Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام میں قانون سازی کا دائرہ عمل اور اس میں اجتہاد کا مقام
ایک منکر حدیث کے اعتراضات اور ان کا جواب
مسئلہ اجتہاد کے بارے میں چند شبہات
اجتہاد اور اُس کے تقاضے
مسئلہ اجتہاد میں الفاظ اور رُوح کی حیثیت
قانون سازی، شوریٰ اور اجماع
نظامِ اسلامی میں نزاعی امور کے فیصلے کا صحیح طریقہ
سنت ِرسول بحیثیت ِماخذ قانون
اسلام میں ضرورت و مصلحت کا لحاظ اور اس کے اصول و قواعد
دین میں حکمت ِ عملی کا مقام
غیبت کی حقیقت اور اس کے احکام
غیبت کے مسئلے میں ایک دو ٹوک بات
غیبت کے مسئلے میں بحث کا ایک اور رُخ
دو اہم مبحث:
اسلام اور عدل اجتماعی
یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ
عائلی قوانین کے کمیشن کا سوالنامہ اور اُس کا جواب
اہلِ کتاب کے ذبیحہ کی حِلّت و حُرمت
انسان کے بنیادی حقوق
مسئلہ خلافت میں امام ابوحنیفہؒ کا مسلک حاکمیت
شہادتِ حسین ؑ کا حقیقی مقصد ۱؎
اقوامِ مغرب کا عبرت ناک انجام
دنیائے اِسلام میں اسلامی تحریکات کے لیے طریق کار

تفہیمات (حصہ سوم)

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اہلِ کتاب کے ذبیحہ کی حِلّت و حُرمت

ہمارے ملک سے جو لوگ تعلیم یا تجارت یا دوسری اغراض کے لیے یورپ اور امریکہ جاتے ہیں ان کو بالعموم اس مسئلے سے سابقہ پیش آتا ہے کہ وہاں اسلامی نقطۂ نظر سے حلال غذا بمشکل میسر آتی ہے۔ کچھ لوگ تو حلال و حرام کی حس ہی نہیں رکھتے۔ اس لیے وہ بلاتکلف ہر طرح کا کھانا وہاں کھا لیتے ہیں۔ کچھ اور لوگ کھانے پینے کی مشکلات سے تنگ آ کر وہی سب کچھ کھانے لگتے ہیں جو وہاں ملتا ہے مگر دل میں یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ یہ حرام غذا ہے جو ہم کھا رہے ہیں۔ البتہ ایک اچھی خاصی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو حلال کی پابندی اور حرام سے پرہیز کرنا چاہتے ہیں۔ انھی کی طرف سے اکثر یہ سوالات آتے رہتے ہیں کہ ان ممالک میں غذا کی حرمت و حلّت کے حدود کیا ہیں اور ہم کیا کھائیں اور کن چیزوں سے پرہیز کریں۔ اس سے پہلے میرے پاس اس سلسلے میں جو سوالات وقتاً فوقتاً آئے ہیں ان کے مختصر جوابات نجی طور پر بھی اور ترجمان القرآن میں بھی دیئے جاتے رہے ہیں۔ لیکن اب اس مسئلے نے ایک دوسرا رخ اختیار کیا ہے۔ بعض دوسرے مسلمان ملکوں سے جو لوگ مغربی ممالک میں جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کے نوجوان ان کو بے تکلف وہ گوشت کھاتے دیکھتے ہیں جو خدا کا نام لیے بغیر مشینوں سے کٹ کر آتا ہے۔ اس پر ان کے درمیان بحثیں چھڑ جاتی ہیں اور وہ دلیل میں اپنے علما کے فتوے پیش کر دیتے ہیں جنھوں نے اس گوشت کو حلال قرار دیا ہے۔ اس کی ایک تازہ نظیر مندرجہ ذیل خط ہے جو ایک پاکستانی نوجوان کی طرف سے حال میں میرے نام آیا ہے۔ یہ خط اور علمائے عراق کے وہ فتوے جن کی نقل مراسلہ نگار نے ارسال کی ہے، دیکھنے کے بعد شدت کے ساتھ یہ ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس مسئلے کی پوری علمی تحقیق شائع کر دی جائے تاکہ ہمارے ہاں کے لوگ ان بحثوں سے متاثر ہو کر کوئی غلط روش نہ اختیار کر بیٹھیں اور اگر ممکن ہو تو خود بیرونی مسلم ممالک کے لوگوں کی بھی اصلاحِ خیال ہو سکے۔
پاکستانی نوجوان کا خط
یہ پاکستانی نوجوان جو آج کل لندن میں زیر تعلیم ہیں، لکھتے ہیں:
’’گوشت کا مسئلہ میرے اور مشرق وسطیٰ کے طلبہ کے مابین بہت باعثِ نزاع ہے۔ اس پر بہت بحثیں ہو چکی ہیں۔ رسائل و مسائل میں آپ نے جو دلائل بیان کیے ہیں وہ ان کے سامنے مختلف طریقوں سے بار بار پیش کر چکا ہوں۔ لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آتا ہے۔ اب دو اسلام پسند دوستوں نے عراق سے دو فتوے منگوائے ہیں۔ انھیں اصرار ہے کہ آپ تک پہنچائوں اور آپ ان میں دیئے ہوئے دلائل کو شق وار ردّ کریں۔ لہٰذا دونوں کی نقول منسلک ہیں۔ ان کو آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔
گوشت کے سلسلے میں ایک چیز جس کا علم مجھے نہیں ہے وہ یہ ہے کہ کیا حلال کرنے کی کوئی متعیّن صورت قرآن یا حدیث میں دی گئی ہے؟ یا اللہ کا نام لے کر مشین سے ذبح کیا جا سکتا ہے؟
چونکہ مختلف مغربی ممالک میں ذبح کرنے کے مختلف طریقے رائج ہیں لہٰذا جب تک ہر طریقے کی تفصیل نہ معلوم ہو اس وقت تک ان کے ہر ذبیحے کو مُردار کہنا بہت مشکل ہے۔ اس بنا پر میں مُردار کو وجہِ حرام بنا کر گفتگو نہیں کرتا بلکہ ان دو آیات کو مرکز گفتگو بناتا ہوں جن میں اللہ کا نام نہ لیے ہوئے گوشت سے منع کیا گیا ہے اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنے کو حرام کیا گیا ہے۔‘‘
اس کے ساتھ علمائے عراق کے جو فتوے انھوں نے بھیجے ہیں ان کا لفظ بلفظ ترجمہ حسب ِذیل ہے۔
فتویٰ نمبر ۱
ذبیحہ اہلِ کتاب کے بارے میں آپ کے استفسا رکا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے … جس کا کوئی حکم حکمت سے خالی نہیں۔ مسلمانوں کے لیے اہلِ کتاب کا کھانا حلال کرتے ہوئے یہ نہیں فرمایا کہ ’’اہلِ کتاب کا ذبیحہ تمھارے لیے حلال ہے‘‘ بلکہ یہ فرمایا ہے کہ ’’اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے۔‘‘ (وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ) اس کا یہ مطلب ہوا کہ یہود و نصاریٰ کے پادری اور اہلِ دین جو کھانا بھی کھاتے ہیں‘ بجز لحمِ خنزیر‘ وہ مسلمانوں کے لیے حلال ہے اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان کے ذبیحہ پر یہ شرط عائد نہیں کی گئی کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو یا وہ اہلِ اسلام کے طریقے پر ذبح کیا گیا ہو۔
سورۂ المائدہ (رکوع ۱) میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین کو مکمل کرکے اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے واضح ہے کہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ اس سلسلے میں لطیف بات یہ ہے کہ جس آیت میں طعامِ اہلِ کتاب کی اباحت کا حکم دیا گیا ہے وہ مذکورہ تکمیل دین والی آیت سے صرف چند سطور کے فاصلے پر وارد ہے جس کا قریبی تعلق یہ بتایا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا دین مکمل اور دائمی ہے اور اس کے دوسرے احکام ابدی اور ناقابلِ تنسیخ و تغیّر ہیں اسی طرح طعامِ اہلِ کتاب کی حِلّت کا حکم بھی اٹل ہے۔ اسے اللہ تعالیٰ نے کسی خاص زمانے کے ساتھ وابستہ نہیں رکھا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یہ حکم نازل کرتے وقت اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ آیندہ چل کر اہلِ کتاب کے ہاں جانوروں کو سر میں میخ مار کر ذبح کرنے کا طریقہ جاری ہو گا۔ علاوہ ازیں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل موجود ہے کہ ایک بار ایک یہودی عورت نے آپؐ کو زہر آلود بکری دعوت میں پیش کی۔ اور آپؐ نے یہ دریافت کیے بغیر اسے تناول فرما لیا کہ اس بکری کو اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہے یا نہیں یا اس کے ذبح کرنے میں کون سا طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ چنانچہ اسی ضمن میں آپؐ کا ارشاد ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جس چیز کو حلال ٹھہرا دیا ہے وہ حلال ہے اور جسے حرام قرار دے دیا ہے وہ حرام ہے اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے‘ جس کی ذات نسیان سے پاک ہے، محض اپنی رحمت سے سکوت فرمایا ہے تم اس کے متعلق کرید مت کرو۔‘‘ … نیز آپؐ نے فرمایا: جس چیز کی صراحت میں نے تم سے نہیں کی اُس کے بارے میں تم مجھ سے نہ پوچھو۔ کیونکہ تم سے پہلے لوگ بھی انبیا سے بکثرت سوالات کرنے اور اختلافات کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ پس جب میں کسی چیز سے تمھیں روک دوں تم اس سے رک جائو اور جب کسی کام کا حکم دوں تو اسے جہاں تک کر سکتے ہو کرو۔
