یہ دونوں اُمور… یعنی دُنیا میں انسانی شخصیت کی نشوونما اور آخرت میں انسان کی جواب دہی… اِسی بات کے طالب ہیں کہ دُنیا میں فرد کو حریت حاصل ہو۔ اگر کسی معاشرے میں فرد کو اپنی پسند کے مطابق اپنی شخصیت کی تکمیل کے مواقع حاصل نہ ہوں تو اس کے اندر انسانیت ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے، اس کا دم گھٹنے لگتا ہے، اس کی قوتیں اور قابلیتیں دَب کر رہ جاتی ہیں اور اپنے آپ کو محصور ومحبوس پا کر انسان جمود وتعطل کا شکار ہو جاتا ہے۔ پھر آخرت میں ان محبوس ومحصور افراد کے تصوروں کی بیش تر ذمہ داریاں ان لوگوں کی طرف منتقل ہو جانے والی ہیں جو اس قسم کے اجتماعی نظام کو بنانے اور چلانے کے ذمہ دار ہوں۔ ان سے صرف ان کے اپنے انفرادی اعمال ہی کا محاسبہ نہ ہو گا بلکہ اس بات کا محاسبہ بھی ہو گا کہ اُنھوں نے ایک جابرانہ نظام قائم کرکے دوسرے بے شمار انسانوں کو اُن کی مرضی کے خلاف اور اپنی مرضی کے مطابق ناقص شخصیتیں بننے پر مجبور کیا۔ ظاہر ہے کہ کوئی آخرت پر ایمان رکھنے والا انسان یہ بھاری بوجھ اُٹھا کر خدا کے سامنے جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ وُہ اگر خدا سے ڈرنے والا انسان ہے تو لازماً وُہ افراد کو زیادہ سے زیادہ آزادی دینے کی طرف مائل ہو گا تاکہ ہر فرد جو کچھ بھی بنے اپنی ذِمّہ داری پر بنے، اُس کے غلَط شخصیت بننے کی ذِمّہ داری اجتماعی نظام چلانے والے پر عائد نہ ہو جائے۔