Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
توحید ورسالت اور زندگی بعد موت کا عقلی ثبوت
سلامتی کا راستہ
اِسلام اور جاہلیت
دینِ حق
اِسلام کا اَخلاقی نقطۂ نظر
تحریکِ اِسلامی کی اَخلاقی بُنیادیں
بنائو اور بگاڑ
جہاد فی سبیل اللہ
شہادتِ حق
مسلمانوں کا ماضی وحال اور مستقبل کے لیے لائحہ عمل
اِسلام کا نظامِ حیات

اسلامی نظامِ زندگی اور اس کے بنیادی تصورات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اِسلام اور جاہلیت

(یہ مقالہ ۲۳؍ فروری ۱۹۴۱ء کو مجلسِ اِسلامیات اِسلامیہ کالج پشاور کی دعوت پر پڑھا گیا تھا)
انسان کو دُنیا میں جتنی چیزوں سے سابقہ پیش آتا ہے ان میں کسی کے ساتھ بھی وہ کوئی معاملہ اس وقت تک نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اس چیز کی ماہیت وکیفیت اوراپنے اوراس کے باہمی تعلق کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کر لے۔ اس سے بحث نہیں کہ وہ رائے بجائے خود صحیح ہو یا غلط، مگر بہرحال اسے ان امور کے متعلق کوئی نہ کوئی رائے قائم ضرور کرنا پڑتی ہے اور جب تک وہ کوئی رائے قائم نہیں کر لیتا یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ میں اس کے ساتھ کیا طرزِ عمل اور کیا رویّہ اختیار کروں۔ یہ آپ کا شب وروز کا تجربہ ہے، آپ جب کسی شخص سے ملتے ہیں تو آپ کو یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ شخص کون ہے، کس حیثیت، کس مرتبے، کن صفات کا آدمی ہے، اور مجھ سے اس کا تعلق کس نوعیت کا ہے۔ اس کے بغیر آپ یہ طے کر ہی نہیں سکتے کہ آپ کو اس کے ساتھ کیا برتائو کرنا ہے۔ اگر علم نہیں ہوتا تو بہرحال آپ کو قرائن کی بنا پر ایک قیاسی رائے ہی ان امور کے متعلق قائم کرنا پڑتی ہے، اورجو رویّہ بھی آپ اس کے ساتھ اختیار کرتے ہیں اسی رائے کی بنا پر کرتے ہیں۔ جو چیزیں آپ کھاتے ہیں ان کے ساتھ آپ کا یہ معاملہ اسی وجہ سے ہے کہ آپ کے علم یا آپ کے قیاس میں وہ چیزیں غذائی ضرورت پوری کرتی ہیں۔ جن چیزوں کو آپ پھینک دیتے ہیں، جنھیں آپ استعمال کرتے ہیں، جن کی آپ حفاظت کرتے ہیں، جن کی آپ تعظیم یا تحقیر کرتے ہیں، جن سے آپ ڈرتے یا مَحبّت کرتے ہیں، ان سب کے متعلق آپ کے یہ مختلف طرزِ عمل بھی اُس رائے پر مبنی ہوتے ہیں جو آپ نے ان چیزوں کی ذات وصفات اور اپنے ساتھ اُن کے تعلق کے بارے میں قائم کی ہے۔
پھر جو رائے آپ اشیا کے متعلق قائم کیا کرتے ہیں اُس کے صحیح ہونے پر آپ کے رویّے کا صحیح ہونا اور غلَط ہونے پر آپ کے رویّے کا غلَط ہونا منحصر ہوتا ہے اور خود اُس رائے کی غلطی وصحت کا مدار اس چیز پر ہوتا ہے کہ آیا آپ نے وہ رائے علم کی بنا پر قائم کی ہے، یا قیاس پر، یا وہم پر، یا محض مشاہدۂ حسّی پر۔ مثلاً ایک بچہ آگ کو دیکھتا ہے اور مجرّدمشاہدۂ حسی کی بِنا پر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ یہ بڑا خوب صورت چمک دار کھلونا ہے۔ چنانچہ اس رائے کے نتیجے میں اس سے یہ طرز عمل ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اُسے اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھا دیتا ہے۔ ایک دُوسرا شخص اُسی آگ کو دیکھ کر وہم سے یا قیاس سے یہ رائے قائم کرتا ہے کہ اس کے اندر الُوہیّت ہے، یا یہ الوہیّت کا مظہر ہے۔چنانچہ اس رائے کی بنا پر وہ فیصلہ کرتا ہے کہ اُس کے ساتھ میرا رویّہ یہ ہونا چاہیے کہ میں اس کے آگے سر نیاز جھکا دوں۔ ایک تیسرا شخص اسی آگ کو دیکھ کر اس کی ماہیت اور اس کی صفات کی تحقیق کرتا ہے اور علم وتحقیق کی بنا پر یہ رائے قائم کرتا ہے کہ یہ پکانے اور جلانے اور تپانے والی ایک چیز ہے، اور میرے ساتھ اس کا تعلق وہ ہے جو ایک مخدوم کے ساتھ خادم کا تعلق ہوتا ہے۔ چنانچہ اس رائے کی بِنا پر وہ آگ کو نہ کھلونا بناتا ہے نہ معبود بلکہ اس سے حسبِ موقع پکانے اور جلانے اور تپانے کی خدمت لیتا ہے۔ ان مختلف رویوں میں سے بچے اور آتش پرست کے رویے جاہلیت کے رویے ہیں، کیوں کہ بچے کی یہ رائے کہ آگ محض کھلونا ہے تجربے سے غلَط ثابت ہو جاتی ہے ،اور آتش پرست کی یہ رائے کہ آگ خود اِلٰہ ہے یا مظہرِ الوہیّت ہے کسی ثبوتِ علمی پر مبنی نہیں بلکہ محض قیاس ووہم پرمبنی ہے، بخلاف اس کے آگ سے خدمت لینے والے کا رویّہ علمی رویّہ ہے۔ کیوں کہ آگ کے متعلق اس کی رائے علم پر مبنی ہے۔
زندگی کے بنیادی مسائل
اس مقدمے کو ذہن نشین کرنے کے بعد اب ذرا اپنی نظر کو جزئیات سے کلّیات پر پھیلائیے۔ انسان اس دُنیا میں اپنے آپ کو موجود پاتا ہے۔ اس کے پاس ایک جسم ہے جس میں بہت سی قوتیں بھری ہوئی ہیں۔ اس کے سامنے زمین وآسمان کی ایک عظیم الشان بساط پھیلی ہوئی ہے جس میں بے حد وحساب اشیا ہیں اور وہ ان اشیا سے کام لینے کی قدرت اپنے اندر پاتا ہے۔ اس کے گرد وپیش بہت سے انسان، جانور، نباتات، جمادات وغیرہ ہیں، اور ان سب سے اس کی زندگی وابستہ ہے۔ اب کیا آپ کے نزدیک یہ بات قابل تصوّر ہے کہ وہ ان چیزوں کے ساتھ کوئی رویّہ اختیار کر سکتا ہے جب تک کہ پہلے خود اپنے بارے میں، ان تمام موجودات کے بارے میں، اور ان کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں کوئی رائے قائم نہ کر لے؟ کیا وہ اپنی زندگی کے لیے کوئی راستہ اختیار کر سکتا ہے جب تک یہ طے نہ کر لے کہ میں کون ہوں؟ کیا ہوں؟ ذمہ دار ہوں یا غیر ذمہ دار؟ خود مختار ہوں یا ماتحت؟ ماتحت ہوں تو کس کا، اور جواب دہ ہوں تو کس کے سامنے؟ میری اس دنیوی زندگی کا کوئی مآل ہے یا نہیں اور ہے تو کیا ہے؟ اسی طرح کیا وہ اپنی قوتوں کے لیے کوئی مصرف تجویز کر سکتا ہے جب تک اس سوال کا فیصلہ نہ کر لے کہ یہ جسم اور جسمانی قوتیں اس کی اپنی مِلک ہیںیا کسی کا عطیہ ہیں؟ ان کا حساب کوئی لینے والا ہے یا نہیں؟ اور ان کے استعمال کا ضابطہ اسے خود متعین کرنا ہے یا کسی اور کو؟ اسی طرح کیا وہ اپنے گرد وپیش کی اشیا کے متعلق کوئی طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے جب تک اس امرکا تعین نہ کرلے کہ ان اشیا کا مالک وہ خود ہے یا کوئی اور؟ ان پر اس کے اختیارات محدود ہیں یا غیر محدود؟ اور محدود ہیں تو حدود مقرر کرنے والا کون ہے؟ اسی طرح کیا وہ آپس میں اپنے ابنائے نوع کے برتائو کی کوئی شکل متعین کر سکتا ہے جب تک اس معاملے میں کوئی رائے قائم نہ کر لے کہ انسانیت کس چیز سے عبارت ہے؟ انسان اور انسان کے درمیان فرق وامتیاز کی بنیاد کیا ہے؟ اور دوستی ودشمنی، اتفاق واختلاف ، تعاون اور عدمِ تعاون کی اساس کن امور پر ہے؟ اس طرح کیا وہ بحیثیت مجموعی اس دُنیا کے ساتھ کوئی رویّہ اختیار کر سکتا ہے جب تک اس معاملے میں کسی نتیجے پر نہ پہنچے کہ یہ نظامِ کائنات کس قسم کا ہے اور اس میں میری حیثیت کیا ہے؟
جومقدمہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں، اس کی بنا پر بلا تامل یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان تمام امور کے متعلق ایک نہ ایک رائے قائم کیے بغیر کوئی رویّہ اختیار کرنا غیر ممکن ہے۔ فی الحقیقت ہر انسان جو دُنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے ان سوالات کے متعلق شعوری طور پر یا غیر شعوری طور پر کوئی نہ کوئی رائے ضرور رکھتا ہے اور رکھنے پر مجبور ہے کیوں کہ وہ اس رائے کے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھا سکتا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر شخص نے ان سوالات پر فلسفیانہ غور وفکر کیا ہو اور واضح طور پر تنقیحات قائم کرکے ایک ایک سوال کا فیصلہ کیا ہو، نہیں، بہت سے آدمیوں کے ذہن میں ان سوالات کی سرے سے کوئی متعین صورت ہوتی ہی نہیں، نہ وہ کبھی ان پر بالارادہ سوچتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے ہر آدمی اجمالی طور پر ان سوالات کے متعلق منفی یا مثبت پہلو میں ایک رائے پر لازماً پہنچ جاتا ہے، اور زندگی میں اس کا رویّہ جو بھی ہوتا ہے لازمی طور پر اُس رائے کے مطابق ہوتا ہے۔
یہ بات جس طرح اشخاص کے معاملے میں صحیح ہے اسی طرح جماعتوں کے معاملے میں بھی صحیح ہے۔ چوں کہ یہ سوالات انسانی زندگی کے بنیادی سوالات ہیں اس لیے کسی نظامِ تمدن وتہذیب اورکسی ہیئتِ اجتماعی کے لیے کوئی لائحہ عمل بن ہی نہیں سکتا جب تک کہ ان سوالات کا کوئی جواب متعین نہ کر لیا جائے۔ اور ان کا جواب جو بھی متعین کیا جائے گا اس کے لحاظ سے اَخلاق کا ایک نظریہ قائم ہوگا، اسی کی نوعیت کے مطابق زندگی کے مختلف شعبوں کی تشکیل ہو گی اور فی الجملہ پورا تمدن ویساہی رنگ اختیار کرے گا جیسا اس جواب کا مقتضا ہو گا۔ درحقیقت اس معاملے میں کوئی تخالف ممکن ہی نہیں ہے۔ خواہ ایک شخص کا رویّہ ہو یا ایک سوسائٹی کا، بہرحال وہ ٹھیک وہی نوعیت اختیار کرے گا جو ان سوالات کے جوابات کی نوعیت ہو گی۔ حتّٰی کہ اگر آپ چاہیں تو ایک شخص یا ایک جماعت کے رویّے کا تجزیہ کرکے بآسانی یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ اس رویّے کی تہہ میں زندگی کے ان بنیادی سوالات کا کون سا جواب کام کر رہا ہے۔ کیوں کہ یہ بات قطعی محال ہے کہ کسی شخصی یا اجتماعی رویّے کی نوعیت کچھ ہو اور ان سوالات کے جواب کی نوعیت کچھ اور ہو۔ اختلاف، زبانی دعوے اور واقعی رویےّ کے درمیان تو ضرور ہو سکتا ہے، لیکن ان سوالات کا جو جواب درحقیقت نفس کے اندر متمکن ہے اس کی نوعیت اور عملی رویّے کی نوعیت میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔
اچھا اب ہمیں ایک قدم اور آگے بڑھانا چاہیے۔ زندگی کے یہ بنیادی مسائل جن کے متعلق ابھی آپ نے سنا کہ ان کا کوئی حل اپنے ذہن میں متعین کیے بغیر آدمی دُنیا میں ایک قدم نہیں چل سکتا، اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ سب امورِ غیب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کوئی جواب اُفق پر لکھا ہوا نہیں ہے کہ ہر انسان دُنیا میں آتے ہی اسے پڑھ لے۔ اور ان کا کوئی جواب ایسا بد یہی نہیں ہے کہ ہر انسان کو خود بخود معلوم ہو جائے۔ اسی وجہ سے ان کا کوئی ایک حل نہیں ہے جس پر سارے انسان متفق ہوں۔ بلکہ ان کے بارے میں ہمیشہ انسانوں کے درمیان اختلاف رہا ہے اور ہمیشہ مختلف انسان مختلف طریقوں سے انھیں حل کرتے رہے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ انھیں حل کرنے کی کیا صورتیں ممکن ہیں، کیا کیا صورتیں دُنیا میں اختیار کی گئی ہیں اور ان مختلف صورتوں سے جو حل نکلتے ہیں وہ کس قسم کے ہیں۔
ان کے حل کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے حواس پر اعتماد کرے اور حواس سے جیسا کچھ محسوس ہوتا ہے اُسی کی بنا پر ان امور کے متعلق ایک رائے قائم کر لے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ مشاہدۂ حِسیّ کے ساتھ وہم وقیاس کو ملا کر ایک نتیجہ اخذ کیا جائے۔
تیسری صورت یہ ہے کہ پیغمبروں نے حقیقت کا براہِ راست علم رکھنے کا دعوٰی کرتے ہوئے ان مسائل کا جو حل بیان کیا ہے اسے قبول کر لیا جائے۔
دُنیا میں اب تک ان مسائل کے حل کی یہی تین صورتیں اختیار کی گئی ہیں، اور غالباً یہی تین صورتیں ممکن بھی ہیں۔ ان میں سے ہر صورت ایک جداگانہ طریقے سے ان مسائل کو حل کرتی ہے، ہر ایک حل سے ایک خاص قسم کا رویّہ وجود میں آتا ہے اور ایک خاص نظامِ اَخلاق اور نظامِ تمدن بنتا ہے جو اپنی بنیادی خصوصیات میں دوسرے تمام حلوں کے پیدا کردہ رویوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اب میں دکھانا چاہتا ہوں کہ ان مختلف طریقوں سے ان مسائل کے کیا حل نکلتے ہیں، اور ہر ایک حل کس قسم کا رویّہ پیدا کرتا ہے۔
خالص جاہلیت
حواس پر اعتماد کرکے جب انسان ان مسائل کے متعلق کوئی رائے قائم کرتا ہے تو اس طرزِ فکر کی عین فطرت کے تقاضے سے وہ اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ کائنات کا یہ سارا نظام ایک اتفاقی ہنگامۂ وُجود وظہور ہے جس کے پیچھے کوئی مصلحت اور مقصد نہیں۔ یوں ہی بن گیا ہے، یوں ہی چل رہا ہے، یونہی بے نتیجہ ختم ہوجائے گا۔ اس کا کوئی مالک نظر نہیں آتا، لہٰذا وہ یا تو ہے ہی نہیں یا اگر ہے تو انسان کی زندگی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ انسان ایک قسم کا جانور ہے جو شاید اتفاقاً پیدا ہو گیا ہے۔ کچھ خبر نہیں کہ اسے کسی نے پیدا کیا یا یہ خود پیدا ہو گیا۔ بہرحال یہ سوال خارج از بحث ہے۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ اس زمین پر پایا جاتا ہے، کچھ خواہشیں رکھتا ہے جنھیں پورا کرنے کے لیے اس کی طبیعت اندر سے زور کرتی ہے، کچھ قوٰی اور کچھ آلات رکھتا ہے جو ان خواہشوں کی تکمیل کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اور اس کے گرد وپیش زمین کے دامن پر بے حد وحساب سامان پھیلا ہوا ہے جس پر یہ اپنے قوٰی اور آلات کو استعمال کرکے اپنی خواہشات کی تکمیل کر سکتا ہے اور اس کی قوتوں کا کوئی مصرف اس کے سوا نہیں ہے کہ یہ ایک خوانِ یغما ہے جو اس لیے پھیلا ہوا ہے کہ انسان اس پرہاتھ مارے۔اوپر کوئی صاحبِ امر نہیں جس کے سامنے انسان جواب دہ ہو اور نہ کوئی علم کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ موجود ہے جہاں سے انسان کو اپنی زندگی کا قانون مل سکتا ہو۔ لہٰذا انسان ایک خود مختار اور غیر ذمہ دار ہستی ہے۔ اپنے لیے ضابطہ وقانون بنانا اور اپنی قوتوں کا مصرف تجویز کرنا اور موجودات کے ساتھ اپنے طرز عمل کا تعین کرنا اس کا اپنا کام ہے۔ اس کے لیے اگر کوئی ہدایت ہے تو جانوروں کی زندگی میں، پتھروں کی سرگزشت میں، یا خود اپنی تاریخ کے تجربات میں ہے اور یہ اگر کسی کے سامنے جواب دہ ہے تو آپ اپنے سامنے یا اُس اقتدار کے سامنے ہے جو خود انسانوں ہی میں سے پیدا ہو کر افراد پرمستولی ہو جائے۔ زندگی جو کچھ ہے یہی دنیوی زندگی ہے اور اعمال کے سارے نتائج اسی زندگی کی حد تک ہیں۔ لہٰذاصحیح اور غلَط، مفید اور مضر، قابلِ اخذ اور قابل ترک ہونے کا فیصلہ صرف انھی نتائج کے لحاظ سے کیا جائے گا جو اس دُنیا میں ظاہر ہوتے ہیں۔
یہ ایک پورا نظریۂ حیات ہے جس میں انسانی زندگی کے تمام بنیادی مسائل کا جواب حسی مشاہدے پر دیا گیا ہے۔ اور اس جواب کا ہر جزو دوسرے جز کے ساتھ کم از کم ایک منطقی ربط، ایک مزاجی موافقت ضرور رکھتا ہے جس کی وجہ سے انسان دُنیا میں ایک ہموار ویکساں رویّہ اختیار کر سکتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ یہ جواب اور اس سے پیدا ہونے والا رویّہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ اب اُس رویّے پر ایک نگاہ ڈالیے جو اس جواب کی بنا پر آدمی دُنیا میں اختیار کرتا ہے۔
انفرادی زندگی میں اس نقطۂ نگاہ کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اوّل سے لے کر آخر تک خود مختارانہ اور غیر ذمہ دارانہ طرزِ عمل اختیار کر لے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے جسم اور اپنی جسمانی قوتوں کا مالک سمجھے گا، اس لیے اپنے حسبِ منشا جس طرح چاہے گا انھیں استعمال کرے گا۔ دُنیا کی جو چیزیں اس کے قبضۂ قدرت میں آئیں گی اور جن انسانوں پراسے اقتدار حاصل ہو گا ان سب کے ساتھ وہ اس طرح برتائو کرے گا جیسے کہ وہ ان کا مالک ہے۔ اس کے اختیارات کو محدود کرنے والی چیز صرف قوانینِ قدرت کی حدیں اور اجتماعی زندگی کی ناگزیر بندشیں ہوں گی۔ خود اس کے اپنے نفس میں کوئی ایسا اَخلاقی احساس ذمہ داری کا احساس اور کسی باز پُرس کا خوف نہ ہو گا جو اسے شُترِ بے مہار ہونے سے روکتا ہو۔ جہاں خارجی رکاوٹیں نہ ہوں، یا جہاں وہ ان رکاوٹوں کے علی الرغم کام کرنے پر قادر ہو، وہاں تو اس کے عقیدے کا فطری اقتضا یہی ہے کہ وہ ظالم، بددیانت، شریر اورمفسد ہو۔ وہ فطرتاً خود غرض، مادہ پرست اور ابن الوقت ہو گا۔ اُس کی زندگی کا کوئی مقصد اپنی نفسانی خواہشات اور حیوانی ضروریات کی خدمت کے سوا نہ ہو گا اور ا س کی نگاہ میں قدروقیمت صرف ان چیزوں کی ہو گی جو اُس کے اس مقصدِ زندگی کے لیے کوئی قیمت رکھتی ہوں۔ افراد میں یہ سیرت وکردار پیدا ہونا اس عقیدے کا فطری اور منطقی نتیجہ ہے۔ بے شک یہ ممکن ہے کہ مصلحت اور دُور اندیشی کی بنا پرایسا شخص ہم درد ہو، ایثار پیشہ ہو، اپنی قوم کی فلاح وترقی کے لیے جان توڑ کوشش کرتا ہو، اور فی الجملہ اپنی زندگی میں ایک طرح کے ذمہ دارانہ اَخلاق کا اظہار کرے لیکن جب آپ اس کے اس رویّہ کا تجزیہ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ دراصل یہ اس کی خود غرضی ونفسانیت ہی کی توسیع ہے۔ وہ اپنے ملک یا اپنی قوم کی بھلائی میں اپنی بھلائی دیکھتا ہے، اس لیے اس کی بھلائی چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا شخص زیادہ سے زیادہ بس ایک نیشنلسٹ ہی ہو سکتا ہے۔
پھر جو سوسائٹی اس ذہنیت کے افراد سے بنے گی اُس کی امتیازی خصوصیات یہ ہوں گی:
سیاست کی بنیاد انسانی حاکمیت پر قائم ہو گی، خواہ وہ ایک شخص یا ایک خاندان یا ایک طبقے کی حاکمیت ہو، یا جمہور کی حاکمیت۔ زیادہ سے زیادہ بلند اجتماعی تصوّر جو قائم کیا جا سکے وہ بس دولتِ مشترکہ (common wealth) کا تصوّر ہو گا۔ اس مملکت میں قانون ساز انسان ہوں گے، تمام قوانین خواہش اور تجربی مصلحت کی بنا پر بنائے اور بدلے جائیں گے، اور منفعت پرستی ومصلحت پرستی ہی کے لحاظ سے پالیسیاں بھی بنائی اور بدلی جائیں گی۔ مملکت کے حدود میں وہ لوگ زور کرکے ابھر آئیں گے جو سب سے زیادہ طاقت ور اور سب سے زیادہ چالاک، مکار، جھوٹے، دغا باز، سنگ دل اور خبیث النفس ہوں گے۔ سوسائٹی کی راہ نمائی اور مملکت کی زمامِ کارانھی کے ہاتھ میں ہو گی اور ان کی کتابِ آئین میں زور کا نام حق اور بے زوری کا نام باطل ہو گا۔
تمدن ومعاشرت کا سارا نظام نفس پرستی پر قائم ہو گا۔ لذّاتِ نفس کی طلب ہر اَخلاقی قید سے آزاد ہوتی چلی جائے گی اور تمام اَخلاقی معیار اس طرح قائم کیے جائیں گے کہ ان کی وجہ سے لذتوں کے حصوں میں کم سے کم رکاوٹ ہو۔
اسی ذہنیت سے آرٹ اور لٹریچر متاثر ہوں گے اور ان کے اندر عریانی وشہوانیت کے عناصر بڑھتے چلے جائیں گے۔
معاشی زِندگی میں کبھی جاگیرداری سسٹم بر سر عروج آئے گا، کبھی سرمایہ داری نظام اس کی جگہ لے گا، اورکبھی مزدور شورش کرکے اپنی ڈکٹیٹر شپ قائم کر لیں گے۔ عدل سے بہرحال معیشت کا رشتہ کبھی قائم نہ ہو سکے گا۔ کیوں کہ دُنیا اور اس کی دولت کے بارے میں اس سوسائٹی کے ہر فرد کا بنیادی رویّہ اس تصوّر پر مبنی ہو گا کہ یہ ایک خوانِ یغما ہے جس پر حسبِ موقع ہاتھ مارنے کے لیے وہ آزاد ہے۔
پھر اس سوسائٹی میں افراد کو تیار کرنے کے لیے تعلیم وتربیت کا جو نظام ہو گا اس کا مزاج بھی اِسی تصوّرِ حیات اور اسی رویّے کے مناسب حال ہو گا، اس میں ہر نئی آنے والی نسل کو دُنیا اور انسان اور دُنیا میں انسان کی حیثیت کے متعلق وہی تصوّر دیاجائے گا جس کی تشریح مَیں نے اوپر کی ہے۔ تمام معلومات خواہ وہ کسی شعبۂ علم سے متعلق ہوں، اُن کوایسی ہی ترتیب کے ساتھ دی جائیں گی کہ آپ سے آپ اُن کے ذہن میں زندگی کا یہ تصوّر پیدا ہو جائے اور پھر ساری تربیت اس ڈھنگ کی ہو گی کہ وہ زندگی میں یہی رویّہ اختیارکرنے اور اسی طرز کی سوسائٹی میں کھپ جانے کے لیے تیار ہوں۔ اس تعلیم وتربیت کی خصوصیات کے متعلق مجھے آپ سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ آپ لوگوں کو اس کا ذاتی تجربہ ہے۔ جن درس گاہوں میں آپ تعلیم پا رہے ہیں وہ سب اسی نظریے پر قائم ہوئی ہیں، اگرچہ ان کے نام’’ اِسلامیہ کالج‘‘ اور ’’مسلم یونیورسٹی‘‘ وغیرہ ہیں۔
یہ رویّہ جس کی تشریح میں نے ابھی آپ کے سامنے کی ہے خالص جاہلیت کا رویّہ ہے۔ اس کی نوعیت وہی ہے جو اس بچے کے رویے کی نوعیت ہے جو محض حسی مشاہدے پر اعتماد کرکے آگ کو ایک خوب صورت کھلونا سمجھتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں اس مشاہدے کی غلطی فورًا تجربہ سے ظاہر ہو جاتی ہے کیوں کہ جس آگ کو کھلونا سمجھ کر وہ دست اندازی کا رویّہ اختیار کرتا ہے وہ گرم آگ ہوتی ہے، ہاتھ لگاتے ہی فورًا بتا دیتی ہے کہ میں کھلونا نہیں ہوں۔ بخلاف اس کے یہاں مشاہدے کی غلطی بڑی دیرمیں کھلتی ہے، بلکہ بہتوں پر کھلتی ہی نہیں کیوں کہ جس آگ پر یہ ہاتھ ڈالتے ہیں اس کی آنچ دھیمی ہے، فورًا چرکا نہیں دیتی بلکہ صدیوں تک تپاتی رہتی ہے۔ تاہم اگر کوئی شخص تجربات سے سبق لینے کے لیے تیار ہو تو شب وروز کی زندگی میں اس نظریے کی بدولت افراد کی بے ایمانیوں، حکام کے مظالم، منصفوں کی بے انصافیوں، مال داروں کی خود غرضیوں، اور عام لوگوں کی بد اَخلاقیوں کا جو تلخ تجربہ اس کوہوتا ہے، اور بڑے پیمانے پر اسی نظریے سے قوم پرستی، امپیریلزم، جنگ وفساد، ملک گیری اور اقوام کشی کے جو شرارے نکلتے ہیں، ان کے چرکوں سے وہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ یہ رویّہ جاہلیت کا رویّہ ہے، علمی رویّہ نہیں ہے۔ کیوں کہ انسان نے اپنے متعلق اور نظام کائنات کے متعلق جو رائے قائمِ کرکے یہ رویّہ اختیار کیا ہے وہ امرِ واقعہ کے مطابق نہیں ہے ورنہ اس سے یہ بُرے نتائج ظاہر نہ ہوتے۔
اب ہمیں دوسرے طریقے کا جائزہ لینا چاہیے۔ زندگی کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ مشاہدے کے ساتھ قیاس ووہم سے کام لے کر ان مسائل کے متعلق کوئی رائے قائم کی جائے۔ اس طریقے سے تین مختلف رائیں قائم کی گئی ہیں اور ہرایک رائے سے ایک خاص قسم کا رویّہ پیدا ہوا ہے۔
۱۔ شرک
ایک رائے یہ ہے کہ کائنات کا یہ نظام بے خداوند تو نہیں ہے مگر اس کا ایک خداوند (الٰہ یا ربّ) نہیں ہے بلکہ بہت سے خداوند (آلِھَۃ)اورارباب ہیں۔ کائنات کی مختلف قوتوں کا سررشتہ مختلف خدائوں کے ہاتھ میں ہے اور انسان کی سعادت وشقاوت، کام یابی وناکامی، نفع ونقصان بہت سی ہستیوں کی مہربانی پرمنحصر ہے۔ یہ رائے جن لوگوں نے اختیار کی ہے انھوں نے پھر اپنے وہم وقیاس سے کام لے کر یہ تعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ خدائی کی طاقتیں کہاں کہاں اور کس کس کے ہاتھ میں ہیں، اور جن جن چیزوں پر بھی ان کی نگاہ جا ٹھیری ہے انھی کو خدا مان لیا ہے۔
اس رائے کی بنا پر جو طرزِ عمل انسان اختیار کرتا ہے اس کی امتیازی خصوصیات یہ ہیں:
اوّلاً:اس سے آدمی کی پوری زندگی اوہام کی آماج گاہ بن جاتی ہے۔ وہ کسی علمی ثبوت کے بغیر مجرد اپنے وہم وخیال سے بہت سی چیزوں کے متعلق یہ رائے قائم کرتا ہے کہ وہ فوق الفطری طریقوں سے اس کی قسمت پر اچھا یا بُرا اثر ڈالتی ہیں۔ اس لیے وہ اچھے اثرات کی موہوم امید اور بُرے اثرات کے موہوم خوف میں مبتلا ہو کر اپنی بہت سی قوتیں لاحاصل طریقے سے ضائع کر دیتا ہے۔ کہیں کسی قبر سے امید لگاتا ہے کہ یہ میرا کام کر دے گی۔ کہیں کسی بُت پر بھروسا کرتا ہے کہ وہ میری قسمت بنا دے گا۔ کہیں کسی اور خیالی اور کارساز کو خوش کرنے کے لیے دوڑتا پھرتا ہے۔ کہیں کسی بُرے شگون سے دل شکستہ ہو جاتا ہے اور کہیں کسی اچھے شگون سے توقعات کے خالی قلعے بنا لیتا ہے۔ یہ ساری چیزیں اس کے خیالات اور اس کی کوششوں کو فطری تدابیر سے ہٹا کر ایک بالکل غیر فطری راستے پر ڈال دیتی ہیں۔
ثانیاً: اس رائے کی وجہ سے پوجا پاٹ، نذرونیاز، اور دوسری رسموں کاایک لمبا چوڑا دستورُ العمل بنتا ہے جس میں اُلجھ کر آدمی کی سعی وعمل کا ایک بڑا حصہ بے نتیجہ مشغولیتوں میں صرف ہو جاتا ہے۔
ثالثاً: جو لوگ اس مشرکانہ وہم پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں انھیں بے وقوف بنا کر اپنے جال میں پھانس لینے کا چالاک آدمیوں کو خوب موقع مل جاتا ہے۔ کوئی بادشاہ بن بیٹھتا ہے اور سورج، چاند اور دوسرے دیوتائوں سے اپنا نسب ملا کر لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ ہم بھی خدائوں میں سے ہیں اور تم ہمارے بندے ہو۔ کوئی پروہت یا مجاور بن بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ تمھارا نفع ونقصان جن سے وابستہ ہے ان سے ہمارا تعلق ہے اور تم ہمارے ہی واسطے اُن تک پہنچ سکتے ہو۔ کوئی پنڈت اور پیربن جاتا ہے اور تعویذ گنڈوں اور منتروں اور عملیات کا ڈھونگ رچا کر لوگوں کو یقین دلاتا ہے کہ ہماری یہ چیزیں فوق الفطری طریقے سے تمھاری حاجتیں پوری کریں گی۔ پھر ان سب چالاک لوگوں کی نسلیں مستقل خاندانوں اور طبقوں کی صورت اختیار کر لیتی ہیں جن کے حقوق، امتیازات اور اثرات امتدادِ زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتے اور گہری بنیادوں پر جمتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح اس عقیدے کی بدولت عام انسانوں کی گردنوں پر شاہی خاندانوں، مذہبی عہدے داروں اور روحانی پیشوائوں کی خدائی کا جُوا مسلّط ہوتا ہے اور یہ بناوٹی خدا اُنھیں اس طرح اپنا خادم بناتے ہیں کہ گویا وہ اُن کے لیے دودھ دینے اور سواری اور باربرداری کی خدمت انجام دینے والے جانور ہیں۔
رابعاً: یہ نظریہ نہ تو علوم وفنون، فلسفہ وادب، اورتمدّن وسیاست کے لیے کوئی مستقل بنیاد فراہم کرتا ہے اور نہ ان خیالی خدائوں سے انسانوں کو کسی قسم کی ہدایت ہی ملتی ہے کہ وہ اس کی پابندی کریں۔ ان خدائوں سے تو انسان کا تعلق صرف اس حد تک محدود رہتا ہے کہ یہ اُن کی مہربانی واعانت حاصل کرنے کے لیے بس عبودیت کے چند مراسم ادا کر دے۔ باقی رہے زندگی کے معاملات تو ان کے متعلق قوانین اور ضوابط بنانا اور عمل کے طریقے معین کرنا انسان کا اپنا کام ہوتا ہے۔ اس طرح مشرک سوسائٹی عملاً انھی سب راہوں پر چلتی ہے جن کا ذکر خالص جاہلیت کے سلسلے میں ابھی میں آپ سے کر چکا ہوں۔ وہی اَخلاق، وہی اعمال، وہی طرز تمدن، وہی سیاست، وہی نظامِ معیشت، اور وہی علم وادب۔ ان تمام حیثیتوں سے شرک کے رویّے اور خالص جاہلیت کے رویّے میں کوئی اصولی فرق نہیں ہوتا۔
۲۔ رَہبانیت
دُوسری رائے جو مشاہدے کے ساتھ قیاس ووہم کو ملا کر قائم کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دُنیا اور یہ جسمانی وُجود انسان کے لیے ایک دارالعذاب ہے۔ انسان کی روح ایک سزا یافتہ قیدی کی حیثیت سے اس قفس میں بند کی گئی ہے۔ لذّات وخواہشات اور تمام وہ ضروریات جو اس تعلق کی وجہ سے انسان کو لاحق ہوتی ہیں اصل میں یہ اس قید خانے کے طوق وسلاسل ہیں۔ انسان جتنا اس دُنیا اور اس کی چیزوں سے تعلق رکھے گا اتنا ہی ان زنجیروں میں پھنستا چلا جائے گا اور مزید عذاب کا مستحق ہو گا۔ نجات کی صورت اس کے سوا کوئی نہیں کہ زندگی کے سارے بکھیڑوں سے قطع تعلق کیا جائے، خواہشات کو مٹایا جائے۔ لذّات سے کنارہ کشی کی جائے، جسمانی ضروریات اور نفس کے مطالبوں کو پورا کرنے سے انکار کیا جائے، ان تمام مَحبتوں کو دل سے نکال دیا جائے جو گوشت وخون کے تعلق سے پیدا ہوتی ہیں، اور اپنے اس دشمن (یعنی نفس وجسم) کو مجاہدوں اور ریاضتوں سے اتنی تکلیفیں دی جائیں کہ رُوح پر اس کا تسلّط قائم نہ رہ سکے۔ اس طرح روح ہلکی اور پاک صاف ہوجائے گی اور نجات کے بلند مقام پر اُڑنے کی طاقت حاصل کر لے گی۔
اس رائے سے جو رویّہ پیدا ہوتا ہے اس کی خصوصیات یہ ہیں:
اوّلاً، اس سے انسان کے تمام رجحانات، اجتماعیت سے انفرادیت کی طرف اور تمدن سے وحشت کی طرف پھر جاتے ہیں۔ وہ دُنیا اور اس کی زندگی سے منہ موڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے، ذمہ داریوں سے بھاگتا ہے، اس کی ساری زندگی عدمِ تعاون اور ترکِ موالات کی زندگی بن جاتی ہے اور اس کے اَخلاق زیادہ تر سلبی (negative) نوعیت کے ہو جاتے ہیں۔
ثانیاً، اس رائے کی بدولت نیک لوگ دُنیا کے کاروبار سے ہٹ کر اپنی نجات کی فکر میں گوشہ ہائے عزلت کی طرف چلے جاتے ہیں اور دُنیا کے سارے معاملات شریر لوگوں کے ہاتھوں میں آ جاتے ہیں۔
ثالثاً: تمدن میں اس رائے کااثر جس حد تک پہنچتا ہے اس سے لوگوں کے اندر سلبی اَخلاقیات، غیر تمدّنی (un-social) اور انفرادیت پسندانہ (individualistic) رجحانات اور مایوسانہ خیالات پیدا ہو جاتے ہیں۔ ان کی عملی قوتیں سرد ہو جاتی ہیں۔ وہ ظالموں کے لیے نرم نوالہ بن جاتے ہیں۔ اور ہرجابر حُکُومت انھیں آسانی سے قابو میں لا سکتی ہے۔ درحقیقت یہ نظریہ عوام کو ظالموں کے لیے ذلول (tame) بنانے میں جادو کی تاثیر رکھتا ہے۔
رابعاً: انسانی فطرت سے اس راہبانہ نظریے کی مستقل جنگ رہتی ہے اور اکثر یہ اس سے شکست کھا جاتا ہے۔ پھر جب یہ شکست کھاتا ہے تو اپنی کم زوری کو چھپانے کے لیے اسے حیلوں کے دامن میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ اسی وجہ سے کہیں کفارہ کا عقیدہ ایجاد ہوتا ہے، کہیں عشقِ مجازی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اور کہیں ترک دُنیا کے پردے میں وہ دُنیا پرستی کی جاتی ہے جس کے آگے دُنیا پرست بھی شرما جائیں۔
۳۔ ہمہ اُوست
تیسری رائے جو مشاہدے اور قیاس کی آمیزش سے پیدا ہوتی ہے یہ ہے کہ انسان اورکائنات کی تمام چیزیں بجائے خود غیر حقیقی ہیں۔ ان کا کوئی مستقل وجود نہیں ہے۔ دراصل ایک وجود نے ان ساری چیزوں کو خود اپنے ظہور کا واسطہ بنایا ہے اور وہی ان سب کے اندر کام کر رہا ہے۔ تفصیلات میں اس نظریے کی بے شمار صورتیں ہیں، مگر ان ساری تفصیلات کے اندر قدر مشترک یہی ایک خیال ہے کہ تمام موجودات ایک ہی وجود کا ظہور خارجی ہیں اور دراصل موجود وہی ہے باقی کچھ نہیں۔
اس نظریے کی بِنا پر انسان جو رویّہ اختیار کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اسے خود اپنے ہونے ہی میں شک ہو جاتا ہے کجا کہ وہ کوئی کام کرے۔ وہ اپنے آپ کو ایک کٹھ پتلی سمجھتا ہے جسے کوئی اور نچا رہا ہے یا جس کے اندر کوئی اور ناچ رہا ہے۔ وہ اپنے تخیلات کے نشے میں گم ہو جاتا ہے۔ اُس کے لیے نہ کوئی مقصدِ زندگی ہوتا ہے اور نہ کوئی راہِ عمل۔ وہ خیال کرتا ہے کہ میں خود تو کچھ ہوں ہی نہیں، نہ میرے کرنے کا کوئی کام ہے، نہ میرے کیے سے کچھ ہو سکتا ہے۔ اصل میں تو وہ وجودِ کلی جو مجھ میں اور تمام کائنات میں سرایت کیے ہوئے ہے اور جو ازل سے ابد تک چلا جا رہا ہے، سارے کام اُسی کے ہیں اور وہی سب کچھ کرتا ہے۔ وہ اگر مکمل ہے تو مَیں بھی مکمل ہوں، پھر کوشش کس چیزکے لیے؟ اور وہ اگر اپنی تکمیل کے لیے کوشاں ہے تو جس عالم گیر حرکت کے ساتھ وہ کمال کی طرف جا رہا ہے اسی کی لپیٹ میں ایک جز کی حیثیت سے میں بھی آپ سے آپ چلا جائوں گا۔ میں ایک جز ہوں، مجھے کیا خبر کہ کل کدھر جا رہا ہے اور کدھر جانا چاہتا ہے۔ اس طرزِ خیال کے عملی نتائج قریب قریب وہی ہیں جو ابھی مَیں نے راہبانہ نظریّے کے سلسلے میں بیان کیے ہیں۔ بلکہ بعض حالات میں اس رائے کو اختیار کرنے والے کا طرزِ عمل ان لوگوں کے رویے سے ملتا جلتا ہے جو خالص جاہلیت کا نظریہ اختیار کرتے ہیں۔ کیوں کہ یہ اپنی خواہشات کے ہاتھ میں اپنی باگیں دے دیتا ہے اور پھر جدھر خواہشات لے جاتی ہیں اس طرف یہ سمجھتے ہوئے بے تکلف چلا جاتا ہے کہ جانے والا وجود کلی ہے نہ کہ مَیں۔
پہلے نظریے کی طرح یہ تینوں نظریے بھی جاہلیت کے نظریے ہیں اور اس بنا پر جو رویّے ان سے پیدا ہوتے ہیں وہ بھی جاہلیت ہی کے رویّے ہیں۔ اس لیے کہ اوّل تو ان میں سے کوئی نظریّہ بھی کسی علمی ثبوت پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض خیالی اور قیاسی بنیادوں پر مختلف رائیں قائم کر لی گئی ہیں۔ دوسرے ان کا واقعہ کے خلاف ہونا تجربے سے ثابت ہوتا ہے۔ اگر ان میں کوئی رائے بھی امر واقعی کے مطابق ہوتی تو اس کے مطابق عمل کرنے سے بُرے نتائج تجربے میں نہ آتے۔ جب آپ دیکھتے ہیں کہ ایک چیز کو جہاں کہیں انسان نے کھایا اس کے پیٹ میں درد ضرور ہوا تو اس تجربے سے آپ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ فی الحقیقت معدے کی ساخت اور اس کی طبیعت سے یہ چیز مطابقت نہیں رکھتی۔ بالکل اسی طرح جب یہ حقیقت ہے کہ شرک، رہبانیت، اور وجودیت کے نظریے اختیار کرنے سے انسان کو بحیثیت مجموعی نقصان ہی پہنچا تو یہ بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ ان میں سے کوئی نظریہ بھی واقعہ اور حقیقت کے مطابق نہیں ہے۔
(ب) اِسلام
اب ہمیں تیسری صورت کو لینا چاہیے جو زندگی کے ان بنیادی مسائل کے متعلق رائے قائم کرنے کی آخری صورت ہے، اور وہ یہ ہے کہ پیغمبروں نے ان مسائل کا جو حل پیش کیا ہے اُسے قبول کیا جائے۔
اس طریقے کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی اجنبی مقام پر آپ ہوں اور آپ کو خود اس مقام کے متعلق کوئی واقفیت نہ ہو تو آپ کسی دوسرے شخص سے دریافت کریں اور اس کی راہ نمائی میں وہاں کی سیر کریں۔ ایسی صورتِ حال جب پیش آتی ہے تو آپ پہلے اس شخص کو تلاش کرتے ہیں جو خود واقف کار ہونے کا دعوٰی کرے۔ پھر آپ قرائن سے اس امر کا اطمینان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ شخص قابلِ اعتماد ہے یا نہیں۔ پھر آپ اس کی راہ نمائی میں چل کر دیکھتے ہیں اور جب تجربے سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق جو عمل آپ نے کیا اس سے کوئی بُرا نتیجہ نہیں نکلا تو آپ کو پوری طرح اطمینان ہو جاتا ہے کہ واقعی وہ شخص واقف کار تھا اور اس جگہ کے متعلق جو معلوما ت اس نے دی تھیں وہ صحیح تھیں۔ یہ ایک علمی طریقہ ہے، اور اگر کوئی دوسرا طریقِ علمی ممکن نہ ہو تو پھر رائے قائم کرنے کے لیے یہی ایک صحیح طریقہ ہو سکتا ہے۔
اب دیکھیے، دُنیا آپ کے لیے ایک اجنبی جگہ ہے۔ آپ کو نہیں معلوم کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا انتظام کس قسم کا ہے۔ کس آئین پر یہ کارخانہ چل رہا ہے۔ اس کے اندر آپ کی کیا حیثیت ہے، اور یہاں آپ کے لیے کیا رویّہ مناسب ہے۔ آپ نے پہلے یہ رائے قائم کی کہ جیسا بظاہر نظر آتا ہے اصل حقیقت بھی وہی ہے۔ آپ نے اس رائے پر عمل کیا مگر نتیجہ غلَط نکلا۔ پھر آپ نے قیاس اور گمان کی بنا پر مختلف رائیں قائم کیں اور ہر ایک پر عمل کرکے دیکھا، مگر ہر صورت میں نتیجہ غلَط ہی رہا۔ اس کے بعد آخری صورت یہی ہے کہ آپ پیغمبروں کی طرف رجوع کریں۔ یہ لوگ واقف کار ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ ان کے حالات کی جتنی چھان بین کی جاتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نہایت سچے، نہایت امین، نہایت نیک، نہایت بے غرض، اور نہایت صحیح الدماغ لوگ ہیں۔ لہٰذا بادی النظر میں ان پراعتماد کرنے کے لیے کافی وجہ موجود ہے۔ اب صرف یہ دیکھنا باقی رہ جاتا ہے کہ دُنیا کے متعلق اوردُنیا میں آپ کی حیثیت کے متعلق جومعلومات وہ دیتے ہیں وہ کہاں تک لگتی ہوئی ہیں، اُن کے خلاف کوئی عملی ثبوت نہیں ہے، اور اُن کے مطابق جو رویّہ دُنیا میں اختیار کیا گیا وہ تجربے سے کیسا ثابت ہوا۔ اگر تحقیق سے ان تینوں باتوں کا جواب بھی اطمینان بخش نکلے تو ان کی راہ نمائی پر ایمان لے آنا چاہیے اور زندگی میں وہی رویّہ اختیار کرنا چاہیے جو اس نظریے کے مطابق ہو۔
جیسا کہ میں نے اُوپر عرض کیا پچھلے جاہلیت کے طریقوں کے مقابلے میں یہ طریقہ علمی طریقہ ہے اور اگر اس علم کے آگے آدمی سرِ تسلیم خم کر دے، اگر خود سری اور خودرائی کو چھوڑ کر اس علم کا اتباع کرے، اور اپنے رویّے کو انھی حدود کا پابند کر دے جو اس علم نے قائم کی ہیں، تو اسی طریقے کا نام ’’اِسلامی طریقہ‘‘ ہے۔
انبیا ؑ کا نظریّۂ کائنات وانسان
پیغمبر کہتے ہیں:
یہ سارا عالم ہست وبود جوانسان کے گرد وپیش پھیلا ہوا ہے اور جس کا ایک جز انسان بھی ہے کوئی اتفاقی ہنگامہ نہیں ہے بلکہ ایک منظم، باضابطہ سلطنت ہے۔ اللّٰہ نے اسے بنایا ہے، وہی اس کا مالک ہے اور وہی اس کا اکیلا حاکم ہے۔ یہ ایک کلّی نظام (totalitarian system) ہے جس میں تمام اختیارات مرکزی اقتدار کے ہاتھ میں ہیں۔ اُس مقتدر اعلیٰ کے سوا یہاں کسی کا حکم نہیں چلتا۔ تمام قوتیں جو نظامِ عالم میں کام کر رہی ہیں، اسی کے زیرِ حکم ہیں اور کسی کی مجال نہیں ہے کہ اس کے حکم سے سرتابی کر سکے، یا اس کے اِذن کے بغیر اپنے اختیار سے کوئی حرکت کرے۔ اس ہمہ گیر سسٹم کے اندر کسی کی خودمختاری (independence) اور غیر ذمہ داری (irresponsibility) کے لیے کوئی جگہ نہیں، نہ فطرتاً ہو سکتی ہے۔
انسان یہاں پیدائشی رعیت (born subject) ہے۔ رعیت ہونا اس کی مرضی پر موقوف نہیں ہے بلکہ یہ رعیت ہی پیدا ہوا ہے، اور رعیت کے سوا کچھ اور ہونا اس کے امکان میں نہیں ہے۔ لہٰذایہ خود اپنے لیے طریق زندگی وضع کرنے اور اپنی ڈیوٹی آپ تجویز کر لینے کا حق نہیں رکھتا۔
یہ کسی چیز کا مالک نہیں ہے کہ اپنی مِلک میں تصرّف کرنے کا ضابطہ خود بنائے۔ اس کا جسم اور اس کی ساری قوتیں اللہ کی مِلک اور اس کا عطیہ ہیں، لہٰذا یہ انھیں خود اپنے منشا کے مطابق استعمال کرنے کا حق دار نہیں ہے بلکہ جس نے یہ چیزیں اسے عطا کی ہیں اُسی کی مرضی کے مطابق اسے انھیں استعمال کرنا چاہیے۔
اسی طرح جو اشیا اس کے گرد وپیش دُنیا میں پائی جاتی ہیں; زمین، جانور، پانی، نباتات، معدنیات وغیرہ… یہ سب اللّٰہ کی مِلک ہیں۔ انسان ان کا مالک نہیں ہے، لہٰذا انسان کو ان پر بھی اپنی مرضی کے مطابق تصرف کرنے کا کوئی حق نہیں بلکہ اسے ان کے ساتھ اس قانون کے مطابق برتائو کرنا چاہیے جو اصل مالک نے مقرر کیا ہے۔
اسی طرح وہ تمام انسان بھی جو زمین پر بستے ہیں اور جن کی زندگی ایک دوسرے سے وابستہ ہے، اللّٰہ کی رعیت ہیں۔ لہٰذا اِن کو اپنے باہمی تعلقات کے بارے میں خود اُصول اور ضابطے مقرر کر لینے کا حق نہیں ہے۔ ان کے جملہ تعلقات خدا کے بنائے ہوئے قانون پر مبنی ہونے چاہئیں۔
رہی یہ بات کہ وہ خدا کا قانون کیا ہے؟ تو پیغمبر کہتے ہیں کہ جس ذریعۂ علم کی بِنا پر ہم تمھیں دُنیا کی اور خود تمھاری یہ حقیقت بتا رہے ہیں، اسی ذریعۂ علم سے ہمیں خدا کا قانون بھی معلوم ہوا ہے۔ خدا نے خود ہمیں اس بات پر مامور کیا ہے کہ یہ علم تم تک پہنچا دیں۔ لہٰذا تم ہم پر اعتماد کرو۔ ہمیں اپنے بادشاہ کا نمایندہ تسلیم کرو اور ہم سے اس کا مستند قانون لو۔
پھر پیغمبر ہم سے کہتے ہیں کہ یہ جو تم بظاہر دیکھتے ہو کہ سلطنت عالم کا سارا کاروبار ایک نظم کے ساتھ چل رہا ہے مگر نہ خود سلطان نظر آتا ہے نہ اس کے کارپرداز کام کرتے دکھائی دیتے ہیں، اور یہ جو تم ایک طرح کی خود مختاری اپنے اندر محسوس کرتے ہو کہ جس طرح چاہو، کام کرو، مالکانہ رَوِش بھی اختیار کر سکتے ہو اور اصل مالک کے سوا دوسروں کے سامنے بھی اطاعت وبندگی میں سر جھکا سکتے ہو، ہر صورت میں تمھیں رزق ملتا ہے۔ وسائل کار بہم پہنچتے ہیں اور بغاوت کی سزا فورًا نہیں دی جاتی، یہ سب دراصل تمھاری آزمائش کے لیے ہے۔ چوں کہ تمھیں عقل، قوتِ استنباط اور قوتِ انتخاب دی گئی ہے، اس لیے مالک نے اپنے آپ کو اور اپنے نظامِ سلطنت کو تمھاری نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔ وہ تمھیں آزمانا چاہتا ہے کہ تم اپنی قوتوں سے کس طرح کام لیتے ہو۔ اس نے تم کوسمجھ بوجھ، انتخاب کی آزادی (freedom of choice) اور ایک طرح کی خودمختاری (autonomy)عطا کرکے چھوڑا ہے۔ اب اگر تم اپنی رعیت ہونے کی حیثیت کو سمجھو اور برضا ورغبت اس حیثیت کو اختیار کرلو، بغیر اس کے کہ تم پر اس حیثیت میں رہنے کے لیے کوئی جبر ہو، تو اپنے مالک کی آزمائش میں کام یاب ہو گے۔ اور اگر رعیت ہونے کی حیثیت کو نہ سمجھو، یا سمجھنے کے باوجود باغیانہ روش اختیار کرو تو امتحان میں ناکام ہو جائو گے۔ اسی امتحان کی غرض سے تمھیں دُنیا میں کچھ اختیارات دیے گئے ہیں، دُنیا کی بہت سی چیزیں تمھارے قبضۂ قدرت میں دی گئی ہیں، اور تم کو عمر بھر کی مہلت دی گئی ہے۔
اس کے بعد پیغمبر ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ دنیوی زندگی چوں کہ امتحان کی مہلت ہے۔ لہٰذا یہاں نہ حساب نہ جزا سزا۔({ FR 1267 }) یہاں جو کچھ دیا جاتا ہے لازم نہیں کہ وہ کسی عملِ نیک کا انعام ہی ہو۔ وہ اس بات کی علامت نہیں ہے کہ اللّٰہ تم سے خوش ہے یا جو کچھ تم کر رہے ہو وہ درست ہے۔ بلکہ دراصل وہ محض امتحان کا سامان ہے، مال، دولت، اولاد، خدامِ حکومت، اسبابِ زندگی، یہ سب وہ چیزیں ہیں جو تمھیں امتحان کی غرض سے دی جاتی ہیں تاکہ تم ان پر کام کرکے دکھائو اور اپنی اچھی یا بُرا قابلیتوں کا اظہار کرو۔ اسی طرح جو تکلیفیں، نقصانات، مصائب وغیرہ آتے ہیں۔ وہ بھی لازماً کسی عملِ بد کی سزا نہیں ہیں بلکہ ان میں سے بعض قانونِ فطرت کے تحت آپ سے آپ ظاہر ہونے والے نتائج ہیں۔({ FR 1268 }) بعض آزمائش کے ذیل میں آتے ہیں ({ FR 1269 }) اور بعض اس وجہ سے پیش آتے ہیں کہ حقیقت کے خلاف رائے قائم کرکے جب تم ایک رویّہ اختیار کرتے ہو تو لامحالہ تمھیں چوٹ لگتی ہے۔({ FR 1270 })بہرحال یہ دُنیا دارالجزا نہیں ہے بلکہ دارالامتحان ہے۔ یہاں جو کچھ نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ کسی طریقے یا کسی عمل کے صحیح یا غلط، نیک یا بد، قابلِ ترک یا قابلِ اخذ ہونے کا معیار نہیں بن سکتے۔ اصلی معیار آخرت کے نتائج ہیں۔ مہلت کی زندگی ختم ہونے کے بعد ایک دوسری زندگی ہے جس میں تمھارے پورے کارنامے کو جانچ کر فیصلہ کیا جائے گا، کہ تم امتحان میں کام یاب ہوئے یا ناکام۔ اور وہاں جس چیز پر کامیابی وناکامی کا انحصار ہے وہ یہ ہے کہ اوّلًا تم نے اپنی قوتِ نظر واستدلال کے صحیح استعمال سے اللہ تعالیٰ کے حاکم حقیقی ہونے اور اس کی طرف سے آئی ہوئی تعلیم وہدایت کے من جانب اللہ ہونے کو پہچانا یا نہیں اور ثانیاً، اس حقیقت سے واقف ہونے کے بعد آزادیٔ انتخاب رکھنے کے باوجود، تم نے اپنی رضاورغبت سے اللہ کی حاکمیت اور اس کے حکمِ شرعی کے سامنے سرتسلیم خم کیا یا نہیں۔
نظریّۂ اِسلامی کی تنقید
دُنیا اور انسان کے متعلق یہ نظریہ جو پیغمبروں نے پیش کیا ہے، ایک مکمل نظریہ ہے۔ اس کے تمام اجزا میں ایک منطقی ربط ہے، کوئی جز دوسرے جز سے متناقض نہیں ہے۔ اس سے تمام واقعاتِ عالم کی پوری توجیہہ اور آثار کائنات کی پوری تعبیر ملتی ہے۔ کوئی ایک چیز بھی مشاہدے یا تجربے میں ایسی نہیں آتی جس کی توجیہہ اس نظریے سے نہ کی جا سکتی ہو۔ لہٰذا یہ ایک علمی نظریہ (scientific theory) ہے۔ ’’علمی نظریے‘‘ کی جو تعریف بھی کی جائے وہ اس پر صادق آتی ہے۔
پھر کوئی مشاہدہ یا تجربہ آج تک ایسا نہیں ہوا جس سے یہ نظریہ ٹوٹ جاتا ہو۔ لہٰذا یہ اپنی جگہ پر قائم ہے۔ ٹوٹے ہوئے نظریات میں اسے شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ({ FR 1272 })
پھر نظامِ عالم کا جو مشاہدہ ہم کرتے ہیں اس سے یہ نظریہ نہایت اَغلب (most probable) نظر آتا ہے۔ کائنات میں جو زبردست تنظیم پائی جاتی ہے اسے دیکھ کر یہ کہنا زیادہ قرینِ دانش ہے کہ اس کا کوئی ناظم ہے، بہ نسبت اس کے کہ کوئی ناظم نہیں ہے۔ اسی طرح اس تنظیم کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالنا زیادہ معقول ہے کہ یہ مرکزی نظام ہے اور ایک ہی مختار کل اس کا ناظم ہے، بہ نسبت اس کے کہ یہ لامرکزی نظام ہے اور بہت سے ناظموں کے ماتحت چل رہا ہے۔ اسی طرح جو حکمت کی شان اس کائنات کے نظام میں علانیہ محسوس ہوتی ہے اُسے دیکھ کر یہ رائے قائم کرنا زیادہ قریب از عقل ہے کہ یہ حکیمانہ اور بامقصد نظام ہے، بہ نسبت اس کے کہ بے مقصد ہے اور محض بچے کا کھیل ہے۔
پھر جب ہم اس حیثیت سے غور کرتے ہیں کہ اگر واقعی یہ نظامِ کائنات ایک سلطنت ہے اور انسان اس نظام کا ایک جز ہے تو یہ بات ہمیں سراسر معقول معلوم ہوتی ہے کہ اس نظام میں انسان کی خود مختاری وغیر ذمہ داری کے لیے کوئی جگہ نہ ہونی چاہیے۔ اس لحاظ سے یہ ہمیں نہایت معقول (most reasonable) نظریہ معلوم ہوتا ہے۔
پھر جب عملی نقطۂ نظر سے ہم دیکھتے ہیں تو یہ بالکل ایک قابلِ عمل نظریہ ہے۔ زندگی کی ایک پور ی اسکیم اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ اس نظریے پر بنتی ہے۔ فلسفہ اور اَخلاق کے لیے، علوم وفنون کے لیے، صلح وجنگ اور بین الاقوامی تعلقات کے لیے، غرض زندگی کے ہر پہلو اور ہر ضرورت کے لیے یہ ایک مستقل بنیاد فراہم کرتا ہے اور کسی شعبۂ زندگی میں بھی انسان کو اپنا رویّہ متعین کرنے کے لیے اس نظریے سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔
اب ہمیں صرف یہ دیکھنا باقی رہ گیا ہے کہ اس نظریے سے دُنیا کی زندگی میں کس قسم کا رویّہ بنتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہیں؟
انفرادی زندگی میں یہ نظریہ دوسرے جاہلی نظریات کے برعکس ایک نہایت ذمہ دارانہ اور نہایت منضبط رویّہ (discipline) پیدا کرتا ہے۔ اس نظریے پر ایمان لانے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی اپنے جسم اور اس کی طاقتوں اور دُنیا اور اس کی کسی چیز کو بھی اپنی ملک سمجھ کر خودمختارانہ استعمال نہ کرے بلکہ خدا کی ملک سمجھ کر صرف اس کے قانون کی پابندی میں استعمال کرے۔ ہر چیز کو جو اُسے حاصل ہے خدا کی امانت سمجھے اور یہ سمجھتے ہوئے اس میں تصرّف کرے کہ مجھے اس امانت کا پورا حساب دینا ہے، اور حساب بھی اسے دینا ہے جس کی نظر سے میرا کوئی فعل بلکہ کوئی دل میں چھپا ہوا ارادہ تک پوشیدہ نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص ہر حال میں ایک ضابطے کا پابند ہو گا۔ وہ خواہشات کی بندگی میں کبھی شتر بے مہار نہیں بن سکتا۔ وہ ظالم اور خائن نہیں ہو سکتا۔ اس کی سیرت پر کامل اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ وہ ضابطے کی پابندی کے لیے کسی خارجی دبائو کا محتاج نہیں ہوتا۔ اس کے اپنے نفس میں ایک زبردست اَخلاقی انضباط پیدا ہو جاتا ہے جو اسے ان مواقع پر بھی راستی اور حق پر قائم رکھتا ہے جہاں اسے کسی دنیوی طاقت کی باز پُرس کا خطرہ نہیں ہوتا۔ یہ خدا کا خوف اور امانت کا احساس وہ چیز ہے جس سے بڑھ کر سوسائٹی کو قابلِ اعتماد افراد فراہم کرنے کا کوئی دوسرا ذریعہ تصوّر میں نہیں آ سکتا۔
مزید برآں یہ نظریّہ آدمی کو نہ صرف سعی وجہد کا آدمی بناتا ہے، بلکہ اس کی سعی وجہد کوخود غرضی، نفس پرستی، یا قوم پرستی کے بجائے حق پرستی اور بلند تر اَخلاقی مقاصد کی راہ پر لگا دیتا ہے۔ جو شخص اپنے متعلق یہ رائے رکھتا ہو کہ میں دُنیا میں بے کار نہیں آیا ہوں بلکہ خدا نے مجھے کام کرنے کے لیے یہاں بھیجا ہے، اور میری زندگی اپنے لیے یا اپنے دوسرے متعلقین کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کام کے لیے ہے جس میں خدا کی رضا ہو، اور مَیں یوں ہی چھوڑا نہ جائوں گا، بلکہ مجھ سے پورا حساب لیا جائے گا کہ مَیں نے اپنے وقت کا اور اپنی قوتوں کا کتنا اورکس طرح استعمال کیا، ایسے شخص سے زیادہ کوشش کرنے والا اور نتیجہ خیز اور صحیح کوشش کرنے والا آدمی اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یہ نظریہ ایسے بہتر افراد پیدا کرتا ہے کہ ان سے بہتر انفرادی رویّے کا تصوّر کرنا مشکل ہے۔
اب اجتماعی پہلو میں دیکھیے:
سب سے پہلے تو یہ نظریہ انسانی اجتماع کی بنیاد بدل دیتا ہے۔ اس نظریے کی رُو سے تمام انسان خدا کی رعیّت ہیں۔ رعیّت ہونے کی حیثیت سے سب کے حقوق یکساں، سب کی حیثیت یکساں اور سب کے لیے مواقع یکساں، کسی شخص، کسی خاندان، کسی طبقے، کسی قوم، کسی نسل کے لیے دوسرے انسانوں پر نہ کسی قسم کی برتری وفوقیت ہے، نہ امتیازی حقوق، اس طرح انسان پر انسان کی حاکمیت اور فضیلت کی جڑ کٹ جاتی ہے اور وہ تمام خرابیا ںیک لخت دور ہو جاتی ہیں جو بادشاہی، جاگیرداری، نوابی (aristocracy) برہمنیت وپاپائیت اور آمریت سے پیدا ہوتی ہیں۔
پھر یہ چیز قبیلے، قوم، نسل، وطن اور رنگ کے تعصبات کا بھی خاتمہ کر دیتی ہے جن کی بدولت دُنیا میں سب سے زیادہ خون ریزی ہوئی ہے۔ اس نظریے کی رُو سے تمام رُوئے زمین خدا کا مُلک ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد اور خدا کے بندے ہیں، اور فضیلت کی بنیاد نسل ونسب، مال ودولت، یا رنگ کی سپیدی وسرخی پر نہیں بلکہ اَخلاق کی پاکیزگی اور خدا کے خوف پر ہے۔ جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا اور اصلاح وتقوٰی پر عمل کرنے والا ہے وہی سب سے افضل ہے۔
اسی طرح انسان اور انسان کے درمیان اجتماعی ربط وتعلق یا فرق وامتیاز کی بنا پر بھی اس نظریے میں کلیتاً تبدیلی کر دی گئی ہے۔ انسان نے اپنی ایجاد سے جن چیزوں کو اجتماع وافتراق کی بنا ٹھیرایا ہے، وہ انسانیت کو بے شمار حصوں میں تقسیم کرتی ہیں اور ان حصوں کے درمیان ناقابلِ عبور دیواریں کھڑی کر دیتی ہیں۔ کیوں کہ نسل، یا وطن، یا قومیت یا رنگ وہ چیزیں نہیں ہیں جن کوآدمی تبدیل کر سکتا ہوا ور ایک گروہ میں سے دوسرے گروہ میں جا سکتا ہو۔ برعکس اس کے یہ نظریہ انسان اور انسان کے درمیان اجتماع وافتراق کی بنا خدا کی بندگی اور اس کے قانون کی پیروی پر رکھتا ہے۔ جو لوگ مخلوقات کی بندگی چھوڑ کر خدا کی بندگی اختیار کر لیں اور خدا کے قانون کو اپنی زندگی کا واحد قانون تسلیم کر لیں وہ سب ایک جماعت ہیں، اور جو ایسا نہ کریں وہ دوسری جماعت۔ اس طرح تمام اختلافات مٹ کر صرف ایک اختلاف باقی رہ جاتا ہے اور وہ اختلاف بھی قابل عبور ہے۔ کیوں کہ ہر وقت ایک شخص کے لیے ممکن ہے کہ اپنا عقیدہ اور طرز زندگی بدل دے اور ایک جماعت سے دوسری جماعت میں چلا جائے۔ اس طرح ایک دُنیا میں کوئی عالم گیر بین الاقوامی برادری بننا ممکن ہے تو وہ اسی نظریے پر بن سکتی ہے۔ دوسرے تمام نظریات انسانیت کو پھاڑنے والے ہیں، جمع کرنے والے نہیں۔
ان تمام اصلاحات کے بعد جو سوسائٹی اس نظریے پر بنتی ہے اس کی ذہنیت، اسپرٹ، اور اجتماعی تعمیر (social structure) بالکل بدلی ہوئی ہوتی ہے۔ اس میں اسٹیٹ انسان کی حاکمیت پر نہیں بلکہ خدا کی حاکمیت پر بنتا ہے۔({ FR 1274 }) حُکُومت خدا کی ہوتی ہے۔ قانون خدا کا ہوتا ہے۔ انسان صرف خدا کے ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتا ہے۔ یہ چیز اوّل تو اُن ساری خرابیوں کو دُور کر دیتی ہے جو انسان پر انسان کی حُکُومت اور انسان کی قانون سازی سے پیدا ہوتی ہے۔ پھر ایک عظیم الشان فرق جو اس نظریے پر اسٹیٹ بننے سے واقع ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اسٹیٹ کے پورے نظام میں عبادت اور تقوٰی کی اسپرٹ پھیل جاتی ہے۔ راعی اور رعیت دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کی حُکُومت میں ہیں اور ہمارا معاملہ براہِ راست اُس خدا سے ہے جو عالم الغیب والشہادہ ہے۔ ٹیکس دینے والا یہ سمجھ کر ٹیکس دیتا ہے کہ وہ خدا کو ٹیکس دے رہا ہے، اور ٹیکس لینے والے اور اس ٹیکس کو خرچ کرنے والے یہ سمجھتے ہوئے کام کرتے ہیں کہ یہ مال خدا کا مال ہے اور ہم امین کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ایک سپاہی سے لے کر ایک جج اور گورنر تک ہر کارندۂ حُکُومت اپنی ڈیوٹی اُسی ذہنیت کے ساتھ انجام دیتا ہے جس ذہنیت کے ساتھ وہ نماز پڑھتا ہے۔ دونوں کام اس کے لیے یکساں عبادت ہیں اور دونوں میں وہی ایک تقوٰی اور خشیت کی رُوح درکار ہے۔ باشندے اپنے اندر سے جن لوگوں کو خدا کی نیابت کا کام انجام دینے کے لیے چنتے ہیں ان میں سب سے پہلے جو صفت تلاش کی جاتی ہے وہ خوفِ خدا اور امانت وصداقت کی صفت ہے۔ اس طرح سطح پر وہ لوگ ابھر کر آتے ہیں اور اختیارات اُن کے ہاتھوں میں دیے جاتے ہیں جو سوسائٹی میں سب سے بہتر اَخلاق کے حامل ہوتے ہیں۔
تمدن ومعاشرت میں بھی یہ نظریہ تقوٰی اور طہارتِ اَخلاق کی یہی اسپرٹ پھیلا دیتا ہے۔ اس میں نفس پرستی کے بجائے خدا پرستی ہوتی ہے، ہر ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان خدا کا واسطہ حائل ہوتا ہے، اور خدا کا قانون دونو ں کے تعلقات کو منضبط کرتا ہے۔ یہ قانون چوں کہ اُس نے بنایا ہے جو تمام نفسانی خواہشات اورذاتی اغراض سے پاک ہے، اور علیم وحکیم بھی ہے اس لیے اس میں فتنے کا ہر دروازہ اور ظلم کا ہر راستہ بند کیا گیا ہے اور انسانی فطرت کے ہرپہلو اور اس کی ہر ضرورت کی رعایت کی گئی ہے۔
یہاں اتنا موقع نہیں کہ میں اُس پوری اجتماعی عمارت کا نقشہ پیش کروں جو اُس نظریے پر بنتی ہے مگر جو کچھ میں نے بیان کیا ہے اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ پیغمبروں نے جو نظریۂ کائنات وانسان پیش کیا ہے وہ کس قسم کا رویّہ پیدا کرتا ہے اور اس کے نتائج کیا ہیں اور کیا ہو سکتے ہیں۔ پھر یہ بات بھی نہیں کہ یہ محض کاغذ پر ایک خیالی نقشہ ہو بلکہ تاریخ میں اس نظریے پر ایک اجتماعی نظام اور ایک اسٹیٹ بنا کر دکھایا جا چکا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ جیسے افراد اس نظریے پر تیار کیے گئے تھے نہ اس سے بہتر افراد کبھی رُوئے زمین پر پائے گئے اور نہ اس اسٹیٹ سے بڑھ کر کوئی اسٹیٹ انسان کے لیے رحمت ثابت ہوا۔ اس کے افراد میں اپنی اَخلاقی ذمہ داری کا احساس اتنا بڑھ گیا تھا کہ ایک صحرائی عورت کو زنا سے حمل ہو جاتا ہے، وہ جانتی ہے کہ میرے لیے اس جرم کی سزا سنگ ساری جیسی ہولناک سزا ہے، مگر وہ خود چل کر آتی ہے اور درخواست کرتی ہے کہ اس پر سزا نافذ کی جائے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ وضع حمل کے بعد آئیو، اور بغیر کسی مچلکہ وضمانت کے اُسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ وضع حمل کے بعد وہ پھر صحرا سے آتی ہے اور سزا دیے جانے کی درخواست کرتی ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ بچے کو دودھ پلا اور جب دُودھ پلانے کی مدت ختم ہو جائے تب آئیو۔ پھر وہ صحرا کی طرف واپس چلی جاتی ہے اور کوئی پولیس کی نگرانی اس پر نہیں ہوتی۔ رضاعت کی مدت ختم ہونے کے بعد وہ پھر آ کر التجا کرتی ہے کہ اب اسے سزا دے کر اُس گناہ سے پاک کر دیا جائے جو اس سے سرزد ہو چکا ہے۔ چنانچہ اسے سنگسار کیا جاتا ہے اور جب وہ مر جاتی ہے تو اُس کے لیے دعائے رحمت کی جاتی ہے۔ اور جب ایک شخص کی زبان سے اس کے حق میں اتفاقاً یہ کلمہ نکل جاتا ہے کہ کیسی بے حیا عورت تھی تو جواب میں فرمایا جاتا ہے کہ ’’خدا کی قسم! اس نے ایسی توبہ کی تھی کہ اگر ناجائز محصول لینے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو بخش دیا جاتا۔‘‘ یہ تواس سوسائٹی کے افراد کا حال تھا اور اس اسٹیٹ کا حال یہ تھا کہ جس حُکُومت کی آمدنی کروڑوں روپے تک پہنچی ہوئی تھی اور جس کے خزانے ایران وشام ومصر کی دولت سے معمور ہو رہے تھے، اس کا صدر صرف ڈیڑھ سو روپیہ مہینہ تنخواہ لیتا تھا، اور اس کے شہریوں میں ڈھونڈے سے بھی بمشکل کوئی ایسا شخص ملتا تھا جوخیرات لینے کا مستحق ہو۔
اس تجربے کے بعد بھی اگر کسی شخص کو یہ اطمینان حاصل نہ ہو کہ انبیا نے نظامِ کائنات کی حقیقت اور اس میں انسان کی حیثیت کے متعلق جو نظریہ پیش کیا ہے وہ حق ہے تو ایسے شخص کے اطمینان کے لیے کوئی دوسری صورت ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ خدا اور فرشتوں اورآخرت کی زندگی کا براہِ راست عینی مشاہدہ تو اُسے بہرحال حاصل نہیں ہو سکتا۔ جہاں مشاہدہ ممکن نہ ہو وہاں تجربے سے بڑھ کر صحت کا کوئی دوسرا معیار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک طبیب بیمار کے اندرمشاہدہ کرکے یہ نہیں دیکھ سکتا کہ فی الواقع سسٹم میں کیا خرابی پیدا ہو گئی ہے تو مختلف دوائیں دے کر دیکھتا ہے، اور جو دوا اس اندھیری کوٹھڑی میں ٹھیک نشانے پر جا کر بیٹھتی ہے اس کا مرض کو دور کر دینا ہی اس بات پر قطعی دلیل ہوتا ہے کہ سسٹم میں فی الواقع جو خرابی تھی یہ دوا اس کے عین مطابق تھی۔ اسی طرح جب انسانی زندگی کی کل کسی دوسرے نظریے سے درست نہیں ہوتی اور صرف انبیا کے نظریے ہی سے درست ہوتی ہے تو یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ یہ نظریہ حقیقت کے مطابق ہے۔ فی الواقع یہ کائنات اللہ کی سلطنت ہے اور واقعی اس زندگی کے بعد ایک زندگی ہے جس میں انسان کو اپنے کارنامۂ حیاتِ دنیوی کا حساب دینا ہے۔
٭…٭…٭…٭…٭

شیئر کریں