Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

باب اوّل: ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص
باب دوم: مسلمانوں کے لیے جدید تعلیمی پالیسی اور لائحۂ عمل
باب سوم: خطبہ تقسیم اَسناد
باب چہارم: نیا نظامِ تعلیم
باب پنجم : رودادِ مجلسِ تعلیمی
باب ششم: اسلامی نظامِ تعلیم اور پاکستان میں اس کے نفاذ کی عملی تدابیر
باب ہفتم: ایک اسلامی یونی ورسٹی کا نقشہ
باب ہشتم: اسلامی نظام تعلیم
باب نہم: عالمِ اسلام کی تعمیر میں مسلمان طلبہ کا کردار

تعلیمات

1935ءمیں یہ سوال بڑے زور شور سے اٹھایا گیا کہ آخر مسلمانوں کی قومی درس گاہوں سے ملاحدہ اور الحاد ودہریت کے مبلغین کیوں اس کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں۔ علی گڑھ یونی ورسٹی کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ شکایت تھی کہ اس سے فارغ اتحصیل 90 فی صد طلبہ الحادود ہر یت میں مبتلا ہیں۔ جب یہ چرچا عام ہونے لگا اور ملک بھر میں اس کے خلاف مضامین لکھے جانے لگے تو علی گڑھ یونی ورسٹی کی طرف سے اس شکایت کا جائزہ لینے اور اصلاح حال کی تدبیر پرغوروخوض کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے کافی بحث وتمحیص اور غور وخوض کے بعد یہ رائے قائم کی کہ اسی نصاب تعلیم میں دینیات کے عنصر کو پہلے کی نسبت کچھ زیادہ کر دینے سے طلبا کے اندر بڑھتے ہوئے الحادود ہریت کے سیلاب کے آگے بند باندھا جاسکتا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ نے اگست 1939ءکے ترجمان القرآن میں اصلاح حال کی اس تدبیر کاتفصیلی جائزہ لے کر اس وقت کے مروجہ نظام تعلیم کے اصلی اور بنیادی نقص کی نشان دہی کی اور اس نقص کو دور کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ آج برسہا برس گزرنے کے باوجود یہ سارے مسائل جوں کے توں ہمارے سامنے منھ پھاڑے کھڑے ہیں، یہ کتاب برسوں گزرنے کے بعد بھی آج کی تصنیف لگتی ہے۔ اس کتاب میں شامل تمام حقائق اور مسئلوں کے جو حل بتائے ہیں ، وہ آج بھی قابل عمل ہے۔ بس ایک فرق یہ ہے کہ اس وقت اس الحاد کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی بنی تھی لیکن آج مملکت خداداد پاکستان کے حکمرانوں کو الحاد کا نہ یہ طوفان نظر آتا ہے اور نہ وہ اسے حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں، ہاں اگر آج بھی کوئی اس بند کو روکنا چاہتا ہے تو یہ کتاب یقینا اس کے لیے ایک اہم دستاویز ثابت ہوگی۔

باب اوّل: ہمارے نظامِ تعلیم کا بنیادی نقص

آج سے تقریباً ۳۵ برس پہلے ۱۹۳۵ء میں یہ سوال بڑے زور شور سے اٹھایا گیا کہ آخر مسلمانوں کی قومی درس گاہوں سے ملاحدہ اور الحاد ودہریت کے مبلغین کیوں اس کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں۔ علی گڑھ یونی ورسٹی کے بارے میں خصوصیّت کے ساتھ شکایت تھی کہ اس سے فارغ التحصیل ۹۰ فی صد طلبا الحاد ودہریت میں مبتلا ہیں۔ جب یہ چرچا عام ہونے لگا اور ملک بھر میں اس کے خلاف مضامین لکھے جانے لگے تو علی گڑھ یونی ورسٹی کی طرف سے اس شکایت کا جائزہ لینے اور اصلاحِ حال کی تدبیر پر غور وخوض کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے کافی بحث وتمحیص اور غور وخوض کے بعد یہ رائے قائم کی کہ اسی نصابِ تعلیم میں دینیات کے عنصر کو پہلے کی بہ نسبت کچھ زیادہ کر دینے سے طلبا کے اندر بڑھتے ہوئے الحاد ودہریت کے سیلاب کے آگے بند باندھا جا سکتا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اگست ۱۹۳۶ء کے ترجمان القرآن میں اصلاحِ حال کی اس تدبیر کا تفصیلی جائزہ لے کر اس وقت کے مروجہ نظامِ تعلیم کے اصلی اور بنیادی نقص کی نشان دہی کی اور اس نقص کو دُور کرنے کی طرف توجہ دلائی۔
