Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلام کا نظریۂ سیاسی
تمام اِسلامی نظریات کی اساس
انبیا علیہم السلا م کا مشن
الٰہ کے معنی
رَبّ کا مفہوم
فتنے کی جڑ
انبیاؑ کا اصل اصلاحی کام
نظریّۂ سیاسی کے اوّلیں اُصُول
اِسلامی اسٹیٹ کی نوعیت
ایک اعتراض
حُدودُ اللّٰہ کا مقصد
اِسلامی اسٹیٹ کا مقصد
ایجابی اسٹیٹ
جماعتی اور اُصولی اسٹیٹ
نظریہ خلافت اور اس کے سیاسی مضمرات
اِسلامی جمہوریت کی حیثیت
انفرادیت اور اجتماعیت کا توازن
اِسلامی اسٹیٹ کی ہیئتِ ترکیبی

اسلام کا نظریۂ سیاسی

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اِسلامی جمہوریت کی حیثیت

یہ ہے اِسلام میں ڈیمو کریسی کی اصل بنیاد۔ عمومی خلافت کے اس تصور کا تجزیہ کرنے سے حسبِ ذیل نتائج نکلتے ہیں:
(۱) ایسی سوسائٹی جس میں ہر شخص خلیفہ ہو اور خلافت میں برابر کا شریک ہو، طبقات کی تقسیم اور پیدائشی یا معاشرتی امتیازات کو اپنے اندر راہ نہیں دے سکتی۔ اس میں تمام افراد مساوی الحیثیت اور مساوی المرتبہ ہوں گے۔فضیلت جو کچھ بھی ہو گی شخصی قابلیت اور سیرت کے اعتبار سے ہو گی یہی بات ہے جسے نبیؐ نے باربار بتصریح بیان فرمایا ہے:
لَیْسَ لِاَحَدٍ فَضْلٌ عَلٰی اَحَدٍ اِلاَّ بِدِیْنٍ وَّتَقْوٰی اَلنَّاسُ کُلُّھُمْ بَنُوْادَمَ وَاٰدَمَ مِنْ تُرَابٍ لَا فَضْلَ لِعَرَبِیِّ عَلٰی عَجَمِیٍّ وَّلَا لِعَجَمِیٍّ عَلٰی عَرَبِیٍّ وَّلَا لِاَبْیَضَ عَلٰی اَسْوَدَ وَلَا لِاَ سْوَدَعَلٰی اَبْیَضَ اِلاَّ بِالتَّقْوٰی۔ (الخطبتہ الوداع)
کسی کو کسی پر فضیلت نہیں ہے اگر ہے تو دین کے علم وعمل اور تقوٰی کے اعتبار سے ہے۔ سب لوگ آدم کی اولاد سے ہیں اور آدم مٹی سے بنے تھے۔ نہ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت ہے نہ عجمی کو عربی پر، نہ گورے کوکالے پر اور نہ کالے کو گورے پر، فضیلت ہے تو تقوٰی کی بنا پر ہے۔
فتحِ مکہ کے بعد جب تمام عرب اِسلامی اسٹیٹ کے دائرے میں آ گیا تو رسول اللّٰہﷺ نے خود اپنے خاندان والوں کو ،جو عرب میں برہمنوں کی سی حیثیت رکھتے تھے، خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
یَامَعْشَرَقُرَیْشٍ اِنَّ اللّٰہَ قَدْاَذْھَبَ عَنْکُمْ نَخْوَۃَ الْجَاھِلِیَّۃِ وَتَعَظُّمَھَا الْاٰبَآئَ اَیُّھَاالنَّاسُ کُلُّکُمْ مِنْ اٰدَمَ اٰدَمَ مِنْ تُرَابٍ۔لَافَخْرَ لِلْاَنْسَابِ۔ لَافَضْلَ لِلْعَرَبِیِّ عَلَی الْعَجَمِیِّ وَلَا لِلْعَجَمِیِّ عَلَی الْعَرَبِیِّ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللّٰہِ اَتْقَاکُمْ۔
قریش والو! اللّٰہ نے تمھاری جاہلیت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر وناز کو دُور کر دیا۔ لوگو! تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے، نسب کا فخر ہیچ ہے۔ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فخر نہیں۔ تم میں بزرگ وُہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے۔
(۲) ایسی سوسائٹی میں کسی فرد یا کسی گروہِ افراد کے لیے اس کے پیدائش یا اس کے معاشرتی مرتبے (Social Status) یا اس کے پیشے کے اعتبار سے اس قسم کی رُکاوٹیں (Dissbilities) نہیںہو سکتیں جو اس کی ذاتی قابلیتوں کے نشوونما اور اس کی شخصیت کے اِرتقا میں کسی طرح بھی مانع ہوں، اسے سوسائٹی کے تمام دوسرے افراد کی طرح ترقی کے یکساں مواقع حاصل ہونے چاہییں۔ اس کے لیے راستہ کھلا ہوا ہونا چاہیے کہ اپنی قوت واِستعداد کے لحاظ سے جہاں تک بڑھ سکتا ہے بڑھتا چلا جائے بغیر اس کے کہ دُوسروں کے اسی طور پر بڑھنے میں مانع ہو، یہ چیز اِسلام میں بدرجۂ اَتم پائی جاتی ہے۔ غلام اور غلام زادے فوجوں کے سپہ سالار اور صوبوں کے گورنر بنائے گئے اور بڑے بڑے اونچے گھرانوں کے شیوخ نے ان کی ماتحتی کی۔ چمار جوتیاں گانٹھتے گانٹھتے اُٹھے اور امامت کی مسند پر بیٹھ گئے۔ جولاہے اور بزاز مفتی اور قاضی اور فقیہ بنے اور آج ان کے نام اِسلام کے بزرگوں کی فہرست میں ہیں۔ حدیث میں اِرشاد ہوا :
اِسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَلَوْاُسْتُعْمِلَ عَلَیْکُمْ عَبْدٌ حَبَشِیٌّ۔
سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تمھارا سردار ایک حبشی ہی کیوں نہ بنا دیا جائے۔
(۳) ایسی سوسائٹی میں کسی شخص یا گروہ (Group) کی ڈکٹیٹر شپ کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ اس لئے کہ یہاں ہر شخص خلیفہ ہے کسی شخص یا گروہ کو حق نہیں ہے کہ عام مسلمانوں سے ان کی خلافت کو سلب کر کے خود حاکمِ مطلق بن جائے۔ یہاں جو شخص حکم ران بنایا جاتا ہے اس کی اصلی حیثیت یہ ہے کہ تمام مسلمان یا اصطلاحی الفاظ میں تمام خلفا اپنی رضامندی سے اپنی خلافت کو انتظامی اغراض کے لیے اس کی ذات میں مرکوز (Concentrate)کر دیتے ہیں۔ وُہ ایک طرف خدا کے سامنے جواب دہ ہے اور دوسری طرف ان عام خلفا کے سامنے جنھوں نے اپنی خلافت اسے تفویض کی ہے۔ اب اگر وُہ غیر ذمہ دار مطاع مطلق یعنی ڈکٹیٹر بنتا ہے تو خلیفہ کے بجائے غاصب کی حیثیت اختیار کرتا ہے کیوں کہ ڈکٹیٹر شپ دراصل عمومی خلافت کی نفی ہے اس میں شک نہیںکہ اِسلامی اسٹیٹ ایک ہمہ گیر اسٹیٹ ہے اور زندگی کے تمام شعبوں پر اس کا دائرہ وسیع ہے مگر اس کلیت اور ہمہ گیری کی بنیادیہ ہے کہ خدا کا وُہ قانون ہمہ گیر ہے جسے اِسلامی حکم ران کو نافذ کرنا ہے۔ خدا نے زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق جو ہدایات دی ہیں وُہ یقینا پوری ہمہ گیری کے ساتھ نافذ کی جائیں گی۔ مگر ان ہدایات سے ہٹ کر اِسلامی حکم ران خود ضابطہ بندی (Regimentation) کی پالیسی اختیار نہیں کر سکتا۔ وُہ لوگوں کو مجبور نہیں کر سکتا کہ فلاں پیشہ کریں اور فلاں پیشہ نہ کریں، فلاں فن سیکھیں اور فلاں نہ سیکھیں، اپنے بچوں کو فلاں قسم کی تعلیم دلوائیں اور فلاں قسم کی نہ دلوائیں ۔اپنے سرپرفلاں قسم کی ٹوپی پہنیں، اپنی زبان کے لیے فلاں رسم الخط، اختیار کریں۔ اپنی عورتوں کو فلاں قسم کا لباس پہنائیں۔ یہ خداوندانہ اختیارات جو روس اور جرمنی اور اٹلی میں ڈکٹیٹروں نے اپنے ہاتھ میں لے لئے اور یا جنھیں اتاترک نے ترکی میں استعمال کیا، اِسلام نے وُہ اختیارات امیر کو عطا نہیں کیے۔ علاوہ بریں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اِسلام میں ہر فرد شخصی طور پر خدا کے سامنے جواب دہ ہے۔ یہ شخصی جواب دہی (Personal Responaibility) ایسی ہے جس میں کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ شریک نہیں۔ لہٰذا اسے قانون کی حدود کے اندر پوری آزادی ہونی چاہیے کہ اپنے لیے جو راستہ چاہے اختیار کرے اور جدھر اس کا میلان ہو اپنی قوتوں کو اسی طرف بڑھنے کے لیے استعمال کرے۔ اگر امیر اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالے گا تو وُہ خود اس ظلم کے لیے اللّٰہ کے ہاں پکڑا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نبیؐ یا آپ کے خلفائے راشدین کی حکومت میں ضابطہ بندی کا نام ونشان تک نہیں ملتا۔
(۴) ایسی سوسائٹی میں ہر عاقل وبالغ مسلمان کو، خواہ وُہ مرد ہو یا عورت، رائے دہی کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ وُہ خلافت کا حامل ہے۔ خدا نے اس خلافت کو کسی خاص معیار لیاقت یا کسی معیار ثروت سے مشروط نہیں کیا ہے، بلکہ صرف ایمان وعمل صالح سے مشروط کیا ہے۔ لہٰذا رائے دہی میں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کے ساتھ مساوی حیثیت رکھتا ہے۔

شیئر کریں