اب مجھے اپنے خطبے کے بنیادی سوالات میں سے آخری سوال پر کچھ گفتگو کرنی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آدمی جب قرآن کے اس دعوے کوتسلیم کر لے اور اُس ’’الدین‘‘پر ایمان لے آئے جس کے من جانب اللّٰہ ہونے کا اطمینان اُسے حاصل ہو گیا ہو، تو اس تسلیم کرنے اور ایمان لانے کے مقتضیات کیا ہیں۔
مَیں ابتدا میں عرض کر چکا ہوں کہ اِسلام کے معنی جھک جانے، سپر ڈال دینے، اپنے آپ کو سپرد کر دینے کے ہیں۔ اس جھکائو، سپردگی اور سپر اندازی کے ساتھ خودرائی، خود مختاری اور فکر وعمل کی آزادی ہرگز نہیں نبھ سکتی۔ جس دین پر بھی آپ ایمان لائیں آپ کو اپنی پوری شخصیت اس کے حوالے کر دینا ہو گی۔ اپنی کسی چیز کو بھی آپ اس کی پیروی سے مستثنیٰ نہیں کر سکتے۔ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ آپ کے دل اور دماغ کا دین ہو، آپ کی آنکھ اور کان کا دین ہو، آپ کے ہاتھ اور پائوں کا دین ہو، آپ کے پیٹ اور دھڑ کا دین ہو، آپ کے قلم اور زبان کا دین ہو، آپ کے اوقات اور آپ کی محنتوں کا دین ہو، آپ کی سعی اور عمل کا دین ہو، آپ کی مَحبّت اور نفرت کا دین ہو، آپ کی دوستی اور دشمنی کا دین ہو، غرض آپ کی شخصیت کا کوئی جُز اور کوئی پہلو بھی اس دین سے خارج نہ ہو۔ اپنی کسی چیز کوجتنا اور جس حیثیت سے بھی آپ اس دین کے احاطے سے باہر اور اس کی پیروی سے مستثنیٰ رکھیں گے، سمجھ لیجیے کہ اسی قدر آپ کے دعوائے ایمان میں جھوٹ شامل ہے اور ہر راستی پسند انسان کا فرض ہے کہ اپنی زندگی کو جھوٹ سے پاک رکھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرے۔
پھر یہ بھی مَیں ابتدا میں عرض کر چکا ہوں کہ انسانی زندگی ایک کُل ہے جسے الگ الگ شعبوں میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا انسان کی پوری زندگی کا ایک ہی دین ہونا چاہیے۔ دو دو اور تین تین دینوں کی بیک وقت پیروی بجز اس کے کچھ نہیں کہ ایمان کے ڈانواں ڈول اور عقلی فیصلے کے مضطرب ہونے کا ثبوت ہے۔ جب فی الواقع کسی دین کے ’’الدین‘‘ہونے کا اطمینان آپ حاصل کر لیں اور اس پر ایمان لے آئیں تو لازماً اسے آپ کی زندگی کے تمام شعبوں کا دین ہونا چاہیے۔ اگر وہ شخصی حیثیت سے آپ کا دین ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہی آپ کے گھر کا دین بھی نہ ہو اور وہی آپ کی تربیتِ اولاد کا، آپ کی تعلیم اور آپ کے مدرسے کا، آپ کے کاروبار اور کسب معاش کا، آپ کی مجلسی زندگی اور قومی طرزِ عمل کا، آپ کے تمدّن اور سیاست کا اور آپ کے ادب اور آرٹ کا دین بھی نہ ہو۔ جس طرح یہ بات محال ہے کہ ایک ایک موتی اپنی جگہ تو موتی ہو مگر جب تسبیح کے رشتے میں بہت سے موتی منظم ہوں تو سب مل کر دانۂ نَخُوْد بن جائیں، اسی طرح یہ بات بھی میرے دماغ کو اپیل نہیں کرتی کہ انفرادی حیثیت سے تو ہم ایک دین کے پیرو ہوں، مگر جب اپنی زندگی کو منظم کریں تو اس منظم زندگی کا کوئی پہلو اس دین کی پیروی سے مستثنیٰ رہ جائے۔
ان سب سے بڑھ کر ایمان کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ جس دین کے ’’الدین‘‘ہونے پر آپ ایمان لائیں اس کی برکتوں سے اپنے ابنائے نوع کو بہرہ مند کرنے کی کوشش کریں اور آپ کی تمام سعی وجہد کا مرکز ومحور یہ ہو کہ یہی ’’الدین‘‘تمام دُنیا کا دین ہو جائے۔ جس طرح حق کی فطرت یہ ہے کہ وہ غالب ہو کر رہنا چاہتا ہے اسی طرح حق پرستی کی بھی یہ عین فطرت ہے کہ وہ حق کو جان لینے کے بعد اسے غالب کرنے کی سعی کیے بغیر چین نہیں لے سکتی۔ جو شخص دیکھ رہا ہو کہ باطل ہر طرف زمین اور اس کے باشندوں پر چھایا ہوا ہے اور پھر یہ منظر اس کے اندر کوئی بے کلی، کوئی چبھن، کوئی تڑپ پیدا نہیں کرتا، اس کے دل میں اگر حق پرستی ہے بھی تو سوئی ہوئی ہے۔ اسے فکر کرنی چاہیے کہ نیند کا سکوت کہیں موت کے سکوت میں تبدیل نہ ہو جائے۔
٭…٭…٭…٭…٭