Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

پیش لفظ: جدید اڈیشن
عرضِ ناشر
دیباچہ: طبع ہفتم
دیباچہ: طبع اول
مقدمہ
تحریک ضبط ولادت کا مقصد اور پس منظر
تحریک کی اِبتدا
ابتدائی تحریک کی ناکامی اور اس کا سبب
جدید تحریک
ترقی کے اسباب
1۔ صنعتی انقلاب
2۔ عورتوں کا معاشی استقلال
3۔ جدید تہذیب وتمدن
نتائج
(1) طبقات کا عدم توازن
(2) زنا اور امراضِ خبیثہ کی کثرت
(3) طلاق کی کثرت
(۴) شرحِ پیدائش کی کمی
ردِّ عمل
اُصولِ اسلام
نقصانات
1۔ جسم ونفس کا نقصان
2۔ معاشرتی نقصان
3۔ اخلاقی نقصان
4۔ نسلی وقومی نقصانات
5۔ معاشی نقصان
حامیانِ ضبط ِولادت کے دلائل اور اُن کا جواب : وسائل ِ معاش کی قلت کا خطرہ
دنیا کے معاشی وسائل اورآبادی
پاکستان کے معاشی وسائل اور آبادی
موت کا بدل
معاشی حیلہ
چند اور دلیلیں
اُصولِ اسلام سے کلی منافات
احادیث سے غلط استدلال
ضمیمہ (1) : اسلام اور خاندانی منصوبہ بندی
ضمیمہ (2) : تحریکِ ضبطِ ولادت کا علمی جائزہ (پروفیسر خورشید احمد)

اسلام اور ضبطِ ولادت

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اُصولِ اسلام

صفحات گزشتہ میں تحریکِ ضبط ولادت کی ترقی کے اسباب اور اس کے نتائج کا جو تفصیلی بیان پیش کیا گیا ہے اس کو بنظرِ غائر ملاحظہ کرنے سے دو اہم حقیقتیں منکشف ہوتی ہیں۔
ایک یہ کہ اہلِ مغرب میں ضبط ِ ولادت کی خواہش کا پیدا ہونا اور اس تحریک کا اس کثرت سے ان کے افراد میں رائج ہو جانا کچھ اس وجہ سے نہیں ہے کہ ان کی فطرت ہی توالد وتناسل سے پرہیز کا اِقتضا کرتی ہے بلکہ اس کی اصلی وجہ یہ ہے کہ دو صدیوں سے ان کے ہاں تمدن وتہذیب اور معیشت ومعاشرت کا جو نظام رائج ہے اس نے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں جن میں وہ اولاد سے بچنے اور توالد وتناسل سے نفرت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اگر یہ حالات نہ ہوتے تو وہ اب بھی اسی طرح ضبطِ ولادت سے بیگانہ رہتے جس طرح انیسویں صدی عیسوی کے وسط میں تھے۔ کیونکہ ان کی جو فطرت اس زمانے میں اولاد کی محبت اور توالد وتناسل کی جانب رغبت کا اقتضا کرتی تھی، وہی فطرت اب بھی موجود ہے۔ اس صدی کے اندر اس میں کوئی انقلاب رونما نہیں ہوا ہے۔
دوسرے یہ کہ ضبط ِ ولادت کے رواج سے مغربی قومیں جن خطرات ومشکلات میں گھر گئی ہیں، انھوں نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ یہ تحریک قوانینِ فطرت میں جو ترمیم کرنا چاہتی ہے وہ انسان کے لیے سخت نقصان دہ ہے، اور درحقیقت فطرت کے قوانین لائق ترمیم نہیں ہیں بلکہ وہ نظامِ تمدن وتہذیب اور نظام معیشت ومعاشرت بدل دینے کے لائق ہے جو انسان کو قونین فطرت کی خلاف ورزی پر مجبور کرکے ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے۔
بنیادی اُصول
