Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟
نظامِ حکومت کا طبعی اِرتقا
اصولی حکومت
خلافتِ الٰہیہ
اسلامی انقلاب کی سبیل
خام خیالیاں
اِسلامی تحریک کا مخصوص طریقِ کار

اسلامی حکومت کس طرح قائم ہوتی ہے؟

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اِسلامی تحریک کا مخصوص طریقِ کار

حضرات! اب میں ایک مختصر تاریخی بیان کے ذریعہ سے آپ کے سامنے اس امر کی تشریح کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی انقلاب کے لیے اجتماعی زندگی کی بنیادیں بدلنے اور از سر نو تیار کرنے کی صورت کیا ہوتی ہے، اور اس جدوجہد کا وہ مخصوص طریق کار (technique) کیا ہے جس سے یہ کام یابی کی منزل تک پہنچتی ہے۔
اسلام دراصل اس تحریک کا نام ہے جو خدائے واحد کی حاکمیت کے نظریہ پر انسانی زندگی کی پوری عمارت تعمیر کرنا چاہتی ہے۔ یہ تحریک قدیم ترین زمانے سے ایک ہی بنیاد اور ایک ہی ڈھنگ پر چلی آرہی ہے۔ اس کے لیڈر وہ لوگ تھے جنھیں کو رُسُل اللّٰہ (اللّٰہ کے فرستادے) کہا جاتا ہے۔ ہمیں اگر تحریک کو چلانا ہے تو لامحالہ انھی لیڈروں کے طرز عمل کی پیروی کرنا ہوگی کیوں کہ اس کے سوا کوئی اور طرز عمل اس خاص نوعیت کی تحریک کے لیے نہ ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔ اس سلسلہ میں جب ہم انبیا علیہم السلام کے نقشِ قدم کا سراغ لگانے کے لیے نکلتے ہیں تو ہمیں ایک بڑی دقت کا سامنا ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں جو انبیا گزرے ہیں ان کے کام کے متعلق کچھ زیادہ معلومات نہیں ملتیں قرآن میں کچھ مختصر اشارات ملتے ہیں۔ مگر ان سے مکمل اسکیم نہیں بن سکتی۔ بائیبل کے عہدنامۂ جدید (new testament) سیدنا مسیح علیہ السلام کے کچھ غیر مستند اقوال ملتے ہیں۔ جن سے کسی حد تک اس پہلو پر کچھ روشنی پڑتی ہے کہ اسلامی تحریک اپنے بالکل ابتدائی مرحلہ میں کس طرح چلائی جاتی ہے اور کن مسائل سے اسے سابقہ پیش آتا ہے۔ لیکن بعد کے مراحل حضرت مسیح ؑکو پیش ہی نہیں آئے کہ ان کے متعلق کوئی اشارہ وہاں سے مل سکے۔ اس معاملہ میں ہمیں صرف ایک ہی جگہ سے صاف اور مکمل راہ نمائی ملتی ہے، اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہے۔ اس طرف ہمارے رجوع کرنے کی وجہ نری عقیدت مندی ہی نہیں ہے بلکہ دراصل اس راہ کے نشیب و فراز معلوم کرنے کے لیے ہم اسی طرف رجوع کرنے پر مجبور ہیں۔ اسلامی تحریک کے تمام لیڈروں میں صرف ایک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ تنہا لیڈر ہیں جن کی زندگی میں ہمیں اس تحریک کی ابتدائی دعوت سے لے کر اسلامی اسٹیٹ کے قیام تک اور پھر قیام کے بعد اس اسٹیٹ کی شکل، دستور، داخلی و خارجی پالیسی اور نظم مملکت کے نہج تک ایک ایک مرحلے اور ایک ایک پہلو کی پوری تفصیلات اور نہایت مستند تفصیلات ملتی ہیں۔ لہٰذا میں اسی ماخذ سے اس تحریک کے طریق کار کا ایک مختصر نقشہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اسلام کی دعوت پر مامور ہوئے تو آپ کو معلوم ہے کہ دنیا میں بہت سے اخلاقی، تمدنی، معاشی، اور سیاسی مسائل حل طلب تھے۔ رومی اور ایرانی امپیریلزم بھی موجود تھا، طبقاتی امتیازات بھی تھے، ناجائز معاشی انتفاع (economic exploitation) بھی ہو رہا تھا۔ اخلاقی ذمائم بھی پھیلے ہوئے تھے۔ خود آپ کے اپنے ملک میں ایسے پیچیدہ مسائل موجود تھے جو ایک لیڈر کے ناخنِ تدبیر کا انتظار کر رہے تھے۔ ساری قوم جہالت، اخلاقی پستی، افلاس، طوائف الملوکی اور خانہ جنگی میں مبتلا تھی۔ بحرین سے یمن تک عرب کے تمام ساحلی علاقے عراق کے زرخیز صوبے سمیت ایرانی تسلط میں تھے۔ شمال میں عین حجاز کی سرحد تک رومی تسلط پہنچ چکا تھا۔ خود حجاز میں یہودی سرمایہ داروں کے بڑے بڑے گڑھ بنے ہوئے تھے اور انھوں نے عربوں کو اپنی سود خواری کے جال میں پھانس رکھا تھا۔ مشرقی ساحل کے عین مقابل افریقہ میں حبش کی عیسائی حکومت موجود تھی جو چند ہی سال پہلے مکہ پر چڑھائی کر چکی تھی۔ اس کے ہم مذہبوں اور اس سے یک گونہ معاشی و سیاسی تعلق رکھنے والوں کا ایک جتھا خود حجاز اور یمن کے درمیان نجران کے مقام پر موجود تھا۔ یہ سب کچھ تھا مگر جس لیڈر کو اللّٰہ نے راہ نمائی کے لیے مقرر کیا تھا اس نے دنیا کے اور خود اپنے ملک کے ان بہت سے مسائل میں سے کسی ایک مسئلہ کی طرف بھی توجہ نہ کی، بلکہ دعوت اس چیز کی طرف دی کہ خدا کے سوا تمام الہٰوں کو چھوڑ دو اور صرف اسی ایک اِلٰہ کی بندگی قبول کرو۔
اس کی وجہ یہ نہ تھی کہ اس راہ نُما کی نگاہ میں دوسرے مسائل کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے یا وہ کسی توجہ کے لائق ہی نہ تھے۔ آپ کو معلوم ہے کہ آگے چل کر اس نے ان سب مسئلوں کی طرف توجہ کی اور سب کو ایک ایک کرکے حل کیا۔ مگر ابتدا میں ہر طرف سے نظر پھیر کر اسی ایک چیز پر تمام زور صرف کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی تحریک کے نقطۂ نظر سے انسان کی اخلاقی و تمدنی زندگی میں جتنی خرابیاں بھی پیدا ہوتی ہیں، ان سب کی بنیادی علت انسان کا اپنے آپ کو خود مختار (independent) اور غیر ذمہ دار (irresponsible) سمجھنا بالفاظ دیگر آپ اپنا الٰہ بننا ہے۔ یا پھر یہ ہے کہ وہ الٰہ العالمین کے سوا کسی دوسرے کو صاحبِ امرتسلیم کرے خواہ دوسرا کوئی انسان ہو یا غیر انسان۔ یہ چیز جب تک جڑ میں موجود ہے اسلامی نظریہ کی رو سے کوئی اوپری اصلاح انفرادی بگاڑ یا اجتماعی خرابیوں کو دور کرنے میں کام یاب نہیں ہوسکتی۔ ایک طرف سے خرابی کو دور کیا جائے گا اور کسی دوسری طرف سے وہ سر نکال لے گی۔ لہٰذا اصلاح کا آغاز اگر ہوسکتا ہے تو صرف اسی چیز سے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو انسان کے دماغ سے خود مختاری کی ہوا کو نکالا جائے اور اسے بتایا جائے کہ تو جس دنیا میں رہتا ہے وہ درحقیقت بے بادشاہ کی سلطنت نہیں ہے، بلکہ فی الحقیقت اس کا ایک بادشاہ موجود ہے اور اس کی بادشاہی نہ تیرے تسلیم کرنے کی محتاج ہے، نہ تیرے مٹائے سے مٹ سکتی ہے اور نہ تو اس کے حدود سلطنت سے نکل کر کہیں جاسکتا ہے۔ اس اَن مٹ اور اٹل واقعہ کی موجودگی میں تیرا خود مختاری کا زعم ایک احمقانہ غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے جس کا نقصان لا محالہ تیرے ہی اوپر عائد ہوگا۔ عقل اور حقیقت پسندی (realism) کا تقاضا یہ ہے کہ سیدھی طرح اس کے آگے سر جھکا دے اور مطیع بندہ بن کر رہ۔ دوسری طرف اسے کو واقعہ کا یہ پہلو بھی دکھا دیا جائے کہ اس پوری کائنات میں صرف ایک ہی بادشاہ، ایک ہی مالک اور ایک ہی مختار ہے۔ کسی دوسرے کو نہ یہاں حکم چلانے کا حق ہے اور نہ واقع میں کسی کا حکم چلتا ہے۔ اس لیے تو اس کے سوا کسی کا بندہ نہ بن، کسی کا حکم نہ مان، کسی کے آگے سر نہ جھکا۔ یہاں کوئی ہزمیجسٹی نہیں ہے، میجسٹی اسی ایک کے لیے مختص ہے‘ یہاں کوئی ہزہائی نس نہیں ہے، ہائی نس ساری کی ساری اسی کے لیے خاص ہے، ہائی نس صرف اسی ایک کو زیبا ہے، یہاں کوئی ہزلارڈشپ نہیں ہے۔ لارڈشپ بالکلیہ اسی ایک کا حصہ ہے، یہاں کوئی قانون ساز نہیں ہے، قانون اسی کا ہے اور وہی قانون بنانے کا حق دار و سزاوار ہے۔ یہاں کوئی سرکار، کوئی ان داتا، کوئی راجا مہاراجا، کوئی ولی یا کارساز کوئی دعائیں سننے والا اور فریاد رس نہیں ہے۔ کسی کے پاس اقتدار کی کنجیاں نہیں ہیں۔ کسی کو برتری و فوقیت حاصل نہیں۔ زمین سے آسمان تک سب بندے ہی بندے ہیں، رب اور مولیٰ صرف ایک ہے۔ لہٰذا تو ہر غلامی، ہر اطاعت، ہر پابندی سے انکار کر دے اور اسی ایک کا غلام، مطیع اور پابندِ حکم بن جا۔ یہ تمام اصلاحات کی جڑ اور بنیاد ہے۔ اسی بنیاد پر انفرادی سیرت اور اجتماعی نظام کی پوری عمارت ادھیڑ کر از سر نو ایک نقشہ پر بنتی ہے، اور سارے مسائل جو انسانی زندگی میں آدم سے لے کر اب تک پیدا ہوئے اور اب سے قیامت تک پیدا ہوں گے، اسی بنیاد پر ایک نئے طریقے سے حل ہوتے ہیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بنیادی اصلاح کی دعوت کو بغیر کسی سابق تیاری اور بغیر کسی تمہیدی کارروائی کے براہ راست پیش کر دیا۔ انھوں نے اس دعوت کی منزل تک پہنچنے کے لیے کوئی ہیر پھیر کا راستہ اختیار نہیں کیا کہ پہلے کچھ سیاسی، اور سوشل طرز کاکام کرکے لوگوں میں اثر پیدا کیا جائے، پھر اس اثر سے کام لے کر رفتہ رفتہ کچھ حاکمانہ اختیارات حاصل کرلیے جائیں، پھر ان اختیارات سے کام لے کر رفتہ رفتہ لوگوں کو چلاتے ہوئے اس مقام تک بڑھا لائیں، یہ سب کچھ، کچھ نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک شخص اٹھا اور اٹھتے ہی اس نے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کا اعلان کر دیا۔ اس سے کم کسی چیز پر اس کی نظر ایک لمحہ کے لیے بھی نہ ٹھہری۔ اس کی وجہ پیغمبرانہ جرأت اور تبلیغی جوش ہی نہیں ہے دراصل اسلامی تحریک کا طریق کار یہی ہے۔ وہ اثر یا وہ نفوذ و اقتدار جو دوسرے ذرائع سے پیدا کیا جائے، اس اصلاح کے کام میں کچھ بھی مددگار نہیں ہوتا۔ جو لوگ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کے سوا کسی اور بنیاد پر آپ کا ساتھ دیتے رہے ہوں وہ اس بنیاد پر تعمیرِ جدید کرنے میں آپ کے کسی کام نہیں آسکتے۔
اس کام میں تو وہی لوگ مفید ہوسکتے ہیں جو آپ کی طرف لآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کی آواز سن کر ہی آئیں، اسی چیز میں ان کے لیے کشش ہو، اسی حقیقت کو وہ زندگی کی بنیاد بنائیں، اور اسی اساس پر وہ کام کرنے کے لیے اٹھیں۔ لہٰذا اسلامی تحریک چلانے کے لیے جس خاص قسم کے تدبر اور حکمتِ عملی کی ضرورت ہے اس کا تقاضا یہی ہے کہ کسی تمہید کے بغیر کام کا آغاز توحید کی دعوت ہی سے کیا جائے۔
توحید کا یہ تصور محض ایک مذہبی عقیدہ نہیں ہے۔ جیسا کہ میں ابھی عرض کر چکا ہوں اس سے اجتماعی زندگی کا وہ پورا نظام جو انسان کی خود مختاری یا غیر اللّٰہ کی حاکمیت و الوہیت کی بنیاد پر بنا ہو، جڑ بنیاد سے اکھڑ جاتا ہے اور ایک دوسری اساس پر ایک نئی عمارت تیار ہوتی ہے۔ آج دنیا آپ کے مؤذنوں کو اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہ اِلاَّ اللّٰہ کی صدا بلند کرتے ہوئے اس لیے ٹھنڈے پیٹوں سن لیتی ہے کہ نہ پکارنے والا جانتا ہے کہ کیا پکار رہا ہوں، نہ سننے والوں کو اس میں کوئی معنی اور کوئی مقصد نظر آتا ہے۔ لیکن اگر یہ معلوم ہو جائے کہ اس اعلان کا مقصد یہ ہے، اور اعلان کرنے والا جان بوجھ کر اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ میرا کوئی بادشاہ یا فرماں روا نہیں ہے، کوئی حکومت میں تسلیم نہیں کرتا، کسی قانون کو نہیں مانتا، کسی عدالت کے حدودِ اختیارات (jurisdiction)مجھ تک نہیں پہنچتے، کسی کا حکم میرے لیے حکم نہیں ہے، کوئی رواج اور کوئی رسم مجھے تسلیم نہیں، کسی کے امتیازی حقوق، کسی کی ریاست، کسی کا تقدس، کسی کے اختیارات میں نہیں مانتا، ایک اللّٰہ کے سوا میں سب سے باغی اور سب سے منحرف ہوں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس صدا کو کہیں بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ آپ خواہ کسی سے لڑنے جائیں یا نہ جائیں، دنیا خود آپ سے لڑنے آجائے گی۔ یہ آواز بلند کرتے ہی آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ یکایک زمین و آسمان آپ کے دشمن ہوگئے ہیں، اور ہر طرف آپ کے لیے سانپ، بچھو اور درندے ہی درندے ہیں۔
یہی صورت اس وقت پیش آئی جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آواز بلند کی۔ پکارنے والے نے جان کر پکار اتھا، اور سننے والے سمجھتے تھے کہ کیا پکار رہا ہے، اس لیے جس جس پر جس پہلو سے بھی اس پکار کی ضرب پڑتی تھی وہ اس آواز کو دبانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا۔ پجاریوں کو اپنی برہمنیت و پاپائیت کا خطرہ اس میں نظر آیا۔ رئیسوں کو اپنی ریاست کا ساہوکاروں کو اپنی ساہوکاری کا، نسل پرستوں کو اپنے نسلی تفوق (racial superiority) کا، قوم پرستوں کو اپنی قومیت کا، اجداد پرستوں کو اپنے باپ دادا کے موروثی طریقہ کا، غرض ہر بت کے پرستار کو اپنے بت کے ٹوٹنے کا خطرہ اسی ایک آواز میں محسوس ہوا۔ اس لیے الکفر ملۃ واحد کے مصداق وہ سب جو آپس میں لڑا کرتے تھے اس نئی تحریک سے لڑنے کے لیے ایک ہوگئے۔ اس حالت میں صرف وہی لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے جن کا ذہن صاف تھا، جو حقیقت کو سمجھنے اور تسلیم کرنے کی استعداد رکھتے تھے، جن کے اندر اتنی صداقت پسندی موجود تھی کہ جب ایک چیز کے متعلق جان لیں کہ حق یہ ہے تو اس کی خاطر آگ میں کودنے اور موت سے کھیلنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ ایسے ہی لوگوں کی اس تحریک کے لیے ضرورت تھی۔ وہ ایک ایک، دو دو، چار چار کرکے آتے رہے اور کش مکش بڑھتی رہی۔ کسی کا روز گار چھوٹا، کسی کو گھر والوں نے نکال دیا، کسی کے عزیز، دوست آشنا سب چھوٹ گئے، کسی کو قید میں ڈالا گیا، کسی کوتپتی ہوئی ریت پر گھسیٹا گیا، کسی کی سربازار پتھروں اور گالیوں سے تواضع کی گئی، کسی کی آنکھ پھوڑ دی گئی، کسی کا سر پھاڑ دیا گیا، کسی کو عورت، مال، حکومت و ریاست اور ہر ممکن چیز کا لالچ دے کر خریدنے کی کوشش کی گئی۔ یہ سب چیزیں آئیں، ان کا آنا ضروری تھا۔ ان کے بغیر اسلامی تحریک نہ مستحکم ہوسکتی تھی اور نہ بڑھ سکتی تھی۔
ان کا پہلا فائدہ یہ تھا کہ گھٹیا قسم کے کچے کیریکٹر اور ضعیف ارادہ رکھنے والے لوگ اس طرف آہی نہ سکتے تھے۔ جو بھی آیا وہ نسل آدم کا بہترین جوہر تھا جس کی دراصل ضرورت تھی۔ کوئی دوسری صورت کام کے آدمیوں کو ناکارہ آدمیوں سے چھانٹ کر الگ نکال لینے کی اس کے سوا نہ تھی کہ جو بھی آئے وہ اس بھٹی میں سے گزر کر آئے۔
پھر جو لوگ آئے انھیں اپنی کسی ذاتی غرض کے لیے یا کسی خاندانی یا قومی مقصد کے لیے مصائب کا مقابلہ نہیں کرنا پڑا بلکہ صرف حق اور صداقت کے لیے خدا اور اس کی رضا کے لیے۔ اسی کے لیے وہ پٹے، اسی کے لیے بھوکے مرے‘ اسی کے لیے دنیا بھر کی جفا کاریوں کا تختۂ مشق بنے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں وہ صحیح اسلامی ذہنیت پیدا ہوتی چلی گئی جس کی ضرورت تھی۔ ان کے اندر خالص اسلامی کیریکٹر پیدا ہوا۔ ان کی خدا پرستی میں خلوص آتا اور بڑھتا چلا گیا۔ مصائب کی اس زبردست تربیت گاہ میںکیفیت اسلامی کا طاری ہونا ایک طبعی امر تھا جب کوئی شخص کسی مقصد کے لیے اٹھتا ہے اور اس کی کش مکش، جدوجہد، مصیبت ، تکلیف، پریشانی، مار، قید، فاقہ، جلاوطنی وغیرہ کے مرحلوں سے گزرتا ہے تو اس ذاتی تجربہ کی بدولت اس مقصد کی تمام کیفیات اس کے قلب و روح پر چھا جاتی ہیں اور اس کی پوری شخصیت اس مقصد میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس چیز کی تکمیل میں مدد دینے کے لیے نماز ان پر فرض کی گئی تاکہ نظر کی پراگندگی کا ہر امکان دُور ہو جائے۔ اپنے نصب العین پر ان کی نگاہ جمی رہے، جسے وہ حاکم مان رہے ہیں اس کی حاکمیت کا بار بار اقرار کرکے اپنے عقیدے میں مضبوط ہو جائیں، جس کے حکم کے مطابق انھیں اب دنیا میں کام کرنا ہے۔ اس کا عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہادَۃ ہونا، اس کا مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْن ہونا، اس کا قاہر فوق عبادہ ہونا پوری طرح ان کے ذہن نشین ہو جائے اور کسی حال میں اس کی اطاعت کے سوا دوسرے کی اطاعت کا خیال تک ان کے دلوں میں نہ آنے پائے۔
ایک طرف آنے والوں کی تربیت اس طرح ہو رہی تھی اور دوسری طرف اس کش مکش کی وجہ سے اسلامی تحریک پھیل بھی رہی تھی۔ جب لوگ دیکھتے تھے کہ چند لوگ پیٹے جارہے ہیں، قید کیے جارہے ہیں، گھروں سے نکالے جارہے ہیں تو خواہ مخواہ ان کے اندر یہ معلوم کرنے کا شوق پیدا ہوتا تھا کہ آخر یہ سارا ہنگامہ ہے کس لیے؟ اور جب انھیں یہ معلوم ہوتا تھا کہ زن، زر، زمین کسی چیز کے لیے بھی نہیں ہے، کوئی ان کی ذاتی غرض نہیں ہے، یہ اللّٰہ کے بندے صرف اس لیے پٹ رہے ہیں کہ ایک چیز کی صداقت ان پر منکشف ہوتی ہے، تو ان کے دلوں میں آپ سے آپ یہ جذبہ پیدا ہوتا تھا کہ اس چیز کو معلوم کریں۔ آخر ایسی کیا چیز ہے جس کے لیے یہ لوگ ایسے ایسے مصائب برداشت کر رہے ہیں؟ پھر جب انھیں معلوم ہوتا تھا کہ وہ چیز ہے لَآ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہ، اور اس سے انسانی زندگی میں اس نوعیت کا انقلاب رونما ہوتا ہے، اور اس دعوت کو لے کر ایسے لوگ اٹھے ہیں جو محض صداقت و حقیقت کی خاطر دنیا کے سارے فائدوں کو ٹھکرا رہے ہیں اور جان، مال، اولاد ہر چیز کو قربان کر رہے ہیں، تو ان کی آنکھیں کھل جاتی تھیں، ان کے دلوں پر جتنے پردے پڑے ہوئے تھے وہ چاک ہونے لگتے تھے۔ اس پس منظر کے ساتھ یہ سچائی تیر کی طرح نشانے پر جاکر بیٹھتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بجز ان لوگوں کے ’’جنھیں ذاتی وجاہت کے تکبر یا اجداد پرستی کی جہالت یا اغراض دنیوی کی محبت نے اندھا بنا رکھا تھا‘‘ اور سب لوگ اس تحریک کی طرف کھنچتے چلے گئے۔ کوئی جلدی کھنچا اور کوئی زیادہ دیر تک اس کشش کی مزاحمت کرتا رہا۔ مگر دیر یا سویر ہر صداقت پسند بے لوث آدمی کو اس کی طرف کھنچنا ہی پڑا۔
اس دوران میں تحریک کے لیڈر نے اپنی شخصی زندگی سے اپنی تحریک کے اصولوں کا اور ہر اس چیز کا جس کے لیے یہ تحریک اٹھی تھی، پورا پورا مظاہرہ کیا۔ ان کی ہر بات، ہر فعل اور ہر حرکت سے اسلام کی حقیقی رُوح ٹپکتی تھی اور آدمی کی سمجھ میں آتا تھا کہ اسلام کسے کہتے ہیں۔ یہ ایک بڑی تفصیل طلب بحث ہے جس کی تشریح کا یہاں موقع نہیں مگر مختصرًا چند نمایاں باتوں کا میں یہاں ذکر کروں گا۔
اُن کی بیوی حضرت خدیجہؓ حجاز کی سب سے زیادہ مال دار عورت تھیں، اور وہ ان کے مال سے تجارت کرتے تھے۔ جب اسلام کی دعوت شروع ہوئی تو آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سارا تجارتی کاروبار بیٹھ گیا۔ کیوں کہ ہمہ تن اپنی دعوت میں مصروف ہو جانے اور تمام عرب کو اپنا دشمن بنا لینے کے بعد یہ کام نہ چل سکتا تھا۔ جو کچھ پچھلا اندوختہ تھا اسے میاں اور بیوی دونوں نے اس تحریک کے پھیلانے پر چند سال میں لٹا دیا۔ آخر کار نوبت یہاں تک آئی کہ جب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تبلیغ کے سلسلہ میں طائف تشریف لے گئے تو وہ شخص جو کبھی حجاز کا مَلِکُ التُّجَّار کہلاتا تھا اس کی سواری کے ایک گدھا تک میسر نہ ہوا۔
قریش کے لوگوں نے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حجاز کی حکومت کا تخت پیش کیا۔ کہا کہ ہم آپ کو بادشاہ بنالیں گے، عرب کی حسین ترین عورت آپ کے نکاح میں دیں گے، دولت کے ڈھیر آپ کے قدموں میں لگا دیں گے۔ بشرطیکہ آپ اس تحریک سے باز آجائیں۔ مگر وہ شخص جو انسان کی فلاح کے لیے اٹھا تھا۔ اس نے ان سب پیش کشوں کو ٹھکرا دیا اور گالیاں اور پتھر کھانے پر راضی ہوگیا۔
قریش کے اور عرب کے سرداروں نے کہا کہ محمدؐ! ہم تمھارے پاس کیسے آکر بیٹھیں اور تمھاری باتیں کیسے سنیں جب کہ تمھاری مجلس میں ہر وقت غلام، مفلس معاذ اللّٰہ کمین لوگ بیٹھے رہتے ہیں۔ ہمارے ہاں جو سب سے نچلے طبقے کے لوگ ہیں انھیں تم نے اپنے گرد و پیش جمع کر رکھا ہے، انھیں ہٹائو تو ہم تم سے ملیں مگر وہ شخص جو انسانوں کی اونچ نیچ برابر کرنے آیا تھا، اس نے رئیسوں کی خاطر غریبوں کو دھتکارنے سے انکار کر دیا۔
اپنی تحریک کے سلسلہ میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ملک اپنی قوم اپنے قبیلے اپنے خاندان، کسی کے مفاد کی کبھی پروا نہیں کی۔ اسی چیز نے دنیا کو یقین دلایا کہ آپؐ انسان بحیثیت انسان کی فلاح کے لیے اٹھے ہیں، اور اسی چیز نے آپ کی دعوت کی طرف ہر قوم کے انسانوں کو کھینچا۔ اگر آپ اپنے خاندانوں کی فکر کرتے تو غیر ہاشمیوں کو اس فکر سے کیا دل چسپی ہوسکتی تھی؟ اگر آپ اس بات کے لیے بے چین ہوتے کہ قریش کے اقتدار کو تو کسی طرح بچالوں، تو غیر قریشی عربوں کو کیا پڑی تھی کہ اس کام میں شریک ہوتے؟ اگر آپؐ عرب کی برتری کے لیے اٹھتے تو حبش کے بلالؓ، روم کے صہیبؓ اور فارس کے سلمانؓ کو کیا پڑی تھی کہ اس کام میں آپ کا ساتھ دیتے؟ دراصل جس چیز نے سب کو کھینچا وہ خالص خدا پرستی تھی، ہر ذاتی، خاندانی قومی، وطنی غرض سے مکمل بے لوثی تھی۔
