Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی قانون
قانون اور نظامِ زندگی کا باہمی تعلق
نظامِ زندگی کی فکری اور اخلاقی بنیادیں
اسلامی نظامِ زندگی کا ماخذ
اسلام کا نظریۂ زندگی
حق کا بنیادی تصور
’’اسلام‘‘ اور ’’مسلم‘‘ کے معنی
مسلم سوسائٹی کی حقیقت
شریعت کا مقصد اور اُس کے اُصول
شریعت کی ہمہ گیری
نظامِ شریعت کا ناقابل تقسیم ہونا
شریعت کا قانونی حصہ
اسلامی قانون کے اہم شعبے
اسلامی قانون کا استقلال اور اس کی ترقی پذیری
اعتراضات اور جوابات
پاکستان میں اسلامی قانون کا نفاذ کس طرح ہوسکتا ہے؟
فوری انقلاب نہ ممکن ہے نہ مطلوب
تدریج کا اصول
عہدِ نبوی کی مثال
انگریزی دَور کی مثال
تدریج ناگزیر ہے
ایک غلط بہانہ
صحیح ترتیب کار
خاتمۂ کلام

اسلامی قانون

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ایک غلط بہانہ

لیکن تدریج کے اس معقول اور بجائے خود بالکل صحیح اصول کو بہانہ بنا کر جو لوگ اس بات کے حق میں استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سردست تو یہاں ایک غیر دینی … بلکہ زیادہ صحیح الفاظ میں ایک بے دین… ریاست ہی قائم ہونی چاہیے، پھر جب اسلامی ماحول تیار ہو جائے تو وہ اسلامی ریاست بھی قائم ہو جائے گی جو اسلامی قانون جاری کرسکے، وہ سراسر ایک نامعقول بات کہتے ہیں۔ مَیں ان سے پوچھتا ہوں کہ یہ ماحول تیار کون کرے گا؟ کیا ایک بے دین ریاست، جس کی باگیں فرنگیت زدہ حکام اور لیڈروں کے ہاتھ میں ہوں؟ کیا وہ معمار جو صرف میخانہ و جم خانہ ہی کی تعمیر جانتے اور اسی سے دلچسپی بھی رکھتے ہیں ایک مسجد تعمیر کرنے کا سامان کریں گے؟ اگر ان لوگوں کا یہی مطلب ہے تو انسانی تاریخ میں یہ پہلا اور بالکل نرالا تجربہ ہوگا کہ بے دینی خود دین کو پروان چڑھا کر اپنی جگہ لینے کے لیے تیار کرے گی اور اگر ان کا مطلب کچھ اور ہے تو وہ ذرا اس کی صاف صاف توضیح فرمائیں کہ اسلامی ماحول کی تیاری کاکام کون، کس طاقت اور کن ذرائع سے کرے گا اور اس دوران میں بے دین ریاست اپنے ذرائع اور اقتدار کو کس چیز کی تعمیر و ترقی میں صرف کرتی رہے گی؟
ابھی ابھی تدریج کا اصول ثابت کرنے کے لیے جو مثالیں میںنے پیش کی ہیں انہیں اگر آپ ایک مرتبہ پھر اپنے ذہن میں تازہ کرلیں تو آپ یہ بات اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ اسلامی نظامِ زندگی کی تعمیر ہو یا غیر اسلامی نظام زندگی کی، اگرچہ وہ ہوتی تو بتدریج ہی ہے لیکن تدریجاً اس کی تعمیر صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ ایک معمار طاقت، اپنے سامنے ایک مقصد اور ایک نقشہ رکھ کر مسلسل اس کے لیے کام کرے۔ صدرِ اوّل میں جو اسلامی انقلاب ہوا تھا اسی طرح ہوا تھا کہ نبیa نے برسوں اس کے لیے موزوں آدمی تیار کیے، تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ سے لوگوں کے خیالات بدلے، حکومت کے پورے نظم و نسق کو معاشرے کی اصلاح اور ایک نئے تمدن کی تخلیق کے لیے استعمال کیا، اور اس طرح وہ ماحول بنا جس میں اسلامی قانون جاری ہوسکا۔ ماضی قریب میں انگریزوں نے ہندوستان کے نظام زندگی میں جو تغیرات کیے وہ بھی تو اسی طرح ہوئے کہ زمام کار ایسے لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو اس تغیر کے خواہشمند تھے اور اس کے لیے کام کرنا جانتے تھے۔ انہوں نے ایک مقصد اور ایک نقشے کو نگاہ میں رکھ کر پیہم اس تغیر کے لیے کوشش کی اور آخر کار یہاں کے پورے نظام زندگی کو اس سانچے میں ڈھال کر ہی چھوڑا جو ان کے اصول و قوانین سے مناسبت رکھتا تھا۔ پھر کیا اب ہماری پیش نظر تعمیر اس معمار طاقت کے بغیر ہو جائے گی، یا ایسے معماروں کے ہاتھوں ہوسکے گی جو اس نقشے پر تعمیر کاکام نہ جانتے ہوں اور نہ چاہتے ہوں۔

شیئر کریں