امید واثق ہے کہ ایک محقق اور طالب حقیقت کے ذیل کے استفسارات پر ترجمان القرآن کے توسط سے روشنی ڈالتے ہوئے نہ صرف مستفسر کو ہی بلکہ تمام ناظرین کو تشکُّرو امتنان کا موقع دیں گے۔
(۱) قرآن نے مسیح کی نسبت چار وعدے ذکر کیے ہیں۔ چوتھا وعدہ ہے: وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَۃِج آل عمران55:3مسیح کے متبعین اور مسیح کے کافر دونوں کے وجود کا قیامِ قیامت تک پایا جانا اس بات کو مستلزم ہے کہ مسیح کے متبعین مسیح کے اتباع پر قائم رہیں اور اتباع کے لیے مسیح کی ہدایت اور تعلیم کا قائم اور محفوظ رہنا اور پھر قیامت تک محفوظ رہنا ضروری ہے، جس سے لازم آتا ہے کہ مسیح ہی قیامت تک اپنی تعلیم اور ہدایت دائمی کی رُو سے دائمی ہادی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو درمیان میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے وجود کو گھسیڑنےکے کیا معنی؟ دوسرے اسلام کا تخالف پہلی صورت مسلمہ کے منافی معلوم ہوتا ہے۔
(۲) اہل اسلام کے نزدیک اگر مسیح آسمان پر زندہ ہیں اور وہی آنے والے ہیں، پیغمبر اسلام کے ظہور سے پہلے بھی وہی اور بعد میں بھی وہی، تو اس صورت میں درمیان میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے ظہور کا کیا مطلب؟ جبکہ غلبۂ متبعین مسیح کا وعدہ استمرار بلا فصل کے معنوں میں قیامت کے لیے پیش کیا جاچکا ہے۔ (۳)آیت فَاِنْ كُنْتَ فِيْ شَكٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ فَسْــــَٔـلِ الَّذِيْنَ يَقْرَءُوْنَ الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكَ۰ۚ لَقَدْ جَاۗءَكَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ فَلَا تَكُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَo یونس 94:10سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جب خود پیغمبر اسلام بھی قرآن کی وحی کے متعلق شک میں پڑ جاتے تھے تو اس صورت میں شک کو نکالنے کے لیے آپ کو حکم ہوا کہ اہل کتاب سے آپ اپنے شک کو نکلوا لیجیے، جس سے واضح ہے کہ یہ قرآن پیغمبر اسلام کو بھی شک میں ڈالنے والی چیز ہے اور اہل کتاب کی کتاب اور تعلیم ایسی چیز ہے کہ قرآن کے متعلق شک رکھنے والے کو بھی وہی دُور کرتی ہے، تو اس صورت میں بھی اسلام اور پیغمبر اسلام کے ظہور سے اور مسیح کے بعد آنے سے کیا فائدہ ہوا؟ اور قرآن کریم کی نسبت تو یہ ہے، مگر تورات کی نسبت لکھا ہے قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىۃِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo آلعمران 93:3 جس سے ظاہر ہے کہ توراۃ قابل استشہاد ہے اور وہ اس صورت میں کہ محفوظ ہو اور محرف و مبدل نہ ہو۔ اور یہ صورت بھی پہلی صورت پیش کردہ کی موید ثابت ہوتی ہے۔
امید ہے کہ آپ ان ہر سہ سوالات پر جن کا مآلِ معنی واحد ہے، ایمانداری کے ساتھ خوب روشنی ڈالیں گے ورنہ آپ کی خاموشی یا غلط اور ناقابل تسلی جو اب سے کئی مسلمان کہلانے والے معزز اور اہل علم عیسائی ہونے والے ہیں۔ اور سات اشخاص تو عیسائی ہو چکے ہیں۔ شاید آپ ابھی تک بے خبر ہی ہوں۔ حیدر آباد میں اندر ہی اندر آپ کو معلوم ہے کہ کیا ہورہا ہے؟ اور قدرت شاہ خاں مبشر مسیحی کے ٹریکٹ ’’خط بنام مسلمانان حیدر آباد‘‘ نے کیا کچھ تہلکہ مچا دیا ہے کہ کئی خاندانوں کے خاندان عیسائی ہونے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔‘‘ (آپ کا مخلص ایک محقق)
