Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اِسلام اور جاہلیت
زندگی کے بنیادی مسائل
خالص جاہلیت
۱۔ شرک
۲۔ رَہبانیت
۳۔ ہمہ اُوست
انبیا ؑ کا نظریّۂ کائنات وانسان
نظریّۂ اِسلامی کی تنقید
اب اجتماعی پہلو میں دیکھیے:

اسلام اور جاہلیت

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اِسلام اور جاہلیت

(یہ مقالہ ۲۳؍ فروری ۱۹۴۱ء کو مجلسِ اِسلامیات اِسلامیہ کالج پشاور کی دعوت پر پڑھا گیا تھا)

انسان کو دُنیا میں جتنی چیزوں سے سابقہ پیش آتا ہے ان میں کسی کے ساتھ بھی وہ کوئی معاملہ اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اس چیز کی ماہیت وکیفیت اوراپنے اوراس کے باہمی تعلق کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کر لے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ رائے بجائے خود صحیح ہو یا غلط، مگر بہرحال اسے ان امور کے متعلق کوئی نہ کوئی رائے قائم ضرور کرنا پڑتی ہے اور جب تک وہ کوئی رائے قائم نہیں کر لیتا یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ میں اس کے ساتھ کیا طرزِ عمل اور کیا رویّہ اختیار کروں۔ یہ آپ کا شب وروز کا تجربہ ہے، آپ جب کسی شخص سے ملتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ شخص کون ہے، کس حیثیت، کس مرتبے، کن صفات کا آدمی ہے، اور مجھ سے اس کا تعلق کس نوعیت کا ہے۔ اس کے بغیر آپ یہ طے کر ہی نہیں سکتے کہ آپ کو اس کے ساتھ کیا برتائو کرنا ہے۔ اگر علم نہیں ہوتا تو بہرحال آپ کو قرائن کی بنا پر ایک قیاسی رائے ہی ان امور کے متعلق قائم کرنا پڑتی ہے، اورجو رویّہ بھی آپ اس کے ساتھ اختیار کرتے ہیں اسی رائے کی بنا پر کرتے ہیں۔ جو چیزیں آپ کھاتے ہیں ان کے ساتھ آپ کا یہ معاملہ اسی وجہ سے ہے کہ آپ کے علم یا آپ کے قیاس میں وہ چیزیں غذائی ضرورت پوری کرتی ہیں۔ جن چیزوں کو آپ پھینک دیتے ہیں، جنھیں آپ استعمال کرتے ہیں، جن کی آپ حفاظت کرتے ہیں، جن کی آپ تعظیم یا تحقیر کرتے ہیں، جن سے آپ ڈرتے یامحبت کرتے ہیں، ان سب کے متعلق آپ کے یہ مختلف طرزِ عمل بھی اُس رائے پر مبنی ہوتے ہیں جو آپ نے ان چیزوں کی ذات وصفات اور اپنے ساتھ اُن کے تعلق کے بارے میں قائم کی ہے۔
پھر جو رائے آپ اشیا کے متعلق قائم کیا کرتے ہیں اُس کے صحیح ہونے پر آپ کے رویّے کا صحیح ہونا اور غلَط ہونے پر آپ کے رویّے کا غلَط ہونا منحصر ہوتا ہے اور خود اُس رائے کی غلطی وصحت کا مدار اس چیز پر ہوتا ہے کہ آیا آپ نے وہ رائے علم کی بنا پر قائم کی ہے، یا قیاس پر، یا وہم پر، یا محض مشاہدۂ حسّی پر۔ مثلاً ایک بچہ آگ کو دیکھتا ہے اور مجرّدمشاہدۂ حسی کی بِنا پر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ یہ بڑا خوب صورت چمک دار کھلونا ہے۔ چنانچہ اس رائے کے نتیجے میں اس سے یہ طرز عمل ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اُسے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھا دیتا ہے۔ ایک دُوسرا شخص اُسی آگ کو دیکھ کر وہم سے یا قیاس سے یہ رائے قائم کرتا ہے کہ اس کے اندر الُوہیّت ہے، یا یہ الوہیّت کا مظہر ہے۔چنانچہ اس رائے کی بنا پر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اُس کے ساتھ میرا رویّہ یہ ہونا چاہیے کہ میں اس کے آگے سر نیاز جھکا دوں۔ ایک تیسرا شخص اسی آگ کو دیکھ کر اس کی ماہیت اور اس کی صفات کی تحقیق کرتا ہے اور علم وتحقیق کی بنا پر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ یہ پکانے اور جلانے اور تپانے والی ایک چیز ہے، اور میرے ساتھ اس کا تعلق وہ ہے جو ایک مخدوم کے ساتھ خادم کا تعلق ہوتا ہے۔ چنانچہ اس رائے کی بِنا پر وہ آگ کو نہ کھلونا بناتا ہے نہ معبود بلکہ اس سے حسبِ موقع پکانے اور جلانے اور تپانے کی خدمت لیتا ہے۔ ان مختلف رویوں میں سے بچے اور آتش پرست کے رویے جاہلیت کے رویے ہیں، کیوں کہ بچے کی یہ رائے کہ آگ محض کھلونا ہے تجربے سے غلَط ثابت ہو جاتی ہے ،اور آتش پرست کی یہ رائے کہ آگ خود اِلٰہ ہے یا مظہرِ الوہیّت ہے کسی ثبوتِ علمی پر مبنی نہیں بلکہ محض قیاس ووہم پرمبنی ہے، بخلاف اس کے آگ سے خدمت لینے والے کا رویّہ علمی رویّہ ہے۔ کیوں کہ آگ کے متعلق اس کی رائے علم پر مبنی ہے۔

شیئر کریں