Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اِسلام کا اخلاقی نظام (یہ تقریر ۶ ۔جنوری ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
اخلاقی نظاموں میں اختلاف کیوں؟
اِسلام کا نظریۂ زندگی و اخلاق
اخلاقی جدوجہد کا مقصود
اخلاق کی پشت پر قوتِ نافذہ:
اِسلام کا سیاسی نظام (یہ تقریر ۲۰۔ جنوری ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
اِسلام کا معاشرتی نظام (یہ تقریر ۱۰۔فروری ۱۹۴۸؁ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی )
اِسلام کا اقتصادی نظام (یہ تقریر ۲۔مارچ ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی۔)
اِسلام کا رُوحانی نظام (یہ تقریر ۱۶۔مارچ ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی )

اسلام کا نظام حیات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اِسلام کا اقتصادی نظام (یہ تقریر ۲۔مارچ ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی۔)

انسان کی معاشی زندگی کو انصاف اور راستی پر قائم رکھنے کے لیے اِسلام نے چند اُصول اور چند حدود مقرر کر دیے ہیں تا کہ دولت کی پیدائش ،استعمال اور گردش کا سارا نظام انھی خطوط کے اندر چلے جو اس کے لیے کھینچ دیے گئے ہیں۔ دولت کی پیداوار کے طریقے اور اس کی گردش کی صورتیں کیا ہوں؟ اِسلام کو اس سوال سے کوئی بحث نہیں ہے۔ یہ چیزیں تو مختلف زمانوں میں تمدن کے نشوونما کے ساتھ ساتھ بنتی اور بدلتی رہتی ہیں۔ ان کا تعین انسانی حالات و ضروریات کے لحاظ سے خود بخود ہو جاتا ہے اِسلام جو کچھ چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ تمام زمانوں اور حالات میں انسان کے معاشی معاملات جو شکلیں بھی اختیار کریں ان میں یہ اصول مستقل طور پر قائم رہیں اور ان حدود کی لازماً پابندی کی جائے۔
اسلامی نقطئہ نظر سے زمین اور اس کی سب چیزیں خدا نے نوعِ انسانی کے لیے بنائی ہیں، اس لیے ہر انسان کا یہ پیدائشی حق ہے کہ زمین سے اپنا رزق حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔اس حق میں تمام انسان برابر شریک ہیں، کسی کو اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔نہ کسی کو اس معاملے میں دوسروں پر ترجیح ہی حاصل ہو سکتی ہے ۔کسی شخص یا نسل یا طبقے پر ایسی کوئی پابندی ازروئے شرع عائد نہیں ہو سکتی کہ وہ رزق کے وسائل میں سے بعض کو استعمال کرنے کا حق دار ہی نہ رہے، یا بعض پیشوں کا دروازہ اس کے لیے بند کر دیا جائے اسی طرح ایسے امتیازات بھی شرعاً قائم نہیں ہو سکتے جن کی بِنا پر کوئی ذریعۂ معاش یا وسیلۂ رزق کسی مخصوص طبقے یا نسل یا خاندان کا اجارہ بن کر رہ جائے ۔خدا کی بنائی ہوئی زمین پر اس کے پیدا کیے ہوئے وسائل ِرزق میں سے اپنا حصہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا سب انسانوں کا یکساں حق ہے اور اس کوشش کے مواقع سب کے لیے یکساں کُھلے ہونے چاہییں۔