مغربی تجربہ کے یہ دو سبق ہم کو اصولِ اسلام سے بہت قریب لے آتے ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اور اس نے شخصی واجتماعی طرز عمل کے لیے جتنے طریقے مقرر کیے ہیں وہ سب اسی قاعدۂ کلیہ پر مبنی ہیں کہ انسان ان قوانین قدرت کی پیروی کرے جن پر کائنات کا یہ سارا نظام چل رہا ہے اور کوئی ایسا طرزِ زندگی اختیار نہ کرے جو قوانینِ فطرت کی خلاف ورزی پر اس کو مجبور کرتا ہو۔ قرآن مجید ہم کو بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا کرکے اس کی جِبِلّت میں اس طریقہ کی تعلیم بھی ودیعت فرما دی ہے جس پر چل کر وہ چیز نظام وجود میں اپنے حصہ کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دے سکتی ہے:
﴿رَبُّنَا الَّذِيْٓ اَعْطٰي كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ہَدٰىo ﴾ ( طٰہٰ 50:20)
ہمارا رب وہ ہے جس نے ہرشے کو اس کی خاص بناوٹ عطا کی پھر اس کو ان اغراض کے پورا کرنے کی راہ بھی بتا دی جن کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے۔
کائنات کی تمام چیزیں بے چون وچرا اس ہدایت کی پیروی کر رہی ہے، اس لیے کہ اللہ نے ان کے لیے جو راستہ مقرر فرما دیا ہے اس سے ہٹنے کی ان میں قدرت ہی نہیں ہے۔ البتہ انسان کو یہ قدرت دی گئی ہے کہ وہ اس راستہ سے ہٹ سکتا ہے، اس پر چلنے سے انکار کر سکتا ہے، اپنی عقل اور ذہانت سے غلط کام لے کر اس کے خلاف دوسرے راستے نکال سکتا ہے اور کوشش کرکے ان پر چل بھی سکتا ہے لیکن ہر وہ راستہ جسے انسان خدا کے بنائے ہوئے راستہ کو چھوڑ کر اپنی ہوائے نفس کے اتباع میں ایجاد واختیار کرتا ہے، ٹیڑھا راستہ ہے اور اس کی پیروی گمراہی ہے:
﴿وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۝۰ۭ﴾ ( القصص 50:28)
اس سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جس نے اللہ کی رہنمائی کے بغیر اپنی خواہش نفس کی پیروی کی۔
یہ گمراہی خواہ ظاہر میں کتنی ہی مفید نظر آئے لیکن درحقیقت جو انسان اللہ کے بنائے ہوئے راستہ کو چھوڑتا ہے اور اس کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کرتا ہے‘ وہ خود اپنے اوپر ظلم کرتا ہے کیونکہ انجام کار میں اس کی غلط کاری خود اسی کے لیے نقصان دہ اور موجب ہلاکت ثابت ہوتی ہے۔
﴿وَمَنْ يَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ۝۰ۭ﴾ ( الطلاق 1:65)
اور جس کسی نے اللہ کی مقرر کی ہوئی حدود سے تجاوز کیا اس نے خود اپنے اوپر ظلم کیا۔
قرآن کہتا ہے کہ خدا کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلنا اور ان قوانینِ فطرت کو توڑنا جنھیں اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جاری کیا ہے دراصل ایک شیطانی فعل ہے اور شیطان ہی اس فعل کی تعلیم دیتا ہے۔
﴿ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ۝۰ۭ ﴾ ( النسائ 119:4)
شیطان نے کہا کہ میں اولاد آدم کو حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بناوٹ کو بدل ڈالیں گے۔
اور شیطان کون ہے؟ جو ازل سے انسان کا کھلا دشمن ہے:
﴿وَلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ۝۰ۭ اِنَّہٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌo اِنَّمَا يَاْمُرُكُمْ بِالسُّوْۗءِ وَالْفَحْشَاۗءِ ﴾ ( البقرہ 168-169:2)
اور تم شیطان کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے، وہ تم کو بدی اور بے حیائی کے کام کرنے کا حکم دیتا ہے۔
پس اسلام نے جس قاعدے پر اپنے نظامِ تمدن وتہذیب اور نظامِ معیشت ومعاشرت کی بنیاد رکھی ہے، وہ یہ ہے کہ انسان انفرادی اور مجموعی حیثیت سے اپنی فطرت کے تمام مقتضیات کو ٹھیک ٹھیک قوانینِ فطرت کے مطابق پورا کرے اور اللہ کی دی ہوئی تمام قوتوں سے اس طریقہ پر کام لے جس کی ہدایت خود اللہ نے دی ہے۔ نہ کسی قوت کو معطل و بے کار بنائے، نہ کسی قوت کے استعمال میں اللہ کی بخشی ہوئی ہدایت سے انحراف کرے اور نہ شیطانی تحریص وترغیب سے گمراہ ہو کر اپنی فلاح وبہبود اُن طریقوں میں تلاش کرے جو فطرت کی سیدھی راہ سے ہٹ کر نکلتے ہیں۔
تمدنِ اسلام اور ضبط ِ ولادت
اس قاعدے کو پیش ِ نظر رکھ کر جب آپ اسلام پر نگاہ ڈالیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ اسلامی نظام تمدن نے سرے سے ان اسباب ودواعی کا ہی استیصال کر دیا ہے جن کی وجہ سے انسان اپنی فطرت کے اس اہم اِقتضا یعنی توالد وتناسل سے پرہیز کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ انسان کو انسان ہونے کی حیثیت سے برتھ کنٹرول کی ضرورت نہیں ہوتی، اور نہ اس کی فطری سرشت ہی اس کا اقتضا کرتی ہے، بلکہ ایک خاص طرز کا نظام تمدن جب کسی انسانی جماعت میں مخصوص قسم کے حالات پیدا کر دیتا ہے تب انسان مجبور ہو جاتا ہے کہ اپنی آسائش اور اپنی فلاح وبہبود کی خاطر اپنی آئندہ نسل کا سلسلہ منقطع کر دے، یا اس کو بڑی حد تک گھٹانے کی کوشش کرے۔ اس سے آپ خود نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ اگر کوئی تمدن اس خاص طرز پر قائم ہو اور اس میں وہ مخصوص قسم کے حالات پیدا ہی نہ ہوں تو سرے سے وہ مشکلات اور وہ دواعی وجود ہی میں نہ آئیں گے جو انسان کو اللہ کی بناوٹ کے بدلنے اور اس کی حدود سے تجاوز کرنے اور قوانینِ فطرت کے مقتضیات سے انحراف کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔
اس کے نظام معاشی نے سرمایہ داری کی جڑ کاٹ دی ہے۔ وہ سود کو حرام کرتا ہے، اجارہ داری کو روکتا ہے، جوئے اور سٹے کو ناجائز قرار دیتا ہے، مال جمع کرنے سے منع کرتا ہے اور زکوٰۃ وراثت کے طریقے جاری کرتا ہے۔ یہ احکام ان بہت سی خرابیوں کا استیصال کر دیتے ہیں جنھوں نے مغرب کی معاشی زندگی کو سرمایہ داروں کے سوا اور سب کے لیے ایک مستقل عذاب بنا دیا ہے۔{ FR 7154 }
اسلام کے نظامِ معاشرت نے عورت کو وراثت کے حقوق دیے ہیں، مرد کی کمائی میں اس کا حق مقرر کیا ہے، مرد وعورت کے دائرہ عمل کو فطری حدود میں تقسیم کیا ہے، عورتوں اور مردوں کے آزادانہ اختلاط کو حجابِ شرعی کے ذریعہ سے روک دیا ہے اور اس طرح معیشت ومعاشرت کی ان بہت سی خرابیوں کو دور کر دیا جن کی وجہ سے عورت اپنے فطری فرض افزائشِ نسل وتربیتِ اولاد سے انحراف کرنے پر آمادہ یا مجبور ہوتی ہے۔{ FR 7155 }