امام ابن العزّی المعافری نے بدلائل ثابت کیا ہے کہ اگر عیسائی مرغی کی گردن تلوار سے اڑا دیتا ہے تو مسلمان کے لیے اس کا کھا لینا جائز ہے۔ یہی حکم ان بند ڈبوں کے گوشت کے بارے میں اختیار کیا جائے جنھیں یہودی اور عیسائی تیار کرتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ کے بارے میں یہ جان لینا بھی ضروری ہے کہ ان کے جن افراد پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دعوت کی حجّت تمام ہو چکی ہے وہ اگر خدا کا ذکر بھی کریں تو ان کا ذکر اللہ اس وقت تک اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہو گا جب تک وہ اسلام نہ قبول کر لیں۔ اس لیے ذبح کرتے وقت ایسے افراد کا اللہ کا نام لینا یا نہ لینا یکساں ہے۔ البتہ جن تک دعوت نہیں پہنچی اور حجت قائم نہیں ہوئی وہ اپنے پہلے دین پر قائم ہیں اور وہ صحیح ہے۔
جس جانور کو مشرک ذبح کرے جو یہودی یا عیسائی نہیں ہے، تو اس نے بوقت ذبح خواہ ہزار مرتبہ بھی اللہ کا نام لیا ہو اس کا کھانا حلال نہیں ہے۔ اس کے برعکس مسلمان کا وہ ذبیحہ جس پر اللہ کا نام لینا اسے یاد نہ رہا ہو حلال ہے اور اس کا کھانا جائز ہے کیونکہ ہر مومن کے دل میں اللہ کا ذکر ہر حالت میں موجود ہے۔ ابودائود کی ایک روایت میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے گوشت کے بارے میں دریافت کیا گیا جو اہلِ بادیہ شہر لے کر آتے تھے اور جس کے بارے میں معلوم نہیں ہوتا تھا کہ انھوں نے جانوروں کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں۔ آپؐ نے فرمایا اُذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہَا اَنْتُمْ وَکُلُوْہَا (تم خود اللہ کا نام لے لو اور اسے کھا لو) اسی طرح ایک مرتبہ آپؐ سے رومی پنیر کے بارے دریافت کیا گیا اور آپؐ کو بتایا گیا کہ اس پنیر کو اہلِ روم خنزیر کے بچوں کے چُستے سے بناتے ہیں۔ آپؐ نے جواب میں صرف اتنا فرمایا کہ ’’اِنِّیْ لَا اُحَرِّمُ حَلاَلاً (میں ایک حلال چیز کو حرام نہیں کر سکتا) اور مزید سائل کی بات کی طرف دھیان نہ دیا۔ ۱؎
اس موضوع پر فقہا نے جو قواعد مستنبط کیے ہیں ان میں سے ایک قاعدہ یہ ہے کہ ان الطعام لا یُطرح بالشک (محض شک کی بنا پر طعام کو ردّ نہیں کیا جائے گا) نیز یہ قاعدہ بھی قابلِ لحاظ ہے کہ دِیْنُ اللّٰہِ یُسْرٌ فَیَسِّرُوْہُ وَلاَ تُعَسِّرُوْا وَلاَ تُنَفِّرُوْا (اللہ کے دین میں آسانی ہے تم اسے آسان ہی رکھو۔ سخت نہ بنائو اور لوگوں کو اس سے متنفر نہ کرو)
فتویٰ نمبر ۲
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ ، وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ …… یہ حکم اس امر کی صریح دلیل ہے کہ اہلِ کتاب کا طعام جس میں ان کا ذبیحہ اور غیر ذبیحہ سب شامل ہے، مسلمانوں کے لیے حلال ہے۔ اہلِ کتاب ذبیحہ پر اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں، یہ اللہ کے علم میں ہے، ہمارے لئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کا کھانا حلال قرار دیا ہے خواہ وہ تسمیہ کے ساتھ ہو یا بغیر تسمیہ کے۔ شیخ زادہ ؒ تفسیر سورۂ انعام میں ص ۳۰۴ پر لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ کا قول وَلاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ۔ (جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھائو۔ ایسا کرنا فسق ہے) بظاہر ان تمام اشیا کی تحریم پر دلالت کرتا ہے جن پر اللہ کا نام لینا عمداً یا نسیاناً ترک ہو گیا ہو۔ دائود ظاہری کا یہی مذہب ہے۔ امام احمدؒ سے بھی اسی طرح کا مسلک مروی ہے۔ امام مالکؒ اور شافعیؒ نے اس سے اختلاف کیا ہے وہ ذبیحۂ مسلم کو ہر صورت میں حلال قرار دیتے ہیں خواہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو یا نہ۔ ان کا استدلال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر مبنی ہے کہ ’’ذَبِیْحَۃُ الْمُسْلِمِ حَلَالٌ وَاِنْ لَّمْ یُذْکَرِاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہَا۔ امام ابوحنیفہؒنے عمداً تسمیہ نہ کرنے اور نسیاناً تسمیہ ترک ہو جانے میں فرق کیا ہے۔
جس طعام پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو علما نے اسے فسق قرار دیا ہے (جیسا کہ قرآن میں آتا ہے اَوْفِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ) علما کی یہ تاویل اس صورت میں ہے جب کہ اِنَّہٗ لَفِسْقٌ کی ضمیر مِمَّا لَمْ یُذْکَرْ میں کلمہ مَا کی جانب راجع ہو۔ اور یہ بھی درست ہے کہ ضمیر کا مرجع وَلاَ تَاْکُلُوْا میں مصدر اکل کو بنا لیا جائے۔ (اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ جس طعام پر غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو اس کا کھانا فسق ہے)
اس کے بعد شیخ زادہؒ اس مجمل کلام کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
یہ رائے کہ آیت ’’وَلاَ تَاْکُلُوْا… الخ ‘‘ ان تمام اشیا کی تحریم پر دلالت کرتی ہے جن پر اللہ کا نام قصداً یا نسیاناً متروک ہو گیا ہو اس وجہ سے ہے کہ آیت عمومی مفہوم رکھتی ہے اور کھانے پینے کی تمام اشیا کو شامل ہے۔ چنانچہ عطا نے اسی عمومی مفہوم کو لیا ہے۔ ان کے نزدیک ہر وہ چیز حرام ہے جس پر اللہ کا نام نہ لیا جائے۔ خواہ وہ ماکولات میں سے ہو یا مشروبات میں سے۔ لیکن جمہور فقہا کا اجماع ہے کہ آیت کا اطلاق صرف اس جانور پر ہے جس کی جان اللہ کا نام لیے بغیر زائل ہو گئی ہو۔ ایسے جانور کی تین حالتیں ہو سکتی ہیں۔
(۱) اسے ذبح نہ کیا گیا ہو بلکہ کسی دوسرے طریقے سے اس کی موت واقع ہوئی ہو۔
(۲) اسے ذبح کیا گیا ہو لیکن غیر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
(۳) یا اس پر اللہ یا غیر اللہ، کسی کا نام نہ لیا گیا ہو۔ پہلی دونوں شکلوں میں بلا اختلاف اس کا گوشت حرام ہے۔ تیسری قسم مختلف فیہ ہے اور اس میں تین قول ملتے ہیں۔
(۱) وہ مطلق حرام ہے جیسا کہ آیت وَلاَ تَاْکُلُوْا … الخ کے عموم سے واضح ہوتا ہے جو تینوں شکلوں کو شامل ہے۔
(۲) مطلق حلال ہے۔ یہ امام شافعیؒ کا مسلک ہے ان کے نزدیک متروک التسمیہ ذبیحہ ہر صورت میں حلال ہے۔ تسمیہ کا ترک خواہ عمداً ہوا ہو یا نسیاناً، بشرطیکہ اسے اہل الذبح نے ذبح کیا ہو۔ امام موصوف آیت کے عموم کو المیتہ اور اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ والی آیات کے ساتھ خصوص میں تبدیل کرکے اس کی دلالت کو صرف اوّل الذکر دو شکلوں تک محدود کرتے ہیں۔ تیسری شکل کے جواز میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ ہر مومن کے دل میں ہر حالت میں اللہ کا ذکر موجود ہے۔ اس پر عدم ذکر کی کبھی حالت طاری نہیں ہوتی۔ اس لیے اس کا ذبیحہ بھی ہر صورت میں حلال ہے۔ اس کی حلّت اس وقت حرمت میں تبدیل ہو گی جب کہ ذبیحہ پر غیر اللہ کا نام لے لیا گیا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ذبیحہ بغیر تسمیہ کو فسق فرمایا ہے۔ بہرحال اہلِ اسلام کا اتفاق ہے کہ جس جانور کو مسلمان نے ذبح کیا ہو اور اس پر ذکر اللہ ترک کر دیا ہو اس کا گوشت کھانا فِسق کے حکم میں نہیں ہے۔ کیونکہ آدمی کسی اجتہادی حکم کی خلاف ورزی سے فسق کا مرتکب نہیں ہوتا۔ خلاصہ یہ کہ بِمَا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ کا اطلاق صرف پہلی دونوں شکلوں پر ہو گا۔ اس کی تائید اگلی آیت وَاِنَّ الشَّیَاطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰی اَوْلِیَآئِ ہِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ (شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں) سے بھی ہوتی ہے۔ کیونکہ اولیاء الشیاطین کا مجادلہ صرف دو مسئلوں پر تھا۔ پہلا مردار کے مسئلے پر تھا جس کے بارے میں وہ مسلمانوں پر یہ اعتراض کرتے تھے کہ جسے باز اور کُتا مارے اسے تم کھا لیتے ہو اور جسے اللہ مارے اسے نہیں کھاتے ہو۔ اور دوسرا جھگڑا غیر اللہ … یعنی بتوں وغیرہ … کے نام پر ذبح کرنے کے بارے میں کرتے تھے۔ اور مسلمانوں سے کہتے تھے تمھارا بھی خدا ہے اور ہمارے بھی خدا ہیں۔ تم اپنے خدا کے نام پر جو ذبح کرتے ہو ہم اسے کھا لیتے ہیں لیکن جسے ہم اپنے خدائوں کے نام پر ذبح کرتے ہیں تم اسے کیوںنہیں کھاتے ہو۔ چونکہ انھی دونوں مسئلوں پر ان کا مجادلہ تھا اس لیے وَلاَ تَاْکُلُوْا کی نہی انھی دونوں صورتوں کے لیے مخصوص ہے۔ نیز آیت کے اختتام میں اللہ کا ارشاد ہے: وان اطعتموہم انکم لمشرکون (اگر تم نے ان کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو گئے) اس ارشاد کی رو سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ اطاعت ِکفارو مشرکین متروک التسمیہ طعام کے کھا لینے سے نہیں ہو گی بلکہ مردار کو مباح ٹھہرانے اور بتوں پر جانوروں کی قربانی دینے اور ذبح کرنے سے ہو گی۔
(۳) تیسرا قول یہ ہے کہ اگر ذبح کرنے والے نے اللہ کا نام عمداً ترک کیا ہے تو اس کا ذبیحہ حرام ہے اور اگر اس سے سہواً ترک ہوا ہے تو ذبیحہ حلال ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کا یہی قول ہے۔ امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگرچہ آیت وَلاَ تَاْکُلُوْا میں تینوں شکلیں داخل ہیں اور تینوں کی حرمت ثابت ہوتی ہے لیکن سہواً متروک التسمیہ ذبیحہ اس آیت کے حکم سے دو وجوہ کی بنا پر خارج ہے۔ اولاً اس لیے کہ اِنَّہٗ لَفِسْقٌکی ضمیر لم یذکر اسم اللہ کی جانب راجع ہے۔ کیونکہ یہ قریب ہے اور ضمیر کو قریبی مرجع کی جانب لوٹانا اولیٰ ہے۔ پس بلاشبہ تسمیہ کو قصداً نظرانداز کرنے والا فاسق ہے۔ لیکن جو سہو کا شکار ہو گیا ہو وہ غیر مکلف ہے اور خارج از حکم ہے۔ اس لیے آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ جس جانور پر عمداً اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھائو اور ناسی خود بخود حکم سے مستثنیٰ قرار پائے گا۔ دوسری دلیل امام صاحب یہ دیتے ہیں کہ ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے دریافت کیا کہ اگر جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لینا بھول جائے تو اس کے گوشت کا کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا: اس کا گوشت کھا لو۔ اللہ کا نام ہر مومن کے دل میں موجود ہے۔
اُوْتُو الْکِتَابَ میں یہود اور نصاریٰ دونوں شامل ہیں۔ اس لیے بحکم آیت وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتَابَ یہود و نصاریٰ کے ذبائح ہمارے لیے حلال ہیں خواہ انھوں نے غیر اللہ کا نام لے کر ذبح کیے ہوں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اگر نصاریٰ مسیح کے نام پر جانور ذبح کریں تو اس کا گوشت کھانا ہمارے لیے حلال نہیں ہے۔ لیکن علما کی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ مسیح کے نام پر بھی ذبح کیا ہوا جانور حلال ہے۱؎۔ ایک بار امام شعبی اور عطا سے دریافت کیا گیا کہ اگر نصاریٰ مسیح کے نام پر ذبح کریں تو کیا اس جانور کا گوشت مسلمانوں کے لیے حلال ہے؟ تو ان دونوں نے جواب دیا کہ نصاریٰ کا ذبیحہ ہمارے لیے حلال ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نصاریٰ کے ذبائح کو ہمارے لیے جب حلال کیا ہے تو اس کے علم میں تھا کہ نصاریٰ بوقت ذبح کس کا نام لیں گے۔
تحقیق مسئلہ از مصنّف
علمائے عراق کے یہ دونوں فتوے کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ ان سے پہلے فضیلۃ الشیخ حسنین محمد مخلوف صاحب اور ان سے بھی پہلے مفتی محمد عبدہٗ اور علاّمہ رشید رضا تسمیہ اور تذکیہ کے بغیر نصاریٰ کے ذبیحوں کو حلال قرار دے چکے ہیں۔ اس معاملے میں ان سب حضرات کے دلائل قریب قریب یکساں ہیں۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم ان دلائل پر کوئی بحث کریں، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ یہ مسئلہ بجائے خود کیا ہے۔
حیوانی غذائوں کے متعلق قرآن کی عائد کردہ قیود
قرآن مجید میں گوشت کے استعمال پر جو حدود و قیود عائد کی گئی ہیں اور پھر احادیث صحیحہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی جو تشریحات فرمائی ہیں وہ حسب ذیل ہیں:-
وہ اشیا جن کا کھانا حرام ہے
اوّلین قید، جسے قرآن میں چار جگہ صاف صاف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے یہ ہے کہ مردار، خون، سؤر کا گوشت اور وہ جانور جسے اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو حرام ہے۔ یہ حکم مکّی سورتوں میں سے سورۂ انعام (آیت ۱۴۵) اور سورۂ نحل (آیت ۱۱۵) میں وارد ہوا ہے اور مدنی سورتوں میں سے سورۂ بقرہ (آیت ۱۷۳) اور سورۂ مائدہ (آیت ۳) میں اس کا اعادہ کیا گیا ہے۔
سورۂ مائدہ جو آخری احکامی سورہ ہے، اس پر دو باتوں کا مزید اضافہ کرتی ہے۔ اوّل یہ ہے کہ صرف وہی مردار حرام نہیں ہے جو طبعی موت مرا ہو بلکہ وہ جانور بھی حرام ہے جو گلا گُھٹ کر، یا چوٹ لگ کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو۔ دوم یہ کہ جو جانور مشرکین کی قربانِ گاہوں پر ذبح کیا جائے وہ بھی حرمت کے حکم میں مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ کے ساتھ شریک ہے خواہ اس پر غیر اللہ کا نام لیا جائے یا نہ لیا جائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان حرام اشیا میں گدھے اور کچلیوں والے درندوں اور پنجوں والے شکاری پرندوں کو بھی شامل فرمایا ہے جیسا کہ بکثرت احادیث ِصحیحہ سے ثابت ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو نیل الاوطار ، کتاب الاطعمہ و الصید و الذبائح)
ذبح کے لیے تذکیہ کی شرط
دوسری قید قرآن مجید یہ بیان کرتا ہے کہ صرف وہی جانور حلال ہے جس کا تذکیہ کیا گیا ہو۔ سورہ مائدہ میں ارشاد ہوا ہے:
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ وَالْمُنْخَنِقَۃُ وَالْمَوْقُوْذَۃُ وَالْمُتَرَدِّيَۃُ وَالنَّطِيْحَۃُ وَمَآ اَكَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ۝۰ۣ المائدہ 3:5
حرام کیا گیا تم پر مرا ہوا جانور …… اور گلا گھونٹا ہوا اور چوٹ کھایا ہوا اور گرا ہوا اور ٹکر کھایا ہوا اور جس کو درندے نے پھاڑا ہو، بجز اس کے جس کا تم نے تذکیہ کیا ہو۔
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جس جانور کی موت تذکیہ سے واقع ہو صرف وہی حرمت کے حکم سے مستثنیٰ ہے، باقی تما م وہ صورتیں جن میں تذکیہ کے بغیر موت واقع ہو جائے حرمت کا حکم ان سب پر جاری ہو گا۔ تذکیہ کے مفہوم کی کوئی تشریح قرآن میں نہیں کی گئی ہے اور نہ لغت اس کی صورت متعیّن کرنے میں کچھ زیادہ مدد کرتی ہے۔ اس لئے لامحالہ اس کے معنی متعیّن کرنے کے لیے ہم کو سنّت کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ سنّت میں اس کی دو شکلیں بیان کی گئی ہیں۔
