اس کا سب سے پہلا ماخذ قرآن مجید ہے۔ اسلام۸۰؎ کی اصطلاح میں ’کتاب‘ سے مراد وہ کتاب ہے جو بندوں کی رہنمائی کے لیے اللہ کی طرف سے رسول پر نازل کی جاتی ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے کتاب گویا اسی پیغام کا سرکاری بیان (official version)یا اسلامی اصطلاح کے مطابق ’الٰہی کلام‘ ہے جسے لوگوں تک پہنچانے‘ جس کی توضیح و تشریح کرنے‘ اور جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پیغمبر دنیا میں بھیجے گئے۔ سُنّتُ اللہ یہ ہے کہ خدا کو پیغمبر کے ذریعے سے جو تعلیم بندوں کو دینی مقصود ہے، وہ اس کے اصول و مہمات مسائل پیغمبر کے دل پر اِلقا کرتا ہے۔ اس ہدایت کے الفاظ اور معانی دونوں میں پیغمبر کی اپنی عقل و فکر‘ ارادے اور خواہش کا ذرہ برابر دخل نہیں ہوتا۔ پیغمبر اس کلام کو ایک امانت دار قاصد کی حیثیت سے خدا کے بندوں تک پہنچا دیتا ہے۔ پھر خدا کے عطا کیے ہوئے علم اور بصیرت سے اس کے معانی و مطالب کی تشریح کرتا ہے‘ انھی الٰہی اصولوں پر اخلاق و معاشرت اور تہذیب و تمدن کا نظام قائم کرتا ہے۔ اپنی تعلیم و تلقین اور اپنی پاکیزہ سیرت سے لوگوں کے خیالات و رجحانات اور افکار میں ایک انقلاب برپا کرتا ہے۔ تقویٰ اور طہارت اور پاکیزگیِ نفس اور حسنِ عمل کی رُوح ان میں پھونکتا ہے۔ اپنی تربیت اور عملی رہنمائی سے ان کو اس طور پر منظم کرتا ہے کہ ان سے ایک نئی سوسائٹی، نئی ذہنیت‘ نئے افکار و خیالات‘ نئے آداب و اطوار اور نئے آئین و قوانین کے ساتھ وجود میں آجاتی ہے‘ پھر وہ ان میں اللہ کی کتاب اور اس کے ساتھ اپنی سنت‘ اپنی تعلیم اور اپنی پاکیزہ سیرت کے آثار چھوڑ جاتا ہے جو ہمیشہ اس جماعت اور اس کے بعد آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ ہدایت کاکام دیتے ہیں۔
قرآن مجید خدا کی نازل کردہ کتب سماوی میں سب سے آخری اور مکمل ترین کتاب ہے۔ مسلمان ایمان تو تمام آسمانی کتب پر رکھتے ہیں لیکن ان کے لیے قانونِ ہدایت اور آئینِ زندگی کی حیثیت صرف قرآن مجید کو حاصل ہے۔ ہمیں اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے، جہاں سے بالفعل اتباع کی سرحد شروع ہوتی ہے‘ وہاں دوسری کتابوں سے تعلق منقطع کرکے صرف قرآن کے ساتھ تعلق استوار کیا گیا ہے اور ہمارے لیے یہی کتاب اصل ماخذِ ہدایت اور حجت (authority) ہے۔ اس کے متعدد وجوہ ہیں:
۱۔ قرآن مجید انھی الفاظ میں محفوظ ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیش کیا تھا۔ اول روز سے سیکڑوں‘ ہزاروں‘ لاکھوں آدمیوں نے ہر زمانے میں اس کو لفظ بہ لفظ یاد کیا ہے۔لاکھوں، کروڑوں آدمیوں نے روزانہ اس کی تلاوت کی ہے‘ ہمیشہ اس کے نسخے ضبطِ کتابت میں لائے جاتے رہے ہیں اور کبھی اس کی عبارت میں ذرہ برابر اختلاف نہیں پایا گیا ہے۔ لہٰذا اس امر میں کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ جو قرآن نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنا گیا تھا وہی آج دنیا میں موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔ اس میں کبھی ایک لفظ کا تغیر و تبدل نہ ہوا ہے‘ نہ ہوسکتا ہے۔
۲۔ وہ عربی زبان میں اترا ہے جو ایک زندہ زبان ہے اور آج تک اس زبان کا فصیح اور معیاری لٹریچر وہی ہے جو نزول قرآن کے وقت تھا۔ اس کے معانی و مطالب معلوم کرنے میں انسان کے لیے وہ دقتیں نہیں ہیں جو مُردہ زبانوں کی کتابوں کو سمجھنے میں پیش آتی ہیں۔
۳۔ وہ سراسر حق‘ اور از اول تا آخر الٰہی تعلیمات سے لبریز ہے۔ اس میں کہیں انسانی جذبات‘ نفسانی خواہشات‘ قومی یا طائفی خود غرضیوں اور جاہلانہ گمراہیوں کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ اس کے اندر کلامِ الٰہی کے ساتھ انسانی کلام کی ذرہ برابر آمیزش نہیں ہوسکی ہے۔
۴۔ وہ ایک جامع کتاب ہے جس کے اندر ان تمام حقائق و معارف اور خیرات و صالحات کو جمع کر دیا گیا ہے جو اس سے پہلے کی آسمانی کتابوں میں بیان کیے گئے تھے۔ ایسی جامع کتاب کی موجودگی میں انسان آپ سے آپ دوسری تمام کتابوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
۵۔ وہ آسمانی ہدایات اور الٰہی تعلیمات کا جدید ترین مجموعہ (latest edition)ہے۔ بعض ہدایات جو پچھلی کتابوں میں مخصوص حالات کے تحت دی گئی تھیں‘ وہ اس میں سے نکال دی گئیں اور بہت سی نئی تعلیمات جو پچھلی کتابوں میں نہ تھیں‘ اس میں اضافہ کر دی گئیں:
مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَۃٍ اَوْ نُنْسِہَا نَاْتِ بِخَيْرٍ مِّنْہَآ اَوْ مِثْلِہَا۰ۭ اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ
البقرہ 106:2
ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں‘ یا بھلا دیتے ہیں اُس کی جگہ اُس سے بہتر لاتے ہیں‘ یا کم از کم ویسی ہی۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔
لہٰذا جو شخص آبائو اجداد کا نہیں بلکہ فی الواقع خدائی ہدایت کا پیرو ہے اس کے لیے لازم ہے کہ اسی آخری اور جدید ایڈیشن کا اتباع کرے نہ کہ پرانے ایڈیشنوں کا۔ حجت اب قرآن ہے‘ اس سے پہلے کی کتب نہیں۔ یہی وجوہ ہیں جن کی بنا پر اسلام نے تمام کتابوں سے اتباع کا تعلق منقطع کرکے صرف قرآن کو متبوع قرار دیا ہے اور تمام دنیا کو دعوت دی ہے کہ وہ اسی ایک کتاب کو اپنا دستور العمل بنائے اور مسلمانوں کے لیے اسی کتاب کو اولین ماخذِ ہدایت قرار دیا:
۱۔ اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰىكَ اللہُ۰ۭ النساء105:4
ہم نے تیری طرف یہ کتاب حق کے ساتھ اتاری ہے تاکہ تو لوگوں کے درمیان اس علمِ حق کے ساتھ فیصلہ کرے جو خدا نے تجھے دیا ہے۔
۲۔ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ۰ۙ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
الاعراف 157:7
پس جو لوگ اس نبی پر ایمان لائے اور جنھوں نے اس کی مدد اور حمایت کی اور اس نور کا اتباع کیا جو اس کے ساتھ اترا ہے‘ وہی فلاح پانے والے ہیں۔
۳۔ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْكٰفِرُوْنَ …… فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ…… فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۔ المائدہ 45-47-44:5
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں…… وہی ظالم ہیں…… وہی فاسق ہیں۔
