Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اِسلام کا اخلاقی نظام (یہ تقریر ۶ ۔جنوری ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
اخلاقی نظاموں میں اختلاف کیوں؟
اِسلام کا نظریۂ زندگی و اخلاق
اخلاقی جدوجہد کا مقصود
اخلاق کی پشت پر قوتِ نافذہ:
اِسلام کا سیاسی نظام (یہ تقریر ۲۰۔ جنوری ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
اِسلام کا معاشرتی نظام (یہ تقریر ۱۰۔فروری ۱۹۴۸؁ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی )
اِسلام کا اقتصادی نظام (یہ تقریر ۲۔مارچ ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی۔)
اِسلام کا رُوحانی نظام (یہ تقریر ۱۶۔مارچ ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی )

اسلام کا نظام حیات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اِسلام کا سیاسی نظام (یہ تقریر ۲۰۔ جنوری ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)

اِسلام کے سیاسی نظام کی بنیاد تین اُصولوں پر رکھی گئی ہے۔ توحید، رسالت اور خلافت۔ اِن اُصولوں کو اچھی طرح سمجھے بغیر اسلامی سیاست کے تفصیلی نظام کو سمجھنا مشکل ہے۔ اس لیے سب سے پہلے مَیں انھی کی مختصر تشریح کروں گا۔
توحید کے معنی یہ ہیں کہ خدا اس دُنیا اور اس کے سب رہنے والوں کا خالق، پروردگار اور مالک ہے، حکومت و فرماں روائی اسی کی ہے، وہی حکم دینے اور منع کرنے کا حق رکھتا ہے اور بندگی و طاعت بِلاشرکتِ غیرے اسی کے لیے ہے۔ ہماری یہ ہستی جس کی بدولت ہم موجود ہیں ہمارے یہ جسمانی آلات اور طاقتیں جن سے ہم کام لیتے ہیں اور ہمارے وہ اختیارات جو ہمیں دُنیا کی موجوادت پر حاصل ہیں اور خود یہ موجودات جن پر ہم اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں‘ ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہماری پیدا کردہ یا حاصل کردہ ہے اور نہ اس کی بخشش میں خدا کے ساتھ کوئی شریک ہے اس لیے اپنی ہستی کا مقصد اور اپنی قوتوں کا مصرف اور اپنے اختیارات کی حدود متعین کرنا نہ تو ہمارا اپنا کام ہے نہ کسی دوسرے کو اس معاملہ میں دخل دینے کا حق ہے۔ یہ صرف اُس خدا کا کام ہے جس نے ہمیں اِن قوتوں اور اختیارات کے ساتھ پیدا کیا ہے اور دُنیا کی یہ بہت سی چیزیں ہمارے تصرف میں دی ہیں۔ توحید کا یہ اُصول انسانی حاکمیت کی سرے سے نفی کر دیتا ہے۔ ایک انسان ہو یا ایک خاندان، یا ایک طبقہ یا ایک گروہ یا ایک پوری قوم، یا مجموعی طور پر تمام دُنیا کے انسان، حاکمیت کا حق بہرحال کسی کو بھی نہیں پہنچتا۔ حاکم صرف خدا ہے اور اسی کا حکم ’’قانون‘‘ ہے۔
خدا کا قانون جس ذریعے سے بندوں تک پہنچتا ہے اس کا نام ’’رسالت ‘‘ ہے اس ذریعے سے ہمیں دو چیزیں ملتی ہیں۔ ایک ’’کتاب‘‘ جس میں خود خدا نے اپنا قانون بیان کیا ہے۔ دوسری کتاب کی مستند تشریح جو رسول ؐ نے خدا کا نمایندہ ہونے کی حیثیت سے اپنے قول و عمل میں پیش کی ہے۔ خدا کی کتاب میں وہ تمام اُصول بیان کر دیے گئے ہیں جن پر انسانی زندگی کا نظام قائم ہونا چاہیے اور رسول نے کتاب کے اس منشا کے مطابق عملاً ایک نظامِ زندگی بنا کر، چلا کر، اور اس کی ضروری تفصیلات بتا کر ہمارے لیے ایک نمونہ قائم کر دیا ہے۔ انھی دو چیزوں کے مجموعے کا نام اسلامی اصطلاح میں شریعت ہے اور یہی وہ اساسی دستور ہے جس پر اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے۔