قدرت کی جن نعمتوں کو تیار کرنے یا کار آمد بنانے میں کسی کی محنت و قابلیت کا کوئی دخل نہ ہو وہ سب انسانوں کے لیے مباحِ عام ہیں۔ ہر شخص کو حق ہے کہ اپنی ضرورت بھر ان سے فائدہ اٹھائے ۔دریائوں اور چشموں کا پانی ،جنگل کی لکڑی ،قدرتی درختوں کے پھل ،خود روگھاس اور چارا ،ہوا اور پانی اور صحرا کے جانور، سطح زمین پر کُھلی ہوئی کانیں ،اس قسم کی چیزوں پر نہ توکسی کی اجارہ داری قائم ہو سکتی ہے اور نہ ایسی پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں کہ بند گانِِ خدا کچھ دیے بغیر ان سے اپنی ضرورتیں پوری نہ کر سکیں ۔ہاں جو لوگ تجارتی اغراض کے لیے بڑے پیمانے پر ان میں سے کسی چیز کو استعمال کرنا چاہیں ان پر ٹیکس لگایا جا سکتا ہے۔
خدا نے جو چیزیں انسان کے فائدے کے لیے بنائی ہیں انھیں لے کر بے کار ڈال رکھنا صحیح نہیں ہے۔ یا تو ان سے خود فائدہ اُٹھائو ،ورنہ چھوڑ دو تا کہ دوسرے ان سے متمتع ہوں ۔اسی اصول کی بنا پر اسلامی قانون یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین کو تین سال سے زیادہ مدت تک افتادہ حالت میں نہیں رکھ سکتا۔ اگر وہ اسے زراعت یا عمارت یا کسی دوسرے کام میں استعمال نہ کرے تو تین سال گزر جانے کے بعد وہ متروکہ زمین سمجھی جائے گی، کوئی دوسرا شخص اسے کام میں لے آئے تو اس پر دعوٰی نہ کیا جا سکے گا ،اور اسلامی حکومت کو بھی یہ اختیار ہو گا کہ اس زمین کو کسی کے حوالے کر دے۔
جو شخص براہِ راست قدرت کے خزانے میں سے کوئی چیز لے اور اپنی محنت و قابلیت سے اسے کار آمد بنائے وہ اس چیز کا مالک ہے ۔مثلاً کسی افتادہ زمین کوجس پر کسی مفید کام میں استعمال کرنا شروع کردے تو اُسے بے دخل نہیں کیا جا سکتا ۔اسلامی نظریے کے مطابق دُنیا میں تمام مالکانہ حقوق کی ابتدا اسی طرح ہوئی ہے۔ پہلے پہل جب زمین پر انسانی آبادی شروع ہوئی تو سب چیزیں سب انسانوں کے لیے مباحِ عام تھیں ۔پھر جس جس شخص نے جس مباح چیز کو اپنے قبضے میں لے کر کسی طور پر کارآمد بنا لیا وہ اس کا مالک ہو گیا ۔یعنی اسے یہ حق حاصل ہو گیا کہ اس کا استعمال اپنے لیے مخصوص کر لے اور دوسرے اسے استعمال کرنا چاہیں تو ان سے اس کا معاوضہ لے۔ یہ چیز انسان کے سارے معاشی معاملات کی فطری بنیاد ہے اور اس بنیاد کو اپنی جگہ پر قائم رہنا چاہیے۔
جائز شرعی طریقوں سے جو مالکانہ حقوق کسی کو دُنیا میں حاصل ہوں وہ بہر حال احترا م کے مستحق ہیں۔کلام اگر ہو سکتا ہے تو اس امر میں ہو سکتاہے کہ کوئی ملکیت شرعاً صحیح ہے یا نہیں۔ جو ملکیتیں ازروئے شرع ناجائز ہوں انھیں بے شک ختم ہو جانا چاہیے، مگر جو ملکیتیں شرعاً صحیح ہوں، کسی حکومت اور کسی مجلسِ قانون ساز کو یہ حق نہیں ہے کہ انھیں سلب کرلے یا ان کے مالکوں کے شرعی حقوق میں کسی قسم کی کمی بیشی کرے۔ اجتماعی بہتری کا نام لے کر کوئی ایسا نظام قائم نہیں کیا جا سکتا جو شریعت کے دیے ہوئے حقوق کو پامال کرنے والا ہو، جماعت کے مفاد کے لیے افراد کی ملکیتوں پر جو پابندیاں شریعت نے خود لگا دی ہیں ان میںکمی کرنا جتنا بڑا ظلم ہے اتنا ہی بڑا ظلم ان پر اضافہ کرنا بھی ہے ۔یہ بات اسلامی حکومت کے فرائض میں سے ہے کہ افراد کے شرعی حقوق کی حفاظت کرے اور ان سے جماعت کے وہ حقوق وصول کرلے جو شریعت نے ان پر عائد کیے ہیں۔
