Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اِسلام کا اخلاقی نظام (یہ تقریر ۶ ۔جنوری ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
اخلاقی نظاموں میں اختلاف کیوں؟
اِسلام کا نظریۂ زندگی و اخلاق
اخلاقی جدوجہد کا مقصود
اخلاق کی پشت پر قوتِ نافذہ:
اِسلام کا سیاسی نظام (یہ تقریر ۲۰۔ جنوری ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)
اِسلام کا معاشرتی نظام (یہ تقریر ۱۰۔فروری ۱۹۴۸؁ء کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی )
اِسلام کا اقتصادی نظام (یہ تقریر ۲۔مارچ ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی۔)
اِسلام کا رُوحانی نظام (یہ تقریر ۱۶۔مارچ ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی )

اسلام کا نظام حیات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اِسلام کا اخلاقی نظام (یہ تقریر ۶ ۔جنوری ۱۹۴۸؁ کو ریڈیو پاکستان لاہور سے نشر کی گئی)

انسان کے اندر اخلاقی حِس ایک فطری حِس ہے جو بعض صفات کو پسند اور بعض دُوسری صفات کو نا پسند کرتی ہے۔ یہ حس انفرادی طور پر اشخاص میں چاہے کم و بیش ہو مگر مجموعی طور پر انسانیت کے شعور نے اخلاق کے بعض اوصاف پر خوبی کا اور بعض پر بُرائی کا ہمیشہ یکساں حکم لگایا ہے، سچائی، انصاف‘ پاسِ عہد اور امانت کو ہمیشہ سے انسانی اخلاقیات میں تعریف کا مستحق سمجھا گیا ہے اور کبھی کوئی ایسا دَور نہیں گزرا جب جھوٹ، ظلم، بدعہدی اورخیانت کو پسند کیا گیا ہو۔ ہم دردی، رحم، فیاضی اور فراخ دلی کی ہمیشہ قدر کی گئی ہے، اور خود غرضی، سنگ دلی، بخل اور تنگ نظری کو کبھی عزت کا مقام حاصل نہیں ہوا۔ صبر و تحمل، اخلاق و بُردباری، اولوالعزمی و شجاعت ہمیشہ سے وہ اوصاف رہے ہیں‘ جو داد کے مستحق سمجھے گئے اور بے صبری، چھچھورپن، تلوّن مزاجی‘ پست حوصلگی اور بُزدلی پر کبھی تحسین و آفرین کے پھول نہیں برسائے گئے۔ ضبطِ نفس، خودداری، شائستگی اور ملنساری کا شمار ہمیشہ سے خوبیوں ہی میں ہوتا رہا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بندگیٔ نفس، کم ظرفی، بدتمیزی اور کج خلقی نے اخلاقی محاسن کی فہرست میں جگہ پائی ہو۔ فرض شناسی، وفا شعاری‘ مستعدی اور احساسِ ذِمّہ داری کی ہمیشہ عزت کی گئی ہے اور فرض ناشناس، بے وفا، کام چور اور غیر ذِمّہ دار لوگوں کو کبھی اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا۔ اسی طرح اجتماعی زندگی کے اچھے اور بُرے اوصاف کے معاملہ میں بھی انسانیت کا معاملہ تقریباً متفق علیہ ہی رہا ہے۔ قدر کی مستحق ہمیشہ وہی سوسائٹی رہی ہے جس میں نظم و انضباط ہو‘ تعاون اور امدادِ باہمی ہو، آپس کی محبت اور خیر خواہی ہو، اجتماعی انصاف اور معاشرتی مساوات ہو۔ تفرقہ، انتشار، بدنظمی، بے ضابطگی، نااتفاقی آپس کی بدخواہی، ظلم اور نا ہمواری کو اجتماعی زندگی کے محاسن میں کبھی شمار نہیں کیا گیا۔ ایسا ہی معاملہ کردار کی نیکی و بدی کا بھی ہے۔ چوری، زنا، قتل، ڈاکا، جعل سازی اور رشوت خوری کبھی اچھے افعال نہیں سمجھے گئے۔ بد زبانی، مردم آزاری، غیبت، چغل خوری، حسد، بہتان تراشی اور فساد انگیزی کو کبھی نیکی نہیں سمجھا گیا۔ مکار، متکبر، ریا کار، منافق، ہٹ دھرم اور حریص لوگ کبھی بھلے آدمیوں میں شمار نہیں کیے گئے۔ اس کے برعکس والدین کی خدمت، رشتہ داروں کی مدد، ہمسایوں سے حُسنِ سلوک، دوستوں سے رفاقت، یتیموں اور بے کسوں کی خبرگیری، مریضوں کی تیمار داری اور مصیبت زدہ لوگوں کی اعانت ہمیشہ نیکی سمجھی گئی ہے۔ پاک دامن، خوش گفتار، نرم مزاج اور خیر اندیش لوگ ہمیشہ عزت کی نگاہ سے دیکھے گئے ہیں۔ انسانیت اپنا اچھا عنصر انھی لوگوں کو سمجھتی رہی ہے جو راست باز اور کھرے ہوں۔ جن پر ہر معاملہ میں اعتبار کیا جا سکے۔ جن کا ظاہر و باطن یکساں اور قول و فعل میں مطابقت ہو۔ جو اپنے حق پر قانع اور دوسروں کے حقوق ادا کرنے میں فراخ دل ہوں، جو امن سے رہیں اور دوسروں کو امن دیں، جن کی ذات سے ہر ایک کو خیر کی امید ہو اور کسی کو بُرائی کا اندیشہ نہ ہو۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسانی اخلاقیات دراصل وہ عالم گیر حقیقتیں ہیں، جنھیں سب انسان جانتے چلے آ رہے ہیں۔ نیکی اور بدی کوئی چھپی ہوئی چیزیں نہیں ہیں کہ انھیں کہیں سے ڈھونڈ کر نکالنے کی ضرورت ہو۔ وہ تو انسان کی جانی پہچانی چیزیں ہیں، جن کاشعور آدمی کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید اپنی زبان میں نیکی کو معروف اور بدی کو منکر کہتا ہے۔ یعنی نیکی وہ چیز ہے جسے سب انسان بھلا جانتے ہیں۔ اور منکر وہ ہے جسے کوئی خوبی اور بھلائی کی حیثیت سے نہیں جانتا۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرتا ہے:
فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَاo الشمس 8:91
یعنی نفسِ انسان کو خدا نے بُرائی اور بھلائی کی واقفیت الہامی طور پر عطا کر رکھی ہے۔

شیئر کریں