Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرضِ ناشر
جدید ایڈیشن
مقدمہ
۱ اِلٰہ: لغوی تحقیق
اہلِ جاہلیت کا تصورِ اِلٰہ
اُلوہیّت کے باب میں ملاک اَمر
قرآن کا استدلال
۲ رَبّ: لغوی تحقیق
قرآن میں لفظ ’’رَبّ‘‘ کے استعمالات
ربُوبیّت کے باب میں گم راہ قوموں کے تخیلات
قومِ نوحؑ
قومِ عاد
قومِ ثمود
قومِ ابراہیم ؑونمرود
قومِ لُوطؑ
قومِ شعیبؑ
فرعون اور آلِ فرعون
یہود ونصارٰی
مشرکینِ عرب
قرآن کی دعوت
۳ عبادت: لغوی تحقیق
لفظِ عباد ت کا استعمال قرآن میں
عبادت بمعنی اطاعت
عبادت بمعنی پرستش
مثالیں
عبادت بمعنی بندگی واطاعت وپرستش
۴ دین: لغوی تحقیق
قرآن میں لفظِ ’’دین‘‘ کا استعمال
دین بمعنی اوّل ودُوُم
دین بمعنی سوم
دین بمعنی چہارم
دین ایک جامع اصطلاح

قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں

اُمت مسلمہ کے زوال کے اسباب پر اگرغور کیا جائے تو اس میں سر فہرست یہ سبب نظر آئے گا کہ اس نے قرانی تعلیمات کو فراموش کر دیا اور اس کی انقلابی دعوت سے نا آشنا ہوگئی۔ آج اگر ہم قرآن مجید کو پڑھتے ہیں تو اس کے معانی ومفہوم سے بے خبر اور محض رسماً۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے دکھوں کا علاج اور ترقی کا زینہ دنیا بھر کے افکار ونظریات میں تلاش کرتے ہیں لیکن خود نسخہ شفا سے استفادہ نہیں کرتے یا استفادے کی اہلیت نہیں رکھتے جواللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نازل کیا ہے۔ مولانا سید ابوالاعلی مودودی ؒنے اس کتاب کو لکھ کر قرآن کی اس ہی انقلابی دعوت کو واضح کیا ہے۔ جس نے اونٹوں کی نکیل پکڑنے والوں کو دنیا کا امام بنا دیا تھا اور اس کے ذریعے سے فہم قرآن کی راہ کو آسان بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا موصوف کو علوم قرانی میں جوگہری بصیرت عطا فرمائی ہے۔ یہ کتاب اس کی پوری طرح آئنہ دارہے۔

اُلوہیّت کے باب میں ملاک اَمر

الٰہ کے یہ جتنے مفہومات اوپر بیان ہوئے ہیں ان سب کے درمیان ایک منطقی ربط ہے۔ جو شخص فوق الطبعی معنی میں کسی کو اپنا حامی ومددگار، مشکل کشا اور حاجت روا، دعائوں کا سننے والا اور نفع یا نقصان پہنچانے والا سمجھتا ہے۔ اس کے ایسا سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک وہ ہستی نظامِ کائنات میں کسی نہ کسی نوعیت کا اقتدار رکھتی ہے۔ اس طرح جو شخص کسی سے تقویٰ اور خوف کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ناراضی میرے لیے نقصان کی اور رضامندی میرے لیے فائدے کا موجب ہے اس کے اس اعتقاد اور اس عمل کی وجہ بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے ذہن میں اس ہستی کے متعلق ایک طرح کے اقتدار کا تصور رکھتا ہے۔ پھر جو شخص خداوندِ اعلیٰ کے ماننے کے باوجود اس کے سوا دوسروں کی طرف اپنی حاجات کے لیے رجوع کرتا ہے اس کے اس فعل کی علت بھی صرف یہی ہے کہ خداوندی کے اقتدار میں وہ انھیں کسی نہ کسی طرح کا حصہ دار سمجھ رہا ہے۔ اور علیٰ ہذا القیاس وہ شخص جو کسی کے حکم کو قانون اور کسی کے امر ونہی کواپنے لیے واجب الاطاعت قرار دیتا ہے وہ بھی اسے مقتدر اعلیٰ تسلیم کرتا ہے۔ پس الوہیّت کی اصل رُوح اقتدار ہے، خواہ وہ اقتدار اس معنی میں سمجھا جائے کہ نظامِ کائنات پر اس کی فرماں روائی فوق الطبعی نوعیت کی ہے، یا وہ اس معنی میں تسلیم کیا جائے کہ دنیوی زندگی میں انسان اس کے تحتِ امر ہے اور اس کا حکم بذاتِ خود واجب الاطاعت ہے۔

شیئر کریں