خدا نے اپنی نعمتوں کی تقسیم میں مساوات ملحوظ نہیں رکھی ہے بلکہ اپنی حکمت کی بِنا پر بعض انسانوں کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ حُسن،خوش آوازی، تن دُرُستی، جسمانی طاقتیں، دماغی قابلیتیں، پیدائشی ماحول، اور اسی طرح کی دوسری چیزیںسب انسانوں کویکساں نہیں ملیں۔ ایسا ہی معاملہ رزق کا بھی ہے ۔خدا کی بنائی ہوئی فطرت خود اس بات کی متقاضی ہے کہ انسانوں کے درمیان رزق میں تفاوت ہو، لہٰذا وہ تمام تدبیریں اسلامی نقطئہ نظر سے مقصد اور اصول میں غلط ہیں جو انسانوںکے درمیان ایک مصنوعی معاشی مساوات قائم کرنے کے لیے اختیار کی جائیں۔ اِسلام جس مساوات کا قائل ہے وہ رزق میں مساوات نہیں بلکہ حصولِ رزق کی جدوجہد کے مواقع میں مساوات ہے، وہ چاہتا ہے کہ سوسائٹی میں ایسی قانونی اور رواجی رکاوٹیں باقی نہ رہیں جن کی بنا پر کوئی شخص اپنی قوت و استعداد کے مطابق معاشی جدوجہدنہ کر سکتا ہو ۔اور ایسے امتیازات بھی قائم نہ رہیں جو بعض طبقوں ،نسلوں اور خاندانوں کی پیدائشی خوش نصیبی کو مستقل قانونی تحفظات میں تبدیل کر دیتے ہوں ۔یہ دونوںطریقے فطری نا مساوات کی جگہ زبردستی ایک مصنوعی نا مساوات قائم کرتے ہیں۔ اس لیے اِسلام انھیں مٹا کر سوسائٹی کے معاشی نظام کو ایسی فطری حالت پر لے آنا چاہتا ہے جس میں ہر شخص کے لیے کوشش کے مواقع کھلے ہوں ۔مگر جو لوگ چاہتے ہیں کہ کوشش کے ذرائع اور نتائج میں بھی سب لوگوں کو زبردستی برابر کر دیا جائے، اِسلام ان سے متفق نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ فطری نا مساوات کو مصنوعی مساوات میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ فطرت سے قریب تر نظام صرف وہی ہو سکتا ہے جس میں ہر شخص معیشت کے میدان میں اپنی دوڑ کی ابتدا اسی مقام اور اسی حالت سے کرے جس پر خدا نے اسے پیدا کیا ہے۔ جو موٹر لیے ہوئے آیا ہے وہ موٹر ہی پر چلے ،جو صرف دو پائوں لایا ہے وہ پیدل ہی چلے ،اور جو لنگڑا پیدا ہوا ہے وہ لنگڑا کر ہی چلنا شروع کردے ،سوسائٹی کا قانون نہ تو ایسا ہونا چاہیے کہ وہ موٹر والے کا مستقل اجارہ موٹر پر قائم کردے اور لنگڑے کے لیے موٹر کا حصول نا ممکن بنا دے، اور نہ ایسا ہی ہونا چاہیے کہ سب کی دوڑزبردستی ایک ہی مقام اور ایک ہی حالت سے شروع ہو اور آگے تک انھیں لازماً ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رکھا جائے۔ برعکس اس کے قوانین ایسے ہونے چاہییں جن میں اس امر کا کھلا امکان موجود رہے کہ جس نے اپنی دوڑ لنگڑا کر شروع کی تھی وہ اپنی محنت و قابلیت سے موٹر پا سکتا ہو تو ضرور پائے ،اور جو ابتدا میں موٹر پر چلا تھا وہ بعد میں اپنی نااہلی سے لنگڑا ہو کر رہ جائے تو رہ جائے۔