اسلام کی اخلاقی تعلیمات انسان کو سادہ اور پرہیز گارانہ زندگی بسر کرنا سکھاتی ہیں۔ وہ زناکاری اور شراب خوری کو حرام کرتا ہے، بہت سے ان تفریحی مشاغل اور عیش پسندانہ تفریحات کے اسباب میں کفایت شعاری برتنے کی تاکید کرتا ہے اور اس بد اخلاقی، اسراف اور حد سے بڑھی ہوئی لذت پرستی کا استیصال کر دیتا ہے جو مغربی ممالک میں برتھ کنٹرول کی ترویج کے اہم اسباب میں سے ہے۔ اس کے ساتھ اسلام آپس کی ہمدردی اور امدادِ باہمی کی تعلیم دیتا ہے، صلہ رحمی کی تاکید کرتا ہے، ہمسایوں کی مدد اور غریب ونادار ابنائے نوع پر انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیتا ہے اور خود غرضی ونفس پرستی سے روکتا ہے۔ یہ سب چیزیں ایک طرف ہر شخص میں منفرد اور دوسری طرف سوسائٹی میں مجتمعاً ایک ایسا اخلاقی ماحول پیدا کر دیتی ہیں جس میں ضبط ِ ولادت کے داعیات پیدا ہی نہیں ہو سکتے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اسلام نے خدا پرستی کی تعلیم دی ہے۔ وہ خدا پر بھروسہ کرنا سکھاتا ہے اور یہ حقیقت انسان کے ذہن نشین کر دیتا ہے کہ اس کا اور ہر جاندار کا اصلی رازق حق تعالیٰ ہے۔ یہ چیز انسان میں وہ ذہنیت پیدا ہی نہیں ہونے دیتی جس سے وہ اپنی زندگی میں صرف اپنے ذرائع اور اپنی ہی کوشش پر بھروسا کرنے لگتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ اسلام کے اجتماعی قوانین اور اس کی اخلاقی تعلیمات اور روحانی تربیت نے ان اسباب وداعی میں سے ہر سبب کو اور ہر داعیہ کو مٹا دیا ہے جو مغربی تمدن وتہذیب میں ضبط ِ ولادت کے لیے باعثِ تحریک ہوئے ہیں۔ اگر انسان ذہنی وعملی حیثیت سے ایک سچا مسلمان ہو تو نہ کبھی اس کے نفس میں ضبط ِ ولادت کی خواہش پیدا ہو سکتی ہے اور نہ اس کی زندگی میں ایسے حالات پیش آ سکتے ہیں جو اس کو فطرت کے سیدھے راستے سے منحرف ہونے پر مجبور کر دیں۔
ضبط ِولادت کے متعلق اسلام کا فتویٰ
یہ تو مسئلہ کا سلبی (negative) پہلو تھا۔ اب ہم کو ایجابی (positive) پہلو سے دیکھنا چاہیے کہ ضبط ِ ولادت کے متعلق اسلام کا فتویٰ کیا ہے۔
قرآن مجید میں ایک جگہ یہ قاعدہـ کلیہ بیان کیا گیا ہے کہ تغییر خلق اللہ (اللہ کی بنائی ہوئی ساخت کو بدلنا) شیطانی فعل ہے۔
﴿ وَلَاٰمُرَنَّھُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللہِ۝۰ۭ﴾ (النساء119:4)
اور وہ میرے حکم سے خدائی ساخت میں ردّ و بدل کریں گے۔
اس آیت میں تغییر خلق اللہ سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو جس غرض کے لیے بنایا ہے اس کو اس غرض اصلی سے پھیر کر کسی دوسری غرض کے لیے استعمال کیا جائے، یا اس طور پر اس سے کام لیا جائے کہ غرض اصلی فوت ہو جائے۔ اس قاعدۂ کلیہ کے تحت ہم کو دیکھنا چاہیے کہ عورت اور مرد کے زوجی تعلق میں ’’خلق اللہ‘‘ (یعنی اس تعلق کی فطری غرض) کیا ہے اور ضبطِ ولادت سے تغییر خلق اللہ لازم آتی ہے یا نہیں۔ خود قرآن مجید اس سوال کے حل میں ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ عورت اور مرد کے زوجی تعلق کی دو غرضیں بتاتا ہے:
