حضرات! آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ عین اس وقت جب کہ قانونِ قدرت کے مطابق، اس ملک کی قسمت کا نظام انتظام درپیش ہے، ہم مالکِ زمین کے سامنے، اپنی اہلیت و قابلیت کا کیا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ موقع تو یہ تھا کہ ہم اپنے طرزِعمل سے یہ ثابت کرتے کہ اگر وہ اپنی زمین کا انتظام ہمارے حوالے کرے گا تو ہم اسے خوب بنا سنوار کر گُل زار بنا دیں گے، ہم اس میں انصاف کریں گے، اسے ہم دردی اورتعاون اور رحمت کا گہوارہ بنائیں گے، اس کے وسائل کو اپنی اور انسانیت کی فلاح میں استعمال کریں گے، اس میں بھلائیوں کو پروان چڑھائیں گے اور برائیوں کو دبائیں گے۔ لیکن ہم اُسے بتا رہے ہیں کہ ہم ایسے غارت گر، اس قدر مفسد اور اتنے ظالم ہیں کہ اگر تُو نے یہ زمین ہمارے حوالے کی، تو ہم اس کی بستیوں کو اُجاڑ دیں گے، محلے کے محلے اور گائوں کے گائوں پُھونک دیں گے، انسانی جان کو مکھی اور مچھر سے زیادہ بے قیمت کردیں گے، عورتوں کو بے عزت کریں گے، چھوٹے بچوں کو شکار کریں گے، بوڑھوں اور بیماروں اور زخمیوں پر بھی ترس نہیں کھائیں گے، عبادت گاہوں اور مذہبی کتابوں تک کو، اپنے نفس کی گندگی سے لیس کر دیں گے، اور جس زمین کو تُو نے انسانوں سے آباد کیا ہے، اس کی رونق ہم لاشوں اور جلی ہوئی عمارتوں سے بڑھائیں گے۔ کیا واقعی آپ کا ضمیر یہ گواہی دیتا ہے کہ اپنی یہ خدمات ، یہ اوصاف، یہ کارنامے پیش کر کے، آپ خدا کی نگاہ میں، اس کی زمین کے انتظام کے لیے، اہل ترین بندے قرار پائیں گے؟ کیا یہ کرتوت دیکھ کر وہ آپ سے کہے گا :
شاباش! اے میرے پرانے مالیوں کی اولاد! تم ہی سب سے بڑھ کر، میرے اس باغ کی رکھوالی کے قابل ہو۔ اسی اکھاڑ پچھاڑ، اسی اُجاڑ اور بگاڑ، اسی تباہی و بربادی اور گندگی و غلاظت کے لیے تو میں نے یہ باغ لگایا تھا۔ لو !اب اسے اپنے ہاتھ میں لے کر خوب خراب کرو۔