اِسلام صرف اتنا ہی نہیں چاہتا کہ اجتماعی زندگی ہی میں معاشی دوڑ کھلی اور بے لاگ ہو ،بلکہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اس میدان میںدوڑنے والے ایک دوسرے کے لیے بے رحم اور بے دردنہ ہوںبلکہ ہم درد اور مدد گار ہوں۔ وہ ایک طرف اپنی اخلاقی تعلیم سے لوگوں میں یہ ذہنیت پیدا کرتا ہے کہ اپنے درماندہ اور پسماندہ بھائیوں کو سہارا دیں ۔دوسری طرف وہ تقاضا کرتا ہے کہ سوسائٹی میں ایک مستقل ادارہ موجود رہے جو معذور اور بے وسیلہ لوگوں کی مدد کا ضامن ہو ۔جو لوگ معاشی دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہ ہوں وہ اس ادارے سے اپنا حصہ پائیں جو لوگ اتفاقات زمانہ سے اس دوڑ میں گر پڑے ہوں انھیں یہ ادارہ اُٹھا کر پھر چلنے کے قابل بنا دے اور جن لوگوں کوجدوجہد کے میدان میں اُترنے کے لیے سہارے کی ضرورت ہوانھیں اس ادارے سے سہارا ملے ۔اس مقصد کے لیے اِسلام نے ازروئے قانون یہ طے کیا ہے کہ ملک کی تمام جمع شدہ دولت پر ڈھائی فی صدی سالانہ اور اسی طرح پورے تجارتی سرمائے پر بھی ڈھائی فی صدی سالانہ زکوٰۃ وصول کی جائے۔ تمام عشری زمینوں کی زرعی پیداوار کا دس فی صدی یا پانچ فی صدی حصہ لیا جائے۔ بعض معدُنیات کی پیدا وار کا بیس فی صدی حصہ لیا جائے۔ مویشیوں کی ایک خاص تناسب سے سالانہ زکوۃلگائی جائے اور یہ تمام سرمایہ غریبوں یتیموں اور محتاجوں کی مدد کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ ایک ایسا اجتماعی انشورنس ہے جس کی موجودگی میں اسلامی سوسائٹی کے اندر کوئی شخص زندگی کی ناگزیر ضروریات سے کبھی محروم نہیں رہ سکتا ،کوئی محنت کش آدمی کبھی اتنا مجبور نہیں ہو سکتا کہ فاقے کے ڈر سے خدمت کی وہی شرائط منظور کر لے جو کار خانہ دار یا زمین دار پیش کر رہا ہو۔کسی شخص کی طاقت اُس کم از کم معیار سے کبھی نیچے نہیں گر سکتی جو معاشی جدوجہد میں حصہ لینے کے لیے ضروری ہے۔
فرد اور جماعت کے درمیان اِسلام ایسا توازن قائم کرنا چاہتا ہے جس میں فردکی شخصیت اور اس کی آزادی بھی بر قرار رہے اور اجتماعی مفاد کے لیے اس کی آزادی نقصان دہ بھی نہ ہو ،بلکہ لازمی طور پر مفید ہو۔ اِسلام کسی ایسی سیاسی یا معاشی تنظیم کو پسند نہیں کرتا جو فرد کو جماعت میں گم کردے اور اس کے لیے وہ آزادی باقی نہ چھوڑے جو اس کی شخصیت کے صحیح نشوونما کے لیے ضروری ہے۔ کسی ملک کے تمام ذرائع پیداوار کو قومی ملکیت بنا دینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ملک کے تمام افرادجماعتی شکنجہ میں جکڑ جائیں ۔اس حالت میں ان کی انفرادیت کی بقا وارتقا سخت مشکل بلکہ غیر ممکن ہے ۔انفرادیت کے لیے جس طرح سیاسی اور معاشرتی آزادی ضروری ہے‘ اسی طرح معاشی آزادی بھی بہت بڑی حد تک ضروری ہے ۔اگر ہم آدمیت کا بالکل استیصال نہیں کر دینا چاہتے تو ہماری اجتماعی زندگی میں اتنی گنجائش ضروری رہنی چاہیے کہ ایک بندئہ خدا اپنی روزی آزدادانہ پیدا کر کے اپنے ضمیر کا استقلال برقراررکھ سکے اور اپنی ذہنی و اخلاقی قوتوں کو اپنے رجحانات کے مطابق نشوونما دے سکے۔ راتب بندی کارزق جس کی کنجیاں دوسروں کے ہاتھ میں ہوں اگر فراواںبھی ہو تو خوش گوار نہیں،کیوں کہ اس سے پرواز میں جو کوتاہی آتی ہے محض جسم کی فربہی اس کی تلافی نہیں کر سکتی ۔
جس طرح اِسلام ایسے نظام کو نا پسند کرتا ہے اسی طرح وہ ایسے اجتماعی نظام کو بھی پسند نہیں کرتا جو افراد کو معاشرت اور معیشت میں بے لگام آزادی دیتا ہے اور انھیں کھلی چھٹی دے دیتا ہے کہ اپنی خواہشات یا اپنے مفاد کی خاطر جماعت کو جس طرح چاہیں نقصان پہنچائیں ۔ان دونوں انتہائوں کے درمیان اِسلام نے جو متوسط راہ اختیار کی ہے وہ یہ ہے کہ پہلے فرد کو جماعت کی خاطر چند حدود اور ذِمّہ داریوں کا پابند بنایا جائے، پھر اسے اپنے معاملات میں آزادانہ چھوڑ دیا جائے۔ ان حدود اور ذِمّہ داریوں کی ساری تفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں، مَیں ان کا صرف ایک مختصر سا نقشہ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
پہلے کسبِ معاش کو لیجیے۔ دولت کمانے کے ذرائع میں اِسلام نے جتنی باریک بینی کے ساتھ جائز و ناجائز کی تفریق کی ہے دُنیا کے کسی قانون نے نہیں کی۔ وہ چُن چُن کر ان تمام ذرائع کو حرام قرار دیتا ہے جن سے ایک شخص دوسرے اشخاص کو یا بحیثیت مجموعی پُوری سوسائٹی کو اخلاقی یا مادی نقصان پہنچا کر اپنی روزی حاصل کرتا ہے۔ شراب اور نشہ آور چیزوں کا بنانا اور بیچنا ،فحش کاری اور رقص و سرود کا پیشہ ، جُوا، سَٹّا، لاٹری، سود، قیاس، دھوکے اور جھگڑے کے سودے، ایسے تجارتی طریقے جن میں ایک فریق کا فائدہ یقینی اور دوسرے کا مشتبہ ہو ،ضرورت کی چیزوں کو روک کر ان کی قیمتیں چڑھانا ،اور اسی طرح کے بہت سے وہ کاروبار جو اجتماعی طور پر ضرر رساں ہیں اسلامی قانون میں قطعی طور پر حرام کر دیے گئے ہیں۔ اس معاملے میں اگر آپ اِسلام کے معاشی قانون کا جائزہ لیں تو حرام طریقوں کی ایک طویل فہرست آپ کے سامنے آئے گی اور ان میں بہت سے وہ طریقے آپ کو ملیں گے جنھیں استعمال کر کے ہی موجودہ سرمایہ داری نظام میں لوگ کروڑ پتی بنتے ہیں۔ اِسلام ان سب طریقوں کو از روئے قانون بند کرتا ہے اور آدمی کو صرف ان طریقوں سے دولت کمانے کی آزادی دیتا ہے جن سے وہ دوسروں کی کوئی حقیقی اور مفید خدمت انجام دے کر انصاف کے ساتھ اس کا معاوضہ حاصل کرے۔
