اس نظام تربیت پر غور کرنے سے جو بات سب سے پہلے نظر میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام اس طریقہ سے انسان کے شعور میں اللہ کی حاکمیت کے اقرار و اعتراف کو مستحکم کرنا چاہتا ہے، اور اس شعور کو اتنا طاقت ور بنا دینا چاہتا ہے کہ انسان اپنی آزادی اور خود مختاری کو اللہ کے آگے بالفعل تسلیم (surrender)کر دے۔ یہ اعتراف و تسلیم ہی اسلام کی جان ہے۔ اور اسی پر آدمی کے مسلم ہونے یا نہ ہونے کا مدار ہے۔ دین اسلام کا مطالبہ انسان سے صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ بس وہ خداوند عالم کے وجود کو مان لے، یا محض ایک مابعد الطبیعی نظریہ کی حیثیت سے اس بات کا اعتراف کرلے کہ اس کائنات کے نظام کو بنانے اور چلانے والا صرف اللہ واحد قہار ہے بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی اس امر واقعی کو ماننے کے ساتھ ہی اس کے منطقی اور فطری نتیجہ کو بھی قبول کرے۔ یعنی جب وہ یہ مانتا ہے کہ اس کا اور تمام دنیا کا خالق، پروردگار، قیام بخش اور مدبر امر صرف اللہ تعالیٰ ہے اور جب وہ تسلیم کرتا ہے کہ نہ تخلیق میں کوئی اللہ کا شریک ہے، نہ پرورش میں، نہ قیام بخشی میں اور نہ تدبیر امر میں، تو اس تسلیم و اعتراف کے ساتھ ہی اسے اللہ کی حاکمیت و فرماں روائی کے آگے سپر ڈال دینی چاہیے، اپنی آزادی و خود مختاری کے غلط ادعا سے خیال اور عمل دونوں میں دست بردار ہو جانا چاہیے، اور اللہ کے مقابلہ میں وہی رویہ اختیار کرلینا چاہیے جو ایک بندے کا اپنے مالک کے مقابلہ میں ہونا لازم ہے۔ یہی چیز دراصل کفر اور اسلام کے درمیان فارق ہے۔ کفر کی حالت اس کے سوا کچھ نہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اللہ کے مقابلہ میں خود مختار اور غیر جواب دہ سمجھے اور یہی سمجھ کر اپنے لیے زندگی کا راستہ اختیار کرے اور اسلام کی حالت اس کے سوا کسی اور چیز کا نام نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اللہ کا بندہ اور اس کے سامنے جواب دہ سمجھے اور اسی احساس بندگی و ذمہ داری کے ساتھ دنیا میں زندگی بسر کرے۔ پس حالت کفر سے نکل کر حالت اسلام میں آنے کے لیے جس طرح اللہ کی حاکمیت کا سچا اور قلبی اقرار ضروری ہے اسی طرح اسلام میں رہنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آدمی کے دل میں بندگی کا احساس و شعور ہر دم تازہ، ہر وقت زندہ اور ہر آن کار فرما رہے۔ کیوں کہ اس احساس شعور کے دل سے دور ہوتے ہی خود مختاری و غیر ذمہ داری کا رویہ عود کر آتا ہے، اور کفر کی وہ حالت پیدا ہو جاتی ہے جس میں آدمی یہ سمجھتے ہوئے کام کرتا ہے کہ نہ اللہ اس کا حاکم ہے اور نہ اسے اللہ کو اپنے عمل کا حساب دینا ہے۔
جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے، نماز کا اوّلین مقصد انسان کے اندر ’’اسلام‘‘ کی اسی حالت کو پے درپے تازہ کرتے رہنا ہے، اور یہی روزے کا مقصد بھی ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ نماز روزانہ تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے اسے تازہ کرتی ہے، اور رمضان کے روزے سال بھر میں ایک مرتبہ پورے ۷۲۰ گھنٹوں تک پیہم اس حالت کو آدمی پر طاری رکھتے ہیں تاکہ وہ پوری قوت کے ساتھ دل و دماغ میں بیٹھ جائے اور سال کے باقی گیارہ مہینوں تک اس کے اثرات قائم رہیں۔ اول تو روزے کے سخت ضابطے کو اپنے اوپر نافذ کرنے کے لیے کوئی شخص اس وقت تک آمادہ ہی نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ کو اپنا حاکم اعلیٰ نہ سمجھتا ہو اور اس کے مقابلہ میں اپنی آزادی و خود مختاری سے دست بردار نہ ہو چکا ہو۔ پھر جب وہ دن کے وقت مسلسل بارہ بارہ تیرہ تیرہ گھنٹے کھانے پینے اور مباشرت کرنے سے رکا رہتا ہے، اور جب سحری کا وقت ختم ہوتے ہی نفس کے مطالبات سے یکایک ہاتھ کھینچ لیتا ہے، اور جب افطار کا وقت آتے ہی نفس کے مطلوبات کی طرف اس طرح لپکتا ہے کہ گویا فی الواقع اس کے ہاتھوں، اس کے منہ اور حلق پر کسی اور کی حکومت ہے، جس کے بند کرنے سے وہ بند ہوتے اور جس کے کھولنے سے وہ کھلتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس دوران میں اللہ کی حاکمیت اور اپنی بندگی کا احساس اس پر ہر وقت طاری ہے، اس پورے ایک مہینا کی طویل مدت میں یہ احساس اس شعور یا تحت الشعور سے ایک لمحہ کے لیے بھی غائب نہیں ہوا۔ کیوں کہ اگر غائب ہو جاتا تو ممکن ہی نہ تھا کہ وہ ضابطہ کو توڑنے سے باز رہ جاتا۔