Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
توحید ورسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت
سلامتی کا راستہ
اِسلام اور جاہلیت
دینِ حق
اِسلام کا اَخلاقی نقطۂ نظر
تحریکِ اِسلامی کی اَخلاقی بُنیادیں
بنائو اور بگاڑ
جہاد فی سبیل اللہ
شہادتِ حق
مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
اِسلام کا نظامِ حیات

اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اِسلام کا اَخلاقی نقطۂ نظر

(یہ مقالہ ۲۶؍ فروری ۱۹۴۴ء کو اِسلامیہ کالج پشاور میں پڑھا گیا)
معمولی حالات میں، جب کہ زندگی کا دریا سکون کے ساتھ بہہ رہا ہو‘ انسان ایک طرح کا اطمینان محسوس کرتا ہے کیوں کہ اوپر کی صاف شفاف سطح ایک پردہ بن جاتی ہے جس کے نیچے تہہ میں بیٹھی ہوئی گندگیاں اور غلاظتیں چھپی رہتی ہیں اور پردے کی اوپری صفائی آدمی کو اس تجسس کرنے کی ضرورت کم ہی محسوس ہونے دیتی ہے کہ تہہ میں کیا کچھ چھپا ہوا ہے اور کیوں چھپا ہوا ہے، لیکن جب اس دریا میں طوفان برپا ہوتا ہے اور نیچے کی چھپی ہوئی ساری گندگیاں اور غلاظتیں ابھر کر برسرِ عام سطحِ دریا پر بہنے لگتی ہیں‘ اس وقت اندھوں کے سوا ہر وہ شخص جس کے دیدوں میں کچھ بھی بینائی کا نور باقی ہو، ہر اشتباہ کے بغیر صاف صاف دیکھ لیتا ہے کہ زندگی کا دریا کیا کچھ اپنے اندر لیے ہوئے چل رہا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عام انسانوں میں اس ضرورت کا احساس پیدا ہو سکتا ہے کہ اس منبع کا سراغ لگائیں جہاں سے دریائے زندگی میں یہ گندگیاں آ رہی ہیں، اور اس تدبیر کی جستجو کریں جس سے اس دریا کو پاک کیا اور رکھا جا سکے۔ فی الواقع اگر ایسے وقت میں بھی لوگوں کے اندر اس ضرورت کا احساس بیدار نہ ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ نوعِ انسانی اپنی غفلت کے نشے میں مدہوش ہو کر سُود وزیاں سے بالکل ہی بے خبر ہو چکی ہے۔
موجودہ قوموں کی اَخلاقی حالت
یہ زمانہ جس سے ہم آج کل گزر رہے ہیں انھی غیر معمولی حالات کا زمانہ ہے۔ زندگی کا دریا اس وقت اپنی طغیانی پر ہے۔ ملک ملک اور قوم قوم کے درمیان سخت کش مکش برپا ہے اور یہ کش مکش اتنی گہرائی تک اتری ہوئی ہے کہ بڑے بڑے مجموعوں سے گزر کر فرد فرد تک کو نزاع کے میدان میں کھینچ لائی ہے۔ اس طرح عالمِ انسانی کے بیش تر حصّے نے اپنے وہ تمام اَخلاقی اوصاف اُگل کر منظر عام پر رکھ دیے ہیں، جنھیں وہ مدتوں سے اندر ہی اندر پرورش کر رہا تھا۔ اب ہم ان گندگیوں کو علانیہ سطحِ زندگی پر دیکھ رہے ہیں جنھیں تلاش کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ تعمق کی ضرورت تھی۔ اب صرف ایک مادر زاد اندھا ہی اس غلَط فہمی میں مبتلا رہ سکتا ہے کہ ’’بیمار کا حال اچھا ہے۔‘‘ اور صرف وہی لوگ بیماری کی تشخیص اور علاج کی فکر سے غافل رہ سکتے ہیں جو حیوانات کی طرح اَخلاقی حس سے بالکل خالی ہیں یا جن کے اَخلاقی احساسات پر فالج گِر گیا ہے۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ پوری پوری قومیں بہت بڑے پیمانے پر اُن بدترین اَخلاقی صفات کا مظاہرہ کر رہی ہیں جنھیں ہمیشہ سے انسانیّت کے ضمیر نے انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ بے انصافی، بے رحمی، ظلم وستم، جھوٹ، دغا، فریب، مکر، بدعہدی، خیانت، بے شرمی، نفس پرستی، استحصال بالجبر اور ایسے ہی دوسرے جرائم محض انفرادی جرائم نہیں رہے ہیں بلکہ قومی اَخلاق کی حیثیت سے ظاہر ہو رہے ہیں۔ دُنیا کی بڑی بڑی قومیں اجتماعی حیثیت سے وہ سب کچھ کر رہی ہیں جس کا ارتکاب کرنے والے افراد ابھی تک ان کے ہاں جیلوں میں ٹھونسے جاتے ہیں۔ ہر قوم نے چھانٹ چھانٹ کر اپنے بڑے سے بڑے مجرموں کو اپنا لیڈر اور سربراہِ کار بنایا ہے اور ان کی قیادت میں بدمعاشی کی کوئی مکروہ سے مکروہ قسم ایسی نہیں رہ گئی جس کا وہ کھلم کھلا، نہایت بے حیائی کے ساتھ وسیع پیمانے پر ارتکاب نہ کر رہی ہوں۔ ہر قوم دوسری قوم کے خلاف جھوٹ تصنیف کر کرکے علانیہ نشر کر رہی ہے اورریڈیو کے ذریعے سے ان جھوٹوں نے فضائے اثیر تک کو گندہ کر دیا ہے۔ پورے پورے ملکوں اور براعظموں کی آبادیاں لٹیروں اورڈاکوئوں میں تبدیل ہو گئی ہیں اور ہر ڈاکو عین اس وقت جبکہ وہ خود ڈاکہ مار رہا ہوتا ہے، نہایت بے شرمی کے ساتھ اپنے مخالف ڈاکو ان ساری گناہ گاریوں کا شکوہ کرتا ہے جن سے داغ دار ہونے میں اس کا اپنا دامن بھی اپنے حریف سے کچھ کم سیاہ نہیں ہوتا۔ انصاف کے معنی ان ظالموں کے نزدیک صرف اپنی قوم کے ساتھ انصاف کے رہ گئے ہیں۔ حق جو کچھ ہے ان کے لیے ہے۔ دوسروں کے حقوق پر دست درازی ان کے اَخلاقی قانون میں جائز بلکہ کارِ ثواب ہے۔ قریب قریب تمام قوموں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ ان کے ہاں لینے کے پیمانے اور ہیں اور دینے کے اور۔ جتنے معیار وہ اپنے مفاد کے لیے قائم کرتی ہیں، دوسروں کا مفاد سامنے آتے ہی وہ سب معیار بدل جاتے ہیں، اور جن معیاروں کا وہ دوسروں سے مطالبہ کرتی ہیں ان کی پابندی خود کرنا حرام سمجھتی ہیں۔ بد عہدی کا مرض اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ اب ایک قوم کو دوسری قوم پر کوئی اعتماد باقی نہیں رہا۔ بڑی بڑی قوموں کے نمایندے نہایت مہذّب صورتیں لیے ہوئے جن بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کر رہے ہوتے ہیں، اس وقت ان کے دلوں میں یہ خبیث نیت چھپی ہوئی ہوتی ہے کہ پہلا موقع ملتے ہی اس مقدس بکرے کو قومی مفاد کی قربان گاہ پر بھینٹ چڑھائیں گے اور جب ایک قوم کا صدر یا وزیر اعظم اس قربانی کے لیے چُھری تیز کرتا ہے تو پوری قوم میں سے ایک آواز بھی اس بد اَخلاقی کے خلاف نہیں اٹھتی، بلکہ ملک کی پوری آبادی اس جرم میں شریک ہو جاتی ہے۔ مکاری کا حال یہ ہے کہ بڑے بڑے پاکیزہ، اَخلاقی اصولوں کی گفتگو کی جاتی ہے، صرف اس لیے کہ دُنیا کو بے وقوف بنا کر اپنے مفاد کی خدمت اس سے لی جائے اور سادہ لوح انسانوں کو یقین دلایا جائے کہ تم سے جان ومال کی قربانی کا مطالبہ جو ہم کر رہے ہیں، یہ کچھ اپنے لیے نہیں ہے بلکہ ہم بے غرض، نیکوں کے نیک لوگ یہ ساری تکلیفیں محض انسانیّت کی بھلائی کے لیے برداشت کر رہے ہیں۔ سنگ دِلی وبے رحمی اس مرتبۂ کمال تک پہنچی ہے کہ ایک ملک جب دوسرے ملک پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس کی آبادی کو روندنے اور کچلنے میں محض اسٹیم رولر کی سی بے حسی ہی اس سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ وہ نہایت مزے لے لے کر دُنیا کواپنے ان کارناموں کی اطلاع دیتا ہے، گویا اسے معلوم ہے کہ اب دُنیا انسانوں سے نہیں بلکہ صرف بھیڑیوں سے آباد ہے۔ خود غرضانہ شقاوت اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ ایک قوم دوسری قوم کو اپنے مفاد کے لیے مسخر کرنے کے بعد صرف یہی نہیں کہ بے دردی کے ساتھ اسے لوٹتی کھسوٹتی ہے بلکہ نہایت منظم طریقے سے پیہم کوشش کرتی رہتی ہے کہ انسانیت کے تمام شریفانہ خصائل سے اس کو خالی کر دے اوروہ تمام کمینہ اوصاف اس کے اندر پرورش کرے جنھیں وہ خود نہایت گھنائونا سمجھتی ہے۔
