ایک طرف اِسلام نے یہ کمال درجہ کی جمہوریت قائم کی ہے۔ دُوسری طرف ایسی انفرادیت (Individualism)کا سدِّباب کر دیا ہے جو اجتماعیت (Socialiam) نفی کرتی ہو۔ یہاں افراد وجماعت کا تعلق اس طرح قائم کیا گیا ہے کہ نہ فرد کی شخصیت جماعت میں گم ہو جائے ’’جس طرح کمیونزم اور فاشزم کے نظام اجتماعی میں ہو جاتی ہے‘‘ اور نہ فرد اپنی حد سے اتنا بڑھ جائے کہ جماعت کے لیے نقصان دہ ہو جیسا کہ مغربی جمہوریتوں کا حال ہے ۔اِسلام میں فرد کا مقصدِ حیات وہی ہے جو جماعت کا مقصدِ حیات ہے۔ یعنی قانون الٰہی کا نفاز اور رضائے الٰہی کا حصول۔ مزید برآں اِسلام میں فرد کے حقوق پوری طرح تسلیم کرنے کے بعد اس پر جماعت کے لیے مخصوص فرائض بھی عائد کر دیے گئے ہیں۔ اس طرح انفرادیت اور اجتماعیت میں ایسی موافقت پیدا ہو گئی ہے کہ فرد کو اپنی قوتوں کے نشوونما کا پورا موقع بھی ملتا ہے اور پھر وُہ اپنی ان ترقی یافتہ قوتوں کے ساتھ اجتماعی فلاح وبہبود میں مددگار بھی بن جاتا ہے یہ ایک مستقل بحث ہے جس پر تفصیل کے ساتھ گفتگو کا یہاں موقع نہیں۔ اس کی طرف اشارہ کرنے سے میرامقصد صرف ان غلط فہمیوں کا سدباب کرنا تھا جو اِسلامی جمہوریت کی مذکورہ بالا تشریح سے پیدا ہو سکتی تھیں۔