کسی ایک کلچر کی خدمت کر سکیں۔ یک جائی واجتماع کے باوجود یہ دونوں عنصر نہ صرف ایک دوسرے سے الگ رہتے ہیں، بلکہ ایک دوسرے کی مزاحمت کرکے طلبہ کے ذہن کو دو مخالف سمتوں کی طرف کھینچتے ہیں۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے قطع نظر، خالص تعلیمی نقطہِ نگاہ سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا پڑے گا کہ تعلیم میں اس قسم کے متبائن اور متزاحم عناصر کی آمیزش اصلاً غلط ہے اور اس سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے یہ آمیزش اور بھی زیادہ قباحت کا سبب بن گئی ہے کیوں کہ اوّل تو خود آمیزش ہی درست نہیں، پھر اس پر مزید خرابی یہ ہے کہ یہ آمیزش بھی مساویانہ نہیں ہے۔ اس میں مغربی عنصر بہت طاقت ور ہے اور اسلامی عنصر اس کے مقابلہ میں نہایت کم زور ہے۔ مغربی عنصر کو پہلا فائدہ تو یہ حاصل ہے کہ وہ ایک عصری عنصر ہے۔ جس کی پشت پر رفتارِ زمانہ کی قوت اور عالم گیر حکم ران تمدن کی طاقت ہے۔ اس کے بعد وہ ہماری یونی ورسٹی کی تعلیم میں ٹھیک اسی شان اور اسی طاقت کے ساتھ شریک کیا گیا ہے، جس کے ساتھ وہ ان یونی ورسٹیوں میں ہے اور ہونا چاہیے جو مغربی کلچر کی خدمت کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ یہاں مغربی علوم وفنون کی تعلیم اس طور پر دی جاتی ہے کہ ان کے تمام اصول اور نظریات مسلمان لڑکوں کے صاف اور سادہ لوح دل پر ایمان بن کر ثبت ہو جاتے ہیں اور ان کی ذہنیّت کلیۃً مغربی سانچا میں ڈھل جاتی ہے۔ حتّٰی کہ وہ مغربی نظر سے دیکھنے اور مغربی دماغ سے سوچنے لگتے ہیں اور یہ اعتقاد ان پر مسلّط ہو جاتا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی چیز معقول اور باوقعت ہے تو وہی ہے جو مغربی حکمت کے اصول ومبادی سے مطابقت رکھتی ہو۔ پھر ان پر تاثرات کو مزید تقویّت اس تربیت سے پہنچتی ہے جو ہماری یونی ورسٹی میں عملاً دی جا رہی ہے۔ لباس، معاشرت، آداب واطوار، رفتار وگفتار، کھیل کود، غرض کون سی چیز ہے جس پرمغربی تہذیب وتمدن اور مغربی رجحانات کا غلبہ نہیں ہے۔ یونی ورسٹی کا ماحول اگر پورا نہیں تو ۹۵ فی صدی یقینا مغربی ہے اورایسے ماحول کے جو اثرات ہو سکتے ہیں اور ہوا کرتے ہیں انھیں ہر صاحب نظر خود سمجھ سکتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلامی عنصر نہایت کم زور ہے۔ اوّل تو وہ اپنی تمدنی وسیاسی طاقت کھو کر ویسے ہی کم زور ہوچکا ہے۔ پھرہماری یونی ورسٹی میں اس کی تعلیم جن کتابوں کے ذریعہ سے دی جاتی ہے وہ موجودہ زمانہ سے صدیوں پہلے لکھی گئی تھیں۔ ان کی زبان اور تربیت وتمدن ایسا نہیں جو عصری دماغوں کو اپیل کر سکے۔ ان میں اسلام کے ابدی اصولوں کو جن حالات اور جن عملی مسائل پر منطبق کیا گیا ہے، ان میں اکثر اب درپیش نہیں ہیں اور جو مسائل اب درپیش ہیں ان پر ان اصولوں کو منطبق کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ مزید برآں اس تعلیم کی پشت پر کوئی تربیت، کوئی زندہ ماحول، کوئی عملی برتائو اور چلن بھی نہیں۔ اس طرح مغربی تعلیم کے ساتھ اسلامی تعلیم کی آمیزش اور بھی زیادہ بے اثر ہو جاتی ہے۔ ایسی نامساوی آمیزش کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ طلبہ کے دل ودماغ پر مغربی عنصر پوری طرح غالب آ جائے اور اسلامی عنصر محض ایک سامانِ مضحکہ بننے کے لیے رہ جائے یا زیادہ سے زیادہ اس لیے کہ زمانہ ماضی کے آثارِ باقیہ کی طرح اس کا احترام کیا جائے۔
مَیں اپنی صاف گوئی پر معافی کا خواست گار ہوں۔ مگر جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں اسے بے کم وکاست بیان کر دینا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ میری نظر میں مسلم یونی ورسٹی کی دینی ودنیاوی تعلیم بحیثیت مجموعی بالکل ایسی ہے کہ آپ ایک شخص کو از سر نو سرتا پا غیر مسلم بناتے ہیں۔ پھر اس کی بغل میں دینیات کی چند کتابوں کا ایک بستہ دے دیتے ہیں تاکہ آپ پر اسے غیر مسلم بنانے کا الزام عائد نہ ہو اور اگر وہ اس بستہ کو اٹھا کر پھینک دے جس کی وجہ دراصل آپ ہی کی تعلیم ہو گی، تو وہ خود ہی اس فعل کے لیے قابلِ الزام قرار پائے۔ اس طرزِ تعلیم سے اگر آپ یہ اُمید رکھتے ہیں کہ یہ مسلمان پیدا کرے گا تو یوں سمجھنا چاہیے کہ آپ معجزے اور خرقِ عادت کے متوقع ہیں کیوں کہ آپ نے جو اسباب مہیا کئے ہیں ان سے قانونِ طبعی کے تحت تو یہ نتیجہ کبھی برآمد نہیں ہو سکتا۔ فی صدی ایک یا دو چار طالب علموں کا مسلمان (کامل اعتقادی وعملی مسلمان) رہ جانا کوئی حجت نہیں۔ یہ آپ کی یونی ورسٹی کے فیضانِ تربیت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اس امر کا ثبوت ہے کہ جو اس فیضان سے اپنے ایمان واسلام کو بچا لے گا، وہ دراصل فطرتِ ابراہیمی پر پیدا ہوا تھا۔ ایسے مستثنیات جس طرح علی گڑھ کے فارغ التحصیل اصحاب پائے جاتے ہیں اس طرح ہندوستان کی سرکاری یونی ورسٹیوں بلکہ یورپ کی یونی ورسٹیوں کے مستخرجین میں بھی مل سکتے ہیں جن کے نصاب میں سرے سے کوئی اسلامی عنصر ہی نہیں۔
