الٰہ کے یہ جتنے مفہومات اوپر بیان ہوئے ہیں ان سب کے درمیان ایک منطقی ربط ہے۔ جو شخص فوق الطبعی معنی میں کسی کو اپنا حامی ومددگار، مشکل کشا اور حاجت روا، دعائوں کا سننے والا اور نفع یا نقصان پہنچانے والا سمجھتا ہے۔ اس کے ایسا سمجھنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک وہ ہستی نظامِ کائنات میں کسی نہ کسی نوعیت کا اقتدار رکھتی ہے۔ اس طرح جو شخص کسی سے تقویٰ اور خوف کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کی ناراضی میرے لیے نقصان کی اور رضامندی میرے لیے فائدے کا موجب ہے اس کے اس اعتقاد اور اس عمل کی وجہ بھی اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ اپنے ذہن میں اس ہستی کے متعلق ایک طرح کے اقتدار کا تصور رکھتا ہے۔ پھر جو شخص خداوندِ اعلیٰ کے ماننے کے باوجود اس کے سوا دوسروں کی طرف اپنی حاجات کے لیے رجوع کرتا ہے اس کے اس فعل کی علت بھی صرف یہی ہے کہ خداوندی کے اقتدار میں وہ انھیں کسی نہ کسی طرح کا حصہ دار سمجھ رہا ہے۔ اور علیٰ ہذا القیاس وہ شخص جو کسی کے حکم کو قانون اور کسی کے امر ونہی کواپنے لیے واجب الاطاعت قرار دیتا ہے وہ بھی اسے مقتدر اعلیٰ تسلیم کرتا ہے۔ پس الوہیّت کی اصل رُوح اقتدار ہے، خواہ وہ اقتدار اس معنی میں سمجھا جائے کہ نظامِ کائنات پر اس کی فرماں روائی فوق الطبعی نوعیت کی ہے، یا وہ اس معنی میں تسلیم کیا جائے کہ دنیوی زندگی میں انسان اس کے تحتِ امر ہے اور اس کا حکم بذاتِ خود واجب الاطاعت ہے۔