خلافتِ عمومی کے تصور کا جو تجزیہ میں نے کیا ہے اُسے نظر میں رکھنے کے بعد آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اِسلامی اسٹیٹ میں امام یا امیر یا صدر حکومت کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں کہ عام مسلمانوں کو جو خلافت حاصل ہے۔ اس کے اختیارات وُہ اپنے میں سے ایک بہترین شخص کا انتخاب کر کے امانت کے طور پر اس کے سپرد کر دیتے ہیں۔ اس کے لیے ’’خلیفہ‘‘ کا لفظ جو استعمال کیا جاتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ بس وہی اکیلا خلیفہ ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عام مسلمانوں کی خلافت اس کی ذات میں مرتکز (Concentrate) ہو گئی ہے۔
اب مَیں مختصر طور پر اس طرزِ حکومت کی چند خاص خاص تفصیلات بیان کروں گا تاکہ ایک واضح خاکہ آپ کے سامنے آ جائے۔
(۱) امیر کا انتخاب… اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىكُمْ۰ۭ الحجرات 49:13 کے اُصول پر ہو گا یعنی عام مسلمان جس کے کیرکٹر پر پوری طرح اعتماد رکھتے ہوں وہی اس منصب کے لیے چنا جائے گا(یعنی کسی شخص کو خلیفہ منتخب کرنے کے لیے صرف یہی بات نہ دیکھی جائے گی کہ اس کی علمی وذہنی قابلیت اور تدبیر وتنظیم کی صلاحیت کیسی ہے بلکہ سب سے زیادہ جس چیز کا لحاظ کیا جائے گا۔ وہ یہ ہے کہ اس کے تقوٰی پر اعتماد کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟)اور جب وُہ چن لیا جائے گا ،اس پر پورا بھروسا کیا جائے گا۔ جب تک وُہ خدا اور رسول ؐکے قانون کی پیروی کرے گا اس کی کامل اطاعت کی جائے گی۔
(۲) امیر تنقید سے بالاترنہ ہو گا…ہر عامی مسلمان اس کے پبلک کاموں ہی پر نہیں بلکہ پرائیویٹ زندگی پر بھی نکتہ چینی کرنے کا مجاز ہو گا، وُہ قابل عزل ہو گا۔ قانون کی نگاہ میں اس کی حیثیت عام شہریوں کے برابر ہو گی۔ اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا جا سکے گا اور وُہ عدالت میں کسی امتیازی برتائو کا مستحق نہ ہو گا۔
(۳) امیر کو مشورہ کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔ مجلسِ شورٰی ایسی ہو گی جسے عام مسلمانوں کا اعتماد حاصل ہو۔ اس امر میں بھی کوئی امر شرعی مانع نہیں ہے کہ اس مجلس کو مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب کیا جائے۔
(۴) عموماً مجلس کے فیصلے کثرتِ رائے سے ہوں گے۔ مگر اِسلام تعداد کی کثرت کو حق کا معیار تسلیم نہیں کرتا ۔
قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيْثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ اَعْجَبَكَ كَثْرَۃُ الْخَبِيْثِ۰ۚ المائدہ 100:5
اِسلام کے نزدیک یہ ممکن ہے کہ ایک اکیلے شخص کی رائے پوری مجلس کی رائے کے مقابلہ میں برحق ہو، اور اگر ایسا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ حق کو اس لیے چھوڑ دیا جائے کہ اس کی تائید میں ایک جمِ غفیر نہیں ہے۔ لہٰذا امیر کو حق ہے کہ اکثریت کے ساتھ اتفاق کرے یا اقلیت کے ساتھ اور امیر کو یہ بھی حق( نظریہ سیاسی کے اس مقام پر اور اسی طرح سے ’’اِسلام کا نظام حیات‘‘ میں امیر کے حق استرداد (Veto) کا ذکر جس مجمل طریقے پر آیا ہے اس سے غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے۔ مصنف نے اپنی دوسری کتاب ’’اِسلامی ریاست‘‘ (ص ۲۰۸ تا ص ۲۱۱) میں اس مسئلے کی پوری تشریح کر دی ہے۔ یہاں اس کا اقتباس درج کیا جاتا ہے تا کہ ویٹو کے متعلق اِسلامی نقطۂ نظر واضح ہو جائے۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِسلام میں مقننہ( اہل الحل والعقد) کی صحیح حیثیت کیا ہے؟ کیا وُہ محض صدر ریاست کی مشیر ہے جس کے مشوروں کو رد یا قبول کرنے کا صدر ریاست کو اختیار ہے؟ یا صدر ریاست اس کی اکثریت یا اس کے اجماع کے فیصلوں کا پابند ہے؟ اس باب میں قرآن جو کچھ کہتا ہے وُہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات باہمی مشورے سے انجام پانے چاہییں (وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ) اور نبی اکو بحیثیت صدر ریاست کے خطاب کرتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ حکم دیتا ہے:
وَشَاوِرْھُمْ فِي الْاَمْرِ۰ۚ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۰ۭ آل عمران3:159
اور ان سے معاملات میں مشورہ کرو، پھر مشورے کے بعد جب تم عزم کر لو تو اللّٰہ کے بھروسے پر عمل کرو۔
یہ دونوں آیتیں مشورے کو لازم کرتی ہیں اور صدرِ ریاست کو ہدایت کرتی ہیں کہ جب وُہ مشورے کے بعد کسی فیصلے پر پہنچ جائے تو اللّٰہ کے بھروسے پراسے نافذ کر دے۔
لیکن یہ اُس سوال کا کوئی واضح جواب نہیں دیتیں جو ہمارے سامنے پیش ہے۔ حدیث میں بھی اس کے متعلق کوئی قطعی حکم مجھے نہیں ملا ہے، البتہ خلافتِ راشدہ کے تعامل سے علمائے اِسلام نے بالعموم یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نظمِ ریاست کا اصل ذمہ دار صدرِ ریاست ہے اور اہل الحل و العقد سے مشورہ کرنے کا پابند ضرور ہے مگر اس بات کا پابند نہیں ہے کہ ان کی اکثریت یا ان کی متفقہ رائے ہی پر عمل کرے۔ دُوسرے الفاظ میں اُسے ’’ویٹو‘‘ کے اختیارات حاصل ہیں۔
لیکن یہ رائے اس مجمل صورت میںبڑی غلط فہمیوں کی موجب ہے کیوں کہ اسے لوگ موجودہ ماحول میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور وُہ ماحول ان کے سامنے نہیں ہوتا جس کے تعامل سے یہ رائے اخذ کی گئی ہے۔ خلافتِ راشدہ کے ماحول میں جن لوگوں کو اہل الحل والعقد قرار دیا گیا تھا وُہ جدا جدا پارٹیوں کی شکل میں منظم نہ تھے۔ (باقی حاشیہ اگلے صفحے پر)ہے کہ پوری مجلس سے اختلاف کر کے اپنی رائے پر فیصلہ کرے مگر ہر صورت میں عامہ مسلمین اس بات پر نظر رکھیں گے کہ امیر اپنے ان وسیع اختیارات کو تقوٰی اور خوفِ خدا کے ساتھ استعمال کرتا ہے یا نفسانیت کے ساتھ۔ بصورتِ دیگر رائے عام اس امیر کو مسند امارت سے نیچے بھی اُتار لا سکتی ہے۔
(۵) امارت، یا مجلسِ شورٰی کی رُکنیت یا کسی ذمہ داری کے منصب کے لیے کوئی ایسا شخص منتخب نہ کیا جائے گا جو خود اس کا امیدوار ہو، یا کسی طور پر اس کے لیے کوشش کرے۔ اِسلام میں امیدواری (Candidature) اور انتخابی پروپیگنڈا کے لیے قطعًا کوئی گنجائش نہیں۔ یہ نبیؐ کی صاف ہدایت ہے کہ امیدوار کو کوئی منصب نہ دیا جائے۔ اِسلامی ذہنیت اس بات کے خیال تک سے نفرت کرتی ہے کہ ایک منصب کے لیے دو تین چار امیدوار کھڑے ہوں۔ ایک دوسرے کے خلاف اشتہاربازی، جلسہ بازی اور اخباری پروپیگنڈا کریں، ووٹروں کو طرح طرح سے بے وقوف بنائیں، کھانوں کی دیگیں چڑھائی جائیں، موٹریں دوڑائیں اور ان میں سے وُہ امیدوار بازی لے جائے جو جھوٹ، فریب اور زَرپاشی میں سب سے بڑھا ہوا ہو۔ یہ شیطانی ڈیموکریسی کے ملعون طریقے ہیں جن کا عُشرِ عشیر بھی اِسلامی حکومت میں برسرِ کار آئے تو خلافت کی مجلسِ شُورٰی میں منتخب ہو کر جانا تو درکنار، ایسے لوگوں کو قاضی کی عدالت میں پیش کرکے سزا دلوا دی جائے۔
(۶) اِسلامی مجلس شورٰی میں پارٹی بندی نہیں ہو سکتی، فرد فرد علیحدہ ہو گا اور حق کے مطابق رائے دے گا۔ اِسلام میں اس کا کوئی موقع نہیں کہ آپ ہر حال میں اپنی پارٹی کا ساتھ دیں خواہ وُہ حق پر ہو یا باطل پر۔ بلکہ اِسلامی اسپرٹ کا یہ تقاضا ہے کہ آج کسی کی رائے کو آپ حق پر پائیں تو اس کا ساتھ دیں، اور کل کسی دوسرے مسئلے میں اگر اسی شخص کی رائے آپ کے نزدیک خلاف حق ہو تو اس سے اختلاف کر دیں۔
(۷) اِسلام میں عدالت کے شعبہ کو انتظامی شعبہ کے اثر سے کلیۃً آزاد رکھا گیاہے قاضی کا کام خدا کے قانون کو اس کے بندوں پر نافذ کرنا ہے۔ وہ عدالت کی کرسی پر امیر یا خلیفہ کے نائب کی حیثیت سے نہیں بلکہ اللّٰہ عزوجل کے نائب کی حیثیت سے بیٹھتا ہے لہٰذا عدالت میں اس کے سامنے خود خلیفہ کی بھی کوئی وقعت نہیں۔ کسی کو اپنی شخصیت یا اپنے خاندان یا اپنے عہدے کی وجہ سے یہ حق حاصل نہیں کہ قاضی کے سامنے حاضر ہونے سے مستثنیٰ قرار دیا جائے ۔ایک ادنیٰ مزدُور، ایک غریب کاشت کار ،ایک فقیر بے نوا بھی اس کا حق رکھتا ہے کہ بڑے سے بڑے شخص، حتّٰی کہ خود خلیفہ کے خلاف قاضی کی عدالت میں دعوٰی دائر کر دے اور قاضی کو پورے اختیارات حاصل ہیں کہ اگر مدعی کا حق ثابت ہو جائے تو خدا کا قانون خلیفہ پر بھی ٹھیک اسی طرح نافذ کر دے جس طرح ایک عامی مسلمان پر کرتا ہے۔ اسی طرح اگر خود خلیفہ کو اپنی ذاتی حیثیت میں کسی کے خلاف شکایت ہو تو وُہ اپنے حاکمانہ اختیارات استعمال کر کے خود اس شکایت کو رفع کر لینے کا حق نہیں رکھتا بلکہ ازروئے آئین وُہ مجبور ہے کہ ایک عام شہری کی طرح عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے۔
اس مختصر خطبہ میں میرے لیے یہ موقع نہیں ہے کہ اِسلامی اسٹیٹ کی تفصیلی صورت آپ کے سامنے پیش کر سکوں۔ اس کی اسپرٹ اور اس کے طرزِ کارروائی کو پوری طرح سمجھنے کے لیے نبیؐ اور خلفائے راشدین کے دَورِ حکومت کی نظیریں پیش کرنا ضروری ہے اور اس کی گنجائش یہاں نہیں ہے۔ تا ہم مجھے توقع ہے کہ جو کچھ مَیں نے بیان کیا ہے۔ وُہ اِسلامی طرزِ حکومت کا ایک واضح تصوُّر پیش کرنے کے لیے کافی ہے۔((باقی حاشیہ )وُہ ان پارلیمنٹری ضابطوں سے بھی کسے ہوئے نہ تھے جن سے موجودہ زمانے کی مجالس قانون ساز کَسی ہوئی ہوتی ہیں۔ وُہ مجلسِ شُورٰی میں پہلے سے الگ الگ اپنی کچھ پالیسیاں وضع کرکے، پروگرام بنا کر اور پارٹی میٹنگز میں فیصلے کرکے بھی نہیں آتے تھے۔ اُنھیں جب مشورے کے لیے بلایا جاتا تو وُہ کھلے دل کے ساتھ آ کر بیٹھتے خلیفہ خود ان کی مجلس میں موجود ہوتا، مسئلہ پیش کیا جاتا، مخالف اور موافق ہر پہلو پر آزادانہ بحث ہوتی، پھر دونوں طرف کے دلائل کا موازنہ کرکے خلیفہ اپنے دلائل کے ساتھ اپنی رائے بیان کرتا۔ یہ رائے بالعموم ایسی ہوتی تھی کہ پوری مجلس اسے تسلیم کر لیتی تھی۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ چند لوگ اس سے متفق نہ ہوتے تھے۔ مگر اسے بالکل غلط اور ناقابلِ تسلیم نہیں بلکہ صرف مرجوع سمجھتے تھے اور فیصلہ ہو جانے کے بعد کم از کم عمل کے لیے اُسی کو مان لیتے تھے۔ پوری خلافتِ راشدہ کی تاریخ میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ اہل الحل و العقد کی مجلس میں ایسی تفریق رونما ہوئی ہو کہ رائے شماری کی نوبت آئے اور پوری خلافتِ راشدہ کی تاریخ میں صرف دو مثالیں اس امر کی ملتی ہیں کہ خلیفہ وقت نے اہل الحل والعقد کی قریب قریب متفقہ رائے کے خلاف کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک جیشِ اُسامہ کا معاملہ، دوسرے مرتدین کے خلاف جہاد کا معاملہ۔ لیکن ان دونوں معاملات میں صحابہؓ نے جس بِنا پر خلیفہ کے فیصلے کو مانا وُہ یہ نہیں تھی کہ دستورِ اِسلامی نے خلیفہ کو ویٹو کے اختیارات دے رکھے ہیں اور دستوری طور پر وُہ بادلِ نخواستہ اس کا فیصلہ ماننے کے لیے مجبور ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ صحابۂ کرامؓ کو حضرت ابوبکرؓ کے فہم و فراست اور دینی بصیرت پر پورا اعتماد تھا۔ انھوں نے جب دیکھا کہ ابوبکرؓ اس رائے کی صحت پر اتنا یقین رکھتے ہیں اور دینی مصالح کے لیے اسے اتنی زیادہ اہمیت دے رہے ہیں، تو انھوں نے کھلے دل سے ان کی رائے کے مقابلے میں اپنی رائے واپس لے لی بلکہ بعد میں ان کی اصابتِ رائے کو کھلم کھلا سراہا اور اعتراف کیا کہ اگر ان مواقع پر ابوبکرؓ استقامت نہ دکھاتے تو اِسلام ہی کا خاتمہ ہو گیا ہوتا۔ چنانچہ مرتدین کے معاملے میں حضرت عمرؓ نے جو سب سے بڑھ کر حضرت ابوبکرؓ کی رائے سے اختلاف کر چکے تھے، علی الاعلان کہا کہ اللّٰہ نے ابوبکرؓ کا سینہ اس کام کے لیے کھول دیا اور مجھے معلوم ہو گیا کہ حق وہی ہے جس کا فیصلہ انھوں نے کیا ہے۔
اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اِسلام میں ویٹو کا یہ تصور دراصل کس ماحول کی نظیروں سے پیدا ہوا ہے۔ اگر شورٰی کا طرز اور اس کی روح اور اہلِ شورٰی کی ذہنیت اور سیرت وہی ہو جو خلافتِ راشدہ کے اس نمونے میں ہم دیکھتے ہیں، تو پھر اس سے بہتر کوئی طریقِ کار نہیں ہے جو وہاں اختیار کیا گیا۔ اس طریقِ کار کو اگر ہم اس کے آخری منطقی نتائج تک لے جائیں تو زیادہ سے زیادہ یہ کَہ سکتے ہیں کہ اس طرز کی مجلسِ شورٰی میں اگر صدرِ ریاست اور ارکانِ مجلس اپنی اپنی رائے پر اَڑ جائیں اور ان میں سے کوئی دوسرے کے مقابلے میں اپنی رائے واپس نہ لے تو استصوابِ عام (Referendum)کرا لیا جائے، پھر جس کی رائے کو بھی رائے عام رَدکر دے وُہ مستعفی ہو جائے لیکن جب تک ہمارے لیے اپنے ملک میں اُس روح اور اس ذہنیت اور اس طرز کی مجلس شورٰی بنانا ممکن نہیں ہے، اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم انتظامیہ کو مقنّنہ کی اکثریت کے فیصلوں کا پابند کر دیں۔ )
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن۔
٭…٭…٭