اب اگر آ پ ان حالات اور اس طرزِ تعلیم کو بعینہٖ باقی رکھیں اور محض دینیات کے موجودہ نصاب کو بدل کر زیادہ طاقت ور نصاب شریک کر دیںتو اس کا حاصل صرف یہ ہو گا کہ فرنگیّت اور اسلامیّت کی کش مکش زیادہ شدید ہو جائے گی۔ ہر طالب علم کا دماغ ایک رزم گاہ بن جائے گا۔ جس میں یہ دو طاقتیں پوری قوت کے ساتھ جنگ کریں گی اور بالآخر آپ کے طلبہ تین مختلف گروہوں میں بٹ جائیں گے۔
ایک وہ جن پر فرنگیّت غالب رہے گی، عام اس سے کہ وہ انگریزیّت کے رنگ میں ہو، یا ہندی وطن پرستی کے رنگ میں یا ملحدانہ اشتراکیت کے رنگ میں۔
دوسرے وہ جن پر اسلامیّت غالب رہے گی۔ خواہ اس کا رنگ گہرا ہو یا فرنگیت کے اثر سے پھیکا پڑ جائے۔
تیسرے وہ جو نہ پورے مسلمان ہوں گے نہ پورے فرنگی۔ ظاہر ہے کہ تعلیم کا یہ نتیجہ بھی کوئی خوش گوار نتیجہ نہیں، نہ خالص تعلیمی نقطۂ نظر سے اس اجتماع نقیضین کو مفید کہا جا سکتا ہے اور نہ قومی نقطۂ نظر سے ایسی یونی ورسٹی اپنے وجود کو حق بجانب ثابت کر سکتی ہے۔ جس کے نتائج کا ۳؍۲ حصّہ قومی مفاد کے خلاف اور قومی تہذیب کے لیے نقصانِ کامل کے مترادف ہو۔ کم از کم مسلمانوں کی غریب قوم کے لیے تو یہ سودا بہت ہی مہنگا ہے کہ وہ لاکھوں روپے کے خرچ سے ایک ایسی ٹکسال جاری رکھے جس میں سے ۳۳ فی صدی سکّے تو مستقل طور پر کھوٹے نکلتے رہیں اور۳۳ فی صدی ہمارے خرچ پر تیار ہو کر غیروں کی گود میں ڈال دیے جائیں بلکہ بالآخر ہمارے خلاف استعمال ہوں۔
مذکورہ بالا بیان سے دو باتیں اچھی طرح واضح ہو جاتی ہیں:
اولاً تعلیم میں متضاد عناصر کی آمیزش اصولی حیثیّت سے غلط ہے، ثانیاً اسلامی مفاد کے لیے بھی ایسی آمیزش کسی طرح مفید نہیں خواہ وہ اس قسم کی غیر مساوی آمیزش ہو، جیسی اب تک رہی ہے یا مساوی کر دی جائے جیسا کہ اب کرنے کا خیال کیا جا رہا ہے۔ ان امور کی توضیح کے بعد یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری رائے میں یونی ورسٹی کی تعلیمی پالیسی اب کیا ہونی چاہیے۔
یہ ظاہر ہے کہ ہر یونی ورسٹی کسی کلچر کی خادم ہوتی ہے۔ ایسی مجرّد تعلیم جو ہر رنگ اور ہر صورت سے خالی ہو، نہ آج تک دنیا کی کسی درس گاہ میں دی گئی ہے نہ آج دی جا رہی ہے۔ ہر درس گاہ کی تعلیم ایک خاص رنگ اور خاص صورت میں ہوتی ہے اور اس رنگ وصورت کا انتخاب پورے غوروفکر کے بعد اس مخصوص کلچر کی مناسبت سے کیا جاتا ہے، جس کی خدمت وہ کرنا چاہتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آپ کی یونی ورسٹی کس کلچر کی خدمت کے لیے قائم کی گئی ہے؟ اگر وہ مغربی کلچر ہے تو اسے مسلم یونی ورسٹی نہ کہیے، نہ اس میں دینیات کا ایک نصاب رکھ کر خواہ مخواہ طالب علموں کو ذہنی کش مکش میں مبتلا کیجیے، اور اگر وہ اسلامی کلچر ہے تو آپ کو اپنی یونی ورسٹی کی پوری ساخت بدلنا پڑے گی اور اس کی ہیئت ِترکیبی کو ایسے طرز پر ڈھالنا ہو گا کہ وہ بحیثیتِ مجموعی اس کلچر کے مزاج اور اس کی اسپرٹ کے مناسب ہو اور نہ صرف اس کا تحفظ کرے بلکہ اسے آگے بڑھانے کے لیے ایک اچھی طاقت بن جائے۔
جیسا کہ مَیں اوپر بیان کر چکا ہوں، موجودہ حالت میں تو آپ کی یونی ورسٹی اسلامی کلچر کی نہیں بلکہ مغربی کلچر کی خادم بنی ہوئی ہے۔ اس حالت میں اگر صرف اتنا تغیر کیا جائے کہ دینیات کے موجودہ نصاب کو بدل کر زیادہ طاقت ور کر دیا جائے اور تعلیم وتربیت کے باقی تمام شعبوں میں پوری مغربیّت برقرار رہے تو اس سے بھی یہ درس گاہ اسلامی کلچر کی خادم نہیں بن سکتی۔ اسلام کی حقیقت پر غور کرنے سے یہ بات خود بخود آپ پر منکشف ہو جائے گی کہ دنیوی تعلیم وتربیت اور دینی تعلیم کو الگ کرنا، اور ایک دوسرے سے مختلف رکھ کر ان دونوں کو یک جا جمع کر دینا بالکل لاحاصل ہے۔ اسلام مسیحیّت کی طرح کوئی ایسا مذہب نہیں ہے جس کا دین ،دنیا سے کوئی الگ چیز ہو۔ وہ دنیا کو دنیا والوں کے لیے چھوڑ کر صرف اعتقادات اور اخلاقیات کی حد تک اپنے دائرے کو محدود نہیں رکھتا۔ اس لیے مسیحی دینیات کی طرح اسلام کے دینیات کو دنیویات سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کا اصل مقصد انسان کو دنیا میں رہنے کا اور دنیا کے معاملات انجام دینے کے لیے ایک ایسے طریقہ پر تیار کرنا ہے جو اس زندگی سے لے کر آخرت کی زندگی تک سلامتی، عزّت اور برتری کا طریقہ ہے۔ اس غرض کے لیے وہ اس کی نظر وفکر کو درست کرتا ہے، اس کے اخلاق کو سنوارتا ہے، اس کی سیرت کو ایک خاص سانچے میں ڈھالتا ہے، اس کے لیے حقوق وفرائض متعین کرتا ہے اور اس کی اجتماعی زندگی کا ایک خاص نظام وضع کرکے دیتا ہے۔ افراد کی ذہنی وعملی تربیت سوسائٹی کی تشکیل وتنظیم اور زندگی کے تمام شعبوں کی تربیت وتعدیل کے باب میں اس کے اصول وضوابط سب سے الگ ہیں۔ انھی کی بدولت اسلامی تہذیب ایک جداگانہ تہذیب کی شکل اختیار کرتی ہے اور مسلمان قوم کا بحیثیت ایک قوم کے زندہ رہنا انھی کی پابندی پر منحصر ہے۔ پس جب حال یہ ہے تو اسلامی دینیات کی اصطلاح ہی بے معنی ہو جاتی ہے۔ اگر زندگی اور اس کے معاملات سے اس کا ربط باقی نہ رہے۔ اسلامی کلچر کے لیے وہ عالمِ دین بے کار ہے جو اسلام کے عقائد اور اصول سے واقف ہے مگر انھیں لے کر علم وعمل کے میدان میں بڑھنا اور زندگی کے دائم التغیر احوال ومسائل میں انھیں برتنا نہیں جانتا۔ اسی طرح اس کلچر کے لیے وہ عالمِ دنیا بھی بے کار ہے جو دل میں تو اسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے مگر دماغ سے غیراسلامی طریق پر سوچتا ہے۔ معاملات کو غیراسلامی نظر سے دیکھتا ہے اور زندگی کو غیر اسلامی اصولوں پر مرتب کرتا ہے۔ اسلامی تہذیب کے زوال اور اسلامی نظامِ تمدن کی ابتری کا اصلی سبب یہی ہے کہ ایک مدت سے ہماری قوم میں صرف انھی دو قسموں کے عالم پیدا ہو رہے ہیں، اور دنیوی علم وعمل سے علمِ دین کا رابطہ ٹوٹ گیا ہے۔ اب اگر آپ چاہتے ہیں کہ اسلامی کلچر پھر سے جوان ہو جائے اور زمانہ کے پیچھے چلنے کی بجائے آگے چلنے لگے تو اس ٹوٹے ہوئے ربط کو پھر قائم کیجیے مگر اسے قائم کرنے کی صورت یہ نہیں ہے کہ دینیات کے نصاب کو جسمِ تعلیمی کی گردن کا قلادہ یا کمر کا پشتارہ بنا دیا جائے۔ نہیں اسے پورے نظامِ تعلیم میں ا س طرح اتار دیجیے کہ وہ اس کا دورانِ خون، اس کی روحِ رواں، اس کی بینائی وسماعت، اس کا احساس وادراک، اس کا شعور وفکر بن جائے اور مغربی علوم وفنون کے تمام صالح اجزا کو اپنے اندر جذب کرکے اپنی تہذیب کا جزبناتا چلا جائے۔ اس طرح آپ مسلمان فلسفی، مسلمان سائنس دان، مسلمان ماہرینِ معاشیات، مسلمان مقنن، مسلمان مدبرین، غرض تمام علوم وفنون کے مسلمان ماہر پیدا کر سکیں گے جو زندگی کے مسائل کو اسلامی نقطہِ نظر سے حل کریں گے، تہذیبِ حاضر کے ترقی یافتہ اسباب ووسائل سے تہذیب اسلامی کی خدمت لیں گے اور اسلام کے افکار ونظریات اور قوانینِ حیات کو روح عصری کے لحاظ سے از سر نو مرتب کریں گے۔ یہاں تک کہ اسلام از سر نو علم وعمل کے میدان میں اسی امامت وراہ نمائی کے مقام پر آ جائے گا جس کے لیے وہ درحقیقت دنیا میں پیدا کیا گیا ہے۔
یہ ہے وہ تخیل جو مسلمانوں کی جدید تعلیمی پالیسی کا اساسی تخیل ہونا چاہیے۔ زمانہ اُس مقام سے بہت آگے نکل چکا ہے، جہاں سرسیّد ہمیں چھوڑ گئے تھے اگر اب زیادہ عرصہ تک ہم اس پر قائم رہے تو بحیثیت ایک مسلم قوم کے ہمارا ترقی کرنا تو درکنار، زندہ رہنا بھی مشکل ہے۔
(۲)
اب مَیں بتانا چاہتا ہوں کہ اوپر جس تعلیمی پالیسی کا ہیولیٰ میں نے پیش کیا ہے اسے صورت کا لباس کس طرح پہنایا جا سکتا ہے۔
۱۔ مسلم یونیورٹی کی حدود میں ’’فرنگیّت‘‘ کا کلی استیصال کر دینا نہایت ضروری ہے۔
اگر ہم اپنی قومی تہذیب کو اپنے ہاتھوں قتل کرنا نہیں چاہتے تو ہمارا فرض ہے کہ اپنی نئی نسلوں میں ’’فرنگیت‘‘ کے ان روز افزوں رجحانات کا سدِّ باب کریں۔ یہ رجحانات دراصل غلامانہ ذہنیت اور چھپی ہوئی دنایت (inferiority complex) کی پیداوار ہیں۔ پھر جب ان کا عملی ظہور، لباس، معاشرت، آداب واطوار اور بحیثیت مجموعی پورے اجتماعی ماحول میں ہوتا ہے تو یہ ظاہر اور باطن دونوں طرف سے نفس کا احاطہ کر لیتے ہیں اور اس میں شرفِ قومی کا رمق برابر احساس بھی نہیں چھوڑتے۔ ایسے حالات میں اسلامی تہذیب کا زندہ رہنا قطعی ناممکن ہے۔ کوئی تہذیب محض اپنے اصولوں اور اپنے اساسی تصوّرات کے مجرد ذہنی وجود سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ عملی برتائو سے پیدا ہوتی ہے اور اسی سے نشوونما پاتی ہے۔ اگر عملی برتائو مفقود ہو جائے تو تہذیب اپنی طبعی موت مر جائے گی اور اس کا ذہنی وجود بھی برقرار نہ رہ سکے گا۔ پس سب سے مقدّم اصطلاح یہ ہے کہ یونی ورسٹی میں ایک زندہ اسلامی ماحول پیدا کیا جائے۔ آپ کی تربیت ایسی ہونی چاہیے جو مسلمانوں کی نئی نسلوں کو اپنی قومی تہذیب پر فخر کرنا سکھائے ان میں اپنی قومی خصوصیات کا احترام بلکہ عشق پیدا کرے، ان میں اسلامی اخلاق اور سیرت کی روح پھونک دے، انھیں اس قابل بنائے کہ وہ اپنے علم اور اپنی تربیت یافتہ ذہنی صلاحیتوں سے اپنے قومی تمدن کو شائستگی کے بلند مدارج کی طرف لے چلیں۔
۲۔ اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کا انحصار بڑی حد تک معلّمین کے علم وعمل پر ہے۔
جو معلّم خود اس روح سے خالی ہیں، بلکہ خیال اور عمل دونوں میں اس کے مخالف ہیں، ان کے زیر اثر رہ کر متعلمین میں اسلامی اسپرٹ کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ آپ محض عمارت کا نقشہ بنا سکتے ہیں مگر اصلی معمار آپ نہیں۔ آپ کے تعلیمی سٹاف کے ارکان ان ’’فرنگی‘‘ معماروں سے یہ امید رکھنا کہ وہ اسلامی طرزِ تعمیر پر عمارت بنائیں گے، کریلے کی بیل سے خوشۂ انگور کی امید رکھنا ہے۔ محض دینیات کے لیے چند ’’مولوی‘‘ رکھ لینا ایسی صورت میں بالکل فضول ہو گا جب کہ دوسرے تمام یا اکثر علوم کے پڑھانے والے غیر مسلم یا ایسے مسلمان ہوں جن کے خیالات غیر اسلامی ہوں، کیوں کہ وہ زندگی اور اس کے مسائل اور معاملات کے متعلق طلبہ کے نظریات اور تصوّرات کو اسلام کے مرکز سے پھیر دیں گے اور اس زہر کا تریاق محض دینیات کے کورس سے فراہم نہ ہو سکے گا۔ لہٰذا خواہ کوئی فن ہو، فلسفہ ہو یا سائنس، معاشیات ہو یا قانون، تاریخ ہو یا کوئی اور علم، مسلم یونی ورسٹی میں اس کی پروفیسری کے لیے کسی شخص کا محض ماہرِ فن ہونا کافی نہیں ہے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پورا اور پکا مسلمان ہو۔ اگر مخصوص حالات میں کسی غیر مسلم ماہرِ فن کی خدمات حاصل کرنا پڑیں تو کوئی مضایقہ نہیں، لیکن عام قاعدہ یہی ہونا چاہیے کہ ہماری یونی ورسٹی کے پروفیسر وہ لوگ ہوں جو اپنے فن میں ماہر ہونے کے علاوہ یونی ورسٹی کے اساسی مقصد یعنی اسلامی کلچر کے لیے خیالات اور اعمال دونوں لحاظ سے مفید ہوں۔
۳۔ یونی ورسٹی کی تعلیم میں عربی زبان کو بطور ایک لازمی زبان کے شریک کیا جائے۔
یہ ہمارے کلچر کی زبان ہے۔ اسلام کے مآخذِ اصلیہ تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ہے۔ جب تک مسلمانوں کا تعلیم یافتہ طبقہ قرآن وسنت تک بلا واسطہ دست رس حاصل نہ کرے گا اسلام کی روح کو نہ پا سکے گا، نہ اسلام میں بصیرت حاصل کر سکے گا۔ وہ ہمیشہ مترجموں اور شارحوں کا محتاج رہے گا اور اس طرح آفتاب کی روشنی اسے براہِ راست آفتاب سے کبھی نہ مل سکے گی، بلکہ مختلف قسم کے رنگین آئینوں کے واسطے ہی سے ملتی رہے گی۔ آج ہمارے جدید تعلیم یافتہ حضرات اسلامی مسائل میں ایسی ایسی غلطیاں کر رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کی ابجد تک سے ناواقف ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ قرآن اور سنت سے استفادہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رکھتے۔ آگے چل کر پراونشل اناٹومی کے دور میں جب ہندوستان کی مجالسِ مقنّنہ کو قانون سازی کے زیادہ وسیع اختیارات حاصل ہوں گے اور سوشل ریفارم کے لیے نئے نئے قوانین بنائے جانے لگیں گے اس وقت اگر مسلمانوں کی نمایندگی ایسے لوگ کرتے رہے جو اسلام سے ناواقف ہوں اور اخلاق ومعاشرت اور قانون کے مغربی تصوّرات پر اعتقاد رکھتے ہوں، تو جدید قانون سازی سے مسلمانوں میں سوشل ریفارم ہونے کی بجائے الٹی سوشل ڈیفارم ہو گی اور مسلمانوں کا اجتماعی نظام اپنے اصولوں سے اور زیادہ دور ہوتا چلا جائے گا۔ پس عربی زبان کے مسئلہ کو محض ایک زبان کا مسئلہ نہ سمجھیے بلکہ یوں سمجھیے کہ یہ آپ کی یونی ورسٹی کے اساسی مقاصد سے تعلق رکھتا ہے اور جو چیز اساسیّت (fundamentals) سے تعلق رکھتی ہو اس کے لیے سہولت کا لحاظ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ ہر حال میں اس کی جگہ نکالنی پڑتی ہے۔
۴۔ ہائی اسکول کی تعلیم میں طلبہ کو حسبِ ذیل مضامین کی ابتدائی معلومات حاصل ہونی چاہییں۔
(الف) عقائد: اس مضمون میں عقائد کی خشک کلامی تفصیلات نہ ہونی چاہییں بلکہ ایمانیات کو ذہن نشین کرنے کے لیے نہایت لطیف انداز بیان اختیار کرنا چاہیے جو فطری وجدان اور عقل کو اپیل کرنے والا ہو۔ طلبہ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کے ایمانیات دراصل کائنات کی بنیادی صداقتیں ہیں اور یہ صداقتیں ہماری زندگی سے ایک گہرا ربط رکھتی ہیں۔
(ب) اسلامی اخلاق: اس مضمون میں مجرد اخلاقی تصورات نہ پیش کیے جائیں بلکہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، صحابہ کرام ث اور انبیا علیہم السلام کی سیرتوں سے ایسے واقعات لے کر جمع کیے جائیں جن سے طلبہ کو معلوم ہو کہ ایک مسلمان کے کیریکٹر کی خصوصیات کیا ہیں اور مسلمان کی زندگی کیسی ہوتی ہے؟
