بلکہ ایمان باللہ کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ پر‘ اس کی تمام صفات و اسمائے حسنیٰ کے ساتھ جو شان الوہیت کے لیے موزوں ہیں اور جن کی انبیاء علیہم السلام نے تعلیم دی ہے‘ ایمان لایا جائے۔ یعنی یہ کہ ہم اس کے بندے ہیں‘ غلام ہیں‘ ہماری مرضی اور ہماری خواہش اس کے حکم کے آگے کچھ نہیں‘ صرف وہی حاکم علی الاطلاق ہے۔ خالق و مالک وہی ہے۔ قانون دینے والا‘ شریعت بنانے والا وہی ہے۔ نفع و ضرر پہنچانے والا اور مدبر کل وہی ہے‘ ان صفات کا مستحق اور کوئی نہیں‘ اگر اس کی صفات میں سے کسی صفت میں دوسرے کی حصہ داری مان لی جائے یا خدا کے اختیارات میں کسی کو شریک کر دیا جائے تو تمام ایمان ہی غارت ہو جائے‘ اس میں کسی مسلمان کو اختلاف نہیں ہے۔
پھر ہم خدا کے متعلق یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ ہم کو پیدا کرکے اس نے ہمیں اندھے بھینسے کی طرح چھوڑ دیا ہے کہ جدھر چاہیں‘ بھٹکتے پھریں یا یہ کہ وہ ہندوئوں کے مہادیو کی طرح محض ڈنڈوت کرلینے سے راضی ہو جاتا ہے بلکہ خدائے تعالیٰ نے جس طرح ہماری مادی زندگی کے اسباب فراہم کیے ہیں‘ ٹھیک اسی طرح اس نے ہماری ہدایت کے لیے انبیاء و رسل بھیجے ہیں اور جس طرح اس نے اپنی پرستش کا مطالبہ کیا ہے۔ صرف یہ چیز کافی نہیں ہے کہ ہم زبان سے اس کی تعریف کر دیں یا صرف پانچ وقت نماز پڑھ لیں‘ بلکہ اس کی فرمانبرداری و اطاعت بھی لازمی ہے۔ اور یہ اطاعت زندگی کے کسی ایک ہی گوشے میں نہیں ہے بلکہ ہر گوشے میں ہے۔ مسلمان صرف مسجد کے اندر ہی اللہ کا بندہ نہیں ہوتا بلکہ اسے ہر جگہ اللہ کے قانون اور اس کے احکام کی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ ہندو اور غیر مسلم کا دین‘ صرف مندر اور معبد میں اس سے چپک جاتا ہے۔ لیکن مسلمان کا دین ہر وقت اس کے ساتھ ہے۔ مسجد میں‘ گھر میں‘ بازار میں‘ دکان میں‘ کھیتی باڑی میں‘ لین دین میں‘ سیاست میں‘ حکومت میں‘ معیشت میں اور تہذیب و تمدن میں‘ غرض کوئی جگہ نہیں ہے جہاں خدا کا دین سانس کی طرح مسلمان کے ساتھ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی یہ اطاعت اس کے انبیاء کی اطاعت کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ چنانچہ جس طرح اللہ کو ماننے کا مطلب محض ’’امنت باللہ‘‘ کہنا نہیں ہے بلکہ اللہ کو شارع‘ مالک‘ قانون ساز مدبر ماننا ہے۔ اسی طرح رسول کو ماننے کا مطلب محض یہ نہیں ہے کہ ہم اس کے رسول ہونے کا اقرار کرلیں‘ اگر ہم صرف اقرار کی حد تک رسول کو مانتے ہیں تو مدینہ کے منافقین اس معاملہ میں ہم سے پیچھے نہ تھے۔ وہ اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔ مگر اللہ نے انہیں صادق القول تسلیم نہیں کیا بلکہ فرمایا واللہ یشھد ان المنافقین لکذبون اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ منافقین جھوٹے ہیں۔ آپ اللہ کے رسول ہیں مگر یہ اپنے قول کے سچے نہیں ہیں۔