مسلم یونی ورسٹی کورٹ نے اپنے گزشتہ سالانہ اجلاس ’’منعقدہ اپریل ۱۹۳۶ء‘‘ میں ایک ایسے اہم مسئلے کی طرف توجہ کی ہے جو ایک عرصہ سے توجہ کا محتاج تھا۔ یعنی دینیات اور علومِ اسلامیہ کے ناقص طرزِ تعلیم کی اصلاح، اور یونی ورسٹی کے طلبہ میں حقیقی اسلامی اسپرٹ پیدا کرنے کی ضرورت۔ جہاں تک جدید علوم وفنون اور ادبیات کی تعلیم کا تعلق ہے، حکومت کی قائم کی ہوئی یونی ورسٹیوں میں بہتر سے بہتر انتظام موجود ہے، کم از کم اتنا ہی بہتر جتنا خود علی گڑھ میں ہے۔ محض اس غرض کے لیے مسلمانوں کو اپنی ایک الگ یونی ورسٹی قائم کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی، ایک مستقل قومی یونی ورسٹی قائم کرنے کا تخیل جس بِنا پر مسلمانوں میں پیدا ہوا، اور جس بنا پر اس تخیل کو مقبولیّت حاصل ہوئی وہ صرف یہ ہے کہ مسلمان جدید علوم سے استفادہ کرنے کے ساتھ مسلمان بھی رہنا چاہتے ہیں۔ یہ غرض سرکاری کالجوں اور یونی ورسٹیوں سے پوری نہیں ہوتی۔ اس کے لیے مسلمانوں کو اپنی ایک اسلامی یونی ورسٹی کی ضرورت ہے۔ اگر ان کی اپنی یونی ورسٹی بھی یہ غرض پوری نہ کرے، اگر وہاں سے بھی ویسے ہی گریجویٹ نکلیں، جیسے سرکاری یونی ورسٹی سے نکلتے ہیں۔ اگر وہاں بھی دیسی صاحب لوگ یا ہندی وطن پرست یا اشتراکی ملاحدہ ہی پیدا ہوں تو لاکھوں روپے کے صرف سے ایک یونی ورسٹی قائم کرنے اور چلانے کی کون سی خاص ضرورت ہے؟
یہ ایسا سوال تھا جس پر ابتدا ہی میں کافی توجہ کرنے کی ضرورت تھی جب یونی ورسٹی قائم کی جا رہی تھی۔ اُس وقت سب سے پہلے اسی بات پر غور کرنا چاہیے تھا کہ ہمیں ایک علیحدہ یونی ورسٹی کی کیا ضرورت ہے۔ اور اس ضرورت کو پورا کرنے کی کیا سبیل ہے؟ مگر کسی نقاد نے آج کل کے مسلمانوں کی تعریف میں شاید سچ ہی کہا ہے کہ یہ کام پہلے کرتے ہیں اور سوچتے بعد میں ہیں۔ جن لوگوں کو یونی ورسٹی بنانے کی دھن تھی اس کا کوئی نقشہ ان کے ذہن میں نہ تھا۔ یہ سوال سرے سے پیشِ نظر ہی نہ تھا کہ ایک مسلم یونی ورسٹی کیسی ہونی چاہیے اور کن خصوصیات کی بنا پر کسی یونی ورسٹی کو ’’مسلم یونی ورسٹی‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ اس عمل بِلا فکر کا نتیجہ یہ ہوا کہ بس ویسی ہی ایک یونی ورسٹی علی گڑھ میں بھی قائم ہو گئی جیسی ایک آگرہ میں اور دوسری لکھنؤ میں اور تیسری ڈھاکا میں ہے۔ لفظ مسلم کی رعایت سے کچھ دینیات کا حصہ بھی نصاب میں شامل کر دیا گیا۔ تاکہ جب کوئی دریافت کرے کہ اس یونی ورسٹی کے نام میں لفظ ’’مسلم‘‘ کیوں رکھا گیا ہے تو اس کے سامنے قدوری اور منیۃ المصلی اور ہدایہ بطور سند اسلامیّت پیش کر دی جائیں۔ مگر درحقیقت یونی ورسٹی کی تاسیس وتشکیل میں کوئی ایسی خصوصیت پیدا نہیں ہوئی جس کی بِنا پر وہ دوسری یونی ورسٹیوں سے ممتاز ہو کر حقیقی معنوں میں ایک ’’اسلامی یونی ورسٹی‘‘ ہوتی۔ ممکن ہے کہ ابتدا میں تعمیر کے شوق اور جوش نے صحیح اور مناسب نقشہ پر غور کرنے کی مہلت نہ دی ہو۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یونی ورسٹی قائم ہوئے پندرہ سال ہو گئے‘ اور اس دوران میں ہمارے تعلیمی ناخدائوں نے ایک مرتبہ بھی یہ محسوس نہیں کیا کہ ان کی اصلی منزلِ مقصود کیا تھی‘ اور ان کا راہ رَو پشت بمنزل جا کدھر رہا ہے۔ ابتدا سے حالات بتا رہے ہیں کہ یہ درس گاہ نہ اس ڈھنگ سے چل رہی ہے جس پر ایک اسلامی درس گاہ کو چلنا چاہیے اور نہ وہ نتائج پیدا کر رہی ہے جو دراصل مطلوب تھے۔ اس کے طلبہ اور ایک سرکاری یونی ورسٹی کے طلبہ میں کوئی فرق نہیں۔ اسلامی کیریکٹر‘ اسلامی اسپرٹ‘ اسلامی طرزِ عمل مفقود ہے۔ اسلامی تفکر اور اسلامی ذہنیّت ناپید ہے۔ ایسے طلبہ کی تعداد شاید ایک فی صدی بھی نہیں جو اس یونی ورسٹی سے ایک مسلمان کی نظر اور مسلمان کا نصب العین لے کر نکلے ہوں اور جن میں یونی ورسٹی کی تعلیم وتربیت نے یہ قابلیّت پیدا کی ہو کہ اپنے علم اور قوائے عقلیہ سے کام لے کر ملتِ اسلامیہ میں زندگی کی کوئی نئی روح پھونک دیتے یا کم ازکم اپنی قوم کی کوئی قابلِ ذکر علمی وعملی خدمت ہی انجام دیتے۔ نتائج کی نوعیّت اگر محض سلبی ہی رہتی تب بھی بسا غنیمت ہوتا۔ مگر افسوس یہ ہے کہ یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل اور زیر تعلیم طلبہ میں ایک بڑی تعداد ایسے نوجوانوں کی پائی جاتی ہے جن کا وجود اسلامی تہذیب اور مسلمان قوم کے لیے نفع نہیں، بلکہ الٹا نقصان ہے۔ یہ لوگ روحِ اسلامی سے ناآشنا ہی نہیں بلکہ اس سے قطعاً منحرف ہو چکے ہیں ان میں مذہب کی طرف سے سردمہری ہی نہیں بلکہ نفرت سی پیدا ہو گئی ہے ان کے ذہن کا سانچا ایسا بنا دیا گیا ہے کہ تشکیک کی حد سے گزر کر انکار کے مقام پر پہنچ گئے ہیں اور ان اصولِ اوّلیہ کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے۔
حال میں خود مسلم یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل نوجوانوں میں سے ایک صاحب نے ’’جو محض اپنی سلامتِ طبع کی وجہ سے مرتد ہوتے ہوتے رہ گئے،‘‘ اپنے ایک پرائیویٹ خط میں وہاں کے حالات کی طرف چند ضمنی اشارات کیے ہیں۔ یہ خط اشاعت کے لیے نہیں ہے اور نہ خصوصیّت کے ساتھ علی گڑھ کی کیفیّت بیان کرنے کے لیے لکھا گیا ہے اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ یونی ورسٹی کی باطنی کیفیت کا نہایت صحیح مرقع ہے۔ صاحبِ خط نے خود اپنے ذہنی اِرتقا کی روداد بیان کرتے لکھا ہے:
’’علی گڑھ میں مجھے اسلامی دنیا کے خارجی فتنے اور تفرنج کی آخری ارتقائی منزل یعنی کمیونزم سے د و چار ہونا پڑا۔ میں پہلے مغربیت کو کوئی خطرناک چیز نہ سمجھتا تھا۔ لیکن علی گڑھ کے تجربات نے مجھے حقیقت سے روشناس کرا دیا۔ اسلامی ہند کے اس مرکز میں خاصی تعداد ایسے افراد کی موجود ہے جو اسلام سے مرتد ہو کر کمیونزم کے پرجوش مبلغ بن گئے ہیں۔ اس جماعت میں اساتذہ تمام ذہین، ذکی اور نووارد طلبا کو اپنے جال میں پھانستے ہیں۔ ان لوگوں نے کمیونزم کو اس لیے اختیار نہیں کیا کہ وہ غریبوں، کسانوں اور مزدوروں کی حمایت اور امداد کرنا چاہتے ہیں کیوں کہ ان کی عملی مسرفانہ زندگی ان کی بناوٹی باتوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ بلکہ انھوں نے اسے اس لیے اختیار کیا ہے کہ وہ ایک عالم گیر تحریک کے سایہ میں اپنی اخلاقی کم زوریوں اور اپنے ملحدانہ رجحاناتِ طبع اور اپنی loose thinking کو justify کر سکیں۔ کمیونزم نے پہلے مجھے بھی دھوکا دیا۔ میں نے یہ خیال کیا کہ یہ اسلام ہی کا ایک (unauthorised) ایڈیشن ہے لیکن بغور مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ اسلام کے اور اس کے بنیادی نصب العین میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔‘‘
اس بیان سے صاف ظاہر ہے کہ مسلم یونی ورسٹی کی تعلیم وتربیت صرف ناقص نہیں بلکہ ان مقاصد کے بالکل برعکس نتائج پیدا کر رہی ہے۔ جن کے لیے سر سیّد احمد خاں، محسن الملک اور وقار الملک وغیرہم نے ایک مسلم یونی ورسٹی کی ضرورت ظاہر کی تھی اور جن کے لیے مسلمانوں نے اپنی بساط سے بڑھ کر جوش وخروش کے ساتھ اس درس گاہ کی تعمیر کا خیر مقدم کیا تھا۔
آپ اس انجینئر کے متعلق کیا رائے قائم کریں گے جس کی بنائی ہوئی موٹر آگے چلنے کی بجائے پیچھے کو دوڑتی ہو؟ اور وہ انجینئر آپ کی نگاہ میں کیسا ماہر فن ہو گا جو اپنی بنائی ہوئی موٹر کو مسلسل اور پیہم الٹی حرکت کرتے دیکھتا رہے اور پھر بھی محسوس نہ کرے کہ اس کے نقشے میں کوئی خرابی ہے؟ غالباً ان صفات کا کوئی میکانیکل انجینئر تو آپ کو نہ مل سکے گا۔ لیکن آپ کی قوم کے تعلیمی انجینئر جس درجہ کے ماہرِ فن ہیں اس کا اندازہ آپ اس امرِ واقعہ سے کر لیجیے کہ وہ ایک تعلیمی مشین بنانے بیٹھے تھے جسے اسلامی نصب العین کی جانب حرکت دینا مقصود تھا مگر جو مشین انھوں نے بنائی، وہ بالکل سمتِ مخالف میں حرکت کرنے لگی، اور مسلسل پندرہ سال تک حرکت کرتی رہی اور ایک دن بھی انھیں محسوس نہ ہوا کہ ان کے نقشۂ تعمیر میں کیا غلطی ہے، بلکہ کوئی غلطی ہے بھی یا نہیں! بعد از خرابی ٔ بِسیار اب یونی ورسٹی کورٹ کو یاد آیا ہے کہ:
’’مسلم یونی ورسٹی کے مقاصد اوّلیہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے طلبہ میں اسلامی روح پیدا کرے‘‘
اور اس غرض کے لیے اس نے سات اشخاص کی ایک کمیٹی مقرر کی ہے جس کے سپرد یہ خدمت کی گئی ہے کہ:
’’تمام صورتِ حال کا جائزہ لے وہ دینیات اور علومِ اسلامیہ کی تعلیم کے لیے ایسے جدید اور ترقی یافتہ ذرائع اختیار کرنے کی سفارش کرے جو ضروریاتِ زمانہ سے مناسبت رکھتے ہوں اور جن سے اسلامی تعلیمات کو زیادہ اطمینان بخش طریق پر پیش کیا جا سکے‘‘
بڑی خوشی کی بات ہے، نہایت مبارک بات ہے۔ صبح کا بھولا اگر شام کو واپس آ جائے تو اسے بھولا ہوا نہیں کہتے۔ اگر اب بھی ہمارے تعلیمی انجینئروں نے یہ محسوس کر لیا ہو کہ ان کی تعلیمی مشین غلط نقشے پر بنی ہے، اور اپنے مقصدِ ایجاد کے خلاف اس کے چلنے کی اصلی وجہ محض بخت واتفاق نہیں بلکہ نقشِ تاسیس وتشکیل کی خرابی ہے تو ہم خوشی کے ساتھ یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ مضیٰ مامضیٰ، آئو اب اپنے پچھلے نقشے کی غلطیوں کو سمجھ لو، اور ایک صحیح نقشہ پر اس مشین کو مرتب کرو۔ لیکن ہمیں شبہ ہے کہ اب بھی غلطی کا کوئی صحیح احساس ان حضرات میں پیدا نہیں ہوا ہے۔ ابھی تک وہ اس امر کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ان کے نقشے میں کوئی بنیادی خرابی ہے۔ محض نتائج کی خوف ناک ظاہری صورت ہی سے وہ متاثر ہوئے ہیں اور بالکل سطحی نگاہ سے حالات کو دیکھ رہے ہیں۔