ایک یہ کہ:
﴿نِسَاۗؤُكُمْ حَرْثٌ لَّكُمْ۝۰۠ فَاْتُوْا حَرْثَكُمْ اَنّٰى شِئْتُمْ۝۰ۡوَقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ۝۰ۭ ﴾ (البقرہ 223:2)
تمھاری عورتیں تمھارے لیے کھیتیاں ہیں۔ پس تم جس طرح چاہو اپنی کھیتیوں میں جائو اور اپنے لیے آئندہ کا بندوبست کرو۔
اور دوسری یہ ہے:
﴿وَمِنْ اٰيٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْہَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً۝۰ۭ ﴾ (الروم 21:30)
اور اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تمھارے لیے تم ہی میں سے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمھارے درمیان محبت ورحمت پیدا کی۔
پہلی آیت میں عورتوں کو ’’کھیتی‘‘ کہہ کر ایک حیاتی حقیقت (Biological Fact) کا اظہار کیا گیا ہے۔ حیاتیات کے نقطۂ نظر سے مرد کی حیثیت کاشت کار کی ہے اور عورت کی حیثیت کھیتی کی، اور ان دونوں کے تعلق سے فطرت کی اولین غرض بقائے نوع ہے۔ اس غرض میں انسان اور حیوان اور نباتات سب مشترک ہیں۔ { FR 7156 }
دوسری آیت میں اس تعلق کی ایک اور غرض بھی بیان کی گئی ہے اور وہ قیام تمدن ہے، جس کی بنیاد شوہر اور بیوی کے باہم مل کر رہنے سے پڑتی ہے۔ یہ غرض انسان کے لیے مخصوص ہے اور انسان کی مخصوص بناوٹ ہی میں ایسے داعیات پیدا کر دیے گئے ہیں جو اس غرض کی تکمیل کے لیے اسے ابھارتے ہیں۔
خلقُ اللہ کی تشریح
اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے کارخانے کو چلانے کے لیے منجملہ بہت سے انتظامات کے دو زبردست انتظام کیے ہیں۔ ایک تغذیہ، دوسرے تولید۔ تغذیہ کا مقصود یہ ہے کہ جو انواع اس وقت موجود ہیں وہ ایک مدتِ معینہ تک زندہ رہ کر اس کارخانہ کو چلاتی رہیں۔ اس کے لیے رب العالمین نے غذا کا وافر سامان مہیا کیا، اجسام نامیہ (organic bodies) میں غذا کو جذب کرنے اور اس کو اپنا جُز بنانے کی قابلیت پیدا کی اور ان میں غذا کی طرف ایک طبیعی خواہش پیدا کر دی جو ان کو غذا حاصل کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو تمام اجسام نامیہ (خواہ نباتات ہوں یا حیوانات یا انسان) ہلاک ہو جائیں اور اس کارخانۂ عالم میں کوئی رونق باقی نہ رہے۔ لیکن فطرت الٰہیہ کے نزدیک اشخاص وافراد کے بقا کی بہ نسبت انواع واجناس کا بقاء زیادہ اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ اشخاص کے لیے زندگی کی ایک بہت ہی قلیل مدت ہے اور اس کارخانہ کو چلانے کے لیے ضروری ہے کہ اشخاص کے مرنے سے پہلے دوسرے اشخاص ان کی جگہ لینے کے لیے پیدا ہو جائیں۔ اس دوسری اعلیٰ اور اشرف ضرورت کو پورا کرنے کے لیے فطرت نے تولید کا انتظام کیا ہے۔ انواع میں نر اور مادہ کی تقسیم، نر ومادہ کے اجسام کی جداگانہ ساخت، دونوں میں ایک دوسرے کی جانب میلان اور زوجی تعلق کے لیے دونوں میں ایک زبردست خواہش کا موجود ہونا یہ سب کچھ اسی غرض کے لیے ہے کہ دونوں مل کر اپنی موت سے پہلے اپنے جیسے افراد اللہ تعالیٰ کے اس کارخانہ کو چلانے کے لیے مہیا کر دیں۔ اگر یہ غرض نہ ہوتی تو سرے سے نر ومادہ یا مرد وعورت کی علیحدہ علیحدہ اصناف پیدا کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔
پھر دیکھیے کہ جو انواع کثیر الاولاد ہوتی ہیں ان میں فطرت نے اولاد کی محبت کا کوئی خاص جذبہ پیدا نہیں کیا کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی اور حفاظت کریں۔ اس لیے یہ انواع محض اپنی کثرتِ تناسل کے بل پر قائم رہتی ہیں لیکن جن انواع کی اولاد کم ہوتی ہے ان میں اولاد کی محبت زیادہ پیدا کی گئی ہے اور ماں باپ کو مجبور کیا گیا ہے کہ وہ ایک کافی عرصہ تک اپنی اولاد کی نگرانی وحفاظت کریں۔ یہاں تک کہ وہ خود اپنی حفاظت کے قابل ہو جائیں۔ اس معاملہ میں انسان کا بچہ سب سے زیادہ کمزور ہوتا ہے اور زیادہ مدت تک ماں باپ کی نگرانی کا محتاج رہتا ہے۔ دوسری طرف انواعِ حیوانی میں شہوت کا جذبہ یا تو موسمی ہوتا ہے، یا جبلی مطالبات کے تحت محدود ہوتا ہے لیکن انسان میں یہ جذبہ نہ تو موسمی ہے اور نہ جبلت نے اس کو محدود کیا ہے۔ اس لیے نوعِ انسانی میں عورت اور مرد ایک دوسرے کے ساتھ دائمی تعلق رکھنے پر مجبور ہیں۔ یہ دونوں چیزیں انسان کو مدنی الطبع بناتی ہیں، یہیں سے گھر کی بنیاد پڑتی ہے اور گھر سے خاندان اور خاندان سے قبیلے بنتے ہیں اور آخر کار اسی بنیاد پر تمدن کی عمارت قائم ہوتی ہے۔
اس کے بعد انسانی ساخت پر غور کیجیے۔ حیاتیات کے مطالعہ سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے جسم کی بناوٹ میں شخصی مفاد پر نوعی مفاد کو ترجیح دی گئی ہے اور انسان کو جو کچھ دیا گیا ہے وہ اس کی ذات سے زیادہ اس کی نوع کے مفاد کے لیے ہے۔ انسان کے جسم میں اس کے صنفی غدود (Sexual Glands) سب سے زیادہ اہم خدمات انجام دیتے ہیں۔ یہ غدے ایک طرف انسان کے جسم کو وہ ماء الحیات (hormon) بہم پہنچاتے ہیں جو اس میں حسن وجمال، رونق وتازگی، ذہانت اور تیزی، توانائی اور قوتِ عمل پیدا کرتے ہیں اور دوسری طرف یہی غدے انسان میں تولید کی قوت پیدا کرتے ہیں جو عورت اور مرد کو تناسل کے لیے باہم ملنے پرمجبور کرتی ہے۔ جس عمر میں انسان نوعی خدمت کے لیے مستعد ہوتا ہے، وہ زمانہ اس کے شباب اور حسن اور عمل کا بھی ہوتا ہے اور جب وہ نوعی خدمت کے قابل نہیں رہتا، وہی زمانہ اس کے ضعف اور بڑھاپے کا ہوتا ہے۔ زوجی فعلیت کا کمزور ہونا ہی دراصل آدمی کے لیے موت کا پیغام ہے۔ اگر انسان کے جسم سے اس کے صنفی غدود نکال دیے جائیں تو جس طرح وہ نوعی خدمت کے قابل نہیں رہتا اسی طرح شخصی خدمت کے لیے بھی اس کی قابلیت بہت کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ ان غدوں کے بغیر اس کی دماغی اور جسمانی قوتیں نہایت کمزور ہوتی ہیں۔
عورت کے جسم میں نوعی مفاد کی خدمت کومرد سے بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ عورت کے جسم کی ساری مشین ہی اس غرض کے لیے بنائی گئی ہے کہ وہ بقائے نوع کی خدمت انجام دے۔ وہ جب اپنے شباب کو پہنچتی ہے تو ایامِ ماہواری کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ جو ہر مہینے اس کو استقرارِ حمل کے لیے تیار کرتا رہتا ہے۔ پھر جب نطفہ قرار پاتا ہے تو اس کے پورے نظامِ جسمانی میں ایک انقلاب پیدا ہوتا ہے۔ بچے کا مفاد اس کے تمام جسم پر حکمرانی کرنے لگتا ہے۔ اس کی قوت کا اتنا حصہ اس کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے جتنا اس کی زندگی کے لیے ناگزیر ہے، باقی ساری قوت بچے کی نشوونما میں صرف ہوتی ہے۔ یہی چیز ہے جو عورت کی فطرت میں محبت، قربانی اور ایثار (altruism) پیدا کرتی ہے اور اسی لیے پدریت کا رابطہ اتنا گہرا نہیں ہے جتنا مادریت کا رابطہ ہے۔ وضع حمل کے بعد عورت کے جسم میں ایک دوسرا انقلاب رونما ہوتا ہے جو اسے رضاعت کے لیے تیارکرتا ہے۔ اس زمانہ میں غدودِ رضاعت ماں کے خون سے بہترین اجزاء جذب کرکے بچے کے لیے دودھ مہیا کرتے ہیں اور یہاں فطرتِ الٰہیہ پھر عورت کو نوعی مفاد کے لیے قربانی پر مجبور کرتی ہے۔ رضاعت کے بعد عورت کا جسم از سرِ نو ایک دوسرے استقرارِحمل کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک وہ اس نوعی خدمت کے لیے مستعد رہتی ہے۔ جہاں اس کی یہ استعداد ختم ہوئی، اس کا قدم موت کی طرف بڑھا۔ سنِ یاس شروع ہوتے ہی اس کا حسن وجمال رخصت ہو جاتا ہے، اس کی شگفتگی، اس کی جولانیِ طبع، اس کی جاذبیت کافور ہو جاتی ہے اور اس کے لیے جسمانی تکالیف اور نفسانی افسردگی کے ایک ایسے دور کا آغاز ہوتا ہے جو صرف موت ہی کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے لیے بہترین زمانہ وہ ہے جب وہ نوع کی خدمت کے لیے جیتی ہے اور جب وہ صرف اپنے لیے جیتی ہے تو بُری طرح جیتی ہے۔
اس موضوع پرایک روسی مصنف آنتن نیمی لاف (Anton Nemilov) نے ایک بہترین کتاب لکھی ہے جس کا نام (Biological Tragady of Woman) ہے۔ 1932ء میں اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے شائع ہوا ہے۔ اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی پیدائش ہی بقائے نوع کی خدمت کے لیے ہوئی ہے۔ یہی حقیقت دوسرے محققین وماہرین نے بھی بیان کی ہے۔ مثلاً نوبل انعام یافتہ مصنف ڈاکٹر الیکزس کارل(Dr. Alixis Carrel) اپنی کتاب “Man The Unknown” میں اسی نقطۂ نظر کو پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ:
’’عورت کے لیے وظائف تولید جو اہمیت رکھتے ہیں ان کا ابھی تک پورا شعور پیدا نہیں ہوا ہے۔ اس وظیفہ کی انجام دہی عورت کی معیاری تکمیل کے لیے ناگزیر ہے۔ پس یہ ایک احمقانہ فعل ہے کہ عورتوں کو تولید اور زچگی سے برگشتہ کیا جائے۔‘‘
ایک مشہور ماہر جنسیات ڈاکٹر آزوالڈ شواز (Oswald Schwarz) اپنی کتاب ’’نفسیات جنس‘‘ (The Psychology of Sex) میں لکھتا ہے:
’’جذبۂ جنسی آخر کس چیز کا غماز ہے اور کس مقصد کے حصول کے لیے ہے؟ یہ بات کہ اس کا تعلق افزائشِ نسل سے ہے بالکل واضح ہے۔ حیاتیات (Biology) کا علم اس معاملے کو سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حیاتیاتی قانون ہے کہ جسم کا ہر عضو اپنا خاص وظیفہ انجام دینا چاہتا ہے اور اس کام کو پورا کرنا چاہتا ہے جو فطرت نے اس کے سپرد کیا ہے، نیز یہ کہ اگر اسے اپنا کام کرنے سے روک دیا جائے تو لازماً الجھنیں اور مشکلات پیدا ہو کر رہتی ہیں۔ عورت کے جسم کا بڑا حصہ بنایا ہی گیا ہے استقرارِ حمل اور تولید کے لیے۔ اگر ایک عورت کو اپنے جسمانی اور ذہنی نظام کا یہ اقتضا پورا کرنے سے روکا جائے گا تو وہ اِضمحلال اور شکستگی کا شکار ہو جائے گی۔ اس کے برعکس ماں بننے میں وہ ایک نیا حسن …..ایک روحانی بالیدگی…..پا لیتی ہے جو اس جسمانی اِضمحلال پرغالب آ جاتی ہے جس سے زچگی کے باعث عورت دو چار ہوتی ہے۔‘‘{ FR 7157 }
یہی مصنف مزید لکھتا ہے:
’’ہمارے جسم کا ہر عضوکام کرنا چاہتا ہے اور کسی عضو کو بھی اپنے وظیفہ کی انجام دہی سے روکا جائے گا تو پورے نظام کا توازن درہم برہم ہو جائے گا۔ ایک عورت کو اولاد کی ضرورت صرف اسی بنا پر نہیں ہے کہ یہ اس کی جبلتِ مادریت کا تقاضا ہے یا یہ کہ اس خدمت کی انجام دہی کو وہ اوپر سے عائد کردہ ایک اخلاقی ضابطے کی بنا پر اپنا فرض سمجھتی ہے، بلکہ دراصل اسے اس کی ضرورت اس لیے ہے کہ اس کا سارا نظام جسمانی بنا ہی اس کام کے لیے ہے۔ اگر اسے اپنے جسم کے اس مقصدِ تخلیق ہی کو پورا کرنے سے محروم رکھا جائے گا تو اس کی پوری شخصیت بے کیفی اور محرومی اور شکست سے متاثر ہو گی۔‘‘
اس بحث سے قرآن مجید کے اس ارشاد کی حقیقت اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان زوجی تعلق پیدا کرنے سے فطرت کا اصل مقصد بقائے نوع ہے اور اس کے ساتھ دوسرا مقصد یہ ہے کہ انسان عائلی زندگی (family life)اختیار کرکے تمدن کی بنیاد رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد کے درمیان جو کشش رکھی ہے اور ان دونوں کے زوجی تعلق میں جو لذت پیدا کی ہے وہ صرف اس لیے کہ انسان اپنی طبیعی رغبت سے ان مقاصد کو پورا کرے۔ اب جو شخص محض اس لذت کو حاصل کرنا چاہتا ہے مگر ان مقاصد کی خدمت بجا لانے سے انکار کر دیتا ہے، یہ یقینا خلق اللہ کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ان اعضا اور ان قوتوں کو جو اللہ تعالیٰ نے بقائے نوع کے لیے عطا کیے ہیں ان کی غرض اصلی کے خلاف محض اپنی نفسانی غرض کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو محض زبان کی لذت حاصل کرنے کے لیے عمدہ عمدہ غذائوں کے نوالے منہ میں چبائے مگر حلق کے نیچے اتارنے کے بجائے ان کو تھوک دے۔ جس طرح ایسا شخص خود کشی کا ارتکاب کرتا ہے اسی طرح وہ شخص جو زوجی تعلق سے محض لذت حاصل کرتا ہے اور بقائے نسل کے مقصد کو پورا نہیں ہونے دیتا، نسل کشی کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ وہ فطرت کے ساتھ دغا بازی کر رہا ہے۔ فطرت نے اس فعل میں جو لذت رکھی ہے وہ دراصل معاوضہ ہے اس خدمت کا جو فطرت کے ایک مقصد کو پورا کرنے کے لیے وہ بجا لاتا ہے لیکن یہ شخص معاوضہ تو پورا لے لیتا ہے اور خدمت بجا لانے سے انکار کر دیتا ہے۔ کیا یہ دغا بازی نہیں؟

شیئر کریں