حلال ذرائع سے کمائی ہوئی دولت پر اِسلام آدمی کے حقوق ملکیت تسلیم کرتا ہے۔ مگر یہ حقوق بھی غیر محدود نہیں ہیں ۔وہ آدمی کو پابند کرتا ہے کہ اپنی حلال کمائی کو خرچ بھی جائز ذرائع سے جائز راستوں ہی میں کرے۔ خرچ پر اس نے ایسی قیود لگا دی ہیں جن سے آدمی ایک ستھری اور پاکیزہ زندگی تو بسر کر سکتا ہے مگر عیاشیوں میں دولت اُڑا نہیں سکتا ،نہ شان و شوکت کے اظہار میں اس قدر حد سے گزر سکتا ہے کہ دوسروں پر اس کی خدائی کا سکہ جمنے لگے۔ بے جا خرچ کی بعض صورتوں کو تو اسلامی قانون میں صراحتاً ممنوع ٹھہرایا گیا ہے اور بعض دوسری صورتوں کی اگرچہ صراحت نہیں ہے لیکن اسلامی حکومت کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ اپنی دولت میں نارواتصرفات کرنے سے لوگوں کو حُکماً روک دے۔
جائز اور معقول اخراجات سے جو دولت آدمی کے پاس بچے اسے وہ جمع بھی کر سکتا ہے اور مزید دولت پیدا کرنے میں بھی لگا سکتا ہے ۔مگر ان دونوں حقوق پر پابندیاں ہیں ۔جمع کرنے کی صورت میں اسے نصاب سے زائد دولت پر ڈھائی فی صدی سالانہ زکوۃدینا ہو گی۔ کاروبار میں لگانا چاہے تو صرف جائز کاروبار ہی میں لگا سکتا ہے۔جائز کاروبار خواہ آدمی خود کرے یا کسی دوسرے کو اپنا سرمایہ روپے ،زمین یا آلات و اسباب کی صورت میں دے کر نفع و نقصان کا شریک ہو جائے ،یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔ ان حدود کے اندر کام کر کے اگر کوئی شخص کروڑ پتی بھی بن جائے تو اِسلام کی نگاہ میں یہ کوئی قابلِ اعتراض چیز نہیں ہے، بلکہ خدا کا انعام ہے ۔لیکن جماعتی مفاد کے لیے وہ اس پر دو شرطیں عائد کرتا ہے۔ ایک یہ کہ وہ اپنے تجارتی مال پر زکوۃ اورزرعی پیداوار پر عُشر ادا کرے ۔دوسرے یہ کہ وہ اپنی تجارت یا صنعت یا زراعت میں جن لوگوں کے ساتھ شرکت یا اُجرت کا معاملہ کرے ان سے انصاف کرے۔یہ انصاف اگر وہ خود نہ کرے گا تو اسلامی حکومت اسے انصاف پر مجبور کرے گی۔
پھر جو دولت ان جائز حدود کے اندر فراہم ہو اسے بھی اِسلام زیادہ دیر تک سمٹا نہیں رہنے دیتا بلکہ اپنے قانونِ وراثت کے ذریعے سے ہر پشت کے بعد دوسری پُشت میں اسے پھیلا دیتا ہے۔ اس معاملے میں اسلامی قانون کا رُجحان دُنیا کے تما م دوسرے قوانین کے رُجحانات سے مختلف ہے۔ دوسرے قوانین کوشش کرتے ہیں کہ جو دولت ایک دفعہ سمٹ چکی ہے وہ پُشت در پُشت سمٹی رہے۔ برعکس اس کے اِسلام ایسا قانون بناتا ہے کہ جو دولت ایک شخص نے اپنی زندگی میں فراہم کی ہو وہ اس کے مرتے ہی اس کے قریبی عزیزوں میںبانٹ دی جائے۔قریبی عزیز نہ ہوں تو دُور کے رشتہ دار بحصّۂ رسدی اس کے وارث ہوں اور اگر کوئی دُور پرے کا رشتہ دار بھی نہ ہو تو پھر پوری مسلم سوسائٹی اس کی حق دار ہے۔ یہ قانون کسی بڑی سرمایہ داری و زمین داری کو مستقل اور دائم نہیں رہنے دیتا۔ پچھلی ساری پابندیوں کے باوجود اگر دولت کے سمٹائو سے کوئی خرابی پیدا ہو بھی جائے تو یہ آخری ضرب اس کا ازالہ کر دیتی ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں