Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دیباچۂ طبع اوّل
دیباچۂ طبع ششم
عقل کا فیصلہ
کوتہ نظری
ہدایت و ضلالت کا راز
اسلام ایک علمی و عقلی مذہب
اسلام میں عبادت کا تصور
جہاد فی سبیل اللہ
آزادی کا اسلامی تصوُّر
رواداری
اسلامی قومیت کا حقیقی مفہوم
استدراک
امربالمعروف و نہی عن المنکر
نُزولِ عذاب الٰہی کا قانون
ایک مسیحی بزرگ کے چند اعتراضات
کیا نجات کے لیے صرف کلمۂ توحید کافی ہے؟
کیا رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے؟
ایمان بالرّسالت
قرآن پر سب سے بڈا بہتان
نبوت محمدی کا عقلی ثبوت
اتباع اور اطاعت رسول
رسول کی حیثیت شخصی وحیثیت نبوی
رسالت اور اس کے احکام
حدیث اور قرآن
مسلکِ اعتدال
استدراک
حدیث کے متعلق چند سوالات
قرآن اور سنت رسولؐ
ایک حدیث پر اعتراض اور اس کا جواب

تفہیمات (حصہ اول)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

ایمان بالرّسالت

پچھلے مضمون کو دیکھ کر وہی صاحب جن کے استفسار پر وہ مضمون لکھا گیا تھا، پھر لکھتے ہیں:
’’ایمان بالرسالۃ کے متعلق آپ کا عالمانہ تبصرہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ میرے خیال ناقص میں ایک دو پہلو ابھی حل طلب ہیں جو مختصراً معروض ذیل ہیں:
(۱) آپ فرماتے ہیں کہ انسان کی فطرت میں خدا کی معرفت اور اس کے لیے بندگی کے خلوص کی استعداد موجود ہے…… لیکن اس فطری استعداد کے قوت سے فعل میں آنے کے لیے چند شرائط ہیں اور بادنیٰ تامل یہ معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ شرائط ہر شخص میں پوری نہیں ہوتیں۔‘‘ اس کے بعد ان شرائط کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ فرمودۂ الٰہی لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ البقرہ286:2 کے مطابق ہر شخص اپنی وسعت علم و فکر تک مکلف ہے جیسا کہ شروع سوال تک مذکور ہے۔ اگر تربیت، ماحول اور استعداد ذاتی تکمیل شرائط میں حائل ہیں تو اس کمی کی ذمہ داری اس متجسس پر کیوں عائد ہو؟ انتخاب طریق میں اس نے اپنی لیاقت کے مطابق تفکر اور تعقل سے کام لیا اور اسی حد تک وہ مکلف تھا۔ اس کو مورد عذاب و الزام کرنا بظاہر تکلیف مالایطاق ہے۔
(ب) جناب فرماتے ہیں کہ ’’قرآن مجید کوئی مسلسل تصنیف نہیں جس میں ترتیب کے ساتھ ہر مسئلے کو ایک ایک جگہ مفصل بیان کیا گیا ہو۔ بلکہ یہ مجموعہ ہے ان آیات کا جو ۲۳ سال کی طویل مدت میں موقع اور ضرورت کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً نازل ہوتی رہی ہیں۔‘‘ مگر پھر بھی ارشاد ہوتا ہے کہ ’’سورۂ آل عمران کو چھٹے رکوع سے بارھویں رکوع تک مسلسل پڑھا جائے تاکہ تناقض کا شائبہ تک نہ رہے۔ سوال بھیجنے سے پہلے بھی پڑھا تھا اور دوبارہ بھی ان سب آیات کو پڑھا ہے مگر مشکل رفع نہیں ہوتی۔ اہل کتاب کے جھگڑوں ضد، شرک وغیرہ کو دیکھ کر ایک معتدل روش کی طرف دعوت دی گئی تھی کہ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ آل عمران64:3 ان کلمات اور اس دعوت کا کیا مفہوم اور مقصد تھا؟ بظاہر تو یہی ہے کہ تم اگر اپنی سچی تعلیم پر عمل کرو گے اور شریک چھوڑ دو گے تو دعوت الی اللہ کے مشترک کام میں تم اور ہم یکساں ہوں گے۔ دل نہیں مانتا کہ یہ الفاظ یونہی رسمی طور پر دفع الوقتی یا رفع الزام کے لیے کہے گئے اور کہ فی الحقیقت اشتراک فی العمل اور دعوت مقصود نہ تھا۔
(ج)سوال لکھتے وقت فی الذہن اہل کتاب ہی تھے اور آیات مرقومہ اسی لیے استشہاداً پیش کی گئی تھیں۔ جہاں کہیں اہل کتاب کے اس گروہ کی تعریف کی گئی ہے جو دیانت دار تھے، خدا ترس تھے، امین تھے، شب گزار تھے، بعض مفسرین نے اس کی وہی تفسیر کی ہے جس کی طرف آپ گئے ہیں کہ یہ وہ گروہ ہے جو مسلمان ہو چکا تھا جیسے کہ عبداللہ بن سلام، ثعلبہ، نصاریٰ نجران وغیرہم، مگر افسوس کہ اس سے تسلی نہیں ہوتی اور نہ ہی الفاظ قرآن اس کے حامل ہیں۔ مثلاً وَلَوْ اٰمَنَ اَھْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّھُمْ۝۰ۭ مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَo آل عمران110:3 کے ترجمے میں آپ فرماتے ہیں کہ ان میں سے تھوڑے ایمان لائے اور اکثر نافرمان ہیں۔ مومنون اور فاسقون دونوں ساتھ ساتھ مذکور ہیں اور دونوں اسم فاعل کے صیغے ہیں۔ ان میں سے ایک کے معنی ماضی کے لینے اور دوسرے کے حال کے اور پھر الفاظ مِنْھُمْ اور اَکْثَرُ ھُمْ کے مفہوم کو متعین نہ کرنا تسلی بخش نہیں کَمَا لَایَخْفیٰ عَلَی الْمُتأمِلْ ۔ مگر دوسری آیت واضح ترین ہے جس میں ایسی تاویل کی گنجائش ہی نہیں اور جس کا ترجمہ جناب نے نہیں فرمایا۔ یعنی
لَيْسُوْا سَوَاۗءً۝۰ۭ مِنْ اَھْلِ الْكِتٰبِ اُمَّۃٌ قَاۗىِٕمَۃٌ يَّتْلُوْنَ اٰيٰتِ اللہِ اٰنَاۗءَ الَّيْلِ وَھُمْ يَسْجُدُوْنَo يُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُوْنَ فِي الْخَيْرٰتِ۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ مِنَ الصّٰلِحِيْنَo وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُّكْفَرُوْہُ۝۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌۢ بِالْمُتَّقِيْنَo آل عمران 113-114-115:3
سب کے سب برابر نہیں، اہل کتاب میں سے ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کی آیتیں راتوں کو کھڑے پڑھتے رہتے ہیں۔ اور سجدے کرتے ہیں، اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور روز آخرت پر، نیک کاموں کا حکم کرتے ہیں اور برے کاموں سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں میں جلدی کرتے ہیں اوریہی لوگ صالحین میں سے ہیں وہ کسی طرح کی بھی نیکی کریں گے اس کی ہرگز ناقدری نہ ہوگی اور متقین کو اللہ خوب جانتا ہے۔
اس کی تائید قرآن شریف کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں نصاریٰ کی تعریف کی ہے کہ ان میں دیندار طبقہ ہے اور وہ متکبر نہیں ہیں۔ اگر آیات مذکورہ میں وہی لوگ مراد ہوتے جو جناب لے رہے ہیں تو فصاحت اور بلاغت قرآنی کو مدنظر رکھتے ہوئے الفاظ مختلف ہوتے۔
(د) يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ الحدید28:57 کے متعلق جناب فرماتے ہیں کہ ’’اس میں تمام لوگوں کو جو پچھلے انبیاء پر ایمان لاچکے ہیں دو چیزوں کی دعوت دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ خدا سے ڈریں اورتقویٰ اختیار کریں دوسرے یہ کہ خدا کے رسول یعنی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ پھر فرمایا گیا کہ اگر تم یہ دونوں باتیں اختیار کرو گے تو تم کو خدا کی رحمت سے دو حصے ملیں گے یعنی ایک حصہ انبیائے سابقین پر ایمان اور تقویٰ کے اجر میں اور دوسرا حصہ ایمان برمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اجر میں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ تقویٰ اور پرہیزگاری کے ساتھ پچھلے انبیاء پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی دی ہوئی تعلیم پر ٹھیک ٹھیک عامل ہیں ان کو بھی خدا کی رحمت کا ایک حصہ ملے گا۔ اس کی تائید دوسری آیات سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً وَالَّذِيْنَ يُمَسِّكُوْنَ بِالْكِتٰبِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ۝۰ۭ اِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ الْمُصْلِحِيْنَo اعراف170:7 مگر ان سب آیات کو ملا کر جو نتیجہ آپ نے آخر مضمون میں نکالا ہے وہ تعجب انگیز ہے۔ یعنی ’’ان کو اللہ کی رحمت کا صرف اتنا حصہ ملے گا کہ ان کی سزا میں تخفیف ہوگی۔‘‘
تیلی بھی کیا اور روکھا بھی کھایا۔
کم علمی کی وجہ سے یہ شکوک سوجھے ہیں اگر جناب و دیگر علمائے کرام مزید توجہ فرما کر ان کو رفع کریں گے تو ان شاء اللہ عند الناس مشکور اور عنداللہ ماجور ہوں گے۔
آپ نے جو اعتراضات پیش فرمائے ہیں ان کے جوابات مختصراً درج ذیل ہیں:
(۱) آپ کا استدلال اگر صحیح مان لیا جائے تو اس سے نہ صرف منکر رسالت کو برسر حق تسلیم کرنا لازم آئے گا بلکہ ہر شخص کے مسلک کو اس کی حد تک صحیح مان لینا لازم آجائے گا، خواہ وہ مشرک ہو یا دہریہ یا کوئی اور۔ کیونکہ جب ہر شخص اپنی وسعت علم و فکر کی حد تک مکلف ہے اور تلاش حق میں غلطی یا کوتاہی کی ذمہ داری اس پر کچھ نہیں ہے تو جس طرح وہ موحد مورد الزام و مستحق عذاب نہیں ہے جو غور و فکر کے باوجود رسالت میں ’’نیک نیتی‘‘ کے ساتھ شک رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ مشرک بھی‘ کسی عقوبت کا مستحق نہ ہونا چاہیے جو ’’نیک نیتی‘‘ کے ساتھ کسی پتھر یا درخت یا جانور کو خدا سمجھتا ہے، اور وہ دہریہ بھی کسی سزا کا مستوجب نہ ہونا چاہیے جو سرے سے خدا ہی کے وجود میں ’’نیک نیتی‘‘ کے ساتھ شکوک رکھتا ہے اس لیے کہ یہ سب بھی تو اپنی وسعت علم و فکر تک ہی مکلف ہیں اور ان کے علم و فکر کی رسائی بھی تو وہیں تک ہے جہاں تک یہ پہنچے ہیں۔ اس قاعدے کو اگر تسلیم کرلیا جائے تو مومن اور کافر اور مشترک کا امتیاز سراسر لغو قرارپائے گا اور تبلیغ دین کے لیے سرے سے کوئی عقلی بنیاد ہی باقی نہ رہے گی۔ کیونکہ دین جن باتوں کی طرف بلاتا ہے ان کو اگر کوئی شخص اپنی کوتاہیٔ فکر کی بنا پر، مگر ’’نیک نیتی‘‘ کے ساتھ رد کر دے، تب بھی وہ برسرحق ہی رہے گا اور اپنے اس فعل کے لیے کسی الزام یا کسی سزا کا مستحق نہ ہوگا۔
آپ اس قاعدے کی بنا آیت لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ البقرہ286:2 پر رکھتے ہیں۔ لیکن میں عرض کرتا ہوں کہ اگر اس کا وہی مفہوم ہے جو آپ نے سمجھا ہے تو یہ آیت قرآن مجید کی پوری تعلیم کے خلاف ہے، اور اس صورت میں یہ تسلیم کرنا لازم آتا ہے کہ قرآن نے دو بالکل متعارض اصول پیش کیے ہیں۔ ایک طرف تو وہ انسان کو خدا اور اس کے ملائکہ اور کتابوں اور رسولوں اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر تم ان چیزوں کو نہ مانو گے تو کافر ہوگے اور تم کو آخرت میں سزا دی جائے گی۔ دوسری طرف وہی قرآن (آپ کے زعم کے مطابق) کہتا ہے کہ تم صرف اپنی وسعت علم و فکر تک مکلف ہو، اگر تمھاری فکر کی رسائی ان پانچوں ایمانیات، یا ان میں سے کسی ایک تک نہ ہو، اور اس نارسائی فکر کی بنا پر تم ایک کو یا سب کو ماننے سے انکار بھی کر دو، اور ان کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ رکھو، تب بھی تم پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے، اور تم کسی الزام یا سزا کے مستحق نہیں ہو۔ یقین مانیے کہ اگر قرآن مجید کی تعلیم میں حقیقتاً اتنا صریح تناقض موجود ہوتا تو کوئی صاحب عقل انسان اس کو خدا کی کتاب نہ مانتا۔
اس اشکال کا وہ حل ہے جو میں اپنے سابق مضمون میں بیان کر چکا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ تکلیف ہی نہیں دی ہے کہ وہ اپنی محدود قوتوں سے اس کی معرفت تک پہنچے اور اس کی بندگی کا صحیح طریقہ دریافت کرنے کی کوشش کرے۔ جس خدا نے انسان کو بنایا ہے وہ جانتا ہے کہ انسان کی وسعت علم و فکر کہاں تک ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ عام انسانوں کی قوت فکر اور صلاحیت اکتساب علم اتنی ہے ہی نہیں کہ وہ اس بلند مقام تک پرواز کرسکیں جہاں اس جیسی ماورائے سرحدِ ادراک ہستی کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ عام انسان اپنی پیدائشی کمزوریوں اور ماحول کے اثرات سے اس قدر پاک اور منزہ نہیں ہوسکتے کہ محض اپنے اجتہاد سے صرف خداوند عالم کے لیے اپنی بندگی کو خالص کر دیں۔ اس لیے اس نے ان کی وسعت و طاقت سے زیادہ ان پر تکلیف کا بارڈالا ہی نہیں۔ اس نے تو خود انسانوں ہی میں سے بعض خاص اشخاص کو منتخب کرکے انھیں راہ راست کا علم دیا اور ان کو اس بات پر مامور کیا کہ اپنے ابنائے نوع کو اس کی نشانیاں کھول کھول کر بتائیں اور ان کی عقل و فہم کے مطابق انھیں تعلیم دیں۔يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ اِمَّا يَاْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ يَـقُصُّوْنَ عَلَيْكُمْ اٰيٰتِيْ۝۰ۙ فَمَنِ اتَّقٰى وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلَا ہُمْ يَحْزَنُوْنَo الاعراف35:7 پس تکلیف جو کچھ بھی دی گئی ہے وہ اس امر کی ہے کہ انسان خدا کے بھیجے ہوئے رسولوں کی سیرت اور ان کی تعلیم پر غور کرے۔ اور جب دیکھے کہ وہ جس راستے کی طرف بلا رہے ہیں اس میں ان کی کوئی ذاتی غرض نہیں ہے، نہ وہ جھوٹ بولنے والے اور دھوکہ دینے والے لوگ ہیں، نہ کسی ایسی بات کی طرف بلا رہے ہیں جو تقویٰ اور صلاح کے خلاف ہو، تو ان پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کرے۔ اس تکلیف کو مالا یطاق نہیں کہا جاسکتا۔ اگر ہدایت کو انسان کے علم و عقل سے اتنا قریب کر دینے کے بعد بھی کوئی شخص نیک نیتی یا بدنیتی کے ساتھ اس کو قبول نہیں کرتا اور اس کے خلاف چلتا ہے تو اس کو اپنی اس کوتاہی کا انجام ضرور دیکھنا پڑے گا۔
آپ پھر پلٹ کر کہیں گے کہ اگر کوئی شخص اپنی وسعت علم و فکر کی حد تک رسولوں کی سیرت اور ان کی تعلیم پر غور کرنے کے باوجود ان کی رسالت پر مطمئن نہ ہوسکے تو اس کوتاہی فہم و نارسائی فکر کی اس پر کوئی ذمہ داری نہیں اور اس کو موردِ الزام و مستحق عذاب نہ ہونا چاہیے۔ میں عرض کروں گا کہ جب کوئی شے انسان بحیثیت انسان کی حد عقل و فہم سے باہر ہو اور کوئی انسان اس تک نہ پہنچے تو البتہ وہ معذور ہے کیونکہ اس شے کی یہ شان ہی نہیں ہے کہ انسان اس تک پہنچ سکے۔ لیکن اگر کوئی چیز اس حد کے اندر ہو، اور اس کی شان یہ ہو کہ انسان بحیثیت انسان ہونے کے اپنی بشری قوتوں کے ساتھ اس حد تک پہنچ سکتا ہو‘ اور پھر کوئی شخص اس تک نہ پہنچے تو یہ دو حال سے خالی نہ ہوگا، یا تو اس نارسائی میں اس کی ہوائے نفس کا دخل ہوگا، یا یہ نارسائی خالصتاً اس کی کوتاہیٔ فہم پر مبنی ہوگی۔ پہلی صورت میں تو اس کے مجرم ہونے میں کسی کو کلام نہیں ہوسکتا۔ رہی دوسری صورت، تو آپ کو خواہ اس کم عقل انسان پر کتنا بھی رحم آئے، بہرحال اس سے آپ انکار نہیں کرسکتے کہ وہ اپنی کوتاہ فہمی سے جس نتیجے پر پہنچا ہے وہ حق نہیں ہے اور یہ کسی طرح بھی قرین انصاف نہیں کہ جو حق تک نہیں پہنچا ہے‘‘ وہ انجام کار میں ان لوگوں کے برابر ہو جو حق تک پہنچ گئے ہیں۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ ہر شخص جو کچھ سوچے اور سمجھے گا اپنی وسعت علم و فکر کی حد تک ہی سوچے اور سمجھے گا۔ اس حد سے آگے جانا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا حق اور صداقت ہر شخص کی انفرادی سمجھ بوجھ کے مطابق بدلنے والی چیز ہے، یا ایک متعین شے ہے خواہ کوئی شخص اسے سمجھے یا نہ سمجھے؟ اگر آپ پہلی بات کے قائل ہیں تو گویا آپ یہ کہتے ہیں کہ مثلاً ۳۰ اور ۵۰ کا مجموعہ کوئی مخصوص عدد نہیں ہے، بلکہ ہر شخص اپنی حد تک غور و فکر کرنے کے بعد ’’نیک نیتی‘‘ کے ساتھ جس عدد پر بھی پہنچ جائے وہی صحیح مجموعہ ہے خواہ وہ ۷۹ ہو یا ۸۱ یا ۸۰ مگر یہ ایسی غیر معقول بات ہے کہ مجھے امید نہیں کہ آپ اس کے قائل ہوں۔ لہٰذا آپ کو لامحالہ دوسری شق ماننی پڑے گی، یعنی یہ کہ ۳۰ اور ۵۰ کا مجموعہ بہرحال ۸۰ ہے خواہ کسی کی حد علم و فکر وہاں تک پہنچے یا نہ پہنچے۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو شخص ۳۰ اور ۵۰ کے مجموعہ کو ۷۹ یا ۸۱ یا کچھ اور کہتا ہے خواہ کوتاہ فہمی کی بنا پر ’’نیک نیتی‘‘ کے ساتھ ایسا کہے یا جان بوجھ کر بدنیتی کے ساتھ، دونوں صورتوں میں اس کا حساب غلط ہوگا، اس کی فرد حساب اس غلطی کی وجہ سے آخر تک غلط ہو جائے گی، اور اس کی تمام محنت جو اس نے فرد تیار کرنے میں صرف کی ہے ضائع ہو جائے گی۔ ’’نیک نیتی‘‘ اور ’’بدنیتی‘‘ کا کوئی دخل حساب کی صحت و عدم صحت میں نہیں ہے۔ نہ یہ ہوسکتا ہے کہ نیک نیتی کے ساتھ غلط حساب لگانے والے کو اس شخص کے برابر کر دیا جائے جس نے صحیح حساب لگایا ہے۔ البتہ اتنا ضرور ہوگا کہ نیک نیت احمق کو اتنی سزا نہ دی جائے گی جتنی بدنیت شریر کو دی جائے گی۔
(۲)قرآن مجید کی ترتیب کے بارے میں جو کچھ عرض کیا گیا تھا اس سے یہ کہنا مقصود نہ تھا کہ آیات قرآنی میں کوئی ربط نہیں ہے، بلکہ اس بات کی طرف اشارہ مقصود تھا کہ قرآن مجید میں ایک ایک مسئلے پر تسلسل کے ساتھ یک جا بحث نہیں کی گئی ہے، بلکہ جہاں جیسا موقع پیش آیا ہے مسائل کے پہلوئوں میں سے ایک پہلو یا چند پہلوئوں کو بیان کر دیا گیا ہے، اس لیے قرآن مجید کے مطالعہ کرنے والے کو لازم ہے کہ جب وہ کسی مسئلے پر کوئی رائے قائم کرنا چاہے تو مجموعی طور پر قرآن کی پوری تعلیم پیش نظر رکھے۔ ورنہ اگر وہ محض کسی ایک آیت یا چند آیات پر حصر کرے گا اور دوسری آیات کو جو اس مسئلے سے تعلق رکھتی ہیں نظر انداز کر دے گا تو صحیح رائے قائم نہ کرسکے گا۔
(۳) تعجب ہے کہ آپ نے سورۂ آل عمران کو چھٹے رکوع سے لے کر بارھویں رکوع تک بارہا پڑھا اور پھر بھی مشکل رفع نہ ہوئی۔ حالانکہ چھٹے رکوع کے آغاز میں ہی آپ دیکھ سکتے تھے کہ جو لوگ حضرت ابراہیم اور یعقوب اور موسیٰ اور دوسری انبیائے بنی اسرائیل علیہم السلام پر ایمان رکھتے تھے ان کو اس بنا پر دنیا اور آخرت میں عذاب شدید کی دھمکی دی گئی ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ پر ایمان نہ لائے تھے۔ غور کیجیے کہ یہ لوگ مطلقاً رسالت کے منکر نہ تھے صرف ایک رسول کا دعوائے رسالت سن کر انھوں نے اپنی وسعت علم و فکر تک غور کیا اور جب ان کا دل اسی پر نہ ٹھکا تو انھوں نے ماننے سے انکار کر دیا۔ مگر اس پر لَا يُكَلِّفُ اللہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا۝۰ۭ البقرہ286:2 کا وہ قاعدہ جو آپ تجویز فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جاری نہ کیا بلکہ فرمایا کہ فَاُعَذِّبُھُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝۰ آل عمران56:3 نہ صرف اس مقام پر بلکہ قرآن مجید میں کسی دوسری جگہ بھی کہیں یہ نہیں کہا گیا کہ اس عذاب کی وعید سے وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جو اگرچہ حضرت عیسیٰ کی رسالت میں نیک نیتی کے ساتھ شک رکھتے ہیں مگر شرک سے مجتنب اور توحید و تقویٰ کے طریقے پر قائم ہیں۔
(۴) الجھن کی بڑی وجہ یہ آیت ہے جس میں اہل کتاب کو ایک کلمۂ سوائ کی طرف بلایا گیا ہے، اور اس میں رسالت محمدی پر ایمان لانے کا ذکر نہیں ہے۔ قبل اس کے کہ آیت پر بحث کی جائے، آیت کے اصل الفاظ سن لیجیے:
قُلْ يٰٓاَھْلَ الْكِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَۃٍ سَوَاۗءٍؚبَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللہَ وَلَا نُشْرِكَ بِہٖ شَـيْـــًٔـا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ۝۰ۭ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَo آل عمران64:3
اے محمدؐ، کہو کہ اے اہل کتاب آئو ایک ایسے کلمے کی طرف جو ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں ہیں، اور وہ یہ ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو خدا کے سوا اپنا رب نہ بنالے۔ پھر اگر وہ اس دعوت سے روگردانی کریں تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم مسلم ہیں۔
اس آیت میں کون سا لفظ ہے جس سے آپ نے یہ معنی نکالے کہ اس کلام سے مقصد یہود و نصاریٰ کو دعوت الی اللہ کے کام میں مسلمانوں کے ساتھ شرکت عمل کی دعوت دینا تھا؟ اور یہ کہاں کہا گیا ہے کہ اگر تم اپنی سچی تعلیم پر عمل کرو گے اور شرک کو چھوڑ دو گے تو دعوت الی اللہ کے مشترک کام میں ہم اور تم یکساں ہوںگے؟ اور اس معنی کی طرف کون سا اشارہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان نہ لانے والے ایمان لانے والوں کی طرح حق پر ہیں اور ان کے برابر درجہ رکھتے ہیں؟
اصل بات یہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے سامنے اپنا دعوائے رسالت پیش کیا اور وہ آپ سے جھگڑا کرنے لگے (جیسا کہ آیت مباہلہ میں اس آیت سے اوپر ہی بیان کیا گیا ہے) تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیؐ کو حکم دیا کہ تم ان کو اس بات کی طرف دعوت دو جو تمھارے اور ان کے درمیان مشترک ہے یعنی یہ کہ:
اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔
اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔
اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب اور اپنا الہٰ اور حقیقی فرمانروا اور حاکم نہ بنائو۔
یہ تینوں باتیں وہ تھیں جو موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی اصل تعلیمات میں موجود تھیں، مگر یہود و نصاریٰ ان کو چھوڑ بیٹھے تھے۔ نصاریٰ نے حضرت عیسیٰ اور مریم علیہما السلام کو معبود بنا لیا تھا۔ یہودی اور نصرانی دونوں اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگے تھے وَقَالَتِ الْيَہُوْدُ عُزَيْرُۨ ابْنُ اللہِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللہِ۝۰ۭ التوبہ30:9 یہود و نصاریٰ دونوں نے اپنے علماء و مشائخ اور مذہبی عہدے داروں کو خدا بنا رکھا تھا۔ اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَرُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللہِ التوبہ31:9 چونکہ یہود و نصاریٰ کی گمراہی کا آغاز اسی سبب سے ہوا تھا کہ انھوں نے موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کی بنیادی تعلیم کو چھوڑ دیا تھا، اس لیے حکم ہوا کہ پہلے ان کو اس چیز کی طرف بلائو جو ان کے اپنے تسلیم کردہ مذہب کی تعلیم بھی ہے اور تمھارے دین کی بنیاد بھی۔ اس دعوت سے دو فائدے مقصود تھے۔ ایک یہ کہ اہل کتاب میں سے جو اتنا حق پسند اور سلیم الطبع ہوگا کہ اپنے مذہب کے صدیوں کے متوارث عقائد باطلہ کو چھوڑ دینے پر آمادہ ہو جائے گا، اس کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت تسلیم کر لینے میں کوئی مشکل حائل نہ رہے گی، دوسرے یہ کہ اس کلمۂ سوائ کی دعوت سے یہود اور نصاریٰ دونوں کو معلوم ہو جائے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی چیز کی طرف بلانے والے ہیں جس کی طرف عیسیٰ اور موسیٰ اور دوسرے انبیاء علیہم السلام بلاتے تھے۔ پھر ان کی تصدیق کرنے والے کے لیے ان کی تکذیب کرنے کی کون سی معقول وجہ ہے؟
یہ اس آیت کا صاف اور واضح مفہوم ہے۔ اس سے یہ بات کہاں نکلتی ہے کہ اہل کتاب سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا مطالبہ نہ تھا؟ اور اس سے یہ بات کیسے نکالی جاسکتی ہے کہ اگر اہل کتاب صرف ’’اپنی سچی تعلیم‘‘ پر عمل کریں اور شرک چھوڑ دیں تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کرنے یا آپ کی رسالت میں شک رکھنے کے باوجود ہدایت یافتہ اور مستحق نجات ہوں گے؟ کیا یہ آیت اس آیت کو منسوخ کرتی ہے جس میں تمام نوع انسانی کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی دعوت دی گئی ہے؟ قُلْ يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ جَمِيْعَۨا… فَاٰمِنُوْا بِاللہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ…لَعَلَّكُمْ تَہْتَدُوْنَo الاعراف158:7 اور کیا یہ آیت اس آیت کی بھی ناسخ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جو اس نبی کی نبوت اور اس کے لائے ہوئے پیغام کو نہ مانے گا وہ خسران میں رہے گا؟ وَمَنْ يَّكْفُرْ بِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَo البقرہ121:2کیا قرآن میں کوئی مثال ایسی ملتی ہے کہ کسی قوم کے پاس رسول بھیجا جائے اور وہ اس کو نہ مانے اور اور پھر بھی ہدایت یافتہ اور مستحق نجات ہی رہے؟ اگر خدا کی طرف سے آئے ہوئے رسول کو ماننا اور نہ ماننا دونوں یکساں ہوں اور نہ ماننے کی صورت میں بھی اسی طرح نجات نصیب ہوسکے جس طرح ماننے کی صورت میں ہوئی ہے، تو پیغمبروں کے بھیجنے سے بڑھ کر لغو اور عبث فعل اور کیا ہوگا؟ بظاہر ایسا خیال کرنے میں بڑی رواداری نظر آتی ہے۔ مگر حقیقت میں غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی طرف اس بات کو منسوب کرنا خدا کو معاذ اللہ نادان ثابت کرنا ہے۔
(۵) ضمن ج کے ماتحت آپ نے جو کچھ فرمایا ہے اس کے جواب میں وہ بات کافی ہے جو میں ابھی عرض کر چکا ہوں۔ مگر جن دو آیتوں کی طرف آپ نے اشارہ فرمایا ہے ان کی مزید تشریح ضروری ہے۔ وَلَواٰمَنَ اَھْلُ الِکِتٰبِمیں اٰمَنَ سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟ اس آیت میں جن کا ذکر اہل کتاب کے لفظ سے کیا گیا ہے ان کا اہل کتاب ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ پر، اپنی کتاب پر، اپنے رسول یا رسولوں پر، ملائکہ پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہیں۔ اب آپ ہی فرمائیے کہ اور کس پر ایمان لانے کی کسر باقی رہ گئی ہے؟ اسی طرح مِنْھُمُ الْمُؤمِنُوْنَ میں انھی اہل کتاب میں سے بعض کو جب مومن کہا گیا ہے تو اس کا مفہوم بھی بجز اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہ مومنین وہ اہل کتاب ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے؟ اور معلوم ہے کہ وہ چند ہی تھے۔ ان میں سے اکثر ایمان نہیں لائے اور انھی کو ’’فاسق‘‘ کہا گیا ہے۔ میں نے ترجمے میں ماضی اور حال کا فرق محض مفہوم واضح کرنے کے لیے کر دیا تھا۔ ورنہ اگر آیت کا ترجمہ اس طرح کیا جائے کہ ’’ان میں سے بعض مومن ہیں اور اکثر فاسق‘‘ تو اس سے بھی مفہوم نہیں بدلتا۔
رہی دوسری آیت، تو اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اہل کتاب میں بھی مدارج کا فرق ہے۔ ان میں سے جو گروہ راتوں کو عبادت کرتا اور کتاب پڑھتا ہے اور خدا اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے، اور پرہیزگاری کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے، اور نہ صرف خود نیکوکار ہے بلکہ دوسروں کو بھی نیکی کا حکم دیتا اور بدی سے روکتا ہے، وہ اس گروہ سے توبہرحال بہتر اور بلند تر درجے میں ہے جو آیات الٰہی کا منکر اور حق سے تجاوز کرنے والا، اور بدکار ونا فرمان ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر ان دونوں گروہوں کو یکساں سمجھا جائے اور ان کا انجام ایک ہی سا ہو تو یہ عدل کے خلاف ہوگا۔ ان بدکاروں کے مقابلے میں ان نیکوکاروں کی قدر یقیناً ہونی چاہیے اور ہوگی بھی۔ مگر یہ پہلے ہی کہہ دیا کہ ان متقی اور نیک اہل کتاب کے حق میں بھی بہتریہی تھا کہ وہ نبی امی پر ایمان لے آتے (لَوْاٰمَنَ اَھْلُ الْکِتَابِ لَکَانَ خِیْرًا لَّھُمْ)کیونکہ خدا نے جس نبی کو بھی بھیجا ہے اسی لیے بھیجا ہے کہ اس کی بات مانی جائے (وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِـاِذْنِ اللہِ۝۰ۭ ) (النساء64:4 ) جو شخص خدا کے رسول کی بات نہیں مانتا وہ دراصل خدا کی بات نہیں مانتا (مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ۝۰ۚ )(النسائ 80:4 ) اور اسی کا نام فسق ہے مِنْھُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُھُمُ الْفٰسِقُوْنَo (آل عمران 110:3) اور فسق کرنے والے کو دارالفاسقین ضرور دکھایا جائے گا۔
(۶) آیت يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ الحدید28:57 کی تفسیر میں جو کچھ میں نے عرض کیا ہے وہ کلمۂ شک کے ساتھ ہے۔ میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ پرہیزگار اور نیک اہل کتاب کو اللہ کی رحمت میں سے کتنا حصہ ملے گا اور ان کے اعمال کی قدر کس صورت میں ہوگی؟ اس کو اللہ ہی بہتر جانتا ہے، اور اللہ نے اپنی کتاب میں جب اس کی کوئی تصریح نہیں کی ہے تو مجھے اور کسی کو بھی اپنی رائے سے اس کی تعیین کرنے کا کوئی حق نہیں۔ میں یقین کے ساتھ جو کچھ کہہ سکتا ہوں وہ بس اسی قدر ہے کہ نہ تو وہ اس ادنیٰ درجے میں رکھے جائیں گے جو بدکار کافروں کے لیے ہے اور نہ ان کامل الایمان لوگوں کے ہم رُتبہ کر دیئے جائیں گے جو تمام رسولوں کے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور تمام کتابوں کے ساتھ قرآن مجید پر ایمان لائے ہیں۔۱؎ (ترجمان القرآن۔ شعبان۱۳۵۳ھ۔ نومبر ۱۹۳۴ئ)

شیئر کریں