ایک شکل یہ ہے کہ جانور ہمارے قابو میں نہیں ہے، مثلاً جنگلی جانور ہے جو بھاگ رہا ہے یا اُڑ رہا ہے یا وہ ہمارے قابو میں تو ہے مگر کسی وجہ سے ہم اس کو باقاعدہ ذبح کرنے کا موقع نہیں پاتے۔ اس صورت میں جانور کا تذکیہ یہ ہے کہ ہم کسی تیز چیز سے اس کے جسم کو اس طرح زخمی کر دیں کہ خون بہ جائے اور جانور کی موت ہمارے پیدا کردہ زخم کی وجہ سے خون بہنے کی بدولت واقع ہو۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس صورت کا حکم ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں۔ اُمْرُرِ الدَّمَ بِمَا شِئْتَ جس چیز سے چاہو خون بہا دو۔ (ابو دائود۔ نسائی)
دوسری شکل یہ ہے کہ جانور ہمارے قابو میں ہے اور ہم اس کو اپنی مرضی کے مطابق ذبح کر سکتے ہیں۔ اس صورت میں باقاعدہ تذکیہ کرنا ضروری ہے اور اس کا طریقہ سنّت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اونٹ اور اس کے مانند جانور کو نحر کیا جائے اور گائے بکری یا اس کے مانند جانوروں کو ذبح۔ نحر سے مراد یہ ہے کہ جانور کے حلقوم میں نیزے جیسی تیز چیز زور سے چبھوئی جائے تاکہ اس سے خون کا فوارہ چھوٹے اور خون بہ بہ کر جانور بالآخر بے دم ہو کر گر جائے۔ اونٹ ذبح کرنے کا یہ طریقہ عرب میں معروف تھا، قرآن میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے۔ (فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ) اور سنّتِ نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طریقے سے اونٹ ذبح کیا کرتے تھے۔ رہا ذبح تو اس کے متعلق احادیث میں حسب ذیل احکام وارد ہوئے ہیں:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ بَعَثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بُدَیْلَ بْنَ وَرْقَائَ الْخُزَاعِیَّ عَلٰی جَمَلٍ اَوْرَقٍ فِیْ فِجَاجِ مِنٰی اَلاَ اِنَّ الزَّکَاۃَ فِی الْحَلْقِ وَاللَّبَّۃِ وَلاَ تَعْجِلُوا الْاَنْفُسَ اَنْ تُزْھَقَ۔ (دارقطنی)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقع پر بدیل بن ورقاء خزاعی کو ایک خاکستری رنگ کے اونٹ پر بھیجا تاکہ منیٰ کے پہاڑی راستوں پر یہ اعلان کر دیں کہ ذبح کی جگہ حلق اور لبلبہ کے درمیان ہے ۱؎ اور ذبیحہ کی جان جلدی سے نہ نکال دو۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنِ الذَّبِیْحَۃِ اَنْ تُفْرَسَ (طبرانی)
ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ ذبح کرتے ہوئے آدمی نُخاع تک کاٹ ڈالے۔
اسی مضمون کی روایت امام محمد نے سعید بن المسیّب سے بھی مرسلاً روایت کی ہے جس کے الفاظ ہیں اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی اَنْ تُنْخَعَ الشَّاۃُ اِذَا ذُبِحَتْ ۲؎ ان احادیث کی بِنا پر اور عہد نبوی و عہد ِصحابہ کے معمول بہ عمل کی شہادتوں پر حنفیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک ذبح کے لیے حلقوم اور مَری (غذا کی نالی) کو اور مالکیہ کے نزدیک حلقوم اور ودجین (گردن کی رگوں) کو کاٹنا چاہیے۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ۔ ج ۱- ص ۷۲۵ تا ۷۳۰)
اضطراری اور اختیاری ذکات کی یہ تینوں صورتیں جو قرآن کے حکم کی تشریح کرتے ہوئے سنّت میں بتائی گئی ہیں اس امر میں مشترک ہیں کہ ان میں جانور کی موت یک لخت واقع نہیں ہوتی بلکہ اس کے دماغ اور جسم کا تعلق آخری سانس تک باقی رہتا ہے۔ تڑپنے اور پھڑپھڑانے سے اس کے ہر حصّہ جسم کا خون کھچ کر باہر آ جاتا ہے اور صرف سَیلان خون ہی اس کی موت کا موجب ہوتا ہے۔ اب چونکہ قرآن نے اپنے حکم کی خود کوئی تشریح نہیں کی ہے، اور صاحب ِقرآن سے اس کی یہی تشریح ثابت ہے، اس لیے ماننا پڑے گا کہ اِلاَّ مَا ذَکَّیْتُمْ سے یہی ذکات مراد ہے اور جس جانور کو یہ شرطِ ذکات پوری کیے بغیر ہلاک کیا گیا ہو وہ حلال نہیں ہے۔
ان صورتوں کے علاوہ قرآن مجید میں تذکیہ کی ایک اور شکل بھی بیان کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی جانور کو سدھائے ہوئے شکاری درندے نے مارا ہو بشرطیکہ یہ سدھایا ہوا درندہ اپنے مالک کے لیے شکار کو روک رکھے۔ اس صورت میں اگر جانور درندے کے پھاڑنے سے مر بھی جائے تو وہ مذ کی شمار ہوگا۔
وَمَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِيْنَ تُعَلِّمُوْنَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ اللہُ۝۰ۡفَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ المائدہ5:4
اور جن شکاری جانوروں کو تم سدھاتے ہو جنھیں تم شکار کی وہ تعلیم دیتے ہو جو اﷲ نے تمھیں سکھائی ہے وہ جس جانور کو تمھارے لیے روک رکھیں اس کا گوشت کھائو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم کی یہ تشریح فرماتے ہیں:
فَاِنْ اَمْسَکَ عَلَیْکَ فَاَدْرَکْتَہٗ حَیًّا فَاذْبَحْہُ وَاِنْ اَدْرَکْتَہٗ قَدْ قَتَلَ وَلَمْ یَاْکُلْ مِنْہُ فَکُلْہُ وَاِنْ اَکَلَ فَلاَ تَاْکُلْ۔ (بخاری۔ مسلم)
اگر وہ جانور کو تیرے لیے روک کر رکھے اور تو اسے زندہ پا لے تو ذبح کر۔ اور اگر جانور تجھے اس حالت میں ملے کہ تیرے کُتّے نے اسے ہلاک کر دیا ہو لیکن اس میں سے کچھ کھایا نہ ہو تو اسے کھا لے۔ لیکن اگر کُتّے نے کھایا ہو تو پھر اسے نہ کھا۔
وَاِنْ اَکَلَ مِنْہُ فَلاَ تَاْکُلْ فَاِنَّمَا اَمْسَکَ عَلٰی نَفْسِہٖ (بخاری، مسلم، احمد)
اگر کتے نے اس میں سے کچھ کھا لیا ہو تو اس جانور کو نہ کھا، کیونکہ اس نے وہ شکار اپنے لیے پکڑا تھا۔
وَمَا صَدْتَّ بِکَلْبِکَ غَیْر مُعَلَّمٍ فَاَدْرَکْتَ ذَکَاتَہ فَکُلْ (بخاری و مسلم)
اور جو شکار تو نے بے سدھے کُتّے سے کیا ہو اسے اگر زندہ پا کر تو نے ذبح کر لیا ہو تو اسے کھا لے۔
اس سے معلوم ہوا کہ سدھائے ہوئے شکاری درندے کا کسی جانور کو مالک کے لیے مارنا قرآن کی رو سے شرطِ ذکات پوری کر دیتا ہے اس لیے یہ مَا اَکَلَ السَّبُعُ کی حرمت سے خارج ہو کر اِلاَّ مَاذَکَّیْتُمْ کے حکم استثنا میں آ جاتا ہے لیکن قرآن یہ حکم صرف سدھائے ہوئے شکاری درندے ہی کے لیے بیان کرتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس حکم سے اس درندے کو بھی خارج کر دیتے ہیں جو پالا ہوا ہو مگر شکار کے لیے سدھا ہوا نہ ہو‘ لہٰذا اس پر کسی دوسری چیز کو قیاس کرکے اس کے چیرے پھاڑے ہوئے جانور کے جواز کا پہلو نہیں نکالا جا سکتا۔ حدیث کے یہ الفاظ کہ بے سدھے کُتّے کا مارا ہوا شکار اگر تو نے زندہ پا کر ذبح کر لیا ہو تو اسے کھا لے، اس امر کا قطعی فیصلہ کر دیتے ہیں کہ تذکیہ کے سوا جس دوسری صورت سے بھی کوئی جانور مرا ہو وہ مردار کے حکم میں ہے۔
ذبیحہ کی حلّت کے لیے تسمیہ کی شرط
تیسری قید قرآن میں یہ لگائی گئی ہے کہ جانور کو قتل کرنے کے وقت اس پر اللہ کا نام لیا جائے۔ اس حکم کو متعدد مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ ایجابی طور پر فرمایا گیا-
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ اِنْ كُنْتُمْ بِاٰيٰتِہٖ مُؤْمِنِيْنَo الانعام118:6
پس کھائو اس جانور کا گوشت جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو اگر تم اس کی آیات پر ایمان لانے والے ہو۔
سلبی طریقے سے فرمایا گیا:
وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ۝۰ۭ الانعام 121:6
اور نہ کھائو اس جانور کا گوشت جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یقیناً یہ (یعنی اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کرنا یا ایسے جانور کا گوشت کھانا) فسق ہے۔
سدھائے ہوئے درندوں کے ذریعے سے شکار کے معاملے میں بھی ہدایت فرما دی گئی:
فَكُلُوْا مِمَّآ اَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہِ۝۰۠ وَاتَّقُوا اللہَ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ سَرِيْعُ الْحِسَابِo المائدہ5:4