کاتب خط کوئی مسیحی پادری معلوم ہوتے ہیں جنھوں نے مسلمان بن کر سوال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر وہ ایک سچے عیسائی کی طرح سامنے آکر اعتراضات کرتے تو زیادہ بہتر ہوتا اور اس صورت میں بھی ان کے اعتراض کا جواب اسی محبت سے دیا جاتا جس کے ساتھ ایک بھٹکے ہوئے مسلمان کو دیا جاسکتا ہے۔ خیر طریق اعتراض کے انتخاب میں وہ آزاد ہیں۔ ہمارا کام بہرحال ان کے اعتراض کو رفع کرنا اور انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کرنا ہے۔
(۱) سب سے پہلے میں آپ کو اس بڑی اور بنیادی غلطی پر متنبہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں جو نہ صرف آپ نے کی ہے بلکہ مسیحی معترضین بالعموم اس میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں۔ وہ غلطی یہ ہے کہ آپ لوگ جب اسلام اور پیغمبر اسلام کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے آپ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ایک نئے مذہب کا نام ہے جس کا آغاز ساتویں صدی عیسوی میں ہوا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بانی تھے۔ اسی وجہ سے آپ کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اگر توراۃ و انجیل برحق تھی اور موسیٰ و مسیح برحق تھے تو ان کے بعد ’’اسلام‘‘ کیوں آیا اور ’’پیغمبر اسلام‘‘ کے ظہور کی کیا ضرورت لاحق ہوئی۔ لیکن قاعدے کی بات ہے کہ اگر آپ کسی پر گرفت کرنا چاہتے ہوں تو اسے اس دعویٰ پر پکڑیئے جو اس نے خود کیا ہو نہ کہ اس الزام پر جو آپ زبردستی اس کے سرمنڈھ دیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کب کہا تھا کہ میں ایک نئے مذہب کی بنا ڈال رہا ہوں اور میرے اس نو ایجاد مذہب کا نام اسلام ہے؟ وہ تو اس بات کے سرے سے مدعی ہی نہیں ہیں۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ میں اسی مذہب کو لے کر آیا ہوں جسے مجھ سے پہلے عیسیٰ اور موسیٰ اور ابراہیم اور نوح علیہم السلام لے کر آئے تھے اور اس مذہب کا نام ہمیشہ سے اسلام (خدا کی فرمانبرداری) ہی تھا نہ کہ یہودیت یا عیسویت۔ پھر وہ ان گذشتہ پیغمبروں کے بعد اپنے آنے کی وجہ جو بیان کرتے ہیں اس میں بھی کہیں یہ دعویٰ نہیں ہے کہ موسیٰ اور مسیح علیہما السلام کی تعلیمات دنیا سے بالکل مٹ گئی تھیں، یا بالکل مسخ ہوگئی تھیں اس لیے بھیجا گیا ہوں۔ بلکہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ اوّل تو توراۃ و انجیل میں تحریف ہوگئی ہے، دوسرے اس تحریف کے باوجود جو خدائی تعلیمات ان دونوں میں صاف صاف پائی جاتی ہیں ان سے ہٹ کر پیرو ان موسیٰ نے ایک نیا نظام ’’یہودیت‘‘ کے نام سے اور پیروان عیسیٰ نے ایک دوسرا نظام ’’مسیحیت‘‘ کے نام سے بنا لیا ہے، اور ان دونوں مذہبوں میں بہت سی ایسی باتیں بِنائے دین بنالی گئی ہیں جو اس اسلام کے خلاف ہیں جسے موسیٰ اور عیسیٰ لے کر آئے تھے۔ اس لیے ضرورت پیش آئی کہ پھر اسلام کی اصل تعلیم کو اس کی خاص صورت میں آمیزشوں سے چھانٹ کر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے میں بھیجا گیا ہوں۔ یہ ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل دعویٰ۔ اب اگر آپ گرفت کرنا چاہتے ہیں تو اس دعوی پرکیجیے۔ یہ آخر بحث و تحقیق کا کون سا طریقہ ہے کہ ایک شخص کی طرف آپ بطور خود ایک دعویٰ خواہ مخواہ منسوب کرتے ہیں… جس سے وہ بشدت انکاری ہے… اور پھر اس کے دعوے پر نہیں، بلکہ اپنے منسوب کیے ہوئے دعوے پر اعتراضات شروع کر دیتے ہیں۔ اس غلطی کا ارتکاب آج سے نہیں، ایک مدت سے مسیحی علماء کر رہے ہیں اور یہی غلطی ہے جس پر ان کے اکثر و بیشتر اعتراضات کی بنا قائم ہے۔ اگر آپ واقعی ایک محقق ہیں تو میں آپ سے درخواست کروں گا کہ پہلے آپ ٹھنڈے دل سے اس امر کی تحقیق فرمائیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل دعویٰ وہ ہے جو میں بیان کر رہا ہوں یا وہ جو آپ ان کی طرف منسوب کر رہے ہیں؟ پھر اگر ثابت ہو کہ ان کا واقعی دعویٰ وہی ہے جو میں نے عرض کیا ہے تو یہ دیکھیں کہ آیا وہ صحیح ہے یا نہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کا مذہب ’’اسلام‘‘ (خدا کی فرمانبرداری)تھا؟ کیا وہ ازلی و ابدی حقیقتیں جن کو ماننے اور جن کے مطابق اخلاق و اعمال کو ڈھالنے پر انسان کی نجات کا مدار ہے ہمیشہ سے وہی نہیں رہی ہیں جن کی طرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت دی ہے؟ کیا خدا کے ہاں انسان کی نجات کا مدار ابراہیم اور اسحق کے زمانے میں کچھ اور اصولوں پر، موسیٰ اور عیسیٰ کے زمانے میں کچھ دوسرے اصولوں پر اور بعد کے زمانے میں ان سے مختلف اصولوں پر ہوسکتا ہے؟ اگر آپ مانتے ہیں کہ یہ اصول ازلی و ابدی ہیں تو نو ایجاد مذہب یہودیت اور مسیحیت قرار پاتے ہیں یا اسلام؟ یہودیت اور مسیحیت میں تو آپ متعدد ایسی چیزیں پائیں گے جن کو اصول (یعنی مدار نجات) کا مرتبہ دیا گیا ہے حالانکہ وہ ایک خاص نسل یا ایک خاص زمانے تک محدود ہیں۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں آپ قطعاً کوئی چیز ایسی نہیں پاسکتے جو نوع انسانی کی نجات کے عالمگیر ازلی و ابدی اصولوں سے زائد یا ان سے مختلف ہو۔ اس نقطۂ نظر سے آپ دیکھیں گے تو سوال کی نوعیت ہی بدل جائے گی۔ پھر تو سوال یہ نہ ہوگا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیچ میں کہاں آگئے بلکہ یہ ہوگا کہ آدم نوح اور ابراہیم و اسحق کے وقتوں سے جو اصل دین (اسلام) چلا آرہا تھا اس کے سلسلے میں یہ یہودیت اور مسیحیت کہاں آ داخل ہوئیں؟
(۲)آپ نے اپنے پہلے اعتراض میں جو آیت نقل کی ہے اس میں مسیح کا انکار کرنے والوں سے مراد یہودی ہیں اور مسیح کا اتباع کرنے والوں میں نصاریٰ اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ اور اگر اتباع سے مراد اتباع کامل یعنی ٹھیک قدم بقدم چلنا مراد لیا جائے تب تو نصاریٰ اس کے مصداق نہیں رہتے، بلکہ صرف مسلمان ہی اس کے مصداق قرار پاتے ہیں۔ اس لیے کہ نصاریٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم کے اصل الاصول کو چھوڑ دیا اور یہودیوں کے بالمقابل ایک دوسرے طور پر ان کے ساتھ کفر کیا۔ بخلاف اس کے مسلمان اسی تعلیم پر قائم رہے جو حضرت عیسیٰ نے اور ان سے پہلے تمام انبیاء علیہم السلام نے دی تھی۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے جتنے بھی رسول آئے ہیں خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانے میں آئے ہوں، ان سب کی ایک ہی تعلیم تھی، اور وہ یہ تھی کہ خدائے واحد کی بندگی کرو۔ ان میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھ کو خدا مان لو۔
مَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّؤْتِيَہُ اللہُ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّۃَ ثُمَّ يَقُوْلَ لِلنَّاسِ كُوْنُوْا عِبَادًا لِّيْ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَلٰكِنْ كُوْنُوْا رَبّٰـنِيّٖنَ آل عمران79:3
کسی بشر کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا کرے، اور وہ لوگوں سے کہے کہ تم خدا کو چھوڑ کر میرے بندے بن جائو۔ بلکہ وہ تو یہی کہے گا کہ تم خدا پرست بن جائو۔
اسی مقدس گروہ کے ایک فرد حضرت عیسیٰ بھی تھے اور انھوں نے بھی کبھی عبدیت کے مقام سے بال برابر تجاوز کرنے کی کوشش نہیں کی۔
لَنْ يَّسْتَنْكِفَ الْمَسِيْحُ اَنْ يَّكُوْنَ عَبْدًا لِلّٰہِ النساء172:4
مسیح نے کبھی اس کو عار نہ سمجھا کہ وہ اللہ کا ایک بندہ ہو۔
پس نصاریٰ کا عقیدۂ تثلیت اورعیسیٰ علیہ السلام کی طرف الوہیت کی نسبت کرنا اور ان کو خدا کا بیٹا کہنا دراصل حضرت عیسیٰ کی تعلیم کے قطعاً خلاف ہے، اور جو لوگ ایسا عقیدہ رکھتے ہیں۔ وہ آپ کے ساتھ ویسا ہی کفر کرتے ہیں جیسا کہ یہودی کرتے ہیں۔
لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ہُوَالْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ۰ۭ وَقَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اعْبُدُوا اللہَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ۰ۭ ………… لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللہَ ثَالِثُ ثَلٰــثَۃٍ۰ۘ
المائدہ 72-73:5
یقیناً کفر کیا ان لوگوں نے جنھوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے، درانحالیکہ خود مسیح نے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل تم اللہ کی بندگی کرو جو میرا اور تمھارا پروردگار ہے…… یقیناً کفر کیا انھوں نے جنھوں نے کہا کہ اللہ تین میں کا ایک ہے۔
اس لحاظ سے اِتَّبَعُوْکَ کے اصلی مصداق مسلمان اور وہ عیسائی ہیں جو مسیح کو خدا کا بیٹا نہیں بلکہ اس کا رسول مانتے ہیں، ان کی طرف کسی درجے میں الوہیت کو منسوب نہیں کرتے، اور اس عقیدۂ صالحہ کے قائل ہیں،اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللہِ وَكَلِمَتُہٗ۰ۚ اَلْقٰىہَآ اِلٰي مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْہُ۔۱؎ النساء 171:4 اور اِنَّمَا اللہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ۰ۭ سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ يَّكُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ ۔۲؎ النساء:171:4 البتہ اگر اتباع سے مراد اتباع کامل نہ لیا جائے تو اس اعتبار سے مسلمانوں کی طرح عیسائی بھی متبعین مسیح میں داخل ہو جاتے ہیں، اور اللہ کا یہ وعدہ دونوں سے متعلق ہو جاتا ہے کہ ان کو یہودیوں پر غلبہ عطا فرمائے جنھوں نے مسیح کا قطعی اور کلی انکار کیا۔
(۳) مسیح کی، اور صرف انھی کی نہیں بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کی ہدایت اور تعلیم اپنی اصل کے لحاظ سے قائم و محفوظ ہے، اور قیامت تک رہے گی جیسا کہ ابتدا میں عرض کر چکا ہوں، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس تعلیم و ہدایت کو مٹانے نہیں آئے تھے بلکہ اس کو ثابت اور مستحکم کرنے اور ان آمیزشوں سے پاک کرنے آئے تھے جو انسانی خواہشات اور بشری و ساوس کی بدولت اس میں گھل مل گئی تھیں۔ نصاریٰ سے ان کی جنگ اس بات پر نہ تھی کہ وہ مسیح اور ان کی تعلیم و ہدایت کو کیوں مانتے ہیں، بلکہ اس بات پر تھی کہ وہ اس کو کیوں نہیں مانتے۔ انھوں نے بار بار اپنے خدا کی طرف سے فرمایا کہ يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ۔ ۱؎ النساء171:4 اور يٰٓاَہْلَ الْكِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰي شَيْءٍ حَتّٰي تُقِيْمُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ۰ۭ ۔ ۲؎ المائدہ:68:5 اور وَلَوْ اَنَّہُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىۃَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْہِمْ مِّنْ رَّبِّہِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِہِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِہِمْ۰ۭ ۔۳؎ المائدہ66:5 اور وَلْيَحْكُمْ اَہْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فِيْہِ۰ۭ ۔۴؎ المائدہ47:5 مگر جب دیکھا کہ مسیح کے متبعین سرے سے انجیل ہی کھو بیٹھے ہیں اور انجیل کے نام سے مسیح کی چند سوانح عمریاں لیے پھرتے ہیں جن میں مسیح کی تعلیم و ہدایت کا ایک بہت ہی خفیف حصہ اور وہ بھی آمیزشوں سے آلودہ پایا جاتا ہے تو انھوں نے نصاریٰ کے سامنے قرآن پیش کیا، اور کہا کہ جو کچھ تم نے کھو دیا تھا، وہ پہلے سے بھی زیادہ مکمل صورت میں پھر تمھارے پاس آگیا ہے۔ یہ وہی تعلیم ہے جو مسیح نے دی اور ان سے پہلے موسیٰ اور ابراہیم اور نوح دے چکے ہیں، تم نے اور تم سے پہلے کی امتوں نے اس ہدایت کو باربار گم کیا، مگر اب یہ ہدایت تم کو ایسی مستحکم صورت میں دی جاتی ہے کہ قیامت تک اس کو کوئی گم نہ کر سکے گا۔ پس درحقیقت متی اور مرقس اور لوقا اور یوحنا کی کتابوں میں نہیں بلکہ قرآن میں مسیح کی اصلی تعلیم قائم اور محفوظ ہے اور وہی ان شاء اللہ قیامت تک محفوظ رہے گی۔
(۴) آپ کا یہ قول بھی محل نظر ہے کہ آیت زیر بحث سے لازم آتا ہے کہ ’’مسیح ہی قیامت تک اپنی تعلیم اور ہدایت دائمی کی رُو سے دائمی ہادی ہے۔‘‘ یہ مفہوم آپ کے تخیل کا پیدا کردہ ہے۔ آیت کے الفاظ اس پر دلالت نہیں کرتے۔ وہاں تو صرف اس قدر کہا گیا ہے کہ جو تیرا انکار کرتے ہیں، ان پر ہم تیرا اتباع کرنے والوں کو قیامت تک غالب رکھیں گے۔ ان الفاظ سے یہ معنی کیوں کر نکالے جاسکتے ہیں کہ اب تو ہی دائمی ہادی ہے اور تیرے بعد یہی ہدایت پیش کرنے کے لیے کوئی اور نبی نہ بھیجا جائے گا۔ افسوس کہ آیات کتاب میں لفظی و معنوی تحریفات کرنے کی پرانی عادت ہمارے مسیحی بھائیوں میں سے ابھی تک نہیں گئی۔
(۵) مسیح کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا مطلب آپ ہم سے پوچھنے کے بجائے خود مسیح علیہ السلام سے پوچھیے۔ جن کا یہ ارشاد تمام تحریفات کے باوجود کتاب یوحنا میں اب تک موجود ہے:
’’لیکن میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمھارے لیے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو وہ مددگار (تسلی دہندہ، یا وکیل یا شفیع) تمھارے پاس نہ آئے۔ لیکن اگر جائوں گا تو اسے تمھارے پاس بھیج دوں گا اور وہ آکر دنیا کو گناہ اور راست بازی اور عدالت کے بارے میں قصور وار ٹھیراے گا۔‘‘(یوحنا ۱۶:۷۔۸)
اور یہ کہ:
’’لیکن جب وہ مددگار آئے گا جس کو میں تمھارے پاس باپ کی طرف سے بھیجوں گا، یعنی سچائی کی روح جو باپ کی طرف سے نکلتی ہے، تو وہ میری گواہی دے گا۔‘‘(یوحنا۱۵:۲۶)
اور یہ کہ:
’’لیکن مددگار یعنی سچائی کی روح جسے باپ میرے نام سے بھیجے وہی تمھیں سب باتیں سکھائے گا۔ اور جو کچھ میں نے تم سے کہا ہے وہ سب تمھیں یاد دلائے گا۔‘‘(یوحنا۱۴:۲۶)
اور یہ کہ:
’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔‘‘ (یوحنا۱۴:۳۰)
اور یہ کہ:
’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کو برداشت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب وہ سچائی کا رُوح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اس لیے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمھیں آیندہ کی خبریں دے گا۔‘‘ (یوحنا۱۶:۱۲۔۱۳)
مسیح کے ان ارشادات سے آپ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کا مطلب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ غلبۂ متبعین مسیح کا وعدہ، جو آپ کے نزدیک ’’استمرار بلا فصل‘‘ کے معنوں میں قیامت تک کے لیے پیش کیا گیا ہے آنحضرت کے ظہور سے ٹوٹتا نہیں، اور زیادہ مستحکم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ آپ نے آکر مسیح کی گواہی دی اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللہِ النسائ171:4 اور وَجِيْہًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِيْنَo آل عمران45:3 اور اس بہتان عظیم پر یہودیوں کو توبیخ کی جو وہ مسیح اور اس کی ماں پر رکھتے تھے۔ وَّبِكُفْرِہِمْ وَقَوْلِـہِمْ عَلٰي مَرْيَمَ بُہْتَانًا عَظِيْمًاo النساء4:156 اور وہ سب باتیں مسیحیوں کو یاد دلائیں جو مسیح نے ان سے کہی تھیں وَلْيَحْكُمْ اَہْلُ الْاِنْجِيْلِ بِمَآ اَنْزَلَ اللہُ فِيْہِ۰ۭالمائدہ47:5مسیح اسی لیے گئے تھے کہ اس دوسرے آنے والے کے لیے جگہ خالی کر دیں جو ان کے بعد آکر اس کام کو پورا کرنے والا تھا جسے وہ نامکمل چھوڑ گئے تھے۔
(۶) آیت اِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍ الخ…….. میں اگرچہ خطاب بظاہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف معلوم ہوتا ہے، مگر دراصل ہر وہ شخص اس کا مخاطب ہے جو قرآن پڑھے۔ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اے ناظر یا سامع اگر تجھے قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں شک ہے تو جن لوگوں کے پاس قرآن سے پہلے آئی ہوئی کتابیں موجود ہیں ان سے دریافت کرلے، ان کی گواہی سے تجھ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ کتاب خدا ہی کی طرف سے ہے۔ یہ اشارہ ہے ان پیشگوئیوں کی طرف جو انبیائے سابقین کی کتابوں میں نبی عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے متعلق موجود ہیں۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً:
اَلَّذِيْنَ اٰتَيْنٰھُمُ الْكِتٰبَ يَعْرِفُوْنَہٗ كَـمَا يَعْرِفُوْنَ اَبْنَاۗءَھُمْ۰ۭ وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنْہُمْ لَيَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَھُمْ يَعْلَمُوْنَo البقرہ146:2
جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو ایسا پہچانتے ہیں۔ جیسا کہ وہ خود اپنی اولاد کوپہچانتے ہیں۔ مگر ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے سچی بات کو چھپاتا ہے۔
وَالَّذِيْنَ اٰتَيْنٰہُمُ الْكِتٰبَ يَعْلَمُوْنَ اَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ انعام115:6
اور جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ قرآن درحقیقت تیرے پروردگار کی طرف سے اُترا ہوا ہے۔
قرآن نے اپنی صداقت پر منجملہ بہت سی شہادتوں کے ایک شہادت انبیائے سابقین کی کتابوں سے بھی پیش کی ہے اور اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بلکہ بالخصوص ان لوگوں کو مطمئن کرنا مقصود ہے جو انبیائے سابقین کی کتابوں کو تو مانتے ہیں مگر قرآن کی صداقت میں شک کرتے ہیں۔ اس لیے کہ کتب سابقہ کی گواہی انھیں کے لیے معتبر ہوسکتی ہے۔ اس طلب شہادت میں کوئی بات ایسی نہیں جس سے یہ مطلب نکالا جاسکتا ہو کہ قرآن شک میں ڈالنے والی چیز ہے۔ بات کو اس کے صاف اور واضح مفہوم سے پھیر کر پیچیدہ مطالب نکالنے کی کوشش کرنا کسی طالب حق کاکام نہیں۔ ان طریقوں کو ایسے لوگوں کے لیے چھوڑ دیجیے جو نزاع و جدال کی الجھنوں میں اپنا وقت ضائع کرنا چاہتے ہوں۔
(۷) قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىۃِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo آل عمران93:3 سے پہلے ایک اور فقرہ تھا جس کو آپ نے دانستہ یا نادانستہ چھوڑ دیا۔ پوری آیت یہ ہے:
كُلُّ الطَّعَامِ كَانَ حِلًّا لِّبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِلَّا مَا حَرَّمَ اِسْرَاۗءِيْلُ عَلٰي نَفْسِہٖ مِنْ قَبْلِ اَنْ تُنَزَّلَ التَّوْرٰىۃُ۰ۭ قُلْ فَاْتُوْا بِالتَّوْرٰىۃِ فَاتْلُوْھَآ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَo آل عمران93:3
تمام کھانے بنی اسرائیل کے لیے حلال تھے بجز ان کے جنھیں اسرائیل نے توراۃ کے نزول سے پہلے اپنے لیے حرام کرلیا تھا۔ اے محمد کہو کہ توراۃ لے آئو اور اس کو پڑھو اگر تم سچے ہو۔
اس آیت میں یہود کو یہ الزام دیا گیا ہے تم توراۃ کے احکام کو چھپاتے ہو۔ اور یہ الزام ایک جگہ نہیں متعدد مقامات پر دیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ مائدہ میں ہے:
وَكَيْفَ يُحَكِّمُوْنَكَ وَعِنْدَہُمُ التَّوْرٰىۃُ فِيْہَا حُكْمُ اللہِ ثُمَّ يَتَوَلَّوْنَ مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ۰ۭ وَمَآ اُولٰۗىِٕكَ بِالْمُؤْمِنِيْنَo المائدہ43:5
وہ تجھ کو اپنے معاملے میں کیسے حکم بنائیں جبکہ خود ان کے پاس توراۃ موجود ہے جس میں اللہ کا حکم ہے اور پھر وہ اس سے روگردانی کرتے ہیں وہ دراصل توراۃ پر ایمان ہی نہیں رکھتے۔
قرآن میں یہودیوں کے دو جرم بتائے گئے ہیں۔ ایک جرم یہ ہے کہ وہ کتاب میں تحریف کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ تحریفات کے باوجود جو کچھ کتاب میں سچی خدائی تعلیم باقی ہے اس کو بھی اپنی خواہشات نفس کے اتباع میں چھپاتے اور اس کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ یہاں اگر توراۃ سے استشہاد ہے تو وہ یہودیوں کے جرم پر ہے اس سے آپ کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں؟ (ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ ۱۳۵۴ھ ۔ اگست ۱۹۳۵ئ )