یہ چند نمایاں ترین اَخلاقی خرابیاں میں نے محض نمونے کے طور پر بیان کی ہیں ورنہ تفصیل کے ساتھ اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ پوری انسانیت کا جسم اَخلاقی حیثیت سے سڑ گیا ہے۔ پہلے قحبہ خانے اور قمار بازی کے اڈے اَخلاقی پستی کے سب سے بڑے پھوڑے سمجھے جاتے تھے لیکن اب تو ہم جدھر دیکھتے ہیں انسانی تمدن پورا کا پورا ہی ایک پھوڑا نظر آتا ہے۔ قوموں کی پارلیمینٹیں اور اسمبلیاں، حکومتوں کے سیکرٹریٹ اور وزارت خانے ، عدالتوں کے ایوان اور وکالت خانے، پریس اور نشرگاہیں، یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے، بینک اور صنعتی وتجارتی کاروبار کے مجامع، سب کے سب پھوڑے ہی پھوڑے ہیں جو کسی تیز نشتر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ علم جو انسانیت کا عزیز ترین جوہر ہے، آج اس کا ہر شعبہ انسانیت کی تباہی کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ طاقت اور زندگی کے تمام وسائل جو قدرت نے انسان کے لیے مہیا کیے تھے، فساد اور خرابی کے کاموں میں ضائع کیے جا رہے ہیں اور وہ صفات بھی، جو انسان کی بہترین اَخلاقی صفات سمجھی جاتی تھیں، مثلاً شجاعت، ایثار، قربانی، فیاضی، صبر، تحمّل، اولواالعزمی، بلند حوصلگی وغیرہ، آج انھیں بھی چند بڑی اور بنیادی بداَخلاقیوں کا خادم بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
ظاہر ہے کہ اجتماعی خرابیاں اس وقت ابھر کر نمایاں ہوتی ہیں جب انفرادی خرابیاں پایۂ تکمیل کو پہنچ چکی ہوتی ہیں۔ آپ اس بات کا تصوّر نہیں کر سکتے کہ کسی سوسائٹی کے بیش تر افراد نیک کردار ہوں اور وہ سوسائٹی بحیثیت مجموعی بدکرداری کا مظاہرہ کرے۔ یہ کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے کہ نیک کردار لوگ اپنی قیادت اور نمایندگی اور سربراہ کاری بدکردار لوگوں کے ہاتھ میں دے دیں اور اس بات پر راضی ہو جائیں کہ ان کے قومی اور ملکی اور بین الاقوامی معاملات کو غیر اَخلاقی اصولوں پر چلایا جائے۔ اس لیے جب وسیع پیمانے پر دُنیا کی قومیں ان گھنائونے اور رذیل اَخلاقی اوصاف کا اظہاراپنے اجتماعی اداروں کے ذریعے سے کر رہی ہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آج نوعِ انسانی اپنی تمام علمی وتمدنی ترقیوں کے باوجود ایک شدید اَخلاقی تنزل میں مبتلا ہے اور اس کے بیش تر افراد اس وبا سے متاثر ہو چکے ہیں۔ یہ حالت اگر یونہی ترقی کرتی رہی تو وہ وقت دُور نہیں جب انسانیت کسی بہت بڑی تباہی سے دوچار ہو گی اورایک طویل عہدِ ظلمت اس پر چھا جائے گا۔
اب اگر ہم آنکھیں بند کرکے تباہی کے گڑھے کی طرف سرپٹ جانا نہیں چاہتے تو ہمیں کھوج لگانا چاہیے کہ اس خرابی کا سرچشمہ کہاں ہے جہاں سے یہ طوفان کی طرح امڈی چلی آ رہی ہے۔ چوں کہ یہ اَخلاقی خرابی ہے لہٰذا لامحالہ ہمیں اس کا سراغ ان اَخلاقی تصوّرات ہی میں ملے گا جو اس وقت دُنیا میں پائے جاتے ہیں۔
موجودہ اَخلاقی تصوّرات
دُنیا کے اَخلاقی تصوّرات کیا ہیں؟ اس سوال کی جب ہم تحقیق کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصولاً یہ تمام تصوّرات دو بڑی قسموں پر منقسم ہیں:
ایک قسم کے تصوّرات وہ جو خدا اور حیات بعد موت کے عقیدے پر مبنی ہیں۔
دوسری قسم کے تصوّرات وہ جو ان عقیدوں سے الگ ہٹ کر کسی دوسری بنیاد پر قائم ہوئے ہیں۔
آئیے اب ہم ان دونوں قسم کے تصوّرات کا جائزہ لے کردیکھیں کہ دُنیا میں اس وقت یہ کس صورت میں پائے جاتے ہیں اور ان کے نتائج کیا ہیں۔
خدا اور حیات بعد موت کے عقیدے پر جتنے اَخلاقی تصوّرات قائم ہوتے ہیں‘ ان کی صورت کا تمام تر انحصار اس عقیدے کی نوعیّت پر ہوتا ہے جو خدا اور حیات بعد موت کے متعلق لوگوں میں پایاجاتا ہو۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا چاہیے کہ دُنیا اس وقت خدا کو کس شکل میں مان رہی ہے اور دوسری زندگی کے متعلق اس کے عام تخیلات کیا ہیں۔
خدا کو ماننے والے بیش تر انسان اس وقت شرک میں مبتلا ہیں۔ انھوں نے اپنے زعم میں خدائی کے اکثر اختیارات، جن کا تعلق ان کی اپنی زندگی سے ہے، دوسری ہستیوں پر تقسیم کر دیے ہیں اور ان ہستیوں کا خیالی نقشہ اپنی خواہشات کے مطابق ایسا بنا لیا ہے کہ وہ اپنے ان خدا یا نہ اختیارات کو ٹھیک اُسی طرح استعمال کرتی ہیں جس طرح یہ چاہتے ہیں کہ وہ استعمال کریں۔ یہ گناہ کرتے ہیں، وہ بخشوا لیتی ہیں، یہ فرائض سے غافل اور حقوق سے بے پروا ہو کر بے مہار جانور کی طرح حرام وحلال کی تمیز کے بغیر دُنیا کی کھیتی کو چرتے پھرتے ہیں اور وہ کچھ نذر ونیاز کے عوض ان کی نجات کی ضمانت لے لیتی ہیں۔ یہ چوری بھی کرنے جاتے ہیں تو ان کی عنایت سے تھانہ دار سوتارہ جاتا ہے۔ ان کے اور ان کے درمیان یہ سودا طے ہو گیا ہے کہ یہ ان کی طرف سے عقیدہ اچھا رکھیں اور نذر پیش کرتے رہیں، اور اس کے جواب میں وہ ان کے سب کام، جو کچھ بھی یہ کرنا چاہیں ، بناتی رہیں گی اور مرنے کے بعد جب خدا انھیں پکڑنا چاہے گا تو وہ بیچ میں حائل ہو کر کہہ دیں گی کہ یہ ہمارے دامن کے سایہ میں ہیں، ان سے کچھ نہ کہا جائے۔ بلکہ بعض جگہ تو اس پکڑ دھکڑ کی نوبت ہی نہ آئے گی، کیوں کہ ان کے گناہوں کا کفارہ پہلے ہی کوئی ادا کر چکا ہے۔ ان مشرکانہ عقاید نے زندگی بعد موت کے عقیدے کو بھی بے معنی کر دیا ہے، اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ ساری اَخلاقی بنیادیں کھوکھلی ہو چکی ہیں جو مذہب نے تعمیر کی تھیں۔ مذہبی اَخلاقیات کتابوں میں لکھے ہوئے موجود ہیں، اور زبانوں پر ان کا ذکر بھی احترام کے ساتھ آتا ہے، مگر عملاً ان کی پابندی سے بچنے کے لیے شرک نے فرار کی بے شمار راہیں فراہم کر دی ہیں اور کچھ اس شان سے فراہم کی ہیں کہ جس راہ سے بھی یہ چاہیں بھاگیں بہرحال انھیں اطمینان ہے کہ آخر کار پہنچیں گے نجات ہی کی منزل پر۔
شرک سے قطع نظر کرکے جہاں خداپرستی اور عقیدۂ آخرت کچھ بہتر صورت میں موجود ہے، وہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کے مطالبات سکڑ کر انسانی زندگی کے ایک بہت چھوٹے سے دائرے میں محدود ہو گئے ہیں۔ چند اعمال، چند رسوم، اور چند پابندیاں ہیں جن کا محدود انفرادی ومعاشرتی زندگی میں خدا ان سے مطالبہ کرتا ہے اور انھی کے معاوضے میں اس نے ایک بہت بڑی جنت ان کے لیے مہیا کر رکھی ہے۔ اگر یہ ان مطالبوں کو پورا کر دیں تو پھر کوئی چیز خدا کی طرف سے ان کے کرنے کی نہیں رہ جاتی۔ اس کے بعد یہ آزاد ہیں کہ اپنی زندگی کے معاملات جس طرح چاہیں چلائیں۔ اور اگر ان خدائی مطالبوں میں بھی کوتاہی رہ جائے تو اس کی رحمت اور نکتہ نوازی پر بھروسا ہے کہ وہ گناہوں کے پشتار ے ان سے جنت کے دروازے پر رکھوا لے گا اور اندر جانے کے لیے اعزازی ٹکٹ عنایت فرما دے گا۔ اس تنگ مذہبی تصوّر نے اوّل تو زندگی کے معاملات پر مذہبی اَخلاقیات کے انطباق کو بہت محدود کر دیا ہے، جس کی وجہ سے زندگی کے تمام بڑے بڑے شعبے ہر اس اَخلاقی راہ نمائی اور بندش سے آزاد ہو گئے ہیں جو مذہب سے حاصل ہو سکتی تھی، دوسرے اس تنگ دائرے میں بھی اَخلاق کی گرفت سے بچ نکلنے کے لیے ایک راستہ یہاں کھلا ہوا ہے جس سے فائدہ اٹھانے میں کم ہی لوگ سستی دکھاتے ہیں۔