پس کھائو اس جانور کا گوشت جسے وہ تمھارے لیے روک رکھیں اور اس پر اللہ کا نام ۱؎ لو اور اللہ سے ڈرو وہ جلدی حساب لینے والا ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن بہت سے مقامات پر لفظ ذبح استعمال ہی نہیں کرتا بلکہ اس کی جگہ ’’جانور پر اللہ کا نام لینے‘‘ کے الفاظ بطور اصطلاح استعمال کرتا ہے-
لِّيَشْہَدُوْا مَنَافِعَ لَہُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۝۰ۚ الحج28:22
تاکہ وہ اپنے لیے فائدے دیکھیں اور چند مخصوص دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انھیں بخشے ہیں (یعنی ان کو ذبح کریں)
وَلِكُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلٰي مَا رَزَقَہُمْ مِّنْۢ بَہِيْمَۃِ الْاَنْعَامِ۝۰ۭ
الحج 34:22
ہر اُمت کے لیے ہم نے ایک قربانی مقرر کی ہے تاکہ وہ اللہ کا نام لیں ان مویشی جانوروں پر جو اس نے ان کو بخشے ہیں (یعنی ان کو ذبح کریں)
فَاذْكُرُوا اسْمَ اللہِ عَلَيْہَا صَوَاۗفَّ۝۰ۚ الحج36:22
پس ان اونٹوں پر اللہ کا نام لوکھڑا کرکے (یعنی انھیں نحر کرو)
فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ الانعام118:6
پس کھائو اس میں سے جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ (یعنی جسے اللہ کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہو)
وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ الانعام121:6
اور نہ کھائو اس میں سے جس پر نہیں لیا گیا اللہ کا نام (یعنی جسے اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کیا گیا ہو)
ذبح کے لیے تسمیہ کی اصطلاح کا یہ مسلسل اور پے در پے استعمال اس امر کی صریح دلیل ہے کہ قرآن کی نگاہ میں ذبیحہ اور تسمیہ ہم معنی ہیں، کسی ذبیحہ حلال کا تصوّر تسمیہ کے بغیر نہیں کیا جا سکتا اور تسمیہ ذبیحہ حلال کی عین حقیقت میں شامل ہے۔
اب دیکھیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جو روایات صحیح اور قوی سندوں کے ساتھ ہم تک پہنچی ہیں وہ ذبح کے لیے تسمیہ کی شرعی حیثیت کیا ظاہر کرتی ہیں۔ حاتم طائی کے صاحب زادے عدی بن حاتم وہ شخص ہیں جنھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اکثر شکار کے مسائل پوچھے ہیں۔ ان کو حضورؐ نے جو احکام اس سلسلے میں بتائے وہ یہ ہیں۔
اِذَا اَرْسَلْتَ کَلْبَکَ فَاذْکُرِ اسْمَ اللّٰہَ فَاِنْ اَمْسَکَ عَلَیْکَ فَاَدْرَکْتَہٗ حَیًّا فَاذْبَحْہُ وَاِنْ اَدْرَکْتَہٗ قَدْ قَتَلَ وَلَمْ یَاْکُلْ مِنْہُ فَکُلُہُ … وَاِذَا رَمَیْتَ سَہْمَکَ فَاذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ (بخاری و مسلم)
جب تم شکار پر اپنا کتا چھوڑنے لگو تو اللہ کا نام لے لو، پھر اگر کتا اس جانور کو تمھارے لیے روک رکھے اور تم اسے زندہ پا لو تو ذبح کر لیا کرو اور اگر تم اسے اس حال میں پائو کہ کتے نے اسے مار ڈالا ہے مگر اس میں سے کچھ کھایا نہیں ہے تو تم اسے کھا سکتے ہو … اور شکار پر تیر چھوڑتے وقت بھی اللہ کا نام لے لو۔
وَمَا صَدْتَّ بِقَوْسِکَ فَذَکَرْتَ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ فَکُلْ وَمَا صَدْتَّ بِکَلْبِکَ الْمُعَلَّمِ فَذَکَرْتَ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ فَکُلْ۔
جس جانور کا شکار تم نے تیر کمان سے کیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لے لیا ہو اسے کھا لو اور جس کا شکار تم نے سدھے ہوئے کُتّے کے ذریعے سے کیا ہو اور اس پر اللہ کا نام لے لیا ہو اسے بھی کھا لو۔
اُمْرُرِ الدَّمَ بِمَ شِئْتَ وَاذْکُرِ اسْمَ اللّٰہِ (ابو دائود، نسائی)
خون بہا دو جس چیز سے چاہو اور اللہ کا نام لے لو۔
مَا عَلَّمْتَ مِنْ کَلْبٍ اَوْ بَازٍ ثُمَّ اَرْسَلْتَہٗ وَذَکَرْتَ اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ فَکُلْ مِمَّا اَمْسَکَ عَلَیْکَ۔ (ابو دائود۔ احمد)
جو کتا یا باز تمھارا سدھایا ہوا ہو پھر تم اسے شکار پر چھوڑ و اور چھوڑتے وقت اللہ کا نام لے لو تو جس جانور کو وہ تمھارے لیے روک رکھے اس کا گوشت تم کھا سکتے ہو۔
عدی بنِ حاتم کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اگر میں خدا کا نام لے کر اپنا کُتا چھوڑوں، پھر جب شکار کے پاس پہنچوں تو وہاں ایک اور کُتا بھی کھڑا نظر آئے اور پتہ نہ چل سکے کہ دونوں میں سے کس نے یہ شکار مارا ہے تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ فرمایا:
فَلَا تَاْکُلْ فَاِنَّمَا سَمَّیْتَ عَلٰی کَلْبِکَ وَلَمْ تُسَمِّ عَلٰی غَیْرِہٖ۔ (بخاری، مسلم، احمد)
اسے نہ کھائو کیونکہ تم نے اﷲ کا نام اپنے کُتّے پر لیا تھا، دوسرے کُتّے پر تو نہیں لیا تھا۔
خدا اور رسول ؐ کے ان صاف اور قطعی احکام کے بعد اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی کہ شریعت میں ذبیحہ کی حلّت کے لیے تسمیہ شرط ہے اور جس جانور کو اللہ کا نام لیے بغیر مارا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے۔ اگر ایسی صریح آیات اور احادیث سے بھی کوئی حکم ثابت نہ ہوتا تو پھر ہمیں بتایا جائے کہ آخر کسی حکم کے ثبوت کے لیے کس قسم کی نصّ درکار ہے؟
تسمیہ کے بارے میں فقہا کے مسالک
مذاہب فقہ میں سے حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ اس پر متفق ہیں کہ جس جانور پر قصداً خدا کا نام لینے سے احتراز کیا گیا ہو اس کا کھانا حرام ہے، البتہ اگر بھولے سے تسمیہ چھوٹ گیا ہو تو مضائقہ نہیں ہے۔ حضرت علیؓ، ابن عباسؓ، سعید بن المسیّبؓ، زہری، عطاء، طائوس، مجاہد، حسن بصری ، ابومالک ، عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ، جعفر بن محمد اور رَبِیْعَہ بن ابی عبدالرحمان کا بھی یہی مسلک منقول ہے۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ تسمیہ عمداً چھوٹا ہو یا بھولے سے ، دونوں صورتوں میں ذبیحہ حرام ہو جائے گا۔ ابنِ عمر، نافع، شعبی اور محمد بن سیرین کی یہی رائے ہے اور اسی کو ابوثَور اور دائود ظاہری نے اختیار کیا ہے۔ ابراہیم نخعی سہواً چھوٹ جانے پر جانور کو مکروہ تحریمی سمجھتے ہیں۔
امام شافعیؒ کا مسلک یہ ہے کہ ذبیحہ کی حلّت کے لیے تسمیہ سرے سے شرط ہی نہیں ہے۔ ذبح کے وقت خدا کا نام لینا ایک مشروع اور مسنون طریقہ تو ضرور ہے، تاہم اگر نہ لیا جائے خواہ قصداً یا سہواً، دونوں صورتوں میں ذبیحہ حلال ہو گا۔ صحابہ میں سے حضرت ابوہریرہؓ اور مجتہدین میں سے امام اَوزاعی کے سوا کسی کا یہ مسلک نہ تھا۔ اگرچہ بعض روایات میں ابن عباس، عطاء بن ابی رباح، امام احمد اور امام مالک کی طرف بھی یہ رائے منسوب کی گئی ہے لیکن ان کا ثابت شدہ مسلک اس کے خلاف ہے۔
عدم وجوب تسمیہ کے بارے میں شافعیہ کے دلائل اور ان کی کمزوری
اس رائے کے حق میں شافعیہ کی پہلی دلیل یہ ہے کہ آیت لَا تَاْکُلُوْا مِمَّالَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ میں وائو کو عطف کے معنی میں لینا بلاغت کے خلاف ہے کیونکہ آیت کا پہلا ٹکڑا جملہ فعلیہ انشائیہ ہے اور دوسرا اسمیہ خبریہ۔ ایسے دو مختلف جملوں کے درمیان عطف درست نہیں ہو سکتا۔ اس دلیل سے وہ اس وائو کو حالیہ قرار دے کر معنی یہ کرتے ہیں کہ ’’نہ کھائو اس جانور میں سے جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس حال میں کہ وہ فسق ہو۔‘‘ پھر اس فسق کی تشریح وہ سورۂ انعام کی آیت ۱۴۵ سے کرتے ہیں جس میں ارشاد ہوا ہے کہ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ (یا وہ فسق ہو کہ اللہ کے سوا دوسرے کا نام اس پر لیا گیا ہو) اس طرح وہ آیت کا مطلب یہ بنا دیتے ہیں کہ صرف غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا گوشت ہی حرام ہے۔ اللہ کا نام نہ لینے سے کوئی حرمت واقع نہیں ہوتی۔
