Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام کا نظریۂ سیاسی
تمام اِسلامی نظریات کی اساس
انبیا علیہم السلا م کا مشن
الٰہ کے معنی
رَبّ کا مفہوم
فتنے کی جڑ
انبیاؑ کا اصل اصلاحی کام
نظریّۂ سیاسی کے اوّلیں اُصُول
اِسلامی اسٹیٹ کی نوعیت
ایک اعتراض
حُدودُ اللّٰہ کا مقصد
اِسلامی اسٹیٹ کا مقصد
ایجابی اسٹیٹ
جماعتی اور اُصولی اسٹیٹ
نظریہ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
اِسلامی جمہوریت کی حیثیت
انفرادیت اور اجتماعیت کا توازن
اِسلامی اسٹیٹ کی ہیئتِ ترکیبی

اسلام کا نظریۂ سیاسی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ایک اعتراض

آگے بڑھنے سے پہلے مَیں اس امر کی تھوڑی سی تشریح کر دینا چاہتا ہوں کہ اِسلام میں ڈیمو کریسی پر یہ حُدُود و قُیُود کیوں عائِد کیے گئے ہیں اور ان حدود و قیود کی نوعیت کیا ہے؟ اعتراض کرنے والا اعتراض کر سکتا ہے کہ اس طرح تو خدا نے انسانی عقل و رُوح کی آزادی سلب کر لی، حالانکہ ابھی تم یہ ثابت کر رہے تھے کہ خدا کی الٰہیت انسان کو عقل و فکر اور جسم و جان کی آزادی عطا کرتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قانون سازی کا اختیار اللّٰہ نے اپنے ہاتھ میں انسان کی فطری آزادی سلب کرنے کے لیے نہیں بلکہ اسے محفوظ کرنے کے لیے لیا ہے۔ اس کا مقصد انسان کو بے راہ ہونے اور اپنے پائوں پر آپ کلہاڑی مارنے سے بچانا ہے۔
یہ مغرب کی نام نہاد ڈیمو کریسی، جس کے متعلق یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ اس میں عمومی حاکمیت (Popular Sovereignty) ہوتی ہے، اس کا ذرا تجزیہ کرکے دیکھیے۔ جن لوگوں سے مل کر کوئی اسٹیٹ بنتا ہے وُہ سب کے سب نہ تو خود قانُون بناتے ہیں اور نہ خود اسے نافذ کرتے ہیں۔ انھیں اپنی حاکمیت چند مخصوص لوگوں کے سپرد کرنا پڑتی ہے تاکہ ان کی طرف سے وُہ قانون بنائیں اور اسے نافذ کریں۔ اسی غرض سے انتخاب کا ایک نظام مقرر کیا جاتا ہے لیکن اس انتخاب میں زیادہ تر وُہ لوگ کام یاب ہوتے ہیں جو عوام کو اپنی دولت، اپنے علم، اپنی چالاکی اور اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے زور سے بے وقوف بنا سکتے ہیں۔ پھر یہ خود عوام کے ووٹ ہی سے ان کے الٰہ بن جاتے ہیں۔ عوام کے فائدے کے لیے نہیں بلکہ اپنے شخصی اور طبقاتی فائدے کے لیے قوانین بناتے ہیں اور اسی طاقت سے جو عوام نے انھیں دی ہے۔ ان قوانین کو عوام پر نافذ کرتے ہیں۔ یہی مصیبت امریکا میں ہے۔ یہی انگلستان میں ہے اور یہی ان سب ممالک میں ہے جنھیں جمہوریت کی جنت ہونے کا دعوٰی ہے۔
پھر اس پہلو کو نظر انداز کرکے اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ وہاں عام لوگوں ہی کی مرضی سے قانون بنتے ہیں تب بھی تجربہ سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عام لوگ خود بھی اپنے مفاد کو نہیں سمجھ سکتے۔ انسان کی یہ فطری کم زوری ہے کہ یہ اپنی زندگی کے اکثر معاملات میں حقیقت کے بعض پہلوئوں کو دیکھتا ہے اور بعض کو نہیں دیکھتا۔ اس کا فیصلہ (Judgment) عمومًا یک طرفہ ہوتا ہے اس پر جذبات اور خواہشات کا اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ خالص عقلی اور علمی حیثیت سے بے لاگ رائے بہت کم قائم کر سکتا ہے۔ بعض اوقات عقلی اور علمی حیثیت سے جو بات اس پر روشن ہو جاتی ہے اسے بھی یہ جذبات و خواہشات کے مقابلہ میں رَد کر دیتا ہے۔ اس کے ثبوت میں بہت سی مثالیں میرے سامنے ہیں۔ مگر طوالت سے بچنے کے لیے مَیں صرف امریکا کے قانون منع شراب (Prohibition Law) کی مثال پیش کروں گا۔ علمی اور عقلی حیثیت سے یہ بات ثابت ہو چکی تھی کہ شراب صحت کے لیے مُضر ہے، عقلی و ذہنی قوتوں پر بُرا اثر ڈالتی ہے اور انسانی تمدن میں فساد پیدا کرتی ہے۔ انھی حقائق کو تسلیم کرکے امریکا کی رائے عام اس بات کے لیے راضی ہوئی تھی کہ منع شراب کا قانون پاس کیا جائے۔ چنانچہ عوام کے ووٹ ہی سے یہ قانون پاس ہوا تھا۔(یہ قانون ۱۹۱۸؁ء میں امریکی کانگریس نے پاس کیا تھا۔ ) مگر جب وُہ نافذ کیا گیا تو انھی عوام نے ’’جن کے ووٹ سے وُہ پاس ہوا تھا‘‘ اس کے خلاف بغاوت کی۔ بد سے بدتر قسم کی شراب ناجائز طور پر بنائی اور پی گئی، پہلے سے کئی گناہ زیادہ شراب کا استعمال ہوا۔ جرائم میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا۔ آخر کار انھی عوام کے ووٹوں سے وُہ شراب ’’جو حرام کی گئی تھی‘‘ حلال کر دی گئی۔(یہ تنسیخ دسمبر ۱۹۳۳ء؁ میں واقع ہوئی۔ ) یہ حرمت کا فتوٰی حِلّت سے بدلا گیا۔ اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ علمی و عقلی حیثیت سے اب شراب کا استعمال مفید ثابت ہو گیا تھا بلکہ صرف یہ وجہ تھی کہ عوام اپنی جاہلانہ خواہشات کے بندے بنے ہوئے تھے، انھوں نے اپنی حاکمیت اپنے نفس کے شیطان کی طرف منتقل کر دی تھی، اپنی خواہش کو اپنا الٰہ بنا لیا تھا اور اس الٰہ کی بندگی میں وُہ اس قانون کو بدلنے پر مُصر تھے جسے اُنھوں نے خود ہی علمی اور عقلی حیثیت سے صحیح تسلیم کرکے پاس کیا تھا۔ اس قسم کے اور بہت سے تجربات ہیں۔ جن سے یہ بات روشن ہو جاتی ہے کہ انسان خود اپنا واضح قانون (Legislature) بننے کی پوری اہلیت نہیں رکھتا۔ اگر اسے دوسرے الٰہوں کی بندگی سے رہائی مل بھی جائے تو وُہ اپنی جاہلانہ خواہشات کا بندہ بن جائے گا۔ اپنے نفس کے شیطان کو الٰہ بنا لے گا۔ لہٰذا وُہ اس کا محتاج ہے کہ اس کی آزادی پر خود اس کے اپنے مفاد میں مناسب حدیں لگا دی جائیں۔
اسی وجہ سے اللّٰہ تعالیٰ نے وُہ قیود عائد کی ہیں جنھیں اِسلام کی اصطلاح میں ’’حدُودُ اللّٰہ‘‘ (Devine Laws) کہا جاتا ہے۔ یہ حدود زندگی کے ہر شعبہ میں چند اُصول، چند ضوابط اور چند قطعی احکام پر مشتمل ہیں جو اس شعبہ کے اعتدال و توازن کو برقرار رکھنے کے لیے لگائی گئی ہیں۔ ان کا منشا یہ ہے کہ یہ تمھاری آزادی کی آخری حدیں ہیں۔ ان کے اندر رَہ کر تم اپنے برتائو کے لیے ضمنی اور فروعی قاعدے (Regulations) بنا سکتے ہو۔ مگر ان حدود سے تجاوز کرنے کی تمھیں اجازت نہیں ہے۔ ان سے تجاوز کرو گے تو تمھاری اپنی زندگی کا نظام فاسد و مختل ہو جائے گا۔

شیئر کریں