جو کوئی فی الواقع سنجیدگی و اخلاص کے ساتھ سود کا انسداد کرنا چاہتا ہو اُسے یہ سب کچھ اسی طرح کرنا ہوگا۔ سود کی یہ قانونی بندش، جبکہ اس کے ساتھ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کا اجتماعی انتظام بھی ہو، مالیات کے نقطۂ نظر سے تین بڑے نتائج پر منتج ہوگی:
(۱) اس کا اولین اور سب سے اہم نتیجہ یہ ہوگا کہ اجتماعی سرمایہ کی موجودہ فساد انگیز صورت ایک صحیح اور صحت بخش صورت سے بدل جائے گی۔
موجودہ صورت میں تو سرمایہ اس طرح جمع ہوتا ہے کہ ہمارا اجتماعی نظام بخل اور جمعِ مال کے اس میلان کو ، جو ہر انسان کے اندر طبعاً تھوڑا بہت موجود ہے، اپنی مصنوعی تدبیروں سے انتہائی مبالغے کی حد تک بڑھا دیتا ہے۔ وہ اسے خوف اور لالچ ، دونوں ذرائع سے اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ اپنی آمدنی کا کم سے کم حصہ خرچ اور زیادہ سے زیادہ حصہ جمع کرے۔ وہ اسے خوف دلاتا ہے کہ جمع کر کیونکہ پورے معاشرے میں کوئی نہیں ہے جو تیرے برے وقت پر کام آئے۔ وہ اسے لالچ دیتا ہے کہ جمع کر کیوں کہ اس کا اجر تجھے سود کی شکل میں ملے گا۔ اس دوہری تحریک کی وجہ سے معاشرے کے وہ تمام افراد جو قدرِکفاف سے کچھ بھی زائد آمدنی رکھتے ہیں، خرچ روکنے اور جمع کرنے پر تل جاتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منڈیوں میں اموالِ تجارت کی کھپت امکانی حد سے بہت کم ہوتی ہے۔ اور آمدنیاں جتنی کم ہوتی جاتی ہیں، صنعت و تجارت کی ترقی کے امکانات بھی اس کے مطابق کم اور اجتماعِ سرمایہ کے مواقع کم تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح چند افراد کے اندوختوں کا بڑھنا اجتماعی معیشت کے گھٹنے کا موجب ہوتا ہے۔ ایک آدمی ایسے طریقے سے اپنی پس انداز کی ہوئی رقموں میں اضافہ کرتا ہے جس سے ہزار آدمی سرے سے کچھ کمانے ہی کے قابل نہیں رہتے کجا کہ کچھ پس انداز کرسکیں۔
اس کے برعکس جب سود بند کر دیا جائے گا اور زکوٰۃ کی تنظیم کر کے ریاست کی طرف سے معاشرے کے ہر فرد کو اس امر کا اطمینان بھی دلایا جائے گا کہ برے وقت پر اس کی دست گیری کا انتظام موجود ہے تو بخل و زراندوزی کے غیر فطری اسباب و محرکات ختم ہو جائیں گے۔ لوگ دل کھول کر خود بھی خرچ کریں گے اور نادار افراد کو بھی زکوٰۃ کے ذریعے سے اتنی قوتِ خریداری بہم پہنچا دیں گے کہ وہ خرچ کریں۔ اس سے صنعت و تجارت بڑھے گی۔ صنعت و تجارت کے بڑھنے سے روزگار بڑھے گا۔ روزگار بڑھنے سے آمدنیاں بڑھیں گی۔ ایسے ماحول میں اول تو صنعت و تجارت کا اپنا منافع ہی اتنا بڑھ جائے گا کہ اس کو خارجی سرمایہ کی اتنی احتیاج باقی نہ رہے گی جتنی اب ہوتی ہے۔ پھر جس حد تک بھی اسے سرمایہ کی حاجت ہوگی وہ موجودہ حالت کی بہ نسبت بہت زیادہ سہولت کے ساتھ بہم پہنچ سکے گا۔ کیوں کہ اس وقت پس انداز کر نے کا سلسلہ بالکل بند نہیں ہو جائے گا، جیسا کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں، بلکہ کچھ لوگ تو اپنی پیدائشی افتادِ طبع کی بنا پر ہی اندوختہ کرتے رہیں گے، اور بیشتر لوگ آمدنیوں کی کثرت اور معاشرے کی عام آسودگی کے باعث مجبوراً پس انداز کریں گے۔ اس وقت یہ پس اندازی کسی بخل یا خوف یا لالچ کی بنا پر نہ ہوگی، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہوگی کہ جو لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ کمائیں گے، اسلام کی جائز کی ہوئی مداتِ خرچ میں خوب دل کھول کر خرچ کرنے کے باوجود ان کے پاس بہت کچھ بچ رہے گا، اس بچی ہوئی دولت کو لینے والا کوئی محتاج آدمی بھی ان کو نہ ملے گا، اس لیے وہ اسے ڈال رکھیں گے اور بڑی اچھی شرائط پر اپنی حکومت کو، اپنے ملک کی صنعت و تجارت کو، اور ہمسایہ ملکوں تک کو سرمایہ دینے کے لیے آمادہ ہو جائیں گے۔
(۲) دوسرا نتیجہ یہ ہوگا کہ جمع شدہ سرمایہ رکنے کے بجائے چلنے کی طرف مائل رہے گا اور اجتماعی معیشت کی کھیتیوں کو ان کی حاجت کے مطابق اور ضرورت کے موقع پر برابر ملتا چلا جائے گا۔ موجودہ نظام میں سرمایہ کو کاروبار کی طرف جانے کے لیے جو چیز آمادہ کرتی ہے وہ سود کا لالچ ہے۔ مگر یہی چیز اس کے رکنے کا سبب بھی بنتی ہے۔ کیوں کہ سرمایہ اکثر اس انتظار میں ٹھیرا رہتا ہے کہ زیادہ شرحِ سود ملے تو وہ کام میں لگے۔ نیز یہی چیز سرمایہ کے مزاج کو کاروبار کے مزاج سے منحرف بھی کر دیتی ہے۔ جب کاروبار چاہتا ہے کہ سرمایہ آئے تو سرمایہ اکڑ جاتا ہے اور اپنی شرائط سخت کرتا چلا جاتا ہے اور جب معاملہ برعکس ہوتا ہے تو سرمایہ کاروبار کے پیچھے دوڑتا ہے اور ہلکی شرائط پر ہر اچھے برے کام میں لگنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ لیکن جب سود کا دروازہ ازروئے قانون بند ہو جائے گا اور تمام جمع شدہ رقمو ںپر الٹی زکوٰۃ ½۲ فی صدی سالانہ کے حساب سے لگنی شروع ہو گی، تو سرمایہ کی یہ بدمزاجی ختم ہو جائے گی۔ وہ خود اس بات کا خواہش مند ہوگا کہ معقول شرائط پر جلدی سے جلدی کسی کاروبار میں لگ جائے اور ٹھیرنے کے بجائے ہمیشہ کاروبار ہی میں لگا رہے۔
(۳) تیسرا نتیجہ یہ ہوگا کہ کاروباری مالیات اور مالیاتِ قرض کی مدیں بالکل الگ ہو جائیں گی۔موجودہ نظام میں تو سرمایہ کی بہم رسانی زیادہ تر، بلکہ قریب قریب تمام تر، ہوتی ہی صرف قرض کی صورت میں ہے۔ خواہ روپیہ لینے والا شخص یا ادارہ کسی نفع آور کام کے لیے یا غیر نفع آور کام کے لیے، اور خواہ کسی عارضی ضرورت کے لیے لے یا کسی طویل المدت منصوبے کے لیے، ہر صورت میں سرمایہ صرف ایک ہی شرط پر ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک مقررہ شرح سود پر اسے بطورِ قرض حاصل کیا جائے۔ لیکن جب سود ممنوع ہو جائے گا تو قرض کی مد صرف غیر نفع آور اغراض کے لیے، یا جہاں تک کاروبار کا تعلق ہے، عارضی ضروریات کے لیے مخصوص ہو جائے گی، اور اس کا انتظام قرضِ حسن کے اصول پر کرنا ہوگا۔ رہیں دوسری اغراض، خواہ وہ صنعت و تجارت وغیرہ سے متعلق ہوں یا حکومتوں اور پبلک اداروں کی نفع بخش تجویزوں سے متعلق، ان سب کے لیے سرمایہ کی فراہمی قرض کے بجائے حصے داری (profit sharing)کے اصول پر ہوگی۔
اب ہم اختصار کے ساتھ بتائیں گے کہ غیر سودی نظامِ مالیات میں یہ دونوں شعبے کس طرح کام کرسکتے ہیں۔