پچھلی صدی کے وسط میں جب دو صدیوں کا پیہم انحطاط ایک خوف ناک سیاسی انقلاب پر منتہی ہوا تھا۔ اس وقت مسلمانوں کے ڈوبتے ہوئے بیڑے کو سنبھالنے کے لیے پردۂ غیب سے چند ناخدا پیدا ہو گئے تھے وہ وقت زیادہ غور وخوض کا نہ تھا۔ یہ سوچنے کی مہلت ہی کہاں تھی کہ اس شکستہ جہاز کی بجائے ایک نیا اور پائدار جہاز کس نقشے پر بنایا جائے۔ اس وقت تو صرف یہ سوال درپیش تھا کہ یہ قوم جو ڈوب رہی ہے اسے ہلاکت سے کیوں کر بچایا جائے؟ناخدائوں میں سے ایک گروہ نے فورًا اپنے اسی پرانے جہاز کی مرمت شروع کر دی، انھی پرانے تختوں کو جوڑا، ان کے رخنوں کو بھرا اور پھٹے ہوئے بادبانوں کو رفو کرکے جیسے تیسے بن پڑا ،ہوا بھرنے کے قابل بنا لیا۔ دوسرے گروہ نے لپک کر ایک نیا دخانی جہاز کرایہ پر لے لیا، اور ڈوبنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو اس پر سوار کر دیا۔ اس طریقہ سے دونوں گروہ اس اچانک مصیبت کو ٹالنے میں کام یاب ہو گئے مگر یہ دونوں تدبیریں صرف اس حیثیت سے کام یاب تھیں کہ انھوں نے فوری ضرورت کے لحاظ سے چارہ سازی کر دی، اور ڈوبتوں کو ہلاکت سے بچا لیا۔ ان میں حکمت اور دانش مندی جو کچھ بھی تھی صرف اسی حد تک تھی۔ اب جو لوگ اس وقت کے ٹل جانے کے بعد بھی انھی دونوں تدبیروں کو ٹھیک ٹھیک انھی دونوں شکلوں پر باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا طرزِ عمل حکمت ودانش کے خلاف ہے۔ نہ تو پرانا بادبانی جہاز اس قابل ہے کہ مسلمان صرف اسی پر بیٹھ کر ان قوموں سے مسابقت کریں جن کے پاس اس سے ہزار گنا زیادہ تیز رفتار چلنے والے مشینی جہاز ہیں نہ کرایہ پر لیا ہوا دخانی جہاز اس لائق ہے کہ مسلمان اس کے ذریعے سے اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ سکیں، کیوں کہ اس کا ساز وسامان تو ضرور نیا ہے اور اس کی رفتار بھی تیز ہے اور وہ کل دار بھی ہے مگر وہ دوسروں کا جہاز ہے۔ اس کا ڈیزائن انھی کے مقاصد اور انھی کی ضروریات کے لیے موزوں ہے، اور اس کے راہ نما اور ناخدا بھی وہی ہیں لہٰذا اس جہاز سے بھی ہم یہ امید نہیں کر سکتے کہ ہمیں اپنی منزلِ مقصود کی طرف لے جائے گا، بلکہ اس تیز رفتاری سے الٹا خطرہ یہ ہے کہ وہ ہمیں زیادہ سرعت کے ساتھ مخالف سمت پر لے جائے گا اور روز بروز ہمیں اپنی منزلِ مقصود سے دور کرتا چلا جائے گا۔ فوری ضرورت کے وقت تو وہ لوگ بھی حق بجانب تھے جنھوں نے پرانے جہاز کی مرمت کی اور وہ بھی غلطی پر نہ تھے، جنھوں نے کرایہ کے جہاز پر سوار ہو کر جان بچائی۔ مگر اب وہ بھی غلطی پر ہیں جو پرانے جہاز پر ڈٹے بیٹھے ہیں اور وہ بھی غلطی پر ہیں جو اسی کرایہ کے جہاز پر جمے ہوئے ہیں۔
اصلی راہ نما اور حقیقی مصلح کی تعریف یہ ہے وہ اجتہادِ فکر سے کام لیتا ہے اور وقت اور موقع کے لحاظ سے جو مناسب ترین تدبیر ہوتی ہے اسے اختیار کرتا ہے۔ اس کے بعد جو لوگ اس کا اتباع کرتے ہیں وہ اندھے مقلد ہوتے ہیں۔ جس طریقہ کو اس نے وقت کے لحاظ سے اختیار کیا تھا، اسی طریقہ پر یہ اس وقت کے گزر جانے کے بعد بھی آنکھیں بند کرکے چلے جاتے ہیں اور اتنا نہیں سوچتے کہ ماضی میں جو انسب تھا، حال میں وہی غیر انسب ہے۔ پچھلی صدی کے راہ نمائوں کے بعد ان کے متبعین آج بھی اس روش پر اصرار کر رہے ہیں جس پر ان کے راہ نما انھیں چھوڑ گئے تھے۔ حالانکہ وہ وقت جس کے لیے انھوں نے وہ روش اختیار کی تھی، گزر چکا ہے۔ اب اجتہاد وفکر سے کام لے کر نیا طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
