ایک شخص بیک نظر ان خصوصیات کو دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ اِسلامی ریاست مغربی طرز کی لادینی جمہوریّت (Secular Democracy) نہیں ہے، اس لیے کہ جمہوریت تو فلسفیانہ نقطۂ نظر سے نام ہی اُس طرزِ حکومت کا ہے جس میں ملک کے عام باشندوں کو حاکمیت اعلیٰ حاصل ہو۔ انھی کی رائے سے قوانین بنیں اور انھی کی رائے سے قوانین میں تغیّر و تبدّل ہو۔ جس قانون کو وُہ چاہیں نافذ ہو اور جسے وُہ نہ چاہیں وُہ کتابِ آئین میں سے محو کر دیا جائے۔ یہ بات اِسلام میں نہیں ہے یہاں ایک بالاتر بنیادی قانون خود اللّٰہ تعالیٰ اپنے رسول کے ذریعہ سے دیتا ہے جس کی اطاعت ریاست اور قوم کو کرنا پڑتی ہے۔ لہٰذا اس معنی میں اسے جمہوریت نہیں کہا جا سکتا۔ اس کے لیے زیادہ صحیح نام ’’الٰہی حکومت‘‘ ہے۔ جسے انگریزی میں (Theocracy) کہتے ہیں۔ مگر یورپ جس تھیاکریسی سے واقف ہے اِسلامی تھیاکریسی اس سے بالکل مختلف ہے۔ یورپ اس تھیاکریسی سے واقف ہے جس میں ایک مخصوص مذہبی طبقہ خدا کے نام سے خود اپنے بنائے ہوئے قوانین نافذ کرتا( عیسائی پاپائوں اور پادریوں کے پاس مسیح علیہ السلام کی چند اخلاقی تعلیمات کے سوا کوئی شریعت سرے سے تھی ہی نہیں۔ لہٰذا وہ اپنی مرضی سے اپنی خواہشاتِ نفس کے مطابق قوانین بناتے تھے اور یہ کَہ کر انھیں نافذ کرتے تھے کہ یہ خدا کی طرف سے ہیں۔ فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَيْدِيْہِمْ۰ۤ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ ھٰذَا مِنْ عِنْدِ اللہِ البقرہ2:79)ہے اور عملاً اپنی خدائی عام باشندوں پر مسلّط کر دیتا ہے۔ ایسی حکومت کو تو الٰہی حکومت کے بجائے شیطانی حکومت کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ بخلاف اس کے اِسلام جس تھیاکریسی کو پیش کرتا ہے وُہ کسی مخصوص مذہبی طبقہ کے ہاتھ میں نہیں ہوتی بلکہ عام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور یہ عام مسلمان اُسے خدا کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کے مطابق چلاتے ہیں۔ اگر مجھے ایک نئی اصطلاح وضع کرنے کی اجازت دی جائے تو مَیں اس طرزِ حکومت کو (Theo-Democracy) یعنی ’’الٰہی جمہوری حکومت‘‘ کے نام سے موسوم کروں گا کیوں کہ اس میں خدا کے اقتدار اعلیٰ (Paramountcy) کے تحت مسلمانوں کو ایک محدود عمومی حاکمیت (Limited Popular Sovereignty) عطا کی گئی ہے۔ اس میں عاملہ (Executive) اور مقننہ مسلمانوں کی رائے سے بنے گی۔ مسلمان ہی اسے معزول کرنے کے مختار ہوں گے۔ سارے انتظامی معاملات اور تمام وُہ مسائل جن کے متعلق خدا کی شریعت میں کوئی صریح حکم موجود نہیں ہے، مسلمانوں کے اجماع ہی سے طے ہوں گے اور الٰہی قانون جہاں تعبیر طلب ہو گا وہاں کوئی مخصوص طبقہ یا نسل نہیں بلکہ عام مسلمانوں میں سے ہر وُہ شخص اس کی تعبیر کا مستحق ہو گا جس نے اجتہاد کی قابلیت بہم پہنچائی ہو۔ اس لحاظ سے یہ ڈیمو کریسی ہے۔ مگر جیسا کہ اُوپر عرض کیا جا چکا ہے، جہاں خدا اور اس کے رسول کا حکم موجود ہو وہاں مسلمانوں کے کسی امیر کو، کسی لیجسلیچر کو، کسی مجتہد اور عالمِ دین کو بلکہ ساری دُنیا کے مسلمانوں کو مل کر بھی اس حکم میں یک سرِ مُوترمیم کرنے کا حق حاصل نہیں ہے اس لحاظ سے یہ تھیاکریسی ہے۔