یہاں۸۱؎ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے حق میں جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں تین حکم ثابت کیے ہیں:
ایک یہ کہ وہ کافر ہیں‘ دوسرے یہ کہ وہ ظالم ہیں‘ تیسرے یہ کہ وہ فاسق ہیں۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو انسان خدا کے حکم اور اس کے نازل کردہ قانون کو چھوڑ کر اپنے یا دوسرے انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین پر فیصلہ کرتا ہے وہ دراصل تین بڑے جرائم کا ارتکاب کرتا ہے:
٭ اولاً: اس کا یہ فعل حکمِ خداوندی کے انکار کا ہم معنی ہے اور یہ کفر ہے۔
٭ ثانیاً: اس کا یہ فعل عدل و انصاف کے خلاف ہے‘ کیونکہ ٹھیک ٹھیک عدل کے مطابق جو حکم ہوسکتا تھا وہ تو خدا نے دے دیا تھا‘ اس لیے جب خدا کے حکم سے ہٹ کر اس نے فیصلہ کیا تو ظلم کیا۔
٭ تیسرے یہ کہ بندہ ہونے کے باوجود جب اس نے اپنے مالک کے قانون سے منحرف ہو کر، اپنا یا کسی دوسرے کا قانون نافذ کیا تو درحقیقت بندگی و اطاعت کے دائرے سے باہر قدم نکالا اوریہی فسق ہے۔
یہ کفر اور ظلم اور فسق اپنی نوعیت کے اعتبار سے لازماً انحراف از حکم خداوندی کی عین حقیقت میں داخل ہیں۔ ممکن نہیں ہے کہ جہاں وہ انحراف موجود ہو‘ وہاں یہ تینوں چیزیں موجود نہ ہوں، البتہ جس طرح انحراف کے درجات و مراتب میں فرق ہے اسی طرح ان تینوں چیزوں کے مراتب میں بھی فرق ہے۔
مسلمانوں۸۲؎ کے لیے اصل سند اور حجت قرآن پاک ہے۔ جو چیز قرآن کے خلاف ہے وہ ہرگز قابلِ اتباع نہیں ہے۔
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِيَاۗءَ۰ۭ الاعراف7:3
جو کچھ تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے اتارا گیا ہے اس کی پیروی کرو اور اس کو چھوڑ کر دوسرے کارسازوں کی پیروی نہ کرو۔
اور قرآن کے احکام اور اس کی تعلیمات میں رد و بدل کا حق کسی کو‘ حتیٰ کہ پیغمبر کو بھی نہیں ہے:
قُلْ مَا يَكُوْنُ لِيْٓ اَنْ اُبَدِّلَہٗ مِنْ تِلْقَاۗئِ نَفْسِيْ۰ۚ اِنْ اَتَّبِـــعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ۰ۚ اِنِّىْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَيْتُ رَبِّيْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍo یونس15:10
اے محمدؐ! کہہ دو کہ میں اس کتاب کو اپنی طرف سے بدلنے کا حق نہیں رکھتا۔ میں تو صرف اسی وحی کا اتباع کرتا ہوں جو میری طرف اتاری جاتی ہے۔ اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔
قرآن مجید۸۳؎ اسلامی تصور ریاست کا سب سے پہلا ماخذ ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے احکام اور فرامین ہیں۔ یہ احکام و فرامین انسان کی پوری زندگی کے معاملات پر حاوی ہیں۔ ان میں صرف انفرادی کردار اور سیرت ہی کے بارے میں ہدایات نہیں دی گئی ہیں، بلکہ اجتماعی زندگی (social life)کے بھی ہر پہلو کی اصلاح و تنظیم کے لیے کچھ اصول اور کچھ قطعی احکام دیے گئے ہیں اور اس سلسلے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسلمان اپنی ریاست کن اصولوں اور کن مقاصد کے لیے قائم کریں۔