اب خلافت کو لیجیے۔ یہ لفظ عربی زبان میں نیابت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر سے دُنیا میں انسان کی اصل حیثیت یہ ہے کہ وہ زمین پر خدا کا نائب ہے یعنی اس کے ملک میں اس کے دیے ہوئے اختیارات استعمال کرتا ہے۔ آپ جب کسی شخص کو اپنی جائداد کا انتظام سپرد کرتے ہیں تو لازماً آپ کے پیش نظر چار باتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ جائداد کے اصل مالک آپ خود ہیں نہ کہ وہ شخص۔ دوسرے یہ کہ آپ کی جائداد میں اس شخص کو آپ کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق کام کرنا چاہیے۔ تیسرے یہ کہ اسے اپنے اختیارات کو ان حدود کے اندر استعمال کرنا چاہیے جو آپ نے اس کے لیے مقرر کر دی ہیں۔ چوتھے یہ کہ آپ کی جائداد میں اسے آپ کا منشا پورا کرنا ہو گا نہ کہ اپنا۔ یہ چار شرطیں نیابت کے تصور میں اس طرح شامل ہیں کہ نائب کا لفظ بولتے ہی خود بخود انسان کے ذہن میں آ جاتی ہیں۔ اگر کوئی نائب ان چاروں شرطوں کو پورا نہ کرے تو آپ کہیں گے کہ وہ نیابت کے حدود سے تجاوز کر گیا اور اس نے وہ معاہدہ توڑ دیا جو نیابت کے عین مفہوم میں شامل تھا۔ ٹھیک یہی معنی ہیں جن میں اِسلام انسان کو خدا کا خلیفہ قرار دیتا ہے اور اس خلافت کے تصوّر میں یہی چاروں شرطیں شامل ہیں۔ اسلامی نظریہ سیاسی کی رُو سے جو ریاست قائم ہو گی وہ دراصل خدا کی حاکمیت کے تحت انسانی خلافت ہو گی‘ جسے خدا کے ملک میں اس کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کی ہوئی حُدُود کے اندر کام کر کے اس کا منشا پورا کرنا ہو گا۔
خلافت کی اس تشریح کے سلسلے میں اتنی بات اور سمجھ لیجیے کہ اس معنی میں اسلامی نظریہ سیاسی کسی ایک شخص یا خاندان یا طبقے کو خلیفہ قرار نہیں دیتا بلکہ اس پوری سوسائٹی کو خلافت کا منصب سونپتا ہے جو توحید اور رسالت کے بنیادی اُصولوں کو تسلیم کر کے نیابت کی شرطیں پوری کرنے پر آمادہ ہو۔ ایسی سوسائٹی بحیثیت مجموعی خلافت کی مثال ہے اور یہ خلافت اس کے ہر فرد کو پہنچتی ہے۔ یہ وہ نقطہ ہے جہاں اِسلام میں ’’جمہوریت‘‘ کی ابتدا ہوتی ہے۔ اسلامی معاشرے کا ہر فرد خلافت کے حقوق اور اختیارات رکھتا ہے۔ ان حقوق و اختیارات میں تمام افراد بالکل برابر کے حصے دار ہیں۔ کسی کو کسی پر نہ ترجیح حاصل ہے اور نہ یہی حق پہنچتا ہے کہ اسے ان حقوق و اختیارات سے محروم کر سکے۔ ریاست کا نظم و نسق چلانے کے لیے جو حکومت بنائی جائے گی وہ انھی افراد کی مرضی سے بنے گی۔ یہی لوگ اپنے اختیاراتِ خلافت کا ایک حصہ اسے سونپیں گے۔ اس کے بننے میں ان کی رائے شامل ہو گی اور ان کے مشورے ہی سے وہ چلے گی۔ جو ان کا اعتماد حاصل کرے گا وہ ان کی طرف سے خلافت کے فرائض انجام دے گا اور جو ان کا اعتماد کھو دے گا اسے حکومت کے منصب سے ہٹنا پڑے گا۔ اس لحاظ سے اسلامی جمہوریت ایک مکمل جمہوریت ہے، اتنی مکمل جتنی کوئی جمہوریت مکمل ہو سکتی ہے البتہ جو چیز اسلامی جمہوریت کو مغربی جمہوریت سے الگ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مغرب کا نظریۂ سیاسی ’’جمہوری حاکمیت‘‘ کا قائل ہے اور اِسلام ’’جمہوری خلافت‘‘ کا۔ وہاں اپنی شریعت جمہور آپ بناتے ہیں۔ یہاں انھیں اس شریعت کی پابندی کرنا ہوتی ہے جو خدا نے اپنے رسولؐ کے ذریعہ سے دی ہے۔ وہاں حکومت کا کام جمہور کا منشا پورا کرنا ہوتا ہے۔ یہاں حکومت اور اس کے بنانے والے جمہور سب کا کام خدا کا منشا پورا کرنا ہوتا ہے۔ مختصر یہ کہ مغربی جمہوریت ایک مطلق العنان خدائی ہے جو اپنے اختیات کو آزادانہ استعمال کرتی ہے۔ اس کے برعکس اسلامی جمہوریت ایک پابندِ آئین بندگی ہے جو اپنے اختیارات کو خدا کی دی ہوئی ہدایات کے مطابق اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرتی ہے۔
اب مَیں آپ کے سامنے اس ریاست کا ایک مختصر مگر واضح نقشہ پیش کروں گا۔ جو توحید، رسالت اور خلافت کی ان بنیادوں پر بنتی ہے۔
اس ریاست کا مقصد قرآن میں صاف طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ وہ ان بھلائیوں کو قائم کرے، فروغ دے اور پروان چڑھائے جن سے خدا وند عالم انسانی زندگی کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے اور ان بُرائیوں کو روکے، دبائے اور مٹائے جن کا وجود انسانی زندگی میں خداوند عالم کو پسند نہیں ہے۔ اِسلام میں ریاست کا مقصد محض انتظامِ ملکی ہے نہ یہ کہ وہ کسی خاص قوم کی اجتماعی خواہشات کو پورا کرے۔ اس لیے اِسلام اس کے سامنے ایک بلند نصب العین رکھ دیتا ہے جس کے حصول میں اسے اپنے تمام وسائل و ذرائع اور اپنی تمام طاقتیں صرف کرنی چاہییں، اور وہ یہ ہے کہ خدا اپنی زمین پر اور اپنے بندوں کی زندگی میں جو پاکیزگی، جو حسن، جو خیروصلاح، جو ترقی و فلاح دیکھنا چاہتا ہے وہ رُونما ہو، اور بگاڑ کی ان تمام صورتوں کا سدِّباب ہو جو خدا کے نزدیک اس کی زمین کو اجاڑنے والی اور اس کے بندوں کی زندگی کو خراب کرنے والی ہیں۔ اس نصب العین کو پیش کرنے کے ساتھ اِسلام ہمارے سامنے خیروشر دونوں کی ایک واضح تصویر رکھتا ہے جس میں مطلوبہ بھلائیوں اور ناپسندیدہ بُرائیوں کو صاف صاف نمایاں کر دیا گیا ہے۔ اس تصویر کو نگاہ میں رکھ کر ہر زمانے اور ہرماحول میں اسلامی ریاست اپنا اصلاحی پروگرام بنا سکتی ہے۔
اِسلام کا مستقل تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں اخلاقی اُصولوں کی پابندی کی جائے۔ اس لیے وہ اپنی ریاست کے لیے بھی یہ قطعی پالیسی متعین کر دیتا ہے کہ اس کی سیاست بے لاگ انصاف ، بے لوث سچائی اور کھری ایمان داری پر قائم ہو، وہ ملکی، یا انتظامی یا قومی مصلحتوں کی خاطر جھوٹ، فریب اور بے انصافی کو کسی حال میں گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ملک کے اندر راعی اور رعیّت کے باہمی تعلقات ہوں یا ملک کے باہر دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات، دونوں میں وہ صداقت، دیانت اور انصاف کو اغراض و مصالح پر مقدم رکھنا چاہتا ہے۔ مسلمان افراد کی طرح مسلم ریاست پر بھی وہ یہ پابندی عائد کرتا ہے کہ عہد کرو تو اسے وفا کرو، لینے اور دینے کے پیمانے یکساں رکھو، جو کچھ کہتے ہو وہی کرو اور جو کچھ کرتے ہو، وہی کہو، اپنے حق کے ساتھ اپنے فرض کو بھی یاد رکھو، اور دوسرے کے فرض کے ساتھ اس کے حق کو بھی نہ بھولو، طاقت کو ظلم کے بجائے انصاف کے قیام کا ذریعہ بنائو۔ حق کو بہرحال حق سمجھو اور اسے ادا کرو، اقتدار کو خدا کی امانت سمجھو اور اس یقین کے ساتھ اسے استعمال کرو کہ اس امانت کا پورا حساب تمھیں اپنے خدا کو دینا ہے۔
اسلامی ریاست اگرچہ زمین کے کسی خاص خطے ہی میں قائم ہوتی ہے، مگر وہ نہ انسانی حقوق کو ایک جغرافی حد میں محدود رکھتی ہے اور نہ شہریت کے حقوق کو۔ جہاں تک انسانیت کا تعلق ہے اِسلام ہر انسان کے لیے چند بنیادی حقوق مقرر کرتا ہے اور ہر حال میں ان کے احترام کا حکم دیتا ہے، خواہ وہ انسان اسلامی ریاست کے حدود میں رہتا ہو یا اس سے باہر، خواہ دوست ہو یا دشمن، خواہ صلح رکھتا ہو یا برسرِ جنگ ہو۔ انسانی خون ہرحالت میں محترم ہے اور حق کے بغیر اسے نہیں بہایا جا سکتا۔ عورت، بچے، بوڑھے، بیمار اور زخمی پر دست درازی کرنا کسی حال میں جائز نہیں۔ عورت کی عصمت بہرحال احترام کی مستحق ہے اور اسے بے آبرو نہیں کیا جا سکتا۔ بھوکا آدمی روٹی کا، ننگا آدمی کپڑے کا‘ زخمی یا بیمار آدمی علاج اور تیمار داری کا بہرحال مستحق ہے خواہ دشمن قوم ہی سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ اور ایسے ہی چند دوسرے حقوق اِسلام نے انسان کو بحیثیت انسان ہونے کے عطا کیے ہیں اور اسلامی ریاست کے دستور میں انھیں بنیادی حقوق کی جگہ حاصل ہے۔ رہے شہریت کے حقوق تو وہ بھی اِسلام صرف انھی لوگوں کونہیں دیتا جو اس کی ریاست کی حدود میںپیدا ہوئے ہوں بلکہ ہر مسلمان خواہ وہ دُنیا کے کسی گوشے میںپیدا ہوا ہو، اسلامی ریاست کے حدود میں داخل ہوتے ہی آپ سے آپ اس کا شہری بن جاتا ہے(یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ مسلمان کسی اسلامی ریاست کا شہری ہو اگر وہ کسی غیر اسلامی حکومت کی رعایا ہو تو وہ صرف اس صورت میں اسلامی ریاست کا شہری بن سکتا ہے جبکہ وہ ہجرت کر کے آئے۔
) اور پیدائشی شہریوں کے برابر حقوق کا مستحق قرار پاتا ہے۔ دُنیا میں جتنی اسلامی ریاستیں بھی ہوں گی ان سب کے درمیان شہریت مشترک ہو گی۔ مسلمان کو کسی اسلامی ریاست کے حدود میں داخل ہونے کے لیے پاسپورٹ کی ضرورت نہ ہو گی۔ مسلمان کسی نسلی، قومی یا طبقاتی امتیاز کے بغیر ہر اسلامی ریاست میں کسی بڑے سے بڑے ذِمّہ داری کے منصب کا اہل ہو سکتا ہے۔
غیر مسلمانوں کے لیے، جو کسی اسلامی ریاست کے حدود میں رہتے ہوں، اِسلام نے چند حقوق معین کر دیے ہیں اور وہ لازما دستور اسلامی کا جزو ہوں گے۔ اسلامی اصطلاح میں ایسے غیر مسلم کو ’’ذِمّی‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی جس کی حفاظت کا اسلامی ریاست نے ذمہ لے لیا ہے۔ ذِمّی کی جان و مال اور آبرو مُسلم کی طرح محترم ہے۔ فوج داری اور دیوانی قوانین میں مسلم اور ذِمّی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ ذمیوں کے پرسنل لا میں اسلامی ریاست کوئی مداخلت نہ کرے گی۔ ذمیوں کو ضمیر و اعتقاد اور مذہبی رسوم و عبادات میں پور ی آزادی حاصل ہو گی۔ ذمی اپنے مذہب کی تبلیغ ہی نہیں بلکہ قانون کی حد میں رہتے ہوئے اِسلام پر بھی تنقید کر سکتا ہے۔ یہ اور ایسے ہی بہت سے حقوق اسلامی دستور میں غیر مسلم رعایا کو دیے گئے ہیں اور یہ مستقل حقوق ہیں جنھیں اس وقت تک سلب نہیں کیا جا سکتا، جب تک وہ ہمارے ذمے سے خارج نہ ہو جائیں۔ کوئی غیر مسلم حکومت اپنی مسلم رعایا پر چاہے کتنے ہی ظلم ڈھائے، ایک اسلامی ریاست کے لیے اس کے جواب میں اپنی غیر مسلم رعایا پر شریعت کے خلاف ذرا سی دست درازی کرنا بھی جائز نہیں۔ حتّٰی کہ ہماری سرحد کے باہر اگر سارے مسلمان قتل کر دیے جائیں تب بھی ہم اپنی حد کے اندر ایک ذِمّی کا خون بھی حق کے بغیر نہیں بہا سکتے۔
اسلامی ریاست کے انتظام کی ذِمّہ داری ایک امیر کے سپرد کی جائے گی جسے صدرِ جمہوریہ کے مماثِل سمجھنا چاہیے۔ امیر کے انتخاب میں ان تمام بالغ مردوں اور عورتوں کو رائے دینے کا حق ہو گا جو دستور کے اصولوں کو تسلیم کرتے ہوں۔ انتخاب کی بنیاد یہ ہو گی کہ رُوحِ اِسلام کی واقفیت، اسلامی سیرت، خدا ترسی اور تدبر کے اعتبار سے کون شخص سوسائٹی کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے۔ ایسے شخص کو امارت کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ پھر اس کی مدد کے لیے ایک مجلسِ شورٰی بنائی جائے گی اور وہ بھی لوگوں کی منتخب کردہ ہو گی۔ امیر کے لیے لازم ہو گا کہ ملک کا انتظام اہلِ شوریٰ کے مشورے سے کرے۔ ایک امیر اسی وقت تک حکم ران رہ سکتا ہے جب تک اسے لوگوں کا اعتماد حاصل رہے۔ عدمِ اعتماد کی صورت میں اسے جگہ خالی کرنا ہو گی مگر جب تک وہ لوگوں کا اعتماد رکھتا ہے اسے حکومت کے پورے اختیارات حاصل رہیں گے۔
امیر اور اس کی حکومت پر عام شہریوں کو نکتہ چینی کا پورا حق حاصل ہو گا۔ اسلامی ریاست میں قانون سازی اُن حدُود کے اندر ہو گی جو شریعت میں مقرر کی گئی ہیں۔ خدا اور رسول کے واضح احکام صرف اطاعت کے لیے ہیں۔ کوئی مجلس قانون سازان میں رد و بدل نہیں کر سکتی۔ رہے وہ احکام جن میں دو یا زیادہ تعبیریں ممکن ہیں تو ان میں شریعت کا منشا معلوم کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو شریعت کا علم رکھتے ہیں۔ اس لیے ایسے معاملات مجلس شوریٰ کی اس سب کمیٹی کے سپرد کیے جائیں گے جو علما پر مشتمل ہو گی۔ اس کے بعد ایک وسیع میدان اُن معاملات کا ہے جن میں شریعت نے کوئی حکم نہیں دیا ہے۔ ایسے تمام معاملات میں مجلسِ شُورٰی قوانین بنانے کے لیے آزاد ہے۔
اِسلام میں عدالت انتظامی حکومت کے ماتحت نہیں ہے بلکہ براہِ راست خدا کی نمایندہ اور اُسے جواب دہ ہے۔ حاکمانِ عدالت کو مقرر تو انتظامی حکومت ہی کرے گی، مگر جب ایک شخص عدالت کی کرسی پر بیٹھ جائے گا تو خدا کے قانون کے مطابق لوگوں کے درمیان بے لاگ انصاف کرے گا اور اس کے انصاف کی زد میں خود حکومت بھی نہ بچ سکے گی، حتّٰی کہ خود حکومت کے رئیسِ اعلیٰ کو بھی مدعی یا مدعا علیہ کی حیثیت سے اس کے سامنے اسی طرح حاضر ہونا پڑے گا جیسے ایک عام شہری حاضر ہوتا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں