ہم میں سے ایک گروہ کا ردِّعمل یہ تھا کہ یہ طاقت اور ترقی یافتہ قوم جو ہم پرحکم ران بن کر آئی ہے، اس سے وہ سب کچھ لے لو جو یہ دے رہی ہے اور اس کے وہ سارے اثرات قبول کرتے چلے جائو جو یہ ڈال رہی ہے۔ جو تعلیم یہ دیتی ہے اسے حاصل کرو۔ جو معاشی نظام یہ قائم کر رہی ہے اسے اپنا لو۔ جو قوانین یہ نافذ کر رہی ہے انھیں مان لو۔ جو معاشرت یہ لائی ہے اس کے رنگ میں رنگ جائو اور جو سیاسی نظام یہ قائم کر رہی ہے اسے بھی تسلیم کر لو۔
اس ردِّ عمل میں مرعوبیت اورشکست خوردگی کی رُوح تو ابتدا ہی سے تھی تاہم اوّل اوّل اس کا محرک یہ خیال تھا کہ مغلوب ومحکوم ہو جانے کے بعد اب مزاحمت ہمارے لیے ممکن نہیںہے۔ مزاحمت کریں گے تو ہر حیثیت سے نقصان میں رہیں گے۔ لہٰذا ہمارے لیے اس کے سوا اب کوئی چارۂ کار نہیں ہے کہ زندگی اور ترقی کے جو مواقع اس نئے نظام میں حاصل ہو سکتے ہیں ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ لیکن اس دلیل… اور اپنی جگہ اچھی خاصی باوزن دلیل … سے متاثر ہو کر ہمارے جو عناصر اس راہ پر گئے ان کی پہلی ہی نسل میں وہ نقصانات نمایاں ہونے شروع ہو گئے جو ایک مخالف تہذیب کے مقابلے میں قبولیت وانفعال کا رویہ اختیار کرنے سے کسی قوم کو پہنچ سکتے ہیں۔ اور پھر ہر نسل کے بعد دوسری نسل ان نقصانات میں زیادہ سے زیادہ مبتلا ہوتی چلی گئی یہاں تک کہ ایک قدر قلیل کے سوا ہمارا پورا طبقۂ متوسط اس وبا سے مائوف ہو گیا اور اپنے بڑوں کی دیکھا دیکھی عوام تک اس کا زہر پھیلتا چلا گیا۔
مذہب کے متعلق اہلِ مغرب کا جونقطۂ نظر تھا، ہمارے نئے تعلیم یافتہ لوگوں کی بڑی اکثریت نے اسے قریب قریب جوں کا توں قبول کیا اور یہ تک محسوس نہ کیا کہ مغرب نے مذہب کو جو کچھ سمجھا تھا، وہ مسیحیت اور کلیسا کو دیکھ کر سمجھا تھا نہ کہ اسلام کو۔ وہ اس پورے اندازِ فکر کو اخذ کر بیٹھے جو اہل کلیسا کی ضد میں مذہب اور اس سے تعلق رکھنے والے مسائل ومعاملات کے متعلق مغرب میں پیدا ہوا تھا۔ انھوں نے سمجھا کہ اسلام اور اس کی ہر چیز ہر شک کی مستحق ہے اور دلیل وثبوت کی ضرورت اگر ہے تو اس کی کسی بات کے لیے ہے نہ کہ ان نظریات کے لیے جو ’’علم‘‘ کے نام سے کوئی مغربی فلسفی یا سائنس دان یا ماہر علومِ عمران پیش کر دے۔انھوں نے اس خیال کو بھی بلا تنقید مان لیا کہ مذہب فی الواقع ایک پرائیویٹ معاملہ ہے اور اجتماعی زندگی سے اس کو سروکار نہ ہونا چاہیے۔ یہ خیال ان کے ذہن میں کچھ اس طرح اتر گیا کہ آج جو لوگ بے سوچے سمجھے اس چلتے ہوئے فقرے کو بار بار دہراتے ہیں کہ ’’اسلام ایک مکمل نظامِ زندگی ہے‘‘ وہ بھی ہر وقت اپنے ہر طرزِ عمل سے یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ اسلام صرف ایک ’’پرائیویٹ مذہب‘‘ہے جس سے پبلک معاملات میں کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ان میں سے اکثر وبیشتر لوگوں کے لیے اسلام ایک پرائیویٹ مذہب بھی نہیں، کیوں کہ ان کی اپنی شخصی زندگی بجز اقرار اسلام اور ختنہ ونکاح کے اسلام کی پیروی کا کوئی اخلاقی یا عملی نشان اپنے اندر نہیں رکھتی۔ ان میں سے جن لوگوں میں مذہبیت کی طرف میلان باقی رہا یا بعد میں پیدا ہوا، ان کے اندر بھی زیادہ تر اس نے یہ شکل اختیار کی کہ مغرب اور اس کے فلسفوں اور نظریات اور عملیات کو معیارِ حق مان کر اس کے عقائد اور اس کے نظامِ زندگی اور اس کی تاریخ کی مرمت کر دی گئی، اور کوشش کی گئی کہ اسلام کی ہر چیز کو اس معیار پر ڈھال لیا جائے، اور جو نہ ڈھل سکے اس کو ریکارڈ سے محو کر دیا جائے، اور جو محو بھی نہ ہو سکے اس کے لیے دنیا کے سامنے معذرتیں پیش کی جائیں۔
ان کی عظیم اکثریت نے مغرب کے فلسفۂ زندگی اور مغربی تہذیب کی فلسفیانہ بنیادوں کو بھی بجنسہٖ اخذ کیا اور اس پر کسی تنقید کی ضرورت محسوس نہ کی۔ یہ لازمی نتیجہ تھا اس تعلیم کا جو انھیں ابتدائی مدارج سے لے کر آخری مراتب تک مدرسوں اور کالجوں میں دی گئی۔ تاریخ، فلسفہ، معاشیات، سیاسیات، قانون، اور دوسرے علوم کو جس طرز پر انھوں نے پڑھا اس سے وہی ذہنیت بن سکتی تھی جو خود ان کے مغربی استادوں کی تھی، اور دنیا اور اس کی زندگی کے متعلق ان کا نقطۂ نظر وہی کچھ ہو سکتا تھا جواہل مغرب کا تھا۔ خدا اورآخرت کا علانیہ انکار تو کم ہی لوگوں نے کیا مگر ہمارے ہاں اس تعلیم سے متاثر ہونے والوں میں ایسے لوگ بھی آخرکتنے پائے جاتے ہیں جو مادہ پرستانہ ذہنیت اور فکر آخرت سے بے نیاز نظریۂ حیات نہیں رکھتے؟ جو اَن دیکھی غیر محسوس حقیقتوں کی بھی کچھ حقیقت نہیں سمجھتے ہیں؟ جن کی نگاہ میں مادی قدروں سے بلند تر روحانی قدروں کی بھی کچھ وقعت ہے؟ جو دنیا کو اغراضِ نفسانی کی ایک بے دردانہ کش مکش کا میدانِ جنگ نہیں سمجھ رہے ہیں؟
اخلاق کے معاملے میں اس انفعالی ردِّ عمل کا نتیجہ اس سے بھی بدتر ہوا۔ اپنے دورِ انحطاط میں ہمارے اخلاق کی جڑیں بوسیدہ تو پہلے ہی ہو چکی تھیں۔ ہمارے امرا اور اہل دولت پہلے سے عیش کوش تھے۔ ہمارے متوسط طبقے کرائے کے سپاہی اور بھاڑے کے ٹٹو پہلے ہی سے بنے ہوئے تھے۔ ہمارے اندر کوئی مستقل اور مخلصانہ وفاداری پہلے ہی موجود نہ تھی۔ پھر جب اس کے ساتھ مغرب کے فلسفۂ اخلاق کا جوڑ لگا تو یہاں وہ سیرتیں پیدا ہونی شروع ہو گئیں جو مغربی سیرت کے تمام برے پہلوئوں کی جامع اوراس کے اکثر روشن پہلوئوں سے خالی ہیں۔ افادیت اورلذت پرستی اور بے اصولی میں تو ہمارے ہاں کی مغرب زندہ سیرت اسی سطح پر ہے جس پر خود اہل مغرب کی سیرت پہنچی ہوتی ہے۔ مگر وہاں کوئی مقصد زندگی ہے جس کے لیے سخت کوشی وجانفشانی کی جاتی ہے اور یہاں کسی مقصدزندگی کا پتہ نہیں۔ وہاں کوئی نہ کوئی ایسی وفاداری موجود ہے جس میں اخلاص پایا جاتا ہے، جسے بیچا اور خریدا نہیں جا سکتا، مگر یہاں سب کچھ قابل فروخت ہے اور ہر شے کا تبادلہ روپے یا ذاتی مفاد سے کیا جا سکتا ہے۔ وہاں کچھ بداخلاقیاں صرف غیر قوموں کے مقابلے میں برتنے کے لیے مخصوص ہیں جن کا ارتکاب اپنی قوم کے خلاف کرنا گناہِ عظیم سمجھا جاتا ہے، مگر یہاں جھوٹ، مکر، دھوکے، بدعہدی، خود غرضی، سازش اور تحریص وتخویف کے ہاتھ خود اپنی قوم کے خلاف استعمال کر ڈالنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ امریکہ یا انگلستان میں کوئی یہ اخلاق برتے تو اس کا جینا مشکل ہو جائے مگر یہاں بڑی بڑی جماعتیں ان اخلاقیات کے بل پر اٹھتی اور فروغ پاتی ہیں، اور جو لوگ ان اوصاف میں اپنی مہارت ثابت کر دیتے ہیں، ان کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ قیادتِ ملّی کے لیے یہی موزوں ترین اشخاص ہیں۔
معاشرت اور معیشت اور قانون کے بارے میں مغربی تسلط کے جن اثرات کا ابھی ابھی میں آپ سے ذکر کر چکا ہوں، ان سب کو قبول کرنے والے اورانھیں لے کر اپنی قوم میں پھیلانے والے بھی وہی لوگ تھے اور ہیں جنھوں نے اس انفعالی ردِّ عمل کی راہ اختیار کی۔ تاہم ان میں سے کوئی چیز بھی اس قدر حیرت انگیز نہیں ہے جس قدر انگریزوں کے قائم کیے ہوئے سیاسی نظام کے معاملے میں ان کا ردِّ عمل حیرت انگیز ہے۔ اس گروہ کو سب سے زیادہ ناز اپنی سیاسی سوجھ بوجھ پر ہے، مگر انھوں نے سب سے بڑھ کر اپنی نااہلی کا ثبوت اسی معاملے میں دیا ہے۔ جس سیکولرزم، نیشنلزم، اور ڈیموکریسی پر ہندوستان کے سیاسی نظام کی بنا رکھی گئی تھی اور جس پر انیسویں صدی کے نصف آخر سے مسلسل اس کا ارتقا ہو رہا تھا، اس کو اگر ہندوئوں نے تسلیم کیا تو یہ ایک امر طبیعی تھا، کیوں کہ اس کا ہر جُز ان کے لیے مفید تھا لیکن مسلمان، جن کے لیے اس کا ہر جز تباہ کن تھا، اس کا اس سیاسی نظام کے بنیادی اصولوں کو چیلنج نہ کرنا اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ ان کے نئے تعلیم یافتہ لوگوں نے سیاست پڑھی چاہے کتنی ہی ہو، اسے سمجھا کبھی نہیں۔ وہ مغرب سے اتنے مرعوب تھے کہ جو کچھ وہاں سے آتا، اسے وحی آسمانی سمجھ کر قبول کر لیتے تھے اور کسی چیز کو تنقید کی کسوٹی پر کَس کر دیکھنے کی انھیں ہمت نہ ہوتی تھی۔ اسی شکست خوردہ ذہنیت کے ساتھ انھوں نے سیاست پڑھی اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس کے تمام نظریات کو بھی آنکھیں بند کرکے مانتے چلے گئے۔ ان کے اندر نہ اتنی عقل تھی کہ اس سیاسی نظام کی بنیادوں کو جانچ کر دیکھتے اور نہ اتنی جرأت تھی کہ علمی حیثیت سے ان بنیادوں کو چیلنج کر سکتے اوراپنے آقائوں سے یہ کہہ سکتے کہ تمہارے یہ اصول اس ملک میں نہیں چل سکیں گے۔ انھوں نے آدھی جنگ تو اسی روز ہار دی تھی جب سیکولرزم، نیشنلزم اور ڈیموکریسی کے ان اصولوں کو اصولِ برحق مان لیا۔ اس کے بعد نہ ان کی یہ پالیسی چل سکی کہ سیاسی ارتقا کی رفتار اور اہل ملک کی طرف اختیارات کے انتقال کو روکا جائے، اور نہ یہی پالیسی کام یاب ہوئی کہ سراسر غلط سیاسی نظام میں مسلمانوں کو ایسے تحفظات حاصل ہو جائیں جو اس کے تباہ کن اثرات سے انھیں بچا سکیں۔ آخر کار جب وہ سیاسی نظام پختہ ہو کر اپنے تکمیلی مرحلے میں پہنچ گیا تو ہمیں چاروناچار اس پر راضی ہونا پڑا کہ ہم میں سے آدھے قبر میں جائیں اور آدھے بچ نکلیں! اس پر بھی ہمارے سیاسی راہ نمائوں کی سمجھ میں اب تک یہ نہیں آیا ہے کہ جس سیاسی نظام نے ہم کو قبرتک پہنچا دیا اس کی بنیادوں میں کیا نقائص ہیں۔ چنانچہ وہ آج بھی اس نظام کو ان ہی بنیادوں کے ساتھ جُوں کا تُوں باقی رکھے ہوئے ہیں اور اس کو بدلنے کی ضرورت کا کوئی احساس ان کے اندر نہیں پایا جاتا۔ اب ایک کُند ذہن آدمی کے سوا کون یہ باور کر سکتا ہے کہ سیاست کے مطالعے اور تجربے نے کوئی سیاسی بصیرت اُن لوگوں میں پیدا کی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ یہ انفعالی ردِّ عمل سراسر نقصان ہی نہ تھا اس میں فائدے کے پہلو بھی کچھ تھے۔ اس سے ہمارا پچھلا جمود ٹوٹا۔ ہم موجودہ زمانے کی ترقیات سے آشنا ہوئے۔ ہمارے نقطۂ نظر میں وسعت پیدا ہوئی۔ ہم اس شدید نقصان سے بچ گئے جو صرف غیر مسلموں کے جدید تعلیم پانے اور حکومت کے نظم ونسق میں دخیل ہو جانے سے پہنچ سکتے تھے۔ ہمارے بہت سے آدمیوں کو حکومت کے مختلف شعبوں کا تجربہ حاصل ہوا۔ ان فائدوں میں سے کسی کا بھی میں منکر نہیں ہوں مگر اس کے ساتھ یہ بھی تو واقعہ ہے کہ اس کی بدولت ہمارا تصورِ دین بدلا، تصورِ اخلاق بدلا، فلسفۂ زندگی بدلا، ہماری قدریں متغیر ہوئیں، ہماری انفرادی سیرت اور اجتماعی تہذیب کی بنیادیں متزلزل ہو گئیں۔ ہم اسلاف کی اندھی تقلید سے نکل کر اغیار… اور گمراہ وبدکردار اغیار… کی اندھی تقلید میں مبتلا ہو کر رہ گئے جس نے ہمیں دینی حیثیت سے بھی تباہ کیا اور دنیوی حیثیت سے بھی۔