Search
Close this search box.

فہرست موضوعات

عرض ناشر
دعوت اسلامی اور اس کے طریق کار
ہماری دعوت کیا ہے؟
دعوت اسلامی کے تین نکات
بندگی رب کا مفہوم:
منافقت کی حقیقت:
تناقض کی حقیقت:
امامت میں تغیر کی ضرورت:
امامت میں انقلاب کیسے ہوتا ہے؟
مخالفت اور اس کے اسباب
ہمارا طریق کار
علماء اور مشائخ کی آڑ
زہد کا طعنہ:
رفقاء سے خطاب
مولانا امین احسن اصلاحی
اسلام کے اساسی معتقدات اور ان کا مفہوم
ایمان باللہ:
ایمان بالرسات :
ایمان بالکتب:
حق و باطل کے معرکے میں ہمارا فرض
مسلمانوں کی اقسام
تحریک اسلامی کا قیام اور اس کی غرض
کامیابی کا معیار:
نصرت حق کب آتی ہے؟
میاں طفیل محمد
گزری ہوئی زندگی کا محاسبہ:
خدا کے دین کا صحیح تصور:
نماز کا عملی مقصود
نماز کا سب سے پہلا کلمہ:
تکبیر تحریمہ:
تعویذ:
سورۂ فاتحہ:
سورۂ اخلاص:
رکوع‘ قومہ اور سجدہ:
التحیات:
درود شریف پڑھنے کا تقاضا:
دعاء قنوت کی روشنی میں جائزہ لیجئے:
دعاء قنوت:
آخری دعا اور سلام:
اقامت صلوٰۃ حقیقت
اذان کا مقصد اور اس کی حقیقت:
دین پوری زندگی پر حاوی ہے:
آج دنیا میں کروڑوں مسلمان موجود ہیں مگر نظام اسلام کا وجود نہیں!
دین میں دعوت اسلامی کی اہمیت:
دعوت کی راہ کا پہلا قدم:
دعوت کی راہ کا دوسرا قدم:
اس راہ کا تیسرا قدم:
عبادت کا اصل مفہوم اور اس کی روح:
روحانیت کیا ہے؟
دین اسلام صرف مسلمانوں کا دین نہیں یہ پوری نوع انسانی کا دین ہے:
دین اسلام کو صرف مان لینا کافی نہیں ہے‘ اس کی تبلیغ اور اقامت بھی لازم ہے:
غیر مسلموں کے لیے اسلام کا پیغام:
اور اس میں خواتین کا حصہ

دعوت اسلامی اور اس کے مطالبات

اس ویب سائٹ پر آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب آپ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کی کتابوں کو ’’پی ڈی ایف ‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’یونی کوڈ ورژن‘‘ میں بھی پڑھ سکتے ہیں۔کتابوں کی دستیابی کے حوالے سے ہم ’’اسلامک پبلی کیشنز(پرائیوٹ) لمیٹڈ، لاہور‘‘، کے شکر گزار ہیں کہ اُنھوں نے اس کارِ خیر تک رسائی دی۔ اس صفحے پر آپ متعلقہ کتاب PDF اور Unicode میں ملاحظہ کیجیے۔

اور اس میں خواتین کا حصہ

’’ہم صرف ایک ہاتھ سے دین حق کی عمارت قائم نہیں کرسکتے۔ اس میں دوسرے ہاتھ یعنی عورت کا تعاون ضروری ہے۔ ہماری نسلوں کی پہلی تربیت گاہ ماں کی آغوش ہے۔ ماں کی چھاتی کے ایک ایک قطرۂ شیر کے ساتھ بچہ جذبات و حسیات اور اخلاق بھی اپنے اندر جذب کرتا ہے اور اس کی ایک ایک ادا سے عمل کے طریقے سیکھتا ہے۔ ماں اگر مومنہ و مسلمہ ہے تو بچے بھی مومن و مسلم ہوں گے۔ ماں اگر روح ایمان و اسلام سے خالی ہے تو بچے بھی روح و ایمان و اسلام سے محروم ہوں گے۔ ہم اپنی نسلوں کے تمام اثرات سے حفاظت کر بھی لیں تو بھی یہ بالکل ناممکن ہے کہ مائوں کے نیک و بد اثرات سے بچا سکیں‘‘
’’خیال تو کیجئے کبھی گنتی کے چند نفوس تھے لیکن زمین ان کے وجود سے تھرا اٹھی تھی۔ لیکن آج مردم شماری کے اعتبار سے مسلمانوں کی تعداد کس قدر زیادہ ہے مگر صفحہ گیتی کو خبر تک نہیں کہ کوئی اس کی پشت پر ہے۔ ہمیں خود بتانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ ہم موجود ہیں۔ اگر عورتیں حضرت اسماءؓ کے نمونے پر چلیں گی تب ہی ان فرزندان اسلام کو پیدا کرسکیں گی جن کی موجودگی زمین کو محسوس ہوگی اور وہ پکار کر کہے گی کہ اس کے سینے پر کوئی اللہ کے راستے کا سوار ہے اور اگر انہوں نے یہ روش اختیار نہ کی تو وہ یونہی پیدا ہوتی اور مرتی رہیں گی مگر وہ لوگ نہ پیدا ہوں گے جن سے اسلام کا بول بالا ہو‘‘

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العلمین و الصلوٰۃ و السلام علیٰ رسولہ الکریم محمد و علیٰ الہ و اصحابہ اجمعین۔
محترم خواتین و حضرات! مجھے اس بات کی بڑی خوشی ہے کہ اس شہر میں آکر مجھے مائوں اور بہنوں سے بھی کچھ کہنے کا موقع مل رہا ہے۔ ہمارے اس وقت میں غلط تعلیم و تربیت اور غلط روایات کے پھیلنے کی وجہ سے یہ حالت ہوگئی ہے کہ عورتیں جس طرح اپنی روٹی کپڑے کی ذمہ داری مردوں پر سمجھتی ہیں‘ اسی طرح دین کی ساری ذمہ داریاں بھی مردوں ہی پر خیال کرتی ہیں۔ حالانکہ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام جو دین لے کر آئے ہیں۔ اس دین کی مخاطب عورتیں بھی اسی طرح ہیں جس طرح مرد ہیں۔ فرائض کے حدود ضرور مختلف ہیں لیکن دین کو اختیار کرنے‘ دین کو قائم کرنے‘ حق کی راہ میں جدوجہد کرنے‘ عنداللہ جوابدہ اور مسئول ہونے میں دونوں یکساں ہیں اور ایسے یکساں کہ اگر کوئی عورت ان حقوق و فرائض میں جو اللہ کی طرف سے اس پر عائد ہوتے ہیں‘ کوتاہی کرے گی تو خدا کے ہاں‘ اس سے اسی طرح پرسش ہوگی‘ جس طرح مرد سے اس کی کوتاہیوں پر ہوگی۔ وہ مسئولیت سے ہرگز نہیں بچ سکتی۔ اگر آپ اپنی تاریخ کو پڑھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کس طرح اقامت دین کی جدوجہد میں عورتوں نے مردوں کی برابر حصہ لیا ہے۔ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دین کی دعوت دی تو سب سے پہلے جن لوگوں نے اس دعوت کو قبول کیا‘ ان میں ایک خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ بھی ہیں۔ حالانکہ اس وقت اسلام کو قبول کرنا کوئی سہل کام نہ تھا۔ بلکہ دنیا جہان کی مصیبتوں کو مول لینا تھا۔ انہوں نے نہ صرف اسلام کو قبول کرنے میں سبقت کی بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھارس بندھانے والی غیبی تائید اور حق کی امداد کا یقین دلانے والی توکل اور بھروسہ کی تلقین کرنے والی بنیں۔ انہوں نے سب سے پہلے تسلی دی‘ سب سے پہلے دین حق کے اس علم کو اٹھایا اور ایسی وفاداریاں اور عشق و شوق کے ساتھ کہ ان کی وفاداری نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں اور تمام نسل انسان کے لیے قابل فخر ہے۔
ان کا مال اور ان کا دل و دماغ سب اسلام پر نثار ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وفات کا سب سے زیادہ غم ہوا۔ اس لیے نہیں کہ آپ کی عزیز بیوی آپ سے جدا ہوگئیں بلکہ اس لیے کہ دین کا سب سے بڑا جان نثار دنیا سے اٹھ گیا۔
اہل حق پر سخت سے سخت دور آئے‘ کون سی مصیبتیں ہیں جو ان پر نہیں توڑی گئیں‘ کانٹوں میں گھسیٹے گئے‘ تپتی ہوئی ریت پر لٹائے گئے‘ گرم سلاخوں سے داغے گئے‘ بری طرح زود و کوب کیے گئے۔ ان مصیبتوں کو مردوں کی طرح عورتوں نے بھی سہا۔ بلکہ تکلیفیں جھیلنے اور شدائد و مصائب کو برداشت کرنے کی ان سے بہتر مثالیں مرد بھی پیش نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ وہ حق پرست خواتین تھیں جنہیں کسی تدبیر سے بھی رام نہ کیا جاسکا۔ پھر جب وہ وقت آیا کہ مکہ کی فضا اہل حق کے لیے بالکل ہی ناساز گار ہوگئی‘ قریش نے مسلمانوں پر خدا کی زمین تنگ کر دی اور مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو اس میں بھی خواتین شریک تھیں۔ اس کے بعد ہجرت مدینہ کا مرحلہ پیش آیا تو جس طرح مردوں نے اپنے وطن اور اپنے اعزاء اور اپنے املاک و اموال کو خیر باد کہا اسی طرح عورتوں نے بھی سارے علائق کو ترک کرکے حق کا ساتھ دیا اور تاریخ اسلام کے بعد کے صبر آزما مرحلوں میں بھی عورتوں کی قربانی‘ ان کے استقلال و برداشت‘ ان کے اسلام سے تعلق کی ایسی شاندار مثالیں ملتی ہیں کہ اگر ان کو بیان کیا جائے تو داستان بہت طویل ہو جائے گی۔ میرے کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ جب تک عورتیں اپنے درجہ کو ٹھیک ٹھیک سمجھتی تھیں اور جب تک یہ یقین دلوں میں جاگزیں تھا کہ اسلام کی دعوت کے مخاطب مرد و عورت دونوں ہی ہیں۔ اور اقامت دین کی ذمہ داری میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔ عورتیں راہ حق کے جانباز سپاہیوں میں تھیں‘ اس راہ کی پتھر نہیں بنی تھیں۔ عرب کی معاشرت میں یوں بھی عورت کی منزلت بہت پست تھی۔ اس لیے مخالفین کو ان پر مظالم توڑنے کی اور بھی زیادہ سہولتیں حاصل تھیں۔ عورتوں نے ان تمام تلخیوں کو گوارا کیا اورعشق حق اور محبت رسولؐ کی ایسی روایتیں قائم کیں کہ ان کو سن کر آج بھی دلوں میں گرمی اور ایمان میں تازگی پیدا ہو جاتی ہے۔ احد کے معرکہ میں میں نبی کریمؐ اور آپ کے بہت سے رفقاء و اصحاب کو سخت حالات سے دو چار ہونا پڑا۔ اس معرکے میں بعض دوسری ناگوار افواہوں کے ساتھ یہ خبر بھی پھیل گئی کہ حضورؐ شہید ہوگئے۔ اس خبر کا مدینہ پہنچنا تھا کہ ایک انصاریہ خاتون گھر سے نکل پڑیں کہ جو وجود پاک دین حق جاننے کا واحد ذریعہ تھا کیا واقعی وہ بھی دست ستم کا نشانہ بن گیا؟ وہ مدینہ سے نکل کر سیدھے میدان جنگ کی طرف روانہ ہوگئیں۔ احد سے واپس آنے والا جو شخص ملتا اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حال دریافت کرتیں۔ بعض آدمیوں نے ان سے کہا کہ نہایت غم و افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ تمہارا نوجوان بیٹا‘ تمہارے والد اور تمہارے شوہر جنگ میں شہید ہوگئے۔ یہ خبر کس قدر صبر آزما تھی! ایک عورت کا کلیجہ پھاڑ دینے کے لیے ان میں سے کوئی ایک خبر بھی کافی تھی‘ ان کے عزیز ترین سہارے ایک ایک کرکے اس طرح رخصت ہوگئے تھے لیکن ان کا اسلام سے جو تعلق تھا‘ اس کا ذرا اثر دیکھئے! فرماتی ہیں…… ’’میں باپ‘ بیٹے اور شوہر کا ماجرا نہیں پوچھ رہی ہوں‘ یہ بتائو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ انہوں نے بشارت دی کہ الحمد للہ آپ کو کوئی گزند نہیں پہنچا۔ بولیں کہ میں اس کو اس وقت تک باور نہیں کرسکتی جب تک روئے مبارک کو اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لوں۔ اس کے بعد حضورؐ کو صحیح و سالم دیکھ کر فرمایا: کل مصیبۃ بعزک جلیل اے رسول پاکؐ آپ کے ہوتے ہوئے ساری مصیبتیں ہیچ ہیں۔
یہ ایک واقعہ ہے جو بطور مثال کے میں نے پیش کیا ہے۔ عورتوں کی تاریخ بہت روشن ہے اور اسلام کا ہر دور ایسے بہت سے کارناموں سے معمور ہے۔ تاریخ اسلام کے اس دور میں بھی جب کہ مردوں کی ایمانی قوت کمزور ہوگئی تھی۔ ایسی عورتیں مل جائیں گی جن پر مسلمان فخر کرسکتے ہیں۔
اسلام نے اپنے روشن زمانے میں جس قدر جنگیں لڑیں۔ ان میں مردوں نے اگر تیر و خنجر چلائے اور زخم پر زخم کھائے‘ تو عورتوں نے پائنچے چڑھا کر زخمیوں کو پانی پلایا‘ ان کی مرہم پٹی کی‘ ان کی ڈھارس بندھائی‘ اپنے مال سے اپنے زیورات سے دین حق کی امداد کی۔ چھوٹی چھوٹی بچیوں نے جبکہ آپؐ کے نام لینے والے کم تھے۔ آپؐ کا خیر مقدم کیا۔ آپؐ کی تعریف کے گیت گائے اور آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا کہ ’’اے بچیو! کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا‘ ہاں۔ ارشاد ہوا ’’میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں‘‘۔ مردوں میں سے کس گروہ کو یہ شرف حاصل ہوسکا۔
یہ اس دور کا حال تھا جب عورتیں جانتی تھیں کہ مرد عورت دونوں دین حنیف کے یکساں حامل اور یکساں مخاطب ہیں۔ اس وقت تک ہر وہ چیز جو راہ حق میں عائق بنی خواہ وہ کتنی ہی عزیز و محبوب کیوں نہ ہو‘ اس کو انہوں نے ٹھکرا دیا۔ محبوب سے محبوب شوہر جس کا رشتہ دین حق سے استوار نہ ہوتا‘ ان کی نگاہ میں مبغوض ہو جاتا۔ غریب سے غریب اور مفلس سے مفلس شوہر کو محض حق پرستی کی بنا پر انہوں نے محبوب بنایا۔ عورتوں نے اس چیز میں کبھی پست ہمتی نہیں دکھائی۔ شوہر نے اگر دین حق سے اعراض کیا تو عورت نے اس سے دامن چھڑا لیا۔ بیٹیوں تک کے رشتے انہوں نے دین کی خاطر توڑ ڈالے۔
اسلام کا اثر ان کے قلوب پر اس حد تک تھا کہ ان کی ساری نفرت و محبت للّٰہ و فی اللّٰہ تھی۔ مائوں کے لیے ان کے بیٹیوں کا دولت مند ہونا قابل ذکر چیز نہ تھی۔ اگر وہ خدا کی فرمانبرداری کے جذبے سے سرشار نہ ہوں‘ کسی شوہر کا بڑے سے بڑا ایثار ان کی نظر میں کوئی وقعت نہ رکھتا تھا۔ اگر وہ مومن نہیں ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں ہے۔ یہ اس روشن دور کی روداد ہے جبکہ عورتوں کو یہ احساس تھا کہ وہ بھی دین حق کے قائم کرنے کی ذمہ دار ہیں۔
اب دیکھئے کیسی کایا پلٹ گئی ہے۔ آج سمجھ لیا گیا ہے کہ جس طرح نان و نفقہ کی ذمہ داری مرد پر ہے اسی طرح دین کے لیے جدوجہد کرنا بھی مرد ہی کا فریضہ ہے۔ ان کی پہلی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو شریعت الٰہی کا مخاطب نہیں سمجھتیں۔ حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت مردوں اور عورتوں کو یکساں دی ہے۔ اس غلط تصور نے ہماری اسلامی زندگی تہس نہس کر ڈالی ہے۔ اب حالات یہ ہے کہ عورتیں در حقیقت سوسائٹی کے تمام معائب و خرافات اپنے اندر اور اپنے بال بچوں اور شوہروں کے اندر پھیلانے کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ اور اگر انہیں ناگوار نہ ہو تو ذرا صاف الفاظ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ طاغوتی دور میں عورتوں نے شیطان کی ایجنسی لے رکھی ہے۔ تمام وہ وبائیں جو سوسائٹی میں پھیلتی ہیں‘ انہیں بری طرح متاثر کرتی ہیں اور ان سے ان کی نسلوں اور ان کی اولادوں میں پھیلتی ہیں۔ دیہاتوں میں حالات کچھ مختلف ہیں‘ مگر شہروں کے حالات بالعموم یہی ہیں۔
عورت کے بگڑنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تمام نسل کی ذہنی و اخلاقی حالت مسموم ہو جاتی ہے۔ کوی ماں اپنے بچہ کے منہ میں صرف دودھ ہی نہیں ڈالتی بلکہ اس کے ساتھ اپنے اخلاق کی روح بھی اس کی رگ رگ کے اندر اتارتی ہے۔ اگر اس کے اندر روح دین کمزور ہے‘ اخلاق انسانی اور حس ایمانی مردہ ہے تو اس سے زیادہ زہریلے جراثیم بچے میں سرایت کر جائیں گے جتنے ایک مدقوق ماں کا دودھ پینے سے ایک بچہ کے اندر پہنچ جاتے ہیں۔
صحیح اسلامی تربیت کا اصلی سرچشمہ اور بہترین ذریعہ ہماری مائیں ہیں۔ جب تک ہماری مائیں حضرت اسماء ؓ کے نمونہ کی تقلید نہ کریں گے کس طرح عبداللہ بن زبیر جیسے جانباز پیدا ہوسکیں گے؟ جب تک وہ راہ حق میں سولی پر چڑھ جانے والے بیٹے کو دیکھ کر نہ کہیں کہ اچھا ابھی مرکب سے یہ سوار اترا نہیں۔ اس وقت تک دارو رسن کا کھیل کھیلنے والے فرزند کن کی کوکھوں سے جنم لیں گے؟ انہی محترم خاتون سے جبکہ یہ اپنی بینائی کھو چکی ہیں‘ بیٹے نے آکر آزمائش کے طور پر ماں سے پوچھا ’’ماں میں اپنے آپ کو اعداء کے حوالے کر دوں یا معافی مانگ لوں‘‘۔ انہوں نے اپنے کمزور ہاتھوں سے آپ کو پکڑا‘ اور بدن کو چھو کر پوچھا کہ ’’یہ کیا پہن رکھا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ’’زرہ‘‘ فرمایا ’’راہ حق کے مجاہدوں کو اس قسم کے پردوں کی ضرورت نہیں‘ اسے اتار دو اور راہ حق میں سینہ سپر ہو کر لڑو کہ کل کو تمہارے دشمنوں کو تم پر ہنسنے کا کوئی موقع نہ ملے‘‘
ہم صرف ایک ہاتھ سے دین حق کی عمارت قائم نہیں کرسکتے۔ اس میں دوسرے ہاتھ یعنی عورت کا تعاون ضروری ہے۔ ہماری نسلوں کی پہلی تربیت گاہ ماں کی آغوش ہے۔ ماں کی چھاتی کے ایک ایک قطرۂ شیر کے ساتھ بچہ جذبات و حسیات اور اخلاق بھی اپنے اندر جذب کرتا ہے اور اس کی ایک ایک ادا سے عمل کے طریقے سیکھتا ہے۔ ماں اگر مومنہ و مسلمہ ہے تو بچے بھی مومن و مسلم ہوں گے۔ ہاں اگر روح ایمان و اسلام سے خالی ہے تو بچے بھی اسی طرح ایمان و اسلام سے محروم ہوں گے۔ ہم اپنی نسلوں کی تمام اثرات سے حفاظت کر بھی لیں تو یہ بالکل ناممکن ہے کہ مائوں کے نیک و بد اثرات سے ان کو بچا سکیں۔
مردوں کی خرابی کے اثرات بھی مہلک ہیں مگر ان کی خرابی سے ممکن ہے کہ بچنے کی شکلیں پیدا ہو جائیں لیکن عورتوں کے بگاڑ کے خراب نتائج سے بچنا ناممکن ہے۔ ان کی پیدا کی ہوئی خرابی جڑ کی خرابی ہے‘ شاخوں اور تنے کی خرابی نہیں ہے‘ اس کا علاج ممکن ہے۔ اسی وجہ سے ان پر ذمہ داری بہت سخت ہے۔ یہ جو بیماریاں بچوں کو پلا دیں گی‘ کوئی ماہر سے ماہر طبیب بھی ان کا علاج نہیں کرسکتا۔ جو درخت اپنی نشوونما کے ابتدائی دور ہی میں آفت رسیدہ ہو جائے۔ پھر اس کا تن آور ہونا مشکل ہی ہوتا ہے۔ پس عورت کا فرض ہے کہ آج ہم دین کو تازہ کرنے کا جو عزم لے کر اٹھے ہیں‘ اس کام میں ہمارا ہاتھ بٹائیں ہم ان کی شرکت عمل کے سخت محتاج ہیں۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم عورتوں کو اب تک براہ راست مخاطب کرنے کے وسائل پیدا نہ کر سکے۔ میں مائوں اور بہنوں سے خدا کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں کہ وہ اپنی غفلت دور کر دیں‘ اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ یہ چیز ان کے فرائض میں سے ہے کہ وہ سمجھیں کہ اللہ کا دین کیا ہے‘ خدا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا ہے؟ ہر ماں‘ ہر لڑکی اور ہر بہن کا یہ فریضہ ہے۔ پھر ان کے فرائض میں یہ بھی ہے کہ ان کے بطن سے جو بچے پیدا ہوں‘ ان کے اندر صرف دودھ ہی نہ اتاریں بلکہ اپنے عمل سے اپنے اخلاق سے اور روز کی زندگی سے ان میں ان تمام اساسات دین کو راسخ کر دیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا لب لباب ہیں‘ انہیں اپنی جدوجہد کے نتائج کی طرف سے مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ ان کا مرتبہ بہت اونچا ہے۔ ان کی باتیں بے اثر نہیں رہ سکتی ہیں‘ اپنے بچوں کو باقاعدہ حکم دے سکتی ہیں اور ہر سعید بیٹے کا فرض ہے کہ وہ اپنی ماں کے حکم کی تعمیل کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ کس کی خدمت کروں؟ آپؐ نے فرمایا‘ ماں کی۔ پھر یہی سوال کیا‘ فرمایا ماں کی‘ پھر یہی پوچھا‘ جواب دیا‘ ماں کی۔ چوتھی دفعہ پوچھنے پر فرمایا‘ باپ کی۔ لیکن شوہر کے ساتھ بیوی کا تعلق تعاون کا تعلق ہے۔ اور یہ تعاون دین و دنیا دونوں میں ہے۔ جس طرح گھریلو زندگی میں ایک بیوی کا فرض ہے کہ وہ شوہر کی وفادار‘ امانت دار اور خیر خواہ رہے‘ اسی طرح دینی معاملات میں بھی اس کا فرض ہے کہ وہ شوہر کو نیکی اور بھلائی کے مشورے دے اور اس کی گمراہیوں پر اس سے زیادہ بے چین ہو‘ جتنا دنیوی معاملات میں اس کی غلطیوںپر ہوتا ہے اور اس کام میں اسے جو دکھ بھی اٹھانے پڑیں‘ انہیں صبر کے ساتھ برداشت کرے‘ لیکن کبھی ٹھنڈے دل سے شوہر کی گمراہیوں کو گوارا نہ کرے۔ اگر کوئی شوہر نیک ارادہ کرے تو ہرگز ہرگز کوئی عورت محض رسم و رواج کی پابندی کی وجہ سے اس کے ارادۂ حق میں رکاوٹ نہ ڈالے۔ وہ یہ ضرور معلوم کرے کہ دین حق کی تعلیم کیا ہے؟ اور جب معلوم ہو جائے کہ شوہر صحیح راستہ پر گامزن ہے تو اس سے تعاون کرے‘ اس کی ڈھارس بندھائے‘ اس کی حوصلہ افزائی کرے۔ عسرویسر ہرحال میں اس کی رفاقت و غمگساری کا یقین دلائے۔ حقیقت یہ ہے کہ بغیر اس کی رفاقت کے مرد کے لیے راہ حق کا سفر بہت دشوار ہے۔ یہی ایک کوچہ ہے جس میں میاں بیوی کی رفاقت سب سے زیادہ مطلوب اور اللہ کو پسند ہے۔ جو عورت دین حق کی اقامت کی راہ میں مرد کا دست و بازو بنتی ہے۔ اس مقصد کی خاطر مصیبتیں جھیلتی ہے اور فاقے کرتی ہے‘ وہی عورت امہات المومنین ؓ اور صحابیاتؓ کے مبارک نمونے پر ہے اور جو عورت اس راہ میں پتھر بنتی ہے تو وہ عورت وہ ہے جس نے شیطان کی ایجنسی لے رکھی ہے۔
ہماری اصلی دولت عورتوں ہی کے پاس ہے۔ نسلیں انہی کی تحویل میں ہیں۔ ان کا بٹھایا ہوا نقش قبر تک کھرچنے کے باوجود نہیں مٹتا‘ خواہ وہ نقش باطل بٹھائیں یا نقش حق۔ وہ چاہیں تو ان کے فیض تربیت سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو ہماری تاریخ کو از سر نو روشن کر دیں اور چاہیں تو اسی طرح کے لوگوں کو جنم دیں جیسے کہ آج کل کے مسلمان ہیں۔ خیال تو کیجئے کبھی گنتی کے چند نفوس تھے‘ لیکن زمین ان کے وجود سے تھرا اٹھی تھی۔ لیکن آج مردم شماری کے اعتبار سے مسلمانوں کی تعداد کس قدر زیادہ ہے‘ مگر صفحہ گیتی کو خبر تک نہیں کہ کوئی اس کی پشت پر ہے۔ ہمیں خود بتانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ ہم موجود ہیں۔ اگر عورتیں حضرت اسماءؓ کے نمونہ پر چلیں گی تب ہی ان فرزندان اسلام کو پیدا کرسکیں گی جن کی موجودگی زمین کو محسوس ہوگی‘ اور وہ پکار کر کہے گی کہ اس کے سینے پر کوئی اللہ کے راستے کا سوار ہے۔ اگر انہوں نے یہ روش اختیار نہ کی تو دنیا یونہی پیدا ہوتی اور مرتی رہے گی۔ مگر وہ لوگ پیدا نہ ہوں گے جن سے اسلام کا بول بالا ہو۔
میں پھر اپنی مائوں اور بہنوں سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنی روشن تاریخ کو یاد کریں اور اس راہ پر چلنے کی کوشش کریں۔ ہم نے اپنے خدا سے جو مبارک عہد کیا ہے کہ ہم دین حق کو اپنے اوپر اور دوسروں پر قائم کریں گی اس میں وہ ہماری مدد کریں۔
میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مردوں کو توفیق عمل دے اور عورتوں کو اس راہ میں ان کا رفیق سفر بنا دے۔ آمین!

شیئر کریں