ان سب سے بہتر حالت جن میں مذہبی طبقوں کی ہے، جو شرک سے بھی پاک ہیں، سچائی کے ساتھ خدا کو بھی مانتے ہیں، اور آخرت کے متعلق بھی کسی جھوٹے بھروسے پر تکیہ نہیں کر بیٹھے ہیں، ان کے اندر اَخلاق کی پاکیزگی تو بے شک پائی جاتی ہے، اور بہترین سیرت وکردار کے لوگ ان میں مل جاتے ہیں، لیکن انھیں بالعموم مذہب وروحانیت کے محدود تصوّر نے خراب کر رکھا ہے۔ وہ دُنیا اور اس کے مسائلِ زندگی سے بڑی حد تک بے تعلق ہو کر یا تو چند مخصوص کاموں کو جنھیں مذہبی کام سمجھا جاتا ہے، لے بیٹھتے ہیں، یا اپنے نفس کو مانجھ مانجھ کر صاف کرتے ہیں تاکہ وہ اس دُنیا ہی میں عالمِ غیب کی آوازیں سننے اور حسنِ مطلق کی پرچھائیاں دیکھنے کے قابل ہو جائیں۔ ان کے نزدیک نجات کا راستہ دنیوی زندگی کے کنارے کنارے بچ کر نکل جاتا ہے اور خدا کے قرب سے سرفراز ہونے کی سبیل بس یہ ہے کہ ایک طرف مذہب کے دیے ہوئے نقشے پر اپنی زندگی کے ظاہری پہلوئوں کو ڈھال لیا جائے، دوسری طرف نفس کی صفائی کے چند طریقوں سے کام لے کر اسے مجلّٰی ومصفّا کر لیا جائے، اور پھر ایک محدود دائرے کے اندر کچھ مذہبی وروحانی مشاغل میں مصروف رہ کر زندگی کے دن پورے کر دیے جائیں۔ گویا ان کے خدا کو چند خوش وضع شیشے کے برتن، چند مقطَّع لائوڈ سپیکر، چند عمدہ گراموفون، چند لطیف ریڈیو سیٹ، چند خوشنما فوٹو کے کیمرے درکار تھے اور اسی غرض کے لیے اس نے زمین میں اتنا کچھ سامان دے کر انسانوں کو بھیجا تاکہ یہاں سے اپنے آپ کو ان چیزوں میں تبدیل کرکے پھر اس کے پاس واپس پہنچ جائیں۔ مذہب وروحانیت کے اس غلَط تصوّرکا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ جو نفوس بلند تر اور پاکیزہ تر اَخلاقی صلاحیتوں کے حامل تھے انھیں یہ زندگی کے میدان سے ہٹا کر گوشوں میں لے گیا اور گھٹیا درجے کے اوصاف رکھنے والوں کے لیے بغیر مزاحمت کے خود بخود میدان خالی ہو گیا۔
دُنیا کی پُوری مذہبی صورت حال کا یہ لُبِّ لباب ہے اور اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ خدا پرستی سے جو اَخلاقی طاقت انسان کو ملنی ممکن تھی، بیش تر انسان تو اسے سرے سے حاصل ہی نہیں کر رہے ہیں، اور ایک بہت قلیل تعداد اسے حاصل کر رہی ہے لیکن انسانیت کی راہ نمائی و سربراہ کاری سے وہ خود دست بردار ہو گئی ہے۔ اس لیے اس کا حال اس بٹیری کا سا ہے جس میں بجلی بھری جائے اور وہ یونہی رکھے رکھے اپنی عمر پوری کر دے۔
انسانی تمدن کی گاڑی بالفعل جو لوگ اس وقت چلا رہے ہیں ان کے اَخلاقیات خدا اور آخرت کے اساسی تخیل سے خالی ہیں اور دانستہ خالی کیے گئے ہیں۔ نیز اَخلاق میں خدا کی راہ نمائی قبول کرنے سے انھوں نے قطعی انکار کر دیا ہے۔ اگرچہ ان میں کثیر التعداد لوگ کسی نہ کسی مذہب کے قائل ہیں، مگر ان کے نزدیک مذہب ہر انسان کا محض ایک شخصی وانفرادی معاملہ ہے جسے اپنی ذات تک آدمی کو محدود رکھنا چاہیے۔ اجتماعی زندگی اور اس کے معاملات سے مذہب کو کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ پھر اس کی کیا ضرورت کہ وہ ان معاملات کو چلانے کے لیے کسی فوق الفطری ہدایت کی طرف رجوع کریں۔ گزشتہ صدی کے اواخر میں جس اَخلاقی تحریک کی ابتدا امریکہ سے ہوئی تھی اور جو بڑھتے بڑھتے انگلستان اور دوسرے ممالک میں پھیل گئی، اس کا بنیادی مسلک ’’امریکی انجمنِ اَخلاق‘‘ (american-ethical union) کے مقاصد کی فہرست میں بایں الفاظ واضح کیا گیا تھا:
’’انسانی زندگی کے تمام تعلقات میں، خواہ وہ شخصی ہوں‘ اجتماعی ہوں، قومی ہوں یا بین الاقوامی، اَخلاق کی انتہائی اہمیت پر زور دینا بغیر اس کے کہ مذہبی معتقدات یا مابعد الطبیعی تخیلات کا اس میں کوئی دخل ہو‘‘۔
اس تحریک کے زیر اثر انگلستان میں ’’اتحاد انجمن ہائے اَخلاق‘‘ (union of ethical societies)قائم ہوئی جو بعد کو ’’اَخلاقی اتحاد‘‘(ethical union) کے نام سے منظم کی گئی۔ اس کا اساسی مقصد یہ بیان کیا گیا تھا:
’’انسانی رفاقت اور خدمت کے ایک ایسے طریقے کی تلقین کرنا جو اس اصول پر مبنی ہو کہ مذہب کا سب سے بڑا مقصد بھلائی کی مَحبّت ہے اور یہ کہ اَخلاقی تصوّرات اور اَخلاقی زندگی کے لیے دُنیا کی حقیقت اور زندگی بعد موت کے متعلق کسی عقیدے کی حاجت نہیں ہے، اور یہ کہ خالص انسانی اور فطری ذرائع سے انسانوں کو اپنے تمام تعلقات زندگی میں حق سے مَحبّت کرنے‘ حق جاننے اور حق پر عمل کرنے کے لیے تیار کیا جائے۔‘‘
ان الفاظ میں درحقیقت اس پورے طبقے کی نمایندگی کی گئی ہے جو اس وقت دُنیا کے افکار، تہذیب، تمدن ، اور معاملات کی راہ نمائی کر رہا ہے۔ آج دُنیا کے کاروبار کو عملاً جو لوگ چلا رہے ہیں ان سب کے ذہن پر وہی تخیل چھایا ہوا ہے جو اوپر کے چند فقروں میں بیان کیا گیا ہے‘ سب ہی نے بالفعل اپنے اَخلاقیات کو خدا اور آخرت کے عقیدے اور مذہب کی اَخلاقی راہ نمائی سے آزاد کر لیا ہے۔ وہ اگر خدا کو مانتے بھی ہیں تو صرف اس کے ہونے کو مانتے ہیں۔ اپنی زندگی کے اصول اور ضابطے اس سے نہیں لیتے۔
غیر مذہبی اور غیر اَخلاقی فلسفوں کا جائزہ
اب ہمیں ان غیر مذہبی اَخلاقی فلسفوں کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ ان کی کیا کیفیت ہے:
(۱) فلسفۂ اَخلاق کا پہلا بنیادی سوال یہ ہے کہ وہ اصلی اور انتہائی بھلائی کیا ہے جس کو پہنچنا انسانی سعی وعمل کا مقصود ہونا چاہیے اور جس کے معیار پر انسان کے طرزِ عمل کو پرکھ کر فیصلہ کیا جائے کہ وہ اچھا ہے یا برا‘ صحیح ہے یا غلط؟
اس سوال کا کوئی ایک جواب انسان نہیں پا سکا۔ اس کے بہت سے جوابات ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک وہ بھلائی خوشی ہے۔ دوسرے کے نزدیک کمال ہے۔ تیسرے کے نزدیک فرض برائے فرض ہے۔
پھر خوشی کے متعلق مختلف سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیسی خوشی؟ آیا وہ جو جسمانی ونفسانی خواہشات کے پورا ہونے سے حاصل ہوتی ہے؟ یا وہ جو ذہنی ترقی کے مدارج پر چڑھنے سے حاصل ہوتی ہے؟ یا وہ جو اپنی شخصیت کو آرٹ یا روحانیت کے نقطۂ نظر سے آراستہ کر لینے سے حاصل ہوتی ہے؟ نیز یہ کہ کس کی خوشی؟ آیا ہر شخص کی اپنی خوشی؟ یا اس جماعت کی خوشی جس سے انسان وابستہ ہے؟ یا تمام انسانوں کی خوشی؟ یا فی الجملہ دوسروں کی خوشی؟
اسی طرح کمال کو مقصود قرار دینے والوں کے لیے بھی بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کمال کا تصوّر اور اس کا معیار کیا ہے؟ اور کمال کس کا مقصود ہے؟ فرد کا؟ جماعت کا؟ یا انسانیت کا؟
اسی طرح جو لوگ فرض برائے فرض کے قائل ہیں اور ایک غیر مشروط واجب الاطاعت قانون(catgorical imperative) کی بے چون وچرا اطاعت ہی کو آخری وانتہائی بھلائی قرار دیتے ہیں‘ ان کے لیے بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ قانون فی الواقع ہے کیا؟ کس نے اسے بنایا؟ اور کس کا قانون ہونے کی وجہ سے وہ واجب الاطاعت ہے۔
