Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

دینِ حق
اَلِّدیْن َکا مفہوم
الاِسلام کا مفہوم
قرآن کا دعوٰی کیا ہے؟
طریقِ زندگی کی ضرورت
زندگی کا انقسام پذیر نہ ہونا
زندگی کی جغرافی ونسلی تقسیم
زندگی کی زمانی تقسیم
انسان کیسے طریقِ زندگی کا حاجت مند ہے
کیا انسان ایسا نظام خود بنا سکتا ہے؟
الدین کی نوعیت
انسانی ذرائع کا جائزہ
۱۔ خواہش
۲۔ عقل
۳۔ سائنس
۴۔ تاریخ
مایوس کُن نتیجہ
اُمِّید کی ایک ہی کرن
قرآن کے دلائل
خدائی ہدایت کے پرکھنے کا معیار
ایمان کے تقاضے

دینِ حق

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اَلِّدیْن َکا مفہوم

عربی زبان میں لفظ ’’دین‘‘ کئی معنوں میں آتا ہے۔ اس کے ایک معنی غلبہ اور استیلا کے ہیں۔ دوسرے معنی اطاعت اور غلامی کے۔ تیسرے معنی جزا اور بدلے کے۔ چوتھے معنی طریقے اور مسلک کے۔ یہاں یہ لفظ اسی چوتھے معنی میں استعمال ہوا ہے، یعنی دین سے مراد طریقِ زندگی یا طرزِ فکر وعمل ہے جس کی پیروی کی جائے لیکن یہ خیال رہے کہ قرآن محض دین نہیں کہہ رہا ہے بلکہ الدین کہہ رہا ہے۔ اس سے معنی میں وہی فرق واضح ہو جاتا ہے جو انگریزی زبان میں (this is a way of life) کہنے کے بجائے (this is the way of life) کہنے سے واقع ہوتا ہے یعنی قرآن کا دعوٰی یہ نہیں ہے کہ اللہ کے نزدیک اِسلام ایک طریق زندگی ہے بلکہ اس کا دعوٰی یہ ہے کہ اِسلام ہی ایک حقیقی اور صحیح طریقِ زندگی یا طرز فکر وعمل ہے۔
پھر یہ بھی ذہن نشین رہے کہ قرآن اس لفظ کو کسی محدود معنی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ وسیع ترین معنی میں استعمال کرتا ہے۔ طریقِ زندگی سے اس کی مراد زندگی کے کسی خاص پہلو یا کسی خاص شعبے کا طریق نہیں بلکہ پوری زندگی کا طریق ہے، الگ الگ ایک ایک شخص کی انفرادی زندگی ہی کا طریق نہیں بلکہ بحیثیت مجموعی سوسائٹی کا طریق بھی ہے۔ ایک خاص ملک یا ایک خاص قوم یا ایک خاص زمانے کی زندگی کا طریق نہیں بلکہ تمام زمانوں میں انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا طریق ہے۔ لہٰذا قرآن کے دعوے کا مفہوم یہ نہیں کہ اللّٰہ کے نزدیک پوجا پاٹ اور عالمِ بالا کے اعتقاد اور حیات بعد الممات کے تصوّر کا ایک ہی صحیح مجموعہ ہے جس کا نام اِسلام ہے۔ نہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ افراد ِانسانی کے مذہبی طرز خیال وعمل (جیسا کہ لفظ ’’مذہبی‘‘ کا مفہوم آج کل کی مغربی اصطلاح میں لیا جاتا ہے) کی ایک صحیح صورت وہی ہے جسے اِسلام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ عرب کے لوگوں، یا فلاں صدی تک کے انسانوں، یا فلاں دور کے مثلاً صنعتی انقلاب سے پہلے تک کے آدمیوں کے لیے ایک صحیح نظامِ زندگی وہی ہے جسے اِسلام سے موسوم کیا گیا ہے۔ بلکہ صریح طور پر اس کا دعوٰی یہ ہے کہ ہر زمانے اور ہر دَور میں پوری نوعِ انسانی کے لیے زمین پر زندگی بسر کرنے کا ایک ہی ڈھنگ اللہ کے نزدیک صحیح ہے، اور وہ ڈھنگ وہی ہے جس کا نام ’’ا لاسلام‘‘ ہے۔
مجھے یہ سن کر بڑا تعجب ہوا کہ ایشیا اور یورپ کے درمیان کسی مقام پر قرآن کی کوئی نئی تفسیر کی گئی ہے جس کی رُو سے’’دین‘‘ کا مفہوم صرف بندے اور خدا کے انفرادی تعلق تک محدود ہے اور تمدن وریاست کے نظام سے اس کا کوئی علاقہ نہیں ہے۔( اشارہ ہے ترکی اخبار نویسوں کے اُس وفد کی طرف جو ۱۹۴۳ءمیں ہندوستان آیا تھا اور جس کے صدرِ وفد نے یہاں ان خیالات کا اظہار کیا تھا۔ )یہ تفسیر اگر خود قرآن سے اخذ کی گئی ہے تو یقینا بڑی دل چسپ چیز ہو گی لیکن میں نے اٹھارہ سال تک قرآن کا جو تحقیقی مطالعہ کیا ہے اس کی بِنا پر مَیں بلا خوف تردیدکہتا ہوں کہ قرآن اپنے تمام جدید مفسرین کی خواہشات کے علی الرغم‘ الدین کے لفظ کو محدود معنی میں استعمال نہیں کرتا بلکہ اس سے تمام زمانوں کے تمام انسانوں کے لیے ان کی پوری زندگی کا نظام فکر وعمل مراد لیتا ہے۔

شیئر کریں