مکہ سے جب آپ کو ہجرت کرنا پڑی تو وہ تمام امانتیں جو دشمنوں نے آپ کے پاس رکھوائی تھیں، حضرت علیؓ کے سپرد کرکے نکلے کہ میرے بعد ہر ایک کی امانت اسے پہنچا دینا۔ دنیا پرست ایسے موقع پر جو کچھ ہاتھ لگتا ہے، لے کر چل دیتے ہیں۔ مگر خدا پرست نے اپنی جان کے دشمنوں اور اپنے خون کے پیاسوں کا مال بھی انھیں واپس پہنچانے کی کوشش کی، اور اس وقت کی جب کہ وہ اس کے قتل کا فیصلہ کرچکے تھے۔ یہ وہ اخلاق تھا جسے دیکھ کر عرب کے لوگ دنگ رہ گئے ہوں گے، اور مجھے یقین ہے کہ جب وہ دو سال کے بعد میدان بدر میں آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑنے کھڑے ہوئے ہوں گے تو ان کے دل اندر سے کہ رہے ہوں گے کہ یہ تم کس سے لڑ رہے ہو؟ اس فرشتہ خصلت انسان سے جو قتل گاہ سے رخصت ہوتے وقت بھی انسانوں کے حقوق اور امانت کی ذمہ داری کو نہیں بھولتا؟ اس وقت ان کے ہاتھ ضد کی بنا پر لڑتے ہوں گے مگر ان کے دل اندر سے بھنچ رہے ہوں گے۔ عجب نہیں کہ بدر میں کفار کی شکست کے اخلاقی اسباب میں سے یہ بھی ایک سبب ہو۔
تیرہ برس کی شدید جدوجہد کے بعد وہ وقت آیا جب مدینہ میں اسلام کی ایک چھوٹی سی اسٹیٹ قائم کرنے کی نوبت آئی۔ اس وقت ڈھائی تین سو کی تعداد میں ایسے کارکن فراہم ہو چکے تھے جن میں سے ایک ایک اسلام کی پوری تربیت پا کر اس قابل ہو چکا تھا کہ جس حیثیت میں بھی اسے کام کرنے کا موقع ملے، مسلمان کی حیثیت سے انجام دے سکے۔ اب یہ لوگ ایک اسلامی اسٹیٹ کو چلانے کے لیے تیار تھے۔ چنانچہ وہ قائم کر دی گئی۔ دس برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اسٹیٹ کی راہ نُمائی کی اور اس مختصر سی مدت میں ہر شعبہ حکومت کو اسلامی طرز پر چلانے کی پوری مشق ان لوگوں کو کرا دی۔ یہ دور اسلامی آئیڈیالوجی کے ایک مجرد تخیل (abstract idea) سے ترقی کرکے ایک مکمل نظامِ تمدن بننے کا دور ہے جس میں اسلام کی انتظامی، تعلیمی، عدالتی، معاشی، معاشرتی، مالی، جنگی، بین الاقوامی پالیسی کا ایک ایک پہلو واضح ہوا۔ ہر شعبہ زندگی کے لیے اصول بنے، ان اصولوں کو عملی حالات پر منطبق کیا گیا۔ اس خاص طرز پر کام کرنے والے کارکن تعلیم اور تربیت اور عملی تجربہ سے تیار کیے گیے، اور ان لوگوں نے اسلام کی حکم رانی کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ آٹھ سال کی مختصر مدت میں مدینہ جیسے ایک چھوٹے سے قصبہ کی اسٹیٹ پورے عرب کی سلطنت میں تبدیل ہوگئی۔ جوں جوں لوگ اسلام کو اس کی عملی صورت میں اور اس کے نتائج کو محسوس شکل میں دیکھتے تھے، خود بخود اس بات کے قائل ہوتے جاتے تھے کہ فی الحقیقت انسانیت اس کا نام ہے اور انسانی فلاح اسی چیز میں ہے۔ بدترین دشمنوں کو بھی آخر قائل ہو کر اسی مسلک کو قبول کرنا پڑا جس کے خلاف وہ برسوں تک لڑتے رہے۔ خالد بن ولید قائل ہوئے۔ ابوجہل کے بیٹے عکرمہ قائل ہوئے، ابو سفیان قائل ہوئے، قاتلِ حمزہ وحشی قائل ہوئے۔ ہند جگر خوار تک کو آخر کار اس شخص کی صداقت کے آگے سرتسلیم خم کر دینا پڑا جس سے بڑھ کر اس کی نگاہ میں کوئی مبغوض نہ تھا۔
غلطی سے تاریخ نگاروں نے غزوات کو اتنا زیادہ نمایاں کر دیا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ عرب کا یہ انقلاب لڑائیوں سے ہوا۔ حالانکہ پانچ سال کی تمام لڑائیوں میں جن سے عرب جیسی جنگ جُو قوم مسخر ہوئی، طرفین کے جانی نقصانات کی تعداد ہزار بارہ سو سے زیادہ نہیں ہے۔ انقلاب کی تاریخ اگر آپ کے پیش نظر ہے تو آپ کو تسلیم کرنا ہوگا کہ یہ انقلاب غیر خونیں انقلاب (bloodless revolution)کہے جانے کا مستحق ہے۔ پھر اس انقلاب میں فقط ملک کا طریق انتظام ہی تبدیل نہیں ہوا‘ بلکہ ذہنیتیں بدل گئیں۔ نگاہ کاز اویہ بدل گیا۔ سوچنے کا طریقہ بدل گیا، زندگی کا طرز بدل گیا، اخلاق کی دنیا بدل گئی، عادات اور خصائل بدل گئے، غرض ایک پوری قوم کی کایا پلٹ کر رہ گئی۔ جو زانی تھے وہ عورتوں کی عصمت کے محافظ بن گئے جو شرابی تھے وہ منعِ شراب کی تحریک کے علَم بردار بن گئے۔ جو چور اور اُچکے تھے ان کا احساسِ دیانت اتنا نازک ہوگیا کہ دوستوں کے گھر کھانا کھانے میں بھی انھیں اس بنا پر تامل تھا کہ مبادا ناجائز طریقہ پر مال کھانے کا اطلاق اس فعل پر بھی ہو جائے، حتّٰی کہ قرآن میں خود اللہ تعالیٰ کو انھیں اطمینان دلانا پڑا کہ اس طرح کے کھانے میں کوئی مُضایقہ نہیں۔ جو ڈاکو اور لٹیرے تھے وہ اتنے متدین بن گئے کہ ان کے ایک معمولی سپاہی کو پایہ تخت ایران کی فتح کے موقع پر کروڑوں کی قیمت کا تاج شاہی ہاتھ لگا اور وہ رات کی تاریکی میں اپنے پیوند لگے ہوئے کمبل میں اسے چھپا کر سپہ سالار کے حوالے کرنے کے لیے پہنچاتاکہ اس غیر معمولی واقعہ سے اس کی دیانت کی شہرت نہ ہو جائے اور اس کے خلوص پر ریاکاری کا میل نہ آجائے۔ وہ جن کی نگاہ میں انسانی جان کی کوئی قیمت نہ تھی، جو اپنی بیٹیوں کو آپ اپنے ہاتھ سے زندہ دفن کرتے تھے ان کے اندر جان کا اتنا احترام پیدا ہوگیا کہ کسی مرغ کو بھی بے رحمی سے قتل ہوتے نہ دیکھ سکتے تھے۔ وہ جنھیں راست بازی اور انصاف کی ہوا تک نہ لگی تھی ان کے عدل اور راستی کا یہ حال ہوگیا کہ خیبر کی صلح کے بعد جب ان کا تحصیل دار یہودیوں سے سرکاری معاملہ وصول کرنے گیا تو یہودیوں نے اسے بیش قرار رقم اس غرض کے لیے پیش کی کہ وہ سرکاری معاملہ میں کچھ کمی کر دے، مگر اس نے رشوت لینے سے انکار کر دیا اور یہودیوں کے درمیان پیداوار کا آدھا حصہ اس طرح تقسیم کیا کہ دو برابر کے ڈھیر آمنے سامنے لگا دیے، اور یہودیوں کو اختیار دیا کہ دونوں میں سے جس ڈھیر کو چاہیں اٹھالیں۔ اس نرالی قسم کے تحصیل دار کا یہ طرزِ عمل دیکھ کر یہودی انگشت بدنداں رہ گئے اور بے اختیار ان کی زبان سے نکلا کہ اسی عدل پر زمین و آسمان قائم ہیں۔ ان کے اندر وہ گورنر پیدا ہوئے جو گورنمنٹ ہائوسوں میں نہیں بلکہ رعایا کے درمیان انھی جیسے گھروں میں رہتے تھے، بازاروں میں پیدل پھرتے تھے، دروازوں پر دربان تک نہ رکھتے تھے رات دن میں ہر وقت جو چاہتا تھا ان سے انٹرویو کرسکتا تھا۔ ان کے اندر وہ قاضی پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے ایک یہودی کے خلاف خود خلیفہ وقت کا دعوٰی اس بنا پر خارج کر دیا کہ خلیفہ اپنے غلام اور اپنے بیٹے کے سوا کوئی گواہ پیش نہ کرسکا ان کے اندر وہ سپہ سالار پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے دورانِ جنگ میں ایک شہر خالی کرتے وقت پورا جزیہ یہ کہ کر واپس دے دیا کہ ہم اب تمھاری حفاظت سے قاصر ہیں، لہٰذا جو ٹیکس ہم نے حفاظت کے معاوضہ میں وصول کیا تھا اسے رکھنے کا ہمیں کوئی حق نہیں۔ ان میں وہ ایلچی پیدا ہوئے جن میں سے ایک نے سپہ سالارانِ ایران کے بھرے دربار میں اسلام کے اصول مساواتِ انسانی کا ایسا مظاہرہ کیا اور ایران کے طبقاتی امتیازات پر ایسی برمحل تنقید کی کہ خدا جانے کتنے ایرانی سپاہیوں کے دلوں میں اس مذہب انسانیت کی عزت و وقعت کا بیج اس وقت پڑ گیا ہوگا۔ ان میں وہ شہری پیدا ہوئے جن کے اندر اخلاقی ذمہ داری کا احساس اتنا زبردست تھا کہ جن جرائم کی سزا ہاتھ کاٹنے اور پتھر مار مار کر ہلاک کر دینے کی صورت میں دی جاتی تھی، ان کا اقبال خود آکر کرتے تھے اور تقاضا کرتے تھے کہ سزا دے کر انھیں گناہ سے پاک کر دیا جائے تاکہ وہ چور یا زانی کی حیثیت سے خدا کے سامنے پیش نہ ہوں۔ ان میںوہ سپاہی پیدا ہوئے جو تنخواہ لے کر نہیں لڑتے تھے بلکہ اس مسلک کی خاطر جس پروہ ایمان لائے تھے اپنے خرچ سے میدان جنگ میں جاتے اور پھر جو مال غنیمت ہاتھ لگتا وہ سارا کا سارا سپہ سالار کے سامنے لاکر رکھ دیتے تھے۔ کیا اجتماعی اخلاق اور اجتماعی ذہنیت کا اتنا زبردست تغیر محض لڑائیوں کے زور سے ہوسکتا تھا، تاریخ آپ کے سامنے موجود ہے، کہیں آپ کو کوئی ایسی مثال ملتی ہے کہ تلوار نے انسانوں کو اس طرح پر بدل ڈالا۔؟
درحقیقت یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ تیرہ برس کی مدت میں تو کُل ڈھائی تین سو مسلمان پیدا ہوئے مگر بعد کے دس سال میں سارا ملک مسلمان ہوگیا۔ اس معمے کو لوگ حل نہیں کرسکتے، اس لیے عجیب عجیب تو جیہیں کرتے ہیں۔ حالانکہ بات بالکل صاف ہے، جب تک اس نئی آئیڈیالوجی پر زندگی کا نقشہ نہیں بنا تھا لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ نرالی قسم کا لیڈر آخر کیا بنانا چاہتا ہے۔ طرح طرح کے شبہات دلوں میں پیدا ہوتے تھے۔ کوئی کہتا یہ نری شاعرانہ باتیں ہیں، کوئی کہتا کہ یہ شخص مجنون ہوگیا اور کوئی اسے محض ایک خیالی آدمی (visionary) قرار دے کر گویا اپنے نزدیک رائے زنی کا حق ادا کردیتا۔ اس وقت صرف غیر معمولی ذہانت اور سمجھ رکھنے والے لوگ ہی ایمان لائے جن کی نگاہِ حقیقت بِیں اس نئے مسلک میں انسانی فلاح کی صورت صاف دیکھ سکتی تھی۔ مگر جب اس نظامِ فکر پر ایک مکمل نظامِ حیات بن گیا اور لوگوں نے اپنی آنکھوں سے اسے کام کرتے دیکھ لیا اور اس کے نتائج ان کے سامنے عیاناً آگئے، تب ان کی سمجھ میں آیا کہ یہ وہ چیز تھی جسے بنانے کے لیے وہ اللّٰہ کا نیک بندہ دنیا بھر کے ظلم سَہ رہا تھا۔ اس کے بعد ضد اور ہٹ دھرمی کے پائوں جمانے کا کوئی موقع باقی نہ رہا، جس کی پیشانی پر دو آنکھیں تھیں اور ان آنکھوں میں نور تھا۔ اس کے لیے آنکھوں دیکھی حقیقت سے انکار کرنا غیر ممکن تھا۔
حضرات! یہ ہے اس اجتماعی انقلاب کے لانے کا طریقہ جسے اسلام برپا کرنا چاہتا ہے۔ یہی اس کا راستہ ہے، اسی ڈھنگ پر وہ شروع ہوتا ہے اور اسی تدریج سے وہ آگے بڑھتا ہے، لوگ اسے معجزہ کی قسم کا واقعہ سمجھ کر کَہ دیتے ہیں، اب یہ کہاں ہوسکتا ہے نبی ہی آئے تو یہ کام ہو مگر تاریخ کا مطالعہ ہمیں یہ بتاتا ہے کہ یہ بالکل ایک طبعی قسم کا واقعہ ہے۔ اس میں علت اور معلول کا پورا منطقی اور سائنٹیفک ربط ہمیں نظر آتا ہے۔ آج ہم اس ڈھنگ پر کام کریں تو وہی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ البتہ صحیح یہ ہے کہ اس کام کے لیے ایمان، شعورِ اسلامی، ذہن کی یک سُوئی، مضبوط قوتِ فیصلہ، شخصی جذبات اور ذاتی امنگوں کی سخت قربانی درکار ہے۔ اس کے لیے جواں ہمت لوگوں کی ضرورت ہے جو حق پر ایمان لانے کے بعد اس پر پوری طرح نظر جما دیں، کسی دوسری چیز کی طرف توجہ نہ کریں۔ دنیا میں خواہ کچھ ہوا کرے وہ اپنے نصب العین کے راستے سے ایک انچ نہ ہٹیں، دنیوی زندگی میں اپنی ذاتی ترقی کے سارے امکانات کو قربان کر دیں، اپنی امیدوں کا اور اپنے والدین کی تمنائوں کا خون کرتے ہوئے نہ جھجکیں، عزیزوں اور دوستوں کے چھوٹ جانے کا غم نہ کریں۔ سوسائٹی اور حکومت، قانون، قوم، وطن جو چیز بھی ان کے نصب العین کی راہ میں حائل ہو اس سے لڑ جائیں۔ ایسے ہی لوگوں نے پہلے بھی اللّٰہ کا کلمہ بلند کیا تھا ایسے ہی لوگ آج بھی کریں گے اور یہ کام ایسے ہی لوگوں کے کیے سے ہوسکتا ہے۔
اب مجھے صرف چند کلمے اور عرض کرنا ہیں جن کے بعد میںاس سمع خراشی کو ختم کروں گا۔ تقدیر الٰہی نے آپ کے اس علی گڑھ کو ہندوستانی مسلمانوں کا مرکز اعصاب (nerve centre) بنا دیا ہے۔ میں اس امر واقعی کا پورا ادراک رکھتا ہوں اسی وجہ سے میں نے آج سے چار پانچ سال پہلے علی گڑھ کو مخاطب کرکے اس نئے نظام تعلیم کا ایک نقشہ پیش کیا تھا جس کی میرے نزدیک اسلام کی نَشاطِ جدیدہ کے لیے ضرورت ہے اور آج پھر اسی ادراک کی بنا پر میں علی گڑھ ہی کو مخاطب کرکے اس تحریک کا نقشہ پیش کر رہا ہوں جو اسلامی طرز کا اجتماعی انقلاب برپا کرنے کے لیے ایک ہی ممکن تحریک ہے۔ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا۔ جو کچھ پہنچانا تھا اور جس مناسب جگہ پہنچانا تھا۔ میں پہنچا چکا ہوں۔ اب اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے کہ میں آپ کے دل بھی بدل دوں۔
٭……٭……٭

شیئر کریں