ان تمام سوالات کے جوابات مختلف گروہوں کے نزدیک مختلف ہیں۔ محض فلسفے کی کتابوں ہی میں مختلف نہیں ہیں بلکہ عملاً بھی مختلف ہیں۔ یہ ساری انسانوں کی بھیڑ جو آپ کے سامنے تمدنِ انسانی کی گاڑی کو چلا رہی ہے، جس میں سلطنتوں کو چلانے والے وزیر، فوجوں کو لڑانے والے جنرل، انسانوں کے درمیان فیصلہ کرنے والے جج، انسانی معاملات کے قانون بنانے والے شارعین (legislators)انسانوں کو تیار کرنے والے معلّم، انسان کے معاشی ذرائع کو کنٹرول کرنے والے کاروباری لوگ، اور تمدن کے کارخانے میں کام کرنے والے مختلف مدارج کے کارکن، سب ہی شامل ہیں۔ ان کے پاس بھلائی کا کوئی ایک معیار نہیں ہے‘ بلکہ ہر ایک شخص اور ہر ایک گروہ اپنا الگ معیار رکھتا ہے اور ایک تمدنی نظام میں کام کرتے ہوئے بھی ہر ایک کا رخ ایک الگ مقصود کی طرف پھرا ہوا ہے۔ کسی کے نزدیک اپنی خوشی منتہا ہے اور خوشی سے اس کی مراد نفسانی وجسمانی خواہشات کی تکمیل ہے۔ کوئی اپنی خوشی کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور اس کے ذہن میں خوشی سے کچھ اور مراد ہے۔ اس ذاتی خوشی کے حصول اور عدمِ حصول ہی کے لحاظ سے وہ فیصلہ کر رہا ہے کہ اجتماعی زندگی میں اس کے لیے کون سا طرزِ عمل نیک ہے یا بد۔ مگر اس کی ظاہری شریفانہ صورت سے ہم اس غلَط فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کے لیے وہ ایک موزوں وزیر، یا جج، یا معلّم یا کسی دوسری حیثیت سے تمدن کی مشین کا ایک اچھا پُرزہ ہے۔ اسی طرح کوئی خوشی سے مراد انسانوں کے اس مخصوص مجموعے کی خوشی وخوشحالی سمجھتا ہے جس کے ساتھ اس کی دل چسپیاں وابستہ ہیں اور یہی اس کے نزدیک وہ خیر برتر ہے جس کے حصول کی سعی کرنا اس کے نزدیک نیکی ہے۔ یہ نقطۂ نظر اسے اپنے طبقے یا برادری یا قوم کے سوا ہر ایک کے لیے سانپ اور بچّھو بنا دیتا ہے لیکن ہم اس کی ظاہری مہذب صورت کی وجہ سے اسے ایک شریف انسان فرض کر لیتے ہیں۔ اور وہ امانتیں اس کے حوالے کر دیتے ہیں جن میں اس کے اپنے طبقے یا برادری یا قوم کے سوا دوسروں کا حصہ بھی ہوتا ہے۔ ایسی ہی مختلف اقسام کی شخصیتیں کمال کو خیرِ اعلیٰ ماننے والوں اور فرض برائے فرض کے قائلین میں بھی پائی جاتی ہیں، جن میں سے اکثر کے نظریات اپنے عملی نتائج کے اعتبار سے انسانی تہذیب وتمدن کے لیے زہر کا حکم رکھتے ہیں، مگر وہ تریاق کا لیبل لگائے ہوئے ہماری اجتماعی زندگی میں جذب ہوئے چلے جا رہے ہیں۔
(۲) اب آگے چلئے۔ فلسفۂ اَخلاق کے بنیادی سوالات میں سے دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس خیر وشر کے جاننے کا ذریعہ کیا ہے؟ کس مآخذ کی طرف ہم یہ معلوم کرنے کے لیے رجوع کریں کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا، صحیح کیا ہے اور غلَط کیا؟
اس سوال کا بھی کوئی ایک جواب انسان کو نہیں ملا۔ اس کے بھی بہت سے جوابات ہیں۔ کسی کے نزدیک وہ ذریعہ اور ماخذ انسانیت کا تجربہ ہے، کسی کے نزدیک قوانینِ حیات اور حالاتِ وجود کا علم ہے، کسی کے نزدیک وجدان ہے، کسی کے نزدیک عقل ہے۔ یہاں پہنچ کر وہ بدنظمی اپنی انتہا کوپہنچ جاتی ہے جس کا آپ نے پہلے سوال کے معاملے میں مشاہدہ کیا۔ ان چیزوں کو مآخذ قرار دینے کے بعد اَخلاق کے لیے مستقل اصول ہی یہ قرارپا جاتا ہے کہ اس کا کوئی متعیّن معیار نہ ہو، بلکہ وہ ایک سیال مادّے کی طرح بہتا اور مختلف صورتوں اورپیمانوں میں ڈھلتا چلا جائے۔
انسانیّت کے تجربے سے صحیح علم حاصل کرنے کے لیے ناگزیر ہے کہ اس کے متعلق مکمل اور مفصّل معلومات یک جا جمع ہوں اور کوئی ہمہ بیں اور کامل متوازن ذہن ان سے نتائج اخذ کرے۔ لیکن یہ دونوں چیزیں حاصل نہیں ہیں۔ اوّل تو انسانیت کا تجربہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ جاری ہے۔ پھر اب تک کا جو تجربہ ہے اس کے بھی مختلف اجزا مختلف لوگوں کے سامنے ہیں اور وہ مختلف طور پراپنی ذہنیت کے مطابق ان سے نتائج نکال رہے ہیں۔ تو کیا ان ناقص معلومات سے مختلف نامکمل ذہن اپنے رجحانات کے مطابق جو نتائج بھی اخذ کر لیں وہ سب صحیح ہو سکتے ہیں؟ اگر نہیں، تو کیسے سخت بیمار ہیں وہ ذہن جو اپنے خیروشر وکو جاننے کے لیے اس ذریعۂ علم کو کافی سمجھتے ہیں۔
یہی معاملہ قوانینِ حیات اور حالاتِ وجود کا ہے۔ یا تو آپ اَخلاقی بھلائی اور برائی کو جاننے کے لیے اس وقت کا انتظار کریں جب اِن قوانینِ اور حالات کا علم قابلِ اطمینان حد تک آپ کی گرفت میں آ جائے یا نہیں تو ناکافی معلومات کو نا کافی جانتے ہوئے انھی کی بنیادپر مختلف ذہنیت اور مختلف مراتبِ علمی کے لوگ مختلف طور پر فیصلے کرتے رہیں کہ ان کے لیے خیر کیا ہے اور شر کیا؟ اور علم کی ہر نئی قسط حاصل ہونے کے بعد ان فیصلوں کو بدلتے بھی رہیں۔ حتّٰی کہ آج کا خیر کل شر ہو جائے اور آ ج کا شر کل خیر قرار پائے۔
عقل اور وجدان کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ بلاشبہ خیر وشر کو جاننے کی کچھ استعداد عقل کو بھی حاصل ہے اور اس عقل سے ہر انسان نے کچھ نہ کچھ حصہ پایا، اور خیر وشر کا کچھ علم وجدانی بھی ہے جس کا الہام ہر انسان کے ضمیر پر فطرتاً ہوتا ہے۔ لیکن اس علم کے لیے ان میں سے کوئی بھی کافی بالذّات نہیں کہ اسی کو آخری اور واحد ذریعۂ علم کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ عقل یا وجدان، جس کو بھی آپ کافی بالذّات سمجھیں گے، بہرحال ایک ایسے ذریعۂ علم پر آپ اعتماد کریں گے جو نہ صرف یہ کہ اپنی فطرت میں ناقص ومحدود ہے، بلکہ وہ مختلف، مختلف طبقوں، مختلف حالات اور مختلف زمانوں میں پہنچ کر بالکل مختلف چیزوں پر خیر یا شر ہونے کا حکم لگاتا ہے۔
یہ ساری بدنظمی جس کا میں نے ابھی آپ سے ذکر کیا ہے، محض علمی مقالات اور فلسفیانہ بحثوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ فی الواقع دُنیا کے تمدن وتہذیب میں عملاً اس کا عکس پوری طرح نمایاں ہو رہا ہے۔ آپ کے تمدن میں جو لوگ کام کر رہے ہیں، خواہ وہ کار فرمائی کے مقام پر ہوں، یا کارکنی کے مقام پر یا کارفرمائوں اور کارکنوں کے بنانے میں لگے ہوئے ہوں، یہ سب خیر وشر اور صحیح وغلَط جاننے کے لیے اپنے اپنے طور پر انھی مختلف مآخذوں کی طرف رجوع کر رہے ہیں‘ اور ہر شخص اور ہر گروہ کا خیر وشر دوسرے کے خیر وشر سے الگ ہے‘ حتّٰی کہ ایک کا خیر دوسرے کا انتہائی شر ہے‘ ایک کا شر دوسرے کا انتہائی خیر۔ اس بدنظمی نے اَخلاق کے لیے کوئی پائیدار بنیاد باقی ہی نہیں رہنے دی ہے۔جن چیزوں کو دُنیا میں ہمیشہ سے جرم اور گناہ سمجھا جاتا رہا ہے آج کسی نہ کسی گروہ کی نگاہ میں وہ عین خیر ہیں یا مطلقاً خیر نہیں تو اضافی خیر بن گئی ہیں۔ اسی طرح جن بھلائیوں کو ہمیشہ سے انسان خوبی سمجھتا رہا ہے ان میں سے اکثر آج حماقت اور مضحکہ قرار پا چکی ہیں اور مختلف گروہ انھیں شرم کے ساتھ نہیں بلکہ فخر کے ساتھ علانیہ پامال کر رہے ہیں۔ پہلے جھوٹا جھوٹ بولتا تھا مگر معیارِ اَخلاق سچائی ہی کو مانتا تھا، لیکن آج کے فلسفوں نے جھوٹ کو خیر بنا دیا ہے اور جھوٹ بولنے کا ایک مستقل فن مدوّن کیا جا رہا ہے، اور بڑے پیمانے پر قومیں اور سلطنتیں جھوٹ پھیلا رہی ہیں۔ یہی حال ہر بداَخلاقی کا ہے کہ پہلے بداَخلاقیاں، بد اَخلاقیاں ہی تھیں مگر آج نئے فلسفوں کے طفیل وہ سب مطلق یا اضافی خیر میں تبدیل کر دی گئی ہیں۔
(۳) فلسفۂ اَخلاق کے بنیادی سوالات میں سے تیسرا سوال یہ ہے کہ قانونِ اَخلاق کے پیچھے وہ قوت کون سی ہے جس کے زور سے یہ قانون نافذ ہو؟اس کے جواب میں مسّرت اور کمال کے پرستار کہتے ہیں کہ خوشی یا کمال کی طرف لے جانے والی بھلائیاں اپنی پیروی کرانے کی طاقت آپ ہی اپنے اندر رکھتی ہیں اور رنج یا پستی کی طرف لے جانے والی برائیاں آپ اپنے ہی زور پر اپنے سے اجتناب کرا لیتی ہیں۔ اس کے سوا قانونِ اَخلاق کے لیے کسی خارجی اقتدار کی ضرورت ہی نہیں۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ قانونِ فرض انسان کے ارادۂ معقول کا اپنے اوپر آپ عائد کیا ہوا قانون ہے، اس کے لیے کسی بیرونی زور کی حاجت نہیں۔ تیسرا گروہ سیاسی اقتدار کو قانونِ اَخلاق کی اصل قوتِ نافذہ سمجھتا ہے اور اس ملک کی رو سے اسٹیٹ کی طرف وہ تمام اختیارات منتقل ہو جاتے ہیں جو پہلے خدا کے لیے تھے، یعنی باشندوں کے حق میں یہ فیصلہ کرنا کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہ کرنا چاہیے۔ چوتھے گروہ نے یہ مرتبہ اسٹیٹ کے بجائے سوسائٹی کو دیا ہے۔ یہ سب جوابات فساد کی بے شمار صورتیں دُنیا میں عملاً پیدا کر چکے ہیں اوراب تک کر رہے ہیں۔ پہلے دونوں جوابوں نے انفرادی خود سری و بے راہ روی یہاں تک بڑھا دی کہ اجتماعی زندگی کا شیرازہ درہم برہم ہونے کے قریب پہنچ گیا۔ پھر اس کا رَدّعمل ان فلسفوں کی صورت میں رونما ہوا جنھوں نے یا تو اسٹیٹ کو خدا بنا کر افراد کو بالکل اس کا بندہ بنا ڈالا، یا پھر افراد کی روٹی کے ساتھ ان کے خیر وشر کی باگیں بھی معاشرے کے ہاتھوں میں دے دیں، حالانکہ سبّوح وقدوس نہ اسٹیٹ ہے نہ معاشرہ۔
