اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتا تھا بلکہ سچے دل سے یہ مانا بھی جاتا تھا، اور عملی رویّہ سے اس عقیدہ ویقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا کہ ملک خدا کا ہے، باشندے خدا کی رعیّت ہیں، اور حکومت اس رعیّت کے معاملے میں خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ حکومت اس رعیّت کی مالک نہیں ہے۔ اور رعیّت اس کی غلام نہیں ہے۔ حکم رانوں کا کام سب سے پہلے اپنی گردن میں خدا کی بندگی و غلامی کا قلاوہ ڈالنا ہے، پھر یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ خدا کی رعیّت پر اس کا قانون نافذ کریں۔ لیکن یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا، اُس میں خدا کی بادشاہی کا تصوّر صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ عملاً اس نے وہی نظریہ اختیار کر لیا جو ہمیشہ سے ہر انسانی بادشاہی کا رہا ہے، یعنی ملک بادشاہ اور شاہی خاندان کا ہے اوروہ رعیّت کی جان،مال، آبرو، ہر چیز کا مالک ہے۔ خدا کا قانون ان بادشاہتوں میں نافذ ہوا بھی تو صرف عوام پر ہوا، بادشاہ اور ان کے خاندان اور امرا اور حکام زیادہ تر اس سے مستثنیٰ ہی رہے۔