(ج) احکامِ فقہ: اس مضمون میں حقوق اللّٰہ، حقوق العباد اور شخصی کردار کے متعلق اسلامی قانون کے ابتدائی اور ضروری احکام بیان کیے جائیں جن سے واقف ہونا ہر مسلمان کے لیے ناگزیر ہے۔ مگر اس قسم کے جزئیات اس میں نہ ہونا چاہییں جیسے ہماری فقہ کی پرانی کتابوں میں آتے ہیں کہ مثلاً کنویں میں چوہا گر جائے تو کتنے ڈول نکالے جائیں۔ ان چیزوں کی بجائے عبادات اور احکام کی معنویّت ان کی روح اور ان کے مصالح طلبہ کے ذہن نشین کرنا چاہییں۔ انھیں یہ بتانا چاہیے کہ اسلام تمھارے لیے انفرادی اور اجتماعی زندگی کا کیا پروگرام بناتا ہے اور یہ پروگرام کس طرح ایک صالح سوسائٹی کی تخلیق کرتا ہے۔
(د) اسلامی تاریخ: یہ مضمون صرف سیرتِ رسولؐ اور دورِ صحابہؓ تک محدود رہے۔ اس کے پڑھانے کی غرض یہ ہونی چاہیے کہ طلبہ اپنے مذہب اور اپنی قومیّت کی اصل سے واقف ہو جائیں اوران کے دلوں میں اسلامی حمیت کا صحیح احساس پیدا ہو۔
(ھ) عربیّت: عربی زبان کا محض ابتدائی علم جو ادب سے ایک حد تک مناسبت پیدا کر دے۔
(و)قرآن: صرف اتنی استعداد کہ لڑکے کتاب اللّٰہ کو روانی کے ساتھ پڑھ سکیں۔ سادہ آیتوں کو کسی حد تک سمجھ سکیں اور چند سورتیں بھی انھیں یاد ہوں۔
۵۔ کالج کی تعلیم:
کالج کی تعلیم میں ایک نصاب عام ہونا چاہیے جو تمام طلبہ کو پڑھایا جائے اس نصاب میں حسب ذیل مضامین ہونے چاہییں۔
(الف) عربیّت: انٹرمیڈیٹ میں عربی ادب کی متوسط تعلیم ہو۔ بی اے میں پہنچ کر اس مضمون کو تعلیم قرآن کے ساتھ ضم کر دیا جائے۔
(ب) قرآن: (۱) انٹرمیڈیٹ میں طلبہ کو فہم قرآن کے لیے مستعد کیا جائے۔ اس مرحلہ میں صرف چند مقدمات ذہن نشین کرا دینے چاہییں۔ قرآن کا محفوظ اور تاریخی حیثیت سے معتبر ترین کتاب ہونا۔ اس کا وحی الٰہی ہونا۔ تمام مذاہب کی اساسی کتابوں کے مقابلہ میں اس کی فضیلت۔اس کی بے نظیر انقلاب انگیز، تعلیم اس کے اثرات نہ صرف عرب پر بلکہ تمام دنیا کے افکار اور قوانینِ حیات پر، اس کا انداز بیان اور طرز استدلال، اس کا حقیقی مدعا۔ (thesis)
(۲) بی۔ اے میں اصل قرآن کی تعلیم دی جائے۔ یہاں طرز تعلیم یہ ہونا چاہیے کہ طلبہ خود قرآن کو پڑھ کے سمجھنے کی کوشش کریں اور استاد ان کی مشکلات کو حل اور ان کے شبہات کو رفع کرتا جائے۔ اگر مفصل تفسیر اور جزئی بحثوں سے اجتناب ہو اور صرف مطالب کی توضیح پر اکتفا ہو تو دو سال میں بآسانی پورا قرآن پڑھایا جا سکتا ہے۔
(ج) تعلیماتِ اسلامی:
اس مضمون میں طلبہ کو پورے نظامِ اسلام سے روشناس کرا دیا جائے۔ اسلام کی بنیاد کن اساسی تصورات پر قائم ہے۔ ان تصوّرات کی بِنا پر وہ اخلاق اور سیرت کی تشکیل کس طرح کرتا ہے۔ پھر اس سوسائٹی کی زندگی کو معاشرت، معیشت، سیاست اور بین الاقوامی تعلقات میں کن اُصولوں پر منظم کرتا ہے۔ اس کے اجتماعی نظام میں فرد اور جماعت کے درمیان حقوق وفرائض کی تقسیم کس ڈھنگ پر کی گئی ہے۔ حدود اللّٰہ کیا ہیں ان حدود کے اندر مسلمان کو کس حد تک فکر وعمل کی آزادی ہے اور ان حدود کے باہر قدم نکالنے سے نظامِ اسلامی پر کیا اثرات مرتّب ہوتے ہیں، یہ تمام امور جامعیّت کے ساتھ نصاب میں لائے جائیں اور اسے چار سال کے مدارجِ تعلیمی پر ایک مناسبت کے ساتھ تقسیم کر دیا جائے۔
۶۔ نصابِ عام کے بعد علوم اسلامیہ کو تقسیم کرکے مختلف علوم وفنون کی اختصاصی تعلیم میں پھیلا دیجیے اور ہر فن میں اسی فن کی مناسبت سے اسلام کی تعلیمات کو پیوست کیجیے۔
مغربی علوم وفنون بجائے خود سب کے سب مفید ہیں اور اسلام کو ان میں سے کسی کے ساتھ بھی دشمنی نہیں، بلکہ ایجاباً میں یہ کہوں گا کہ جہاں تک حقائقِ علمیہ کا تعلق ہے اسلام ان کا دوست ہے اور وہ اسلام کے دوست ہیں۔ دشمنی دراصل علم اور اسلام میں نہیں بلکہ مغربیّت اور اسلام میں ہے۔ اکثر علوم میں اہل مغرب اپنے چند مخصوص اساسی تصوّرات، بنیادی مفروضات، (hypothesis) نقطہ ہائے آغاز (starting piont) اور زاویہ ہائے نظر رکھتے ہیں جو بجائے خود ثابت شدہ حقائق نہیں ہیں بلکہ محض ان کے وجدانیات ہیں۔ وہ حقائقِ علمیہ کو اپنے ان وجدانیات کے سانچے میں ڈھالتے ہیں اور اس سانچا کی مناسبت سے انھیں مرتّب کرکے ایک مخصوص نظام بنا لیتے ہیں۔ اسلام کی دشمنی دراصل انھی وجدانیات سے ہے۔ وہ حقائق کا دشمن نہیں بلکہ اس وجدانی سانچے کا دشمن ہے جس میں ان حقائق کو ڈھالا اور مرتب کیا جاتا ہے۔ وہ خود اپنا ایک مرکزی تصوّر، ایک زاویۂ نظر، ایک زاویۂ آغازِ فکر، ایک وجدانی سانچا رکھتا ہے جو اپنی اصل اور فطرت کے اعتبار سے مغربی سانچوں کی عین ضد واقع ہوا ہے۔ اب یہ سمجھ لیجیے کہ اسلامی نقطۂ نظر سے ضلالت کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ مغربی علوم وفنون سے حقائق لیتے ہیں بلکہ یہ ہے کہ آپ مغرب ہی سے اس کا وجدانی سانچا بھی لے لیتے ہیں۔ فلسفہ، سائنس، تاریخ، قانون، سیاسیات، معاشیات اور دوسرے علمی شعبوں میں آپ خود ہی تو اپنے نوجوان اور خالی الذہن طلبہ کے دماغوں میں مغرب کے اساسی تصورات بٹھاتے ہیں ان کی نظر کا فوکس مغربی زاویۂ نظر کے مطابق جماتے ہیں، مغربی مفروضات کو مسلمات بناتے ہیں۔ استدلال واستشہاد اور تحقیق وتمحیص کے لیے صرف وہی ایک نقطۂ آغاز انھیں دیتے ہیں جو اہل مغرب نے اختیار کیا ہے اور تمام علمی حقائق اور مسائل کو اسی طرز پرمرتّب کرکے ان کے ذہن میں اتار دیتے ہیں، جس طرز پر اہلِ مغرب نے انھیں مرتّب کیا ہے۔ اس کے بعد آپ چاہتے ہیں کہ تنہا دینیات کا شعبہ انھیں مسلمان بنا دے یہ کس طرح ممکن ہے؟ وہ شعبۂ دینیات کیا کر سکتا ہے جس میں مجرّد تصورات ہوں، حقائقِ علمیہ اور مسائلِ حیات پر ان تصورات کا انطباق نہ ہو بلکہ طلبہ کے ذہن میں جملہ معلومات کی ترتیب ان تصورات کے بالکل برعکس ہو۔ یہی گم راہی کا سرچشمہ ہے۔ اگر آپ گم راہی کا سد باب کرنا چاہتے ہیں تو اُس سرچشمے کے مصدر پر پہنچ کر ( قرآن کے تصورات کے مطابق ) اس کا رخ پھیر دیجیے۔
جب اس وجدانی سانچا میں معلومات مرتّب ہوں گی اور اس نظریہ سے کائنات اور زندگی کے مسائل کو حل کیا جائے گا تب آپ کے طلبہ ’’مسلم طلبہ‘‘ بنیں گے اور آپ یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے ان میں ’’اسلامی اسپرٹ‘‘ پیدا کی۔ ورنہ ایک شعبہ میں اسلام اور باقی تمام شعبوں میں غیر اسلام رکھ دینے کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ آپ کے فارغ التحصیل طلبہ فلسفہ میں غیر مسلم، سائنس میں غیر مسلم، قانون میں غیر مسلم، سیاست میں غیر مسلم، فلسفہ تاریخ میں غیر مسلم، معاشیات میں غیر مسلم ہوں گے اور ان کا اسلام محض چند اعتقادات اور چند مذہبی مراسم کی حد تک محدود رہ جائے گا۔
۷۔ بی۔ ٹی۔ ایچ اور ایم۔ ٹی۔ایچ کے امتحانات کو بند کر دیجیے۔ نہ ان کی کوئی ضرورت ہے، نہ فائدہ۔ جہاں تک علومِ اسلامیہ کے مخصوص شعبوں کا تعلق ہے ان میں سے ہر ایک شعبے کو اسی کے مماثل علم کے مغربی شعبہ کے انتہائی کورس میں داخل کر دیجیے۔ مثلاً فلسفہ میں حکمتِ اسلامیہ اور اسلامی فلسفہ کی تاریخ اور فلسفیانہ افکار کے ارتقا میں مسلمانوں کا حصہ، تاریخ میں تاریخِ اسلام اور اسلامی فلسفۂ تاریخ، قانون میں اسلامی قانون کے اصول اور فقہ کے وہ ابواب جو معاملات سے متعلق ہیں۔ معاشیات میں اسلامی معاشیات کے اصول اور فقہ کے وہ حصے جو معاشی مسائل سے متعلق ہیں۔ سیاسات میں اسلام کے نظریاتِ سیاسی اور اسلامی سیاسیات کے نشووارتقا کی تاریخ اور دنیا کے سیاسی افکار کی ترقی میں اسلام کا حصہ وقس علیٰ ہذا۔
اس کورس کے بعد علوم اسلامیہ میں ریسرچ کے لیے ایک مستقل شعبہ ہونا چاہیے جو مغربی یونی ورسٹیوں کی طرح اعلیٰ درجہ کی علمی تحقیق پر سند فضیلت (doctorate) دیا کرے۔ اس شعبہ میں ایسے لوگ تیار کیے جائیں جو مجتہدانہ طرز تحقیق کی تربیت پا کر نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے تمام دنیا کی نظری راہ نمائی کے لیے مستعد ہوں۔
حصہ دوم میں جس طرزِ تعلیم کا خاکہ میں نے پیش کیا ہے وہ بظاہر ناقابلِ عمل معلوم ہوتا ہے لیکن میں کافی غور وخوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ توجہ، محنت اور صرفِ مال سے اسے بتدریج عمل میں لایا جا سکتا ہے۔
یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہیے کہ آپ کسی راہ میں پہلا قدم اٹھاتے ہی منزل کے آخری نشان پر نہیں پہنچ سکتے۔ کام کی ابتدا کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس کی تکمیل کا پورا سامان پہلے سے آپ کے پاس موجود ہو۔ ابھی تو آپ کو صرف عمارت کی بنیادرکھنی ہے اور اس کا سامان اس وقت فراہم ہو سکتا ہے۔ موجودہ نسل میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اس طرزِ تعمیر پر بنیادیں رکھ سکتے ہیں۔ ان کی تعلیم وتربیت سے جو نسل اٹھے گی، وہ دیواریں اٹھانے کے قابل ہو گی۔ پھر تیسری نسل ایسی نکلے گی جس کے ہاتھوں یہ کام ان شاء اللّٰہ پایہ تکمیل کو پہنچے گا جو درجہ کمال کم از کم تین نسلوں کی محنت کے بعد حاصل ہو سکتا ہے۔ اسے آج ہی حاصل کر لینا ممکن نہیں لیکن تیسری نسل میں عمارت کی تکمیل تب ہی ہو سکے گی کہ آپ آج اس کی بنیاد رکھ دیں۔ ورنہ اگر اس کے درجہ کمال کو اپنے سے دور پا کر آپ نے آج سے ابتدا ہی نہ کی، (حالانکہ ابتدا کرنے کے اسباب آپ کے پاس موجود ہیں) تو یہ کام کبھی انجام نہ پائے گا۔
چوں کہ مَیں اس اصلاحی اقدام کا مشورہ دے رہا ہوں اس لیے یہ بھی میرا ہی فرض ہے کہ اسے عمل میں لانے کی تدابیر بھی پیش کروں۔ اپنے بیان کے اس حصہ میں مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس طرزِ تعلیم کی ابتدا کس طرح کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے قابلِ عمل تدبیریں کیا ہیں:
۱۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے لیے عقائدِ اسلامی اخلاق اور احکامِ شریعت کا ایک جامع کورس حال ہی میں سرکار نظام کے محکمہ تعلیمات نے تیار کرایا ہے اسے ضروری ترمیم واصلاح سے بہت کار آمد بنایا جا سکتا ہے۔
عربی زبان کی تعلیم قدیم طرز کی وجہ سے جس قدر ہول ناک ہو گئی تھی، الحمد لِلّٰہ کہ اب وہ کیفیت باقی نہیں رہی ہے۔ اس کے لیے جدید طریقے مصر وشام اور خود ہندوستان میں ایسے نکل آئے ہیں جن سے بآسانی یہ زبان سکھائی جا سکتی ہے۔ ایک خاص کمیٹی ان لوگوں کی مقرر کی جائے جو عربی تعلیم کے جدید طریقوں میں علمی وعملی مہارت رکھتے ہیں، اور ان کے مشورہ سے ایک ایسا کورس تجویز کیا جائے جس میں زیادہ تر قرآن ہی کو عربی کی تعلیم کا ذریعہ بنایا گیا ہو۔ اس طرح تعلیمِ قرآن کے لیے الگ وقت نکالنے کی بھی ضرورت نہ رہے گی اور ابتدا ہی سے طلبہ کو قرآن کے ساتھ مناسبت پیدا ہو جائے گی۔
اسلامی تاریخ کے بکثرت رسالے اردو زبان میں لکھے جا چکے ہیں، انھیں جمع کرکے بہ نظرِ غور دیکھا جائے اور جو رسائل مفید پائے جائیں انھیں ابتدائی جماعتوں کے کورس میں داخل کر لیا جائے۔
مقدم الذکر دونوں مضامین کے لیے روزانہ صرف ایک گھنٹا کافی ہو گا۔ رہی اسلامی تاریخ تو یہ مضمون کوئی الگ وقت نہیں چاہتا۔ تاریخ کے عمومی نصاب میں اسے ضم کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ ہائی اسکول کی تعلیم کے موجودہ نظم میں کوئی زیادہ تغیر کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ تغیر کی ضرورت جو کچھ بھی ہے نصابِ تعلیم،طرزِ تعلیم اور تعلیمی اسٹاف میں ہے۔ دینیات کی تدریس اور اس کے مدرس کا جو تصوّر آپ کے ذہن میں اب تک رہا ہے اسے نکال دیجیے۔ اس دور کے لڑکوں اور لڑکیوں کی ذہنیّت اور ان کی نفسیات کو سمجھنے والے مدرس رکھیے۔ انھیں یہ ترقی یافتہ نصابِ تعلیم دیجیے اور اس کے ساتھ ایسا ماحول پیدا کیجیے جس میں ’’اسلامیّت‘‘ کے بیج کو بالیدگی نصیب ہو سکے۔
۲۔ کالج کے لیے نصابِ عام کی جو تجویز میں نے پیش کی ہے اس کے تین اجزا ہیں:
(الف) عربیّت
(ب) قرآن
(ج) تعلیماتِ اسلامی
ان میں سے عربیّت کو آپ ثانوی لازمی زبان کی حیثیت دیجیے۔ دوسری زبانوں میں سے کسی کی تعلیم اگر طلبہ حاصل کرنا چاہیں تو ٹیوٹرس کے ذریعے حاصل کر سکتے ہیں۔ مگر کالج میں جو زبان ذریعۂ تعلیم ہے اس کے بعد عربی زبان ہی لازمی ہونی چاہیے۔ اگر نصاب اچھا ہو اور پڑھانے والے آزمودہ کار ہوں تو انٹرمیڈیٹ کے دو سالوں میں طلبہ میں اتنی استعداد پیدا کی جا سکتی ہے کہ وہ بی۔اے میں پہنچ کر قرآن کریم کی تعلیم خود قرآن کی زبان میں حاصل کر سکیں۔
قرآن کے لیے کسی تفسیر کی حاجت نہیں۔ ایک اعلیٰ درجہ کا پروفیسر کافی ہے جس نے قرآن کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا ہو اور جو طرزِ جدید پر قرآن پڑھانے اور سمجھانے کی اہلیّت رکھتا ہو۔ وہ اپنے لیکچروں سے انٹرمیڈیٹ میں طلبہ کے اندر قرآن فہمی کی ضروری استعداد پیدا کر دے گا پھر بی اے میں انھیں پورا قرآن اس طرح پڑھا دے گا کہ وہ عربیّت میں بھی کافی ترقی کر جائیں گے اور اسلام کی روح سے بھی بخوبی واقف ہو جائیں گے۔ ’’تعلیماتِ اسلامی‘‘ کے لیے ایک جدید کتاب لکھوانے کی ضرورت ہے جو ان مقاصد پر حاوی ہو جن کی طرف میں نے حصہ دوم کے نمبر ۵ ضمن (ج) میں اشارہ کیا ہے، کچھ عرصہ ہوا کہ میں نے خود ایک کتاب کو پیش نظر رکھ کر ایک کتاب ’’اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی‘‘ کے عنوان سے لکھنا شروع کی تھی جس کے ابتدائی تین باب ترجمان القرآن میں محرم ۱۳۵۲ھ سے شعبان ۱۳۵۳ھ تک پرچوں میں شائع ہوئے ہیں۔ اگر اسے مفید سمجھا جائے تو مَیں اس کی تکمیل کرکے یونی ورسٹی کی نذر کر دوں گا۔
ان مضامین کے لیے کالج کی تعلیم کے موجودہ نظم میں کسی تغیر کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ عربیّت کے لیے وہی وقت کافی ہے جو آپ کے ہاں ثانوی تعلیم کے لیے ہے۔ قرآن اور تعلیماتِ اسلامیہ دونوں کے لیے باری باری سے وہی وقت کافی ہو سکتا ہے جو آپ کے دینیات کے لیے مقرر ہے۔
۳۔ زیادہ تر مشکل اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے میں پیش آئے گی جسے میں نے حصہ دوم کے نمبر (۶) و (۷) میں پیش کیا ہے۔ اس کے حل کی تین صورتیں ہیں جنھیں بتدریج اختیار کیا جا سکتا ہے۔
(الف) ایسے پروفیسر تلاش کیے جائیں (اور وہ ناپید نہیں ہیں) جو علومِ جدیدہ کے ماہر ہونے کے ساتھ قرآن اور سنت میں بھی بصیرت رکھتے ہوں، جن میں اتنی اہلیّت ہو کہ مغربی علوم کے حقائق کو ان کے نظریات کے مطابق کر سکیں۔
(ب) اسلامی فلسفۂ قانون، اُصولِ قانون وفلسفہ تشریع، سیاسیات، عمرانیات، معاشیات وفلسفہ اور تاریخ وغیرہ کے متعلق عربی، اردو، انگریزی، جرمن اور فرنچ زبانوں میں جس قدر لٹریچر موجود ہے اس کی چھان بین کی جائے۔ جو کتابیں بعینہٖ لینے کے قابل ہوں، ان کا انتخاب کر لیا جائے اور جنھیں اقتباس یا حذف یا ترمیم کے ساتھ کارآمد بنایا جا سکتا ہو، انھیں اسی طریق پر لایا جائے۔ اس غرض کے لیے اہلِ علم کی خاص جمعیت مقرر کرنا ہو گی۔
(ج) چند ایسے فضلا کی خدمات حاصل کی جائیں جو مذکورہ بالا علوم پر جدید کتابیں تالیف کریں، خصوصیّت کے ساتھ اصولِ فقہ، احکامِ فقہ، اسلامی معاشیات، اسلام کے اصولِ عمران اور حکمتِ قرآنیہ پر جدید کتابیں لکھنا بہت ضروری ہے کیوں کہ قدیم کتابیں اب درس وتدریس کے لیے کارآمد نہیں ہیں۔ اربابِ اجتہاد کے لیے تو بلاشبہ ان میں بہت اچھا مواد مل سکتا ہے مگر انھیں جوں کا توں لے کر موجودہ زمانے کے طلبہ کو پڑھانا بالکل بے سود ہے۔
اس میں شک نہیں کہ سرِدست ان تینوں تدبیروں سے وہ مقصد بہ درجہ کمال حاصل نہ ہو گا جو ہمارے پیشِ نظر ہے۔ بلاشبہ اس تعمیرِ جدید میں بہت کچھ نقائص پائے جائیں گے لیکن اس سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں، یہ صحیح راستہ پر پہلا قدم ہو گا۔ اس میں جو کوتاہیاں رہ جائیں گی انھیں بعد کی نسلیں پورا کریں گی۔ یہاں تک کہ اس کے تکمیلی ثمرات کم از کم پچاس سال بعد ظاہر ہوں گے۔
۴۔ اسلامی ریسرچ کا شعبہ قائم کرنے کا ابھی موقع نہیں۔ اس کی نوبت چند سال بعد آئے گی۔ اس لیے اس کے متعلق تجاویز پیش کرنا قبل از وقت ہے۔
۵۔ میری تجویز میں فرقی اختلافات کی گنجائش بہت کم ہے۔ تاہم اس باب میں علمائے شیعہ سے استصواب کر لیا جائے کہ وہ کس حد تک اس طرزِ تعلیم میں شیعہ طلبا کو سنی طلبہ کے ساتھ رکھنا پسند کریں گے اگر وہ چاہیں تو شیعہ طلبہ کے لیے خود کوئی اسکیم مرتب کریں مگر مناسب یہ ہو گا کہ جہاں تک ہو سکے تعلیم میں فروعی اختلافات کو کم از کم جگہ دی جائے اور مختلف فرقوں کی آیندہ نسلوں کو اسلام کے مشترک اُصول ومبادی کے تحت تربیت کیا جائے۔
۶۔ سر محمد یعقوب کے اس خیال سے مجھے پورا اتفاق ہے کہ وقتاً فوقتاً علما وفضلا کو اہم مسائل پر لیکچر دینے کے لیے دعوت دی جاتی رہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ علی گڑھ کو نہ صرف ہندوستان کا بلکہ تمام دنیائے اسلام کا دماغی مرکز بنا دیا جائے۔ آپ اکابر ہندوستان کے علاوہ مصر، شام، ایران، ترکی اور یورپ کے مسلمان فضلا کو بھی دعوت دیجیے کہ یہاں آ کر اپنے خیالات، تجربات ، اور نتائجِ تحقیق سے ہمارے طلبہ میں روشنیٔ فکر اور رو حِ حیات پیدا کریں۔ اس قسم کے خطبات کافی معاوضہ دے کر لکھوائے جانے چاہییں، تاکہ وہ کافی وقت، محنت اور غوروفکر کے ساتھ لکھے جائیں اوران کی اشاعت نہ صرف یونی ورسٹی کے طلبہ کے لیے بلکہ عام تعلیم یافتہ پبلک کے لیے بھی مفید ہو۔
۷۔ اسلامی تعلیم کے لیے ایک زبان کو مخصوص کرنا درست نہیں۔ اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں سے کسی ایک زبان میں اس وقت نصاب کے لیے کافی سامان موجود نہیں۔ لہٰذا سرِدست ان میں سے جس زبان میں بھی جو مفید چیز مل جائے اسے اسی زبان میں پڑھانا چاہیے۔ دینیات اور علومِ اسلامیہ کے معلمین سب کے سب ایسے ہونے چاہییں جو انگریزی اور عربی دونوں زبانیں جانتے ہوں۔ اب کوئی یک رخا آدمی صحیح معلّم دینیات نہیں ہو سکتا۔
مَیں اپنے بیان کی اس طوالت پر عذر خواہ ہوں مگر اتنی طویل تفصیل میرے لیے ناگزیر تھی کیوں کہ میں بالکل ایک نئے راستہ کی طرف دعوت دے رہا ہوں جس کے نشانات کو پہچاننے میں خود مجھے غور وفکر کے کئی سال صرف کرنا پڑے ہیں۔ میں حتماً اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ مسلمانوں کے مستقل قومی وجود اور ان کی تہذیب کے باقی رہنے کی اب کوئی صورت بجز اس کے نہیں ہے کہ ان کے طرزِ تعلیم وتربیت میں انقلاب پیدا کیا جائے، اور وہ انقلاب ان خطوط پر ہوجو میں نے آپ کے سامنے پیش کیے ہیں۔ میں اس سے بے خبر نہیں ہوں کہ ایک بڑی جماعت ایسے لوگوں کی موجود ہے اور خود علی گڑھ میں ان کی کمی نہیں جو میرے ان خیالات کو دیوانے کا خواب کہیں گے، اگر ایسا ہو تو مجھے کوئی تعجب نہیں ہو گا۔ پیچھے دیکھنے والوں نے آگے دیکھنے والوں کو اکثر دیوانہ ہی سمجھا ہے اور ایسا سمجھنے میں وہ حق بجانب ہیں۔ لیکن جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں چند سال بعد شاید میری زندگی ہی میں وہ اسے بچشم سر دیکھیں گے اور انھیں اس وقت اصلاحِ حال کی ضرورت محسوس ہو گی جب طوفان سر پر ہو گا اور تلافیٔ مافات کے مواقع کم تر رہ جائیں گے۔
٭…٭…٭…٭…٭