(۴) یہی معاملہ اس سوال کے جواب میں پیش آتا ہے کہ وہ کون سا محرک ہے جو انسان کو اپنے طبعی رجحانات کے علی الرغم اَخلاقی احکام کی پابندی پر آمادہ کرے؟ کسی کے نزدیک بس خوشی کا طمع اور رنج وتکلیف کا خوف اس کے لیے کافی محرک ہے۔ کوئی محض کمال کی خواہش اور نقص سے بچنے کی تمنا کو اس کے لیے کافی سمجھتا ہے۔ کوئی اس کے لیے محض آدمی کے اپنے جذبۂ احترامِ قانون پر اعتماد کرتا ہے۔ کوئی اسٹیٹ کے اجر کی امید اور اس کے غضب کے خوف کو اہمیت دیتا ہے اور کوئی معاشرے کے اجر اور اس کے غضب کو طمع وخوف کے لیے استعمال کرنے پر زیادہ زور دیتا ہے۔ ان میں سے ہر جواب نے عملاً ہمارے اَخلاقی نظامات میں سے کسی نہ کسی کے اندر تقدم کا مقام حاصل کیا ہے، اور تھوڑا سا تجسس کرنے پر یہ حقیقت بآسانی کھل سکتی ہے کہ یہ سب محرکات بداَخلاقی کے لیے بھی اتنے ہی اچھے محرک بن سکتے ہیں جتنے خوش اَخلاقی کے لیے بلکہ ان میں بداَخلاقی کے لیے محرک بننے کی قوت بہت زیادہ ہے، اور بہرحال کسی اعلیٰ درجہ کی اَخلاقیت کے لیے تو یہ تمام محرکات قطعاً ناکافی ہیں۔
یہ بہت مختصر جائزہ جو میں نے دُنیا کی موجودہ اَخلاقی حالت کا لیا ہے اس سے بیک نظر یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ دُنیا میں اس وقت ایک ہمہ گیر اَخلاقی انتشار پایا جاتا ہے۔ خدا سے بے نیاز ہو کر انسان کوئی ایسی بنیاد نہیں پا سکا جس پر وہ قابلِ اطمینان طریقے سے اپنے اَخلاق کی تعمیر کرتا۔ اَخلاق کے سارے بنیادی سوالات اس کے لیے حقیقتاً لاجواب ہو کر رہ گئے۔ نہ وہ اس خیر برتر کا کہیں سراغ لگا سکا جو اس کی کوششوں کا منتہا بننے کے قابل ہوتی اور جس کے لحاظ سے اعمال کے نیک یا بد اور صحیح یا غلَط ہونے کا فیصلہ کیا جا سکتا، نہ اسے وہ مآخذ کہیں ہاتھ لگا جس سے وہ صحیح طور پر معلوم کر سکتا کہ خیر کیا ہے اور شر کیا؟ نہ اسے وہ اقتدار فراہم کرنے میں کامیابی ہوئی جس کے حکم کی بِنا پر اَخلاق کے کسی بلند جامع اور عالم گیر ضابطے کی قوتِ نفاذ حاصل ہوتی اور نہ اسے کوئی ایسا محرک مل سکا جو انسانوں میں راستی پر عمل کرنے اور ناراستی سے پرہیز کرنے کے لیے حقیقی آمادگی پیدا کرنے کے قابل ہو۔ خدا سے بغاوت کرکے انسان نے خودسری کے ساتھ ان سوالات کو حل کرنا چاہا اور اپنے نزدیک حل کیا بھی، مگر یہ اسی حل کے پیداکردہ نتائج ہیں جو آج ہمیں اَخلاقی تنزل کے ایک خوفناک طوفان کی شکل میں اٹھتے اور پوری انسانی تہذیب کو تباہی کی دھمکیاں دیتے نظر آ رہے ہیں۔
کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم اس بنیاد کو تلاش کریں جس پر انسانی اَخلاق کی صحیح تعمیر ہو سکے؟ فی الواقع یہ تلاش وجستجو محض ایک علمی بحث نہیں ہے بلکہ ہماری زندگی کی ایک عملی ضرورت ہے اور وقت کی نزاکت نے اسے اہم ترین ضرورت بنا دیا ہے۔ اسی لحاظ سے میں اپنی تلاش کے نتائج پیش کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ جو لوگ اس ضرورت کو محسوس کر رہے ہیں، وہ نہ صرف میرے ان نتائج پر ٹھنڈے دل سے غور کریں بلکہ خود بھی سوچیں کہ اَخلاقِ انسانی کے لیے آخر کون سی بنیاد صحیح ہو سکتی ہے۔
انسانی اَخلاق کی صحیح بنیادیں
میں اپنی تلاش وتحقیق سے جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ اَخلاق کے لیے صرف ایک ہی بنیاد صحیح ہے اور وہ اِسلام فراہم کرتا ہے۔ یہاں فلسفۂ اَخلاق کے تمام بنیادی سوالات کا جواب ہمیں ملتا ہے اور ایسا جواب ملتا ہے جس کے اندر وہ کم زوریاں موجود نہیں ہیں جو فلسفیانہ جوابات میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں مذہبی اَخلاقیات کی ان کم زوریوں میں سے بھی کوئی کم زوری موجود نہیں ہے جن کی وجہ سے وہ نہ کسی مستحکم سیرت کی تعمیر کر سکتے ہیں اور نہ انسان کو تمدن کی وسیع ذمہ داریاں سنبھالنے کے قابل بناتے ہیں۔ یہاں ایک ایسی ہمہ گیر اَخلاقی راہ نمائی ملتی ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی کے انتہائی ممکن درجات تک ہمیں لے جا سکتی ہے۔ یہاں وہ اَخلاقی اصول ہمیں ملتے ہیں جن پر ایک صالح ترین نظامِ تمدن قائم ہو سکتا ہے اور اگر ان اصولوں پر انفرادی واجتماعی کردار کی بنا رکھی جائے تو انسانی زندگی اس فساد سے محفوظ رہ سکتی ہے جس سے وہ اس وقت دوچار ہے۔
اس نتیجے پر میں کن دلائل سے پہنچا ہوں؟ اس کی مختصر تشریح میں آپ کے سامنے بیان کروں گا:
فلسفہ جس مقام سے اپنی اَخلاقی بحث شروع کرتا ہے درحقیقت وہ اَخلاق کے مسئلے کا سِرا نہیں ہے بلکہ بیچ کے چند نقطے ہیں جنھیں سرے کو چھوڑ کر اس نے نقطۂ آغاز بنا لیا ہے اور یہی اس کی پہلی غلطی ہے۔ یہ سوال کہ انسان کے لیے کردار کی صحت وغلطی کا معیار کیا ہے اوروہ کون سی بھلائی ہے جس کو پہنچنے کی سعی انسان کے لیے مقصود بالذات ہونی چاہیے‘ دراصل یہ بعد کا سوال ہے۔ اس سے پہلے جو سوال حل ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس دُنیا میں انسان کی حیثیت کیا ہے؟ یہ سوال اس لیے تمام سوالات پر مقدم ہے کہ حیثیت کے تعین کے بغیر اَخلاق کا سوال محض بے معنی ہی نہیں ہو جاتا بلکہ اس میں بیش تر امکان اسی امر کا ہوتا ہے کہ اس طرح جواَخلاقیات متعین کیے جائیں گے وہ بنیادی طور پر غلَط ہوں گے۔ مثلاً کسی جائداد کے متعلق آپ کہ یہ طے کرنا ہے کہ اس میں کس طرح مجھے کام کرنا چاہیے اور کس قسم کے تصرّفات میرے لیے حق ہیں اور کس قسم کے تصرّفات باطل۔ کیا آپ اس سوال کو صحیح طور پر حل کر سکتے ہیں تاوقتیکہ پہلے اس بات کا تعین نہ کر لیں کہ اس جائداد میں آپ کی حیثیّت کیا ہے اور اس سے آپ کے تعلق کی نوعیّت کیا ہے؟ اگر یہ جائداد کسی دوسرے کی ملکیّت ہے اور آپ اس میں امین کی حیثیت رکھتے ہیں تو آپ کے لیے اس میں اَخلاقی طرزِعمل کی نوعیّت کچھ اور ہو گی اوراگر آپ خود اس کے مالک ہیں اور اس پر آپ کے مالکانہ اختیارات غیر محدود ہیں تو آپ کے اَخلاقی طرزِ عمل کی نوعیت بالکل دوسری ہو جائے گی۔ اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ حیثیت کا سوال اَخلاقی طرز عمل کی نوعیت کے معاملہ میں فیصلہ کن ہے‘ بلکہ درحقیقت اسی پر اس امر کے فیصلہ کا بھی انحصار ہے کہ اس جائداد میں آپ کے لیے صحیح طرزِ عمل متعین کرنے کا حق دار کون ہے؟ آپ خود یا وہ جس کے آپ امین ہیں؟
