اِسلام کا رُوحانی نظام کیا ہے،اورزندگی کے پُورے نظام سے اس کا کیا تعلق ہے؟اس سوال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم اُس فرق کو اچھی طرح سمجھ لیں جو روحانیت کے اسلامی تصوّر اور دوسرے مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں کے تصورات میں پایا جاتا ہے ۔یہ فرق ذہن نشین نہ ہونے کی وجہ سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اِسلام کے رُوحانی نظام پر گفتگو کرتے ہوئے آدمی کے دماغ میں بلا ارادہ بہت سے تصورات گھومنے لگتے ہیں جو عموماً ’’روحانیت‘‘کے لفظ سے وابستہ ہو کر رہ گئے ہیں۔ پھر اس اُلجھن میں پڑ کر آدمی کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ آخر یہ کس قسم کا روحانی نظام ہے۔ رُوح کے جانے پہچانے دائرے سے گزر کر مادّہ و جسم کے دائرے میں دخل دیتا ہے اور صرف دخل ہی نہیں دیتا بلکہ اس پر حکم رانی کرنا چاہتاہے ۔
فلسفہ و مذہب کی دُنیا میں عام طور پر جو تخیّل کار فرماہے وہ یہ ہے کہ روح اور جسم ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دونوں کا عالم جُدا ہے۔ دونوں کے تقاضے الگ بلکہ باہم مخالف ہیں۔ ان دونوں کی ترقی ایک ساتھ ممکن نہیں ہے۔ رُوح کے لیے جسم اور مادے کی دُنیا ایک قید خانہ ہے۔ دنیوی زندگی کے تعلقات اور دل چسپیاں وہ ہتھ کڑیاں اور بیڑیاں ہیں جن میں رُوح جکڑی جاتی ہے ۔دُنیا کے کاروبار اور معاملات وہ دلدل ہے جس میں پھنس کر رُوح کی پرواز ختم ہو جاتی ہے۔ اس تخیل کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ روحانیت اور دُنیا داری کے راستے ایک دوسرے سے بالکل الگ ہو گئے جن لوگوں نے دُنیا داری اختیارکی وہ اول ہی قدم پر مایوس ہو گئے کہ یہاں رُوحانیت ان کے ساتھ نہ چل سکے گی۔
اس چیزنے انھیں مادہ پرستی میں غرق کر دیا ۔معاشرت، تمدن، سیاست، معیشت غرض دنیوی زندگی کے سارے شعبے روحانیت کے نُور سے خالی ہو گئے اور بالآخر زمین ظلم سے بھر گئی۔ دوسری طرف جو لوگ رُوحانیت کے طلب گار ہوئے انھوں نے اپنی رُوح کی ترقی کے لیے ایسے راستے تلاش کیے جو دُنیا کے باہر ہی باہر نکل جاتے ہیں، کیوں کہ ان کے نقطہ نظر سے رُوحانی ترقی کا کوئی ایسا راستہ تو ممکن ہی نہ تھا جو دُنیا کہ اندر سے ہو کر گزرتا ہو ۔ان کے نزدیک رُوح کو پروان چڑھانے کے لیے جسم کو مضمحل کرنا ضروری تھا۔ اس لیے انھوں نے ایسی ریاضتیں ایجاد کیں جو نفس کو مارنے والی اور جسم کو بے حس یا بے کار کر دینے والی ہوں۔ روحانی تربیت کے لیے جنگلوں،پہاڑوں اور عزلت کے گوشوں کو انھوں نے موزوں ترین مقامات سمجھا، تا کہ تمدن کا ہنگامہ گیان دھیان کے مشغلوں میں خلل نہ ڈالنے پائے۔رُوح کی نشوونما کی کوئی صورت انھیں اس کے سوا ممکن نظر نہ آئی کہ دُنیا اور اس کے دھندوں سے دست کش ہو جائیں اور ان سارے رشتوں کو کاٹ پھینکیں جو اسے مادیات کے عامل سے وابستہ رکھتے ہیں۔
پھر جسم و رُوح کے اس تضاد نے انسان کے لیے کمال کے بھی دو مختلف مفہوم اور نصب العین پیدا کر دیے ۔ایک طرف دنیوی زندگی کا کمال جس کا مفہوم یہ قرار پایا کہ انسان صرف مادی نعمتوں سے مالا مال ہو ،اور اس کی انتہا یہ ٹھہری کہ آدمی ایک اچھا پرندہ ،ایک بہترین مگر مچھ ،ایک عمدہ گھوڑا اور ایک کام یاب بھیڑیا بن جائے۔ دوسری طرف رُوحانی زندگی کا کمال جس کا مفہوم یہ قرار پایا کہ انسان کچھ فوق الفطری طاقتوں کا مالک ہو جائے ۔اور اس کی انتہا یہ ٹھہری کہ آدمی ایک اچھا ریڈیو سیٹ ،ایک طاقت وَر دُور بین اور ایک نازک خُوردبین بن جائے یا اس کی نگاہ اور اس کے الفاظ ایک پوُرے دواخانے کا کام دینے لگیں۔
اِسلام کا نقطئہ نظر ا س معاملے میں دُنیا کے تمام مذہبی اور فلسفیانہ نظاموں سے مختلف ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسانی رُوح کو خدا نے زمین پر اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے۔کچھ اختیارات، کچھ فرائض اور کچھ ذِمّہ داریاں اس کے سُپرد کی ہیں اور انھیں ادا کرنے کے لیے ایک بہترین اور موزوں ترین ساخت کا جسم اسے عطا کیا ہے۔ یہ جسم اسے عطا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ اپنے اختیارات کے استعمال اور اپنی متعلقہ خدمات انجام دینے میں اس سے کام لے۔
لہٰذا یہ جسم اس رُوح کا قید خانہ نہیں بلکہ اس کا کارخانہ ہے اوراس روح کے لیے کوئی طاقتوں کو استعمال کر کے اپنی قابلیتوں کا اظہار کرے ۔پھر یہ دُنیا کوئی دارُالعذاب نہیں ہے جس میں انسانی رُوح کسی طرح آ کر پھنس گئی ہو ،بلکہ یہ تو وہ کار گاہ ہے جس میں کا م کرنے کے لیے خدا نے اسے بھیجا ہے ۔یہاں کی بے شمار چیزیں اس کے تصرف میں دی گئی ہیں۔ یہاں دوسرے بہت سے انسان اسی خلافت کے فرائض انجام دینے کے لیے اس کے ساتھ پیدا کیے گئے ہیں۔ یہاں فطرت کے تقاضوں سے تمدن،معاشرت ،معیشت،سیاست اور دوسرے شعبہ ہائے زندگی اُس کے لیے وجود میں آئے ہیں۔یہاں اگر کوئی روحانی ترقی ممکن ہے تو اس کی صورت یہ نہیں ہے کہ آدمی اس کارگاہ سے منہ موڑ کر کسی گوشے میں جا بیٹھے ،بلکہ اس کی صورت صرف یہ ہے کہ وہ اس کے اندر کام کر کے اپنی قابلیت کا ثبوت دے ۔یہ اس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے۔ زندگی کا ہر پہلو اور ہر شعبہ گویا امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ گھر ،محلہ، بازار، منڈی، دفتر، کارخانہ، مدرسہ، کچہری، تھانہ، چھائونی، پارلیمنٹ، صلح کانفرنس اورمیدانِجنگ ،سب مختلف مضمونوں کے پرچے ہیں جو اسے کرنے کے لیے دیے گئے ہیں۔ وہ اگر ان میں سے کوئی پرچہ بھی نہ کرے یا اکثر پرچوں کو سادہ ہی چھوڑ دے تو نتیجے میں آخر صفر کے سوا اور کیا پا سکتا ہے۔ کام یابی اور ترقی کا امکان اگر ہو سکتا ہے تو اسی طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا سارا وقت اور اپنی ساری توجہ امتحان دینے میں صرف کرے اور جتنے پرچے بھی اُسے دیے جائیں ان سب پر کچھ نہ کچھ کر کے دکھائے۔
اس طرح اِسلام زندگی کے راہبانہ تصوّر کو ردّ کر دیتا ہے اور انسان کے لیے روحانی ترقی کا راستہ دُنیا کے باہر سے نہیں بلکہ اس کے اندر سے نکالتا ہے۔ رُوح کی نشوونما، بالیدگی اور فلاح و کام رانی کی اصل جگہ اس کے نزدیک کار گاہِ حیات کے عین منجدھار میں واقع ہے نہ کہ اس کے کنارے پر ۔اب ہمیں دیکھنا چاہیے کہ وہ ہمارے سامنے رُوح کی ترقی اور تنزل کا کیا معیار پیش کرتا ہے۔اس سوال کا جواب اسی خلافت کے تصور میں موجود ہے جس کا ابھی مَیں ذکر کر چکا ہوں ،خلیفہ ہونے کی حیثیت سے انسان اپنے پورے کارنامۂ حیات کے لیے خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس کا فر ض یہ ہے کہ زمین میں جو اختیارات اور ذرائع اُسے دیے گئے ہیں انھیں خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرے۔جو قابلیتیں اور طاقتیں اُسے بخشی گئی ہیں انھیں زیادہ سے زیادہ خدا کی راہ میں صرف کردے کہ زمین اور اس کی زندگی کا انتظام اتنا بہتر ہو جتنا اس کا خدا اسے بہتر دیکھنا چاہتا ہے ۔اس خدمت کوانسان جس قدر زیادہ احساسِ ذِمّہ داری ،فرض شناسی، طاعت و فرماں برداری اور مالک کی رضا جوئی کے ساتھ انجا م دے گااسی قدر زیادہ خدا سے قریب ہو گا اور خدا کا قُرب ہی اِسلام کی نگاہ میں روحانی ترقی ہے۔ اس کے برعکس وہ جتنا سست ،کام چور اور فرض ناشناس ہو گا، جس قدر سرکش، باغی اور نافرمان ہو گا اتنا ہی وہ خدا سے دُور رہے گا اور خدا سے دُوری کا نام اِسلام کی زبان میںرُوحانی تنزّل ہے۔
اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی نقطہ نظر سے دین دار اور دُنیادار دونوں کا دائرۂ عمل ایک ہی ہے ۔ایک ہی کار گاہ ہے جس میں دونوں کام کریں گے۔ بلکہ دین دار آدمی دُنیا دار سے بھی زیادہ انہماک کے ساتھ مشغول ہو گا۔ گھر کی چار دیواری سے لے کر بین الاقوامی کانفرنس کے چوراہے تک جتنے بھی زندگی کے معاملات ہیں ان سب کی ذِمّہ داریاں دین دار بھی دُنیا دار کے برابر بلکہ اس سے کچھ بڑھ کر ہی اپنے ہاتھ میں لے گا البتہ جو چیز ان دونوں کے راستے ایک دوسرے سے الگ کر دے گی وہ خدا کے ساتھ اُن کے تعلق کی نوعیت ہے۔ دین دار جو کچھ کرے گا اس احساس کے ساتھ کر ے گا کہ وہ خدا کے سامنے ذِمّہ دار ہے، اس غرض سے کرے گا کہ اسے خدا نے اس کے لیے مقرر کیا ہے اس کے برعکس دُنیا دار جو کچھ کرے گا، غیرذِمّہ دارانہ کرے گا ۔یہی فرق دین دار کی ساری زندگی کو رُوحانیت کے نور سے محروم کر دیتا ہے ۔
اب مَیں مختصر طور پر آپ کو بتائوں گا کہ اِسلام دنیوی زندگی کے اس منجدھار میں انسان کے روحانی ارتقا کا راستہ کس طرح بناتا ہے ۔
اس راستے کا پہلا قدم ایمان ہے ،یعنی آدمی کے دل و دماغ میں اس خیال کا بس جانا کہ خدا ہی اس کا مالک ،حاکم اور معبود ہے، خدا ہی کی رضا اس کی تمام کوششوں کا مقصود ہے، اور خدا ہی کا حکم اس کی زندگی کا قانون ہے۔ یہ خیال جس قدر زیادہ پختہ اور راسخ ہو گا اُتنی ہی زیادہ مکمل اسلامی ذہنیت بنے گی اور اسی قدر زیادہ ثابت قدمی کے ساتھ انسان روحانی ترقی کی راہ پر چل سکے گا ۔
اس راہ کی دوسری منزل طاعت ہے، یعنی آدمی کا بالفعل اپنی خود مختاری سے دست بردار ہو جانا اور عملاً اس خدا کی بندگی اختیار کر لینا جسے وہ عقیدۃً اپنا خدا تسلیم کر چکا ہے۔ اسی اطاعت کا نام قرآن کی اصطلاح میں اِسلام ہے۔تیسری منزل تقوٰی کی ہے جسے عام فہم زبان میں فرض شناسی اور احساسِ ذمّہ داری سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ تقوٰی یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے ہر پہلو میں یہ سمجھتے ہوئے کام کرے کہ اسے اپنے افکار ،اقوال اور افعال کا خدا کو حساب دینا ہے ،ہر اس کام سے رُک جائے جس سے خدا نے منع کیا ہے ،ہر اس خدمت پر کمربستہ ہو جائے جس کا خدا نے حکم دیا ہے، اور پوری ہوش مندی کے ساتھ حلال و حرام صحیح و غلط اور خیرو شر کے درمیان تمیز کرتا ہوا چلے۔
آخری اور سب سے اونچی منزل احسان کی ہے۔ احسان کے معنی یہ ہیں کہ بندے کی مرضی خدا کی مرضی کے ساتھ متحد ہو جائے‘ جو کچھ خدا کو پسند ہے، بندے کی اپنی پسند بھی وہی ہو ،اور جو کچھ خدا کونا پسند ہے بندے کا اپنا دل بھی اسے نا پسند کرے ۔خدا جن بُرائیوں کو اپنی زمین میں دیکھنا نہیں چاہتا ،بندہ صرف خود ہی ان سے نہ بچے بلکہ انھیں دُنیا سے مٹا دینے کے لیے اپنی ساری قوتیں اور اپنے تمام ذرائع صرف کر دے اور خداجن بھلائیوں سے اپنی زمین کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے ،بندہ صرف اپنی ہی زندگی کو ان سے مزیّن کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ اپنی جان لڑا کر دُنیا بھر میں انھیں پھیلانے اور قائم کرنے کی کوشش کرے ۔اس مقام پر پہنچ کر بندے کو اپنے خدا کا انتہائی قرب نصیب ہوتا ہے اور اسی لیے یہ انسان کے روحانی ارتقا کی بلندترین منزل ہے۔
رُوحانی ترقی کا یہ راستہ صرف افراد ہی کے لیے نہیں ہے بلکہ جماعتوں اور قوموں کے لیے بھی ہے۔ایک فرد کی طرح ایک قوم بھی ایمان ،اطاعت اور تقوٰی کی منزلوں سے گزر کر احسان کی انتہائی منزل تک پہنچ سکتی ہے۔ اور ایک ریاست بھی اپنے پورے نظام کے ساتھ مومن،مسلم، متقی اور محسن بن سکتی ہے۔ بلکہ درحقیقت اِسلام کا منشا مکمل طور پر تو پورا ہی اس وقت ہوتا ہے کہ ایک پوری قوم کی قوم اس راہ پر گام زن ہو ،اور دُنیا میں ایک متقی اور محسن ریاست قائم ہو جائے۔
اب رُوحانی تربیت کے اس نظام پر بھی ایک نگاہ ڈال لیجیے جو افراد اور سوسائٹی کو اس طرز پر تیار کرنے کے لیے اِسلام نے تجویز کیا ہے۔ اس نظام کے چار ارکان ہیں:
پہلا رکن نماز ہے۔ یہ روزانہ پانچ وقت آدمی کے ذہن میں خدا کی یاد تازہ کرتی ہے۔اس کا خوف دلاتی ہے، اس کی محبت پیدا کرتی ہے اس کے احکام بار بار سامنے لاتی ہے اور اس کی طاعت کی مشق کراتی ہے۔ یہ نماز محض انفرادی نہیں ہے بلکہ اسے جماعت کے ساتھ فرض کیا گیا ہے تا کہ پوری سوسائٹی مجموعی طور پر رُوحانی ترقی کی اس راہ پر سفر کرنے کے لیے تیار ہو۔
دوسرا رکن روزہ ہے جو ہر سال پورے ایک مہینے تک مسلمان افراد کو فردًا فردًا اور مسلم سوسائٹی کو بحیثیتِ مجموعی تقوٰی کی تربیت دیتا رہتا ہے۔
تیسرا رکن زکوٰۃ ہے جو مسلمان افراد میں مالی ایثار، آپس کی ہم دردی اور تعاون کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ آج کل کے لوگ غلطی سے زکوٰۃ کو ’’ٹیکس‘‘ کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں، حالانکہ زکوۃ کی رُوح ٹیکس کی اسپرٹ سے بالکل مختلف ہے۔ زکوٰۃ کے اصل معنی نشو ونما اور پاکیزگی کے ہیں۔ اس لفظ سے اِسلام یہ حقیقت آدمی کے ذہن نشین کرتا ہے کہ خدا کی محبت میں اپنے بھائیوں کی جو مالی امداد تم کرو گے اس سے تمھاری روح کو بالیدگی اور تمھارے اخلاق کو پاکیزگی نصیب ہو گی۔
چوتھا رکن حج ہے۔ یہ خدا پرستی کے محور اہلِ ایمان کی ایک عالم گیر برادری بناتا ہے اورایک ایسی بین الاقوامی تحریک چلاتا ہے جو دُنیا میں صدیوں سے دعوتِ حق پر لبیک کَہ رہی ہے اور ان شاء اللہ ابد تک کہتی رہے گی۔
____ O _____