تیسری اہم ترین شہادت اُمت کے متواتر عمل کی ہے۔ عیدالاضحی اور اس کی قربانی جس روز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع کی اُسی روز سے وہ مسلمانوں میں عملاً رائج ہوگئی اور اُس وقت سے آج تک تمام دنیا میں پوری مسلم امت ہر سال مسلسل اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ اس کے تسلسل میں کبھی ایک سال کا انقطاع بھی واقع نہیں ہوا ہے۔ ہر نسل نے پہلی نسل سے اسے سنت ِ اسلام کے طور پر لیا ہے اور بعد والی نسل کی طرف اسے منتقل کیا ہے۔ یہ ایک عالم گیر عمل ہے جو ایک ہی طرح دنیا کے ہر اس گوشے میں ہوتا رہا ہے جہاں کوئی مسلمان پایا جاتا ہے۔ اور یہ ایک ایسا متواتر عمل ہے جس کی زنجیر ہمارے عہد سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد تک اس طرح مسلسل قائم ہے کہ اس کی ایک کڑی بھی کہیں سے غائب نہیں ہے۔ درحقیقت یہ ویسا ہی تواتر ہے جس تواتر سے ہمیں قرآن پہنچا ہے اور یہ خبر پہنچی ہے کہ چودہ سو سال پہلے عرب میں محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) مبعوث ہوئے تھے۔ کوئی فتنہ پرداز اس تواتر کو بھی اگر مشکوک ٹھہرا دے تو پھر اسلام میں کیا چیز شک سے محفوظ رہ جاتی ہے۔
اس معاملے کی اصل نوعیت یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہماری تاریخ کا کوئی دَور ایسا گزرا ہو جس میں قربانی اور اس کی عید رائج نہ رہی ہو، پھر کسی قدیم نوشتے میں اس کا حکم لکھا ہوا مل گیا ہو اور کچھ ملائوں نے اٹھ کر لوگوں سے کہا ہو کہ دیکھو فلاں جگہ ہمیں یہ لکھا ملا ہے لہٰذا اے مسلمانو! آئو ہم عید الاضحی منایا کریں اور اس میں جانوروں کی قربانی دیا کریں۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو تاریخ میں کہیں اس کا سراغ ملتا کہ یہ واقعہ کب اور کہاں پیش آیا اور کون لوگ اس کے ذمے دار تھے۔ پھر کسی ملاّ کی کبھی مسلمانوں میں یہ حیثیت نہیں رہی کہ وہ کسی پرانے نوشتے سے ایک حکم نکال کر دکھائے اور تمام دنیا کے مسلمان بالاتفاق اور بے چون و چرا اس کی بات مان کر اس کی پیروی شروع کر دیں اور کوئی یہ نوٹ تک نہ کرے کہ یہ طریقہ پہلے ہم میں رائج نہ تھا، فلاں ملا صاحب کے کہنے سے اب حال ہی میں اس پر عمل شروع ہوا ہے۔