اِسلام سب سے پہلے اسی سوال کی طرف توجہ کرتا ہے اور ہمیں بالکل واضح طور پر ہر شائبہ اشتباہ کے بغیر یہ بتاتا ہے کہ اس دُنیا میں انسان کی حیثیت خدا کے بندے اور نائب کی ہے۔ یہاں انسان کو جتنی چیزوں سے سابقہ پیش آتا ہے‘ وہ سب خدا کی مِلک ہیں حتّٰی کہ انسان کا اپنا جسم اور وہ تمام قوتیں بھی جو اس جسم میں بھری ہوئی ہیں، انسان کی اپنی مِلک نہیں ہیں بلکہ خدا کی مِلک ہیں۔خدا نے ان تمام چیزوں پر تصرّف کرنے کے اختیارات دے کر یہاں اپنے نائب کی حیثیت سے مامور کیا ہے، اور اس ماموریّت میں اس کا امتحان ہے۔ امتحان کا آخری نتیجہ اس دُنیا میں نہیں نکلے گا بلکہ جب افراد کا، قوموں کا، اور پوری نوعِ انسانی کا کام ختم ہو چکے گا اور انسانوں کی مساعی کے اثرات ونتائج پایۂ تکمیل کو پہنچ جائیں گے، تب خدا بیک وقت ان سب کا حساب لے گا اور اس امر کا فیصلہ کرے گا کہ کس نے اس کی بندگی اور نیابت کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کیا ہے اور کِس نے نہیں کیا۔ یہ امتحان کسی ایک امر میں نہیں بلکہ تمام امور میں ہے۔ کسی ایک شعبۂ زندگی میں نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی پوری زندگی میں ہے۔ نفس وجسم کی جتنی قوتیں انسان کو دی گئی ہیں سب کا امتحان ہے اورخارج میں جن جن چیزوں پر جس جس طرح کے اختیارات اسے عطا کیے گئے ہیں، ان سب میں بھی امتحان ہے کہ وہ کس طرح ان پر اپنا اختیار استعمال کرتا ہے۔
حیثیت کے اس تعین کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ دُنیا میں اپنے لیے اَخلاقی طرزِ عمل کے تعین کا حق ہی سرے سے انسان کو حاصل نہیں رہتا بلکہ اس کا فیصلہ کرنا خدا کا حق ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد فلسفۂ اَخلاق کے وہ تمام سوالات جنھیں فلسفیوں نے چھیڑا ہے، نہ صرف یہ کہ حل ہوجاتے ہیں بلکہ اس امر کی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ایک ایک سوال کے چھتیس چھتیس جوابات ہوں، اور ایک ایک جواب پر انسانوں کا ایک ایک گروہ اَخلاق کے ایک جداگانہ رخ پر چل پڑے، اور ایک ہی تمدنی واجتماعی زندگی میں رہتے ہوئے یہ مختلف سمتوں پر چلنے والے لوگ اپنی بے راہ رویوں سے بدنظمی، انتشار اور فساد برپا کریں۔ اگر انسان کی اس حیثیت کو تسلیم کر لیا جائے جو اِسلام نے قرار دی ہے تو یہ بات خود متعین ہو جاتی ہے کہ خدا کے امتحان میں کام یاب ہونا اور اس کی رضا کو پہنچنا ہی وہ بلند ترین بھلائی ہے جو مقصود بالذّات ہونی چاہیے‘ اور کسی طرزِ عمل کے صحیح یا غلَط ہونے کا مدار اسی امر پر ہے کہ وہ اس بھلائی کے حصول میں کہاں تک مددگار یا مانع ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی یہیں سے متعین ہو جاتی ہے کہ انسان کے لیے نیک اور بد‘ صحیح اور غلَط کے علم کا اصل مآحذ خدا کی ہدایت ہے اور اس کے سوا دوسرے ذرائعِ علم اس اصل مآخذ کے مددگار تو بن سکتے ہیں مگر خود اصل مآخذ نہیں بن سکتے۔ نیز یہ امر بھی طے ہو جاتا ہے کہ قانونِ اَخلاق کے واجب الاطاعت ہونے کی اصل بنیاد صرف یہ ہے کہ وہ خدا کا ٹھیرایا ہواقانون ہے اور یہ بات بھی صاف ہو جاتی ہے کہ اچھے اَخلاق کی پابندی اور بُرے اَخلاق سے اجتناب کے لیے اصل محرّک خدا کی مَحبّت ، اس کی رضا کی طلب اور اس کی ناراضی کا خوف ہونا چاہیے۔
پھر نہ صرف یہ کہ اس فلسفۂ اَخلاق کے سارے اصولی سوالات حل ہو جاتے ہیں بلکہ درحقیقت اس بنیاد پر جو اَخلاقی سسٹم بنتا ہے، اس کے اندر نہایت متوازن اور متناسب طریقے سے وہ تمام اَخلاقی سسٹم اپنی اپنی موزوں جگہ پا لیتے ہیں جو فلسفۂ اَخلاق کے مفکرین نے تجویز کیے ہیں۔ فلسفیانہ اَخلاقی نظاموں کی اصل قباحت یہ نہیں ہے کہ ان میں حقیقت وصداقت کا کوئی جز بھی نہیں ہے بلکہ ان کی اصل قباحت یہ ہے کہ انھوں نے صداقت کے ایک جز کو لے کر پوری صداقت بنا لیا ہے، اس لیے جز کے کل بننے میں جس قدر زائد کی ضرورت پڑتی ہے اس کی تکمیل کے لیے لامحالہ انھیں باطل کے بہت سے اجزا لینے پڑتے ہیں۔ اِسلام اس کے برعکس پوری صداقت پیش کرتا ہے اور اس کل صداقت میں وہ تمام جزئی صداقتیں جذب ہو جاتی ہیں جو لوگوں کے پاس الگ الگ تھیں اور ناقص تھیں۔
یہاں خوشی کا بھی ایک مقام ہے، مگر اس سے مراد وہ خوشی وخوشحالی ہے جو خدا کے قانون کی پیروی سے اور اس کے نتیجے میں حاصل ہو۔ اور یہ خوشی وخوش حالی جسمانی ومادّی بھی ہے، ذہنی ونفسی بھی، آرٹسٹک اور روحانی بھی۔ نیز یہ خوشی وخوش حالی فرد کی بھی ہے، جماعت کی بھی اور تمام انسانیّت کی بھی۔ ان مختلف خوشیوں میں تصادم نہیں بلکہ توافق ہے۔
یہاں کمال کا بھی ایک مقام ہے، مگر وہ کمال جو خدا کے امتحان میں سو فیصدی نمبر پانے کا مستحق ہو۔ اور یہ فرد کا، جماعت کا، قوم کا، پوری انسانیت کا، غرض سب ہی کا کمال ہے۔ صحیح اَخلاقی طرزِ عمل وہ ہے جس سے ہر فرد نہ صرف خود کمال کی طرف ترقی کرے بلکہ دوسروں کی تکمیل میں بھی مددگار ہو اور کوئی کسی کی تکمیل میں مزاحم نہ ہو۔
یہاں کانٹ کے ’’قطعی واجب الاطاعت‘‘ (catagorical imperative)کو پوری عزت کی جگہ مل جاتی ہے، اور اس جہاز کو وہ لنگر بھی مل جاتا ہے جس کے بغیر یہ فلسفے کے دریا میں ڈگمگا رہا تھا۔ جس قطعی واجب الاطاعت قانون کا ذکر کانٹ نے کیا ہے اور جس کی وہ خود کوئی توضیح نہ کر سکا، دراصل وہ خدا کا قانون ہے۔ خدا ہی کی طرف سے اس کی صورت معین کی گئی ہے، خدا ہی کا قانون ہونے کی وجہ سے وہ واجب الاطاعت ہے، اور اسی کی بے چون وچرا اطاعت کا نام نیکی ہے۔
اسی طرح یہاں اَخلاقی خیر وشر کے علم کا جو مآخذ ہمیں بتایا گیا ہے وہ ان دوسرے ذرائعِ علم کی نفی نہیں کرتا جن کی طرف فلاسفہ رجوع کرتے ہیں بلکہ ان سب کو ایک سِسٹم کا جُز بنا لیتا ہے۔ البتہ وہ نفی جس چیز کی کرتا ہے‘ وہ صرف یہ بات ہے کہ انہیں، یا ان میں سے کسی ایک کو اصلی اور آخری ذریعۂ علم کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ خدا کی ہدایت کے ذریعے سے خیر وشر کا جو علم ہمیں بخشا گیا ہے وہ اصل علم ہے۔ رہا تجربی علم، قوانینِ حیات اور حالاتِ وجود سے استنباط کیا ہوا علم، عقلی علم، اور وجدانی علم، تو یہ سب اس اصلی علم کے شواہد ہیں۔ جن چیزوں کو خدا کی ہدایت خیر کہتی ہے، انسانیت کا تجربہ ان کے خیر ہونے پر شہادت دیتا ہے۔، قوانینِ حیات اس کی تصدیق کرتے ہیں، عقل اور وجدان دونوں اس پر گواہ ہیں لیکن معیارِ صداقت خدائی ہدایت ہی ہے نہ کہ یہ ذرائع علم۔ انسانیت کے تاریخی تجربات سے، یا قوانین ِ حیات سے اگر کوئی ایسا استنباط کیا جائے یا عقل اور وجدان سے کوئی ایسی رائے قائم کی جائے جو خدا کی ہدایت کے خلاف ہو تو اصل اعتبار خدا کی ہدایت کا کیا جائے گا، نہ کہ اُس استنباط یا اُس رائے کا۔ ہمارے پاس علم کا ایک مستند معیار ہونے کا فائدہ ہی یہ ہے کہ ہمارے علوم میں ڈسپلن پیدا ہو اور ہم اُس انار کی اور بد نظمی سے بچ جائیں جو کسی معیار کے نہ ہونے اور اعجابُ کل ذی رایٍ برأیہٖ سے پیدا ہوتی ہے۔
اسی طرح یہاں قانونِ اَخلاق کی پشتیبان قوّت (sanction) اور محرکات کا مسئلہ بھی اس طور پر حل ہوتا ہے کہ اس سے ان دوسری چیزوں کی نفی نہیں ہوتی جو فلسفیوں نے تجویز کی ہیں، بلکہ صرف ان کی تصحیح ہو جاتی ہے، اور جن غلَط حدود پر وہ پھیلا دی گئی ہیں یا خود پھیل جاتی ہیں‘ وہاں سے ان کو ہٹا کر ایک جامع سسٹم میں ٹھیک مقام پر رکھ دیا جاتا ہے۔ خدا کا قانون، اس لیے کہ وہ خدا کا قانون ہے، اپنے قیام کی طاقت آپ اپنے اندر رکھتا ہے، اور یہ طاقت اُس مومن کے نفس میں بھی موجود ہے جو خدا کی رضا چاہنے میں خوشی محسوس کرتا ہے اور خود اس کمال کا طالب ہے جو خدا کی طرف بڑھنے سے حاصل ہو‘ نیز یہ طاقت مومنین کی سوسائٹی اور اُس صالح ریاست میں بھی موجود ہے جو خدا کے قانون پر مبنی ہو، قانون کی پابندی پر مومن کو آمادہ کرنے والی چیز اُس کی خالص فرض شناسی بھی ہے، اُس کا حق کو حق جانتے ہوئے اسے پسند کرنا اور باطل کو باطل سمجھتے ہوئے اس سے نفرت کرنا بھی ہے، اور وہ طمع اور خوف بھی ہے جو وہ اپنے خدا سے رکھتا ہے۔
اِسلامی تصوّرِ اَخلاق کا انسانی زندگی پر اثر
دیکھیے، اس طرح اِسلام اُس پوری فکری اور عملی انار کی کو ختم کر دیتا ہے جو انسان کو بے خدا فرض کرکے اس کے لیے ایک نظامِ اَخلاق تجویز کرنے کی کوششوں سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کے بعد آگے چلیے۔ اِسلام خدا کا جو تصوّر پیش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ خدا ہی انسان کا اور ساری کائنات کا واحد مالک، خالق، معبود اور حاکم ہے۔ اس خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔ اس کے ہاں بجز دعائے خیر کے کسی ایسی سفارش کی گنجائش بھی نہیں جو زور سے منوائی جاتی ہو اور ردّ نہ کی جا سکتی ہو۔ اس کے ہاں ہر شخص کی کامیابی وناکامی کا مدار اس کے اپنے طرز عمل پر ہے۔ نہ کوئی کسی کا کفارہ بن سکتا ہے، نہ کسی کے عمل کی ذمہ داری دوسرے پر ڈالی جاتی ہے، اور نہ کسی کے عمل کا صلہ دوسرے کو ملتا ہے۔ اس کے ہاں جانبداری نہیں کہ ایک شخص یا خاندان یا قوم یا نسل سے اسے دوسرے کی بہ نسبت زیادہ دل چسپی ہو۔ سب انسان اس کی نگاہ میں یکساں ہیں، سب کے لیے ایک ہی قانونِ اَخلاق ہے اور فضیلت جو کچھ بھی ہے اَخلاقی فضیلت کے اعتبار سے ہے۔ وہ خود رحیم ہے اور رحم کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود فیاض ہے اور فیاضی کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود غفور ہے اور درگزر کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود عادل ہے اور عدل کو پسند کرتا ہے۔ وہ خود ظلم سے، تنگ نظری وتنگ دلی سے، بے رحمی و سنگ دلی سے، تعصب اور نفسانی جانبداری سے پاک ہے، اس لیے انھی کو پسند کرتا ہے جو ان صفات سے مُتّصِف ہوں۔ پھر کبریائی تنہا اسی کا حق ہے‘ اس لیے تکبر اُسے ناپسند ہے، خدائی صرف اسی کے لیے ہے اور دوسرے سب اس کے بندے ہیں‘ اس لیے ایک بندے پر‘ دوسرے کی خداوندی اسے پسند نہیں۔ مالک وہ اکیلا ہے اور دوسروں کے پاس جو کچھ ہے امانت کی حیثیت سے ہے، اس لیے کسی بندے کی خود مختاری اور کسی کا کسی کے لیے قانون بنانا اور کسی کا کسی کے لیے بذاتِ خود واجب الاطاعت ہونا یہ سب فی الحقیقت غلَط ہے۔ سب کا مطاع وہی ایک ہے اور سب کے لیے خیر اِسی میں ہے کہ اس کی بے چون وچرا اطاعت کریں۔ پھر وہ محسن ہے اور شکر، احسان مندی اور مَحبّت کا مستحق ہے۔ وہ منعم ہے اور اس کا حق دار ہے کہ اس کی نعمتوں میں اسی کے منشا کے مطابق تصرّف کیا جائے۔ وہ منصف ہے اور لازم ہے کہ انسان اس کے انصاف میں سزا پانے کا خوف اور جزا پانے کی طمع رکھے۔ وہ علیم و خبیر ہے اور دلوں کی چھپی ہوئی نیتوں سے بھی واقف ہے، اس لیے ظاہری حُسنِ اَخلاق سے اسے دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ وہ محیط ہے اس لیے کوئی یہ امید بھی نہیں کر سکتا کہ جرم کرکے اس کی پکڑ سے بچ نکلے گا۔
خدا کے اس تصوّر پر غور کیجیے۔ اس سے بالکل ایک فطری نتیجے کے طور پر انسان کے لیے ایک مکمل اَخلاقی زندگی کا نقشہ وجود میں آتا ہے اور وہ نقشہ ان تمام کم زوریوں سے خالی ہے جو مشرکانہ مذاہب کے اَخلاقیات اور دہریانہ مسلکوں کے اَخلاقیات میں پائے جاتے ہیں۔ یہاں نہ تو اَخلاقی ذمّہ داریوں سے بچ نکلنے کے دروازے کہیں موجود ہیں، نہ ان ظالمانہ فلسفوں کے لیے کوئی جگہ ہے جن کی بنا پر انسان اپنی دل چسپیوں کے لحاظ سے عالمِ انسانیت کو تقسیم کرکے ایک حصے کے لیے مجسم فرشتہ اوردوسرے حصے کے لیے مجسم شیطان بن جاتا ہے۔ نہ دہریانہ اَخلاقیات کی وہ بنیادی کم زوریاں اس میں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے اَخلاق میں کوئی استحکام پیدا نہیں ہو سکتا۔ ان سلبی خوبیوں کے ساتھ اس نقشے میں یہ ایجابی خوبی موجود ہے کہ یہ اَخلاقی فضیلت کا ایک بلند ترین اور وسیع ترین منتہا پیش کرتا ہے جس کی وسعت اور بلندی کی کوئی حد نہیں، اور اس منتہا کی طرف بڑھنے کے لیے ایسے محرکات فراہم کرتا ہے جو پاکیزہ ترین ہیں۔
پھر یہ تصوّر کہ امتحان کسی ایک چیز میں نہیں بلکہ ان تمام چیزوں میں ہے جو خدا نے انسان کو دی ہیں، کسی ایک حیثیت میں نہیں بلکہ ان تمام حیثیتوں میں ہے جو انسانوں کو یہاں حاصل ہیں، اور کسی ایک شعبۂ حیات میں نہیں بلکہ پوری زندگی میں ہے، یہ اَخلاق کے دائرے کو اتنا ہی پھیلا دیتا ہے جتنا امتحان کا دائرہ پھیلا ہوا ہے۔ انسان کی عقل، اس کے ذرائع علم، اس کی ذہنی وفکری قوتیں، اس کے حواس، اس کے جذبات، اس کی خواہشات، اس کی جسمانی طاقتیں، سب کی سب امتحان میں شریک ہیں، یعنی امتحان آدمی کی پوری شخصیت کا ہے۔ پھر خارج کی دُنیا میں جن جن اشیا سے آدمی کو سابقہ پیش آتا ہے، جن اشیا پر وہ تصرّف کرتا ہے، جن انسانوں سے مختلف طور پر اسے واسطہ پڑتا ہے، ان سب کے ساتھ اس کے برتائو میں امتحان ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اس امر میں امتحان ہے کہ انسان یہ سب کچھ خدا کی خداوندی اور اپنی عبدیّت ونیا بت کے احساس کے ساتھ کر رہا ہے یا آزادی وخود مختاری کی ہوا میں مبتلا ہو کر؟ یا خدا کے سوا دوسروں کا بندہ بن کر؟ اس وسیع ترین تصوّرِ اَخلاق میں وہ تنگی نہیں ہے جو مذہب کے محدود تصوّر سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ آدمی کو زندگی کے ہر میدان میں آگے بڑھاتا ہے‘ ہر میدان کی اَخلاقی ذمّہ داریاں اسے بتاتا ہے، اور وہ اَخلاقی اصول اسے دیتا ہے جن کی پیروی کرنے سے وہ خدا کے اس امتحان میں کام یاب ہو سکے جو ایک ایک میدانِ زندگی سے متعلق ہے۔
پھر یہ تصوّر کہ امتحان کا اصلی اور آخری فیصلہ اس زندگی میں نہیں بلکہ دوسری زندگی میں ہو گا اور حقیقی کامیابی وناکامی وہ ہے جو وہاں ہو نہ کہ یہاں، یہ دُنیا کی زندگی اور اس کے معاملات پر انسان کی نظر کو بنیادی طور پر بدل دیتا ہے۔ اس تصوّر کی وجہ سے وہ نتائج جو اس دُنیا میں نکلتے ہیں ہمارے لیے حُسن وقبح، صحت اور غلطی، حق اور باطل، اور کامیابی وناکامی کے قطعی، اصلی اور آخری معیار نہیں رہتے۔ اس لیے قانونِ اَخلاق کی پیروی کرنے یا نہ کرنے کا انحصار بھی ان نتائج پر نہیں ہو سکتا۔ جو شخص اس تصوّر کو قبول کر لے گا وہ قانونِ اَخلاق کی پیروی پر بہرحال ثابت قدم رہے گا خواہ اس دُنیا میں اس کا نتیجہ بظاہر اچھا ہو یا بُرا، کامیابی کی صورت میں نکلتانظر آئے یا ناکامی کی صورت میں۔ اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کی نگاہ میں دنیوی نتائج بالکل ہی ناقابل لحاظ ہوں گے۔ بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ وہ اصلی اور آخری لحاظ ان کا نہیں بلکہ آخرت کے پائیدار نتائج کا کرے گا اور اپنے لیے صحیح صرف اس طرزِ عمل کو سمجھے گا جو اِن نتائج پر نگاہ رکھتے ہوئے اختیار کیا جائے۔ وہ کسی چیز کو چھوڑنے اور کسی کو اختیار کرنے کا فیصلہ اس بنیاد پر نہیں کرے گا کہ زندگی کے اس ابتدائی مرحلے میں وہ لذّت اور خوشی اور نفع کی موجب ہے یا نہیں۔ بلکہ اس بنیاد پر کرے گا کہ زندگی کے آخری مرحلے میں اپنے قطعی وحتمی نتائج کے اعتبار سے وہ کیسی ہے۔ اس طرح اس کا نظامِ اَخلاق ترقی پذیر تو ضرور رہے گا مگر اس کے اصولِ اَخلاق تغیر پذیر نہ ہوں گے‘ اور نہ اس کی سیرت ہی تلوّن پذیر ہو گی۔یعنی تمدن وتہذیب کے نشوونما کے ساتھ ساتھ اس کے اَخلاقی تصوّرات میں وسعت تو یقینا ہو گی‘ مگر یہ ممکن نہ ہو گا کہ واقعات کی ہر کروٹ اور حالات کی ہرگردش کے ساتھ اَخلاق کے اصول بھی بدلتے چلے جائیں اور آدمی ایک اَخلاقی گرگٹ بن کر رہ جائے کہ اس کے اَخلاقی رویّے میں سرے سے کوئی پائیدار ی ہی نہ ہو۔
پس اَخلاق کے نقطۂ نظر سے آخرت کا یہ اِسلامی تصوّر دو اہم فائدے عطا کرتا ہے جو کسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ ایک یہ کہ اس سے اصولِ اَخلاق کو غایت درجہ کا استحکام نصیب ہوتا ہے جس میں تَزلزُل کا کوئی خطرہ نہیں۔ دوسرے یہ کہ اس سے انسان کی اَخلاقی سیرت کو وہ استقامت میسّر آتی ہے جس میں (بشرطِ ایمان) انحراف کا کوئی اندیشہ نہیں۔ دُنیا میں سچائی کے دس مختلف نتیجے نکل سکتے ہیں اور ان نتائج پر نگاہ رکھنے والا ایک ابن الوقت انسان مواقع اور امکانات کے لحاظ سے دس مختلف طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے۔ لیکن آخرت میں سچائی کا نتیجہ لازماً ایک ہی ہے اور اس پر نظر رکھنے والا ایک مومن انسان دنیوی فائدے اور نقصان کا لحاظ کیے بغیر لازماً ایک ہی طرز عمل اختیار کرے گا۔ دنیوی نتائج کا اعتبار کیجیے تو خیر وشر کسی متعین چیز کا نام نہیں رہتا بلکہ ایک ہی چیز اپنے مختلف نتیجوں کے لحاظ سے کبھی خیر اور کبھی شر بنتی رہتی ہے اور اس کے اتباع میں دُنیا پرست آدمی کا کردار بھی اپنی پوزیشن تبدیل کرتا رہتا ہے۔ لیکن آخرت کے نتائج پر نظر رکھیے تو خیر اور شر دونوں قطعی طور پر متعین ہو جاتے ہیں اور مومن بالآخرۃ آدمی کے لیے یہ ناممکن ہو جاتا ہے کہ کبھی خیر کو بدانجام یا شر کو نیک انجام سمجھ کر اپنے کردار کو بدل دے۔
پھر یہ تصوّر کہ انسان اس دُنیا میں خدا کا خلیفہ ہے اور تصرّف کے جو اختیارات یہاں اسے حاصل ہیں وہ سب دراصل نائبِ خدا ہونے کی حیثیت سے ہیں، انسانی زندگی کے لیے راستے اور مقصد دونوں کا تعیّن کردیتا ہے۔ اس تصوّر سے لازم آتا ہے کہ انسان کے لیے خود مختاری اور بندگیِ غیر اور خداوندانہ بڑائی کے تمام رویّے غلَط ہوں اور صرف یہی ایک رویّہ صحیح ہو کہ اپنے تمام تصرفات میں وہ خدا کی مرضی کا تابع اور اس کے نازل کردہ اَخلاقی قانون کا پابند بن کر رہے۔ نیز اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ انسان ایک طرف تو اپنے اَخلاقی رویّے میں ہر ایسے طرزِ عمل سے بشدت اجتناب کرے جس میں خود مختاری وبغاوت کا، یا خدا کے سوا کسی اور کی بندگی کا، یا خداوندانہ کبریائی کا ذرّہ برابر شائبہ پایا جاتا ہو، کیوں کہ یہ تینوں چیزیں اس کی نائبانہ حیثیت کے منافی ہیں‘ مگر دوسری طرف خدا کی املاک میں اس کا تصرّف، اور خدا کی پیدا کردہ قوتوں میں اس کا برتائو، اور خدا کی رعیّت میں اس کی فرماں روائی اس اَخلاق اور اس برتائو کے عین مطابق ہو جو اس سلطنت کا اصل مالک اپنے ملک اور اپنی رعیّت میں اختیار کر رہا ہے، کیوں کہ نائبانہ حیثیت کا فطری اقتضا یہی ہے کہ نائبِ سلطان کی پالیسی خود سلطان کی پالیسی سے اور نائبِ سلطان کے اَخلاق خود سلطان کے اَخلاق سے منافی نہ ہوں۔ نیز اس تصوّر سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ جو قوتیں اللہ نے انسان کو عطا کی ہیں اور جو ذرائع ا ور وسائل اسے دُنیا میں بخشے ہیں ان سب کو استعمال کرنے اور منشائِ الٰہی کے مطابق استعمال کرنے پر انسان مامور ہو، یعنی دوسرے الفاظ میں وہ نائبِ سلطان بھی سخت مجرم ہو جس نے سلطان کے منشا کے خلاف اس کی مِلک اور اس کی رعیّت میں تصرف کیا، اور وہ نائب بھی بڑا مجرم قرار پائے جس نے سلطان کے دیے ہوئے اختیارات میں سے کسی اختیار کو سرے سے استعمال ہی نہ کیا بلکہ اس کی بخشی ہوئی قوتوں میں سے کسی قوت کو بلاوجہ ضائع کر دیا، اس کے بنائے ہوئے ذرائع ووسائل سے کام لینے میں جان بوجھ کر کوتاہی کی اور اس ڈیوٹی سے منہ موڑ کر کھڑا ہو گیا جس پر سلطان نے اسے مامور کیا تھا۔ نیز اس تصوّر سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ پوری نوعِ انسانی کی اجتماعی زندگی ایسے ڈھنگ پر قائم ہو کہ سارے انسان، یعنی خدا کے سب خلیفہ، ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں جو خدا نے ان پر عائد کی ہیں، ایک دوسرے کے معاون ومددگار ہوں، اور نظامِ تمدن وعمران میں ایسی کوئی چیز کار فرما نہ رہے جس کی وجہ سے ایک انسان دوسرے انسان کی، یا انسانوں کا ایک گروہ دوسرے گروہ کی خلافت کو عملاً سلب کر لے یا اس کے اجرا میں مانع و مزاحم ہو، بجز اس صورت کے جبکہ کوئی انسان یا گروہ انسانی خلافت سے محروم ہو کر اپنے حقیقی سلطان سے بغاوت کا مرتکب ہو رہا ہو۔
یہ تو ہے وہ اَخلاقی منہاج جو تصوّرِ خلافت سے ایک لازمی نتیجے کے طور پر انسان کے لیے بنتی ہے۔ رہا انسان کی اَخلاقی زندگی کا مقصد اور اس کی تمام سعی وعمل کا نصب العین تو وہ بھی اسی تصوّر سے بالکل ایک منطقی لزوم کے ساتھ متعین ہوتا ہے۔ نائب سلطان کی حیثیت سے انسان کا زمین پر مامور ہونا خود بخود اس بات کا مقتضی ہے کہ انسان کی زندگی کا مقصد زمین پر خدا کی مرضی پوری کرنے کے سوا اورکچھ نہ ہو۔ خدا نے زمین کے انتظام کا جتنا حصہ انسان سے متعلق کیا ہے اس حصے میں خدا کے قانون کو جاری کرنا، خدا کے منشا کے مطابق امن اور عدل اور صلاح کا نظام قائم کرنا اور قائم رکھنا، اس نظام میں شروفساد کی جو صورتیں شیاطین جِنّ واِنس پیدا کریں انھیں دبانا اور مٹانا، اور ان بھلائیوں کو زیادہ سے زیادہ نشوونما دینا جو خدا کو محبوب ہیں اور جن سے خداوند عالم اپنی زمین اور اپنی رعیّت کو آراستہ دیکھنا چاہتا ہے، یہ ہے وہ مقصد جس پر ہر وہ انسان اپنی تمام مساعی کو مرکوز کر دے گا جس کے اندر خلیفۂ اِلٰہی ہونے کا شعور پیدا ہو چکا ہو۔ یہ مقصد صرف یہی نہیں کہ ان تمام مقاصد کی نفی کر دیتا ہے جو لذّت پرستوں اور مادہ پرستوں اور قوم پرستوں اور دوسرے مہملات کے پرستاروں نے اپنی زندگی کے لیے مقرر کیے ہیں، بلکہ یہ ان لایعنی مقاصد کی بھی اتنی ہی شدت کے ساتھ نفی کرتا ہے جو روحانیت کے ایک غلط تصوّر کے تحت اہلِ مذاہب نے متعین کیے ہیں۔ ان دونوں غلَط انتہائوں کے درمیان خلافتِ الٰہیہ کا تصوّر انسان کے سامنے ایک ایسا بلند ترین اور پاکیزہ ترین مقصد حیات رکھ دیتا ہے جو اس کی ساری قوتوں اور قابلیتوں کو زندگی کے ہر میدان میں برسرِ کار لاتا ہے اور انھیں ایک صالح ترین نظامِ تہذیب وتمدن کے قیام وارتقا کی خدمت میں استعمال کرتا ہے۔
یہ ہیں وہ بنیادیں جو اَخلاقِ انسانی کی تعمیر کے لیے اِسلام نے ہم کو دی ہیں۔ اِسلام کسی ایک قوم کی جائداد نہیں بلکہ تمام انسانیّت کی مشترک میراث ہے اور سارے انسانوں کی فلاح اس کے پیشِ نظر ہے۔ اس لیے ہر اُس شخص کو جواپنی اور انسانیت کی فلاح کا خواہش مند ہو، یہ سوچنا چاہیے کہ آیا انسانی اَخلاق کی تعمیر کے لیے یہ بنیادیں بہتر ہیں جو اِسلام ہمیں دے رہا ہے یا وہ جو روحانی مذاہب یا فلسفیانہ مسالک ہمیں دیتے ہیں؟ اگر کسی کا دل گواہی دے کہ اَخلاق کے لیے یہی بنیادیں صحیح ہیں تو پھر کوئی جاہلانہ تعصّب اسے ان بنیادوں کے قبول کر لینے میں مانع نہ ہونا چاہیے۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں