Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
پہلا خط
میراث کے متعلق قرآن و سنّت کے اصولی احکام
قائم مقامی کے اصول کی غلطی
ایک اور غلط تجویز
دوسرا خط
مصنف کا جواب

یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ایک اور غلط تجویز

حال میں بعض لوگوں نے وراثت کے متعلق اپنی تجویز اس طرح مرتّب کی ہے:
’’مورث کا کوئی ایسا نسبی رشتہ دار جو اس کے ترکے میں سے اس کی وفات کے بعد حصّہ پاتا، لیکن جو مورث کی وفات سے پہلے ہی فوت ہو گیا ہو، اس کی جگہ اس کا قریب ترین نسبی رشتہ دار لے لے گا اور مورث کی وفات کے وقت وہی حصّہ پائے گا جو اس فوت شدہ کو ملتا۔ اگر وہ متعدد ہیں تو وہ حصّہ ان میں قرآنی قانونِ وراثت کے مطابق تقسیم کر دیا جائے گا۔‘‘
اس تجویز میں دو مرحلے پر ’’نسبی رشتہ دار‘‘ کی قید لگائی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں مورث کے وفات یافتہ ممکن وارثوں میں سے صرف اس کے نسبی رشتہ داروں کو حصّہ پانے کے لیے منتخب کر لیا جاتا ہے اور دوسروں کو یونہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ان مردہ حصّہ داروں کے بھی صرف نسبی رشتہ داروں کو میراث پانے کے لیے چھانٹ لیا جاتا ہے اور باقیوں کو محروم کر دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دو دو مرحلوں پر ’’نسبی رشتہ دار‘‘ کی یہ قید قرآن کے کس حکم سے اخذ کی گئی ہے؟ اگر قرآن واقعی یہ اجازت دیتا ہے کہ ایک شخص کے جو ممکن وارث اس کی زندگی میں مر چکے ہوں، انھیں اس کی وفات کے بعد میراث وصول کرنے کی خاطر قانونی زندگی عطا کی جائے تو پھر یہ انعام سارے ممکن وارثوں پر عام ہونا چاہیے۔ ان میں سے صرف نسبی رشتہ داروں کو چھانٹ لینے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔ پھر ان نسبی رشتہ داروں کو بھی قانونی زندگی عطا کرکے آپ ان کے صرف نسبی رشتہ داروں کو وراثت دیتے ہیں اور دوسرے حق داروں کو محروم الارث کر دیتے ہیں۔ کیا آپ قرآن سے یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ایک شخص اگر مورث کی وفات کے وقت قانونی مفروضے کے طور پر نہیں بلکہ واقعی زندہ ہوتا اور مورث کی وراثت میں سے حصّہ پانے کے بعد مرتا تو اس کے صرف نسبی رشتہ دار ہی اس کی میراث پاتے؟
اچھا تھوڑی دیر کے لیے ان اصولی اعتراضات کو بھی جانے دیجیے۔ اس تجویز میں ’’نسبی رشتہ دار‘‘ سے ماں باپ تو خارج نہ ہوں گے۔ فرض کیجیے کہ ایک شخص کی زندگی میں اس کے باپ کا انتقال ہو جاتا ہے۔ باپ کی ایک دوسری بیوی بھی تھی جس سے اولاد موجود ہے اور باپ کی اس بیوی سے بھی اولاد ہے جس کے بطن سے یہ شخص پیدا ہوا ہے اس شخص کے اپنے بیٹے بیٹیاں بھی موجود ہیں۔ اب اس شخص کا انتقال ہوتا ہے۔ آپ اپنے قاعدے کے مطابق اس کے فوت شدہ باپ کا حصّہ نکالنے پر مجبور ہیں اور وہ کل میراث کا ۶۔۱ وصول کر لیتا ہے۔ پھر اس حصّے کو آپ اس کے نسبی رشتہ داروں میں تقسیم کرتے ہیں یعنی اس کے وہ سب بیٹے بیٹیاں جو اس کی دونوں بیویوں کے بطن سے پیدا ہوئے تھے اور اس کے وہ پوتے اور پوتیاں اور نواسے نواسیاں بھی جن کے ماں باپ اس کی زندگی میں مر چکے تھے۔ اس طرح میت کی اولاد کے ساتھ اس کے سگے اور سوتیلے بھائی بہن ہی نہیں بلکہ بھتیجے اور بھانجے تک بھی ترکے میں حصّہ دار بن جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ صریح احکامِ قرآن کے خلاف ہے۔ قرآن کی رُو سے جس شخص کی اولاد موجود ہو، اس کے سگے اور سوتیلے بھائیوں کو میراث کا کوئی حصّہ نہیں پہنچتا اور نہ اس کے مرے ہوئے بھائی بہنوں کی اولاد کوئی حصّہ پانے کی حق دار ہے، مگر آپ نے اس کے فوت شدہ باپ کو حصّہ دار قرار دے کر اس کی زندہ اولاد کی حق تلفی کر دی۔
یہ صرف ایک مثال ہے۔ ایسی اور بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جن سے معلوم ہو گا کہ مرے ہوئے باپ، ماں، دادا، دادی، نانی وغیرہ کو جو سب ’’نسبی رشتہ دار‘‘ کی تعریف میں آتے ہیں۔ قانونی طور پر زندہ وارثوں کی طرح میراث کا حق دار قرار دینے اور پھر ان کے نسبی رشتہ داروں میں یہ حصّہ تقسیم کرنے سے کیا پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔
اس مختصر بحث سے میں صرف یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ علماے اسلام کے متفق علیہ قانونِ میراث میں آج جو ترمیمات تجویز کی جا رہی ہیں، ان کی علمی و عقلی حیثیت کیا ہے۔ باقی رہا یہ سوال کہ یتیم بچوں کے معاملے میں پیچیدگی پیدا ہونے کا اصل سبب کیا ہے اور اس کا حل کیسے ہو، تو اس کا جواب بھی کچھ ایسا مشکل نہیں ہے۔ اہلِ علم کے مشورے سے ایسی صورتیں تلاش کی جا سکتی ہیں، جن کی اصولِ شریعت کے اندر گنجایش بھی ہے اور جن سے یہ مسئلہ بھی مجوزہ ترمیمات کی بہ نسبت زیادہ بہتر طریقے سے حل ہو سکتا ہے۔

شیئر کریں