بدقسمتی سے ہمیں دونوں گروہوں میں ایک بھی مجتہد نظر نہیں آتا۔ انتہائی جرأت کرکے پرانے جہاز والوں میں سے کوئی اگر اجتہاد کرتا ہے تو بس اتنا کہ اپنے اسی پرانے جہاز میں چند بجلی کے بلب لگا لیتا ہے کچھ نئے طرز کا فرنیچر مہیا کر لیتا ہے اور ایک چھوٹی سی دخانی مشین خرید لاتا ہے جس کا کام اس کے سوا کچھ نہیں کہ دور سے سیٹی بجا بجا کر لوگوں کو یہ دھوکا دیتی رہے کہ یہ پرانا جہاز اب نیا ہو گیا ہے اس کے مقابلے میں نئے جہاز والے اگرچہ دوسروں کے جہاز پر بیٹھے ہیں اور تیزی کے ساتھ سمت مخالف پر بہے چلے جا رہے ہیں، مگر دو چار پرانے بادبان بھی لے کر بیسویں صدی کے اس اپ ٹوڈیٹ جہاز میں لگائے ہوئے ہیں تاکہ خود اپنے نفس کو اور مسلمانوں کو یہ دھوکا دے سکیں کہ یہ جہاز بھی ’’اسلامی‘‘ جہاز ہے اور لندن کے راستہ سے حج کعبہ کو چلا جا رہا ہے۔
اندھی تقلید اور اس کے اجتہاد کی یہ جھوٹی نمائش تابکے… ایک طوفان گزر گیا۔ اب دوسرا طوفان بہت قریب ہے۔ ہندوستان میں ایک دوسرے سیاسی انقلاب کی بِنا پڑ رہی ہے۔ ممالک عالم میں ایک اور بڑے تصادم کے سامان ہو رہے ہیں جو بہت ممکن ہے کہ ہندوستان میں متوقع انقلاب کی بجائے ایک بالکل غیر متوقع اور ہزار درجہ زیادہ خطرناک انقلاب برپا کر دیں۔ یہ آنے والے انقلابات ۱۸۵۷ء کے ہنگامہ کی بہ نسبت اپنی نوعیّت اور اپنی شدّت کے لحاظ سے بالکل مختلف ہوں گے۔ اس وقت مسلمانوں کی ایمانی واعتقادی اور اخلاقی وعملی حالت جیسی کچھ ہے اسے دیکھتے ہوئے ہم نہیں سمجھتے کہ اس آنے والے طوفان کی ایک ٹکر بھی خیریت کے ساتھ سہہ سکیں گے۔ ان کا پرانا جہاز دورِ جدید کے کسی ہول ناک طوفان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ شاید ایک ہی تھپیڑے میں اس کے تختے بکھر جائیں اور اس کے بادبانوں کا تارتار الگ ہو جائے۔ رہا ان کا کرائے کا جہاز تو وہ پرانے جہاز سے بھی زیادہ خطرناک ہے جو لوگ اس پر سوار ہیں، ہمیں خوف ہے کہ طوفانی دور کا پہلا ہی تھپیڑا انھیں ملتِ اسلامیہ سے جدا کرکے شاید ہمیشہ کے لیے ضلالت کے قعرِ عمیق میں لے جائے گا۔ لا قدر اللّٰہ۔ پس اب یہی وقت ہے کہ مسلمان پرانے جہاز سے بھی نکلیں اور کرائے کے جہاز سے بھی اتریں اور خود اپنا ایک جہاز بنائیں۔ جس کے آلات اورکل پرزے جدید ترین ہوں۔ مشین موجودہ دور کے تیز سے تیز جہاز کے برابر ہو مگر نقشہ ٹھیٹھ اسلامی جہاز کا ہو اور اس کے انجینئر، کپتان، اور دیدبان سب وہ ہوں جو منزلِ کعبہ کی راہ ورسم سے با خبر ہوں۔
استعارہ کی زبان چھوڑ کر اب ہم کچھ صاف صاف کہیں گے، سر سید احمد خاں (خدا ان کو معاف کرے) کی قیادت میں علی گڑھ سے جو تعلیمی تحریک اٹھی تھی اس کا وقتی مقصد یہ تھا کہ مسلمان اس نئے دور کی ضرورت کے لحاظ سے اپنی دنیا درست کرنے کے قابل ہو جائیں۔ تعلیمِ جدید سے بہرہ مند ہوکر اپنی معاشی اور سیاسی حیثیت کو تباہی سے بچا لیں اور ملک کے جدید نظم ونسق سے استفادہ کرنے میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہ جائیں۔ اس وقت اس سے زیادہ کچھ کرنے کا شاید موقع نہ تھا۔ اگرچہ اس تحریک میں فوائد کے ساتھ نقصانات اور خطرات بھی تھے۔ مگر اس وقت اتنی مہلت نہ تھی کہ غور وتفکر کے بعد کوئی ایسی محکم تعلیمی پالیسی متعین کی جاتی جو نقصانات سے پاک اور فوائد سے لبریز ہوتی۔ نہ اس وقت ایسے اسباب موجود تھے کہ اس نوع کی تعلیمی پالیسی کے مطابق عمل درآمد کیا جا سکتا۔ لہٰذا وقتی ضرورت کو پیشِ نظر رکھ کر اسی طرزِ تعلیم کی طرف دھکیل دیا گیا جو ملک میں رائج ہو چکا تھا اورخطرات سے بچنے کے لیے کچھ تھوڑا سا عنصر اسلامی تعلیم وتربیت کا بھی رکھ دیا گیا۔ جسے جدید تعلیم اور جدید تربیت کے ساتھ قطعاً کوئی مناسبت نہ تھی۔
یہ صرف ایک وقتی تدبیر تھی جو ایک آفتِ ناگہانی کا مقابلہ کرنے کے لیے فوری طریق پر اختیار کر لی گئی تھی۔ اب وہ وقت گزر چکا ہے۔ جس میں فوری تدبیر کی ضرورت تھی۔ وہ فائدہ بھی حاصل ہوچکا ہے جو اس تدبیر سے حاصل کرنا مقصود تھا اور خطرات بھی واقعہ کی صورت میں نمایاں ہو چکے ہیں جو اس وقت صرف موہوم تھے۔ اس تحریک نے ایک حد تک ہماری دنیا تو ضرور بنا دی مگر جتنی دنیا بنائی، اس سے زیادہ ہمارے دین کو بگاڑ دیا۔ اس نے ہم میں کالے فرنگی پیدا کیے۔ اس نے ہم میں ’’اینگلو محمڈن‘‘ اور ’’اینگلو انڈین‘‘ پیدا کیے اور وہ بھی ایسے جن کی نفسیات میں ’’محمڈن‘‘ اور ’’انڈین‘‘ کا تناسب بس برائے نام ہی ہے۔ اس نے ہماری قوم کے طبقہ علیا متوسط کو جو دراصل قوم کے اعضائے رئیسہ ہیں۔ باطنی اور ظاہری دونوں حیثیتوں سے یورپ کی مادی تہذیب کے ہاتھ فروخت کر دیا، صرف اتنے معاوضے پر کہ چند عہدے، چند خطاب، چند کرسیاں، ایسے لوگوں کو مل جائیں جن کے نام مسلمانوں سے ملتے جلتے ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب دائمًا ہماری یہی تعلیمی پالیسی رہنی چاہیے؟ اگر یہی ہماری دائمی پالیسی ہے تو اس کے لیے علی گڑھ کی کوئی ضرورت اب باقی نہیں رہی۔ ہندوستان کے ہر بڑے مقام پر ایک علی گڑھ موجود ہے، جہاں سے دھڑا دھڑ ’’اینگلو محمڈن‘‘ اور ’’اینگلو انڈین‘‘ نکل رہے ہیں‘ پھر یہ بس بھری فصل کاٹنے کے لیے ہمیں اپنا ایک مستقل مزرع رکھنے کی حاجت ہی کیا ہے؟ اور اگر درحقیقت اس حالت کو بدلنا مقصود ہے تو ذرا ایک حکیم کی نظر سے دیکھیے کہ خرابی کے اصل اسباب کیا ہیں اور اسے دور کرنے کی صحیح صورت کیا ہے؟
جدید تعلیم وتہذیب کے مزاج اور اس کی طبیعت پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اسلام کے مزاج اور اس کی طبیعت کے بالکل منافی ہے۔ اگر باہم اسے بجنسہٖ لے کر اپنی نوخیز نسلوں میں پھیلائیں گے تو انھیں ہمیشہ کے لیے ہاتھ سے کھو دیں گے۔ آپ انھیں فلسفہ پڑھاتے ہیں جو کائنات کے مسئلے کو خدا کے بغیر حل کرنا چاہتا ہے۔ آپ انھیں وہ سائنس پڑھاتے ہیں جو معقولات سے منحرف اور محسوسات کا غلام ہے۔ آپ انھیں تاریخ، سیاسیات، معاشیات، قانون اور تمام علوم عمرانیہ کی وہ تعلیم دیتے ہیں جو اپنے اصول سے لے کر فروغ تک اور نظریات سے لے کر عملیات تک اسلام کے نظریات اور اصولِ عمران سے یک سر مختلف ہے۔ آپ ان کی تربیت تمام تر ایسی تہذیب کے زیرِ اثر کرتے ہیں جو اپنی روح، اپنے مقاصد اور مناہج کے اعتبار سے کلیۃً اسلامی تہذیب کی ضد واقع ہوئی ہے۔ اس کے بعد کس بنا پر آپ یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی نظر اسلامی نظر ہو گی؟ ان کی سیرت اسلامی سیرت ہو گی؟ ان کی زندگی اسلامی زندگی ہو گی؟ قدیم طرز پر قرآن وحدیث اور فقہ کی تعلیم اس نئی تعلیم کے ساتھ بے جوڑ ہے۔ اس قسم کے عملِ تعلیم سے کوئی خوش گوار پھل حاصل نہ ہو گا۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے فرنگی سٹیمر میں پرانے بادبان محض نمائش کے لیے لگا دیے جائیں۔ مگر ان بادبانوں سے فرنگی اسٹیمر قیامت تک اسلامی اسٹیمر نہ بنے گا۔
اگر فی الواقع علی گڑھ یونی ورسٹی کو مسلم یونی ورسٹی بنانا ہے تو سب سے پہلے مغربی علوم وفنون کی تعلیم پر نظر ثانی کیجیے۔ ان علوم کو جوں کا توں لینا ہی درست نہیں ہے۔ طالب علموں کی لوحِ سادہ پر ان کا نقش اس طرح مرتسم ہوتا ہے کہ وہ ہر مغربی چیز پر ایمان لاتے چلے جاتے ہیں۔ تنقید کی صلاحیت ان میں پیدا ہی نہیں ہوتی اور اگر پیدا ہوتی بھی ہے تو فی ہزار ایک طالب علم میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد سال ہا سال کے گہرے مطالعہ سے جب کہ وہ زندگی کے آخری مرحلوں پر پہنچ جاتا ہے اور کسی عملی کام کے قابل نہیں رہتا۔ اس طرزِ تعلیم کو بدلنا چاہیے۔ تمام مغربی علوم کو طلبہ کے سامنے تنقید کے ساتھ پیش کیجیے اور یہ تنقید خالص اسلامی نظر سے ہو، تاکہ وہ ہر قدم پر ان کے ناقص اجزا کو چھوڑتے جائیں اور صرف کار آمد حصوں کو لیتے جائیں۔
اس کے ساتھ علومِ اسلامیہ کو بھی قدیم کتابوں سے جوں کا توں نہ لیجیے۔ بلکہ ان میں سے متاخرین کی آمیزشوں کو الگ کرکے اسلام کے دائمی اصول اور حقیقی اعتقادات اور غیر متبدل قوانین لیجیے۔ ان کی اصلی اسپرٹ دلوں میں اتارئیے اور ان کا صحیح تدبر دماغوں میں پیدا کیجیے۔ اس غرض کے لیے آپ کو بنا بنایا نصاب کہیں نہ ملے گا۔ ہر چیز از سر نو بنانا ہو گی۔ قرآن اور سنتِ رسول کی تعلیم سب پر مقدم ہے۔ مگر تفسیر وحدیث کے پرانے ذخیروں سے نہیں، ان کے پڑھانے والے ایسے ہونے چاہییں جو قرآن اور سنت کے مغز کو پا چکے ہوں۔ اسلامی قانون کی تعلیم بھی ضروری ہے مگر یہاں بھی پرانی کتابیں کام نہ دیں گی۔ آپ کو معاشیات کی تعلیم میں اسلامی نظمِ معیشت کے اصول، قانون کے مبادی، فلسفہ کی تعلیم میں حکمت اسلامیہ کے نظریات، تاریخ کی تعلیم میں اسلامی فلسفۂ تاریخ کے حقائق اور اسی طرح ہر علم وفن کی تعلیم میں اسلامی عنصر کو ایک غالب اور حکم ران عنصر کی حیثیت سے داخل کرنا ہو گا۔
آپ کے تعلیمی اسٹاف میں جو ملاحدہ اور متفرنجین بھر گئے ہیں انھیں رخصت کیجیے۔ خوش قسمتی سے ہندوستان میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی پیدا ہو چکی ہے جو علومِ جدیدہ میں بصیرت رکھنے کے ساتھ دل ودماغ اور نظروفکر کے اعتبار سے پورے مسلمان ہیں۔ ان بکھرے ہوئے جواہر کو جمع کیجیے تاکہ وہ جدید آلات سے اسلامی نقشہ پر ایک اسٹیمر بنائیں۔
آپ کہیں گے کہ انگریز ایسی تعمیر کی اجازت نہ دے گا۔ یہ ایک حد تک صحیح ہے۔ مگر آپ اس سے پوچھیے کہ تو پورے مسلمان اور پورے کمیونسٹ میں سے کسے زیادہ پسند کرتا ہے؟ ان دونوں میں سے ایک کو بہرحال تجھے قبول کرنا ہو گا۔ ۱۹۱۰ء میں ’’اینگلو محمڈن‘‘ مسلمان اب زیادہ مدت تک نہیں پایا جا سکتا۔ اب اگر تو مسلمان کی نئی نسلوں کو پورا کمیونسٹ دیکھنا چاہتا ہے، تو اپنی قدیم اسلام دشمنی پر جمارہ، نتیجہ خود تیرے سامنے آ جائے گا۔ اگر یہ منظور نہیں تو نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ تمام ہندوستان میں کمیونزم کی بڑھتی ہوئی وبا کا مقابلہ صحیح النسب سائونڈ ون اور ریڈیو کے دیہاتی پروگرام سے نہیں کیا جا سکتا۔ اس وبا کو صرف ایک طاقت روک سکتی ہے اور وہ اسلام کی طاقت ہے۔
(ترجمان القرآن۔ جمادی الاول ۱۳۵۵ھ۔ اگست ۱۹۳۶ء)

شیئر کریں