مولانا نے اپنے ذہن میں ’’متَّحدہ قومیت‘‘ کا ایک خاص مفہوم متعین کر رکھا ہے جس کے حدود انھوں نے تمام شرعی شرائط کو ملحوظ رکھ کر اور تمام امکانی اعتراضات سے پہلو بچا کر خود مقرر فرمائے ہیں، اور ان کو وہ ایسی پُراحتیاط مفتیانہ زبان میں بیان فرماتے ہیں کہ قواعد ِشرعیہ کے لحاظ سے کوئی اس پر حرف نہ لاسکے۔ لیکن اس میں خرابی بس اتنی ہی ہے کہ اپنے مفہومِ ذہنی کو مولانا کانگریس کا مفہوم و مدعا قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ کانگریس اس سے بمراحل دُور ہے۔ اگر مولانا صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتے کہ ’’متَّحدہ قومیت‘‘ سے میری مراد یہ ہے، تو ہمیں ان سے جھگڑا کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ لیکن وہ آگے قدم بڑھا کر فرماتے ہیں کہ نہیں، کانگریس کی مراد بھی یہی ہے اور کانگریس بالکل نبی اکرمﷺکے اسوئہ حسنہ پر چل رہی ہے، اور مسلمانوں کو مامون و مطمئن ہوکر اپنے آپ کو اس متَّحدہ قومیت کے حوالے کر دینا چاہیے جسے کانگریس بنانا چاہتی ہے۔ یہیں سے ہمارے اور ان کے درمیان نزاع کا آغاز ہوتا ہے۔
فرض کیجیے کہ ’’پانی ڈالنے‘‘سے آپ کا مفہوم ذہنی ’’پانی ڈالنا‘‘ ہی ہو، لیکن دوسرے نے ’’آگ لگانے‘‘ کا نام ’’پانی ڈالنا‘‘ رکھ چھوڑا ہو تو آپ کتنا ظلم کریں گے۔ اگر اختلاف معنی کو نظرانداز کرکے لوگوں کو مشورہ دینے لگیں کہ اپنا گھر اس شخص کے حوالے کردو جو ’’پانی ڈالنے‘‘ کے لیے کہتا ہے۔ ایسے ہی موقع کے لیے تو قرآنِ مجید میں ہدایت کی گئی تھی کہ جب ایک لفظ ایک صحیح معنی اور ایک غلط معنی میں مشترک ہوجائے اور تم دیکھو کہ اعداء دین اس اِشتِراکِ لفظی سے فائدہ اُٹھا کر فتنہ برپا کررہے ہیں تو ایسے لفظ ہی کو چھوڑ دو۔
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَقُوْلُوا انْظُرْنَا وَاسْمَعُوْا۰ۭ وَلِلْكٰفِرِيْنَ عَذَابٌ اَلِــيْمٌ۱۰۴ (البقرہ:۱۰۴)
لہٰذا مولانا کو اپنے مفہوم ذہنی کے لیے تحالُف یا وفاق یا اسی قسم کا کوئی مناسب لفظ استعمال کرنا چاہیے تھا، اور اس وفاق یا تحالف کو بھی اپنی تجویز کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیےتھا، نہ اس حیثیت سے کہ یہ کانگریس کا عمل ہے۔ کم از کم اب وہ اُمت پر رحم فرما کر اپنی غلطی محسوس فرما لیں ورنہ اندیشہ ہے کہ ان کی تحریریں ایک فتنہ بن کر رہ جائیں گی اور اس پرانی سنت کا اعادہ کریں گی کہ ظالم امراء اور فاسق اہلِ سیاست نے جو کچھ کیا اس کو علماء کے ایک گروہ نے قرآن و حدیث سے درست ثابت کرکے ظلم و طغیان کے لیے مذہبی ڈھال فراہم کر دی۔رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَۃً لِّلْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ۔
مولانا کے اس رسالہ کی اشاعت کے بعد یہ ضروری ہوگیا ہے کہ خالص علمی حیثیت سے ’’قومیت‘‘ کے مسئلہ کی تحقیق کی جائے اور اس باب میں اسلامی نظریات اور غیراسلامی یا جاہلی نظریات کے درمیان جو اصولی فرق ہے اسے پوری طرح نمایاں کر دیا جائے، تاکہ جو لوگ غلط فہمی کی بنا پردونوں کو خلط ملط کرتے ہیں ان کے ذہن کا الجھائو دُور ہو، اور وہ دونوں راستوں میں سے جس راستے کو بھی اختیار کریں علیٰ وجہ البصیرت کریں۔ اگرچہ یہ کام علمائے کرام کے کرنے کا تھا۔ مگر جب ان کے سرخیل تک ’’متَّحدہ قومیت اور اسلام‘‘ لکھنے میں مصروف ہوں اور ان میں سے کوئی بھی اپنے اصلی فرض کو انجام دینے کے لیے آگے نہ بڑھے، تو مجبوراً ہم جیسے عامیوں ہی کو یہ خدمت اپنے ذمہ لینی پڑے گی۔
(ترجمان القرآن، ذی الحجہ ۱۳۵۷ھ، فروری ۱۹۳۹ء)