لیکن یہ ایک بہت ہی کمزور تاویل ہے جس پر متعدد قوی اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔
اولاً، آیت کے متبادر معنی ہرگز وہ نہیں ہیں جو اس تاویل سے بنائے گئے ہیں۔ آیت کو پڑھ کر اس معنی کی طرف ذہن خودبخود منتقل نہیںہوتا، البتہ اگر آدمی پہلے یہ ارادہ کر لے کہ تسمیہ کے بغیر ذبح کیے ہوئے جانور کو حلال قرار دینا ہے تب بہ تکلف اس آیت کے یہ معنی بنا سکتا ہے۔
ثانیاً، جملہ فعلیہ انشائیہ پر جملہ اسمیہ خبریہ کا عطف اگر بلاغت کے خلاف ہے تو حالیہ فقرے میں اِنَّ اور لامِ تاکید کا استعمال ہی کون سا بلاغت کے مطابق ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کو وہی بات کہنی ہوتی جو شوافع کہتے ہیں تو وَہُوَ فِسْق (اس حال میں کہ وہ فسق ہو) فرماتا، نہ کہ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ (اس حال میں کہ یقیناً وہ ضرور فسق ہو)
ثالثاً،استدلال کے جوش میں جملہ فعلیہ انشائیہ پر خبر یہ کے عطف کو بلاغت کے خلاف کہتے ہوئے ان حضرات کو پوری آیت بھی یاد نہ رہی۔ پوری آیت یہ ہے:
وَلَاتَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللہِ عَلَيْہِ وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ۝۰ۭ وَاِنَّ الشَّيٰطِيْنَ لَيُوْحُوْنَ اِلٰٓي اَوْلِيٰۗـــِٕــہِمْ لِيُجَادِلُوْكُمْ۝۰ۚ وَاِنْ اَطَعْتُمُوْہُمْ اِنَّكُمْ لَمُشْرِكُوْنَo اس آیت میں اگر وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ کے واو کو حالیہ مان بھی لیا جائے تو جملہ فعلیہ انشائیہ پر اسمیہ خبریہ کے عطف سے پیچھا نہیں چھوٹتا، کیونکہ اس کے بعد کا فقرہ لا محالہ خبر یہ ہے جسے کسی طرح بھی حالیہ نہیں بنایا جا سکتا، اور اس کا عطف لا محالہ جملہ انشائیہ پر پڑ رہا ہے۔ پھر قرآن میں اس طرزِ کلام کی یہی ایک مثال نہیں ہے۔ بکثرت مقامات پر اسی طرح فعلیہ انشائیہ پر اسمیہ خبریہ کو معطوف کیا گیا ہے مثلاً فَاجْلِدُوْہُمْ ثَمٰنِيْنَ جَلْدَۃً وَّلَا تَــقْبَلُوْا لَہُمْ شَہَادَۃً اَبَدًا۝۰ۚ وَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَo النور24:4 وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى يُؤْمِنَّ۝۰ۭ وَلَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَۃٍ وَّلَوْ اَعْجَبَـتْكُمْ۝۰ۚ وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا۝۰ۭ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّلَوْ اَعْجَبَكُمْ۝۰ۭ البقرہ221:2 اب یا تو اپنے بلاغت کے اصولوں پر نظرثانی کر لیجیے یا پھر کھل کر کہہ دیجیے کہ قرآن کا کلام بلاغت کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ ہر جگہ جہاں قرآن میں جملہ فعلیہ انشائیہ اور جملہ اسمیہ خبریہ کے درمیان واو ہے وہاں عاطفہ کو حالیہ بنانا ممکن نہیں ہے۔
رابعاً اس تاویل سے آیت کے معنی یہ بنتے ہیں کہ نہ کھائو اس جانور میں سے جس پر نہ لیا گیا ہو اللہ کا نام اس حال میں کہ یقیناً وہ ضرور فسق ہو کہ لیا گیا ہو اس پر غیر اللہ کا نام۔ سوال یہ ہے کہ اگر اصل مقصود صرف اس جانور کو حرام کرنا تھا جسے غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو تو کیا آیت کا پہلا حصّہ بالکل مہمل، فضول اور لا یعنی نہیں ہو گیا؟ اس صورت میں یہ کہنے کے تو سرے سے کوئی معنی ہی نہیں رہتے کہ جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس میں سے نہ کھائو۔ اس کے بجائے مدعا صرف یہ کہنے سے حاصل ہو جاتا ہے کہ ’’نہ کھائو اس جانور میں سے جس پر لیا گیا ہو اللہ کے سوا کسی اور کا نام‘‘ … کیا کوئی صاحب عقل آدمی اس بات کی کوئی معقول توجیہہ کر سکتا ہے کہ آخر یہاں لَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ کہنے کی حاجت ہی کیا تھی؟
خامسا ً، اگر واو کو حالیہ بھی مان لیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم وَاِنَّہٗ لَفِسْقٌ کی تفسیر ایک دور دراز کی آیت کے الفاظ اَوْ فِسْقًا اُہِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ سے کریں۔ آخر کیوں نہ ہم اس آیت کے لفظ فسق کو اسی معنی میں لیں جو ازروئے لغت اس کے معنی ہیں، یعنی نافرمانی اور خروج ازطاعت۔ اس صورت میں آیت کا سیدھا سادھا مفہوم یہ ہو گا کہ نہ کھائو اس جانور کا گوشت جس کو ذبح کرتے ہوئے اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اس حالت میں جب کہ وہ فسق ہو (یعنی جب کہ جان بوجھ کر اللہ کا نام لینے سے احتراز کیا گیا ہو، اس لیے کہ فسق کا اطلاق حکم کی دانستہ خلاف ورزی پر ہی ہوتا ہے نہ کہ سہواً چھوٹ جانے پر) یہ تاویل شافعیہ کی تاویل کے مقابلے میں زیادہ قابلِ ترجیح ہے کیونکہ ایک طرف تو یہ ان تمام آیات اور احادیث سے مطابقت رکھتی ہے جو اس مسئلے کے متعلق وارد ہوئی ہیں اور دوسری طرف یہ تاویل اختیار کرنے سے آیت کا ایک پورا فقرہ (وَلَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ ) بے معنی ہو نے سے بچ جاتا ہے۔
دوسری دلیل حضرات شافعیہ یہ دیتے ہیں کہ ایک گروہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا تھا کہ کچھ لوگ (جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے) باہر سے ہماری بستی میں گوشت بیچنے آتے ہیں۔ ہمیں کچھ پتہ نہیں کہ وہ جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں۔ کیا ہم یہ گوشت کھا سکتے ہیں؟ حضورؐ نے اس کے جواب میں فرمایا: سَمُّوْا عَلَیْہِ اَنْتُمْ وَکُلُوْا۔تم خود ہی اس پر اللہ کا نام لے لیا کرو اور کھائو۔ (یہ روایت بخاری، ابودائود، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہؓ سے مروی ہے) اس سے شافعیہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ تسمیہ واجب نہیں۔ کیونکہ اگر یہ واجب ہوتا تو حضورؐ شک کی حالت میں اس گوشت کے کھانے کی اجازت نہ دیتے۔ حالانکہ دراصل یہ حدیث ان کے مدعا کے خلاف پڑتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تسمیہ کا واجب ہونا عہد نبوی میں مسلمانوں کے درمیان ایک معلوم و معروف مسئلہ تھا۔ اسی وجہ سے تو لوگ اس گوشت کے متعلق پوچھنے آئے جو نئے نئے مسلمان ہونے والے دیہاتی کاٹ کر لاتے تھے۔ ورنہ یہ سوال پیدا ہی کیوں ہوتا اور پوچھنے کا تکلف ہی کیوں کیا جاتا۔ پھر ان کے سوال کا جو جواب حضورؐ نے دیا وہ بھی اس خیال کی توثیق کرنے والا تھا۔ اگر ان لوگوں کا یہ خیال صحیح نہ ہوتا اور گوشت کے حلال یا حرام ہونے میں تسمیہ اور عدمِ تسمیہ کا درحقیقت کوئی اثر نہ ہوتا تو حضورؐ صاف صاف ان سے یہی فرما دیتے کہ ذبیحہ کی حلّت کے لیے تسمیہ شرط نہیں ہے، تم لوگ ہر قسم کا گوشت کھا لیا کرو خواہ ذبح کے وقت خدا کا نام لیا گیا ہو یا نہ لیا گیا ہو۔ لیکن اس کے بجائے حضورؐ نے فرمایا تو یہ کہ تم خود خدا کا نام لے کر کھا لیا کرو۔ اس کا معقول مطلب جو بہ ادنیٰ تامّل آدمی کی سمجھ میں آ جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اوّل تو مسلمان کے ذبح کیے ہوئے گوشت کے متعلق تمھیں یہی سمجھنا چاہیے کہ وہ قاعدے کے مطابق ٹھیک ذبح کیا گیا ہو گا اور اطمینان کے ساتھ اسے کھا لینا چاہیے، لیکن اگر تمھارے دل میں کوئی شک رہ ہی جاتا ہے تو رفعِ وسواس کے لیے خود بسم اللہ کہہ لیا کرو۔ ظاہر ہے کہ مسلمان کے ہر ذبیحے کے متعلق جو شہروں اور دیہات کی دکانوں پر ملتا ہے، آدمی کہاں یہ تحقیق کرتا پھر سکتا ہے، اور شریعت کب اس کو اس تحقیق کا مکلف کرتی ہے کہ اس نے حلال جانور کاٹا ہے یا حرام، تذکیہ کیا ہے یا نہیں، اور وہ نیا مسلمان ہے یا پرانا، تمام قواعد شریعہ سے واقف ہے یا نہیں۔ بادی النظر میں آدمی کو مسلمان کی ہر چیز کو صحیح ہی سمجھنا چاہیے۔ الایہ کہ اس کے غلط ہونے کا کوئی ثبوت سامنے آ جائے۔ ثبوت کے بغیر جو شک دل میں پیدا ہوا اُسے وجہ اجتناب بنانے کے بجائے اس طرح کے شکوک کو بسم اللہ یا استغفر اللہ کہہ کر دفع کر دینا چاہیے۔ یہ تعلیم ہے جو اس حدیث سے ملتی ہے۔ تسمیہ کے عدم وجوب کی کوئی دلیل اس میں نہیں ہے۔
ایسا ہی کمزور استدلال وہ ایک تابعی بزرگ کی اس مرسل روایت سے کرتے ہیں جسے ابودائود نے مراسیل میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذَبِیْحَۃُ الْمُسْلِمِ حَلَالٌ ذَکَرَ اسْمَ اللّٰہِ اَوَلَمْ یَذْکُرْ اِنَّہٗ اِنْ ذَکَرَ لَمْ یَذْکُرُ اِلاَّ اسْمَ اللہِ ۔مسلمان کا ذبیحہ حلال ہے خواہ اس نے اللہ کا نام لیا ہو یا نہ لیا ہو، وہ نام لے گا بھی تو ظاہر ہے کہ اللہ ہی کا لے گا۔ یہ حدیث اوّل تو ایک غیر معروف تابعی کی مرسل روایت ہے جس کا یہ وزن کبھی نہیں ہو سکتا کہ متعدد آیات اور مرفوع متصل احادیث سے جس چیز کا وجوب ثابت ہو رہا ہو اسے یہ غیر واجب ثابت کر سکے۔ پھر دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ روایت قطعی صحیح بھی ہو تو کیا واقعی اس سے تسمیہ کا عدم وجوب ظاہر ہوتا ہے؟ زیادہ سے زیادہ جو بات اس سے ظاہر ہوتی ہے وہ تو بس یہ ہے کہ کوئی مسلمان اگر خدا کا نام لیے بغیر جانور ذبح کر بیٹھا ہو تو اسے عمداً ترکِ تسمیہ پر محمول کرنے کے بجائے نسیان پر محمول کیا جائے، اور یہ سمجھا جائے کہ اگر وہ نام لیتا تو اللہ ہی کا لیتا غیر اللہ کا نہ لیتا اور اس بنا پر اس کے ذبیحہ کو حلال سمجھ کر کھا لیا جائے۔ اس سے یہ مضمون کہاں نکلتا ہے کہ جو لوگ ذبیحہ پر خدا کا نام لینے کے سرے سے قائل ہی نہ ہوں اور جن کا نظریہ ہی اس کے خلاف ہو، ان کا ذبیحہ بھی حلال ہے اور سرے سے ذبیحہ پر خدا کا نام لینا ہی ضروری نہیں ہے۔ اس حدیث کے الفاظ کو چاہے کتنا ہی کھینچا اور تانا جائے، اس میں اس مفہوم کی گنجائش نہیں نکلتی۔
یہ ہے کل کائنات ان دلائل کی جو فقہائے شافعیہ تسمیہ کے غیر واجب ہونے پر لاتے ہیں۔ کوئی شخص تقلید کی قسم کھا کر بیٹھ گیا ہو تو ممکن ہے کہ وہ انھیں اٹل دلائل سمجھے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ جو شخص ان کا تنقیدی جائزہ لے وہ کبھی یہ محسوس کیے بغیر رہ سکتا ہے کہ وجوبِ تسمیہ کے دلائل کے مقابلے میں یہ کس قدر بے وزن دلائل ہیں۔
پس جانوروں کے گوشت کی حلّت کے بارے میں جو شرائط قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں وہ یہ ہیں کہ:
(۱) وہ ان اشیا میں سے نہ ہو جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے فی نفسہٖ حرام قرار دیا ہے۔
(۲) ان کا تذکیہ کیا گیا ہو، اور
(۳) ان کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا گیا ہو۔
جس گوشت میں یہ تینوں شرائط پوری نہ ہوتی ہوں وہ طیّبات سے خارج اور ان خبائث میں داخل ہے جن کا استعمال اہلِ ایمان کے لیے جائز نہیں ہے۔
ذبیحہ اہلِ کتاب کا مسئلہ
اب دیکھنا چاہیے کہ خاص طور پر ذبائح اہلِ کتاب کے بارے میں قرآن و سنّت سے کیا حکم ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے۔
اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ۝۰ۭ وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ۝۰۠ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّہُمْ۝۰ۡ المائدہ5:5
آج تمھارے لیے طیبات حلال کر دیئے گئے اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے ان کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا ان کے لیے حلال۔
اس آیت کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ اہلِ کتاب کے دستر خوان پر جو کھانا ہمارے لیے حلال کیا گیا ہے وہ لازماً صرف وہی ہے جو طیبات میں سے ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے اور نہیں ہو سکتا کہ جو چیزیں ہمارے لیے قرآن و احادیث صحیحہ کی رُو سے خبائث ہیں، جن کو ہم اپنے گھر میں یا کسی مسلمان کے گھر میں نہ خود کھا سکتے ہیں نہ کسی دوسرے کو کھلا سکتے ہیں، وہی چیزیں جب عیسائی یا یہودی کے دستر خوان پر ہمارے سامنے رکھی جائیں تو وہ ہمارے لیے حلال ہو جائیں۔ اس سیدھی اور صاف تاویل کو چھوڑ کر اگر کوئی شخص دوسری تاویلیں کرنا چاہے تو زیادہ سے زیادہ چار باتیں کہہ سکتا ہے۔
ایک یہ کہ اس آیت نے تمام ان آیات کو منسوخ کر دیا جو گوشت کی حلّت و حرمت کے متعلق سورۂ نحل، انعام، بقرہ اور خود اس سورۂ مائدہ میں وارد ہوئی ہیں۔ یعنی بالفاظ دیگر یہ کہ ایک ایسی آیت قرآن میں آ گئی ہے جس نے جھٹکے ہی کو نہیں مردار، سؤر، خون، نذر لغیر اللہ، سب کو مطلقاً حلال کر دیا۔ مگر اس نسخ کے لیے کوئی دلیل، عقلی یا نقلی قیامت تک پیش نہیں کی جا سکتی۔ سب سے زیادہ کھلا ہوا ثبوت اس دعوے کی لغویت کا یہ ہے کہ گوشت کے بارے میں وہ تینوں قیود جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے خود اسی سورۂ مائدہ میں، اسی سلسلہ کلام میں، اس آیت سے بالکل متصل بیان کی گئی ہیں۔ کون صاحب ِعقل یہ کہہ سکتا ہے کہ ایک عبارت کے تین مسلسل و متصل فقروں میں سے آخری فقرہ پہلے دو کانا سخ ہوا کرتا ہے۔
دوسری تاویل یہ کی جا سکتی ہے کہ اس آیت نے صرف تذکیہ اور تسمیہ کے احکام کو منسوخ کیا ہے، سؤر اور مردار اور خون اور مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ کی حرمت کا حکم منسوخ نہیں کیا۔ مگر ہمیں نہیں معلوم کہ ان دونوں قسم کے احکام میں تفریق کے لیے اور ان میں سے ایک کے نسخ اور دوسرے کے بقا کے لیے بجز ایک خالی خولی ادعاء کے کوئی دلیل بھی کسی کے پاس ہے۔ اگر دلیل کوئی صاحب رکھتے ہوں تو بسم اللہ وہ اسے پیش فرمائیں۔
تیسری تاویل یہ کی جا سکتی ہے کہ اس آیت نے مسلمانوں کے دستر خوان اور اہلِ کتاب کے دستر خوان میں فرق کر دیا ہے۔ مسلمان کے دستر خوان پر تو کھانے پینے کے معاملے میں وہ تمام قیود باقی رہیں گی جو قرآن میں مختلف مقامات پر بیان کی گئی ہیں، لیکن اہلِ کتاب کے دستر خوان پر وہ سب ختم ہو جائیں گی اور ہمیں آزادی ہو گی کہ جو کچھ بھی وہ ہمارے سامنے لا رکھیں اسے ہم کھالیں۔ اس تاویل کے حق میں بڑی سے بڑی دلیل جو دی جا سکتی ہے وہ صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اہلِ کتاب کیا کچھ کھاتے ہیں، پس جب یہ جانتے ہوئے اس نے ہمیں ان کے ہاں کھانے کی اجازت دی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ بھی وہ کھاتے ہیں وہ سب ہم ان کے ہاں کھا سکتے ہیں خواہ وہ سؤر ہو یا مردار یا غیر اللہ کے نام کی قربانی یا جھٹکا۔ لیکن اس استدلال کی جڑ خود وہی آیت کاٹ دیتی ہے جس سے یہ دلیل نکالی گئی ہے۔ اس میں صاف کہا گیا ہے کہ اہلِ کتاب کے ہاں تم صرف طیّبات کھا سکتے ہو، اور طیبات کے لفظ کو مبہم بھی نہیں رہنے دیا گیا ہے بلکہ اس سے پہلے دو مفصل آیتوں میں کھول کر بتایا جا چکا ہے کہ طیبات کیا ہیں۔
چوتھی تاویل یہ ہو سکتی ہے کہ اہلِ کتاب کے ہاں بس سؤر نہیں کھایا جا سکتا۔ باقی سب کچھ کھایا جا سکتا ہے۔ یا سور، مردار، خون اور مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ تو ہم نہیں کھا سکتے مگر تذکیہ اور تسمیہ کے بغیر جو گوشت فراہم کیا گیا ہو اسے ہم کھا سکتے ہیں۔ مگر تاویل نمبر ۲ کی طرح یہ بھی محض ایک بے دلیل دعویٰ ہے۔ کوئی معقول یا منقول دلیل اس معاملے میں پیش نہیں کی جا سکتی کہ قرآن کے احکام میں یہ فرق کس بنا پر کیا گیا ہے اور اہلِ کتاب کے دستر خوان پر ایک حکم کیوں باقی رہتا ہے اور دوسرے کیوں مرتفع ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ تفریق اور یہ استثنا قرآن سے ماخوذ ہے تو بتایا جائے کہ کس جگہ سے ماخوذ ہے۔ اگر حدیث سے نکالا گیا ہے تو معلوم ہو کہ کس حدیث سے اور اگر کوئی عقلی دلیل اس کی بنیاد ہے تو وہی سامنے لے آئی جائے۔
ذبیحہ اہلِ کتاب کے معاملے میں فقہا کے مسالک
اس مسئلے میں حنفیہ اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ اہلِ کتاب کے دستر خوان پر بھی ہمارے لیے کھانے پینے کے معاملے میں وہی قیود ہیں جو خود اپنے گھر میں کھانے کے لیے قرآن و سنّت میں بیان کی گئی ہیں۔ تذکیہ اور تسمیہ کے بغیر ہم کوئی گوشت نہ اپنے ہاں کھا سکتے ہیں نہ یہود و نصاریٰ کے ہاں۔ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ‘ جلد اوّل صفحہ ۷۲۶-۷۳۰)
شافعیہ کہتے ہیں کہ یہودی اور نصرانی اگر غیر اللہ کے نام پر ذبح کریں تو اس کا کھانا حرام ہے، لیکن اگر وہ اللہ کا نام لیے بغیر ذبح کریں تو ان کا ذبیحہ ہم کھا سکتے ہیں، کیونکہ تسمیہ سرے سے واجب ہی نہیں ہے، نہ مسلم کے لیے نہ کتابی کے لیے (کتاب مذکور، جلد دوم ص ۲۳) اس مسلک کی کمزوری ہم اوپر واضح کر چکے ہیں۔ اس لیے اس پر بحث کی حاجت نہیں۔
مالکیہ اگرچہ ذبیحہ کی حِلّت کے لیے تسمیہ کو شرط مانتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ اہلِ کتاب کے لیے یہ شرط نہیں ہے، ان کا ذبیحہ خدا کا نام لیے بغیر بھی حلال ہے (کتاب مذکور، جلد دوم، ص ۲۲) اس کے حق میں صرف یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے موقع پر یہودی عورت کا بھیجا ہوا گوشت کھا لیا تھا اور یہ نہیں پوچھا تھا کہ وہ خدا کا نام لے کر ذبح کیا گیا ہے یا نہیں۔ لیکن یہ واقعہ تسمیہ کے حکم سے اہلِ کتاب کے استثنا کی دلیل اگر بن سکتا تھا تو صرف اس صورت میں جب کہ یہ بات ثابت ہوتی کہ اس زمانے میں عرب کے یہودی اللہ کا نام لئے بغیر ذبح کرتے تھے اور پھر بھی حضورؐ نے اس امر سے واقف ہوتے ہوئے ان کا ذبیحہ نوش فرما لیا۔ محض اتنی سی بات کہ آپؐ نے وہ گوشت تناول فرماتے وقت تسمیہ اور عدمِ تسمیہ کے متعلق کچھ دریافت نہیں فرمایا، وجوب تسمیہ کے حکم سے اہلِ کتاب کے مستثنیٰ ہونے کی دلیل نہیں بن سکتی۔ ممکن ہے کہ حضورؐ کو اپنے زمانے کے یہودیوں کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ اللہ کا نام لے کر ہی ذبح کرتے ہیں، اس لیے آپ نے بلا تامّل ان کا لایا ہوا گوشت کھا لیا ہو۔
ابن عباس کا قول یہ تھا کہ آیت طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ نے آیت لاَ تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ کو منسوخ کر دیا اور اہلِ کتاب اس حکم سے مستثنیٰ کر دیئے گئے (ابو دائود، کتاب الاضاحی) لیکن یہ ابن عباسؓ کی ذاتی تاویل ہے، کوئی حدیث مرفوع نہیں ہے۔ اور ابن عباسؓ بھی اس رائے میں منفرد ہیں۔ کوئی دوسرا صحابی اس تاویل و تفسیر میں ان کا ہم خیال نہیں ہے۔ پھر کوئی معقول وجہ بھی انھوں نے اس بات کی بیان نہیں کی ہے کہ اس آیت نے اُس آیت کو کیوں منسوخ کر دیا، اور صرف اسی آیت کو منسوخ کرکے کیوں رہ گئی، کھانے پینے کے متعلق باقی ساری قیود کو بھی اس نے کیوں نہ منسوخ کر ڈالا۔
عطا اور اَوزاعی اور مکحول اور لَیث بن سعد کا مسلک یہ تھا کہ اس آیت نے مَا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ کو حلال کر دیا ہے۔ عطا کہتے ہیں کہ اہلِ کتاب کے ہاں ہم غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا گوشت کھا سکتے ہیں۔ اَوزاعی کہتے ہیں کہ اگر تم اپنے کان سے بھی سن لو کہ عیسائی نے مسیح کے نام پر کُتا چھوڑا ہے تب بھی اس کا مارا ہوا شکار کھا لو۔ مکحول کہتے ہیں کہ اپنے کنیسوں اور اپنی مذہبی تقریبات کے لیے اہلِ کتاب جو قربانیاں کریں ان کے کھانے میں مضائقہ نہیں ہے۔ (احکام القرآن للجصّاص ج ۲ ص ۳۹۵) مگر اتنی بڑی بات کی دلیل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ اہلِ کتاب غیر اللہ کے نام کی قربانیاں کرتے ہیں اور پھر بھی اس نے فرما دیا کہ اہلِ کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کو تو یہ بھی معلوم تھا کہ اہلِ کتاب میں سے نصاریٰ سؤر کھاتے ہیں اور شراب پیتے ہیں۔ پھر کیوں نہ ساتھ ساتھ سؤر اور شراب کی حلّت کا حکم بھی اسی آیت سے نکال ڈالا جائے؟
ان مختلف مذاہب میں سے صحیح اور قوی مذہب ہمارے نزدیک صرف حنفیہ اور حنابلہ کا ہے۔ باقی مذاہب میں سے کسی مذہب کی پیروی اگر کوئی کرنا چاہے تو اپنی ذمہ داری پر کرے لیکن جیسا کہ اوپر کی بحث میں دکھایا جا چکا ہے، ان کے وجوہ و دلائل اس قدر کمزور ہیں کہ ان کی بنیاد پر کسی حرام کا حلال اور کسی واجب کا غیر واجب ثابت ہونا بہت مشکل ہے۔ اس لیے میں کسی خدا ترس آدمی کو یہ مشورہ نہیں دے سکتا کہ وہ ان مذاہب میں سے کسی کا سہارا لے کر یورپ اور امریکہ میں جھٹکے کا گوشت کھانا شروع کر دے۔ آخر میں دو باتوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے:-
اوّل یہ کہ بسا اوقات چھوٹے جانور، مثلاً مرغ، کبوتر وغیرہ ذبح کرتے ہوئے یہ صورت پیش آ جاتی ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی سے جانور کی گردن کٹ کر سر دھڑ سے فوراً الگ ہو جاتا ہے۔ فقہا کے ایک گروہ نے کہا ہے کہ اس طرح کے ذبیحہ کو کھا لینے میں مضائقہ نہیں۔ اب اس چیز کو بنیاد بنا کر موجودہ زمانے کے بعض علما نے یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ جہاں تمام جانوروں کے لیے ذبح کا طریقہ ہی یہ ہو کہ ایک مشین بیک ضرب سر کاٹ کر پھینک دے وہاں بھی تذکیہ کی شرط پوری ہو جاتی ہے لیکن فقہا کے اقوال کو نصّ بنا کر ان سے ایسے احکام مستنبط کرنا جو بجائے خود منصوص احکام میں ترمیم کر ڈالیں، کوئی صحیح طریقہ نہیں ہے۔ تذکیہ کے متعلق شریعت کے احکام ہم اوپر نقل کر چکے ہیں اور وہ احکام جن نصوص پر مبنی ہیں وہ بھی ہم نے درج کر دیئے ہیں۔ اب یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ اگر کچھ فقہا نے احیاناً بلا ارادہ ان احکام کے خلاف کوئی واقعہ پیش آ جانے کی صورت میں لوگوں کو کوئی سہولت دے دی ہے تو اسے اصل قانون قرار دے لیا جائے اور شریعت کے احکام تذکیہ عملاً منسوخ کر دیئے جائیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ فقہا نے یہ کہا ہے اور بالکل صحیح کہا ہے کہ مسلم اور اہلِ کتاب کے ہر ذبیحہ کے متعلق یہ کھوج لگانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہے یا نہیں البتہ اگر ایجاباً یہ معلوم ہو کہ کسی ذبیحہ پر قصداً خدا کا نام نہیں لیا گیا ہے تو اس کے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کی بنیاد پر بھی یہ رائے ظاہر کی گئی ہے کہ یورپ اور امریکہ میں جو گوشت ملتا ہے اس کے بارے میں کھوج لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ اہلِ کتاب کا ذبیحہ ہے، اس کو اسی اطمینان کے ساتھ کھائو جس طرح مسلم ممالک میں مسلمان قصائیوں سے گوشت خرید کر کھاتے ہو، لیکن یہ بات صرف اسی صورت میں صحیح ہو سکتی ہے جب کہ ہمیں اہلِ کتاب کے کسی گروہ یا ان کی کسی آبادی کے متعلق یہ معلوم ہو کہ وہ اصولاً و عقیدۃً اللہ کا نام لے کر ذبح کرنے کے قائل ہیں۔ رہے وہ لوگ جن کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ وہ حرام و حلال کی ان قیود کے سرے سے قائل ہی نہیں ہیں اور جو اصولاً یہ نہیں مانتے کہ جانور کے حلال اور حرام ہونے میں اللہ یا غیر اللہ کا نام لینے اور نہ لینے کا بھی کوئی دخل ہے، ان کے ذبیحہ پر یہ اطمینان کرنے کی آخر کیا معقول وجہ ہو سکتی ہے؟
(ترجمان القرآن۔ اپریل ۱۹۵۹ء)
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں