Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
ایک غلط فہمی کا ازالہ
پچھلی تاریخ کا جائزہ
ہماری غلامی کے اسباب
دینی حالت
اخلاقی حالت
ذہنی حالت
مغربی تہذیب کی بنیادیں
مذہب
فلسفۂ حیات
ہیگل کا فلسفۂ تاریخ
ڈارون کا نظریۂ ارتقا
مارکس کی مادی تعبیرِ تاریخ
اَخلاق
سیاست
فاتح تہذیب کے اثرات
تعلیم کا اثر
معاشی نظام کا اثر
قانون کا اثر
اخلاق ومعاشرت کا اثر
سیاسی نظام کا اثر
ہمارا ردِّعمل
انفعالی ردِّ عمل
جمودی ردِّ عمل
ہم کیا چاہتے ہیں؟
یَک سُوئی کی ضرورت
ہمارا لائحۂ عمل

مسلمانوں کا ماضی و حال اور مستقبل

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ

لیکن اس پروگرام کو بیان کرنے سے پہلے میں ایک غلط فہمی کو رفع کر دینا چاہتا ہوں جو اس سلسلے میں پیدا ہو سکتی ہے۔ اگر میں موجود الوقت خرابیوں کو اور ان کے موجودہ اسباب کو بیان کرنے کے بعد اپنا پروگرام پیش کروں اور اس کے ذریعے سے آپ کو اصلاح کی امید دلائوں، تو اس سے آپ یہ گمان نہ کریں کہ یہ لوگ شاید کچھ اسی قسم کی وقتی خرابیوں کی اصلاح کے لیے جمع ہوئے ہوں گے اور پرانی عمارتوں میں ایسی ہی کچھ مرمتیں کرتے رہنا ان کا مقصد ہو گا ایسا گمان آپ کریں گے تو وہ حقیقت سے بعید ہو گا۔ واقعہ یہ ہے کہ ہم اپنا ایک مستقل اور عالم گیر مقصد رکھتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ:
’’ہر اس نظام زندگی کو مٹایا جائے جس کی بنیاد خدا سے خود مختاری اور آخرت سے بے پروائی اور انبیا علیہم السلام کی ہدایت سے بے نیازی پر ہو۔ کیوں کہ وہ انسانیت کے لیے تباہ کن ہے اور اس کی جگہ وہ نظامِ زندگی عملاً قائم کیا جائے جو خدا کی اطاعت، آخرت کے یقین اور انبیا کے اتباع پر مبنی ہو، کیوں کہ اسی میں انسانیت کی فلاح ہے۔‘‘
ہماری تمام مساعی کا اصل مقصود یہی ہے اور ہمارا ہر پروگرام خواہ وہ کسی محدود وقت اور مقام ہی کے لیے کیوں نہ ہو، اسی راہ کے کسی نہ کسی مرحلے کو طے کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ ہم سب سے پہلے یہ انقلاب خود اپنے وطن پاکستان میں لانا چاہتے ہیں تاکہ پھر یہی ملک دنیا کی اصلاح کا ذریعہ بنے اور پاکستان کی موجودہ خرابیوں سے اگر ہم بحث کرتے ہیں تو صرف اس لیے کہ یہ اس مقصد کی راہ میں حائل ہیں۔ لہٰذا آپ یہ گمان نہ کریں کہ ہمارے لیے ان خرابیوں کی اصلاح بجائے خود کوئی مقصد ہے،یا یہ کہ ہم ایک بگڑے ہوئے نظام کی محض مرمت کر دینے پر اکتفا کرنا چاہتے ہیں۔ نہیں، میں کہتا ہوں کہ اگر یہ خرابیاں موجود نہ ہوتیں، تب بھی ہم اپنے اسی مقصد کے لیے کام کرتے جس کو اوّل روز سے ہم نے اپنے سامنے رکھا ہے۔ ہمارا وہ مقصد ایک دائمی اور ابدی اور عالم گیر مقصد ہے اور ہر حالت میں ہمیں اس کے لیے کام کرنا ہے، خواہ کسی گوشۂ زمین میں وقتی طور پر ایک نوعیت کے مسائل درپیش ہوں یا دوسری نوعیت کے۔

شیئر کریں