ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قرآن جس اسٹیٹ کا تخیل پیش کر رہا ہے اس کا مقصد سلبی (Negative) نہیں ہے بلکہ وُہ ایک ایجابی (Positive) مقصد اپنے سامنے رکھتا ہے اس کا مدّعا صرف یہی نہیں ہے کہ لوگوں کو ایک دُوسرے پر زیادتی کرنے سے روکے، ان کی آزادی کی حفاظت کرے اور مملکت کو بیرونی حملوں سے بچائے بلکہ اس کا مدعا اجتماعی عدل کے اس متوازن نظام کو رائج کرنا ہے جو خدا کی کتاب پیش کرتی ہے۔ اس کا مقصد بدی کی ان تمام صورتوں کو مٹانا اور نیکی کی ان تمام شکلوں کو قائم کرنا ہے جنھیں خدا نے اپنی واضح ہدایات میں بیان کیا ہے۔ اس کام میں حسبِ موقع و محل سیاسی طاقت بھی استعمال کی جائے گی۔ تبلیغ و تلقین سے بھی کام لیا جائے گا تعلیم و تربیت کے ذرائع بھی کام میں لائے جائیں گے اور جماعتی اثر اور رائے عام کے دبائو کو بھی استعمال کیا جائے گا۔
ہمہ گیر اسٹیٹ
اس نوعیت کا اسٹیٹ ظاہر ہے کہ اپنے عمل کے دائرے کو محدود نہیں کر سکتا۔ یہ ہمہ گیر اسٹیٹ ہے۔ اس کا دائرۂ عمل پوری انسانی زندگی پر محیط ہے۔ یہ تمدن کے ہر شعبہ کو اپنے مخصوص اخلاقی نظریہ اور اصلاحی پروگرام کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے اس کے مقابلہ میں کوئی شخص اپنے کسی معاملہ کو پرائیویٹ اور شخصی نہیں کَہ سکتا۔ اس لحاظ سے یہ اسٹیٹ فاشستی اور اشتراکی حکومتوں سے یک گو نہ مماثلت رکھتا ہے، مگر آگے چل کر آپ دیکھیں گے اس ہمہ گیریت کے باوجود اس میں موجودہ زمانے کی کلّی (Totalitarian)اور استبدادی (Authoritarian) حکومتوں کا سارنگ نہیں ہے۔ اس میں شخصی آزادی سلب نہیں کی جاتی اور نہ اس میں آمریت (Dictatorship) پائی جاتی ہے۔ اس معاملہ میں جو کمال درجہ کا اعتدال اِسلامی نظامِ حکومت میں قائم کیا گیا ہے اور حق و باطل کے درمیان جیسی نازک اور باریک سرحدیں قائم کی گئی ہیں، انھیں دیکھ کر ایک صاحبِ بصیرت آدمی کا دل گواہی دینے لگتا ہے کہ ایسا متوازن نظام حقیقت میں خدائے حکیم و خبیر ہی وضع کر سکتا ہے۔