مثال کے طور پر انگلستان کو لیجیے۔ انگریزی قانون جن لوگوں سے بحث کرتا ہے وہ دو بڑی قسموں پر تقسیم ہوتے ہیں: ایک برطانوی رعایا (British Subjects) دوسرے اغیار( Aliens)۔ برطانوی رعایا کا اطلاق اولاً ان لوگوں پر ہوتا ہے جو برطانوی حدود کے اندر یا باہر ایسے باپوں کی نسل سے پیدا ہوئے ہوں جو شاہ برطانیہ کی اطاعت و وفاداری کے ملتزم ہوں۔ یہ فطرتاً پیدائشی رعایائے برطانیہ (Natural Born British Subjects) کہلاتے ہیں اور ان کو آپ سے آپ اطاعت و وفاداری کا ملتزم قرار دیا جاتا ہے بغیر اس کے کہ انھوں نے بالارادہ شاہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف لیا ہو۔ ثانیاً یہ لفظ ان لوگوں کے لیے استعمال ہوتا ہے جو پہلے اغیار میں سے تھے اور پھر چند قانونی شرائط کی تکمیل کے بعد انھوں نے شاہ برطانیہ کی وفاداری کا حلف لے کر برطانوی رعایا ہونے کا سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا ہو۔ رہے اغیار، تو اس سے مراد وہ تمام لوگ ہیں جو کسی دوسری قومیت سے تعلق رکھتے ہوں اور کسی دوسرے اسٹیٹ کی وفاداری کے ملتزم ہوں مگر برطانوی مملکت کی حدود میں مقیم ہوں۔ ان مختلف قسم کے اشخاص کے متعلق انگریزی قانون کے حسب ذیل اصول قابل ملاحظہ ہیں:
(۱)اغیار میں سے ہر شخص جو برطانوی رعایا ہونے کے لیے ضروری قانونی شرائط کی تکمیل کر چکا ہو، یہ اختیار رکھتا ہے کہ اپنی سابق قومیت ترک کرکے برطانوی قومیت میں داخل ہونے کی درخواست کرے۔ اس صورت میں سکرٹری آف اسٹیٹ اس کے حالات کی تحقیق کرنے کے بعد شاہ برطانیہ کی اطاعت ووفاداری کا حلف لے کر اسے برطانوی قومیت کا سرٹیفکیٹ عطا کر دے گا۔
(۲) کوئی شخص خواہ پیدائشی رعایائے برطانیہ ہو، یا باختیار خود برطانوی رعایا میں داخل ہوا ہو، ازروئے قانون یہ حق نہیں رکھتا کہ مملکت برطانیہ کے حدود میں رہتے ہوئے کسی دوسری قومیت کو اختیار کرلے اور کسی دوسرے اسٹیٹ کی وفاداری کا حلف اٹھائے، یا جس قومیت سے وہ پہلے تعلق رکھتا تھا اس کی طرف پھر واپس چلا جائے۔ یہ حق اسے صرف اس صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب کہ وہ برطانوی حدود سے باہر مقیم ہو۔
(۳) برطانوی حدود سے باہر مقیم ہونے کی صورت میں رعایائے برطانیہ کا کوئی فرد (خواہ وہ پیدائشی رعیت ہو یا رعیت بن گیا ہو) یہ حق نہیں رکھتا کہ حالت جنگ میں برطانوی قومیت ترک کرکے کسی ایسی قوم کی قومیت اور کسی ایسے اسٹیٹ کی وفاداری اختیار کرے جو شاہ برطانیہ سے برسر جنگ ہو۔ یہ فعل برطانوی قانون کی رُو سے غدر کبیر (High Treason)ہے جس کی سزا موت ہے۔
(۴) برطانوی رعایا میں سے جو شخص برطانوی حدود کے اندر یا باہر رہتے ہوئے بادشاہ کے دشمنوں سے تعلق رکھے اور ان کو مدد اور آسائش بہم پہنچائے یا کوئی ایسا فعل کرے جو بادشاہ کے دشمنوں کو تقویت پہنچانے والا یا بادشاہ اور ملک کی قوت حملہ و مدافت کو کمزور کرنے والا ہو وہ بھی غدر کبیر کا مرتکب ہے اور اس کی سزا بھی موت ہے۔
(۵) بادشاہ، ملکہ یا ولی عہد کی موت کے درپے ہونا یا اس کا تصور کرنا، بادشاہ کی رفیقہ یا اس کی بڑی بیٹی یا ولی عہد کی بیوی کو بے حرمت کرنا، بادشاہ کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرنا یا نشانہ تاکنا یا ہتھیار اس کے سامنے لانا جس سے مقصود اس کو نقصان پہنچانا یا خوف زدہ کرنا ہو، اسٹیٹ کے مذہب کو تبدیل کرنے یا اسٹیٹ کے قوانین کو منسوخ کرنے کے لیے قوت استعمال کرنا، یہ سب افعال بھی غدر کبیر ہیں اور ان کا مرتکب بھی سزائے موت کا مستحق ہے۔
(۶) بادشاہ کو اس کے منصب، اعزاز یا القاب سے محروم یا معزول کرنا بھی جرم ہے جس کی سزا حبس دوام تک ہوسکتی ہے۔
ان سب امور میں بادشاہ سے مراد وہ شخص ہے جو بالفعل (De Facto) بادشاہ ہو، خواہ بالحق (De Jure)بادشاہ ہو یا نہ ہو۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ قوانین کسی جذباتی بنیاد پر مبنی نہیں ہیں بلکہ اس اصول پر مبنی ہیں کہ قائم شدہ ریاست، جس کے قیام پر ایک خطہ زمین میں سوسائٹی کے نظم کا قیام منحصر ہو، اپنے اجزائے ترکیبی کو انتشار سے بجبر روکنے اور اپنے نظام کو خرابی سے بچانے کے لیے طاقت کے استعمال کا حق رکھتی ہے۔
اب دیکھیے کہ برطانوی قانون جنھیں ’’اغیار‘‘ کہتا ہے، ان کی حیثیت تھوڑے سے فرق کے ساتھ وہی ہے جو اسلامی قانون میں اُن لوگوں کی حیثیت ہے جو ’’ذمی ۱؎ ‘‘کہلاتے ہیں۔ جس طرح ’’برطانوی رعایا‘‘ کا اطلاق پیدائشی اور اختیاری رعایا پر ہوتا ہے اُسی طرح اسلام میں بھی ’’مسلمان‘‘ کا اطلاق دو قسم کے لوگوں پر ہوتا ہے: ایک وہ جو مسلمانوں کی نسل سے پیدا ہوں، دوسرے وہ جو غیر مسلموں میں سے باختیار خود اسلام قبول کریں۔ ’’برطانوی قانون‘‘ بادشاہ اور شاہی خاندان کو صاحب حاکمیت ہونے کی حیثیت سے جو مقام دیتا ہے اسلامی قانون وہی حیثیت خدا اور اس کے رسول کو دیتا ہے۔ پھر جس طرح برطانوی قانون برطانوی رعایا اور اغیار کے حقوق واجبات میں فرق کرتا ہے اسی طرح اسلام بھی مسلم اور ذمی کے حقوق و واجبات میں فرق کرتا ہے۔ جس طرح برطانوی قانون برطانوی رعایا میں سے کسی شخص کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ حدودِ مملکت برطانیہ میں رہتے ہوئے کسی دوسری قومیت کو اختیار کرے اور کسی دوسرے اسٹیٹ کی وفاداری کا حلف اٹھائے، یا اپنی سابق قومیت کی طرف پلٹ جائے، اسی طرح اسلامی قانون بھی کسی مسلم کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ دارالاسلام کے اندر رہتے ہوئے کوئی دوسرا دین اختیار کرے یا اس دین کی طرف پلٹ جائے جسے ترک کرکے وہ دین اسلام میں آیا تھا۔ جس طرح برطانوی قانون کی رُو سے برطانوی رعایا کا وہ فرد سزائے موت کا مستحق ہے جو برطانوی حدودکے باہر رہتے ہوئے شاہ برطانیہ کے دشمنوں کی قومیت اختیار کرلے اور کسی دشمن سلطنت کی وفاداری کا حلف اٹھائے، اسی طرح اسلامی قانون کی رُو سے وہ مسلمان بھی سزائے موت کا مستحق ہے جو دارالاسلام کے باہر رہتے ہوئے حربی کافروں کا دین اختیار کرلے۔ اور جس طرح برطانوی قانون ان لوگوں کو ’’اغیار‘‘ کے سے حقوق دینے کے لیے تیار ہے جنھوں نے برطانوی قومیت چھوڑ کر کسی برسرصلح قوم کی قومیت اختیار کرلی ہو اسی طرح اسلامی قانون بھی ایسے مرتدین کے ساتھ معاہد قوم کے کافروں کا سا معاملہ کرتا ہے جو دارالاسلام سے نکل کر کسی ایسی کافر قوم سے جاملے ہوں جس سے اسلامی حکومت کا معاہدہ ہو۔ اب یہ ہمارے لیے ایک ناقابل حل معما ہے کہ جن لوگوں کی سمجھ میں اسلامی قانون کی پوزیشن نہیں آتی ان کی سمجھ میں برطانوی قانون کی پوزیشن کیسے آجاتی ہے۔