کیونکہ رسول کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اسے واجب الاطاعت مانیں‘ زندگی کے ہر گوشے میں خدا کے نائب اور رسول ہونے کی حیثیت سے اس کی رہبری تسلیم کرلیں‘ اس کے خلاف جو کچھ ہے اسے غیر فطری اور خدا سے انحراف یقین کریں اور اس سے فطری دشمنی رکھیں اور جو اس کے مطابق ہے۔ اس سے فطری محبت ہو۔ ’’وما ارسلنا من رسول الالیطاع باذن اللہ‘‘،’’ ہم نے نہیں بھیجا کسی رسول کو مگر اس لیے کہ اس کی اطاعت کی جائے‘‘۔رسول کی رسالت کے اقرار کا حق اس سے نہیں ادا ہو جاتا کہ اس کا نام آتے ہی انگلیوں کو چوم کر آنکھوں سے لگالیں‘ یا میلاد کی مجلسیں قائم کردیں‘ یا رسول کے نام پر جھنڈا لے کر سڑکوں اور گلیوں کا طواف کرتے پھریں‘ رسول درحقیقت واجب الاطاعت بن کر آتا ہے‘ کسی شعبے میں اس کے سوا کسی اور کی اطاعت کو اپنی رضا سے تسلیم کرنا اللہ اور اس کے رسول سب کا انکار ہے۔ زندگی کے ہر مرحلے میں اسے مطاع مانئے‘ اس کے بغیر ہزاروں میلادیں کرکے اور لاکھوں جھنڈے اٹھا کر اگر آپ یہ سمجھیں کہ آپ نے رسول کو ماننے کا حق ادا کر دیا اور آپ اس کی شفاعت کے حقدار ہوگئے‘ یا اس کی تعلیمات کا مذاق اڑا کر اور پوری زندگی میں اس کے خلاف چل کر اگر آپ امید رکھتے ہیں کہ ٹھنڈے ٹھنڈے جنت کو چلے جائیں گے تو میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس سے زیادہ جھوٹا وہم اور کوئی نہیں۔ آپ کو مجبور کرکے اسوۂ رسولؐ سے ہٹایا جاسکتا ہے لیکن رسولؐ کے اسوہ سے اگر آپ خود بھاگ کھڑے ہوں‘ اس کو آپ خود مطاع نہ مانیں تو رسول کو رسول ماننے سے کوئی فائدہ نہیں۔ یاد رکھئے کہ رسول کی تعلیم کے خلاف شک نفاق ہے اور اس کی مخالفت کفر ہے۔
اللہ نے جو دین آپ کو دیا ہے اس کا نام اسلام رکھا ہے‘ اسلام کے معنی ہیں اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ کے حوالے کر دینا‘ اس کی تشریح قرآن نے اس طرح کی ہے: ’’ادخلوا فی السلم کافۃ‘‘ ’’اللہ کی اطاعت میں پورے کے پورے داخل ہو جائو‘‘یعنی آپ اپنی زندگی کا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اس دین کی پیروی کرنی پڑے گی۔ کاروبار کریں‘ ملازمت کریں‘ تعلیم دیں‘ کمپنی کھولیں‘ گھر میں ہوں یا سوسائٹی میں‘ بین الاقوامی امور ہوں یا ملکی معاملات‘ سب میں اللہ کے دین کی پوری پیروی کرنا‘ اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کر دینا اسلام ہے۔ اور مسلم وہی ہے جو اس مفہوم میں اسلام کا حامل ہو۔ اسلامی زندگی سے انحراف مجبوراً ہوسکتا ہے یا نفس کے غلبے کی بنا پر‘ یا جہالت کی وجہ سے۔ مثلاً کوئی مضطر مجبوراً خنزیر کھالے‘ یا کوئی شخص ہیجان نفس کی وجہ سے کوئی ناجائز حرکت کر بیٹھے‘ یا غفلت کی وجہ سے کسی کام پائوں غلاظت کے ڈھیر پر پڑ جائے۔ پہلی صورت میں انسان کا فرض ہے کہ اس حالت سے نکلنے کی جدوجہد کرے‘ دوسری صورت میں اس کو چاہئے کہ جلد سے جلد اپنے آپ کو پاک کرے۔ لیکن اگر وہ غلاظت کے ڈھیر پر اپنا بستر بچھائے‘ وہیں اولاد پیدا کرنا شروع کر دے‘ وہیں اپنی نسل کو پروان چڑھائے اور اس پر فخر بھی کرے کہ ہم نے شیش محل بنوا لیا ہے۔ اور آپ بھی اسے قابل رشک مسلمان سمجھنے لگیں تو یہ ایک غلط فہمی ہے‘ جس سے دماغ کو پاک کیجئے‘ اس کا غلط ہونا مُسّلم ہے۔ کوئی غبی ہی ہوگا جو اس میں شک کرے۔