اب ہمیں یہ بتانا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کیا شکل متعین فرمائی ہے اور اس کا ثبوت کیا ہے کہ یہ شکل حضورؐ ہی کی متعین فرمائی ہوئی ہے۔
اولاً: حضورؐ نے یہ بات لوگوں کی مرضی پر نہیں چھوڑ دی کہ فردًا فردًا جس مسلمان کا جب جی چاہے اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی جانور قربانی کر دے، بلکہ آپؐ نے تمام امت کے لیے تین دن مقرر فرما دیے تاکہ تمام دنیا کے مسلمان ہر سال انھی خاص دنوں میں اپنی اپنی قربانیاں ادا کریں۔ یہ بات ٹھیک اسلام کے مزاج کے مطابق ہے۔ نماز کے معاملے میں بھی یہی کیا گیا ہے کہ فرض نمازوں کو پانچوں وقت جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیا گیا، ہفتے میں ایک مرتبہ جمعہ کی نماز لازم کی گئی تاکہ پنج وقتہ نمازوں سے زیادہ بڑے اجتماعات کی شکل میں مسلمان اسے ادا کریں، اور سال میں دو مرتبہ عیدین کی نمازیں مقرر کیں تاکہ انھیں ادا کرنے کے لیے جمعہ سے بھی زیادہ بڑے اجتماعات منعقد ہوں۔ اسی طرح روزوں کے معاملہ میں بھی تمام مسلمانوں کے لیے ایک مہینا مقرر کر دیا گیا تاکہ سب مل کر ایک ہی زمانے میں یہ فرض ادا کریں۔ اجتماعی عبادت کا یہ طریقہ اپنے اندر بے شمار فوائد رکھتا ہے۔ اس سے پورے معاشرے میں اس خاص عبادت کا ماحول طاری ہو جاتا ہے جسے اجتماعی طور پر ادا کیا جارہا ہو۔ اس سے مسلمانوں میں وحدت و یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ اس سے خدا پرستی کی اخلاقی و روحانی بنیاد پر مسلمان ایک دوسرے سے متحد اور دوسروں سے ممیز ہوتے ہیں۔ اور اس سے ہر وہ فائدہ بھی ساتھ ساتھ حاصل ہوتا ہے جو انفرادی طور پر عبادت بجا لانے سے حاصل ہوسکتا ہے۔
ثانیاً، اس کے لیے آںحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر ایک یوم عید مقرر فرمایا اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ سب مل کر پہلے دو رکعت نماز ادا کریں، پھر اپنی اپنی قربانیاں کریں، یہ ٹھیک قرآنی اشارے کے مطابق ہے۔ قرآن میں نماز اور قربانی کا ساتھ ساتھ ذکر فرمایا گیا ہے اور نماز کو قربانی پر مقدم رکھا گیا ہے۔ اِنَّ صَلاَ تِیْ وَنُسُکِیْ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَاْنْحَرْ۔پھر یہ مسلم معاشرے کی ایک اہم ضرورت بھی پوری کرتی ہے۔ ہر معاشرہ فطری طور پر یہ چاہتا ہے کہ اسے کچھ اجتماعی تہوار دیے جائیں جن میں اس کے سب افراد مل جل کر خوشیاں منائیں۔ اس سے ان میں ایک جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ اور تہوار کی یہ خاص صورت کہ اس کا آغاز اللہ کی ایک عبادت، یعنی نماز سے ہو، اور اس کا پورا زمانہ اس طرح گزرے کہ ہر وقت کسی نہ کسی گھر میں اللہ کی ایک دوسری عبادت یعنی قربانی انجام دی جارہی ہو، اور اس عبادت کے طفیل ہر گھر کے لوگ اپنے دوستوں، عزیزوں، اور غریب ہم سایوں کو ہدیے اور تحفے بھی بھیجتے رہیں، یہ اسلام کی روح اور مسلم معاشرے کی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اسلام ناچ رنگ اور لہو و لعب اور فسق و فجور کے میلے نہیں چاہتا۔ وہ اپنے بنائے ہوئے معاشرے کے لیے میلوں کی فطری مانگ ایسی ہی عید سے پوری کرنا چاہتا ہے جو خدا پرستی، الفت و محبت اورہم دردی و مؤاسات کی پاکیزہ رُوح سے لبریز ہو۔