’’شہادۃ القرآن ‘‘ مطبوعہ پنجاب پریس سیالکوٹ طبع ششم کے ساتھ ایک ضمیمہ ہے جس کا عنوان ہے ’’گورنمنٹ کی توجہ کے لائق ‘‘ اس میں مرزا صاحب لکھتے ہیں:
’’سومیرا مذہب جس کو میں بار بار ظاہر کرتاہوں ،یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں ۔ دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیاہو ، جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سائے میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے ۔ (ص ۳)
’’تبلیغ رسالت ‘‘جلد ہفتم مطبوعہ فاروق پریس قادیان (اگست ۱۹۲۲ء ) میں مرزا صاحب کی ایک درخواست ’’بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنربہادر دام اقبالہ ‘‘ درج ہے جس میں وہ پہلے اپنے خاندان کی وفاداریوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ چٹھیا ں نقل کرتے ہیں جو ان کے والد مرزا غلام مرتضیٰ خان کو کمشنر لاہور ،فنانشل کمشنر پنجاب اور دوسرے انگریزافسروں نے ان کی وفادارانہ خدمات کے اعتراف میں عطا کی تھیں۔ نیز ان خدمات کو گنایا ہے جو ان کے خاندان کے دوسرے بزرگوں نے انجام دیں ۔ پھر لکھتے ہیں:
’’میں ابتدائی عمرسے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ برس کی عمر تک پہنچا ہوں ، اپنی زبان اور قلم سے اس اہم کام میں مشغول ہوں تاکہ مسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ کو دور کروں جو ان کو دلی صفائی اور مخلصانہ تعلقات سے روکتے ہیں۔‘‘(ص ۱۰)
آگے چل کر لکھتے ہیں :
’’اور میں نے نہ صرف اس قدر کام کیاکہ برٹش انڈیا کے مسلمانوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی اطاعت کی طرف جھکایا بلکہ بہت سی کتابیں عربی اور فارسی اور اُردو میں تالیف کرکے ممالک اسلامیہ کے لوگوں کو بھی مطلع کیا کہ ہم لوگ کیوں کر امن اور آزادی سے گورنمنٹ انگلشیہ کے سایہ عاطفت میں زندگی بسر کررہے ہیں ۔ ‘‘ (ص ۱۰)
پھر وہ اپنی کتابوں کی ایک لمبی فہرست دیتے ہیں جن سے ان کی وفادارانہ خدمات کا ثبوت ملتاہے۔ پھر لکھتے ہیں :
’’گورنمنٹ تحقیق کرے کہ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ہزاروں مسلمانوں نے جو مجھے کافر قراردیا اور مجھے اور میری جماعت کو جو ایک گروہ کثیر پنجاب اور ہندوستان میں موجود ہے ہر ایک طور کی بدگوئی اور بداندیشی سے ایذا دینا اپنا فرض سمجھا ۔ اس تکفیر اور ایذا کا ایک مخفی سبب یہ ہے کہ ان نادان مسلمانوں کے پوشیدہ خیالات کے برخلاف دل و جان سے گورنمنٹ انگلشیہ کی شکرگزاری کے لیے ہزار ہا اشتہارات شائع کیے گئے اور ایسی کتابیں بلادعرب و شام وغیرہ تک پہنچائی گئیں ؟ یہ باتیں بے ثبوت نہیں۔ اگر گورنمنٹ توجہ فرمادے تو نہایت بدیہی ثبوت میرے پاس ہیں۔ میں زور سے کہتاہوں اور میں دعویٰ سے گورنمنٹ کی خدمت میں اعلان دیتاہوں کہ باعتبار مذہبی اصول کے مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے گورنمنٹ کا اول درجے کا وفادار اور جاں نثار یہی نیا فرقہ ہے جس کے اصولوں میں سے کوئی اصول گورنمنٹ کے لیے خطرناک نہیں۔ ‘‘ (ص ۱۳)
آگے چل کر پھرلکھتے ہیں :
’’ اور میں یقین رکھتاہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے، ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرناہے۔‘‘ ( ص ۱۷)
تھوڑی دیر کے لیے اس سوال کو نظر انداز کردیجیے کہ یہ زبان اور یہ تحریر کسی نبی کی ہو بھی سکتی ہے یا نہیں ۔ ہم یہاں جس پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ یہ اس مذہب کی تبلیغ و تلقین اور ’’مدافعت اسلام ‘‘ کے وہ مقاصد اور محرکات ہیں جو بانی مذہب نے خود بیان کیے ہیں ۔ کیا اس کے بعد بھی یہ نام نہاد ’’خدمت دین ‘‘ کسی قدر کی مستحق رہ جاتی ہے ؟ اس پر بھی اگر کوئی شخص اس خدمت دین کی حقیقت نہ سمجھ سکے تو ہم اس سے گزارش کریں گے کہ ذرا قادیانیوں کے اپنے اعترافات کو آنکھیں کھول کر پڑھے:
’’عرصہ دراز کے بعد اتفاقاً ایک لائبریری میں ایک کتاب ملی جو چھپ کر نایاب بھی ہوگئی تھی ۔ اس کتاب کا مصنف ہے ایک اطالوی انجینئر، جو افغانستان میں ذمہ دار عہدہ پر فائز تھا۔ وہ لکھتاہے کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب (قادیانی) کو اس لیے شہید کیاگیا کہ وہ جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے اور حکومت افغانستان کو خطرہ لاحق ہوگیاتھا کہ اس سے افغانوں کا جذبہ حریت کمزور ہوجائے گا اوران پر انگریزوں کااقتدار چھا جائے گا …ایسے معتبر راوی کی روایت سے یہ امر پایہ ثبوت تک پہنچ جاتاہے کہ اگر صاحبزادہ عبداللطیف شہید خاموشی سے بیٹھے رہتے اور جہاد کے خلاف کوئی لفظ بھی نہ کہتے تو حکومت افغانستان کو انہیں شہید کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ ‘‘
(مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کاخطبہ جمعہ مندرجہ الفضل مورخہ ۶/اگست ۱۹۳۵ئ)
افغانستان گورنمنٹ کے وزیر داخلہ نے مندرجہ ذیل اعلان شائع کیاہے:
’’کابل کے دواشخاص ملا عبدالحلیم چہار آسیانی و ملانور علی دکاندار قادیانی عقائد کے گرویدہ ہوچکے تھے اور لوگوں کو اس عقیدہ کی تلقین کرکے انہیں اصلاح کی راہ سے بھٹکا رہے تھے …ان کے خلاف مدت سے ایک اور دعویٰ دائر ہوچکاتھا اورمملکت افغانیہ کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضے سے پائے گئے جن سے پایا جاتاہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھ بک چکے تھے ۔ ‘‘
(اخبار الفضل بحوالہ امان افغان ۔ مورخہ ۳/ مارچ ۱۹۲۵ء)
’’روسیہ (یعنی روس ) میںمَیں اگرچہ تبلیغ احمدیت کے لیے گیاتھا لیکن چونکہ سلسلہ احمدیہ اور برٹش حکومت کے باہمی مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اس لیے جہاں میں اپنے سلسلے کی تبلیغ کرتاتھا وہاں لازماً مجھے گورنمنٹ انگریزی کی خدمت گزاری بھی کرنی پڑتی تھی۔ ‘‘ (بیان محمد امین صاحب قادیانی مبلغ ۔ مندرجہ اخبار الفضل مورخہ ۲۸ستمبر ۱۹۲۲ء )
’’دنیا ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ سمجھتی ہے ، چنانچہ جب جرمنی میں احمدیہ عمارت کے افتتاح کی تقریب میں ایک جرمن وزیر نے شمولیت کی تو حکومت نے اس سے جواب طلب کیا کہ کیوں تم ایسی جماعت کی کسی تقریب میں شامل ہوئے جوانگریزوں کی ایجنٹ ہے ۔‘‘
(خلیفہ قادیان کا خطبہ جمعہ ، مندرجہ اخبار الفضل مورخہ یکم نومبر ۱۹۳۴ء )
’’ہمیں اُمید ہے کہ برٹش حکومت کی توسیع کے ساتھ ہمارے لیے اشاعت اسلام کا میدان بھی وسیع ہوجائے گا اور غیر مسلم کو مسلم بنانے کے ساتھ ہم مسلمان کو پھر مسلما ن کریں گے۔ ‘‘ (لارڈ بارڈنگ کی سیاست عراق پر اظہار خیال۔ مندرجہ الفضل ۱۱ /فروری ۱۹۱۰ء )
’’فی الواقع گورنمنٹ برطانیہ ایک ڈھال ہے جس کے نیچے احمدی جماعت آگے ہی آگے بڑھتی جاتی ہے ۔ اس ڈھال کو ذرا ایک طرف کردو اور دیکھو کہ زہریلے تیروں کی کیسی خطرناک بارش تمہارے سروں پر ہوتی ہے۔ پس کیوں ہم اس گورنمنٹ کے شکرگزار نہ ہوں ہمارے فوائد اس گورنمنٹ سے متحد ہو گئے ہیں اور اس گورنمنٹ کی تباہی ہماری تباہی ہے اور اس گورنمنٹ کی ترقی ہماری ترقی ۔ جہاں جہاں اس گورنمنٹ کی حکومت پھیلتی جاتی ہے ، ہمارے لیے تبلیغ کا ایک میدان نکلتا آتاہے۔ ‘‘ (الفضل ،۱۹/اکتوبر۱۹۱۵ء)
’’سلسلہ احمدیہ کو گورنمنٹ برطانیہ سے جو تعلق ہے وہ باقی تمام جماعتوں سے نرالا ہے۔ ہمارے حالات ہی اس قسم کے ہیں کہ گورنمنٹ اور ہمارے فوائد ایک ہوگئے ہیں۔ گورنمنٹ برطانیہ کی ترقی کے ساتھ ہمیں بھی آگے قدم بڑھانے کا موقع ملتاہے اور اس کو خدانخواستہ اگر کوئی نقصان پہنچے تو اس صدمے سے ہم بھی محفوظ نہیں رہ سکتے ۔ ‘‘
(خلیفہ قادیان کا اعلان مندرجہ اخبار الفضل ،۲۷/جولائی ۱۹۱۸ء )